↧
دنیا میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 3.8 ارب ہو گئی
↧
دراوڑ : برِصغیر کی ابتدائی قوم کا احوال
دراوڑ کے آباؤ اجداد کے احوال سے ہم ایسے ہی ناواقف ہیں جیسے کول لوگوں کے بزرگوں سے۔ ممکن ہے کہ دراوڑ دھات کے زمانے کے لوگوں کی اولاد سے ہوں۔ بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ دراوڑ شمال مغرب کے ملکوں سے برصغیر میں آئے۔ زمانہ دراز تک شمالی ہند میں آباد رہے اور کول سے لڑتے بھڑتے جنوبی ہند میں جا داخل ہوئے۔ بعضوں کا یہ خیال ہے کہ دراوڑ جنوب سے آ کر برِصغیر میں داخل ہوئے مگر جنوب میں کہاں سے؟ اس بارے میں بھی دو آرا ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس بڑے ملک سے آئے تھے جو کسی زمانے میں ہند کے جنوب میں دور تک بحر ہند میں پھیلا ہوا تھا، مگر اب سمندر میں بیٹھ جانے کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔
دوسری یہ کہ وہ ان جزیروں سے آئے تھے جو ایشیا کے جنوب مشرق میں آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں اور ماضی میں خشکی کے ذریعے اس سے ملے ہوئے تھے، مگر اب وہ خشک زمین سمندر میں ڈوب گئی ہے۔ دراوڑ مویشیوں کے بڑے بڑے گلے رکھتے تھے۔ انہوں نے وہ گنجان بن کاٹے، جن سے ملک پٹا پڑا تھا۔ زمینیں صاف کیں اور ان میں کھیتی کیاری کا کام شروع کیا۔ یہ گائوں میں رہتے تھے۔ ہر ایک گائوں کا ایک مقدم یا مُکھیا تھا۔ گائوں کے سب لوگ اس کی اطاعت کرتے تھے۔ سانپوں اور درختوں کو بھی پوجتے تھے۔ وہ اپنے دیوتائوں سے محبت نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے ڈرتے تھے، اور ان سے دعا اور التجا کرتے تھے تو اس بات کی کہ انہیں نقصان اور ایذا نہ پہنچائیں۔
دراوڑ کا خیال تھا کہ ان کے دیوتا خون نوشی سے خوش ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے خوش کرنے کو وہ مرغوں، بکروں اور بھینسوں کی قربانیاں کیا کرتے تھے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قدیم زمانے میں شمالی اور جنوبی ہند میں دراوڑ کے بڑے بڑے شہر تھے اور ان کی بہت سی قومیں اور نسلیں آباد تھیں۔ بڑے بڑے علاقوں میں راجا راج کرتے تھے۔ ہر ایک گائوں کا مقدم راجہ کو غلے کی پیداوار کا ایک حصہ دیتا تھا۔ دیہات کے بندوبست اور انتظام کے قاعدے اول اول انہوں نے ہی بنائے تھے۔ ان میں سے بہت سے قاعدے ابھی تک جاری ہیں۔ یہ بڑے تاجر تھے۔ آرین نسل کے برِصغیر میں وارد ہونے سے پیشتر ہی یہ لوگ تجارت کے لیے سمندر کے راستے دوسرے ملکوں میں ساگون کی لکڑی، ململ، مور، ہاتھی دانت، صندل کی لکڑی اور چاول بھیجتے تھے۔
بڑھئی، جلاہے اور لوہار کا کام اچھی طرح جانتے تھے۔ غرض کہ اس ابتدائی زمانے میں بھی یہ لوگ مہذب تھے۔ دراوڑ لوگ کول لوگوں کے پہلو بہ پہلو رہتے تھے، مگر ان سے زور آور، شمار میں زیادہ اور تہذیب میں بڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے زیادہ زرخیز زمینیں تو آپ لے لیں اور باقی کول کے لیے چھوڑ دیں۔ بہت سی جگہوں میں دراوڑ اور کول مل جل کر ایک ہو گئے۔ جب قوم پر قوم اور فرقے پر فرقہ باہر سے آ کر برِصغیر میں آباد ہونے لگا تو اول اول دراوڑ اور کول نو وارد لوگوں سے خوب لڑے، اور پھر ان میں مل جل گئے۔ اس طرح سے نئی نئی قومیں اور نسلیں پیدا ہو گئیں۔ شمال کے بیرونی ملکوں سے نو وارد قوموں کا ایسا تانتا لگا کہ ایک مدت کے بعد شمال مغربی ہند میں جس کو اب پنجاب، کشمیر اور راجپوتانہ کہتے ہیں۔ کول اور دراوڑ کا نشان تک باقی نہ رہا۔
ہاں شمالی ہند کے وسطی حصے گنگا کی تلہٹی اور کل وسط ہند میں ان کا زور تھا۔ ان حصوں کی آبادی میں ان کی کثرت تھی۔ اس امر کی شہادت ان اضلاع کے باشندوں کے رنگ، سر کی بناوٹ، آنکھ، ناک اور قد میں موجود ہے۔ ان باتوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اضلاع کے باشندوں کی بعض قوموں میں کم و بیش دراوڑ اور کول کا خون ضرور ملا ہوا ہے۔ جنوبی ہند کے ان باشندوں کی شکل میں جو اصل سے دراوڑ ہیں، بہت کم فرق آیا ہے۔ وہ ابھی تک دراوڑ کہلاتے ہیں۔ ہزاروں برس تک سخت گرم ملکوں میں بسنے کی وجہ سے ان کے رنگ بہت سیاہ ہو گئے ہیں۔ اب یہ لوگ برِصغیر کے اور حصوں کے باشندوں کی نسبت بہت کالے ہیں۔ جنوبی ہند میں دراوڑ کی تعداد اب کروڑوں میں ہے۔ یہ 14 مختلف زبانیں بولتے ہیں، جن میں تامل، تلگو، ملیالم اور کنٹری اوروں سے زیادہ بولی جاتی ہیں۔ ہند کے بعض حصوں میں کچھ قدیم دراوڑ قومیں ابھی تک ایسی ہیں کہ ان کو ہندو کہنا مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اور دراوڑوں کی طرح انہوں نے تہذیب حاصل نہیں کی۔ یہ دکن کے شمال کے پہاڑی ملکوں میں آباد ہیں۔ گونڈ اور کھانڈ ان میں سے بڑی قومیں ہیں۔
کتاب ’’تاریخ ہند‘‘ سے منقبس
بشکریہ دنیا نیوز
↧
↧
محمد مرسی کی زندگی پر ایک نظر
محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔
حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔ حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔ مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘ لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
پیشہ وارانہ تعلیم
محمد مرسی سنہ 1951 میں دریائے نیل کے کنارے واقع شرقیہ صوبے کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے سنہ 1970 کے عشرے میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ چلے گئے تھے۔ مصر واپسی پر وہ زقازیق یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کے شعبے کے سربراہ تعینات ہوئے۔ اس دوران وہ اخوان المسلمین کے نظم کے اندر بھی ترقی کرتے رہے اور جماعت کے اس شعبے میں شامل ہو گئے جس کا کام کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2005 کے درمیانی عرصے میں وہ آزاد رکن کی حیثیت سے اس پارلیمانی اتحاد میں بھی شامل رہے جس میں اخوان المسلمین بھی شامل تھی۔
انھوں نے رکن پارلیمان کی حیثیت سے لوگوں کو اپنے انداز خطابت سے متاثر کیا، خاص پر ان کی وہ تقریر خاصی مشہور ہوئی تھی جب سنہ 2002 میں ریل کے بڑے حادثے کے بعد انھوں نے سرکاری نااہلی کے لتے لیے تھے۔ اپریل سنہ 2012 میں محمد مرسی کو اخوان المسلمین کا صدارتی امیدوار منتخب کر لیا گیا تھا۔ انھیں امیدوار بنانے کے لیے جماعت کے نائب رہنما اور مشہور کاروباری شخصیت خیرت الشتار پردباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔ اگرچہ خیرت الشتار کے مقابلے میں محمد مرسی کو کم کرشماتی شخصیت کا حامل سمجھا جاتا تھا لیکن مرسی اس وقت اپنی جماعت ’حزب الحریت و العدل (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے چیئرمین تھے اور جماعت کا خیال تھا کہ ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران مرسی نے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو حسنی مبارک کے دور کی بڑی بڑی شخصیات کو اقتدار میں آنے سے روک سکتا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
اپنے ڈیٹا کی حفاظت کریں
آج کے ڈیجیٹل دور میں آپ کا ڈیٹا بہت اہم ہو چکا ہے۔ آپ کا ڈیٹا آپ کی تمام جائیداد، بینک اکاؤنٹس، اثاثوں کے ساتھ ساتھ آپ کی آزادی کی چابی اور رکھوالے، دونوں کا کام کرتا ہے اور دنیا کا دستور ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے لوگ اسے چرانے اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کے ڈیٹا میں آپ کا شناختی کارڈ نمبر، بینک اکاؤنٹس نمبر، اے ٹی ایم پن کوڈ، آپ کا پتا اور وہ تمام معلومات شامل ہیں جس کے ذریعہ آپ کی حساس اور قیمتی چیزوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہو۔ ڈیٹا کی حفاظت کا معاملہ مشکل اس لئے ہے کیونکہ دیگر قیمتی چیزوں کی طرح اس کی چوری کا اتنی آسانی سے پتا نہیں چل سکتا۔
آپ کی گاڑی چوری ہو یا آپ کے پیسےچھن جائیں تو آپ کو فوراً علم ہو جاتا ہے لیکن آپ کا ڈیٹا چوری ہو تو آپ کو نظر نہیں آتا کیونکہ آپ کا ڈیٹا بظاہر آپ کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن اس کی ایک کاپی کسی اور کے پاس بھی چلی جاتی ہے۔ اکثر اوقات آپ کو اپنے ڈیٹا کی چوری کا تب پتا چلتا ہے جب کوئی ڈیٹا کو غلط مصرف میں لائے یا اس کے ذریعے آپ کی کوئی اور چیز چوری کر لی جائے۔ اس لیے لازم ہے کہ ڈیٹا کی حفاظت پہلے دن سے یقینی بنائی جائے۔اس ضمن میں جو چیزیں ہم خود کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اپنی ذاتی معلومات کم سے کم جگہ پر دیں، شناختی کارڈ کی کاپی کی حفاظت کریں، شناختی کارڈ اور بینک کارڈز کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور انہیں ہرگز کسی کے حوالے نہ کریں، اگر کوئی معلومات مانگتا ہے تو اس سے پوچھیں کہ اسے یہ معلومات کیوں چاہئے اور یہ کس لیے استعمال ہو گی، بالخصوص فون یا ای میل پر اپنی معلومات کم سے کم دیں۔
ڈیجیٹل ناخواندگی کی وجہ سے بھی لوگ ڈیٹا چوروں کے شکنجے میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ اب ڈیٹا چرانے والوں نے بھی نئے نئے طریقے اپنانا شروع کر دیئے ہیں جس سے وہ لوگوں کا قیمتی ڈیٹا بآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ کو میسج یا کال آتی ہے کہ انکم سپورٹ میں آپ کے پیسے نکلے ہیں اور اتنے پیسوں کے موبائل کارڈز دے کر آپ اپنا انعام حاصل کر سکتے ہیں یا کوئی پولیس یا پاک فوج کا نمائندہ بن کر کہتا ہے کہ آپ کی معلومات درکار ہیں یا پھر آپ کو کال آتی ہے کہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی مسئلہ آ گیا ہے جس کے لئے آپ کی چند معلومات درکار ہیں۔ اس طرح لوگ بلا تصدیق اپنی قیمتی معلومات ان چوروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ایسی بہت سی ای میلز اور ایس ایم ایس بھی آتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ آج کے زمانے میں یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ کوئی آپ کو کسی اور نمبر سے کال کرے اور آپ کی فون اسکرین پر آپ کے بینک کا یا کوئی سرکاری نمبر نظر آ رہا ہو۔ اگر آپ کو کبھی اس طرح کی کال آئے تو ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ خود بینک یا سرکاری دفتر جا کر معاملے کی جانچ پڑتال کریں۔ ڈیٹا کی حفاظت میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ڈیٹا کے واحد نگران آپ اکیلے نہیں ہوتے۔ آپ کی معلومات موبائل فون کمپنی سے لے کر بینکوں تک اور حکومت سے لے کر سیکورٹی اداروں تک سب کے پاس ہوتی ہے۔ اب یہاں پر آپ کا ڈیٹا کس طرح استعمال ہوتا ہے، کون کون اسے دیکھ سکتا ہے اور کس کس کی اس تک رسائی ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان ہے.
