Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

عبدالستار ایدھی : انعامات و اعزازات سے بالاتر زندگی

$
0
0

ایک ایسا ملک جس کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کی وجہ عدم رواداری اور انتہا پسندی بن گئی ہے، وہاں عبدالستار ایدھی انسانیت اور اعلی انسانی اقدار کا ایک مجسم پیکر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کے لیے وقف کی۔ در حقیقت ایدھی مدر ٹیریسا کی طرح ایک بے مثال سماجی کارکن تو تھے ہی، جو بات انہیں مدر ٹیریسا سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا مذہب کی قید سے بلند ہو کر انسانیت کی خدمت کرنا تھی۔ انسانیت اور صرف انسانیت ہی ان کے لیے اہم ترین تھی۔ اسی لیے انہوں نے تمام مسالک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے دن رات کام کیا۔ اس میں وہ افراد بھی شامل تھے جن کا تعلق اقلیتی گروپوں سے تھا۔

اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن نامی تنظیم چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک مثال زبان زد عام رہی ہے کہ حکومت کی سروس سے پہلے ہی ایدھی کی ایمبولنسیں متاثرہ افراد تک پہنچ جاتی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کا ایدھی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جہاں دنیا میں ایک عام پاکستانی کو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے حوالے سے جانا جاتا ہے وہاں ایدھی نے پاکستان کا ایک مثبت تصور اجاگر کیا۔‘‘

وہ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں، ’’ایدھی نے اپنے فلاحی کاموں کا آغاز ایک چھوٹے سے مکان سے کیا اور آج ان کا ادارہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے برعکس ایدھی نے سادگی سے زندگی گزاری اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان پر محبت اور چندوں کی بارش کی۔‘‘
سینیٹر تاج حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ریاست اپنی زمے داریاں پوری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ’’اس صورت میں دو طرح کے رجحانات پیدا ہوئے، ایک نجی شعبہ جو منافع کے لیے کام کرتا ہے، اور دوسرا ایدھی جیسے بے لوث لوگ جنہوں نے سرکاری بے حسی کے خلا کو پُر کیا۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


پاکستانی عدالتی تاریخ کے متنازع ججز

$
0
0

پاکستان کی عدالتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں متنازع ہونے کے بعد ججز یا تو خود مستعفی ہو گئے تھے یا انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ جسٹس فرخ عرفان کا نام پانامہ پیپرز میں سامنے آیا تھا جس کے مطابق وہ آف شور کمپنی کے مالک تھے۔ جسٹس فرخ عرفان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت تھا جس کے بعد انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

اکتوبر 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور حساس اداروں کے خلاف تقاریر پر سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کیا تھا ۔ جسٹس شوکت عزیر صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور حساس ادارے آئی ایس ائی کے خلاف تقاریر کرنے پر ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقاریر میں حساس اداروں پر عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔
فروری 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظہر اقبال سندھو نے کرپشن الزامات کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس مظہر اقبال پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن الزامات کے حوالے سے ریفرنس زیر سماعت تھا۔ سماعت سے دو دن قبل ہی جسٹس مظہر اقبال سندھو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

سنہ 2001 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم اور جسٹس راشد عزیز اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ 1999 میں دونوں ججز کے اوپر بے نظیر بھٹو کرپشن کیس میں جانبدار ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ 2001 میں سپریم کورٹ میں یہ الزامات ثابت ہونے کے بعد دونوں ججز نے اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔ جسٹس راشد عزیز اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور جج تعینات تھے۔ سینیئر قانون دان اکرام چوہدری ملکی عدالتی تاریخ میں ججز کے برطرفیوں اور استعفوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی متنازع ججز کو عہدے سے ہٹایا گیا لیکن جب تک مکمل انکوائری نہیں ہو گی تو اس قسم کے واقعات روکے نہیں جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی متنازع شخصیت کے عہدے پر فائز رہنے کی گنجائش نہیں تاہم ملکی عدالتی نظام کو مشکوک کرداروں سے صاف کرنے کے لیے تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔

سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا نے کہا کہ ماضی میں بے شمار ججز کو متنازع ہونے پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ملک محمد قیوم کے واقعے کی مکمل تحقیقات ہوتیں تو آج ملکی عدالتی نظام کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ یاد رہے کہ مریم نواز کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی اپنا بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے ویڈیو میں کی گئی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم جج ارشد ملک کے بیان نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا جس کے بعد معاملہ مزید متنازع ہو گیا تھا۔

بشکریہ اردو نیوز

پاکستان میں ٹرین حادثات کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟

$
0
0

سیکرٹری ریلوے سکندر سلطان راجہ کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا انھیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت وسیع مگر کافی پرانا ہے اور جس نوعیت کی بحالی کی اسے ضرورت تھی وہ نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات میں سرِ فہرست ریلوے ٹریک سے متعلقہ مسائل ہیں جبکہ رولنگ سٹاک (ریل کے انجن اور بوگیاں) اور ریلوے سگنل کا نظام بھی حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ سکندر سلطان نے کہا کہ 'ان کے علاوہ ہیومن ریسوس یا افرادی قوت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔' یاد رہے کہ پاکستان ریلوے میں اس وقت 23 ہزار سے زائد ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

سکندر سلطان کے مطابق ریلوے ٹریکس کے مسائل پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اور ایم ایل-ون (ریلوے کا مرکزی ٹریک جو پشاور سے کراچی کے درمیان ہے) کی مکمل بحالی کا بڑا پراجیکٹ سی پیک کے تحت ہونے والے منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے۔ 'موجودہ ٹریکس کو صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ کمزرو ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھی جاتی ہے، اور ڈرائیورز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں۔'
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ سی پیک کے تحت شروع ہونے والے بڑے منصوبے سے قطع نظر 'ہمیں مرکزی ٹریک کی بحالی کے چھوٹے منصوبوں پر فی الفور کام کرنے کی ضرورت ہے۔'

سکندر سلطان کا کہنا تھا کہ ٹریک کے حوالے سے سندھ میں سکھر ڈویژن میں صورتحال اچھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ رولنگ سٹاک یا اضافی انجنوں اور بوگیوں کا مسئلہ ہے تاہم انھیں ٹریک پر اسی وقت لایا جاتا ہے جب ریلوے کے مختلف ڈیپارٹمنٹس ان کے قابل استعمال ہونے کی رپورٹ دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افرادی قوت بشمول ڈرائیورز، اسسٹنٹ ڈرائیورز اور سگنل سٹاف کی کمی کا سامنا ہے اور مجبوری کے تحت نئے لوگ رکھنے کے بجائے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ رکھا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فنڈر کے مسائل بھی ہیں اور ماضی میں اس طرح کے پراجیکٹس نہیں بنائے گئے جس نوعیت کی سسٹم کو بحالی کی ضرورت تھی۔

'ماضی میں نئے انجن خریدے گئے اور کافی تعداد میں خریدے گئے مگر رولنگ سٹاک بشمول 800 ویگنز اور 300 کوچز خریدی جانی ہیں اور یہ پراجیکٹ ابھی پائپ لائن میں ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ کچھ مسنگ لنکس ہیں جن کو پلگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حادثات میں دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ زیادہ ہیومن ایرر (انسانی غلطی) کا نہیں بلکہ پرانے سسٹم میں خرابی کا آ رہا ہے جو حادثات کا باعث بن رہا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

روسی ایس 400 میزائل سسٹم کی پہلی کھیپ ترکی پہنچ گئی

$
0
0

ترکی کا کہنا ہے کہ روسی S-400 میزائل سسٹم کی پہلی کھیپ ہماری سرزمین پر پہنچ گئی ہے جس کی تصدیق روس نے بھی کی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایس 400 میزائل سسٹم کی پہلی کھیپ داالحکومت انقرہ کے ایئر بیس پر لینڈ کی۔ ترکی کی جانب سے روسی میزائلوں کی وصولی کے اعلان پر نیٹو اتحاد نے "تشویش"کا اظہار کیا ہے۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ انقرہ پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے، پابندیوں میں امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیاروں سے متعلق پروگرام میں ترکی کی شراکت کا خاتمہ اور جدید ترین F-35 لڑاکا طیاروں پر ترکی کے ہوا بازوں کی تربیت کا عمل معطل کر دینا شامل ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ اگر ترکی نے روسی ساختہ S-400 میزائل سسٹم کی خریداری کے سمجھوتے پر عملدرامد جاری رکھا تو انقرہ پر پابندیاں عائد کر دی جائینگی۔

یاد رہے کہ امریکا کا کہنا تھا کہ روسی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نیٹ ورک سے موافقت نہیں رکھتا اور یہ امریکی F-35 طیاروں کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے جن کو ترکی خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے روس کو لڑاکا جیٹ کی اڑان کے بارے میں مکمل پتا چل جائے گا۔ اس وقت دشمن کے ریڈار اور گرمی کے سنسر ان طیاروں کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ ٹرمپ نے جاپان میں (جی – 20) سربراہ اجلاس کے ضمن میں ملاقات میں رجب طیب ایردوآن کو باور کرایا تھا کہ انقرہ کی جانب سے روسی "S-400"دفاعی سسٹم کی خریداری ایک مسئلہ ہے۔ سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ترکی S-400 سسٹم کی خریداری پر ڈٹا رہا تو اس پر امریکی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

