Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

بحیرہ ارال وسط ایشیا کی عظیم جھیل

$
0
0

بحیرہ ارال وسط ایشیا کی ایک بہت بڑی جھیل تھی جو اب بہت سکڑ چکی ہے۔ یہ قازقستان اور ازبکستان کے درمیان واقع ہے۔ اس جھیل کے چاروں طرف زمین ہے لیکن اپنے وسیع حجم کے باعث اسے بحیرہ یا سمندر کہا جانے لگا۔ تاریخ میں اس جھیل کو بحیرہ خوارزم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس جھیل کا نام کرغز زبان کے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ’’جزائر کا سمندر‘‘ ہے۔ لیکن اب اس جھیل کو قائم رہنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ 1960ء کی دہائی سے اس جھیل کے پانی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک بڑی وجہ اس میں گرنے والے اہم دریاؤں سیر دریا اور آمو دریا کے پانی کی آمد میں کمی ہے۔ یہ کمی ان دریاؤں سے نہریں نکال کر اس کے پانی کو وسیع پیمانے پر زراعت کے لیے استعمال کرنے سے ہوئی ہے۔ اس سے جھیل کے لیے پانی مطلوبہ مقدار میں نہیں آتا تھا اور یہ روز بروز سکڑتی چلی گئی۔ بحیرہ ارال جو کسی زمانے میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھا جو 60ء کے بعد نصف صدی میں کم ہو کر صرف 40 فیصد رہ گیا ۔ یہ خطے کے ماحول کے لیے اچھی علامت نہیں اس لیے عالمی سطح پر ایسی کوششیں کی جانے لگیں جن کا مقصد اس عمل کو روکنا تھا۔

اسے عالمی ورثہ قرار دے کر اس میں پانی کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوششیں جاری ہیں اور جھیل کی سطح قدرے بلند ہوئی ہے لیکن جھیل کے حجم میں قابل قدر اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جھیل آلودہ بھی ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سوویت یونین کے دور میں اپنائی گئی وہ پالیسیاں ہیں جن میں ماحولیات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ دراصل اس دور میں صنعت کاری میں ماحول پر اثرات کے عنصر کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ اس خطے میں ہتھیاروں کے تجربات، صنعتی منصوبہ جات اور کھاد سازی کی صنعت نے ماحول پر منفی اثرات مرتب کیے۔ 

ولادیمیر لینن اور بالشویکوں کی حکومت کے دوران 1918ء میں فیصلہ کیا گیا کہ آمو دریا اور سیر دریا، جو بحیرہ ارال کی زندگی کا سبب ہیں، کو صحراؤں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ چاول، تربوز، اناج اور خصوصاً کپاس کی کاشت کو بڑھایا جا سکے۔ بعد ازاں 1930ء کی دہائی میں وسیع پیمانے پر نہروں کی تعمیر کا آغاز کیا گیا لیکن بیشتر نہروں کی تعمیر ناقص طریقے سے کی گئی جس سے بڑے پیمانے پر پانی کا ضیاع ہوا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قراقم نہر، جو وسط ایشیا کی سب سے بڑی نہر ہے، کا 70 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ 1960ء تک 20 سے 50 مکعب کلومیٹر پانی بحیرہ ارال میں گرنے کی بجائے زمینوں کو سیراب کرنے لگا۔

جس کی وجہ سے یہ عظیم جھیل تیزی سے سکڑنا شروع ہو گئی۔ اس تیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1961ء سے 1970ء تک کے عرصے میں جھیل کی سطح آب میں 20 سینٹی میٹر سالانہ کے حساب سے کمی ہونے لگی، 1970ء کی دہائی میں اس میں سالانہ 50 سینٹی میٹر کمی ہونے لگی۔ 1980ء کی دہائی میں سطح آب کے گرنے میں مزید تیزی واقع ہوئی اور اب 80 سے 90 سینٹی میٹر سالانہ کے حساب سے پانی کی سطح گرنے لگی۔ لیکن اس کے باوجود دونوں مذکورہ بالا دریاؤں کے پانی کے استعمال میں کمی نہ کی گئی بلکہ 1960ء سے 1980ء تک ان دریاؤں کے پانی کے استعمال میں دگنا اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث اس عرصے میں کپاس کی کاشت بھی دگنی ہو گئی۔ 

جھیل کی آبی سطح میں تقریباً 60 فیصد اور حجم کے حساب سے 80 فیصد کمی آئی ہے۔ 1960ء میں جب یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھی تو اس کا رقبہ 68 ہزار مربع کلومیٹر تھا اور حجم 1100 مکعب کلو میٹر تھا لیکن 1998ء تک اس کا حجم گر کر صرف 28 ہزار 687 مربع کلو میٹر رہ گیا۔ اس طرح یہ دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی جھیل تھی۔ اس عرصے کے دوران جھیل میں نمکیات کا بھی اضافہ ہوا۔ مسلسل سکڑتے رہنے کے باعث 1987ء میں جھیل ارال دو حصوں میں تقسیم ہو گئی جن میں شمالی بحیرہ ارال نسبتاً چھوٹی ہے جبکہ جنوبی جھیل ارال حجم میں بڑی ہے۔

دونوں جھیلوں کو ملانے کے لیے ایک مصنوعی نہر بھی کھودی گئی لیکن مسلسل سکڑنے کے باعث 1999ء میں یہ نہر بھی بند ہو گئی۔ 2003ء میں جنوبی بحیرہ ارال مزید دو حصوں مشرقی اور مغربی میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی بحیرہ ارال میں پانی کو بحال کرنے کے لیے سیر دریا کے نہری نظام کی بہتری کے لیے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے۔ 2003ء میں قازق حکومت نے ارال کے دو حصوں کو الگ کرنے کے لیے ایک بند تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ 2005ء میں اس کی تعمیر کے بعد شمالی بحیرہ ارال کی سطح آب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ساجد علی


 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>