لیکن یہ بات درست ہے کہ لوگوں کے موبائل کال کے ریکارڈز بھی بیچے جاتے ہیں اور لوگوں کے بینک اکاؤنٹس کی انفارمیشن بھی۔ پچھلے دنوں تو یہ بھی خبر سامنے آئی کہ سائبر کرائم کے تحقیقاتی ادارے کے اپنے چند لوگ خود ہی لوگوں کو بلیک میل کر رہے تھے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے سیف سٹی کیمروں سے لی گئی چند گاڑیوں کی تصویریں بھی وائرل ہوئی تھیں جن کی ملکیت وغیرہ تک کی معلومات عام کر دی گئی تھی۔ ان تمام مسائل سے بچنے کیلئے پاکستان کو ایک سخت قانون کی ضرورت ہے جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے، اس میں کسی بھی ادارے کا ڈیٹا لیک ہونے یا اس کے غلط استعمال پر اس ادارے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ قانون میں عام شہری کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
آج کے اس دور میں آپ کا ڈیٹا آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت آپ کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس کی حفاظت اور اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنے ڈیٹا کو اسی طرح محفوظ رکھیں جس طرح آپ اپنی جیب میں رقم کو محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ یہ ڈیٹا اس رقم سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی بھی کچھ ذمہ داری ہے، ڈیٹا پر قانون سازی صرف عوام کی رائے کو بدلنے یا محدود رکھنے تک نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کی جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اب جبکہ آنے والے دنوں میں ہر کرائم کے اندر ڈیٹا چوری اور سائبر کرائم کا عنصر نمایاں ہو گا اس کی حفاظت کے حوالے سے ہر پاکستانی کی ٹریننگ ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں آگاہی بڑھانے کیلئے ایک وسیع پروگرام کی ضرورت ہے جو عوام کے ساتھ حکومتی اہلکاروں میں بھی ڈیٹا کی اہمیت کا شعور پیدا کرے وگرنہ آنے والے دنوں میں ڈیٹا کی چوری اور غلط استعمال ایک بہت بڑا کرائسس بنے گا جو ہماری سیکورٹی سے لے کر معیشت تک منفی اثرات پھیلائے گا۔
علی معین نوازش
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
Mohamed Morsi : A Life in Pictures
Mohamed Morsi was an Egyptian politician who served as the fifth President of Egypt, from 30 June 2012 to 3 July 2013, when General Abdel Fattah el-Sisi removed him from office in the 2013 Egyptian coup d'état after the June 2013 Egyptian protests. As president, Morsi issued a temporary constitutional declaration in late November that in effect granted him unlimited powers and the power to legislate without judicial oversight or review of his acts as a pre-emptive move against the expected dissolution of the second constituent assembly by the Mubarak-era judges. The new constitution that was then hastily finalised by the Islamist-dominated constitutional assembly, presented to the president, and scheduled for a referendum, before the Supreme Constitutional Court could rule on the constitutionality of the assembly, was described by independent press agencies not aligned with the regime as an "Islamist coup". These issues, along with complaints of prosecutions of journalists and attacks on nonviolent demonstrators, led to the 2012 Egyptian protests. As part of a compromise, Morsi rescinded the decrees. In the referendum he held on the new constitution it was approved by approximately two-thirds of voters.
Mohamed Morsi was born in the Sharqia Governorate, in northern Egypt, of modest provincial origin, in the village of El Adwah, north of Cairo, on 8 August 1951. His father was a farmer and his mother a housewife. He was the eldest of five brothers, and told journalists that he remembered being taken to school on the back of a donkey. In the late 1960s, he moved to Cairo to study at Cairo University, and earned a BA in engineering with high honors in 1975. He fulfilled his military service in the Egyptian Army from 1975 to 1976, serving in the chemical warfare unit. He then resumed his studies at Cairo University and earned an MS in metallurgical engineering in 1978. After completing his master's degree, Morsi earned a government scholarship that enabled him to study in the United States. He received a PhD in materials science from the University of Southern California in 1982 with his dissertation "High-Temperature Electrical Conductivity and Defect Structure of Donor-Doped Al2O3".
While living in the United States, Morsi became an assistant professor at California State University, Northridge from 1982 to 1985. Morsi, an expert on precision metal surfaces, also worked with NASA in the early 1980s, helping to develop Space Shuttle engines. In 1985, Morsi quit his job at CSUN and returned to Egypt, becoming a professor at Zagazig University, where he was appointed head of the engineering department. Morsi was a lecturer at Zagazig University's engineering department until 2010.
Morsi was first elected to parliament in 2000. He served as a Member of Parliament from 2000 to 2005, officially as an independent candidate because the Brotherhood was technically barred from running candidates for office under Mubarak. He was a member of the Guidance Office of the Muslim Brotherhood until the founding of the Freedom and Justice Party in 2011, at which point he was elected by the MB's Guidance Office to be the first president of the new party. While serving in this capacity in 2010, Morsi stated that "the two-state solution is nothing but a delusion concocted by the brutal usurper of the Palestinian lands."
Morsi condemned the September 11 attacks as "horrific crime against innocent civilians". However, he accused the United States of using the 9/11 attacks as a pretext for invading Afghanistan and Iraq, and claimed that the US had not provided "evidence" that the attackers were Muslims. He also stated that the aircraft collision alone did not bring down the World Trade Center, suggesting something "happened from the inside." Such views are held by most Egyptians, including Egyptian liberals. His comments drew criticism in the United States. Morsi was sworn in on 30 June 2012, as Egypt's first democratically elected president. He succeeded Hosni Mubarak, who left the office of the President of Egypt vacant after being forced to resign on 11 February 2011.
Egyptian state television announced on 17 June 2019 that Morsi had collapsed during a court hearing on espionage charges, in Cairo, and later died, reportedly of a heart attack. He was buried in Cairo alongside other senior figures of the Muslim Brotherhood. Critics of the Egyptian government blamed the conditions of the trial for Morsi's death, saying that the conditions he was held under were the cause. Mohamed Sudan, a prominent Muslim Brotherhood member based out of London, said that his death was "premeditated murder." Crispin Blunt, who had led a panel of British parliamentarians who had reviewed the conditions Morsi was held in, said that "We feared that if Dr. Morsi was not provided with urgent medical assistance, the damage to his health may be permanent and possibly terminal" and that "sadly, we have been proved right."
Courtesy : Wikipedia
↧
↧
خلیج میں کیا ہونے والا ہے : یہ کہانی نئی تو نہیں
اگلے چند روز میں خلیج میں کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں۔ یہ تو ایران ، خلیجی ریاستیں اور امریکا جانیں۔ البتہ پچھلے سوا سو برس کی تین امریکی کہانیاں مجھ سے سن لیجیے۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں اسپین اپنی آخری جنوبی امریکی نوآبادی کیوبا پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ریاستہائے متحدہ امریکا پورے براعظم کا بلا شرکتِ غیرے نیا آقا بننا چاہتا تھا۔ لہذا صدر ولیم کونلے نے کیوبائی مزاحمت کار قوم پرستوں سے برسرِ پیکار اسپین پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکی بحریہ کا جنگی کروزر یو ایس ایس مین کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کے قریب کھلے سمندر میں لنگر انداز کر دیا۔ تین ہفتے بعد پندرہ فروری اٹھارہ سو اٹھانوے کو یو ایس ایس مین خوفناک دھماکے سے دو ٹکڑے ہو کر غرق ہو گیا۔عملے کے دو سو ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔ صرف اٹھارہ زندہ بچ پائے۔
جیسے ہی خبر نیویارک پہنچی کہرام مچ گیا۔ امریکی بحریہ کے بورڈ آف انکوائری نے ہنگامی طور پر نتیجہ اخذ کیا کہ جہاز میں اندر سے دھماکا نہیں ہوا بلکہ اسپین کی بارودی سرنگوں کے حملے نے بارود خانے میں آگ لگائی اور جہاز ڈوب گیا۔بورڈ آف انکوائری نے جہاز کے کمانڈر فرانسس ڈکنز اور دھماکا خیز مواد کے اپنے ہی ایک ماہر کیپٹن فلپ ایلگر کی شہادت کو گھاس تک نہیں ڈالی جن کا کہنا تھا کہ یو ایس ایس مین کسی حملے سے نہیں بلکہ بارود کا ذخیرہ پھٹنے سے تباہ ہوا ہے۔ کیونکہ بارود خانے سے متصل کوئلے کے ذخیرے میں گیس جمع ہونے کے سبب شعلے بھڑک اٹھے۔ مگر بحری امور کے وزیر تھیوڈر روز ویلٹ نے کہا کہ فلپ ایلگر کو حقائق کا مکمل علم نہیں۔
اخبارات نے اسپین کو ذمے دار قرار دیتے ہوئے جنگ جنگ کا شور مچا دیا۔ ولیم ہرسٹ کا مقبولِ عام اخبار ’’ نیویارک جرنل ’’ لگاتار شہ سرخی چھاپتا رہا ’’ مین کو یاد رکھو، اسپین کو جہنم رسید کرو‘‘۔ جو امریکی فوجیوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے میں کامیاب ہو گا، اس کے لیے ولیم ہرسٹ نے پچاس ہزار ڈالر کا انعام مقرر کیا۔ جوزف پلٹزر کا اخبار ’’نیویارک ورلڈ‘‘ بھی پیچھے نہ رہا۔ شہ سرخی میں روزانہ سوال پوچھا جاتا کب انتقام لیا جائے گا ؟ جوزف پلٹزر نے ایک نجی محفل میں کہا ’’ کوئی پاگل ہی سوچ سکتا ہے کہ اسپین نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری مگر ہمیں اخبار بھی تو بیچنا ہے‘‘۔ (کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج معیاری صحافت کا سب سے بڑا عالمی انعام پلٹزر پرائز زرد صحافت کے ایک امام جوزف پلٹرز کے نام پر ہے)۔