دوسری جانب یورپی یونین اور نیٹو اتحاد کے ایک رکن ملک کے اہم دفاعی عہدے دار کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحاد ترکی کو اس نظام کی عدم خریداری پر مجبور نہیں کر سکتا لیکن اگر انقرہ نے خریداری کا عمل جاری رکھا تو نیٹو اتحاد کے اندر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور دیگر دفاعی ڈیلوں پر اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترکی پہلے ہی اس بات کے عزم کا اظہار کر چکا ہے وہ اس ڈیل سے دست بردار نہیں ہو گا جسے انقرہ ایک اہم کامیابی شمار کرتا ہے۔ اس سے قبل ترکی اس بات کا عزم ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ڈیل سے دستبردار نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے جون کے اواخر میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد یہ باور کرایا تھا وہ S-400 میزائل سسٹم کی خریداری کے سبب اپنے ملک کو پابندیوں کا نشانہ بنائے جانے پر کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کر رہے۔ ایردوآن نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی اس میزائل سسٹم کے حوالے سے امریکا کے ساتھ اختلافات پر بنا کسی مشکل کے قابو پا لے گا۔

بشکریہ دنیا نیوز

ترکی کے لیے ’زندگی اور موت‘ کا مسئلہ بنے ایس۔400 میزائل کیا ہیں؟

$
0
0

ترکی نیٹو کا وہ واحد رکن ملک ہو گا، جو روس کا جدید دفاعی میزائل سسٹم استعمال کرے گا۔ لیکن اس میزائل سسٹم میں ایسی کونسی خاص بات ہے کہ ترکی امریکا سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہے؟ تفصیلات جانیے اس رپورٹ میں!
امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود روس نے ترکی کو ایس۔400 دفاعی میزائلوں کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ اگر ترکی نے ففتھ جنریشن امریکی جنگی طیاروں ایف۔35 کے ساتھ ان روسی دفاعی میزائلوں کو استعمال کیا تو روس امریکی جنگی جہازوں سے متعلق خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ امریکا نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر یہ میزائل خریدے تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی لیکن ترکی نے اس دھمکی کو نظرانداز کر دیا ہے۔

روسی ساختہ ایس۔400 میزائل جہاز شکن میزائل ہیں، جو چار سو کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ستائیس کلومیٹر تک کی بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے بھی اس کی رینج میں ہوتے ہیں۔ روس نے یہ دفاعی میزائل سسٹم سن دو ہزار سترہ میں متعارف کروایا تھا۔ اس میزائل سسٹم کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک موبائل سسٹم ہے، جسے گاڑیوں کے ذریعے کسی بھی علاقے تک لے جایا جا سکتا ہے اور ایک ہی وقت میں متعدد میزائلوں کو لانچ کیا جا سکتا ہے۔ روس ان میزائلوں کو فضائی دفاعی نظام کا ایک مرکزی جزو قرار دیتا ہے اور روسی فوج نے انہیں کریمیا، کیلنن گراڈ اوبلاست اور شام میں تعینات کر رکھا ہے۔

اس دفاعی میزائل نظام کو روس کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی 'الماز انتی‘ نے تیار کیا ہے اور یوکرائن میں روسی مداخلت کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکا نے اس کمپنی کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔ ایس۔400 میزائلوں کو جنگی طیارے، کروز میزائل، بیلیسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ روسی میڈیا کے مطابق یہ دفاعی میزائل فرانس اور امریکا کے اپنے تیار کردہ دفاعی میزائل سسٹم سے بھی کہیں بہتر ہیں۔ برمنگھم یونیورسٹی سے وابستہ برطانوی فوجی امور کے ماہر رچرڈ کونولی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس اور اس سے پہلے سوویت یونین ہمیشہ ہی میزائل ٹیکنالوجی میں سر فہرست رہے ہیں، ''اس کی وجہ امریکا اور مغرب کی طرف سے بہتر ہوائی جہازوں کی پیداوار تھی۔‘‘ ایس۔400 ایک لچکدار نظام ہے اور اس کے ذریعے کئی اقسام کے راکٹ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ رچرڈ کونولی کے مطابق جنگی میدان کے باہر بھی یہ بہت فائدہ مند ہیں اور یہ امریکی دفاعی نظام 'پیٹریاٹ ٹو‘ سے دو گنا سستے ہیں۔

امریکا کے لیے پیغام
اطلاعات کے مطابق ترکی نے یہ روسی دفاعی میزائل سسٹم دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر میں خریدا ہے۔ ترکی کے اس فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انقرہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ میزائل امریکی جہازوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ رچرڈ کونولی کے مطابق سن دو ہزار سولہ کی ترک فوجی بغاوت کے دوران صدارتی جہاز کا پیچھا باغی فوجیوں کے امریکی ساختہ ایف سولہ جنگی طیاروں نے ہی کیا تھا۔ ماسکو کے فوجی ماہر الیگزانڈر گولز کا بھی یہی خیال ہے کہ روسی ساختہ ایس۔400 دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری ایک 'سیاسی فیصلہ‘ ہے۔ ان کے مطابق ترکی امریکا اور اپنے مغربی اتحادیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی دفاعی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

ترکی ابھی تک دنیا کا ایسا دوسرا ملک ہے، جسے چین کے بعد یہ روسی دفاعی میزائل نظام فراہم کیا جا رہا ہے۔ چین کو اس میزائل سسٹم کی فروخت کی خوشی اس وقت مدھم پڑ گئی تھی، جب سن دو ہزار سترہ میں یہ میزائل لے جانے والے بحری جہاز کو ایک حادثہ پیش آیا تھا۔ شدید طوفان کی وجہ سے بحری جہاز پر لدھے راکٹوں کو نقصان پہنچا تھا لیکن بعدازاں روس نے ان راکٹوں کا ازالہ کر دیا تھا۔ بھارت نے بھی روس سے پانچ ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے اور ان میزائلوں کی ڈیلیوری کے انتظار میں ہے جبکہ چند خلیجی ممالک نے بھی ان روسی دفاعی میزائلوں کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ 

تاہم ماہرین اس دفاعی نظام کے حوالے سے خبردار بھی کرتے ہیں۔ شام میں اس دفاعی میزائل سسٹم کی تعیناتی کے باوجود ابھی تک کسی جنگ میں ان کا تجربہ نہیں کیا گیا۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا نے شام میں متعدد ٹھکانوں کو ٹوم ہاک کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت روس ان کا استعمال کر سکتا تھا لیکن صدر پوٹن نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ دوسری جانب امریکا اپنے پیٹریاٹ دفاعی میزائلوں کو انیس سو اکانوے کی خلیجی جنگ میں استعمال کر چکا ہے۔ ایس چار سو میزائل سسٹم کو دشمن کے فضائی حملوں سے بچانے کے لیے روس ایک دوسرا درمیانے درجے کا دفاعی نظام 'پینٹسر ایس ون‘ استعمال کرتا ہے۔

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا ترکی یہ نظام بھی روس سے خریدے گا۔ ترکی کو روس سے یہ امید بھی ہے کہ وہ اسے اس دفاعی میزائلوں کی ٹیکنالوجی تک کچھ رسائی فراہم کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق ایس۔400 کے متعدد پرزے ترک سرزمین پر تیار کیے جائیں گے۔ لیکن ماسکو کے فوجی ماہر الیگزانڈر گولز کے مطابق یہ بس ''علامتی پرزے ہوں گے۔ تین اقسام کے نٹ اینڈ بولٹ ترکی میں تیار ہوں گے۔‘‘ روسی ذرائع کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ترکی نے ایس۔400 نظام کے الیکڑانک کوڈز اور سیٹنگز تک رسائی حاصل کرنے کی گزارش کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔

نئی جنریشن کے روسی میزائل
دوسری جانب روس اس دفاعی میزائل نظام کی اگلی نسل S-500 تیار کرنے کے بالکل قریب ہے۔ اطلاعات کے مطابق سن دو ہزار بیس میں اس منصوبے پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ روسی حکام کے مطابق ایس-500 کی رینج کہیں زیادہ ہو گی اور وہ نچلی سطح میں گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں تک کو بھی مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔ ترکی اس نئے روسی دفاعی میزائل سسٹم کی تیاری میں بھی ترکی روس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ۔ شرائط و مطالبات کا نیا سلسلہ

$
0
0

آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد حکومت کو 9 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حکومت نے جو شرائط آئی ایم ایف کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے یا جو مطالبات اس معاہدے کے مذاکرات کے دوران حکومت نے تسلیم کیے ہیں ان کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات دو ہیں جن میں سے ایک ہے تجارتی خسارہ یعنی امپورٹس زیادہ ایکسپورٹس کم یعنی زر مبادلہ کی طلب اس کی رسد سے بڑھ جاتی ہے اس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ دوسری وجہ مالیاتی خسارہ Fiscal Deficit ہے یعنی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ تو آئی ایم ایف کی تمام شرائط و مطالبات کا تعلق ان دونوں خرابیوں کو کم کرنے سے ہے۔

لیکن جس طرح مریض کو دوا دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کو دوا کی اتنی ہی خوراک دی جائے کہ اس کا جسم اس دوا کو برداشت کر سکے۔ کیوں کہ اسی صورت میں دوا اپنا اثر دکھا سکے گی اور مریض صحت یاب ہو جائے گا جب کہ آئی ایم ایف کی دوا پاکستان کے معاشی جسم کے لحاظ سے زیادہ مقدار (Over Dose) کی ہے اور اس کا اثر اتنا طاقتور اور تخریبی ہے جس کی وجہ سے مثبت کے مقابلے میں منفی اثرات کا قوی امکان ہے۔ مالی خسارہ کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھایا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع ہو سکے اس کے لیے رواں مالی سال کا ٹارگٹ 5550 ارب روپے، اگلے سال یعنی 2020-21 کے لیے 7000 ارب روپے، 2021-22 کے لیے 8311 ارب روپے اور سال 2022-23 کے لیے 9486 ارب رکھا گیا ہے۔ 

