Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی دو روزہ ہڑتال

$
0
0

کیا آپ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر جانا پسند کرتے ہیں اور اس کے بغیر دن گزارنا مشکل لگتا ہے؟ اگر ہاں تو اگر کوئی آپ سے 48 گھنٹے کے لیے ان سے دور رہنے کا مطالبہ کرے تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا ؟ درحقیقت انٹرنیٹ کے معروف ترین انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کے شریک بانی ڈاکٹر لیری سانگیر نے سوشل میڈیا صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ رواں ہفتے 48 گھنٹے کے لیے ان نیٹ ورکس سے دوری اختیار کر لیں تاکہ ان کمپنیوں پر صارفین کے ذاتی ڈیٹا کے کنٹرول واپس دینے کے لیے دباﺅ ڈالا جا سکے۔ وکی پیڈیا کے شریک بانی نے 4 اور 5 جولائی کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس سے دور رہنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ تبدیلی کے لیے لوگوں کا دباﺅ ان کمپنیوں پر بڑھایا جا سکے۔

انہوں نے ایک بلاگ میں لکھا 'ہم اس حوالے سے کافی کچھ کرنے والے ہیں اور ہم سب مل کر ان بڑی کمپنیوں سے اپنے ڈیٹا کے کنٹرول کی واپسی کا مطالبہ کریں گے'۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں جتنے لوگ شامل ہوں گے، اس سے اندازہ ہوگا کہ کتنے زیادہ لوگ موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس سے بڑے سوشل نیٹ ورکس میں تبدیلیوں کے عمل کا آغاز ہو گا اور لوگوں کو اپنے ڈیٹا پر زیادہ کنٹرول مل سکے گا۔ جو لوگ اس ہڑتال کا حصہ بنیں گے انہیں ڈیکلریشن آف ڈیجیٹل انڈیپینڈنس پر سائن کا بھی کہا گیا ہے جو کہ وکی پیڈیا کے شریک بانی نے تیار کیا ہے۔ 

اس دستاویز میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آزاد رائے، پرائیویسی اور سیکیورٹی کے حقوق کا احترام کریں اور ڈی سینٹرلائز پالیسی اختیار کریں۔ اس ہڑتال کا چرچا ریڈیٹ، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر ہو رہا ہے اور کچھ حلقوں کی جانب سے دلچسپی کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ کچھ نے اس پر سوالات کیے ہیں۔ جیسے ایک صارف نے لکھا کہ چاہے ہر ایک اس ہڑتال کا حصہ بن جائے مگر روزانہ کے صارفین کی تعداد میں کوئی خاص فرق نہیں آئے گا۔

بشکریہ ڈان نیوز


فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک کالم

$
0
0

زائرہ وسیم چند دن قبل تک بالی وڈ کی اٹھارہ سالہ اداکارہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں جنہوں نے عامر خان کی فلم ’’دنگل‘‘ میں چھوٹی سی عمر میں کام کر کے عالمی شہرت کمائی لیکن اب اُنہوں نے اداکاری کی اُس زندگی کو خیرباد کہہ دیا جس کی چمک دمک نے بہت سوں کو اندھا کر رکھا ہے اور جو گمراہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ زائرہ وسیم نے دو دن قبل سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ وہ بالی وڈ اور فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ رہی ہیں کیونکہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کے باعث اُن کا ایمان خطرہ میں پڑ گیا اور ان کا اپنے اللہ سے رشتہ کمزور ہو گیا تھا۔ زائرہ وسیم نے اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اکائونٹس سے اپنی تمام تصاویر بھی ہٹا دیں۔ 

زائرہ نے یہ اعلان سوشل میڈیا اکائونٹس میں لکھے گئے اپنے ایک نوٹ کے ذریعے کیا۔ یہ نوٹ نہ صرف فلم انڈسٹری سے جڑے ہر فرد خصوصاً مسلمانوں کو ضرور پڑھنا چاہئے بلکہ یہ تحریر اُن عام مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے جو فلم میں کام کرنے والوں کو آئیڈیلائز کرتے اور فلم انڈسٹری میں کام کرنےکو بُرا نہیں جانتے۔ انگریزی میں لکھے اس نوٹ کا مکمل اردو ترجمہ تو اس کالم میں شائع کرنا تو ممکن نہیں لیکن اس کے کچھ حصوں کا مفہوم میں قارئین کرام کے لیے پیش کر رہا ہوں : زائرہ لکھتی ہیں کہ جیسے ہی اُنہوں نے بالی وڈ میں قدم رکھا اُن کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی، اُنہیں عوام میں بے پناہ توجہ ملنے لگی، ایسے لگنے لگا جیسے وہ بہت کامیاب انسان ہیں، اُنہیں نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ 

لیکن پانچ سال فلم انڈسٹری میں گزارنے کے بعد‘ زائرہ نے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرنا چاہتی ہیں کہ میں اس شہرت سے، اس کام سے خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دوران اُنہیں احساس ہوا کہ اگرچہ وہ انڈسٹری میں زبردست طریقے سے فٹ ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت میں اس فلمی زندگی سے اُن کا تعلق نہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ گو اُنہیں اس دوران بہت محبت ملی، لوگوں نے سپورٹ بھی کیا، ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی لیکن اس زندگی نے انہیں جہالت و گمراہی کے رستے پر ڈال دیا تھا کیونکہ وہ غیر ارادی طور پر اپنے ایمان سے دور ہو رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک ایسا کام جو ایمان سے دوری کا سبب بنے، اس سے جڑے رہنے سے اُن کا اپنے خدا سے تعلق خطرے میں پڑ گیا تھا۔ 

وہ لکھتی ہیں کہ اگرچہ میں اپنے آپ کو سمجھانے کو کوشش کرتی رہی کہ جو میں کر رہی ہوں وہ ٹھیک ہے اور اُس کا مجھ پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑ رہا لیکن حقیقت میں میری زندگی سے برکت ختم ہو گئی تھی، میں یہ بھی سوچتی رہی کہ اگرچہ یہ کام ٹھیک نہیں مگر میں مناسب وقت پر چھوڑ دوں گی، میں نے اپنے آپ کو ایک ایسی نازک پوزیشن پر لا کھڑا کیا جس کے سبب میرا سکون، ایمان اور میر اپنے اللہ سے تعلق کمزور پڑ سکتا تھا۔ زائرہ کہتی ہیں کہ میں فرار کے رستے تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کبھی اطمینان نہ پا سکی کہ جو کر رہی ہوں، وہ ٹھیک ہے تاوقتیکہ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی کمزوری کا مقابلہ کرنے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے قرآن پاک پڑھوں، قرآن پڑھتے ہی میرا دل پُرسکون ہو گیا.

میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے رحم اور ہدایت کی دعا مانگی اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار اور بے سکون رہی اور اس کوشش میں رہی کہ اپنی کھوکھلی دنیاوی خواہشات کے ذریعے سکون حاصل کروں۔ قرآن و حدیث کے مختلف حوالے دینے کے بعد زائرہ وسیم لکھتی ہیں کہ وہ آج فلم انڈسٹری سے علیحدگی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اُنہوں نے مزید لکھا کہ نجانے کتنے لوگ اُن سے متاثر ہوئے ہوں گے لیکن زائرہ نے سب کو نصیحت کی کہ کتنی ہی بڑی کامیابی، شہرت، طاقت یا پیسہ اس قابل نہیں ہو سکتا کہ اُس کی وجہ سے کوئی اپنے ایمان اور سکون کا سودا کر لے۔ 

وہ کہتی ہیں کہ اپنے آپ کو دھوکے میں مت رکھو بلکہ دین کے اصولوں پر قائم رہو۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایسے رول ماڈلز کے پیچھے مت بھاگو جو اللہ اور اُس کے احکامات سے دور کر دیں، ایسے افراد کو مت اجازت دو کہ تمہاری زندگی کے مقصد پر اثر انداز ہوں۔ ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے زائرہ وسیم لکھتی ہیں کہ مرنے کے بعد روزِ حشر انسان کو اُن افراد کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن کے ساتھ وہ دنیا میں محبت رکھتا ہو گا۔ (مفہوم حدیث) زائرہ نے اسلامی حوالوں سے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب کوئی اللہ کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے تکالیف دی جاتی ہیں، اُس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو ماضی میں ایسے فرد سے محبت کے دعویدار ہوتے ہیں۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے زائرہ لکھتی ہیں کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب اسلام پر عمل کرنا ایسے ہی ہو گا جیسے انگارہ ہاتھ میں تھام لینا۔ (مفہوم حدیث)

زائرہ نے اپنے اس طویل نوٹ کا خاتمہ اس دعا کے ساتھ کیا کہ اللہ ہمارے دلوں کو منافقت، تکبر، گمراہی سے پاک کرے اور ہماری نیتوں، ہمارے قول و فعل کو خالص فرمائے۔ آمین! میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ کہ زائرہ وسیم کو اپنے اس فیصلہ پر قائم رہنے کی استقامت اور اُن کو دنیا و آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائیں۔ آمین!

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

راہول گاندھی مستعفی، بھارتی سیکولرازم کو زوال یا کانگریس کو ؟

$
0
0

بھارت کی اہم سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت سے راہول گاندھی نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت میں سیکولرازم کی داعی یہی بڑی جماعت ہے اور گزشتہ دو انتخابات میں اس پارٹی کی مجموعی کارکردگی ناقص رہی ہے۔ بھارت میں یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ راہول گاندھی کے کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ دو انتخابات میں کانگریس پارٹی کی مجموعی کارکردگی سے عوام شدید مایوس دکھائی دیتے ہیں اور یہ مایوسی بھارت میں سیکولرازم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ راہول گاندھی نے مستقبل میں پارٹی کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے الیکشن میں ناکامی کے بعد احتسابی عمل کے تناظر میں پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

انہوں نے اپنے چار صفحاتی خط میں واضح کیا کہ دوسروں پر انتخابات میں شکست کی ذمہ داری عائد کرنے سے بہتر ہے کہ اس صورت حال کا بطور صدر وہ خود اعتراف کریں۔ انہوں نے پارٹی کی تشکیل نو کے لیے خود احتسابی کو اہم قرار دیا۔ راہول گاندھی رواں برس کے عام انتخابات میں اپنے پرانے حلقے کی نشست سے بھی ہار گئے تھے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے اُن کے والد مقتول راجیو گاندھی الیکشن جیتتے رہے تھے۔ اسی حلقے سے سابقہ انتخابات میں اُن کی والدہ سونیا گاندھی کو کامیابی ملی تھی۔ یہ اہم ہے کہ پارٹی کے مرکزی پالیسی ساز شعبے کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ابھی اس استعفے کو منظور کرنا ہے۔ دوسری جانب کانگریس پارٹی کے کئی اور اہم عہدیداران نے بھی مستعفی ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ریاست مہاراشٹر کے صدر اشوک چاوان نمایاں ہیں۔ چاوان کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو اپنے حصے کی ذمہ داری سنبھالنی ضروری ہے۔

ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی گاندھی کے استعفے کو مسترد کر دے گی اور انہیں قیادت سنبھالنے کی تلقین کرے گی۔ دوسری جانب اس کا بھی امکان ہے کہ رواں برس کے پارلیمانی انتخابات سے قبل عملی سیاست میں قدم رکھنے والی پریانکا گاندھی واڈرا کو راہول گاندھی کی جگہ نیا صدر مقرر کر لیا جائے۔ پریانکا گاندھی اس وقت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہیں یہ منصب رواں برس چار فروری کو سونپا گیا تھا۔ راہول گاندھی کے استعفے پر غور و خوص کے لیے کانگریس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کو طلب کرنے کی کوئی تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر راہول گاندھی اپنا استعفیٰ واپس لینے پر تیار نہیں ہوئے تو سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ورکنگ کمیٹی کے پاس تین راستے ہیں:

پارٹی کی قیادت کچھ عرصے کے لیے کوئی عبوری صدر سنبھال لے۔

پارٹی کی قیادت عبوری صدر کے بجائے چند افراد کے سپرد کر دی جائے تاوقتیکہ کوئی نیا صدر منتخب نہیں ہو جاتا۔

ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی جائے جو مستقبل کے سیاسی راستے کا تعین کرے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر ورکنگ کمیٹی کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر کانگریس ملک کے اندر نریندر مودی کے قوم پرستانہ رجحانات کی نفی کے لیے عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہتی ہے تو بھارت کے سیکولر تشخص پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ مودی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن میں عوام نے سیکولر قوتوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ڈالر، آسمانوں کو چھوتی امریکی کرنسی کی کہانی

$
0
0

ڈالر ہے تو امریکا کی کرنسی لیکن اسے دنیا کے بیشتر ممالک کی معیشت کا ’پیمانہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے ملک کی معیشت ہی کو دیکھ لیجیے، پچھلے کچھ عرصے سے تو اس کی گردان اس قدر ہے کہ قیمت بڑھنے کے ساتھ عوام کی سانسیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ڈالر ہے کیا، وجود میں کیسے آیا، یہ اتنا بااختیار کیسے ہے کہ دوسری کرنسیوں کو متاثر کرے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالوں کا جواب جاننے کے لیے شروع ہی سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈالر کا سفر تقریباً ڈھائی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ امریکا کی مشہور زمانہ انقلابی لڑائی کے خاتمے پر 1775 میں کانٹیننٹل کانگریس نے ملک کے لیے کاغذ کی کرنسی جاری کرنے کی اجازت دی لیکن اس کو ڈالر نہیں کہا جاتا تھا بلکہ اس کا نام کانٹیننٹل کرنسی رکھا گیا اس سے قبل سکے چلا کرتے تھے۔

اپریل 1792 میں کانگریس نے ملک بھر کے لیے ایک معیاری کرنسی کے طور پرڈالر تیار کرنے کی منظوری دی۔ یہ کانٹیننٹل کی ایک نئی قسم تھی، لیکن یہ دھاتی شکل میں تھا۔ ڈالر کی اصطلاح نوآبادیاتی دور سے موجود تھی جسے سپینش عام استعمال کیا کرتے تھے اور ’آٹھ ریئل کوائنز‘ کو ایک سپینش ڈالر کے برابر کہا جاتا تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ دراصل ڈالر کا آغاز سولہویں صدی میں ایک چھوٹے سے قصبے باواریا سے ہوا جہاں چاندی کے سکے چلتے تھے جس کو ’تھالر‘ کہا جاتا تھا جس کے معنی وادی کے ہیں اور چونکہ باواریا ایک وادی ہی تھی اس لیے یہ نام مشہور ہوا۔ یہ سکے اس حد تک چلے کہ جلد ہی پورے خطے تک پھیل گئے۔ اس وقت ملکوں کی سرحدیں آج سے مختلف تھیں آنا جانا آسان تھا اس سے کاروبار میں آسانی پیدا ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لفظ ’تھالر‘ ہی بعدازاں بگڑ کر ڈالر بنا۔

کچھ عرصہ تو یہ سلسلہ چلا لیکن پھر ہسپانوی سکے میدان میں آ گئے، تاہم دونوں قسم کے سکوں کے وزن میں فرق اور معیار کے حوالے سے شکایات سامنے آنے لگیں جب ان کی ویلیو وزن سے کم ہو جاتی تو بعض لوگ ان کو پگھلانا شروع کر دیتے، جس پر برطانیہ نے نوآبادیاتی کرنسی پر پابندی لگا دی۔
بہرحال امریکا میں 1775 میں متعارف ہونے والی کانٹیننٹل کرنسی دیرپا ثابت نہیں ہوئی، آسانی سے اس کی نقل تیار ہو جاتی اس لیے جنگ کے خاتمے کے بعد 1790 میں اس وقت کے صدر جارج واشنگٹن نے ایسی کرنسی متعارف کروانے کا سوچا جو معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ہو۔

اس حوالے سے کاغذی کارروائی اور طویل بحث کے بعد کانگریس کے ارکان اس نتیجے پر پہنچے کہ تھالر کو امریکا کی کرنسی کے طور پر اپنا لیا جائے، لیکن اس کے ڈیزائن اور وزن کے حوالے سے خود امریکا فیصلہ کرے گا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب جرمن لفظ ’تھالر‘ کو تبدیل کر کے ’ڈالر‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس حوالے سے بعدازاں مختلف ایکٹ بھی بنتے رہے، تاہم ڈالر کو جس اقدام سے بہت مضبوط کیا وہ کوائن ایج ایکٹ تھا۔ 1792 کو بنایا جانے والا یو ایس ڈالر 27 گرام چاندی پر مشتمل تھا۔ کچھ سال اسی طرح گزرے لیکن پھر 1861 میں امریکا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت امریکا کے پاس سکوں کی شکل میں دھاتوں کا زر تو تھا لیکن محدود تھا، انہی دنوں میں امریکی انتظامیہ نے کاغذ کے نوٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔

شروع میں اسے نقلی نوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن کچھ دوررس اقدامات کی وجہ سے اس پر قابو پا لیا گیا۔ حالات کچھ سنبھلے تو کاغذی کرنسی کے مزید ثمرات سامنے آنا شروع ہوئے اور کانگریس کے ایک رکن نے ایک مالیاتی ادارے کا تصور دیا جو بعدازں 1863 میں بینکنگ سسٹم کی شکل میں سامنے آیا۔ بعد ازاں فیڈرل ریزرو ایکٹ انی 1913 کے تحت ایک مرکزی بینک قائم ہوا جس کا مقصد بدلتی سیاسی صورت حال کے مطابق مالیاتی پالیسیاں بنانا تھا۔ ماضی میں ڈالر کی بنیاد چاندی کی قیمت پر تھی تاہم آج کل زیادہ ترکرنسیوں کی طرح ڈالر کی قمیت سونے سے منسلک ہے۔ 1816 میں برطانیہ کی جانب سے دو دھاتی نظام ترک کیے جانے کے تقریباً 20 سال بعد امریکا بھی یک دھاتی کلب میں آ گیا تاہم سرکاری سطح پر 1900 میں اس کا نفاذ کیا گیا۔ تب سے اب تک ڈالر مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ سے گزرتا رہا 1933 میں کساد بازاری کے دنوں میں ڈالراس حد تک گر گیا تھا کہ کچھ ملک اس سے کترانا شروع ہو گئے تھے، تاہم بعد کے ادوار میں ڈالر مستحکم ہوا۔ 

پاکستان اور ڈالر

پاکستان اور ڈالر آپس میں کس حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی پاکستان کی سیاست کا ایک اہم نکتہ ’ڈالر کا ریٹ‘ ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ایک سو ستاون روپے کے برابر ہے۔

جاوید مصباح 

بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد

ایران کا مخصوص حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کا اعلان

$
0
0

ایران نے اعلان کیا ہے وہ سنہ 2015 کے تاریخی معاہدے میں مقرر کی گئی حد سے زیادہ یورینیم کی افزودگی کرے گا۔ ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے کہا ہے کہ ایران ’کچھ ہی گھنٹوں میں‘ تاریخی معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے زیادہ یورینیم کی افزودگی شروع کر دے گا۔ سرکاری ٹی وی پر براہ راست خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صدر حسن روحانی کی جانب سے ’موصول ہونے والے حکم‘ کے مطابق کچھ آخری مراحل کی تکینکی معاملات طے پانے کے بعد آئندہ چند گھنٹوں میں اس کا نفاذ کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب ایران کے نائب وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران اب بھی معاہدہ بچانا چاہتا ہے تاہم انھوں نے یورپی ممالک پر عہد شکنی کا الزام عائد کیا۔ خیال رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پائے جانے والے جوہری معاہدے سے سنہ 2018 میں امریکہ پہلے سے نکل چکا ہے۔ جس کے بعد امریکہ نے ایران نے مزید سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس سے قبل ایران نے مئی میں یورینیم کی افزودگی میں اضافہ شروع کیا تھا، جو تیل کے کارخانوں کے علاوہ جوہری ہتھیار بنانے کے کام بھی آسکتی ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

اورنیٹل پرل ٹاور : جیسے پلیٹ میں موتی گر رہے ہوں

$
0
0

دنیا میں بہت سی عمارتیں اپنی فعالیت کے ساتھ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں جن میں سے ایک چین کے اہم مالیاتی اور صنعتی مرکز میں واقع ہے۔ برج مشرقی موتی یا اورینٹل پرل ٹاور کا نظارہ شنگھائی میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1991ء میں ہوا اور 1994ء میں یہ مکمل ہوئی۔ یہ ایک ریڈیو اور ٹی وی ٹاور ہے اور 1994ء سے 2007ء تک چین کا بلند ترین ٹاور رہا۔ بعدازاں شنگھائی ورلڈ فنانشل سنٹر نے اس پر سبقت حاصل کر لی۔ برج کی کل بلندی 1535 فٹ ہے۔ اس میں ریسٹورنٹ اور ہوٹل بھی ہیں۔ برج یوں دکھائی دیتا ہے جیسے پلیٹ میں موتی گر رہے ہوں۔ 

اس کی انوکھی صورت اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد اسے دیکھنے آتی۔ 13 اپریل 2010ء کو ٹاور کے بلند ترین انٹینا میں آگ بھڑک اٹھی تھی جسے فائر فائٹرز نے بجھا دیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ آگ لگنے سے قبل زبردست طوفان آیا تھا۔ برج کی بنیادوں میں ایک تاریخی عجائب گھر بھی ہے۔ اس کے ابتدائی حصے میں ایک خلائی شہر بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر پر 10 کروڑ ڈالر خرچ آیا اور اس کا کل وزن ایک لاکھ 20 ہزار ٹن ہے۔