بہرحال جب جنگی بخار حسبِ منشا پھیل گیا تو امریکی کانگریس نے خوشی خوشی پچیس اپریل کو صدر کونلے کو جنگ کرنے کا اختیار دے دیا۔ کیوبا میں ہسپانوی بحری بیڑا چار گھنٹے میں نیست و نابود کر دیا گیا۔ گویا اسپین براعظم امریکا سے ویسے ہی نکلا جیسے چار سو برس پہلے مسلمان اسپین سے نکالے گئے تھے۔
بحرالکاہل میں امریکی بحریہ کے کمانڈر کموڈور ڈیوی نے منیلا پر حملہ کر کے دوسرے ہسپانوی بیڑے کو برباد کر دیا۔ دسمبر اٹھارہ سو اٹھانوے میں پیرس میں امریکا اور اسپین کا امن سمجھوتہ ہوا۔ پورٹوریکو ، فلپینز، گوام پر امریکی قبضہ ہو گیا۔ کیوبا کو امریکی حلقہِ اثر میں نام نہاد آزادی مل گئی۔ امریکی فوجی طاقت کی یورپ پر دھاک بیٹھ گئی۔ بحریہ کے وزیر تھیوڈور روز ویلٹ کی ہیرو پنتی کے شادیانے بج گئے اور وہ ولیم کونلے کے بعد امریکا کے صدر بن گئے۔ یو ایس ایس مین کا مستول امریکا لایا گیا اور واشننگٹن کے آرلنگٹن قومی قبرستان میں نصب کر دیا گیا۔ شہداِ مین کی قومی یادگار بھی بنی۔
انیس سو چوہتر میں ایڈمرل ہائمن رکوے نے نجی طور پر تمام پرانی دستاویزات کنگھالیں۔ انیس سو ننانوے میں نیشنل جیوگرافی کی ٹیم نے جنگی جہاز مین کے زیرِ آب ڈھانچے کے فرانزک معائنے اور کمپیوٹر سیمولیشن کی مدد سے دستاویزی فلم بنائی۔ دو ہزار دو میں ڈسکوری چینل نے اپنے طور پر ایک تحقیقی فلم بنائی۔ سب ایک ہی نتیجے پر پہنچے۔ یو ایس ایس مین اسپین کے حملے سے نہیں بلکہ اپنا ہی بارود حادثاتی طور پر پھٹنے سے برباد ہوا۔ مگر امریکا کو جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ اب آپ تاقیامت تحقیق پیٹتے رہئے۔ آئیے اگلے چھیاسٹھ برس فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ انیس سو چونسٹھ میں امریکا میں لنڈن بی جانسن حکومت برسرِاقتدار ہے۔ امریکا جنوب مشرقی ایشیا میں کیمونسٹ اثر و نفوذ کو روکنا چاہتا ہے۔
آنجہانی صدر کینیڈی شمالی ویتنام کا مقابلہ کرنے کے لیے جنوبی ویتنام کی فوجی تربیت کے نام پر سولہ ہزار امریکی فوجی تربیتی مشیروں کے بہانے بھیج چکے ہیں۔ اب امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کوئی ایسا موقع ملے جس کے پردے میں امریکا ایک ہی بار شمالی ویتنام کا قلع قمع کر دے۔ چنانچہ جولائی انیس سو چونسٹھ میں امریکی بحریہ کے ایک جہاز یو ایس ایس میڈوکس کو خلیج ٹونکن میں شمالی ویتنام کے ساحل سے کچھ پرے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔اس کا کام سراغرسانی ہے۔ دو اگست کو تین شمالی ویتنامی گن بوٹس جہاز کے قریب آتی ہیں۔ ان کشتیوں پر یو ایس ایس میڈوکس سے بھاری گولہ باری کی جاتی ہے۔دعوی کیا جاتا ہے کہ میڈوکس پر پہلے ویتنامیوں نے تارپیڈو اور مشین گنوں سے حملہ کیا۔ مگر یہ کیسا حملہ تھا کہ صرف ایک گولی جہاز کی چادر میں سوراخ کر پائی۔ تینوں حملہ آور ویتنامی گن بوٹس کو جوابی گولہ باری سے نقصان پہنچانے اور چار ویتنامی حملہ آور فوجیوں کی ہلاکت کا بھی دعوی کیا گیا۔
اس حملے کے دو روز بعد چار اگست کو امریکی فوجی ذرایع نے دعوی کیا کہ ویتنامی گن بوٹس نے دوبارہ یو ایس ایس میڈوکس پر حملے کی کوشش کی۔ دو ویتنامی مسلح کشتیوں کو تباہ کر دیا گیا اور متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ چنانچہ اسی دن شام کو امریکی کانگریس نے صدر کو جنوب مشرقی ایشیا میں کیمونسٹ خطرے کی روک تھام کے لیے فوجی اقدامات سمیت ہر قسم کی کارروائی کا اختیار دے دیا۔صدر جانسن نے نصف شب کو قوم سے خطاب کیا اور پانچ اگست کو امریکی فضائیہ نے شمالی ویتنام کے خلاف پہلے بھرپور حملے میں پانچ بحری اڈوں اور تیل کے ذخیرے کو نشانہ بنایا۔ اور پھر پانچ لاکھ امریکی فوجی اگلے گیارہ برس کے لیے ویتنام بھجوا دیے گئے۔
کیا خلیج ٹونکن میں واقعی ویتنامی کشتیوں نے دو اور چار اگست کو امریکی جنگی جہاز پر حملہ کیا تھا ؟ دو اگست کو یقیناً امریکی جہاز اور ویتنامی گن بوٹس میں جھڑپ ہوئی۔ مگر چار اگست کی جھڑپ جس کو بہانہ بنا کے شمالی ویتنام کے خلاف بھرپور امریکی کارروائی شروع ہوئی درحقیقت کبھی ہوئی ہی نہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ خراب موسم کے سبب امریکی جنگی جہاز کے ریڈار نے غلط امیجز دینے شروع کیے اور جہاز کے کمانڈر نے تصوراتی حملہ آوروں پر گولہ باری شروع کرا دی۔ مگر دو ہزار پانچ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ہی دیر بعد کمانڈر کیپٹن ہیرک نے ہائی کمان کو تار بھیجا کہ حملہ نہیں ہوا بلکہ مغالطہ ہوا ہے۔
ایک گھنٹے بعد دوسرا تار بھیجا گیا۔ یہ اطلاعات پیسفک نیول ہائی کمان کے توسط سے وزیرِ دفاع میکنامارا کی میز تک پہنچائی گئیں۔ بعد ازاں میکنامارا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا صدر جانسن کے ساتھ ورکنگ لنچ طے تھا لہذا وہ یہ پیغامات بروقت نہ دیکھ سکے۔ البتہ اس وقت کے نائب امریکی وزیرِ خارجہ برائے اقتصادی امور جارج بال نے ایک برطانوی صحافی کو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ وزیرِ دفاع میکنامارا ، قومی سلامتی کے مشیر میک جارج بنڈی اور خود صدر جانسن کے علم میں تھا کہ چار اگست کو امریکی جہاز پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ لیکن چند ماہ قبل شمالی ویتنام کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہو چکا تھا لہذا ایک بہانے کی تلاش تھی بھلے وہ کتنا ہی بودا ہو۔ آئیے مزید انتالیس برس فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔
پانچ فروری دو ہزار تین کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول نے صدام حسین کے وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے دنیا کو نجات دلانے کے لیے فوجی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جہاں صدام حسین کی ’’ حیاتیاتی و کیمیاوی ہتھیار ساز موبائل لیبارٹریز‘‘ کی تصاویر دکھائیں۔ وہیں کولن پاول کے ہاتھ میں ایک شیشی بھی تھی جس میں بقول ان کے خشک انتھریکس بھرا ہوا تھا۔ یہ وہ انتھریکس تھا جو ایک لفافے میں کسی نے دو برس قبل امریکی سینیٹ کے پتے پر پوسٹ کیا تھا اور کانگریس کی عمارت کو احتیاطاً خالی کرا لیا گیا تھا۔ کولن پاول نے شیشی لہراتے ہوئے اسے عراق کے کیمیاوی ہتھیاروں کے واحد زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ اور پھر انیس مارچ کو صدام حسین کے خلاف آخری فوجی کارروائی شروع ہو گئی۔ جانے وہ کیمیاوی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذخیرے اور لیبارٹریاں صدام حسین نے کہاں چھپا دیں جو آج تک نہیں مل سکیں۔ البتہ عراق ضرور نیو امریکی ورلڈ آرڈر کی لیبارٹری بن گئی۔
سمجھ تو آپ گئے ہوں گے؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
دنیا بھر میں سات کروڑ انسان جنگوں کے باعث بے گھر ہیں
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت سات کروڑ سے زائد انسان جنگوں اور دیگر تنازعات کے باعث بے گھر ہیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ایسے انسانوں کی مجموعی تعداد دنیا کے بیس ویں بڑے ملک کی آبادی کے برابر ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام پر دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں جنگوں، مسلح تنازعات اور خونریز بحرانوں کے باعث اندرونی یا بیرونی نقل مکانی پر مجبور ہو چکے انسانوں کی تعداد تقریباﹰ 71 ملین بنتی تھی۔ اس ادارے کے مطابق یہ 70.8 ملین انسان ایسے لوگ ہیں، جو محض اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر بار ترک کرنے پر مجبور ہو گئے اور ان کی یہ تعداد 2017ء کے مقابلے میں دو ملین زیادہ ہے۔
یوں عالمی سطح پر نقل مکانی پر مجبور ان بے گھر انسانوں کی تعداد کا یہ ایک نیا لیکن برا عالمی ریکارڈ ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ انسانوں کو انسانوں ہی کے پیدا کردہ بحرانوں کے باعث کس کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے 'گلوبل ٹرینڈز‘ یا 'عالمی رجحانات‘ کے عنوان سے جاری کی جانے والی اس تازہ ترین سالانہ رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں اتنے زیادہ انسان جنگوں اور بحرانوں کی وجہ سے بے گھر ہیں کہ اگر وہ سب کسی ایک ملک میں رہ رہے ہوتے، تو وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 20 واں سب سے بڑا ملک ہوتا۔
ٹرمپ اور دیگر رہنما کیا کریں؟
یو این ایچ سی آر کے مطابق ان تقریباﹰ 71 ملین انسانوں میں ایسے مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد بھی شامل ہیں، جو عشروں سے اپنے آبائی ممالک اور خطوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں، صرف اس لیے کہ ان کی ان کے آبائی علاقوں میں زندگیاں ابھی تک خطرے میں ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے جنیوا میں اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ ان کا ادارہ اپنی اس رپورٹ کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماؤں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن کو اپنے اپنے ممالک میں سلامتی اور روزگار کے مواقع کے لیے خطرات کے طور پر پیش کرنے سے احتراز کریں۔ گرانڈی نے کہا، ''یہ بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور انسان تو خود اپنی زندگیوں کا درپیش خطرات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘
مہاجرین کا عالمی دن
ادارہ برائے مہاجرین نے اپنی یہ رپورٹ مہاجرین کے عالمی دن سے ایک روز قبل جاری کی۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ 2018ء کے اختتام پر 70.8 ملین انسان بے گھر تھے، 2017ء کے اختتام پر ان کی تعداد 68.5 ملین بنتی تھی اور اگر 2008ء اور 2018ء کے درمیانی عشرے کو دیکھا جائے، تو اس دوران ایسے انسانوں کی تعداد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فیلیپو گرانڈی کے مطابق ایک اور بہت تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ ان تقریباﹰ 71 ملین انسانوں میں سے 41 ملین، یا ہر پانچ میں سے تین انسان ایسے ہیں، جو جنگوں، بحرانوں اور تنازعات کے باعث اپنے آبائی ممالک میں ہی داخلی طور پر مہاجرت پر مجبور ہو گئے۔ ان مہاجرین میں بہت بڑی تعداد خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے شامی باشندوں کی ہے، جو 13 ملین بنتی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
تبدیلی کا نعرہ، تعلیم وصحت کے بجٹ میں کمی
تعلیم و صحت کے بجٹ میں کمی کر دی گئی ۔ مراعات یافتہ طبقے کو ایک انکم ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اساتذہ اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا مگر انکم ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔ مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ محض 17500 مقرر ہوئی۔ مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی، تحریک انصاف کا منشور پسِ پشت چلا گیا۔ صرف ایک اچھی خبر یہ ہے کہ شرح خواندگی ایک فیصد سے کچھ بڑھ گئی ہے، یعنی تریسٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب بھی سینتیس فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان خواندگی کے لحاظ سے بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش اور مالدیپ سے پیچھے ہے۔ وفاقی بجٹ کا کل حجم 949896 بلین ہے۔ اس میں تعلیم کا حصہ 33780 بلین ہے، گزشتہ سال اس مد میں 42776 بلین روپے رکھے گئے تھے اس طرح صحت کے شعبے کے لیے 12671 ملین روپے رکھے گئے ہیں گزشتہ سال کے بجٹ میں 29999 ملین روپے رکھے گئے تھے۔