لیکن ٹیکس تو اسی وقت جمع ہو سکتا ہے جب معاشی سرگرمیاں حرکت میں ہوں اور کاروبار چل رہا ہو۔ گیس اور بجلی کے نرخ میں بے انتہا اضافہ اور مختلف اشیا کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں شامل کرنے کے بعد پیداواری لاگت میں اضافہ اور نرخوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس وجہ سے پورے ملک میں کاروبار، چاہے وہ صنعتیں ہوں، تعمیراتی سرگرمیاں ہوں، زرعی پیداوار ہو، سب بحران کا شکار ہیں، اس صورت میں کس طرح ٹیکس جمع ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں عمران خان کی تاجروں سے بات چیت ناکام رہی اور وہ ملک بھر میں ہڑتال کی گئی ۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہر سہ ماہی پر بجلی، گیس اور تیل کے نرخوں میں نظرثانی کی جائے۔ 

اس وقت جو پیداواری لاگت وہ پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہے اس میں مزید اضافہ تین ماہ بعد ہو گا۔ ملکی پیداوار کم ہو جائے گی، ٹیکس کی وصولی بھی کم ہو گی۔ جب کہ ٹیکس کا صرف ہر سال 20 سے 25 فی صد بڑھ رہا ہے۔ کرنسی کی شرح مبادلہ کے بارے میں حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اس معاملے میں اسٹیٹ بینک کی مداخلت بالکل نہیں ہو گی اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کی بنیاد پر شرح مبادلہ ہو گی۔ اس سے غیر یقینی برقرار رہے گی۔ ایکسپورٹ آرڈر میں قیمت کا تعین مشکل ہو گا اس سے برآمدات مزید متاثر ہوں گی اور اس طرح تجارتی خسارہ کم نہیں ہو سکے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا تو ڈالر پر دبائو میں اضافہ ہو گا اور روپے کی قدر میں کمی ہو گی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ملکی اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ 

ان میں وہ ادارے شامل ہیں جو سالہا سال سے خسارہ میں چل رہے ہیں یا بند پڑے ہیں اور ان کے ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جارہی ہیں یہ تقریباً 1400 ارب روپے کا بوجھ ہے جو ٹیکس کی رقم میں سے ان اداروں میں جارہا ہے۔ ان تمام اداروں کو اگلے سال ستمبر تک نجکاری کر دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ اس سے ان اداروں کا بوجھ کم ہو جائے گا لیکن ان اداروں کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گی۔ اس طرح مہنگائی اور بے روزگاری میں ہمارا گراف جو پہلے ہی اوپر جارہا ہے وہ اور تیزی سے اوپر جائے گا۔ جب کہ شبر زیدی صاحب ٹیکسوں کے بارے میں روز ایک نئی بات کر رہے ہیں۔ پہلے کہا کہ موجودہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، بعد میں یہ بیان آیا کہ صرف چینی پر ٹیکس لگایا گیا ہے، اب کہتے ہیں آٹے اور میدے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جب آپ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے تو خود بخود چیزیں مہنگی ہو جائیں گی، ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب تک آئی ایم ایف ہی کی شرائط و مطالبات سامنے آئے ہیں، آئندہ دیکھتے ہیں عوام پر قیامت ڈھانے والی کیا شرائط سامنے آتی ہیں۔

ڈاکٹررضوان الحسن انصاری  

بشکریہ روزنامہ جسارت

طیب اردوان کی معاشی پالیسی

$
0
0

قوموں کی ترقی، خوشحالی، عروج اور باوقار مقام کے حصول کے لیے قیادت کا وژن، تجربہ، اہلیت، کردار، صلاحیتیں اور معاملہ فہمی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جن قوموں کو ایسی قیادت میسر آجاتی ہے اور قومیں ایسی قیادت کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرتی اور اسے منتخب کر کے موقع فراہم کرتی ہیں ایسی قوموں کے دن پھر جاتے ہیں، وہ پستیوں سے بلندی کا سفر تیزی سے طے کرتی ہیں، ان کی قیادت کسی سے مرعوب نہیں ہوتی بلکہ عالمی سامراج کے عزائم کو ہمت، حوصلے اور حکمت عملی سے ناکام بنا کر اپنی قوم کو باوقار مقام دلانے کے لیے مثالی جدوجہد کرتی ہے۔ 

ترکی ان خوش نصیب ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے جسے طیب اردوان جیسی بالغ نظر، مخلص، قابل اور باصلاحیت قیادت میسر آئی جس نے نہایت کم عرصے میں ترکی کو پستیوں سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا، ترکی کو ایک نئی اور باوقار شناخت دی، جس ترکی کی تاریخ اور ثقافتی رشتے کو اسلام سے توڑنے کے لیے سالہا سال تک محنت کی گئی اسی ترکی کو اب عالم اسلام کی قیادت پر فائز کر دیا۔ دنیا بھر کے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی نظریں ترکی اور اس کی قیادت پر ہیں۔ طیب اردوان نے ترکی کی شکستہ معیشت کو ایک ترقی یافتہ معیشت میں کیسے تبدیل کیا اس پر ہم بعد میں بات کریں گے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دور جدید کی اس معاشی کرامت کا مظاہرہ کرنے والے طیب ردگان کی پرورش کس ماحول میں ہوئی۔ 

ان کی شخصیت کی تعمیر میں، ان کے افکار کی بنیادوں کی مضبوطی میں کن عناصر اور عوامل نے حصہ لیا۔ طیب اردوان کی والدہ قرآن کی معلمہ اور شیدائی تھیں۔ انہیں قرآن کی تلاوت کا اعلیٰ ذوق حاصل تھا۔ ننھے طیب کے سامنے جب وہ قرآن کی تلاوت کرتیں تو قرآن کا معجزاتی اور انقلابی کلام ان کے دل اور دماغ اور روح کو معطر کر دیتا۔ یہ ایک دینی مدرسہ تھا جہاں ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور محبت کا جذبہ مزید گہرا کیا گیا۔ اس دوران میں انہوں نے اپنی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے گلیوں میں لیمن جوس اور ٹافیاں بھی فروخت کیں۔ کسے معلوم تھا کہ گلیوں میں لیمن جوس فروخت کرنے والا یہ بچہ آگے جا کر ترکی کی تقدیر بدلنے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔

طیب اردوان عالم اسلام کے اس وقت وہ واحد حکمران ہیں جو نہایت خوش الحانی اور درست مخارج سے قرآن کی تلاوت کر سکتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے عصری تعلیم پر توجہ دی اور مارمرا یونیورسٹی سے اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹیو سائنسز میں ماسٹر کیا۔ اس دوران انہوں نے طلبہ سیاست میں بھی حصہ لیا اور اسلام پسند نیشنل سالویشن پارٹی جو نجم الدین اربکان کی سیاسی جماعت کی طلبہ شاخ تھی اس پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس اسلام پسند طلبہ جماعت کی تربیتی نشستوں نے ان کی ذہنی آبیاری کی اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے سے انہیں احساس ہوا کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح محض عبادت گاہ تک محدود نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ 

بعد میں نجم الدین اربکان کی سیاسی جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور اس پابندی کے خلاف طیب اردوان نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران انہوں نے ضیا گوکپ کی ایک نظم پڑھی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔ ’’مسجدیں ہماری چھائونیاں ہیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں، مسجدوں کے مینار ہماری سنگینیں ہیں۔ یہ الفاظ لادین اور سیکولر طبقے کے لیے میزائل سے کم نہ تھے چناں چہ طیب اردوان کو گرفتار کر لیا گیا، ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عاید کر دی گئی اور چار ماہ انہیں جیل میں رکھا گیا۔ تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1991ء کے بلدیاتی انتخابات میں وہ کامیاب ہوئے۔ انہیں استنبول شہر کا میئر منتخب کیا گیا۔ اس وقت استنبول شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر تھے، شہر ترکی کا آلودہ ترین شہر تھا، پانی کی شدید قلت تھی، ٹریفک جام شہر کے باسیوں کے لیے درد سر بن چکا تھا۔

صورت حال میں بہتری کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ ایسے میں طیب اردوان اُمید کی ایک کرن بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے پانی کی قلت دور کرنے کے لیے جامع منصوبہ بنایا اور ہزاروں کلو میٹر پانی کی پائپ لائن بچھا دی۔ ٹریفک جام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے درجنوں پل بنائے گئے، شاہراہوں کی حالت بہتر بنائی گئی، ٹریفک قوانین پر سختی سے پابندی کروائی گئی، کچرے کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ جدید ری سائیکلنگ پلانٹ لگائے گئے، آلودگی کم کرنے کے لیے ماحول دوست بسیں چلائی گئیں اور رفتہ رفتہ پرانی اور دھواں چھوڑنے والی بسیں شاہراہوں سے غائب ہو گئیں۔ طیب اردوان کے میئر بننے سے قبل استنبول بلدیہ رشوت، بدعنوانی، نااہلی اور اقربا پروری کے لیے مشہور تھی۔

طیب اردوان نے نہایت ذمے داری اور حکمت عملی سے کام کرتے ہوئے بلدیاتی نظام کو شفاف بنایا اور فنڈز کے اجرا کو میرٹ سے مشروط کیا اور بدعنوانی کا خاتمہ کیا۔ جب فنڈز کا درست استعمال ہوا تو شہر میں ہر طرف ترقیاتی کام ہوئے، وہی استنبول جو کچرے کا ڈھیر تھا اب نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک مثال بن گیا۔ ملک کے دوسرے شہروں سے لوگ جب استنبول آتے تو یہاں کی بدلی ہوئی حال دیکھ کر حیران ہو جاتے۔ استنبول بلدیہ جو 2 ارب ڈالر کی مقروض تھی طیب اردوان کی بہترین حکمت عملی، دیانت داری، فرض شناسی اور جوابدہی کے احساس کی بدولت نہ صرف سارا قرض چکایا گیا بلکہ 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی۔ 

