موتی رموز قدرت سے وابستہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔ یہ انسان کی قدیم تہذیبی روایت کا اشارہ بھی ہے۔ موتی جیسی خوبصورت، دلکش اور افادیت والی شے ایک نہایت کھردری، بھدی اور معمولی سی مخلوق گھونگا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس گھونگا کو آئسٹر (Oyster) کہتے ہیں جو حیوانات کے ایک زمرے مولسک (Mollusc) کا رکن ہے۔ مولسک تقریباً 530 ملین سال قبل وجود میں آئے تھے۔ موتی کی دوسری خوبی جو اسے دیگر رتنوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ موتی اپنی اصل حالت ہی میں نہایت دلکش ہوتا ہے جب کہ دوسرے رتنوں کی خوب صورتی تراش وخراش اور پالش کے بعد ابھرتی ہے۔ جہاں ایک طرف مذہبی کتابوں اور لوک گیتوں میں موتی کا ذکر ہوا ہے وہیں دوسری طرف جدید سائنس میں موتی ایک اہم موضوع بنا ہے۔
موتی دوا سازی میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا سفوف اور پانی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یونانی طریقہ علاج میں بطور خاص موتی کی اہمیت ہے جہاں یہ ٹانک کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس سے جسمانی اور دماغی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت پر مثبت اثرا ت پڑتے ہیں۔ ایسی دواؤں میں دواالملک اور جوارشِ لولو بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح آیورویدک دواؤں میں بھی موتی کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات میں موتی بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ ایسی مثالیں بہت ہیں۔ یہاں ان کا ذکر مقصود نہیں، ہاں غالبؔ کے ایک شعر جو دراصل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے چھوٹے بیٹے مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر لکھے گئے سہرے میں موجود ہے، اس میں موتی کا بیان یوں ہے۔
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
استاد ذوقؔ نے بھی اسی موقع پر سہرے کی اسی زمین پر لفظ موتی کا استعمال کرتے ہوئے یہ شعر کہا
آج وہ دن ہے کہ لائے دُرِانجم سے فلک
کشتیِ زر میں مہِ نو کی لگا کر سہرا
ایک عام انسان بھی جب کسی کے حسن کی تعریف کرتا ہے تو اس کے دانتوں کو موتی سے تعبیر کرتا ہے جو دانتوں کی صفائی اور دودھیا رنگت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ تزئین و آرائش کے لیے بھی موتی کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ ہاتھ کی انگوٹھی اور زیورات سے لے کر بادشاہ اپنی تلواروں اور تخت میں موتی جڑواتے تھے۔ شاہ جہاں کے تخت طاؤس میں بیش قیمت موتی جڑے ہوئے تھے۔ گھونگا جسے کستوری مچھلی بھی کہا جاتا ہے دو طرح کا ہوتا ہے۔ سادہ آئسٹر اور پرل آئسٹر۔ سادہ آئسٹر کا استعمال کئی ملکوں میں غذا کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ پرل آئسٹر کی سیپیوں کے اندر موتی بنتا ہے۔ اس کا جسم نرم ہوتا ہے اور وہ سخت خول جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں، کے اندر بند رہتا ہے۔
پرل آئسٹر عام طور پر گہرے پانی میں نہیں ملتا بلکہ اتھلے پانی میں سمندری سطح پر کسی چٹان یا ٹھوس سطح پر اپنا مستقر بنا لیتا ہے اور لمبے عرصہ تک ایک ہی جگہ قیام کرتا ہے۔ اس کی کئی ذیلی اقسام میں مگر موتی حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر اس کی دو قسمیں Pinctada fucata اور P. maxima کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پرل آئسٹر کی اہمیت موتی کی وجہ سے ہے۔ قدیم لوک گیتوں میں یہ تصور تھا کہ موتی دراصل سمندری پریوں کے آنسو ہیں۔ یہ عام خیال بھی تھا کہ آئسٹر کے کھلے ہوئے منہ میں شبنم کی بوندیں گرنے سے موتی بنتا ہے۔ سلطنت روم کے معروف ماہرِ نباتات اور فلسفی پلینی دوم (23/24–79 عیسوی) نے اپنی کتاب نیچرل ہسٹری (Historia Naturalis) میں اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ موسم بہار میں سیپ اپنے خول میں شبنم جذب کرتا ہے اور یہی شبنم بعد میں موتی میں تبدیل ہو جاتی ہے مگر سائنس قیاس آرائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ مشاہدوں اور تجربوں کا علم ہے۔
لہٰذا سائنس نے ان خیالات کو عملی طور پر پرکھا اور پھر یہ نتیجہ برآمد کیا ہے کہ: موتی دراصل اس وقت بنتا ہے جب ریت کے ذرات، معمولی کیڑے مثلاً سسٹوڈ (Systode) یا ٹری مے ٹوڈ (Trematode) کے لاروے، سمندری پودے کے ذرات، بانس یا لکڑی کے ذرات وغیرہ باہر سے خول کے اندر پہنچتے ہیں تو یہ رفتہ رفتہ موتی میں بدل جاتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ جب باہر سے کوئی شے پرل آئسٹرکے اندر پہنچتی ہے تو پرل آئسٹر بے چین ہو اٹھتا ہے اور اپنی حفاظت کی خاطر کیلشیم کاربونیٹ اور دیگر کاربن مادوں کا اخراج کرنے لگتا ہے اور انہیں اس شے پر ایک پرل کی مانند چڑھانے لگتا ہے تاکہ وہ اسی میں قید ہو کر رہ جائے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ کیلشیم کاربونیٹ یا کاربن مادوں کو نیکر (Nacre) کہتے ہیں۔ اسی نیکر سے خول کا اندرونی حصہ بنتا ہے جو نہایت چمک دار ہوتا ہے بالکل موتی کی طرح۔ اسی نیکر کو ’’مدر آف پرل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ باہری شے پر اسی مدر آف پرل کی پرت چڑھتی جاتی ہے اور پھر آخر کار یہ شے موتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