اس سال کے شروع میں بھارت کے زیر کنٹرول علاقے پلوامہ میں فوجی قافلے پر حملہ ہوا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی تو حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں تعلیم اورصحت کی مد میں مختص رقم میں کٹوتی کر لی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے کئی پروگرام منسوخ کرنے پڑ گئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مشیر تعلیم اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاالرحمن نے صدر پاکستان کے نام ایک خط میں ان پروگراموں کے منسوخ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا اور یہ رقم سہولتوں کو بہتر بنانے پر خرچ ہو گی مگر شاید ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دباؤ زیادہ تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کو شامل نہیں کیا گیا۔
پاکستان تعلیم اور صحت کے شعبوں میں گزشتہ ستر سالوں سے پسماندہ ہے۔ انگریزوں کے دور میں جس رفتارسے شرح خواندگی بڑھی تھی، آزادی کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومتیں اس رفتارکو برقرار نہیں رکھ سکیں۔ 1947 سے 1972 تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے صحت اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، یوں ان دونوں شعبوں کو منافع کمانے والے لوگوں کے سپرد کر دیا گیا۔ ان ادوار میں سرکاری کالج ، اسکول بہت کم تعداد میں قائم ہوئے، بڑے شہروں میں غیر سرکاری ادارے قائم ہوئے ، رفاحی اداروں نے بھی غیر سرکاری ادارے قائم کرنے میں کافی مدد فراہم کی۔ مگر انھیں چھوٹے دیہاتوں وشہروں میں کوئی کشش نظر نہیں آئی۔ نجی تعلیمی اداروں نے والدین سے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا اور اساتذہ کا بد ترین استحصال شروع کر دیا ۔
پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم اور صحت کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا، یوں تعلیمی ادارے قومیائے گئے ان تعلیمی اداروں کے قومیانے سے اساتذہ کے حالات تو بہتر ہوئے مگر سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے تعلیمی شعبے کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کر دیا، نااہل لوگ استاد کے منصب پر فائض ہوئے،غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ وجود میں آیا یوں وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جس کی توقع تھی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں نجی اداروں نے اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ یونیورسٹیاں بھی قائم کیں، امراء کے لیے یورپی یونیورسٹی کی ڈگریاں ملک میں ہی میسر آنے کے مواقعے پیدا ہوئے مگر پھر نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مارکا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ جنرل مشرف کے دور میں عالمی بینک کی امداد سے یونیورسٹی گرانٹ کا مشن ہائیر ایجوکیشن میں تبدیل ہوا۔
ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے معیار کی بہتری کے لیے قابل ستائش اقدامات کیے، ایچ ای سی نے نصاب کو بہتر بنانے، اساتذہ کی ٹریننگ کے ورکشاپ کے انعقاد، پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک میں اسکالرشپ کے اجرا اور یونیورسٹیوں کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اربوں روپے مختص کیے۔ یونیورسٹیوں میں نئے شعبے قائم ہوئے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، ایچ ای سی کے اس رویے سے یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا۔ گزشتہ حکومت نے خواندگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے، وفاقی حکومت کی مدد سے دور درازعلاقوں میں اسکولز کے قیا م کا سلسلہ شروع ہوا مگر اس دوران تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم بہت کم تھی اور پاکستان تعلیم کے شعبے میں دنیا سے بہت پیچھے بھی تھا مگر اب تعلیم کے شعبے میں بجٹ کی کمی سے اور منفی نتائج سامنے آئیں گے ۔
وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ترقیاتی پروگراموں کے صرف 29 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ اس فنڈ میں صرف دو نئی یونیورسٹیوں کا قیام جب کہ بقیہ پرانی یونیورسٹیوں میں ہی نئے شعبوں کے قیام کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلا ن کیا تھا مگر بجٹ کی دستاویزات میں ایک وفاقی انسٹیوٹ کے لیے 49 بلین روپے رکھے گئے۔ بظاہر بجٹ کے دستاویزات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاقی حکومت حیدرآباد میں ایک مکمل یونیورسٹی کے بجائے اعلیٰ تعلیم کا کوئی انسٹیوٹ بنانے کا خیال ہی رکھتی ہے۔ یہ خبر حیدرآباد کے شہریوں اور تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے لیے یقینا مایوس کن ہو گی ۔
وفاقی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کمی کی ہے، اب ایچ ای سی کی بیرون ملک اسکالرشپ کی اسکیم موخر ہو جائے گی۔ امریکا اور یورپ میں اسکالرشپ کے زریعے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم اس خوف کا شکار ہیں کہ حکومت ان کی اسکالرشپ کی گرانٹ کو روک دے گی۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کی تربیت کے لیے جو پروگرام شروع کیے تھے وہ سب بند کر دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کسی نئے منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔بچوں کو جبری مزدوری اور بیگار سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ بچوں اور ان کے والدین کو فری تعلیم کے ساتھ مفت یونیفارم ،کتب اور کھانے کی سہولیات ہی اسکول کی جانب راغب کر سکتی ہیں۔ عمران خان جس طرح گزشتہ تیس سالوں سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا کرتے تھے اور حکمرانوں کی نااہلی پر گرما گرم تقریریں کیا کرتے تھے اس سے ہزاروں نوجوان متاثر ہوئے مگر عمران خان کی حکومت یہ بجٹ تو ماضی کی حکومتوں کی یاد دلا رہا ہے ۔
شعبہ صحت کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کی بہت کمی ہے، صرف اسلام آباد کے اسپتالوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت بار بار آشکار ہوتی ہے کہ شمالی علاقہ جات کشمیر اور پنجاب کے بہت سارے علاقوں مثلا، اٹک، چکوال، راولپنڈی، جہلم، میانوالی اور بھکر تک کے لوگ اسلام آباد کے اسپتالوں میں آتے ہیں۔ ان اسپتالوں میں بیڈز، دوائیوں اور ڈاکٹروں کی کمی پائی جاتی ہے بعض اوقات تو ایک بیڈ پر کئی مریض لیٹے نظر آتے ہیں، پھر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ان اسپتالوں میں علاج کی سہولیات مفت ہیں مگر عملی طور پر تو کچھ اور ہی نظر آتا ہے ،ان اسپتالوں کے اسٹورز پر دوائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لوگ دوائیاں نجی میڈیکل اسٹورز سے خریدنے پر مجبور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ لیبارٹریوں کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے مریض اپنے ٹیسٹ باہر سے کرانے پر مجبور ہیں اور جو مریض باہر سے ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے انھیں ٹیسٹ کرانے کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ پہلے تو اسلام آباد میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے کے قریبی اضلاع میں جدید قسم کے اسپتال قائم کیے جائیں ۔
وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کے تین اسپتالوں کا انتظام سنبھال لیا ہے یہ اسپتال وفاقی حکومت نے قائم کیے تھے مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے حوالے کر دیے گئے تھے مگر سندھ حکومت کے زیراہتمام اسپتالوں کی کارکردگی خاصی مایوس کن تھی ۔ مریضوں کو ادویات، آپریشن کے سامان اور فیسٹو کے لیے باہر رجوع کرنا پڑتا تھا ۔ ان میں ایک امراض قلب کا قومی ادارہ (NIC) بھی ہے اس میں تو بعض اوقات ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ اگر کوئی خاتون اپنے والد یا والدہ کو دل کا دورہ پڑنے پر لائی ہے اور مریض کو فوری جان بچانے کے لیے انجیکشن کی ضرورت ہے تو اس خاتون کو اپنی انگوٹھیاں اور بالیاں کیمسٹ کے پاس گروی رکھوانی پڑ جاتی تھیں مگر اٹھاریوں ترمیم کے بعد یہ اسپتال سندھ حکومت کے پاس آئے تو ان کی کارکردگی بہت بہتر ہو گئی مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مفت مہیا ہونے لگا۔
انجیوپلاسٹی اور بائی پاس جیسے مہنگے آپریشن مفت ہونے لگے بہت سارے ڈاکٹروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسپتال شہر کے بہت سے دوسرے مہنگے اسپتالوں سے بہتر ہو گئے ہیں مگر اب وفاقی حکومت نے دوبارہ ان اسپتالوں کے انتظامات سنبھال لیے ہیں۔ اب جب کہ وفاقی حکومت نے صحت کے بجٹ میں کمی کر دی ہے تو ظاہر ہے اس کمی سے یہ تینوں اسپتال براہ راست متاثر ہونگے ۔ اب کراچی کے شہریوں کو یہ خوف ہے کہ ان اسپتالوں کے حالات ماضی جیسے ہو جائیں گے جس کا سب سے زیادہ نقصان مریضو ں کو ہو گا۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تبدیلی کا نعرہ محض ایک ڈھونگ تھا۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ اچانک تبدیل
ایک امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کی جانب سے خلیج میں امریکہ کا ڈرون طیارہ گرائے جانے کے ردعمل میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دے دیا تھا جسے بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر نے ایرانی تنصیبات بشمول ریڈار سسٹم، اور میزائل تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منظوری دی، تاہم پھر اچانک فیصلہ تبدیل کر لیا۔ اخبار نے ایک اعلٰی امریکی عہدیدار کا حوالہ دیا ہے جو اس اجلاس میں شریک تھے، جن کے بقول یہ کارروائی جمعے کی علی الصبح کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق اہم اجلاس میں موجود امریکی عہدیدار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فضائیہ کے جہاز کارروائی کے لیے ہوا میں موجود تھے، جب کہ سمندر میں موجود جہازوں نے بھی اہداف کا تعین کر لیا تھا، لیکن پھر یہ حکم واپس لے لیا گیا۔
امریکہ اگر ایران کے خلاف کارروائی سے اچانک دستبردار نہ ہوتا تو یہ مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی تیسری فوجی مداخلت شمار ہوتی، اس سے قبل امریکہ 2017ء اور 2018ء میں شام میں اہداف کو نشانہ بنا چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ صدر ٹرمپ خود ایران پر حملے کے فیصلے سے پیچھے ہٹے یا امریکی انتظامیہ کی جانب سے انھیں انتظامی معاملات کی وجہ سے فی الحال حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی فوج نے گزشتہ روز ایران کی جانب سے خلیج میں اس کا ایک ڈرون طیارہ گرائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ ایران کے پاسدران انقلاب نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی طیارے نے ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جس پر اسے گرایا گیا۔