طیب اردوان نے استنبول کانفرنس کے دوران دیگر شہروں کے میئرز کو مدعو کیا اور ایک عالمی میئرز تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی بحیثیت میئر شاندار کرکردگی پر انہیں اقوام متحدہ کی جانب سے یو این ہیبیٹاٹ ایورڈ سے نوازا گیا۔ استنبول شہر کی قسمت بدلنے کے بعد طیب اردوان کا سفر یہیں تک رکا نہیں بلکہ انہوں نے پختہ عزم کر لیا کہ وہ پورے ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ چناں چہ 2003ء کے انتخابات کی مہم انہوں نے اپنے استنبول کی کارکردگی کی بنیاد پر چلائی اور قوم سے وعدہ کیا کہ وہ پوری ترکی کو استنبول کی طرح بنا دیں گے۔ عوام نے طیب اردوان کی بہترین صلاحیتوں کی بدولت انہیں ترکی کا قائد تسلیم کر لیا اور انہیں 2003ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 

انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد انقلابی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے باصلاحیت، ایماندار اور مشنری جذبہ رکھنے والے ساتھیوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دی۔ چناں چہ 2003ء سے 2012ء تک صرف 9 سال کے عرصے میں قومی آمدنی دگنی ہو گئی۔ فی کس آمدنی میں 43 فی صد اضافہ ہوا۔ طیب اردوان نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت ترکی کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا اور ملک پر 23 ارب 50 کروڑ ڈالر کے قرضے تھے جن کی بمعہ سود آئی ایم ایف کو ادائیگی کرنی تھی۔ طیب اردوان نے قرض کی زنجیریں جنہیں وہ غلامی کی زنجیریں کہتے تھے سے نجات دلانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی اور 2012ء تک قرضے ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے۔ 

انہوں نے آئی ایم ایف سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ چناں چہ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’الحمدللہ ترکی اب آئی ایم ایف کے قرضوں سے آزاد ہو گیا ہے اور الحمدللہ ہم نے خود کفالت کی وہ منزل حاصل کر لی ہے کہ اب آئی ایم ایف ترکی سے قرضے حاصل کر سکتا ہے۔ اب ترکی یورپ کے کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل گیا تھا جو قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر سید محبوب

بشکریہ روزنامہ جسارت

ڈیٹا کے تحفظ میں ناکامی : فیس بک کو تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

$
0
0

امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے فیس بک پر 5 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ جرمانے کی منظوری امریکی محکمہٴ انصاف کے دیوانی شعبے نے نظرثانی کے بعد دینی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فیس بک پر جرمانہ صارفین کے ڈیٹا اور نجی معلومات کے تحفظ میں ناکامی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ ناقدین نے اتنے بڑے جرمانے کو غیر مناسب قرار دیا ہے۔ یہ جرمانہ فیس بک کے خلاف ڈیٹا کے تحفظ میں متعدد ناکامیوں کے حوالے سے جاری تفتیشی عمل پر فریقین کے درمیان ڈیل کی روشنی میں طے کیا گیا ہے۔
کمیشن کے ری پبلکن پارٹی کے اراکین اس مجوزہ ڈیل کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ ڈیموکریٹک اراکین مخالفت میں ہیں۔ جرمانے کی حتمی منظوری ہو جاتی ہے تو کسی ادارے پر عائد کیا جانے والا سب سے بڑا جرمانہ ہو گا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2012ء کے دوران گوگل کو امریکی حکام کی جانب سے 22 ملین ڈالر کا جرمانہ کیا گیا تھا تاہم فیس بک کو جرمانہ تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ تصور کیا جا رہا ہے۔

بشکریہ دنیا نیوز


روس کی ڈوبی ہوئی جوہری آبدوز سے خطرناک درجے کی تابکاری

$
0
0

محققین کا کہنا ہے کہ سن 1989 میں ناروے کی ساحل سے دور ڈوبنے والی روس کی جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز سے خطرناک درجے کی تابکاری ہوئی ہے۔ جوہری توانائی سے چلنے والی ’کوم سومولیٹس‘ نامی جنگی آبدوز، ’ٹائٹینیم‘ سے بنی ہوئی تھی، اور یہ دو ایٹمی تارپیڈو سے لیس تھی۔ روس اور ناروے، دونوں سن 1989 سے لیکر اب تک ہر سال یہاں تابکاری کی سطح کی جانچ کرتے ہیں۔ تاہم، پہلی دفعہ گہرائی میں تابکاری کی جانچ کی گئی ہے۔ جانچ کے بعد علم ہوا کہ یہاں تابکاری کی سطح 8 لاکھ گنا زیادہ ہے۔

اس نئی جانچ کی قیادت کرنے والی ٹیم کی لیڈر، ایلیز ہیڈل کا کہنا ہے کہ ہم اس مقام کے قریب مسلسل نگرانی کرتے رہیں گے۔ ہم کیمروں کے ذریعے نگرانی کریں گے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں تابکاری دوبارہ تو نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہم مزید تجربات کریں گے۔ ہیلڈل کا کہنا ہے کہ آبدوز 1680 میٹر کی گہرائی میں ڈوبی ہوئی ہے اور یہاں بہت کم مچھلیاں پائی جاتی ہیںِ اور اتنے گہرے پانی میں تابکاری جلد ہی اپنی طاقت کھو دیتی ہے۔ ’کوم سومولیٹس‘ میں آگ بھڑک اٹھی تھی، اس پر سوار عملے کے 69 ارکان میں سے 42 ہلاک ہو گئے تھے۔

چند روز پہلے، روس کی ایک اور جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ روسی بحریہ کے 14 افراد اس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن یہ آبدوز، سویرو موسک نامی بندرگاہ تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ روس کے وزیر دفاع سرگئی سوئےگو کا کہنا تھا کہ آبدوز کو چاروں طرف سے سر بمہر کر دئے جانے سے پہلے، عملے کے افراد کو باہر نکال لیا گیا تھا۔ وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ آبدوز کو دوبارہ زیر استعمال لایا جا سکے گا، اور عملے کے افراد نے آبدوز کو بچانے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے تھے۔ یہ تو واضح نہیں ہے کہ حادثے کے وقت عملے کے کتنے افراد آبدوز پر سوار تھے۔ تاہم، روسی حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ افراد بچ جانے میں کامیاب رہے۔

وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ آبدوز میں آگ اس وقت لگی، جب یہ روس کے پانیوں میں معلومات اکٹھا کرنے میں مصروف تھی۔ وزارت دفاع نے حادثے کے دوسرے دن تک اس اس کی اطلاع نہیں دی، جس کی وجہ سے چند ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پوری بات نہیں بتا رہا۔ اُن پانیوں میں تابکاری کا سراغ لگانے والے ناروے کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہیں کسی بھی قسم کی غیر معمولی تابکاری کا سراغ نہیں ملا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

ریکوڈک کیس : 5.9 ارب ڈالر جرمانے کا ذمہ دار کون ؟

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے ورلڈ بینک کے ثالثی ٹریبیونل انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے ریکوڈک کیس میں پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالر ہرجانے کے فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنانے کی ہدایت کی ہے، جو ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔
اس حوالے سے ایک پریس ریلیز اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر سے جاری کی گئی، جو اس کیس کے فیصلے کے بعد سے حکومت پاکستان کا پہلا موقف ہے۔
عالمی ثالثی ٹریبیونل کی جانب سے ایک روز قبل ریکوڈک کیس کے 700 صفحات پر مشتمل فیصلے میں پاکستان پر 5 اعشاریہ 976 ارب ڈالر کا بھاری ہرجانہ عائد کیا گیا تھا، جو اسے چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو ادا کرنا ہو گا۔

پاک ۔ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میں ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور کاپر کے وسیع ذخائر کا تعین کرنے کیلئے ٹی تھیان اور انٹو فوگسٹا، بیرک گولڈ کارپوریشن نے مل کر 1993 میں کام شروع کیا تھا۔ تاہم 2013 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ منصوبہ ’ملکی قوانین سے متصادم‘ قرار دے کر منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ فیصلہ سنانے والے اس بینچ میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید بھی شامل تھے۔ بعدازاں ٹی تھیان کمپنی نے عدالتی فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا۔ 

بلوچستان حکومت کو شاید پہلے ہی بین الاقوامی ٹریبونل میں مقدمہ ہارنے کا خدشہ تھا یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت جرمانے سے بچنے کے لیے ٹی تھیان کمپنی سے عدالت کے باہر ہی معاملات کا تصفیہ کرنے پر غور کرنے لگی۔ رواں برس مئی میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بتایا تھا کہ ’ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے بلوچستان حکومت کا عالمی عدالت میں کیس کمزور ہے لہذا ٹی سی سی کا موقف تسلیم کرتے ہوئے ہم پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔‘ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’نہ صرف بلوچستان بلکہ وفاق کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں کہ وہ خود ریکوڈک منصوبے کو چلا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچستان حکومت کی کوشش ہے کہ عالمی عدالت کے جرمانے سے بچنے کے لیے ٹی سی سی سے عدالت کے باہر معاملات نمٹائے جائیں، ایسے میں اگر کمپنی کے ساتھ دوبارہ معائدہ کرنا پڑا تو اس حوالے سے بھی صوبائی حکومت حکمت عملی بنا رہی ہے۔‘ اور خدشات کے عین مطابق ریکوڈک کیس کا فیصلہ ٹی تھیان کمپنی کے حق میں آیا اور پاکستان پر ہرجانہ عائد کر دیا گیا۔ تاہم آئی سی ایس آئی ڈی کے فیصلے کے بعد ٹی تھیان بورڈ کے چیئرمین ولیم ہائیز نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’کمپنی اب بھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہے‘، تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کمپنی اپنے قانونی اور تجارتی مفادات کا تحفظ جاری رکھے گی۔‘