وردہ بلوچ

ہر ماں ایک برہان پیدا کرے گی

$
0
0

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ کے عرصے میں تشدد میں اضافے کے سبب تقریباً 60 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سے شورش زدہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کو نقصان پہنچا ہے جبکہ انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اس خطے پر دعویٰ کرتے ہیں۔ کشمیر کے ایک شخص عبدالرحمان میر ایک گولی کو اپنے ہاتھ میں لے کر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’اس گولی نے میرے بیٹے کی جان لی ہے۔‘ انھوں نے مجھے بتایا کہ پولیس نے دارالحکومت سری نگر میں ان کے گھر پر ایک ماہ قبل چھاپہ مارا تھا۔ ’انھوں نے کھڑکیاں توڑ دیں اور آنسو کے گولے چھوڑے۔‘ انھوں نے دستی بم کے ٹکڑوں کو اپنے بیٹے کے خون سے آلودہ ایک رومال میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا: ’وہ میرے بیٹے کو گھسیٹ کر لے گئے۔ ہم پہلی منزل پر ایک کمرے میں تھے اور انھوں نے اسے باغیچے میں لے جا کر گولی مار دی، اور وہ وہیں مر گیا۔‘ ریاستی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس جب سنگ باری کرنے والے نوجوانوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو شبیر احمد میر اسی میں مارے گئے۔ جب ہم میر کے والد سے باتیں کر رہے تھے اس درمیان باہر سے دھیمی آوازیں آ رہی تھی اور پھر نعرے تیز ہوتے گئے۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ بی بی سی والے وہاں آئے ہیں تو کرفیو کی پروا کیے بنا مزید لوگ جمع ہو گئے۔ ایسے حساس علاقے میں دن کے وقت بھی لوگوں کا باہر نکلنا بند ہے۔ وہ ’آزادی، آزادی‘ کا نعرہ بلند کرنے لگے۔

سچی بات ہے کہ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں ایک ایسے گھر میں موجود تھا جو پرپیچ گلیوں کے درمیان واقع تھا۔ گھر کے باہر مشتعل بھیڑ تھی جبکہ باہر پولیس نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ ہجوم کا غصے انڈیا کے خلاف تھا اور وہ ’انڈیا واپس جاؤ‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ جب برطانیہ نے سنہ 1947 میں انڈیا چھوڑا تو مسلم اکثریتی کشمیر ہندوستان کا حصہ بن گیا اور اس کے بعد سے آبادی کا بڑا حصہ آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ جب ہم نیچے اترے تو نعرے لگانے والے عزت کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ہمیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہوا اور یہ پوچھ رہے تھے کہ وہاں جاری بدامنی کو عالمی میڈیا زیادہ توجہ کیوں نہیں دے رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلے کشمیر کی شورش بڑی خبر ہوا کرتی تھی۔

اس سرسبز و شاداب وادی پر جوہری طاقت کے حامل دو ممالک انڈیا اور پاکستان کا دعویٰ ہے۔ انھوں نے اس کے لیے دو جنگیں لڑی ہیں اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ فوج زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ تصادم میں اضافے کے خطرات ابھی کم نہیں ہوئے ہیں لیکن دوسرے مسائل جیسے 11/9 اور اس کے بعد ہونے والی جنگ، دولتِ اسلامیہ کے عروج، شام کی جنگ، امریکہ اور یورپ میں دہشت گردی جیسے مسائل نے کشمیر کو کسی حد تک پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ تشدد میں حالیہ اضافہ نوجوان جنگجو برہان مظفر وانی کی ہلاکت کا نتیجہ ہے۔ اس 22 سالہ نوجوان کی کشمیر کے غیر متاثر نوجوانوں میں سوشل میڈیا پر زبردست فالوونگ تھی۔

برہان کی موت پولیس کے ساتھ تصادم میں آٹھ جولائی کو ہوئی تھی۔ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ آیا انڈین حکام نے دانستہ طور پر اسے نشانہ بنایا تھا لیکن یہ بات انھیں ضرور معلوم تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ موبائل فون نیٹ ورک بند کر دیا گیا، کرفیو نافذ کر دیا گیا، اور مزید فوجی کمک پہنچائی گئي۔ اور ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد اب بھی انڈیا تشدد پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ دو نوجوان سر اور چہرے پر کپڑے لپیٹے، جس میں دیکھنے کے لیے دو سوراخ ہیں، وہ پولیس کی طرف پتھر پھینکتے ہیں۔ میں شام کے دھندلکے میں بچنے کے لیے بھاگتا ہوں لیکن پولیس اہلکار پتھر کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی ڈھال سے روک دیتا ہے اور ایک دوسرا طاقتور غلیل نکال کر پتھر کو واپس پھینکتا ہے۔

کمانڈر راجیش یادو ہمیں مطمئن کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ’یہ انھیں خود سے دور رکھنے کے لیے ہے۔‘ لیکن جو بھی ہو اس سے حقیقی نقصان پہنچتا ہے۔ شہر کے صدر ہسپتال میں ایک پورا وارڈ ہے جس میں نوجوان دھوپ کے چشمے لگائے ہوئے ہیں اور یہ چشمے بہت سے خوفناک زخم کو چھپائے ہوئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا: ’چھوٹے چھوٹے چھروں نے آنکھوں کو نقصان پہنچایا ہے اور درجنوں کی بصارت جانے کا خطرہ ہے۔‘ ہجوم کو کنٹرول کرنے کے انڈیا کے جابرانہ انداز کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، لیکن تشدد کی لہر کو پیش نظر ان کے پاس زیادہ متبادل راستے بھی نہیں۔ انڈیا نے کشمیر میں بہت زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور سخت گیر علیحدگی پسندوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 

دریں اثنا اس بات پر بضد ہے کہ آزادی بات چیت کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی۔ انڈیا کی حکمت عملی یہ ہے کہ مزید پولیس اور فوج کو وہاں تعینات کیا جائے اور اس وقت تک رکھا جائے جب تک مظاہرے اپنی موت آپ نہ مر جائیں۔ پہلے یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے لیکن یہ خطرناک ہے۔ جب رات ہونے لگی تو آخری نوجوان بھی تاریکی میں گم ہو گيا، لیکن یہی منظر کل دوبارہ دہرایا جائے گا۔ میں نے ایک تھکے ہارے پولیس اہلکار کو اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف واپس جاتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے سنا : ’ہر ماں ایک برہان پیدا کرے گي۔‘

جسٹن رولٹ
بی بی سی نامہ نگار برائے جنوبی ایشیا

بشکریہ بی بی سی اردو


پاکستان میں مزید ٹیکس جمع کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، آئی ایم ایف

$
0
0

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور ٹیکس محصولات بڑھانے جا رہی ہے۔ پاکستان میں پچھلے ایک سال کے دوران لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس رجحان میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ حکومت کو لوگوں سے مختلف ٹیکسوں کی مد میں پیسہ نکالنا ہے جبکہ عوام کو دی جانے والی مراعات میں کمی لانی ہو گی۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے حوالے سے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدامات حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین سالہ سمجھوتے کا اہم حصہ ہیں، جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ارنیسٹو رامیریزریگو کے مطابق فنڈ کی طرف سے پاکستان کو دیے جانے والے اہداف سخت ضرور ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان نے ان پر پوری طرح کاربند رہنے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ کانفرنس کال میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا رہا تو وہ اپنے قرضوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے لیے حکومت کو کڑے مالیاتی فیصلے کرنا ہوں گے، جن میں ٹیکس آمدنی بڑھانا اولین ترجیح ہے۔ پاکستان میں ناقدین کا کہنا ہے کہ مشکل معاشی حالات میں حکومتی فیصلے غربت اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

حزب اختلاف کے مطابق حکومت امیروں اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جبکہ متوسط اور غریب طبقے پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں کٹوتیاں کر رہی ہے، وہاں اسے غیر ضروری فوجی اخراجات میں بھی نمایاں کمی پر بھی غور کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی آئی اے، اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے قومی اداروں کی نج کاری پر بھی اتفاق کیا ہے۔ فنڈ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اس کی بتائی ہوئی اصلاحات پر عملدرآمد کرتا ہے تو اسے دنیا بھر کے دیگر اداروں سے اڑتیس ارب ڈالر تک کے قرضے مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے پالیسی کا تسلسل اور اس پر عملدرآمد لازمی ہے۔

پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے سے پہلے ہی ایسے اقدامات شروع کر دیے تھے، جن سے معیشت سست روی کا شکار ہوتی نظر آنے لگی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گرتی گئی جبکہ شرح سود میں اضافہ ہوا۔ بجٹ کا خسارہ بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کا سات فیصد ہو چکا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر بمشکل آٹھ ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
 


پرل ہاربر پر حملہ کیسے ہوا ؟

$
0
0

ستمبر 1941ء کے پہلے دو ہفتوں میں جاپان کے بڑے بڑے بحری افسر ٹوکیو کے بحری کالج میں جمع ہوئے تاکہ جزائر ہوائی پر حملے کی تدابیر کے متعلق گفتگو کر لیں۔ پانچ اکتوبر کو جاپان کا منصوبہ منتخب طیاروں کے پائلٹوں کو بتا دیا گیا۔ پانچ نومبر کو ایک حکم جاری ہوا۔ اس میں حد درجہ خفیہ کارروائی کے لیے تیار رہنے کا ذکر تھا۔ دو روز بعد دوسرا حکم پہنچا کہ پرل ہاربر پر حملہ منظور ہے۔ بہتر جنگی جہازوں کا ایک بیڑا نائب امیر البحر چوئیچی ناگومو کے زیر سرکردگی بھیجا گیا۔ اس بیڑے میں دو بڑے جنگی جہاز، دو بھاری کروزر، ایک ہلکا کروزر، چھ طیارہ بردار جہاز، 25 آبدوزیں، 16 تباہ کن جہاز اور بہت سے چھوٹے سفینے شامل تھے۔ یہ طاقت ور بیڑا خلیج تنکان (جزائر کوریل) سے 25 نومبر 1941ء کو روانہ ہوا اور اسے حکم دے دیا گیا کہ جو بھی جہاز راستے میں ملے، اسے ڈبو دیا جائے۔ 