صدر ٹرمپ کا ایران کو پیغام
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایرانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ انھیں بذریعہ عمان امریکہ کے صدر کا پیغام موصول ہوا ہے، جس میں انھوں نے ایران کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ تاہم ساتھ ہی انھوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ امریکہ ایران سے جنگ کے بہت قریب ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے کہا ہے کہ امریکہ جنگ نہیں چاہتا تاہم وہ تصفیہ طلب معاملات پر ایران کے ساتھ بات چیت کو تیار ہے۔ پیغام کے مطابق صدر نے ایران کو جلد فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔ ایک اور ایرانی اہل کار نے رائٹرز کو بتایا کہ رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے، تاہم امریکی صدر کے پیغام سے متعلق انھیں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق انھوں نے عمان کے حکام پر واضح کر دیا ہے کہ جنگ کے خطرناک علاقائی اور بین الاقوامی نتائج برآمد ہوں گے۔
ایران امریکہ کشیدگی کب کیا ہوا؟
ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدگی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز پر امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنٰی بھی ختم کر دیا تھا۔ امریکہ کا یہ موقف ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے جب کہ وہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ ایران ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔ خطے میں کشیدگی کے باعث امریکہ نے جنگی بیڑے اور فوجی بھی مشرق وسطیٰ بھیج دیے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
کیا اب کوئی نان فائلر رہ سکے گا ؟
اگر آپ پاکستانی شہری ہیں اور پوری ایمانداری اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن کسی بھی وجہ سے اپنے ادا کردہ ٹیکسوں کے گوشوارے جمع نہیں کرا رہے تو آپ مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کے ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے علاوہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو گوشوارے جمع کرانے کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف بی آر کے ترجمان حامد عتیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو پہلے مرحلے میں نوٹسز بھجوائے جائیں گے اور ایک خاص وقت پر جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ایف بی آر کے پاس کسی دہندہ کی ٹیکس کی ادائیگی سے متعلق معلومات آئے اور گوشوارہ نہ آئے تو اس پر ایکشن لیا جائے گا۔‘ ایف بی آر کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں 13 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو مختلف مدوں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس دہندگان میں خاصی بڑی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے، جن کی تنخواہ میں سے ہر مہینے انکم ٹیکس منہا ہو جاتا ہے۔ حامد عتیق کے مطابق: ’ان 13 کروڑ دہندگان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو موبائل فون کا کارڈ خریدنے پرٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس صرف 20 لاکھ ٹیکس دہندگان ایف بی آر کے پاس گوشوارے جمع کرواتے ہیں۔‘
حامد عتیق نے کہا: ’یہ تعداد بہت کم ہے اور ایف بی آر اسے 40 لاکھ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘ ایف بی آر کے نئے سربراہ شبر زیدی نے گذشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ جو تبدیلیاں لا رہے ہیں ان کے بعد کوئی نان فائلر نہیں رہ سکے گا- ان کا مطلب تھا کہ اب ہر آمدن والے شخص کو گوشوارے جمع کروانے کے بغیر گزارا نہیں ہو گا۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بینکوں سے بڑا بیلنس رکھنے والے اُن کھاتہ داروں کی تفصیلات بھی اکٹھی کی ہیں جنہوں نے گوشوارے جمع نہیں کروائے۔
ٹیکس گوشوارہ کیا ہے؟
ٹیکس گوشوارہ دراصل ایک فارم ہے جس میں ٹیکس دہندہ اپنی سالانہ آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات بیان کرتا ہے، جس سے ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ اس شخص پر لگنے والے ٹیکس کا اندازہ لگاتا ہے۔ عام طور پر ٹیکس کے گوشوارے جمع کروانے والے کو فائلر اور ایسا نہ کرنے والے کو نان فائلر کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس سے متعلق قوانین کے تحت ہر ٹیکس دہندہ (فرد یا ادارے) پر مالی سال کے خاتمے پر ایف بی آر کے پاس اُس سال کے دوران اپنے ادا کردہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازم ہے۔ حامد عتیق کہتے ہیں: ’گوشوارے کے ذریعے ایف بی آر کو ٹیکس دہندہ کی مالی حالت سے متعلق پوری معلومات حاصل ہو جاتی ہیں کہ اس کی آمدن اور لائف اسٹائل کیا ہے اور اس نے سال بھر میں خود پر اور اپنے خاندان پر کتنا خرچ کیا ہے۔‘ ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں: ’گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے ساتھ میری کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ساری دنیا میں ٹیکس دہندہ گوشوارے جمع کراتے ہیں تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’اب تو پاکستان پر دنیا کی طرف سے بھی دباؤ ہے کہ اپنے لوگوں کو ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے پر مجبور کریں۔‘
فائلرز کی تعداد کیسے بڑھے گی؟
وزیر برائے مال حماد اظہر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے پاس موجود معلومات کو ٹیکس اکٹھا اور گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور ایف بی آر نادرا سے پاکستانی ٹیکس دہندگان سے متعلق معلومات حاصل کر رہا ہے۔ ان کے مطابق: ’نادرا کے پاس پانچ کروڑ 30 لاکھ شہریوں کی معلومات موجود ہے۔ جس میں ان کی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس، بیرون ملک سفروں، بجلی و گیس اور دوسرے یوٹیلیٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات، گاڑیوں کی تعداد، صحت کے اخراجات کی تفصیلات سمیت بہت سارے دوسرے اخراجات اور ملکیتوں سے متعلق معلومات شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر 30 سے 40 لاکھ نان فائلرز کی معلومات بھی نادرا سے حاصل کر رہا ہے اور معلومات حاصل ہونے کے بعد نان فائلرز کے خلاف ضروری کاروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نادرا کے پاس موجود ڈیٹا ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ حامد عتیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایف بی آر گوشوارے جمع کرانے کے لیے ایک موبائل ایپ تیار کر رہا ہے۔ ’اس سے گوشوارے جمع کروانا بہت سہل ہو جائے گا۔ یہ ایک بہت آسان اور عام آدمی کو سمجھ آنے والی ایپ ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ایپ پر کام کافی تیزی سے جاری ہے اور جولائی میں اسے لانچ کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی حامد عتیق نے امید ظاہر کی کہ اس سے فائلرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
نظام پر اعتراضات
ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے نظام پر بہت سارے اعتراضات ہیں۔ نہ صرف ٹیکس دہندگان بلکہ ماہرین بھی اس نظام میں خامیاں دیکھتے ہیں۔ انکم ٹیکس کے وکیل جمیل چوہدری کہتے ہیں: ’جب ایک شہری ٹیکس ادا کرتا ہے تو ایف بی آر کو اسے وصولی کی رسید دینا چاہیے۔ یہ کیا نظام ہے کہ ٹیکس دینے والا ہی اپنے ادا کردہ ٹیکس کی رسید جمع کرائے گا؟‘ حامد عتیق کہتے ہیں: ’ٹیکسیشن کا عمل تب ہی پورا ہو تا ہے جب شہری ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنے گوشوارے بھی جمع کرائیں۔‘ دوسری جانب ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ ’گوشوارے جمع کروانا ساری دنیا میں رائج ہے اور ٹیکس کی ادائیگی کا اہم جز ہے۔‘
لاہورمیں پریکٹس کرنے والے ٹیکسیشن قوانین کے ماہر وکیل فصیح اللہ کے مطابق گوشوارے جمع کرانے کا عمل بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ جسے ایک پڑھا لکھا شخص بھی مشکل سے سمجھ پاتا ہے۔ ان کے مطابق: ’بڑے بڑے ٹیکس کنسلٹنٹس اس سارے عمل کوسمجھ نہیں پاتے۔‘ اسلام آباد میں نجی معاشی کنسلٹنسی ادارے کے سربراہ ثاقب شیرانی کہتے ہیں: ’یہ سب بہانے ہیں۔ ہم ایک سنجیدہ عمل کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ٹیکسیشن کے نظام گوشوارے جمع کرانے کے ذریعے چلتے ہیں۔ تاہم ثاقب شیرانی نے فائلرز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ایف بی آر کی صلاحیتوں پر سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں ان کی ترتیب غلط ہے۔ میں خود گوشوارے جمع کرانے میں تنگ ہوتا ہوں۔‘ ثاقب شیرانی کہتے ہیں: ’ایف بی آر کو اپنے اندر صفائی کرنا ہو گی اور اپنے سٹاف کو بہت زیادہ اختیارات دینے سے اجتناب کرنا ہو گا۔‘
عبداللہ جان نامہ نگار، اسلام آباد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
دنیا کی مہلک ترین مکڑیاں
دنیا میں مکڑیوں کی 43 ہزار سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت تھوڑی خطرناک ہیں جبکہ 30 سے بھی کم انواع ایسی ہیں جو انسانی اموات کا سبب بنتی ہیں۔ انسانوں کے لیے مکڑیوں کی اتنی کم انواع نقصان دہ کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو انسانوں اور مکڑیوں کے سائز میں پایا جانے والا فرق ہے۔ مکڑیوں کا زہر چھوٹے جانوروں پر اثر کرنے لیے بنا ہوتا ہے۔ بعض انواع کا زہر جِلدی زخم اور دانے پیدا کرتا ہے یا پھر اس سے الرجی کا ایسا ردِ عمل ہوتا ہے کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ خیال رہے کہ مکڑیوں کے کاٹنے سے اموات بہت ہی کم ہیں اور ان کا علاج بھی ممکن ہے۔ آئیے اب دنیا کی مہلک مکڑیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
بھوری تیاگی مکڑی
بھوری تیاگی مکڑی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پائی جاتی ہے۔ اس کا زہر کاٹنے کے مقام کے گرد خون کی وریدوں کو تباہ کر دیتا ہے، جس کے باعث بعض اوقات بڑا جِلدی السر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے زخم کو مندمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ یہ بگڑ کر موت کا سبب بھی بن جاتا ہے البتہ ایسا کم کم ہوتا ہے۔ اس مکڑی کے سامنے والے حصے پر وائلن کی طرح کا ڈیزائن ہوتا ہے۔ یہ مکڑی، جسے وائلن مکڑی بھی کہا جاتا ہے، عام طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مغربی اور جنوبی علاقے میں رہتی ہے۔ زیادہ تر مکڑیاں سات ملی میٹر (0.25 انچ) کی ہوتی ہیں اور ان کی ٹانگیں 2.5 ملی میٹر (ایک انچ) تک پھیل جاتی ہیں۔ یہ مکڑی غاروں، بِلوں اور دیگر محفوظ جگہوں میں رہتی ہے۔ یہ خالی عمارتوں میں بھی رہائش پذیر ہو سکتی ہے۔