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو    


دنیا میں دو ارب سے زائد افراد صحت مند غذا سے محروم ہیں، اقوام متحدہ

$
0
0

اقوام متحدہ نے دنیا بھر کی حکومتوں سے بھوک کے خاتمے کے لیے کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت دنیا میں 2 ارب سے زائد افراد صحت مند غذا سے محروم ہیں جن کی اکثریت شمالی امریکا یا یورپ میں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے 'فوڈ سیکیورٹی اور نیوٹریشن'کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق صحت مند غذا سے محروم 2 ارب سے زائد افراد کو صحت کے مسائل کے خطرات کا سامنا ہے۔ رواں برس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ محفوظ، مقوی اور مطلوبہ خوراک کے حصول کے لیے مجبور ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحت مند خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد یورپ اور شمالی امریکا میں آبادی کا 8 فیصد ہیں۔

رپورٹ کے ایڈیٹر سینڈی ہولیمن کا کہنا تھا کہ ہمیں بھوک سے آگے کے مسائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم صرف بھوک پر توجہ دیں گے تو پھر ہم بہت سے بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھتے ہوئے نظر انداز کر رہے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے حکومتوں کو تجویز دی ہے کہ وہ صرف زیادہ خوراک پیدا کرنے کے بجائے خوراک کی دستیابی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیں۔ جوز گریزیانو سلوا کا کہنا تھا کہ حکومتوں کا زیادہ زور خوراک کی پیدوار پر ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ خوراک دستیاب ہو گی تو لوگ کھا لیں گے لیکن یہ بات اس طرح درست نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم خوراک کی تقسیم، مارکیٹ، لوگوں کا رویہ اور لوگوں کی ثقافت کو نہیں دیکھ رہے ہوتے حالانکہ اس وقت دستیاب دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں بھوک کے شکار افراد سے زیادہ تعداد موٹے لوگوں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں بھی 2018 کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے، غذائی قلت میں اضافہ زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطیٰ کے متعدد علاقے، لاطینی امریکا اور کیربیئن میں ہوا ہے۔ برطانیہ کے ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جین مائیکل گرینڈ کا کہنا تھا کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے لیے عدم مساوات اور کمزور صحت جیسے مسائل کے حوالے سے پائی جانے والی وجوہات کا پتہ لگائے بغیر بہتری نہیں لا پائیں گے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں دنیا میں 82 کروڑ 20 لاکھ افراد موٹاپے کا شکار تھے۔ رپورٹ کے ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ ‘موٹاپے کا مسئلہ بے قابو ہو گیا ہے، ہمیں ایشیا میں بھوک کا بڑا مسئلہ درپیش تھا لیکن اب موٹاپے میں اضافے جیسے مسئلے کا شکار ہیں جو بھوک سے زیادہ سنگین ہے۔

بشکریہ ڈٓان نیوز

بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے، تحقیق

$
0
0

ملک کے تعلیمی نظام پر نئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کئی بچے اسکول میں کئی سال گزارنے کے باوجود ایک جملہ تک نہیں پڑھ پاتے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ولسن سینٹر نے پاکستان میں تعلیم کے مسئلے پر اپنی رپورٹ ’پاکستان میں تعلیمی بحران : اصل کہانی‘ کے نام سے جاری کر دی ہے۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے نشاندہی کی کہ 1 کروڑ 70 لاکھ بچے پرائمری تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ 50 لاکھ نہیں کرتے۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو بچے اسکول جاتے ہیں وہ بھی زیادہ کچھ سیکھ نہیں پاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کئی بچے اسکول میں سالوں گزارنے کے باوجود ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک عالمی مسئلہ ہے مگر پاکستان میں صورتحال بدترین ہے کیونکہ ہمارے یہاں غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے‘۔ انہوں نے برٹش کونسل سروے کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق پنجاب کے 94 فیصد انگریزی تعلیم دینے والے نجی اسکولوں میں انگریزی نہیں بولی جاتی۔ ملک کے وزیر اعظم عمران خان سے مادری زبان میں تعلیم دینے کی حوصلہ افزائی کرنے کا کہتے ہوئے نادیہ نیوی والا کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لیے چندے دینے والوں کو بھی غیر ملکی زبان میں چندہ مانگنے والوں کے پروگرامز سے دور رہنا چاہیے۔

مصنفہ کی تجویز
اسکولوں میں بچوں کی پڑھنے کی صلاحیت کا سالانہ موازنہ کیا جانا چاہیے۔
اسکول، اسکول میں تعلیم حاصل نہ کرنے والوں کو متبادل تعلیمی پروگرام کے ذریعے، خواندگی پروگرامز کے ذریعے بچوں اور بڑوں سب کو پڑھنا سکھانا چاہیے۔ نساب کو آسان بنا کر بچے کے مطابق بنانا چاہیے، ابتدائی کلاسوں اور پرائمری تعلیم کو مادری زبان میں پڑھانا چاہیے جس کی کتابیں بھی اس ہی زبان میں ہوں۔ اعلیٰ تعلیم کئی زبانوں میں ہونی چاہیے انگریزی پر موجودہ زور سے بچوں میں نقل کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سائنس کے سبجیکٹ میں انگریزی پر زور دیا جاتا ہے مگر طالب علموں کو ان کی زبان میں جواب دینے کی اجازت دینے سے سوشل سائنسز میں اسکالرشپ کے معیار میں اضافہ ہو گا۔

سب سے زیادہ ترجیح پرائمری اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ ہونے کی ضرورت پر دی جانی چاہیے۔ 10 سے 16 سال کے اسکول نہ جانے والوں بچوں کے لیے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تعلیمی پروگرام کی ضرورت ہے 11ویں اور 12ویں جماعت اور ڈگری کالجز کو بھی پرائمری اسکول اور یونیورسٹی کی طرح توجہ دی جانی چاہیے۔ اساتذہ کا انتخابات میں استعمال بند ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے متبادل افراد ڈھونڈنے چاہیے۔ عدالتوں کو چاہیے کہ کنٹریکٹ پر آنے والے اساتذہ کو پینشن لینے والے مستقل سرکاری ملازم بنانا بند کرے کیونکہ اس سے تعلیمی نظام میں کرپشن، کارکردگی میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاستدانوں اور سیکریٹری تعلیم سے اساتذہ کی پوسٹنگ اور تبادلوں کے اختیارات لے لیے جانے چاہیے۔

انور اقبال

بشکریہ ڈان نیوز

کلبھوشن کیس میں کب کیا ہوا ہے؟

$
0
0

پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور انہیں 2016 کو مشخیل، بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان حکام کے مطابق کمانڈر کلبھوشن کے پاس حسین مبارک کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزیک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام کے پاسپورٹ پر 17 بار دلی سے بیرون ملک فضائی سفر کیے۔

کلبھوشن کیس میں کب کیا ہوا ہے؟
تین سال سال قبل مارچ 2016 میں پاکستانی حکام نے بھارتی شہری کلبھوشن یادو کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور اسی ماہ پاکستانی فوج کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا کہ کلبھوشن جادھو بھارتی بحریہ کے افسر اور بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کے ایجنٹ ہیں۔ پاکستانی فوج کے اس دعویٰ کے ٹھیک دو روز بعد حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کیا اور کلبھوشن یادو کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔ اس کے چند ہی روز بعد پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادو کا زیر حراست اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں جاری کیا گیا اور بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔

اپریل میں کلبھوشن یادو کو فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا اور 10 اپریل کو انہیں سزائے موت سنا دی۔
کلبھوشن یادو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر 10 مئی کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے اس سـزائے موت کو رکوانے کی اپیل کی۔ 15 مئی کو عالمی عدالت میں بھارتی درخواست کی سماعت ہوئی اور دونوں جانب کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ تین روز بعد عالمی عدالت انصاف نے نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن یادو کو پھانسی نہ دینے کی ہدایت کی۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو   

پاکستانی میڈیا کا بحران، صحافی بھوکے مر رہے ہیں

$
0
0

پاکستان کا میڈیا کچھ عرصے سے تہرے بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سب سے چھوٹے درجے کے ورکنگ جرنلسٹ اپنے روزگار کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تقریبا تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کو ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت اور حکومتی اشتہارات پر انحصار نے انحطاط پذیر کر دیا ہے۔ مالی مسائل کے شکار پاکستانی میڈیا میں گزشتہ ایک برس کے دوران بیس ہزار میں سے تقریباﹰ تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ یوں جہاں پر میڈیا کے پیشے کو خطرات کا سامنا ہے، وہاں پر پاکستانی عوام کے جاننے کا حق اور اظہار رائے کی آزادی بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامے میں بڑھتی ہوئی سینسرشپ نے بھی میڈیا کے پیشے کو متاثر کیا ہے۔ ان مسائل کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ ورکنگ جرنلسٹ پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ اسی بنا پر آج صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی کال پر اسلام آباد سمیت پورے ملک میں صحافیوں نے ان مسائل پر بھرپور مظاہرے کیے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پورے ملک میں پریس فریڈم موومنٹ چلائی جائے گی، جس کی وجوہات میں ایک غیراعلانیہ سینسرشپ بھی ہے۔ صحافی کچھ بھی لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو جائے یعنی خوف و ہراس کی فضا ہے۔ 

