ساٹھ برس سے حکمرانی کے مزے لینے والی جماعت کو ایوان اقتدار سے کیسے نکال باہر کیا جاتا ہے؟ ملائشیا میں ہونے والے حالیہ انتخابات اس سوال کا بہترین جواب ہیں۔ اسی ایک سوال اور جواب کو ملائشیا کی پوری تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے تک کی حکمران جماعت یونائیٹڈ مالائز نیشنل آرگنائزیشن (امنو) کو عشروں پہلے اقتدارجس شخص نے دلایا تھا، اس کا نام مہاترمحمد تھا ، اور اس سے اقتدار چھیننے والے شخص کا نام بھی مہاتر محمد ہے۔ اس نے ایک حیران کن کارنامہ سر انجام دیا ہے اور ثابت کر دیا کہ 92 برس کی عمر میں بھی کسی مضبوط پارٹی کا دھڑن تختہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی مہاترمحمد نے دوعشرے قبل اپنے نائب وزیراعظم اور پارٹی سربراہ انورابراہیم کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا تھا، موخرالذکر پرانتہائی سنگین الزامات عائد کر کے اسے بدترین سزائیں دیں، اب اسی مہاترمحمد نے اسی انورابراہیم کی مدد سے وزیراعظم نجیب رزاق کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔
انسانی تاریخ کے سب سے بوڑھے وزیراعظم مہاترمحمد جون 1981ء سے اکتوبر 2003ء تک، 22 برس ’امنو‘ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ 1964ء سے 1999ء تک، اسی جماعت کا پرچم لہراتے ہوئے مسلسل ہر عام انتخابات میں اپنے مخالفین کو شکست دیتے رہے، گزشتہ ہفتے انھوں نے ’امنو‘ کے امیدوار کو بھی شکست دی اور اپنی دیرینہ مخالف جماعت ’پاس‘ کے نمائندے کو بھی۔ نومئی کو ہونے والے عام انتخابات میں مہاترمحمد اور ان کے اتحادیوں نے 124 نشستیں حاصل کیں، یاد رہے کہ ملائشیا میں حکومت سازی کے لئے 222 نشستوں کی پارلیمان میں 112 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتخابی نتائج سامنے آتے ہی بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات سے لتھڑے ہوئے نجیب رزاق نے اعلان کیا کہ وہ عوامی فیصلے کو قبول کریں گے۔
تازہ انتخابات میں نجیب رزاق کا ’نیشنل فرنٹ‘ محض 79 حلقوں میں کامیابی حاصل کر سکا، 2013ء کے عام انتخابات میں اس کی سیٹیں 133 تھیں۔ اب کی بار مہاترمحمد اور انورابراہیم کی قیادت میں ’الائنس فار ہوپ‘ نے مجموعی طور پر 113 نشستیں حاصل کیں، گزشتہ انتخابات میں ان کے 67 نمائندے پارلیمان میں پہنچے تھے۔ کامیابی حاصل کرنے والا اتحاد انورابراہیم کی پیپلز جسٹس پارٹی، مہاتر محمد کی ملائشین یونائیٹڈ انڈیجینئس پارٹی، تان کوک وائی کی ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی اور محمد صابو کی نیشنل ٹرسٹ پارٹی کا مجموعہ ہے، پیپلزپارٹی جسٹس پارٹی نے 48، ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی نے 42 ،’ملائشین یونائیٹڈ انڈیجینئس پارٹی‘ نے 12 جبکہ نیشنل ٹرسٹ پارٹی (امانہ) نے 11 نشستیں حاصل کیں۔
دو جماعتوں نے اس اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا تھا، ان میں سے ایک ’صباح ہیریٹیج پارٹی‘ نے 8 نشستیں حاصل کیں۔ ملائشیا کی اسلامی تحریک ’ملائشین اسلامک پارٹی‘(پاس) نے بھی 18 نشستیں حاصل کیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں اس کی نشستیں 21 تھیں۔ اگر انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کی انفرادی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انورابراہیم کی جماعت سب سے آگے رہی، اس نے 71 نشستوں، مہاتر محمد کی پارٹی نے 52 نشستوں جبکہ نجیب رزاق کے شکست خوردہ اتحاد نے222 نشستوں پر انتخاب لڑاتھا۔ نجیب رزاق کے لئے یہ انتخابات سیاسی زندگی اور موت کی حیثیت رکھتے تھے۔ پانچ برس قبل ہی رائے عامہ کے جائزے اشارے دے رہے تھے کہ انور ابراہیم اور ان کے اتحادی غیرمعمولی طور پر مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، مئی 2013ء میں سامنے آنے والی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ انورابراہیم کے اتحاد ’الائنس فار ہوپ‘ کو 50.87 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ نجیب رزاق کا اتحاد 47 فیصد پر پہنچ چکا ہے۔ اگست 2016ء کے ایک جائزے میں ’الائنس فار ہوپ‘ کی عوامی حمایت 59 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ نجیب رزاق کا گراف 29 فیصد تک گر گیا۔