زردتھیلا مکڑی
یہ مکڑیاں ’’کلبیونیڈز‘‘ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے جسم کی لمبائی تین سے 15 ملی میٹر (تقریباً 0.12 سے 0.6 انچ) ہوتی ہے۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے علاوہ میکسیکو اور جنوبی امریکا میں پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماً عمارتوں کے اندر پناہ لیتی ہیں۔ اس مکڑی کا سائٹو ٹاکسن زہر (ایسا مادہ جو خلیوں کو تباہ کرتا اور انہیں اپاہج بناتا ہے) بافتوں کو برباد کر دیتا ہے مگر خطرناک حد تک ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ کاٹنے کے مقام پر سرخی اور سوزش کا ہونا عام ہے۔ یہ ’’اطاعت گزار‘‘ مخلوق نہیں، مثلاً مادہ مکڑی اپنے انڈوں کا دفاع کرتے ہوئے انسانوں کو کاٹ لیتی ہے۔
بھیڑیا مکڑی
بھیڑیا مکڑیوں کا تعلق ’’لائیکوسیڈائی‘‘ خاندان سے ہے۔ یہ مکڑیوں کا ایک بڑا خاندان ہے جو دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ان کا نام ان کی عادت کے مطابق ہے، یہ بھیڑیئے کی طرح اپنے شکار کا پیچھا کرتی اور جھپٹتی ہیں۔ ان مکڑیوں کی 126 اقسام شمالی امریکا اور 50 یورپ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ زیادہ ترچھوٹے اوردرمیانے سائز کی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی 2.5 سینٹی میٹر (ایک انچ) لمبی ہوتی ہے اور ٹانگوں کی لمبائی بھی تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے۔ بیشتر بھیڑیا مکڑیاں گہرے بھورے رنگ کی ہوتی ہیں اور ان کے جسم پر لمبے اور کھلے بال ہوتے ہیں۔
یہ تیز دوڑ سکتی ہیں اور عام طور پر گھاس میں یا پتھروں، لکڑی اور پرانے پتوں کے نیچے پائی جاتی ہیں۔ یہ ان گھروں میں داخل ہو سکتی ہیں جہاں حشرات موجود ہوں۔ مادہ مکڑی کے انڈے جسم سے منسلک تھیلی میں ہوتے ہیں، اور یوں لگتا ہے وہ ایک بڑی گیند کو گھسیٹ کر چل رہی ہو۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد بچے کئی روز اپنی ماں پر سوار رہتے ہیں۔ یہ مکڑی اگرچہ جارحانہ رویہ نہیں رکھتی، لیکن خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات کاٹنے سے الرجی پیدا ہوتی ہے جس سے قے آنے، سر چکرانے اور دل کی دھڑکن تیز ہونے جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے بڑے دانت پیوست ہو کر تکلیف دیتے ہیں۔
آوارہ برازیلی مکڑی
اس طرح کی مکڑیوں کو کیلا مکڑیاں بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کیلوں کے پتوں پر کثرت سے ملتی ہیں۔ ان کا دفاعی انداز جارحانہ ہوتا ہے، جس میں یہ اپنی اگلی ٹانگوں کو سیدھا فضا میں بلند کر لیتی ہیں۔ یہ انسانوں کے لیے زہریلی ہیں، اور دنیا کی تمام مکڑیوں میں سب سے زیادہ مہلک سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا زہر اعصابی نظام کو تباہ کرتا ہے، جس سے ظاہر ہونی والی علامات میں زیادہ تھوک بننا، دل کی بے ترتیب دھڑکن و دیگر شامل ہیں۔
سیاہ وِدھوا مکڑی
یہ مکڑی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہر برس 2500 افراد کو مراکز صحت لانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے علاوہ کینیڈا، لاطینی امریکا اور ویسٹ انڈیز میں پائی جاتی ہے۔ مادہ مکڑی سیاہ اور چمکدار ہوتی ہے اور عموماً اس کے پیٹ پر سرخ یا زرد نشان ہوتا ہے۔اس کا جسم 2.5 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔ ا س کے نر کم ہی دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ مادہ انہیں مار کر کھا جاتی ہے۔ نر مادہ کے سائز کا ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ کاٹنے پر انسان کو جِلد پر سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے، اس کے ساتھ پٹھوں میں درد اور متلی ہوتی ہے۔ اس سے پردۂ شکم قدرے اپاہج ہو جاتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ کسی پیچیدگی کے بغیر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے کاٹنے سے شیر خواروں اور معمر افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سرخ وِدھوا مکڑی
ٹانگوں کے رنگ کی وجہ سے اسے سرخ ٹانگ والی مکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیٹ پر بھی عام طور پر ایک سرخ علامت ہوتی ہے۔ مادہ ڈیڑھ سے دو انچ کی ہوتی ہے جبکہ نر کا سائز اس کا ایک تہائی ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر وسطی اور جنوبی فلوریڈا میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات کھاتی ہے اور انسانوں کی طرف اس کا رویہ جارحانہ نہیں۔ البتہ اپنے انڈوں کو نقصان سے بچانے کے لیے یہ حملہ کر دیتی ہے۔ اس کے کاٹنے سے وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو سیاہ وِدھوا مکڑی کے زہر سے ہوتی ہیں۔ بہت چھوٹے بچے، بوڑھے اور بیمار افراد کے لیے اس کا زہر مہلک ہو سکتا ہے۔
بھوری وِدھوا مکڑی
خیال کیا جاتا ہے کہ اس مکڑی کا ارتقا افریقہ میں ہوا تاہم اولین نمونہ جنوبی امریکا سے ملا۔ یہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ یہ مکڑی جنوبی کیلی فورنیا، کیربیئن، امریکا کی جنوبی ساحلی ریاستوں، جاپان، جنوبی افریقہ، مڈغاسکر، آسٹریلیا اور قبرص میں پائی جاتی ہے۔ یہ مکڑی اپنا گھر عمارات، پرانے ٹائروں اور آٹو موبائلز کے نیچے بنانا پسند کرتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ گھاس پھوس اور سبزیوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا زہر سیاہ وِدھوا مکڑی سے دگنا مضر ہوتا ہے۔ تاہم یہ جارح نہیں اور کاٹنے پر اپنا تھوڑا سا زہر انڈیلتی ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں مڈغاسکر میں اس کے کاٹنے سے دو اموات کا پتا چلا تھا۔ ان افراد کی صحت پہلے سے خراب تھی اور انہیں زہر کا تریاق بھی میسر نہیں آیا تھا۔
سرخ پشت مکڑی
یہ مکڑی آسٹریلیا کی مقامی ہے تاہم انگوروں کی برآمد کے ساتھ نیوزی لینڈ، بلجئیم اور جاپان بھی پہنچ چکی ہے۔ یہ عموماً اپنا جالا انگور کے پتوں اور شاخوں پر بناتی ہے۔ ماسوائے چند ایک علاقوں کے یہ پورے آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔ یہ شہری علاقوں میں گھروں کے اندر بھی رہتی ہے۔ اس کی سیاہ پشت پر سرخ پٹی ہوتی ہے یا ریت کی گھڑی جیسا سرخ نشان ہوتا ہے۔ یہ جارح نہیں۔ اکثر جوتوں یا کپڑوں میں پھنس جانے کی صورت میں کاٹتی ہے۔ انڈوں کا دفاع کرتے ہوئے بھی مادہ مکڑی کاٹ سکتی ہے۔ اس کے کاٹنے سے درد ہوتا ہے، پسینہ آتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور لمفی گلٹیاں سوج جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے آخری ہلاکت 1956ء میں ریکارڈ ہوئی۔
قیفی جالا مکڑی
ان کا جالا قیف کی طرح ہوتا ہے اور اسی نسبت سے ان کا نام رکھا گیا ہے۔ یہ جالے کے اندر بیٹھ کر شکار کا انتظار کرتی ہے۔ جنوبی اور مشرقی آسٹریلیا میں ان کا خاصا خوف پایا جاتا ہے۔ یہ بہت جارح ہوتی ہے اور ان کے کاٹنے سے سڈنی میں بہت سی اموات کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔
ان ریفرٹی
ترجمہ : رضوان عطا
↧
ہمالیائی گلیشئرز آخر تیزی سے کیوں پگھل رہے ہیں؟
ایک تحقیق کے مطابق رواں صدی کے آغاز سے ہمالیائی گلیشئرز کے پگھلنے کی رفتار دوگنی ہو گئی ہے جس سے خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں جنوبی ایشیائی ممالک میں کروڑوں افراد کو پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین نے ہمالیائی گلیشئرز سے متعلق 40 سالہ کا ڈیٹا مرتب کیا ہے، جس میں دو ہزار کلو میٹر کے علاقے کا سٹیلائٹ مشاہدہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ جن میں چین، بھارت، نیپال اور بھوٹان کے علاقے بھی شامل ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رواں سال کے آغاز سے لیکر اب تک ان گلیشئرز کی سطح ڈیڑھ فٹ سالانہ کی بنیاد پر گھٹ رہی ہے اور یہ مقدار 1975ء سے 2000ء کے عرصے کے دوران پگھلنے والی برف سے دوگنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسا عالمی سطح پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جبکہ بارشوں میں کمی اور صنعتی فضلات کا اخراجات بھی گلیشئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ہمالیائی گلیشئرز سے متعلق تحقیق سامنے آ چکی ہیں تاہم ماہرین کے مطابق تازہ ترین تحقیق زیادہ مستند ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مشاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمالیائی گلیشئرز کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں، ان کے بقول اگر عالمی درجہ حرارت اور ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے ہی جاری رہیں تو گلیشئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
سائبر سیکیورٹی پر دنیا بھر میں 96 ارب ڈالر خرچ
دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی 54 فیصد کمپنیاں سائبرحملوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ جن سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بنیادی ڈھانچہ اور گوشوارے متاثر ہوئے ہیں۔ سبق ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر کے ممالک سائبر سیکیورٹی پر 2018ء کے دوران 96 ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ 2017ء کے دوران انٹرنیٹ پر سائبر حملوں میں 600 فیصد اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ سائبر حملے چین سے کئے گئے ان کا تناسب 21 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ امریکہ دوسرے نمبر پر رہا جہاں سے سائبر حملے 11 فیصد ہوئے۔ برازیل تیسرے نمبر پر رہا جہاں سے 6 فیصد سائبر حملے ہوئے۔
2021ء تک انٹرنیٹ کرائم سے ہونے والے سالانہ نقصانات 6 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے ملازمتیں 3.5 ملین تک پہنچ جائیں گی۔ سائبر سیکیورٹی کی ملازمتیں پر کرنے کے سلسلے میں مشرق وسطی کو زبردست چیلنج درپیش ہے۔ یہاں سائبر سیکیورٹی کے پیشہ ور افراد کی تعداد بیحد کم ہے۔ توقع یہ ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران جی سی سی ممالک میں سائبر سیکیورٹی مارکیٹ 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیگی۔
بشکریہ اردو نیوز
↧
↧
بل گیٹس نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا اعتراف کر لیا
دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی اینڈرائیڈ جیسے آپریٹنگ سسٹم کی تیاری میں ناکامی قرار دی ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران بل گیٹس نے مائیکرو سافٹ کے قائد کے طور پر اپنی غلطیوں کے بارے میں بات کی خصوصاً کمپنی کی جانب سے ایپل کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور کامیاب موبائل آپریٹنگ سسٹم کی تیاری کی کوششوں کا ذکر کیا۔ ولیج گلوبل سے انٹرویو میں بل گیٹس نے کہا 'سب سے بڑی غلطی میں نے مائیکرو سافٹ کا انتظام سنبھالتے ہوئے کی وہ کمپنی کو اینڈرائیڈ جیسی پوزیشن پر لانے میں ناکامی ہے'۔ جب 2008 میں پہلا اینڈرائیڈ فون متعارف ہوا تھا تو اس کے بعد سے گوگل کی زیرملکیت موبائل پلیٹ فارم آئی فون (2007 میں ریلیز ہوا) کا متبادل بن گیا، جس کو ہر کمپنی استعمال کر سکتی تھی، مائیکرو سافٹ نے اس حوالے سے کوشش کی مگر مقابلے میں بری طرح ناکام رہی۔