دوسرا جو صحافی پریس فریڈم کی بات کرتا ہے اس کی کردارکُشی شروع ہو جاتی ہے، تیسرا پاکستان میں میڈیا ورکر کی جبری برطرفی اور چوتھی وجہ چار پانچ ماہ کی تنخواہوں میں تاخیری شامل ہیں۔ افضل بٹ نے مزید کہا کہ اسی موومنٹ کے تحت آج چاروں صوبوں کے پریس کلبوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے اور ریلیاں نکالی گئیں، سیاہ پرچم لہرائے گئے، بھرپور طریقے سےاحتجاج کیا گیا اور یوم سیاہ منایا گیا۔ دوسرے مرحلے میں ہم انہی مطالبات کے حوالے سے ملک بھر کے پریس کلبوں میں میڈیا کانفرنسز کا انعقاد شروع کریں گے۔ آزادی صحافت، جمہوریت اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھنے والی، جو بھی قوتیں ہیں، ان کو ساتھ ملائیں گے، جن میں تاجر کمیونٹی، وکلا کمیونٹی، ڈاکٹر کمیونٹی، طلبہ، پولیٹکل ورکرز یعنی سول سوسائٹی شامل ہو گی۔

تاکہ یہ فرنٹ آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا جائے اور ایک بڑی موومنٹ میں تبدیل ہو کر اس وقت تک کوشش جاری رکھی جائے، جب تک پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہو جاتا۔ اسی حوالے سے اقبال خٹک، جو ملک میں یورپین ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے پاکستان میں نمائندے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کی عدم برداشت کی پالیسی کا ایک نتیجہ سینسر شپ کی شکل میں ہے، جس نے میڈیا کو سرکاری لائن کور نہ کرنے کی پاداش میں سرکار کی طرف سے دیے گئے اشتہارات کی واضح کمی ہے۔ سرکار کی طرف سے دیے جانے والے میڈیا کو اشتہارات دراصل عوامی ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے جس کی حساب کتاب میں شفافیت ضروری ہے۔

اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک کے سب سے بڑے جنگ گروپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنے کچھ اخبارات اور ٹی وی کے بیورو آفسز بند کر دیے، جن میں صحافیوں اور دیگر اسٹاف سمیت تقریبا چودہ سو لوگوں کی نوکریاں ایک ہی وار میں گئیں۔ اسی طرح ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا میڈیا گروپ، جو کہ ملک کے تیسرے اور چوتھے بڑے میڈیا گروپس ہیں، نے دو سو سے زائد صحافیوں کو پچھلے چند ماہ میں نوکری سے نکالا ہے۔ تقریبا تمام میڈیا گروپس میں کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہوں میں پندرہ سے چالیس فیصد کمی کی گئی ہے، جس سے صحافیوں کے گھروں میں معاشی بحران پیدا ہو گیا۔‘‘

سینسر شپ بحران کی وجہ سے ایک پرانا اور قابل اعتماد میگزین ‘ہیرالڈ'بند ہو رہا ہے اور اس کا اگلے مہینے آخری شمارہ آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''ملک کے اچھے صحافی، جن میں دی نیوز آن سنڈے کی ایڈیٹر فرح ضیا، ہیرالڈ کے ایڈیٹر بدر عالم، طلعت حسین، مطیع اللہ جان اور دیگر کو اپنے ادارے یا سینسرشپ یا معاشی بحران کے باعث چھوڑنے پڑے ہیں یا ان کے ادارے بند کر دیے گئے۔ مزید یہ کہ اعزاز سید اور احمد نورانی کو ان کے اپنے ادارے کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال پر بندشوں کا سامنا ہے۔‘‘

آر ایس ایف کی پاکستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ ''میڈیا اونرشپ مانیٹر ان پاکستان‘‘ کے مطابق 2017ء میں پاکستان کے پورے میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے تھی جبکہ حکومت میڈیا کو اشتہارات مہیا کرنے والا ایک اہم ذریعہ تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2013ء سے 2017ء تک حکومت پاکستان نے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کو 15.7 ارب روپے اشتہارات کی مد میں دیے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد نئی حکومت نے اپنا اشتہاراتی بجٹ تقریبا ستر فیصد کم کر دیا ہے، جس سے میڈیا انڈسٹری شدید مالی مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء سے 2018ء کے دوران میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ ملکی معیشت زوال پذیر ہونے کی وجہ سے مسلسل سکڑ رہی ہے۔

جہاں پر 2016ء میں یہ مجموعی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے پر مشتمل تھی وہ 2017-18 میں تقریبا سات فیصد کم ہو گئی ہے اور اندازاﹰ 2019ء میں یہ تقریباﹰ تیس فیصد مزید کم ہو جائے گی اور یوں میڈیا کا معاشی بحران سنگین تر ہوتا جائے گا۔ میڈیا مارکیٹ کے ایک تجزیہ نگار احسان کمال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''پاکستان کی مجموعی میڈیا مارکیٹ ٹیکنالوجی اور معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے بدل رہی ہے۔ جہاں اس صدی کے آغاز میں تقریبا بیس ہزار لوگ میڈیا مارکیٹ سے منسلک تھے، ان میں صحافیوں کی تعداد تقریبا دو ہزار تھی، اب تقریبا دو دہائیوں کے بعد میڈیا انڈسٹری میں مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ لوگ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے پچھلے سال تک تقریبا بیس ہزار صحافی شامل تھے لیکن خراب ہوتی ہوئی معیشت کی وجہ سے اور حکومت کی طرف سے ملنے والے اشتہارات میں نمایاں کمی کی وجہ سے تقریبا دس ہزار لوگ میڈیا انڈسٹری میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں جن میں تقریبا تین ہزار صحافی بھی شامل ہیں۔‘‘

دوسری جانب سرکار کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت نے اشتہارات کی مد میں غیر معمولی اضافہ کیا تھا جس کو برقرار رکھنا مشکل تھا۔ اس لیے حکومت اپنی اشتہارات کی پالیسی تبدیل کر رہی ہے اور اب میڈیا کے اصل سائز کے مطابق اشتہارات دیے جائیں گے۔ سرکار کا یہ بھی دعوی ہے کہ میڈیا بالکل آزاد ہے، نہ اس پر کوئی دباؤ ہے، نہ سینسرشپ نہ اور کسی قسم کی کوئی بندش۔ لیکن افضل بٹ کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ سینسرشپ عروج پر ہے، ''پیمرا کہتا ہے میڈیا آزاد ہے، ہم نے کوئی پانبدی نہیں لگائی، پریس کونسل آف پاکستان کہتی ہے میڈیا آزاد ہے، حکومت کہتی ہے میڈیا آزاد ہے لیکن ہمیں پتا ہے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


عالمی عدالتوں میں پاکستان کا کیس موثر طریقے سے پیش کرنے کی ضرورت

$
0
0

پاکستان کو ایک بار پھر اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب عالمی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام سے ذخائر کی تلاش کا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر ٹیتھیان کاپر (ٹی ٹی سی) کو 5.976 ارب ڈالر زر تلافی ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ اس میں 4.08 ارب ڈالر جرمانہ اور 1.87 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنا ہو گا۔ ٹی ٹی سی نے پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے پہاڑوں میں معدنیات تلاش کرنے کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ آج وہ پہاڑی علاقہ جہاں معدنیات تلاش کی جانی تھیں بالکل بے آباد پڑے ہیں۔ اس اقدام نے بلوچستان کی اکانومی کو ہزاروں ملازمتوں اور بہت بڑے ریونیو سے محروم کر دیا۔

اس سے صرف ایک روز قبل یعنی 12 جولائی کو لندن کی عالمی ثالثی عدالت نے نیب کی طرف سے براڈ شیٹ کے ساتھ 2003ء میں کیا گیا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر پاکستان کو 33 ملین ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ 26 دسمبر 2018ء کو عدالت نے اس معاملے میں 21 ملین ڈالر زر تلافی ادا کرنے کے لئے کہا تھا۔ پاکستان کے کوتاہ بین حکام نے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا اور نظرثانی کی درخواست پر فیصلے کے بعد اس رقم کا حجم بڑھ کر 33 ملین ڈالر ہو گیا۔ جبکہ نیب کے دفاع کے لئے جس قانونی فرم کی خدمات حاصل کی گئیں اس کو 5 ملین پاؤنڈز بھی ادا کئے گئے۔ قبل ازیں 22 اگست 2017ء کو عالمی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے ترک کمپنی کار کے کی طرف سے درخواست پر پاکستان کو اسے 846 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

سمندر میں کھڑے جہازوں پر نصب پاور پلانٹس سے بجلی پیدا کرنے کا متنازع معاہدہ پی پی حکومت نے 2009ء میں کیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کر دیا۔ اس جرمانے میں ہرجانے کے ساتھ ساتھ ہر ماہ 5.6 ملین ڈالر سود بھی شامل تھا۔ سنٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی طرف سے 4 کیسز ریکوڈک، پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور کار کے الیکٹرک میں مداخلت سے پاکستان کو 12 کھرب سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس میں تازہ ترین ریکوڈک اور براڈشیٹ کیسز میں عائد جرمانے بھی شامل ہیں۔ اگر پی آئی اے، سٹیل ملز، پاور پلانٹس کے قرضوں اور آپریشنل اخراجات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ افتخارچودھری کے دور سے شروع ہونے والی بے انتہا عدالتی فعالیت کی بھاری قیمت ہے۔

کریمنل جسٹس سسٹم جسے با اثر افراد اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں جو غیر معمولی تاخیرکا سبب بنتا ہے، نے اس ملک کو مجموعی طور پر 13 کھرب کا نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر سند ھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ٹیکس کیسز کا حجم 1200 ارب روپے ہے۔ کمشنرز ان لینڈ ریونیو کے پاکستان زیر التوا کیسز کا حجم 250 ارب روپے ہے۔ یہ ریاست کا وہ پیسہ ہے جو بار اور بینچ کے درمیان ملی بھگت کے سبب پھنسا ہوا ہے۔ اپنے جسٹس سسٹم کو بہتر کر کے ان کیسز پر توجہ دینے کے بجائے سپریم کورٹ کے سابق ججز عوامی طور پر مقبول معاملا ت میں پھنسے رہے۔ اس سے ان کو تو شہرت مل گئی لیکن ملک بہت بڑے ریونیو سے محروم ہو گیا۔