تین دسمبر کو اس بیڑے نے سمندر ہی میں کوئلہ اور پٹرول لیا۔ یہ خفیہ پیغام نشر کیا گیا؛ ’’مشرقی ہوائیں، بارش ہو رہی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکا میں جاپانی سفارت خانے یا قونصل خانوں کے جتنے آدمی اور کارندے موجود ہیں، وہ اپنے تمام کاغذات تباہ کر ڈالیں۔ بیڑے کے مختلف اجزا کو پرل ہاربر کے شمال مغرب میں ملنا تھا۔ چنانچہ چار دسمبر کو یہ کام پورا ہو گیا۔ پانچ دسمبر کو ریڈیو کے ذریعے سے پیغام آیا؛ ’’نائی ٹاکا پہاڑی پر چڑھ جاؤ۔‘‘یہ پیغام حملہ آور جاپانی بیڑے کے لیے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پرل ہاربر پر حملے کا حکم آخری و قطعی اور غیر متبدل ہے۔ چنانچہ یہ بیڑا پوری تیزی سے پرل ہاربر کی طرف بڑھا۔ دیکھ بھال کے لیے طیارے اِدھر اُدھر پرواز کرنے لگے۔ آبدوزوں کو حکم مل گیا کہ جہاں کوئی امریکی جہاز بیڑے سے باہر نکلتا ہوا پائیں، اسے روک لیں۔ 

اسی اثنا میں 13 امریکی طیارے (بی 17) ہیملٹن فیلڈ، کیلی فورنیا سے چھ دسمبر کو اڑے تھے اور ہوائی کے شمال مشرق میں تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر تھے۔ عین اسی وقت جاپانی طیارہ برداروں سے دو سو ساٹھ طیاروں کا پہلا جھنڈ اڑا۔ سات بجے سے کچھ ہی پہلے دو امریکی اپنے ریڈار کو اوا آہو کی شمالی ڈھلان کی طرف حرکت دے چکے تھے۔ پردے پر طیاروں کا ایک بہت بڑا جھنڈ معلوم ہوا، جو تقریباً 137 میل کے فاصلے پر تھا۔ نصف گھنٹہ بعد ان بادلوں میں سے ایک سو نواسی جاپانی بمبار گرجتے ہوئے نمودار ہوئے۔ اس حیرت انگیز حملے کا پسِ منظر یہ ہے کہ جاپان اور امریکا کے درمیان تعلقات رفتہ رفتہ بگڑتے جا رہے تھے۔ 

جاپان پہلا ملک تھا جس نے علاقائی توسیع کے پروگرام پر عمل شروع کیا۔ 1931 میں منچوریا پر جاپانی حملے سے جابرانہ اقدامات کا وہ سلسلہ حرکت میں آیا، جو دوسری عالمی جنگ کا موجب بنا۔ 25 نومبر 1936ء کو جاپان نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ کمیونسٹوں کی مخالفت کے معاہدے پر دستخط کیے۔ آئندہ موسم گرما میں چین کے اندر وسیع فوجی کارروائیاں شروع کر دیں۔ اگرچہ متعدد بڑے بڑے چینی شہر قبضے میں لے لیے لیکن جاپان چینی دلدل میں پھنس چکا تھا اور پورا ملک مسخر کر لینے میں ناکام رہا۔ اس بے اعلان جنگ سے عزت مندانہ طریق پر باہر نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرنا ضروری تھا۔ 1939ء میں یورپ کے اندر جنگ چھڑ گئی تو جاپان کو زریں موقع ہاتھ آ گیا کہ نہ صرف چین ہی کے معاملے کو کسی اجنبی طاقت کی مداخلت کے بغیر ختم کر دے بلکہ اس نے جنوب کی جانب توسیع کا سلسلہ بھی شروع کرنے کی ٹھان لی۔ 

جاپان کے سامنے دو بڑے انعام تھے، ایک فرانسیسی ہند چینی، جو چاول، کوئلے اور ٹن کا مرکز تھا۔ دوم ولندیزی شرق الہند، جہاں سے تیل، ٹن اور ربڑ ہاتھ آ سکتے تھے۔ برطانیہ مشرق بعید کا روایتی نگہبان تھا لیکن اسے نازی فیوہرر (ہٹلر) سے خوف ناک مقابلہ پیش آ گیا تھا۔ ولندیزی اور فرانسیسی جلد نازیوں کے زیر اقتدار چلے گئے۔ وہ ایشیا میں اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ امریکا زیادہ تر یورپی معاملات میں الجھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ جاپانی حکومت میں موجود عسکریت پسندوں کے لیے یہ نہایت مبارک موقع تھا جس سے کام لے کر وہ مشرقی ایشیا میں مزید علاقوں کو ہتھیا سکتے تھے۔ یقینا جاپان کے اندر وسیع اقتصادی بدحالی پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن عسکریت پسند کہتے تھے کہ توسیع کے پروگرام پر عمل جاری رہے۔

امریکا اس توسیع کے پروگرام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے چین میں کھلے دروازے (اوپن ڈور) کی پالیسی اپنائے رکھنے کا وعدہ کر لیا تھا اور 1922 میں نو طاقتوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی طے ہو چکا تھا کہ چین میں آزادی نیز انتظامی اور علاقائی سالمیت کو قائم رکھا جائے گا۔ مزید برآں امریکا کو جاپان کی بحری اور فضائی قوت کی نشوونما ناپسند تھی ۔ چین کے خلاف جو وحشیانہ جنگ شروع کی گئی تھی، اس سے نفرت تھی۔ رفتہ رفتہ امریکا اور جاپان کے درمیان اقتصادی جنگ کی سرگرمی بڑھ گئی اور آپس میں رنج و غصہ پیدا ہو گیا۔ 1938ء میں حکومت نے صنعت کاروں کو امریکی ہوائی جہاز جاپان کے ہاتھ فروخت کرنے کی ممانعت کر دی۔ 

جولائی 1939ء میں واشنگٹن نے 1911ء کا امریکی و جاپانی معاہدہ منسوخ کر دیا جس سے جاپانی تجارت متاثر ہوئی۔ 26 جولائی 1940ء میں روز ویلٹ نے امریکا میں جاپان کا پورا راس المال کاروبار سے خارج کر دیا۔ برطانوی دولت مشترکہ کی قوموں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ پھر صدر روزویلٹ نے برآمد پر نظم و ضبط کا قانون منظور کرایا اور جاپان کو مشینوں کے اوزار، کیمیائی چیزوں اور جنگی سامان دینے کی ممانعت کر دی۔ پھر اے بی سی ڈی (امریکا، برطانیہ، چین اور ولندیزی شرق الہند) طاقتوں نے ناکہ بندی کر دی اور جاپان جو جنسیں درآمد کرتا تھا، ان میں 75 فیصد کمی ہو گئی۔ جاپانی عسکریت پسندوں نے غیظ و غضب سے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بڑی سرگرمی سے جنگی تیاریوں کا آغاز ہو گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ملا کر ایک جماعت بنا دیا گیا۔

وزیراعظم کونوی امریکا سے کوئی نہ کوئی تصفیہ کر لینا چاہتا تھا۔ وزیر جنگ جنرل ٹوجو نے اسے انتباہ کر دیا کہ ایسی گفت و شنید جاری رکھنا، جس سے کوئی نتیجہ نہ نکلے، برا ہو گا۔ اس طرح جنگ کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وسط اکتوبر 1941ء میں پرنس کونوی نے اعتدال کی پالیسی کے لیے کوششیں ترک کر دیں اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کی جگہ جنرل ٹوجو نے اپنی نئی کابینہ میں بحری اور فوجی افسر شامل کر لیے۔ امریکا کے خلاف زبردست مہم شروع کر دی گئی اور آخر کار پرل ہاربر پر حملہ ہو گیا۔

لوئس ایل سنائیڈر

بشکریہ دنیا نیوز

دنیا کی بلند ترین پہاڑیوں پر چڑھنے میں کیا خطرات ہوتے ہیں

$
0
0

دنیا کی بلند ترین پہاڑیوں پر چڑھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ سطح سمندر سے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچنے کا ایک مطلب ہوتا ہے کہ آپ موت کی وادی میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہاں آکسیجن خاصی کم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما بلند و بالا چوٹیوں کو سرکرنے سے باز نہیں آتے۔ اگر اسے سیاحت کا نام دیا جائے تو یہ دنیا کی سب سے خطرناک سیاحت ہے۔ کوہ پیما کوشش کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی 14 کے قریب بلند ترین پہاڑیوں کو سر کر لیں۔ یہ سب ایشیا کے کم و بیش وسط میں واقع ہیں۔ ان میں سب سے بلند ماؤنٹ ایورسٹ ہے جس کی بلندی 8,848 میٹر ہے اور یہ نیپال اور چین میں واقع ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کرنے والے 16 میں سے 11 کوہ پیما ہلاک ہو گئے تھے۔ یہاں ہلاکتوں کی شرح 6 فیصد ہے۔ 

دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ہے جو پاکستان میں واقع ہے اور 8,611 میٹر بلند ہے۔ کے ٹو سر کرنے والوں میں موت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے بلند ترین مقام پر پہنچنے کی کوشش کرنے والا ہر چوتھا فرد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ نیپالی چوٹی اناپورنا دنیا کی دسویں بلند ترین چوٹی ہے اور اسے سر کرنے والوں میں ہلاکت کی شرح 33 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ کنگچن جونگا (8,586 میٹر) ہے جو نیپال اور انڈیا کی سرحد پر واقع ہے۔ اسے سر کرنے والا ہر پانچواں یا چھٹا کوہ پیما ہلاک ہو جاتا ہے۔ نانگا پربت بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ یہ نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ اسے سر کرنے والوں میں ہلاکت کی شرح 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

محمد شاہد

صدر ٹرمپ کے نفسیاتی مسائل

$
0
0

برطانوی سفیر سر کم ڈیروک نے اپنی افشا ہونے والی ای میلز میں ٹرمپ انتظامیہ کی عدم قابلیت اور کسی بہتری کی امید نہ ہونے کے یقین کا اظہار کیا ہے۔ ان ای میلز نے دراصل اس بنیاد پر وار کیا ہے جس کی وجہ سے موجودہ صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے۔ ان کا شیخی بگھارتا مسکراتاچہرہ ریٹنگ حاصل کرنے کی کوشش ہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ عوام میں ان کی ناکامیوں کو لے کر پائے جانا والا رویہ بالکل اس والد کی طرح ہے جو یہ کہتا ہے ’میں بہت مایوس ہوا ہوں۔‘ یہ عدم تحفظ کا شکار اس بچے کو مزید غم ناک کر دیتا ہے کیونکہ یہ اس کی متاثر نہ کر سکنے کی صلاحیت کا اعلان ہے، لیکن ٹرمپ تو ہر قیمت پر یہی چاہتے ہیں کو وہ لوگوں کو متاثر کر سکیں۔