مائیکرو سافٹ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر سافٹ وئیر میں تو سب پر غالب رہی مگر موبائل مارکیٹ میں اس کا فون پلیٹ فارم ونڈوز موبائل لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکا، جس کی وجہ کی بورڈ اور اسٹائلوس ان پٹ پر زیادہ توجہ دینا تھا۔ جب 2010 میں پہلی بار ونڈوز 7 فون متعارف کرایا گیا جس میں ٹچ اسکرین ٹیکنالوجی دی گئی تھی، تو کمپنی کے لیے بہت تاخیر ہو چکی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے 2017 میں پہلے ونڈوز 7 موبائل آپریٹنگ سسٹم کے لیے سپورٹ ختم کی اور رواں برس کے آخر میں ونڈوز 10 موبائل پلیٹ فارم بھی دم توڑ جائے گا۔ بل گیٹس نے انٹرویو کے دوران کہا 'اینڈرائیڈ ایک نان ایپل فون پلیٹ فارم ہے، یہ وہ چیز ہے جو مائیکروسافٹ جیت سکتی تھی، کیونکہ فاتح سب کچھ حاصل کر لیتا'۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے 2000 میں مستعفی ہو گئے تھے تاہم وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک جزوقتی چیئرمین اور چیف سافٹ وئیر آرکیٹیکٹ کی حیثیت سے کمپنی سے منسلک رہے اور پھر تمام توجہ فلاحی کاموں پر مرکوز کر دی۔ جب آئی فون متعارف ہوا تو اس وقت مائیکرو سافٹ کے چیف ایگزیکٹو اسٹیو بالمر نے اسے بہت مہنگا قرار دیا تھا جبکہ نوکیا کے ساتھ شراکت داری بھی کمپنی کو کامیابی نہیں دلا سکتی۔ تاہم بل گیٹس اب بھی پچھتاوا محسوس کرتے ہیں کہ مائیکرو سافٹ موبائل مارکیٹ میں جگہ بنانے میں ناکام رہی اور ان کے بقول ایپل سے ہٹ کر ایک آپریٹنگ سسٹم کی جگہ موجود تھی جوس کی مالیت اب 400 ارب ڈالرز کے برابر پہنچ چکی ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
فلسطین برائے فروخت نہیں
فلسطینی قیادت اور عرب دنیا کی اہم شخصیات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل-فلسطین مسئلہ حل کرنے کے لیے مجوزہ معاشی امن منصوبہ سامنے آنے کے فوراً بعد ہی مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ امید کر رہے تھے کہ ان کا منصوبہ دہائیوں پر محیط تنازعے کو ختم کر دے گا، لیکن فلسطینی قیادت نے ان کی 96 صفحات پر مشتمل دستاویز کو ’بے معنی‘ اور ناقابل عمل قرار دے دیا۔ صدر ٹرمپ کے داماد اور سینیئر مشیر جیرڈ کشنر نے ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران 50 ارب ڈالرز مالیت کے منصوبے کی تفصیلات آشکار کی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اسے بحرین میں شروع ہونے والی ایک دو روزہ کانفرنس میں باضابطہ طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
کشنر نے روئٹرز کو بتایا کہ اس منصوبے پر عمل کی صورت میں مغربی کنارے اور غزہ میں دس لاکھ ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں، جس سے فلسطینیوں میں غربت کم ہو گی اور ان کی مجموعی قومی پیداوار دگنی ہو جائے گی۔ مجوزہ منصوبہ ایک نئے سرمایہ کاری فنڈ کے گرد گھومتا ہے جس میں سے 27 ارب ڈالرز فلسطینی علاقوں میں خرچ کرنے کے لیے مختص ہوں گے جبکہ باقی 23 ارب ڈالرز مصر، لبنان اور اردن کے درمیان تقسیم ہوں گے۔ 179 انفرا سٹرکچر اور کاروباری منصوبوں میں سے پانچ ارب ڈالرز مالیت کا ایک منصوبہ فلسطینیوں کی مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان آمد و رفت کے لیے کوریڈور کی تعمیر کے لیے مختص ہو گا جبکہ فلسطین کے سیاحتی شعبے کے لیے بھی ایک ارب ڈالرز خرچ ہوں گے۔
منصوبے کی دستاویزات میں فلسطین کو ’ریاست‘ کے بجائے ’ایک سوسائٹی‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ ناقدین اس منصوبے کو فلسطینیوں کی قومی امنگوں کو معاشی سرمایہ کاری کے بدلے بیچ دینے سے تعبیر کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے منصوبے کی تفصیلات سامنے آنے کے فوراً بعد ہی مسترد کرتے ہوئے کہا : ’سیاسی صورتحال نمٹنے سے پہلے معاشی صورتحال کو زیر بحث نہیں لایا جانا چاہیے۔‘ ’جب تک سیاسی حل نہیں ملتا، ہم کسی معاشی حل کی طرف نہیں جائیں گے۔‘ فتح تنظیم کے ایک سینئر رکن جبریل رجب نے محمود عباس کے جذبات کی تائید کرتے ہوئے اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر کان کو بتایا: ’معاشی ٹریک کوئی حل نہیں، اور امریکی فنڈز قبضہ جاری رہنے تک بے معنی رہیں گے۔‘
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن ہنان ایشوری نے بھی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’پہلے غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے، اسرائیل کو ہماری زمین، وسائل اور فنڈز ہتھیانے سے روکا جائے، ہمیں نقل و حرکت کی آزادی اور ہماری سرحدوں، فضاؤں اور پانیوں کا کنٹرول دیا جائے پھر دیکھیں کہ ہم کس طرح آزاد اور خود مختار لوگوں کی طرح بھرپور اور خوشحال معیشت پروان چڑھاتے ہیں۔‘ غزہ کنٹرول کرنے والے گروپ حماس نے دو ٹوک الفاظ میں یوں ردعمل دیا ’فلسطین برائے فروخت نہیں‘۔ یہ منصوبہ جو پچھلے دو سالوں سے مرتب دیا جا رہا تھا بحرین میں ایک کانفرنس کے دوران پیش کیا جانا ہے، لیکن فلسطینی اتھارٹی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، جبکہ میزبان امریکہ نے اسرائیل کو مدعو نہیں کیا۔
حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیا نے بحرین کے بادشاہ حماد پر زور دیا ہے کہ وہ کانفرنس منسوخ کر دیں۔ واشنگٹن اب بھی پر امید ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے فلسطین از سر نو تعمیر ہو گا اور اسرائیل سے سیاسی محاذ آرائی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ بحرین میں شیڈول کانفرنس میں امیر خلیجی ملکوں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے شرکت کریں گے لیکن منصوبے کے لیے 50 ارب ڈالرز کیسے اکھٹے ہوں گے یہ سوال فی الحال حل طلب ہے۔ ماہرین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ غزہ کی اسرائیلی اور مصری ناکہ بندی اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے باوجود یہ پیسے کس طرح فلسطینیوں کی معاشی حالت بہتر کریں گے۔
اردن سے لے کر کویت تک، نمایاں مبصرین اور عام شہری منصوبے کو ’وقت کا عظیم ضیاع‘ اور ’وقت سے پہلے ہی فوت‘ ہونے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مصری تجزیہ نگار جمال فہمی کہتے ہیں: آبائی زمینیں فروخت نہیں کی جاتیں، خواہ پوری دنیا کے پیسے ہی کیوں نہ دیے جائیں۔’ یہ منصوبہ سیاست دانوں کا نہیں بلکہ رئیل سٹیٹ بروکروں کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ حتی کہ معتدل سمجھی جانے والی عرب ریاستیں بھی اس کی کھلے عام حمایت کرنے سے عاری ہیں۔‘ اردن کے سابق سینیئر سیاست دان جواد العنانی نے منصوبے کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پورے خطے کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
بعض اسرائیلی مبصرین نے بھی اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ بائیں بازو کے اہم اخبار ہاریٹز سے وابستہ اسرائیلی صحافی انشل فیفر کے مطابق ’کشنر کا منصوبہ خالی خولی باتیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی 5G کے بدلے اپنی قومی امنگیں بیچ دیں گے‘۔ تاہم اس امریکی منصوبے کو اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے اس کے فوراً رد کیے جانے پر افسوس بھی ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے قریبی سمجھے جانے والے کابینہ کے رکن زاچی ہنیبی نے کان ریڈیو کو بتایا ’وہ (فلسطینی) اب بھی سمجھتے ہیں کہ معاشی امن کا معاملہ ایک سازش ہے، جس کا مقصد انہیں اچھی چیزوں کے لیے فنڈز دینا ہے تاکہ وہ اپنی قومی امنگیں بھول جائیں‘۔ خلیجی مبصرین نے، جن کے ملک بحرین کانفرنس میں حصہ لیں گے، کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے یک دم منصوبے کو مسترد کر کے غلط کیا۔
بیل ٹریو
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ
↧
کیا امریکہ، ترکی تعلقات میں بہتری آئے گی؟
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان روس کے ایس 400 میزائلوں کی خرید پر موجود تلخی کو دور کرنے کیلئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ متوقع ملاقات جاپان کے شہر اوساکا میں منعقد ہونے والےجی 20 سربراہی اجلاس سے ہٹ کر ہو گی۔ اور، بہت سے ماہرین اس ملاقات کو دو نیٹو اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو دور کرنے کے آخری موقعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ترکی نے روس کے ساتھ ان میزائلوں کی خریداری کیلئے ڈھائی ارب ڈالر کا معاہدہ طے کیا ہے۔ یہاں امریکہ میں ترکی کے سابق سینئر سفارتکار، آئیدین سلچن کہتے ہیں کہ دنوں صدور کے درمیان ملاقات تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے سلچن کا کہنا ہے کہ روس سے میزائلوں کی آمد، جولائی کے اواخر میں ہو گی، اور امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا اطلاق اب ہونے ہی والا ہے۔ یہ پابندیاں، بقول ان کے، ٹھوس اور حقیقی ہیں۔
اردوان بظاہر ان پابندیوں کو اہمیت نہیں دے رہے۔ جاپان کیلئے روانہ ہونے سے پہلے میڈیا رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے، اردوان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ نیٹو میں شامل ممالک نے ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کرنی شروع کر دی ہیں۔ اردوان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے کے دوران انہیں کبھی ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔ صدر اردوان کو تعلقات میں برف پگھلنے کی توقع ہے۔ نکی ایشین ریویو نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں صدر اردوان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ جی20 سربراہی اجلاس کے دوران، صدر ٹرمپ سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات میں جاری تعطل کو دور کرنے اور باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے اہم ثابت ہو گی۔
ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ جدید ترین ایس 400 میزائلوں سے نیٹو کے دفاعی نظام کو خطرہ لاحق ہے، خصوصی طور پر امریکہ کے جدید ترین ایف 35 لڑاکا طیاروں کو۔ انقرہ کو اس کنسورشیئم سے الگ ہونے کا سامنا ہے جو ان طیاروں کو بنا رہا ہے بلکہ ان کی خریداری پر پابندی کا بھی خطرہ ہے۔ ایس 400 میزائلوں کی خریداری پر ردِ عمل میں، پہلے قدم کے طور پر، ان جدید طیاروں کی تربیت حاصل کرنے کیلئے آئے ہوئے ترک پائلٹوں کو، اِس ماہ، تربیت سے الگ کر دیا گیا ہے۔
تعطل کو دور کرنے کیلئے، اردوان صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات پر انحصار کر رہے ہیں۔ ترکی کے سابق سینئر سفارتکار سلچن کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ صدر اردوان دنیا کے ان چند لیڈروں میں شامل ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ پسند کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے تعلقات، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر کس طرح سے اثر انداز ہونگے، یہ ملاقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