تاہم صرف عدالتی فعالیت ہی نہیں بلکہ صاحبان اقتدار، صدر، وزیراعظم، اداروں کے سربراہان کے صوابدیدی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے کوتاہ بین فیصلے اور مضمر نتائج کے حوالے سے بے خبری کی وجہ سے پاکستان (جیسا کہ دسمبر2018ء میں ہوا) عالمی فورمز میں 3 درجن سے زائد کیسزمیں پھنسا ہوا ہے۔ ان کیسز میں آئی پی پیز کی طرف سے ایک ٹریلین کے واجبات کی ادائیگی کیلئے دائر کیس بھی شامل ہیں۔ حکومت، عدلیہ، قانونی برادری اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ دماغوں کیلئے یہی عرض ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا براہ راست تعلق ملک کے نظام اور اس کے چلانے والوں سے ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے بڑے فیصلہ ساز اپنے من پسند فیصلوں کے ساتھ لندن، نیویارک، آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں بیٹھے ہوں لیکن اس کی قیمت آخر ملک کے امیج اور عوام کے مفادات کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

امتیازگل
بشکریہ دنیا نیوز


پاکستان یا انڈیا : کلبھوشن کیس میں جیت کس کی ہوئی ہے؟

$
0
0

عالمی عدالت انصاف نے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کو پاکستان اور انڈیا اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد دی ہیگ میں پاکستانی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ کلبھوشن کی رہائی نہ ہونا پاکستان کی جیت ہے کیونکہ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کلبھوشن رہا نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کلبھوشن کے مقدمے پر نظر ثانی کی جائے اور ہماری ہائی کورٹ اس پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ عدالت نے کلبھوشن جادھو کو بری کرنے، رہا کرنے اور واپس بھارت بھیجنے کی بھارتی درخواست مسترد کر دی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور قانون کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھی ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’کمانڈر کلبھوشن جادھو پاکستان میں رہیں گے اور پاکستانی قوانین کے تحت ہی ان سے سلوک کیا جائے گا۔ اور یہی پاکستان کی جیت ہے۔‘ دوسری جانب انڈین میڈیا کلبھوشن تک قونصلر رسائی ملنے اور فیصلے پر نظر ثانی کے حکم کو لے کر اپنی فتح کے گیت گا رہا ہے اور پاکستان کو ’شکست‘ سے دوچار کرنے پر خوش ہے۔ انڈین چینلز نے بریکنگ نیوز چلائیں کہ عالمی عدالت انصاف میں انڈیا کو ’سنسنی خیز‘ فتح ملی ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی ٹویٹ کیا اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سچائی اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔ ’عالمی عدالت انصاف کو حقائق کے تفصیلی مطالعے کے بعد فیصلہ سنانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘ مودی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کلبھوشن کو انصاف ضرور ملے گا۔ ’ہماری حکومت ہر انڈین کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتی رہے گی۔‘ انڈین وزارت خارجہ نے فیصلے کو اپنے حق میں قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے جہاں کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا کہا ہے وہیں پاکستان کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا ہے۔ انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں فوری طور پر کلبھوشن تک قونصلر رسائی دی جائے۔

اردو نیوز نے برطانیہ میں مقیم بین الاقوامی قوانین کی ماہر عائشہ اعجاز خان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اس فیصلے سے کس کی فتح ہوئی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ’انڈیا نے عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن کی بریت، رہائی اور انڈیا واپسی کے لیے جو ریلیف مانگا تھا عدالت نے اپنے فیصلے میں اس کو مسترد کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس بنیاد پر پاکستان اپنی فتح کا دعوی کر سکتا ہے کہ پاکستان کے اس بنیادی موقف کو تقویت ملی ہے کہ کلبھوشن جادھو پاکستان میں جاسوسی کر رہا تھا اور دہشتگردی میں ملوث تھا۔ عائشہ اعجاز خان نے کہا کہ چونکہ عدالت نے کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا کہا ہے اور پاکستان کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرا کر انڈیا کو قونصلر رسائی دینے کا حکم جاری کیا ہے تو انڈین میڈیا کو بھی جشن منا لینے دیجیے۔

دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کی سابق لیگل ایڈوائزر رفعت بٹ کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر یہ کیس قونصلر رسائی کا تھا جس کا فیصلہ انڈیا کے حق میں آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ سماعت اور پھر اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر جو اعتراض کیا تھا وہ مسترد ہوا ہے تاہم عدالت نے انڈیا کی جانب سے کلبھوشن کی بریت، رہائی اور ملک واپسی کی اضافی استدعا کو مسترد کیا ہے۔ رفعت بٹ نے کہا کہ پاکستان کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کی ملٹری کورٹ کے فیصلے اورعدالتی ضابطہ کار کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے پہلے ہی کہا ہی تھا کہ کلبھوشن کی بریت اور رہائی کے حکم کے علاوہ کوئی بھی فیصلہ آئے وہ انڈیا کی ناکامی تصور ہو گا کیونکہ انڈیا نے بریت، رہائی اور وطن واپسی کے تین نکات پر کیس لڑا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں، بریت کی بھارتی درخواست مسترد کر دی گئی

$
0
0

ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف بھارتی اپیل پر فیصلہ پڑھ کر سنایا جب کہ اس کارروائی میں عالمی عدالت کا 15 رکنی فل بینچ بھی موجود تھا، بینچ میں پاکستان کا ایک ایڈ ہاک جج اور بھارت کا ایک مستقل جج بھی شامل تھا، اٹارنی جنرل انور منصور خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم فیصلہ سننے کے لیے دی ہیگ میں موجود تھی۔ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی بریت اور رہا کر کے بھارت کے حوالے کرنے سے متعلق بھارتی درخواست کو مسترد کر دیا، کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔ عالمی عدالت انصاف میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ اصلی قرار دیا گیا۔

جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں ممالک پورے کیس میں ایک بات پر متفق رہے کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے، بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی جب کہ پاکستان نے بھارتی مطالبے پر 3 اعتراضات پیش کیے پاکستان کا موقف تھا کہ جاسوسی اور دہشتگردی گردی کے مقدمے میں قونصلر رسائی نہیں دی جاتی اس لیے ویانا کنونشن کا اطلاق کلبھوشن کیس پر نہیں ہوتا۔ عدالت نے بھارت کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر تینوں پاکستانی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دے دی، فیصلے کے مطابق ویانا کنونشن اس کیس پر لاگو ہوتا ہے، ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا، آرٹیکل 36 میں جاسوسی کے الزام کی بنیاد پر قونصلر رسائی روکنے کی اجازت نہیں اس لیے کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان قونصلر رسائی دے۔

عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی آخری سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی، بھارتی وفد کی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل نے جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کی تھی۔ سماعت کے دوران بھارت کی طرف سے ہریش سالوے نے دلائل پیش کیے جبکہ پاکستان کی طرف سے خاور قریشی نے بھرپور کیس لڑا تھا۔ 18 فروری کو بھارت نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔ 20 فروری کو بھارتی وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے بھارتی وکلا کے دلائل پر جواب دیئے جب کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

پاکستانی معیشت : سخت فیصلے اور عوام الناس

$
0
0

پاکستانی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریسا ڈین سانچیز کا اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں یہ بیان حکومت ہی نہیں پوری قوم کے لئے انتہائی قابل توجہ ہے جس میں انہوں نے اندرونی اور بیرونی اقتصادی محاذوں پر کلیدی اصلاحات کے لئے پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت ہونے کے باعث قانون سازی کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ حکومت کو اس امر پر لازماً سوچنا اور حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔

ٹیریسا ڈین کا یہ تجزیہ حقائق کے عین مطابق ہے کہ پاکستان میں مالی وصولیوں کا 25 فیصد قرض چکانے پر خرچ ہو رہا ہے، ریاستی ملکیت میں کاروباری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں جبکہ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی کوشش سے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی نمائندہ خاتون نے مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے فنانشل ٹاسک فورس کے فیصلوں پر عمل کرنے پر زور دیا۔ یہ باتیں بالعموم ہر ذی شعور پاکستانی سمجھتا ہے لیکن اس وقت آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے قرضے کے عوض ملکی تاریخ کی سخت ترین شرائط قوم کے اعصاب پر مسلط ہیں۔

یہ حالات ایک ہی حکومت کے پیدا کردہ نہیں البتہ قیام پاکستان کی کم و بیش تین دہائیاں گزرنے کے بعد بگاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان حالات سے چھٹکارے کے لئے دل جمعی کے ساتھ متفقہ طور پر ایک ٹھوس پروگرام پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔ قوموں پر اچھے برے دن آتے رہتے ہیں اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جن قوموں نے اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحالی دینے کی خاطر مشکلات برداشت کیں اور سخت فیصلے کئے وہ سرخرو ہوئیں۔ تاہم حکومت وقت کا سخت فیصلوں میں غریب اور درمیانے طبقے کی پریشانیوں کالحاظ رکھنا اور انہیں حتی الامکان تکلیف سے بچانا بھی بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