اس کے بعد سامنے آنے والے دیگر جائزے بھی نجیب رزاق کے لئے خوفناک تھے، بالآخر تقریباً وہی کچھ ہوا جس کے اشارے دئیے جارہے تھے۔ مہاترمحمد اور انورابراہیم کے اتحاد کو 55.86 فیصد نشستیں ملیں جبکہ نجیب رزاق کے اتحاد کا حصہ 35 فیصد رہا۔ یہ ایک ایسے حکمران اتحاد کے خلاف غیرمعمولی نتائج تھے جس نے ملک میں سول مارشل لا قائم کر رکھا تھا۔ عدالتیں اس کے اشارہ ابرو پر ناچتی تھیں اور حکومتی مخالفین پر شرمناک الزامات ’’ثابت‘‘ کرتیں اور بدترین سزائیں دیتی رہیں۔
نتائج سامنے آنے کے اگلے ہی روز مہاترمحمد نے وزیراعظم جبکہ عزیزہ اسماعیل نے نائب وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ عزیزہ اسماعیل مہاتر محمد کے دیرینہ رفیق اور بعدازاں ان کے انتقام کا نشانہ بننے والے انورابراہیم کی اہلیہ ہیں۔ دو عشرے قبل مہاترمحمد نے بعض پارٹی لیڈروں کی کانا پھوسی سے اثر لیتے ہوئے اپنے ممکنہ جانشین انور ابراہیم کو حکومتی اور پارٹی عہدوں سے فارغ کر دیا تھا۔ ’امنو‘ کے بعض لوگ انور ابراہیم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ پارٹی اور ملک میں اصلاحات کی سوچ رکھتے تھے۔ یہ مہاتر محمد ہی تھے جنھوں نے انور ابراہیم کو انتہائی سنگین اور شرمناک الزامات کے تحت جیل بھیجا، انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے لئے انصاف کے سارے دروازے بند کر دئیے۔
بعد ازاں مہاتر محمد نے وزیراعظم ہاؤس خالی کر دیا تو کانا پھوسی کرنے والے پارٹی لیڈر اقتدارپر قابض ہوئے، انھوں نے چند برسوں ہی میں ملائشیا کو اس قدر بُرے بحران کا شکار کر دیا کہ مہاترمحمد سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ نجیب رزاق جیسے لوگ پوری طرح کُھل کھیل رہے تھے کہ مہاترمحمد سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کرپشن اور اقربا پروری کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے، ایسے میں مہاترمحمد اپنے کئے پر پشیمان ہوئے، بالخصوص انھیں وہ لمحات خوب یاد آئے جب کچھ لوگ انورابراہیم کے خلاف ان کے کان بھرتے تھے۔ اب مہاترمحمد کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیں۔
سن 2015ء میں نجیب رزاق کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا، ان پرالزام تھا کہ انھوں نے700 ملین ڈالر کے برابر دولت سرکاری خزانے سے اپنے ذاتی خزانے میں منتقل کی۔ اس پر مخالفت کا ایک شدید طوفان اٹھ کھڑا ہوا، ان سے استعفیٰ کا مطالبہ ملک کے ہرگلی کوچے سے ہونے لگا۔ ان پر سخت تنقید کرنے والوں میں اپوزیشن لیڈر انورابراہیم بھی شامل تھے اور گھر میں بیٹھے مہاترمحمد بھی اس غبن پر تڑپ اٹھے۔ چنانچہ انھوں نے فوری طور پر سیاست میں واپس آنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے بھی باربار نجیب رزاق سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ وہ 30 اگست 2015ء کو اپنی اہلیہ ہاشمہ کے ساتھ لاکھوں افراد کے ایک مظاہرے میں شریک ہوئے۔ آنے والے برسوں میں بھی وہ حکومت مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنتے رہے۔
دوسری طرف وزیراعظم نجیب رزاق نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات شروع کر دئیے، نائب وزیراعظم کو ہٹا دیا، دو اخبارات پر پابندی عائد کر دی، پارلیمان کے ذریعے ’نیشنل سیکورٹی کونسل بل‘ متعارف کرایا جس نے انھیں بے پناہ اختیارات سے نوازا۔ سن 2016ء کے ضمنی انتخابات میں مہاتر محمد نے اپوزیشن جماعت ’امانہ‘ کے امیدواروں کی حمایت کی جبکہ 2017ء میں انھوں نے نئی سیاسی جماعت قائم کی اور اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ اتحاد ’ الائنس فار ہوپ‘ کے چئیرمین مہاترمحمد بنے، انورابراہیم قائد کے منصب پر فائز ہوئے جبکہ ان کی اہلیہ عزیزہ اسماعیل صدر ہیں۔ اسی صف بندی کے ساتھ وہ تازہ انتخابات جیتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتاہے کہ مہاتر محمد کی سیاست میں واپسی اور انتخابی کامیابی انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والے برے سلوک کی تلافی کے لئے ہے۔ یاد رہے کہ انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اقوام متحدہ کے ادارے بھی چیخ اٹھے تھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے ملائشیا کے سابق قائد حزب اختلاف کو سنائی گئی جیل کی سزا کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ’امنو‘ کی حکومت کے دوران میں انورابراہیم کے خلاف مسلسل شرمناک الزامات پر مبنی مقدمات قائم کئے گئے تاہم انورابراہیم مسلسل ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا کہنا تھا کہ انور ابراہیم کو منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا تھا اور انھیں سیاسی وجوہ کی بنا پر پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔ ورکنگ گروپ نے کہا کہ مسٹر ابراہیم کی غیر قانونی حراست کا یہ ازالہ ہو سکتا ہے کہ انھیں فوری طور پر جیل سے رہا کر دیا جائے اور ان کے سلب کردہ سیاسی حقوق کو بحال کیا جائے۔ اس نے مزید کہا کہ انور ابراہیم سے جیل میں کیا جانے والا سلوک بھی تشدد یا دوسرے ظالمانہ طریقوں کی ممانعت سے متعلق بین الاقوامی قواعد وضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ملائشیا کے سابق نائب وزیراعظم کے خاندان نے ورکنگ گروپ سے یہ شکایت کی تھی کہ انھیں گندگی سے اٹی ایک کوٹھڑی میں رکھا جارہا ہے اور ان کی کمر میں دائمی تکلیف سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر اس کے باوجود انھیں فوم کا بالکل پتلا بچھونا دیا گیا۔ یہی انورابراہیم اب اصل حکمران بن چکے ہیں، وزیراعظم مہاترمحمد نے کابینہ کے ارکان کا فیصلہ بھی انور ابراہیم کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد کیا۔ یاد رہے کہ قیدی انور ابراہیم آج کل ہسپتال میں زیرعلاج ہیں، مہاترمحمد ، حکمران اتحاد کے دیگرمرکزی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہسپتال پہنچے ۔
نئے وزیراعظم نے اقتدارسنبھالتے ہی اعلان کر دیا کہ ملائشیا کے شاہ ’محمد پنجم‘ انور ابراہیم کو مکمل معافی دینے پرآمادہ ہیں، جیسے ہی معافی کا عمل مکمل ہوا، وہ فوری طور پر رہا ہو جائیں گے، جس کے بعد مہاتر محمد وزرات عظمیٰ انور ابراہیم کے لئے چھوڑ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے انھیں ضمنی انتخاب لڑنا پڑے گا۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، معافی بورڈ کا اجلاس منعقد ہونے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اجلاس شاہی محل میں ہو گا، اس میں بادشاہ اور وزیراعظم دونوں اجلاس میں شریک ہوں گے۔ قوی امکانات ہیں کہ انورابراہیم بہت جلد رہا ہو جائیں گے، ممکن ہے کہ یہ سطورشائع ہونے سے قبل ہی۔ انور ابراہیم کی بیٹی نورالعزہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد اجلاس کے خاتمے کے بعد اسی روز رہا ہو جائیں گے۔ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ مہاترمحمد اور ان کے اتحادیوں کی کامیابی کے ساتھ ہی ملائشیا میں انور ابراہیم کا دور شروع ہو چکا ہے، وہ ایک وژنری سیاست دان ہیں، کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر مہاترمحمد کی بعض کامیاب پالیسیوں کے پیچھے انورابراہیم تھے۔
تادم تحریر سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی بدعنوانیوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہو چکی ہے، پہلے مرحلے پر انھیں ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ چھٹیوں پر انڈونیشیا جانا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مہاتر محمد نے تصدیق کی کہ ان کے حکم پر ہی سابق وزیراعظم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نجیب رزاق کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں جس کی بنیاد پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ان کے خلاف شکایات کا انبار ہے، جن کی تحقیقات ضروری ہیں۔ ڈاکٹرمہاتر محمد نے 700 ملین ڈالر کے غبن کے حوالے سے رپورٹ منگوالی ہے، اس کا مطالعہ کر کے وہ مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم نے عندیہ دیا ہے کہ ایسے تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جو بدعنوانیوں میں ملوث تھے یاان سے متعلقہ فیصلوں میں شریک تھے۔ دوسری طرف نجیب رزاق انتخابات میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی اور سیاسی اتحاد کی سربراہی سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ آج ملائیشیا میں تاریخی فتح حاصل کی گئی ہے، وہ صرف قانون کی بحالی چاہتے ہیں، اس لئے انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم امکانات ہیں کہ ’امنو‘ پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ انتخاب جیتنے کے بعد مہاترمحمد نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’امنو‘ کی قانونی حیثیت کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ سابقہ حکومت کی تمام پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے۔ مہاتر محمد اور انور ابراہیم اتحاد کے حکومت بنانے کے فوری بعد سٹاک مارکیٹوں میں حیرت انگیز استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے۔