قومی احتساب بیورو (نیب) کے ضابطہ کار پر اپوزیشن کو شدید تحفظات ہیں جنہیں بظاہر دور کرنے کے لئے حکومت نے یک طرفہ طور پر نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے اعتراضات اور تنقید کے نئے دروازے کھول دیے ہیں اور دونوں طرف سے اس کے اپنے اپنے مطلب کے معانی اخذ کئے جا رہے ہیں۔ ترمیمی آرڈیننس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ایک پریس کانفرنس میں اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اس اقدام کا مقصد احتساب عمل ختم کرنا، کسی کو این آر او دینا یا حکومتی پارٹی کے حامیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جہاں کرپشن ہو گی وہاں نیب ہو گا مگر اسے کرپشن ثابت کرنا ہو گی، کرپشن یا کمیشن کے ثبوت نہ ہوں تو کسی پبلک آفس ہولڈر، یعنی بیورو کریٹس، ارکانِ اسمبلی یا وزرا کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پر کیس نہیں بن سکے گا۔
سزا یافتہ لوگوں کے سوا تمام ملزم ترمیمی قانون سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور یہ فیصلہ عدالتیں کریں گی کہ کسے فائدہ اور کسے نقصان ہونا ہے جن کیسز میں ریفرنس بن چکے ہیں، ان میں بھی کرپشن یا کمیشن کے ثبوت نہیں تو ملزموں کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا۔ یہ ریلیف نیک نیتی سے کیے جانے والے فیصلوں پر سیاستدانوں کو بھی ملے گا۔ اس مقصد کیلئے نیب میں چلنے والے اکثر مقدمات دیگر عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گے کیونکہ کرپشن سے ہٹ کر تمام معاملات نمٹانے کیلئے الگ الگ محکمے قائم ہیں۔ انہیں یہ کام خود کرنا چاہئے۔ معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ کاروباری برادری اور بیورو کریٹس کے اعتماد کی بحالی کیلئے نیب ترامیم ضروری تھیں۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نیب کے اختیارات کم نہیں کئے گئے بلکہ اس کے کام کو آسان کر دیا گیا ہے۔
اس کے برخلاف مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو اعتراض ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس پی ٹی آئی کے لوگوں کو نیب سے بچانے کیلئے جاری کیا گیا ہے۔ یہ مدر آف این آر او ہے جو حکمرانوں کے ساتھیوں کو دیا جا رہا ہے۔ ایوانِ صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے، قانونی ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ نیب قانون میں ترمیم آرڈیننس کے ذریعے نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں بحث مباحثے کے بعد کی جانی چاہئے تھی، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ترمیمی قانون سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا جبکہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے خلاف انکوائریاں ختم ہو جائیں گی سروس آف پاکستان کی کیٹگری میں آنے والے پٹواری سے وفاقی سیکرٹری، صدر اور گورنر تک کسی سرکاری ملازم کے خلاف نیب براہ راست کارروائی نہیں کر سکے گا۔
نئے قانون کے نفاذ کے بعد بھی اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کو بدستور نیب کیسز کا سامنا رہے گا، ان پر منی لانڈرنگ، جعلی اکائونٹس اور اثاثوں کے کیسز برقرار رہیں گے، اپوزیشن کے خدشات اور قانونی ماہرین کی آرا اپنی جگہ مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت نے حساس معاملے پر اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی، نہ ہی پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیا۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی نے گو واضح کیا ہے کہ آرڈیننس کی مدت 8 ماہ ہے جس کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا ہے اور بحث و تمحیص کے بعد اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے مگر زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ نیب قوانین میں رد و بدل کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جاتی اور اتفاق رائے سے ترامیم تجویز کی جاتیں۔ کوشش کی جانی چاہئے کہ فریقین نفاق اور انتشار کا تاثر دور کرنے کے لئے اب بھی مل بیٹھیں اور مفاہمت کے جذبے سے ترمیمی آرڈیننس میں مزید بہتری لائیں۔