عمران، ٹرمپ ملاقات، بڑا سفارتی چیلنج

$
0
0

اپنے شہرہ آفاق طنطنے اور چونکا دینے والے سیاسی ابلاغ کے حامل امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے خود اعتمادی سے بھرے پریشر فری وزیراعظم جناب عمران خان کی ملاقات ٹھہری ہے۔ خان صاحب کے اتحادی اور کابینہ کے بااعتماد چلبلے وزیر شیخ رشید تو پہلے ہی کہہ چکے کہ ’’دونوں ایک سے ہیں، اللہ خیر کرے‘‘۔ بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھنے والے بھی اس ملاقات کے حوالے سے کچھ ایسی ہی جملہ بازی کر رہے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ بہت احتیاط سے اور نپی تلی سفارتی انداز کی گفتگو کے عادی دونوں طرف کے سفارتکاروں کے دل دھڑک رہے ہوں گے کہ نہ جانے ہمارا لیڈر اس ملاقات میں کوئی بے وقت کا چوکا چھکا مارنے کے چکر میں گیم ہی نہ خراب کر دے کہ ایجنڈے خصوصاً امریکی اور پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ہماری کسی سفارتی کوشش کے بغیر خود امریکی صدر کی دعوت پر ہونے والی یہ ملاقات، دونوں ملکوں کے لئے اک بڑا سفارتی چیلنج ہے۔ 

عالمی اور اندرونی سیاست و حکومت کے حوالے سے ٹرمپ صاحب اچانک کچھ نہ کچھ ایسے لوڈڈ الفاظ یا جملے بول جاتے ہیں کہ اسے ان لوڈ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یوں وہ اپنے معمولی سے اور مختصر ترین بیان بازی پر بھی پورا میڈیا اپنی طرف لگا لیتے ہیں اور ردِعمل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس پر ڈٹ جاتے ہیں، ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سو یقین ہے بہتر دو طرفہ تعلقات کے لئے دونوں طرف کے پاپڑ بیلنے والے سفارتکار بھی شیخ رشید ہی کی طرح فکر مند ہوں گے کہ ان کے لئے ایسی ملاقاتوں کو اپنے اپنے حوالے سے بامقصد اور نتیجہ خیز بنانا بڑا سفارتی چیلنج ہوتا ہے۔ محتاط اندازہ یہی ہے کہ دونوں بےنیاز، بےباک اور اپنے موقف کے کامل درست ہونے کا یقین رکھنے والے پاکستان اور امریکہ کے انوکھے قائدین مطلوب بہتر دو طرفہ تعلقات کے لئے بہت کچھ بہتر ہی کریں گے یا اس کے برعکس قومی ضرورتوں پر شخصیت کا رنگ غالب آنے پر تعلقات کی نوعیت مزید پیچیدہ بھی ہو سکتی ہے۔ 

روایتی سی اور درمیانی راہ پکڑنے کے امکانات کم ہی معلوم دیتے ہیں، تاہم اسلام آباد کے لئے ٹرمپ، عمران ہونے والی ملاقات اس اعتبار سے زیادہ سازگار ضرور ہے کہ پاکستان ٹرمپ سے بھی پہلے دونوں اوباما انتظامیہ میں ہی امریکہ پر اپنی ضرورتوں کے انحصار کو کم کرتا کرتا مکمل مایوس ہو چکا ہے۔ اب تو یہ مایوسی، بے نیازی اور متبادل کی تلاش میں تبدیل ہوئے بھی کافی عرصہ گزر گیا اور یہ متبادل اس کی تلاش سے زیادہ خود پاکستان کی دوستی، تجدید تعلقات اور باہمی تعاون برائے مشترکہ مفادات میں پاکستان کے قریب ہو گئے اور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی امریکہ سے امیدیں ختم ہو چکیں، واشنگٹن نے بھی ایک عرصے تک پریشر سے پاکستان کے 100 ملین ڈالر کے خسارے اور 80 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد بھی اپنی امیدوں کے برآنے کی امیدیں لگائی رکھیں جو پوری نہ ہوئیں۔

 پاکستان پر جتنی دہشت گردی افغانستان سے ہوئی، اس سے بےنیاز ہو کر امریکہ نے پاکستان کے لئے فقط اپنی پالیسی’’ڈومور‘‘ ہی تک محدود رکھی، حالانکہ پاکستان نے وہ کچھ بھی کیا جو کرانے کے لئے چار سال تک امریکہ پاکستان پر مسلسل دبائو ڈالتا رہا لیکن شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن اس طرح اور اس وقت نہیں ہو سکتا تھا جب اور جیسے امریکہ اس کے لئے بیتاب تھا۔ وقت آنے پر اور حالات بڑے خطرے کے ساتھ قدرے سازگار ہونے پر پاکستان نے امریکی دبائو میں کمی ہونے کے بعد جب دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے از خود آپریشن کیا تو ایسا کیا جو خود امریکہ اور نیٹو اتحادی افغانستان میں نہ کر سکے۔
وزیراعظم عمران خان پاکستان کے وہ سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے کھل کھلا کر قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں سے بےگناہ انسانی جانوں کی ہلاکت کی مخالفت اور اس پر احتجاج کیا۔

آج وہ ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں تو شمالی وزیرستان پاکستان کے مین سٹریم میں شامل ہو چکا ہے اور وہاں عام انتخابات ہوئے چاہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اپنی سرزمین پر پرخطر لیکن ماہرانہ عسکری اقدامات سے اور افغانستان میں اپنے اثر کو ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے، دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادیوں کے لئے بھی ان کے قومی مفادات کے حصول کی راہ نکالی۔ بلاشبہ امریکہ اور اس کے سب اتحادی دہشت گردی سے جو خطرہ محسوس کرتے ہیں، امریکہ کے تمام اچھے اور مخلص دوستوں کو اس کی بیخ کنی میں امریکہ سے تعاون ہی کرنا چاہئے لیکن ایسے نہیں جیسے امریکہ ہرحال میں چاہتا ہے بلکہ ایسے جیسے پاکستان نے افغان سرزمین سے اپنی سلامتی پر ہونے والی مسلسل بھارتی دہشت گردی کے دروان بھی اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے انتہائی پُرخطر ٹھکانوں کو ختم کر کے، امریکہ کی افغانستان میں جائز ضرورتیں پوری کرنے میں مسلسل مدد کی جو طالبان سے کامیاب اور نتیجہ خیز ہوتے مذاکرات کی شکل میں امریکہ اور ساری دنیا نے دیکھیں، اگر اس میں بھی افغانستان میں گھسائے گئے بھارت کا کوئی مصنوعی رول مسلط کیا جاتا تو کیا دوہا مذاکرات ہو جاتے؟ کامیاب ہونا تو ایک طرف یہ ہوتے ہی نام۔ کلبھوشن کیس پر عالمی عدالتی فیصلے بھارت کی دہشت گردی کو مکمل بےنقاب نہیں کیا۔

دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی علاقائی سیاست کے منظر پر نئے اور سازگار حقائق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب امریکہ کے متبادل کی جانب بہت دور نکل گیا ہے تو امریکہ نے اپنے دیر آید کو خود درست آید بنانا ہے جو کہ بن تو سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ بہرحال ایک دوسرے کی بڑی ضرورت رہے ہیں اور رہیں گے لیکن اس کے لئے ہر دو کو نئے زمانے کی نئی (تلخ ہی سہی) حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ واشنگٹن کے پالیسی سازوں نے اس امر کا حقیقت پسندانہ اور وسیع تر جائزہ لینا ہے کہ امریکہ نے جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں جو پالیسیاں اختیار کیں۔ اس میں وہ ایران، پاکستان، ترکی میں اپنے روایتی اثر کو کھو بیٹھا۔ افغانستان میں اس کی مزید موجودگی محال ہے۔ تمام لینڈ لاکڈ سینٹرل ایشین اسٹیٹس علاقہ تا علاقہ رابطوں میں اپنا مستقبل تلاش کر رہی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان جیسے قابل قدر اتحادی سے ریمنڈ ڈیوس اور عافیہ صدیقی جیسے مسائل اور بحثیں پیدا کر کے اور بھارت کے افغانستان سے دہشت گردی کے آپریشنز پر چپ سادھ کر خطے نہیں خطوں سے کتنا دور کر لیا۔ دیکھنا ہے کہ اب ٹرمپ عمران ملاقاتیں، اس کے مداوے میں کیا رنگ دکھا سکتی ہیں۔ پلوں کے نیچے سے پانی تو بہت بہہ گیا اور بہے جارہا ہے۔

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ اشد ضروری ہے، آئی ایم ایف

$
0
0

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے قائم مقام ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کو حاصل ہونے والے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ناگزیر ہے اور سماجی ترقی کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل اسی طرح دستیاب ہو سکتے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آئی ایم ایف کے قائم مقام ڈائریکٹر ڈیوڈ لپٹن نے امریکا کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ  واشنگٹن میں ایک ملاقات کے بعد کہا کہ پاکستان کو اس وقت جتنی ضرورت ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافے کی ہے، اسے اتنی ہی ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں میں کمی بھی لائی جائے۔

عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈیوڈ لپٹن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ملاقات میں دونوں شخصیات نے ان حالیہ اقتصادی ترقیاتی پروگراموں پر بھی تبادلہ خیال کیا، جن پر پاکستان میں آئی ایم ایف کی مشاورت سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور جن کا مقصد پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔
ڈیوڈ لپٹن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقومی مالیاتی ادارے اسلام آباد حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ پاکستان میں جامع معاشی اصلاحات کے ان منصوبوں کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچایا جا سکے، جن پر عمل درآمد رکنا نہیں چاہیے۔

دوسری طرف پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے اور سرکاری بچتی اقدامات کی وجہ سے بے تحاشا عوامی دباؤ اور عدم اطمینان کا سامنا بھی ہے۔ ڈیوڈ لپٹن نے آئی ایم ایف کے جاری کردہ اس بیان میں کہا، ''میں نے اس ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اپنی آمدنی کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اسے اپنے ہاں سماجی بہتری اور ترقیاتی اخراجات کے لیے نہ صرف کافی مالی وسائل میسر آ سکیں بلکہ ساتھ ہی اسلام آباد کے ذمے واجب الادا بیرونی قرضے بھی کم کیے جا سکیں۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>