جب کوئی اداس ہوتا ہے، جب کوئی ان کی صداقت، ایمانداری اور ذاتی زندگی میں بھی ان کی عزت نہیں کرتا تو وہ اپنی ہی خیالی دنیا میں دوسروں کو ناکام قرار دے کر اپنی ناکامی کو چھپاتے ہیں۔ نرگسیت کے شکار لوگوں کے لیے یہ کلیہ آزمودہ اور مشترکہ ہے۔ اپنی ناپسندیدہ عادات کو ان لوگوں سے منسوب کرنا جو آپ کو ناکام محسوس کرواتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ ایسی خصوصیات منسوب کرنا جو بہت باوقار اور مثبت ہوں۔ کیا سر کم ڈیروک کے بارے میں ٹرمپ کا ردعمل ایسا ہی نہیں ہے؟ امریکی صدر کہتے ہیں: ’ وہ سنکی سفارت کار جو برطانیہ نے امریکا بھیجا ہے ہم اس سے بالکل خوش نہیں۔ وہ ایک بے وقوف انسان ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ بہت بڑے احمق ہیں۔ انہیں بتا دیں کہ امریکہ اس وقت دنیا کی بہترین معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ جناب صدر، آپ کا شکریہ۔‘

آپ نااہلی کو نظرانداز کر دیں، انا کی دوبارہ تشکیل کریں اور میری ظاہری کامیابیوں کو دیکھیں۔ یہی امریکی صدر کا طریقہ کار ہے اور یہ امریکی ثقافت کی علامت بن چکا ہے۔ ہمارے موجودہ صدر کا 1990 کی دہائی کا انٹرویو پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت نیویارک میں رئیل سٹیٹ کے کاروباری انسان کا یہ انٹرویو نفسیاتی تحقیق کے لیے بہت دلچسپ ہو سکتا ہے۔ وہ باقی اقوام کو ’انا پسندی‘ کے معاملے میں امریکہ سے برتری رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر جاپان، جرمنی، سعودی عرب اور جنوبی کوریا اور وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری مشترکہ’ قومی انا‘ ان تمام اقوام سے زیادہ ہونی چاہیے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ان کے لیے کتنی ضروری ہے اور اس کو بلند آواز اور مشہور ہونا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ غیر یقینی اور کامیابی کے درمیان ڈولتے ہوئے اپنے والد فریڈ ٹرمپ کی بات کرتے ہیں۔’ میں جان بوجھ کر بہت سے لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتا۔ یہ میرے لیے کوئی منفی نہیں بلکہ مثبت بات ہے۔ یہ میں نے فریڈ سے سیکھا ہے۔ میں ان کا احسان مند ہوں۔ وہ ایک مطمئن انسان بھی ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘ قیادت کے بارے میں ٹرمپ کے خیالات ان کے والد سے متاثر ہیں جو کہ غلبے پر مبنی ہے احساس پر نہیں۔ وہ کہتے ہیں:’ میں چاہتا تھا کہ میں اپنے والد اور باقی افراد کو یہ ثابت کروں کہ میں ایک کامیاب انسان ہوں۔ مجھ میں اپنے دم پر کامیاب ہونے کی صلاحیت ہے۔ میرے والد ایک سخت گیر والد تھے جو فضول بات نہیں سنتے تھے لیکن انہوں نے مجھے کبھی مارا نہیں۔ وہ رکھ رکھاو سے چلتے تھے طاقت کے بل بوتے پر نہیں۔‘

کوئی رکھ رکھاو سے کیسے سختی کر سکتا ہے؟ نفسیاتی تشدد بعض اوقات شفقت کے پردے میں ہی کیا جاتا ہے جو جذباتی زخموں کے انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’انہوں نے مجھے کبھی مارا نہیں۔‘ یہ کئی رشتوں میں نفسیاتی اور جذباتی تشدد کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مقصد درد کو جھٹلانا تھا کیونکہ درد اس معاملے میں کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ساتھ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ان کے ایسا ہونے میں ان چیزوں نے کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس کی گہرائی میں کیا بات پوشیدہ ہے، جو غیر محسوس انداز میں دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ نامکمل ہے اور جو نظر نہیں آرہا وہ موجود ہی نہیں ہے۔
یہ غیر حقیقی مطالبات اس بات کو حقیقت تسلیم کرنے تک جاری رہتے ہیں۔ کسی انسان کے پاس دولت کی مقدار کو اس کی کامیابیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان تمام اثاثوں کو اس کامیابی کا حصہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے امریکا میں کامیابی کا مطلب دکھاوا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے معاشرے پر تھوپے جانے والے یہ غیر حقیقی خیال دردناک اور منفرد ہے جو ٹرمپ خود پر بھی طاری کر رہے ہیں۔ ہر طرح سے توجہ حاصل کرنے کی ان کی کوشش ان کے بچپن کی چوٹوں کی یادگار محسوس ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص اور کوئی بھی خیال بغیر کسی تعمیری شکل کے قبولیت اور محبت کے قابل نہیں سمجھا جاتا اور اسے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی خطرہ رہتا ہے۔
بہتر ہے کہ اچھا تعلق قائم کیا جائے جو باہمی احترام پر مبنی ہو۔ ایک کوشش کی جا رہی ہے کہ ہر سماجی نزاکت اور معاشری قدروں کو تہہ و بالا کر دیا جائے کیونکہ آپ کے قدموں کے نیچے سے قالین کھینچے جانے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔

ان کی جانب سے مسلسل عمل کیا جانے والے اصول کہ ہر صورت میں کامیابی ہی ضروری ہے ایک ایسے فرد کی ضد ہے جو متوقع ہار قبول کر کے نہیں رہ سکتا۔ وہ کتنا کمزور انسان ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ درد محسوس نہیں کرتا۔ یہ کمزوری ان کی اںا پسندی میں بھی برابر نظر آتی ہے۔ آپ کی انا جتنی زیادہ ہو گی آپ اتنے ہی کمزور انسان ہوتے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بہت ذاتی انداز میں شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ پھر جس انداز میں جس شدت اور جلد بازی کے ساتھ اس کا جواب دیا جاتا ہے اس کا مقصد صرف خود کو طاقتور ثابت کرنا ہے۔ یہ ایک اور وجہ ہے اس اجتماعیت کی جس کی ٹرمپ بار بار بات کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے انٹرویو میں تیاننمن سکوائر کی بات کرتے ہیں اور حکومتی تشدد کو ’طاقت‘ کہتے ہیں۔

یہ بالکل بھی حیران کن نہیں۔ ان کی نظر میں اپنی ذات کا صرف یہ تصور ہے کہ جو بھی اس کی مخالفت کرے اسے مکمل طور پر مٹا دو۔ آمروں اور جابر حکمرانوں کے لیے ان کی پسندیدگی مکمل کنٹرول کی وجہ سے ہے جو وہ کبھی اندرونی طور پر نہیں کر سکتے۔ ان کا لڑاکا رویہ، ان کی ٹویٹس، ان کی تقریریں سفید فام برتری اور تشدد بھڑکانے کے کام آرہی ہیں۔ یہ ایسے ہتھیار ہیں جو ہماری قوم کی تشکیل کے وقت سے ہی طاقت اور اختیار حاصل کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ غفلت پر مبنی زہریلا تصور ہے کہ اگر اختیار دکھائی نہیں دے رہا تو وہ موجود ہی نہیں ہے۔ جو تمام سلطنتوں اور اناؤں میں ایک چھید کر دیتا ہے جو کہ ایک غیر محفوظ صورتحال ہے۔

ٹرمپ ہمارے وقتوں میں اس کی علامت نہیں بلکہ وہ ثقافت اور بادشاہت کے اس صدمے کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ وہ سرمایہ دارنہ نظام کا چلتا پھرتا وجود ہیں۔ جہاں لوگوں سے زیادہ منافعے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہماری ثقافت بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہماری کامیابی کو مادی پیمانے سے دیکھتی ہے۔ آپ اتنی ہی قدر رکھتے ہیں جتنی آپ بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ حاصل کریں اور دنیا کو دکھائیں۔
ٹرمپ کا امریکہ صنعت اور منافعے کے عشق میں اس حد تک مبتلا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کو بھول چکا ہے۔ یہ ایسا امریکہ ہے جو جب ہمارے بچوں کو گولی ماری جاتی ہے تو صرف لاپروائی سے کندھے اچکاتا ہے۔

جو محفوظ رہنے کے احساس کو سکول میں پڑھنے سے زیادہ اہم مانتا ہے۔ یہ امریکہ جو خود کو دنیا کی عظیم ترین قوم کہتا ہے وہ بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے میں بھی ناکام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ حقیقت کے بغیر صرف تاثر پر مبنی ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ ہمیں اس سے بڑھ کے سوچنا ہو گا۔ یہی سوچ اس نظام کے لیے بددعا جیسی ہے۔ یہ سوچ زور دیتی ہے کہ کوئی ہے جو اختیار رکھتے ہوئے بھی بہتر ہے۔ ایک بہتر ملک اور بہتر دنیا کا خواب ہی ٹرمپ کے امریکہ کو منہدم کر سکتا ہے۔ یہ ایک بے رحم اور شفاف باطنی مشاہدے کا متقاضی ہے۔ ہمیں ان سنی اور درد بھری آوازوں کو سننا ہو گا۔ یہ آوازیں ٹرمپ کی بلند اور روایتی باتوں کو ڈبو دیں گی۔ ایسی ہی باتیں کر کے جبر کرنے والوں نے لوگوں کو ڈرا کے فرمان برداری پر مجبور کیا ہے۔

خیالات اس حقیقت کو عملی شکل دینے سے نہیں روک سکتے۔ اپنی ذات میں ہی جھوٹ، دھوکے ، فریب اور جھوٹی تعریفوں پر مبنی نازک تصورات رکھنے والوں کی جانب سے اس کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اسی لیے صدر مختصر یا طنزیہ نام استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ سکول کا کوئی بدمعاش ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ بھی کر کے وہ اپنے مخالف کو اپنی انا کو للکارنے سے باز رکھے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کیا بات اس کے مخالف کو زخمی کر سکتی ہے اور وہ اس کی ایسی مضحکہ خیز تصویر بنا دیتا ہے جو شاید سچائی کے ساتھ تھوڑا تعلق رکھتی ہو لیکن یہ اس کو اتنا زخمی کرنے کے لیے ہوتی ہے جو اس کی انا کو تسکین پہنچا سکے۔

اگر ہم ٹرمپ کو جابر اور لوگوں کو ان کے متاثرین سمجھیں تو ہم ان کے بچپن میں اختیار کیا جانے والا رویہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو ہمیشہ مقبولیت کے لیے جتن کرتا ہے لیکن ہر بار ناکام رہتا ہے۔ اس کے لیے کچھ بھی کافی نہیں ہے، سوائے مکمل غلامی کے کیونکہ یہ ہمارے لیے نہیں بلکہ ٹرمپ کے لیے ہے۔ ہم طاقت کے بھوکے اور نرگسیت کے شکار جابروں سے کیسے نمٹنے ہیں؟ آپ کوئی راہ نکالیں، کوئی الگ زندگی اور پھر آپ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی حمایت سے مکمل صداقت اور وقار کے ساتھ ایسا کر گزریں۔ آپ بالکل شفاف ہوں گے۔ ناکامی کا اعتراف کریں گے، غلطیاں تسلیم کریں گے اور مدد طلب کریں گے۔ ایسے خیالات ہی غیر حقیقی تصورات کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ انہیں نا قابل عمل، نا اہل اور بے ڈھنگا ثابت کرتے ہیں جو مکمل ناکامی کی جانب گامزن ہیں۔ یہ آسان نہیں ہے، شاید ناممکن بھی لگتا ہو لیکن یہ بہت ضروری ہے۔ ہماری دنیا کی بقا اب اسی پر منحصر ہے کہ ہم ایک خطرناک، غصیلے، خود پسند، بدتہذیب، تفسیاتی مسائل کے شکار شخص کے قائم کردہ اس نظام کو منہدم کر دیں۔

ایم جین 

بشکریہ دی انڈپینڈنٹ  

چین میں اویغور مسلمانوں کو حراست میں رکھنے کے خلاف بائیس ممالک پہلی بار متحد

$
0
0

اقوام متحدہ کے بائیس رکن ممالک کی جانب سے چین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ چین میں رہنے والے لاکھوں اویغور مسلمانوں کی گرفتاریاں بند کرے۔ یہ اس بارے میں اپنی نوعیت کی پہلی مشترکہ کوشش تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق کم سے کم دس لاکھ اویغور اور باقی اقوام سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں زیر حراست رکھا جا رہا ہے۔ 22 ممالک کے سفیروں کی جانب سے لکھے جانے والے اس خط میں ’بڑے پیمانے پر حراستی مرکز اور کڑی نگرانی کے ساتھ ساتھ اویغور سمیت باقی اقلیتوں پر عائد پابندیوں ‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، فرانس، جرمنی کے علاوہ کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ امریکہ گذشتہ برس اس کونسل سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کی جانب ے کونسل اجلاس کے دوران اس خط کا پڑھے جانا یا اس بارے میں قرارداد پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا جو پورا نہیں ہو سکا۔ 

یہ خط فورم کے صدر کو لکھا گیا اور اس میں چین سے 47 رکنی فورم کا حصہ بننے پر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بلند معیار قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔  خط میں کہا گیا کہ ’ہم چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی اور ملکی قوانین پر عمل کرتے ہوئے سنکیانگ سمیت پورے ملک میں بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کا احترام کرے۔ ہم چین سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اویغور اور باقی مسلمانوں سمیت سنکیانگ میں موجود تمام اقلیتوں کی بے قاعدہ گرفتاریاں اور آزادانہ نقل و حمل پر عائد پابندیاں ختم کرے۔‘ خط میں چین سے یہ تقاضہ بھی کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر مشیل بیچلیٹ سمیت بین الاقوامی ماہرین کو سنکیانگ تک آزادانہ رسائی دے۔ مشیل بیچلیٹ چلی کی سابقہ صدر ہیں۔ انھوں نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے لاپتہ اور گرفتار کرنے کی اطلاعات پر اقوام متحدہ کو تحقیقات کی اجازت دے۔ 

گذشتہ ماہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے لیے چین کے سفیر نے امید ظاہر کی تھی کہ مشیل بیچلیٹ دورے کی دعوت کی درخواست قبول کریں گی۔ ایک سفارت کار کی جانب سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا گیا ہے کہ چینی وفد اس خط پر’شدید برہم‘ ہے اور اس کی جانب سے اس خط کا جواب دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے اس خط کو یہ کہہ کر سراہا گیا کہ ’یہ نہ صرف سنکیانگ کے رہائشیوں کے لیے اہم ہے بلکہ دنیا بھر کے ان لوگوں کے لیے بھی جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں طاقتور ممالک کا بھی احتساب کر سکتی ہے۔‘ تین ہفتوں پر مشتمل اجلاس کے آغاز کے موقع پر سنکیانگ کے نائب گورنر نے عالمی برادی کی جانب سے ریاستی حراسی مراکز کی مذمت کے جواب میں کہا تھا کہ ’یہ دراصل تربیتی مراکز ہیں جو لوگوں کو شدت پسند رجحانات سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘ گذشتہ ہفتے ایک تحقیق میں یہ کہا گیا تھا کہ چین میں ہزاروں مسلمان بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں اس کو ’سماج کی دوبارہ تشکیل اور تقافتی نسل کشی قرار‘ دیا گیا تھا۔

سیموئل اوسبورن 

بشکریہ دی انڈپینڈنٹ  

امريکی حراستی مراکز ميں مہاجرين اور پناہ گزينوں کی حالت زار پر تشويش

$
0
0

اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سربراہ ميشل باچليٹ نے امريکی حراستی مراکز ميں مہاجرين اور پناہ گزينوں کو درپيش حالات پر گہری تشويش ظاہر کی ہے۔ اس سے اميگريشن کے حوالے سے امريکی پاليسيوں پر دباؤ بڑھے گا۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق بارڈر ايجنٹس کی طرف سے روکے جانے والے مہاجر بچوں کو نہ تو ان کے والدين سے جدا کيا جانا چاہيے اور نہ ہی حراستی مراکز ميں رکھا جانا چاہيے۔ ميشل باچليٹ کے بقول حراستی مرکز ميں رکھا جانا بالغ افراد کے ليے بھی ممنوع ہونا چاہيے۔ باچليٹ نے کہا کہ بالغ پناہ گزينوں و مہاجرين کو آزادی کے حق سے محروم رکھنا آخری قدم ہونا چاہيے۔ 

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جنيوا ميں بيان ديتے ہوئے امريکی حکام سے اپيل کی ہے کہ اس معاملے کے حل کے ليے حراست کے متبادل راستے اختيار کيے جائيں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ايک ترجمان نے بتايا ہے کہ ميشل باچليٹ نے امريکی حراستی مراکز پر کھل کر تنقيد، امريکی محکمہ ہوم لينڈ سکيورٹی کے انسپکر جنرل کی اس تنبيہ کے بعد کی، جس ميں انہوں نے اپنے ملک ميں موجود حراستی مراکز کی خطرناک حالت پر تشويش ظاہر کی تھی۔ باچليٹ نے اپنے بيان ميں کہا کہ مہاجرين و پناہ گزين تحفظ اور عزت کے تعاقب ميں اپنے بچوں کے ہمراہ خطرناک سفر پر نکلتے ہيں اور جب انہيں ايسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ہيں تو اس وقت انہيں ان کے اپنوں سے جبراً جدا کر ديا جاتا ہے اور سلاخوں کے پيچھے ڈال ديا جاتا ہے: ''يہ بالکل نہيں ہونا چاہيے۔‘‘

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ايک بيان ميں کہا تھا کہ امريکا کا رخ کرنے والے مہاجرين اور پناہ گزين، انتہائی غربت سے آ رہے ہوتے ہيں اور اسی ليے امريکی حراستی حراستی مراکز ان کے ليے ايک بہتر متبادل ثابت ہوتا ہے، جس سے وہ خوش ہيں۔ انہوں نے ملکی بارڈر پيٹرول اور ديگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعريف بھی کی۔ يہ امر اہم ہے کہ پچھلے ہفتے جاری کردہ ايک رپورٹ ميں خبردار کيا گيا تھا کہ امريکی حراستی مراکز گنجائش سے زيادہ بھر چکے ہيں۔ انسپکٹرز نے يہ بھی بتايا تھا کہ وہاں بچوں اور بالغوں کو بہت سی بنيادی سہوليات تک ميسر نہيں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
 

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی زندگی مشکل تر

$
0
0

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں مون سون کی شدید بارشوں کا پانی گھر آنے سے ہزاروں لوگ دربدر ہو گئے ہیں جب کہ کم از کم ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ دوسری جانب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں جاری رہنے کی توقع ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ 3000 سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں جبکہ بین الاقوامی تنظیم برائے نقل مکانی (آئی او ایم) نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہزاروں پناہ گزینوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کیمپوں میں 7 لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔ روہنگیا مسلم اقلیتی گروہ ہے جس کے لاکھوں افراد استحصال سے بچنے کے لیے میانمار چھوڑ چکے ہیں۔ 

آئی او ایم کے ایک ترجمان جارج میکلوڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بحران ’میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے پناہ گزینوں کو پہلے سے لاحق مشکلات میں مزید اضافہ’ کر رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایسے لوگوں کے سینکڑوں کیس دیکھے ہیں جن کے گھروں کو لینڈ سلائیڈ اور سیلاب کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا ہے جبکہ کئی لوگ خطرناک ڈھلوانوں کی زد میں ہیں۔ ان لوگوں کو ہنگامی پنا گاہوں میں یا ان کے رشتے داروں کے گھروں میں منتقل کرنا پڑا۔ 

کیمپوں میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں بچے ہیں اور یہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوئے ہیں۔ کئی شیلٹر، سکول اور طبی مراکز متاثر اور نقصان کے شکار ہوئے ہیں۔ کیمپس ریتلی زمین پر قائم ہیں جو کہ شدید بارش میں بہہ جاتی ہے اور خطرناک لینڈ سلائیڈز اور سیلاب کا سبب بنتی ہے۔


بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ وہ کیمپوں میں ڈائریا پھیلنے سے روکنے پر کام کر رہا ہے۔ سنہ 2017 میں مون سون کی بارشوں نے بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں 170 افراد کی جان لی تھی۔ گذشتہ سال اقوامِ متحدہ کے اداروں نے لینڈ سلائیڈز اور سیلابوں کے بلند خطرے کے زد میں موجود علاقوں سے 30 ہزار روہنگیا افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

ڈالر کیسے بڑی اور تسلیم شدہ کرنسی بنا ؟

$
0
0

امریکی ڈالر کی باقاعدہ شروعات امریکی ’’کانٹی نینٹل کانگرس‘‘ نے آٹھ ستمبر 1786ء کو کی۔ البتہ ڈالر کا ماضی سولہویں صدی تک جاتا ہے جس میں قصبہ ’’باواریا‘‘ کا نام بھی آتا ہے۔ ڈالر کیسے بڑی اور تسلیم شدہ کرنسی بنا؟ ڈالر کی قدر کا ماخذ کیا ہے؟ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں۔ 1518ء میں ڈالر کی ابتدا: جب کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ امریکی ڈالر کا آغاز کہاں سے ہوا تو اکثر اوقات وہ اندازے سے کہتا ہے، امریکا سے۔ لیکن یہ پورا سچ نہیں۔ بہت سے تاریخ دانوں کے مطابق ڈالر کا آغاز ایک چھوٹے سے قصبے باواریا سے ہوا۔ 1518ء میں اس قصبے نے چاندی کے معیاری سکے جاری کرنے کا آغاز کیا۔ چاندی کو قریبی کانوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ ان سکوں کا معیاری وزن 29.2 گرام تھا۔

ان سکوں کو ’’تھالر‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ جرمن میں ’’تھال‘‘ کے معنی ہیں ’’وادی‘‘، اور یہ سکے ایک وادی سے بن کر آتے تھے۔ جلد ہی یورپ بھر میں معیاری کرنسی کی اہمیت کو محسوس کیا جانے لگا۔ ملکوں نے معیاری تھالر سکے کو کامرس کے لیے اختیار کر لیا۔ مختلف حکومتیں مختلف طرح کی چاندی استعمال کرتیں اور اس کی پیداوار کے طریقے بھی مختلف ہوتے، لیکن بنائے جانے والے تمام تھالر ایک جیسے ہوتے۔ یوں یورپ میں تھالر ایک معیار بن گیا۔ اب آپ غور کریں تو تھالر اور ڈالر کی ادائیگی ایک جیسی ہے۔ یوں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لفظ ڈالر کا ماخذ کیا ہے۔ 

چاندی کا ہسپانوی ڈالر: جب ’’پرانی دنیا‘‘ نے ’’نئی دنیا‘‘ کو تلاش کرنے کا آغاز کیا، تو تھالر یا ڈالر زیادہ جگہوں پر پھیل گیا۔ ہسپانوی مہم جوؤں نے میکسیکو اور دیگر نوآبادیوں میں قیمتی معدنیات دریافت کیں۔ انہوں نے انہیں استعمال میں لاتے ہوئے چاندی کے ہسپانوی ڈالر بنانے شروع کیے۔ چند ہی سالوں میں چاندی کا ہسپانوی ڈالر براعظم شمالی و جنوبی امریکا کی نوآبادیوں میں سب سے عام برتا جانے والا سکہ بن گیا۔ عام ہونے کے باوجود یہ واحد رائج سکہ نہیں تھا۔ ’’پرانی دنیا‘‘ کے چاندی کے سکے بھی ’’نئی دنیا‘‘ یعنی پورے شمالی اور جنوبی امریکا میں رائج تھے۔ اس سے کاروباری لین دین میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس لیے امریکا نے ایک معیاری کرنسی رائج کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 

امریکا کے قیام سے پہلے ڈالر: جب امریکا باقاعدہ ملک نہیں بنا تھا، نوآبادیوں کو کسی نہ کسی چیز کو کرنسی تو بنانا تھا۔ امریکا میں زر (money) کی بنیادوں کو سترہویں صدی کے میساچوسٹس میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ 1690ء میں ’’میساچوسٹس بے کالونی‘‘ نے عسکری اخراجات کے لیے کاغذ کے نوٹ استعمال کرنا شروع کیے۔ اس نظام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دوسری نوآبادیوں نے جلد اسی راہ کو اپنا لیا۔ بالآخر برطانیہ نے نوآبادیوں کی ان ابتدائی کرنسیوں پر پابندی لگا دی۔ 1775ء میں، جس وقت برطانیہ مخالف جذبات بڑھ رہے تھے، ’’کانٹی نینٹل کانگرس‘‘ نے کانٹی نینٹل‘‘ کرنسی کو باقاعدہ معیار قرار دے دیا۔ تاہم یہ کرنسی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ اس کی مالیاتی بنیادیں مستحکم نہ تھی اور اس کے نوٹوں کی نقل آسانی سے بن جاتی تھی۔

کانگرس کا تھالر کو سرکاری کرنسی بنانے کا فیصلہ: امریکی انقلاب کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کانگرس کو ایک بڑا فیصلہ کرنا تھا؛ نئے بننے والے ملک کی سرکاری کرنسی کیا ہو گی؟ 1785 میں امریکی کانگرس نے یورپی تھالر کو پورے امریکا میں معیار مان لیا۔ اس مرحلے پر جرمن لفظ ’’تھالر‘‘ کو انگریزی روپ دیتے ہوئے ’’ڈالر‘‘ بنا دیا گیا۔ دونوں ایک ہی طرح سے ادا کیے جاتے تھے۔ 1792ء کے ’’کوائن ایج ایکٹ‘‘ نے امریکی ڈالر کو قومی کرنسی بنانے کی بنیادیں مزید مستحکم کر دیں۔ اس ایکٹ کے نفاذ سے مالیات کا منظم نظام وجود میں آیا جس میں سونے، چاندی اور کانسی کو برتا گیا۔ یو ایس ڈالر ’’پرانی دنیا‘‘ میں استعمال ہونے والے اصل تھالر کی نسبت قدرے ہلکا تھا۔ یہ 27 گرام چاندی پر مشتمل تھا۔ 

سنہ 1861ء اور خانہ جنگی: امریکا میں خانہ جنگی 1861ء اور 1865ء کے درمیان ہوئی۔ اس وقت امریکا کو ایک بڑے مسئلے کا ادراک ہوا۔ اسے جنگ کے لیے زر کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس سونے، چاندی اور کانسی کا محدود ذخیرہ تھا۔ پس امریکا نے 1861ء میں کاغذ کے نوٹ یا ’’گرین بیک‘‘ جاری کرنا شروع کر دیے تاکہ خانہ جنگی کو مالی مدد فراہم کی جا سکے، باوجود اس کے کہ روایتی دھاتی سکوں کی نسبت کاغذ کے نوٹوں کی نقل تیار کر نا آسان تھا۔ اسی دوران امریکی خزانے نے نقلی نوٹوں سے نپٹنے کے مختلف اقدامات شروع کر دیے، ان میں خزانے کی مہر اور کندہ شدہ دستخط شامل تھے۔ 1863ء میں کانگرس نے قومی بینکنگ نظام متعارف کروایا جس نے امریکی ٹریژری کو قومی بینک کے نوٹوں کی نگرانی کا اختیار دیا۔ اس سے قومی بینکوں کو زر تقسیم کرنے اور امریکی بانڈز خریدنے میں زیادہ آسانی ہوئی تاہم اسے ریگولیٹ کیا جاتا تھا۔ فیڈرل ریزرو ایکٹ 1913ء: اس ایکٹ سے ایک مرکزی بینک تخلیق ہوا اور قومی سطح کے بینکنگ نظام کو متعارف کرایا گیا۔ ان دو کا مقصد ملک کی تیزی سے بدلتی مالیاتی صورت حال سے نپٹنا تھا۔ 

چاندی اور سونے سے رشتہ: ماضی میں تھالر یا ڈالر کی بنیاد چاندی کی قیمت تھی۔ البتہ آج کل ڈالر کی طرح زیادہ تر کرنسیوں کی قدر سونے کی قیمت سے منسلک ہے۔ یہ تبدیلی کب ہوئی؟ تاریخ کے ادوارمیں چاندی اور سونے کی تجارت کا تناسب کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ یوں تجارت میں ایک ’’دو دھاتی نظام‘‘ رائج تھا۔ کئی صدیوں تک سونے کے ایک اونس کی قیمت چاندی کے 15 یا 16 اونس کے برابر رہی۔ تھالر نظام نے چاندی کی قیمت کے ساتھ سونے کو بھی معیار بخشا۔ پھر سونے کو زیادہ مستحکم جنس سمجھا جانے لگا اور یہ کرنسی کی قدر کا زیادہ پسندیدہ پیمانہ بن گیا۔

برطانیہ نے پرانے ’’دو دھاتی‘‘ نظام کو 1816ء میں خیرباد کہہ دیا اور اس کی جگہ یک دھاتی نظام اپنا لیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے 1834ء میں اس کی پیروی کی، تاہم سرکاری سطح پر یک دھاتی نظام 1900ء میں نافذ کیا گیا۔ 1834ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے کوائن ایج ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ سے امریکی ڈالر کی قدر 20.67 ڈالر فی اونس (سونا) طے ہوئی۔ ہر ڈالر کی قیمت تقریباً 1.5048 گرام سونے کے مساوی تھی۔ 

1933ء میں ڈالر کی قیمت میں مستقل کمی: 1933ء میں امریکا عظیم کسادی بازاری کی زد میں تھا۔ معیشت کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے امریکا نے ڈالر کی قدر کم کر دی اور یہ 35 ڈالر فی اونس ہو گئی۔ اب ایک ڈالر تقریباً 0.8887 گرام کا ہو گا۔ 1971ء میں ڈالر کی قدر میں پھر کمی کی گئی۔ امریکی معیشت میں ترقی کے ساتھ دنیا بھر میں ڈالر میں کاروبار ہونے لگا۔ آج ڈالر دنیا کی سب سے عام ریزرو کرنسی ہے۔ 

جانسن ہُر

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا 


سابق امریکی فوجیوں کی اکثریت افغان جنگ کی مخالف

$
0
0

امریکہ میں سابق فوجیوں اور عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ امریکہ کو افغانستان 
میں جنگ نہیں شروع کرنی چاہیے تھی۔ واضح رہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ 18 برس سے طالبان کے ساتھ جنگ کر رہا ہے اور اب اس کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیو ریسرچ سنٹر کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 58 فیصد سابق امریکی فوجی اور 59 فیصد امریکی عوام افغانستان میں جنگ کے حامی نہیں ہیں اور 10 میں سے صرف چار افراد ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنا چاہیے تھا۔

امریکہ کی عراق جنگ اور شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف فوجی مداخلت کو بھی سابق فوجیوں اور عوام نے رد کیا ہے۔ سروے کے مطابق 64 فیصد سابق فوجیوں اور 55 فیصد لوگوں نے امریکہ کی اس کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے اس سروے میں اہم بات یہ ہے کہ ’امریکہ کی افغانستان اور عراق جنگ کی مخالفت کرنے والے سابق فوجیوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا اور ان فوجیوں کی تعداد کم ہے جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ نہیں لیا۔‘ اس سروے میں غلطی کی گنجائش بہت کم ہے جو کہ سابق فوجیوں کے لیے 3.9 فیصد رکھی گئی ہے اور عام لوگوں کے لیے غلطی کا تناسب 3.1 فیصد ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں عام صدارتی انتخابات سے پہلے طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے امریکی فوجیوں کا انخلا ممکن ہو سکے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا ایک دور حال ہی میں دوحہ میں ہوا جو چھ روز تک جاری رہا اور اس دوران دو روز کے لیے طالبان اور 70 افغان مندوبین کے درمیان بھی مذاکرات ہوئے۔

بشکریہ اردو نیوز

Tour de Khunjerab : Pakistan hosts 'world's toughest cycle race

$
0
0

More than 70 local and international cyclists are taking part in the Tour de Khunjerab cycling race  one of the world's highest altitude cycling competitions. The event has been organised by the Gilgit-Baltistan government in collaboration with Pakistan Cycling Federation to promote tourism in the region. The first phase of the event came to an end on Thursday in which 138 contestants paddled 67 kilometres from Gilgit to the Rakaposhi base camp. The cyclists are expected to arrive on Sunday at the highest placed international border between Pakistan and China at an altitude of 16,000 feet, covering a distance of 27 kilometres in four stages. The first stage was from Gilgit city to Rakaposhi base camp of Nagar district. The second stage is from Rakaposhi base camp to Karimabad in Hunza, third at Sust and the race will end at Khunjerab pass.

AFP










پاکستان پارلیمنٹ، عدم برداشت اور غیراخلاقی رویوں کی آماجگاہ

$
0
0

ّآج سے تقریبا پندرہ سوسال قبل آقائے نامدار حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں“ گویا ایک انسان سے دوسرا انسان اس وقت تک محفوظ رہ سکتا ہے جس وقت تک وہ اپنے کسی بھائی کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہو۔ ارسطو نے بھی معاشرتی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ”عا لم اسوقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھ سکے“۔ کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی استحکام، معاشرتی رویوں اور عوامی خیالات میں ہم آہنگی کی عکاسی کا اگر صحیح اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کی پارلیمنٹ کی قانون سازی اور جملہ ممبران کے رویوں کو مدنظر رکھا جا تا ہے.

یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کسی جمہوری ملک کا آئینہ ہوتی ہے۔ کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں عوام کے منتخب کردہ نمائندے،عوام کی فلاح کی بات کرنے اور معاشرتی و معاشی استحکام کے لئے قانون سازی کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ چونکہ پارلیمنٹ کا مقصود انسانیت اور اس کی معراج کی سعی پیہم کرنا ہوتا ہے اسی لئے جمہوری ممالک میں اس ادارے کو مقدس ایوان بھی کہا جاتا ہے۔ دیگر اسلامی و جمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کہا جاتا ہے یعنی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان، ایوان بالا (سینٹ) اور ایوان زیریں (قومی اسمبلی) ملک میں قانون سا زی،عوامی مفادات کے تحفظ اور معاشی و سیاسی استحکام کے لئے کام کرنے والا ادارہ خیال کیا جاتا ہے۔

مگر یہ سب باتیں کہنے اور لکھنے کی حد تک تو ٹھیک ہیں عملا ان کا اطلاق دور دور نظر نہیں آتا، جو پارلیمنٹ مقدس ایوان ہے ان کے ممبران کی اگر بجٹ کے پیش کرنے اور اس پر بحث کے اجلاس کی کارروائی کو ملاحظہ کر لیا جائے تو کسی ایک انگ سے بھی نظر نہیں آتا کہ یہ ایک گریجوایٹ اور تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں چلایا جانے والا ادارہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تہذیب و شائستہ اور اخلاقی اقدار کا امین نہیں بلکہ عدم برداشت، غیر اخلاقی رویوں اور غیر شائستہ افراد کی آماجگاہ کے ساتھ ساتھ ایک طوفان بدتمیزی کا عکاس ہو۔ یہ سب پارلیمانی ممبران جن کا منشور و دعویٰ جمہوریت، جمہوری اقدار کا فروغ، جمہوریت بہترین انتقام، رواداری و اخوت اور ملکی وقار کا احیا ہے یہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور چنداں دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں.

جیسے کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب، ایچیسن و آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں، مسٹر بلاول بھٹو کرائسٹ چرچ آکسفورڈ، خواجہ آصف حسن ابدال کیڈٹ کالج، خاقان عباسی لارنس کالج اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ،عمر ایوب جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکہ اور دیگر بہت سے ممبران جو ایسے ہی معروف تعلیمی اداروں کے سند یافتہ افراد ہیں اور یہ وہ سب ادارے ہیں جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت، تہذیب اور اخلاقی رویوں کی وجہ سے دنیا میں ممتاز اور امتیاز حاصل ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب یہی ممبران پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو ان کے رویوں اوراخلاق میں وہ انسانی حیوان کیوں باہر آجاتا ہے جو کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا۔ ایک دم سے انکے ہاتھ، ہاتھا پائی، زبان، طعن و تشنیع اور الفاظ دوسروں کی پگڑی اچھالنے کے لئے مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔

مرد ممبران، خواتین کی طرح طعنے اور خواتین کو ہم نے چوڑیاں پھینکنے اور دوپٹے اچھالتے بھی دیکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان پارلیمنٹ ممبران کا تعلیم نے تو کچھ بگاڑا نہیں لہذا انہیں تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اور تربیت کا سب سے اہم جزو برداشت ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں سقراط کہتا ہے کہ ”برداشت معاشرہ کی روح ہے، برداشت جب سوسائٹی سے کم ہوتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے،اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرہ میں وحشت بڑھ جاتی ہے،اس لئے دلائل اور منطق سے کام لیا جائے۔ مگر یہ دونوں پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے، جب مکالمہ اور اختلاف جاہل لوگوں کے پاس آجائے تو معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے“۔ سقراط کی باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ دونوں باتیں یعنی دلائل اور منطق دونوں پڑھے لکھے جاہلوں کے پاس آگئے ہیں جس سے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے، میرے خیال میں اسے صرف اور صرف برداشت، تحمل اور صبر سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

پارلیمنٹ میں پیش کردہ حالیہ بجٹ کے حق و مخالفت میں پیش کی گئی تقاریر پر اگر آپ غور فرمائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں دکھائی دیتی ہے کہ سب نے سیاسی و عوامی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رکھی ہے، کوئی اپنا آپ بچا رہا ہے تو کوئی اپنا پیسہ، کسی کو اپنے ابو کو بچانے کی فکر ہے تو کوئی زمین و جائیداد کو محفوظ کرنے کے چکر میں ہے۔ ایک سوال میری طرح آپ کے اذہان میں بھی پیدا ہوتا ہو گا کہ یہ سب اعلی تعلیم یافتہ افراد جب اسمبلی میں ہوتے ہیں تو پارلیمنٹ کسی مچھلی منڈی، دنگل یا پولٹری فارم کا نقشہ کیوں پیش کر رہی ہوتی ہے۔ گویا یہ سب شور و غوغا عوام کے لئے نہیں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اگر سب دعویداروں کا دعویٰ ملکی مفاد اور عوامی مفاد ہے تو پھر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق بھی انہیں پیدا کرنا ہوگی وگرنہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

مراد علی شاہد دوحہ،قطر

بشکریہ روزنامہ جسارت

فرعون توتن خامون کا مجسمہ لندن میں 60 لاکھ ڈالر میں نیلام

$
0
0

مصر نے انٹر پول سے درخواست کی ہے کہ وہ نوعمر فوعون توتن خامون کے سر کا تین ہزار سال قدیم مجسمہ برآمد کریں۔ خیال رہے گزشتہ ہفتے مصر کی شدید مخالفت کے باوجود فرعون توتن خامون کا مجسمہ لندن میں 60 لاکھ ڈالر میں نیلام کر دیا گیا تھا۔ مذکورہ نیلامی نیلام گھر ’کرسٹیز‘ کی جانب سے کی جانے والی متنازع ترین نیلامیوں میں سے ایک تھا کیونکہ مصر نے نیلامی منسوخ کر کے مجسمے کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مصر کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ توتن خامون فرعون کا مجسمہ 1970 کی دہائی میں ایک مقامی عبادت گاہ سے چوری ہوا تھا۔ پتھر سے بنا بھورے رنگ کا یہ مجسمہ قدیم آرٹ کے ایک ذاتی مجموعے کا حصہ ہے، جو کرسٹیز نے ہی 2016 میں 30 لاکھ پونڈ میں نیلام کیا تھا۔

تاہم مجسمے کی نیلامی کے ہفتے سے بھی کم عرصے میں مصر کی نوادرات کی واپسی کی قومی کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد کہا کہ مصر کے پراسیکیوٹر نے انٹرپول سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسے نوادرات کی برآمدگی کے لیے سرکلر جاری کریں جن کے پیپر ورک مکمل نہیں۔ کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ کمیٹی کو بغیر کسی دستاویزات اور ثبوتوں کے بغیر مصری نوادرات کی نیلامی کی غیر پیشہ ورانہ رویے پر تشویش ہے۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ نیلامی سے پہلے دستاویزات کے ذریعے ثابت نہیں کیا گیا کہ اس مجسمے کو مصر سے قانونی طریقے سے درآمد کیا گیا تھا۔

نوادرات کی واپسی کمیٹی نے برطانیہ پر بھی زور دیا ہے کہ وہ نیلام کیے جانے والے مجسمے کی برآمد پر مصری حکام کی جانب سے اس حوالے سے دستاویزات دیکھنے تک پابندی عائد کریں۔ کمیٹی نے خبرادار کیا کہ مجسمے کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں مجسمے کے حوالے سے کیس دائر کرنے کے لیے ایک قانونی فرم کی خدمات حاصل کی ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

خلیج فارس : ایران اور برطانیہ آمنے سامنے

$
0
0

ایران اور برطانیہ کی نیوی کی جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی ہے، برطانوی حکام کا کہنا ہےکہ خلیج فارس میں ایرانی کشتیوں نے برطانوی آئل ٹینکر پر قبضے کی کوشش کی، برٹش نیوی نے بندوقوں کا رخ کیا تو کشتیاں واپس چلی گئیں۔ دوسری جانب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اجلاس میں بھی گرما گرمی ہوئی، تہران نے واشنگٹن کو معاشی دہشت گرد قرار دیدیا۔ ایران اور برطانیہ آبنائے ہرمز میں آمنے سامنے آتے آتے رہ گئے، برطانوی حکومت کی جانب سے جاری بیان کےمطابق خلیج فارس میں ایران کی پانچ کشتیوں نے برطانوی آئل ٹینکر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

"ہیریٹیج ٹینکر"آبنائے ہرمز کراس کر رہا تھا کہ ایران کے پاسداران انقلاب کی تین کشتیاں اس کے قریب آ گئیں۔ برطانوی بحریہ نے اپنی توپوں کا رخ ایرانی کشتیوں کی جانب کر لیا اور انہیں وائر لیس کے ذریعے وارننگ دی گئی کہ وہ اس مقام سے دور ہو جائیں۔ ایرانی وزیرخارجہ نے واقعے کی تردید کی ہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ نے جبرالٹر کے پانیوں میں ایک ایرانی ٹینکر کو قبضےمیں لیا تھا۔ جس پر ایران نے برطانیہ کو جوابی نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔ ادھر ایران انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کےدوران امریکا پر برس پڑا اور سپر پاور کو معاشی دہشت گرد قرار دے دیا۔

بشکریہ دنیا نیوز

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>