تاہم، امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع، مارک ایسپر نے اپنے ترک ہم منصب، ہُو لُو سی آکار کو ایس 400 کی خریداری کے نتائج پر متنبہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر ترکی ایس 400 میزائل کی خریداری کرتا ہے، تو اس کے نتائج بھی بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہئیے، اور ان میں نہ صرف ایف 35 طیاروں سے الگ ہونا بلکہ اس کی معاشی صورتحال، دونوں شامل ہیں۔ امریکی کانگریس نے بھی ترکی پر ’کاؤنٹر اینٹی امیریکن ٹریڈ سینکشنز ایکٹ‘ کے تحت وسیع تر معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ جاپان میں منعقدہ سربراہی اجلاس کے دوران، اردوان کی ملاقات، روس کے صدر ولیدیمیر پیوٹن سے بھی ہونے کی توقع ہے۔ صدر اردوان کیلئے یہ ملاقات روس سے تعلقات خراب کئے بغیر، ایس 400 میزائلوں کی خرید سے الگ ہونے کا ایک موقع ہو گی۔ ماہرین کے نزدیک، دونوں ملکوں کے، وسیع تر معاشی اور علاقائی مشترکہ مفادات کی وجہ سے، یہ ممکنہ معاہدہ عمل میں آ بھی سکتا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
شکست ِاستنبول، ایردوان کے زوال کا آغاز تو نہیں ہے؟
مئی 2019 کو ’’استنبول میں ایردوان کا مستقبل داؤ پر‘‘ کے زیرِ عنوان کالم میں استنبول کے مئیر شپ کے 31 مارچ 2019 کے انتخابی نتائج کو حکومت کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے اور اپوزیشن پر دھاندلی کے الزامات لگانے کے بعد اسے منسوخ کرتے ہوئے 23 جون 2019 کو نئے سرے سے صرف مئیر شپ ہی کے انتخابات دوبارہ سے کروانے کے یک طرفہ اعلان نے ترکی کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ مئیر شپ کے ان انتخابات میں مخالف جماعتوں کے ’’اتحادِ ملت‘‘ کے مشترکہ امیدوار ’’اکرم امام اولو‘‘ نے بڑے سخت معرکے کے بعد چند ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی جو اپوزیشن کی 25 سال بعد استنبول میں پہلی کامیابی تھی لیکن ’’ترک سپریم الیکشن کمیشن‘‘ نے جس نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے مئیر بننے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا تھا، اپنے ہی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان انتخابات کو منسوخ قرار دے دیا حالانکہ دنیا میں عام طور پر حکومت پر دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن ترکی میں اس کے بالکل برعکس ہوا۔
مئیر شپ کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ سے انتخابات کروانے کا فیصلہ شاید صدر ایردوان کی فاش غلطی تھی جس کا خمیازہ انہیں اس شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ شکست ان کی اپنی جماعت میں پھوٹ کا سبب بنے اور یہ ایردوان کے طویل اقتدار کے خاتمے کی وجہ بھی بن جائے۔ اگرچہ آئندہ صدارتی انتخابات 2023 میں کروانے کا شیڈول ہے لیکن استنبول میں شکست کے بعد اب قبل از وقت انتخابات ناگزیر دکھائی دیتے ہیں۔ صدر ایردوان خود دوبارہ سے استنبول مئیر شپ کے انتخابات کروانے کے حق میں نہ تھے لیکن ان کے رفقا اور قریبی ساتھیوں نے صدر ایردوان کو غلط مشورہ دیتے ہوئے ان کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اظہار کیا تھا۔ 23 جون 2019 کے استنبول مئیر شپ کے انتخابات میں برسرِ اقتدار جماعت کے امیدوار بن علی یلدرم جو کہ اس سے قبل ملک کے وزیراعظم اور بعد میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا.
جبکہ 31 مارچ 2019 کے مئیر شپ کے انتخابات میں دونوں امیدواروں کے درمیان فرق صرف چند ہزار کا تھا جو کہ اس بار آٹھ لاکھ تک پہنچ گیا اور اپوزیشن کے امیدوار اکرم امام اولو نے 54 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے تاریخی کامیابی حاصل کی جبکہ برسرِ اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے امیدوار بن علی یلدرم کو صرف 45 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو کہ صدر ایردوان کے لئے باعثِ تشویش ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی گزشتہ سترہ سالوں سے بلا شرکت غیرے ملک کے اقتدار پر مکمل طور پر اپنی حاکمیت قائم کیے ہوئے ہے، کو ترکی کے تمام ہی بڑے شہروں میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ آق پارٹی کا طویل عرصے ملکی اقتدار جاری رکھنا اور اس کے نتیجے میں عوام کا اس پارٹی سے اکتا جانا ہے۔
عوام کی اکثریت نے آق پارٹی کے دور میں ہونے والی ترقی اور ترکی کو عالمی قوت بنانے کے عمل کو فراموش کرتے ہوئے اسے اقتدار سے ہٹانے کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے کیونکہ صدر ایردوان بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں ’’استنبول پر حاکمیت پورے ترکی پر حاکمیت قائم کرنا ہے‘‘۔ دوسری اہم وجہ آق پارٹی کی مالی اور اقتصادی پالیسی ہے جس کی وجہ سے عوام گزشتہ چند سالوں سے شدید مالی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہیں اور ترک لیرا مسلسل اپنی قدر و قیمت کھوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام کے مطابق ملک میں اقتصادی اور مالی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ صدر ایردوان کا ملکی خزانے کی چابیاں اپنے داماد بیرات البائراک کے حوالے کرنا یعنی ان کو وزیرِ خزانہ بنانا ہے۔
صدر ایردوان کے قریبی ساتھی اور سابق وزیراعظم بن علی یلدرم کی شکست کی ایک اہم وجہ صدر ایردوان کے قریبی ساتھیوں کا ایردوان سے بڑھ کر ایردوان اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرنا اور مخالف قوتوں کی آواز کو دبانا یا کان نہ دھرنا ہے۔صدر ایردوان کی مقبولیت میں ہونے والی کمی کی ایک اہم وجہ صدر ایردوان کی نئی کابینہ میں عوام کی عدم دلچسپی اور صدر ایردوان کے قریبی ساتھیوں کا صدر ایردوان کو ’’سب کچھ اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ فراہم کرنا ہے جبکہ حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے والے پارٹی اراکین کی صدر ایردوان تک رسائی ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔ صدر ایردوان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھی استنبول میں پہلی بار 1994 میں میئر منتخب ہو کر کیا تھا۔
انھوں نےاپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ 2001 میں مرحوم نجم الدین ایربکان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 2003 سے 2014 تک ترکی کے وزیراعظم رہے اور ملک میں صدارتی نظام سے متعلق 16 اپریل 2017 کو ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 24 جون 2018 کو کروائے جانے والے پہلے صدارتی انتخابات میں باون فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 2023 تک اپنے عہدہ صدارت پر براجمان رہیں گے لیکن استنبول کے مئیر شپ کے نتائج کیا ان کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور نہیں کر دیں گے؟ اور کیا اس شکست سے صدر ایردوان کے زوال کا آغاز تو نہیں ہو جائے گا؟
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
تجارتی محاذ پر امریکا اور چین ’جنگ بندی‘ پر متفق
امریکا اور چین نے گزشتہ ایک برس سے ایک دوسرے پر ٹیکسوں کی گولہ باری کو روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ’تجارتی جنگ بندی‘ پر اتفاق کر لیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان میں ہونے والی جی-20 سمٹ کے دوران چین اور امریکا کے صدور کے درمیان سائیڈ لائن ملاقات میں اختلافات دور ہو گئے ہیں اور دونوں ممالک نے ’تجارتی جنگ بندی‘ کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد دونوں ایک دوسرے کی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد نہیں کریں گے۔
تجارتی جنگ بندی پر اتفاق کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان ماحول کے تحفظ کے حوالے سے بھی ایک اہم ڈیل طے پا گئی ہے۔
تجارتی جنگ کے بادل چھٹ جانے کے عالمی تجارت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور خطے میں امن و استحکام کو دوام حاصل ہو گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے عہدہ سنبھالتے ہی ملکی معاشی پالیسیوں کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے چین کے ساتھ تجارتی محاذ کھڑا دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی درآمدی مصنوعات پر اربوں ڈالر کے اضافی ٹیکس عائد کیے تھے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا جس کے عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
↧
پانچ سال سے روزانہ ایک مہاجر بچہ ہلاک ہو رہا ہے، اقوام متحدہ
بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرين نے مہاجر بچوں کی غیر معمولی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ زیادہ تر مہاجر بچے بحیرہ روم میں کشتیوں کی غرقابی میں مارے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی ادارے نے مہاجرت کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر ایک خصوصی رپورٹ جاری کی۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کی اس خصوصی رپورٹ کا عنوان 'خوفناک سفر‘ ہے۔ اس رپورٹ میں بالغ اور کم عمر مہاجرین کے موت کی جانب سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سن 2014 سے سن 2018 کے دوران ہلاک ہونے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد بتیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر کی ہلاکت بحیرہ روم میں ناقص کشتیوں کی غرقابی کے دوران ہوئی۔
ان بتیس ہزار افراد میں تقریباً سولہ سو ایسے بچے ہیں، جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم تھیں۔ ان ہلاک شدہ بچوں میں ايک چھ ماہ کا مہاجر بچہ بھی تھا۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ باعث افسوس ہے کہ مہاجرت کے عمل میں موت کا آسان ہدف بچے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے بتایا ہے کہ سن 2014 سے اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر ایک مہاجر بچہ موت کا نوالہ بنتا رہا۔ ایسے زیادہ تر بچوں کی موت بحیرہ روم میں غرقابی کے دوران ہوئی۔ یہ بچے اپنے والدین کی یورپ پہنچنے کی خواہش کے نتیجے میں بحیرہ روم کی شوریدہ سر موجوں کی لپیٹ میں آئے۔ یہ رپورٹ وسطی امریکا کے ایک مہاجر باپ اور اُس کی بیٹی کی ڈوب کر مرنے کے بعد شائع ہونے والی تصویر پر پیدا ہونے والی عالمی بے چینی کے بعد جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کو بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے شعبے گلوبل مائیگریشن ڈیٹا انیلیسز نے مرتب کیا ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی محققین نے اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بیان کیے گئے پانچ برسوں میں مہاجرین اور بچوں کی ہلاکتوں کو کم بیان کیا گیا ہے جب کہ ہلاک شدگان کی اصل تعداد کہيں زیادہ ہے۔ ان ریسرچرز کے مطابق ڈوب کر ہلاک ہونے والے کئی افراد کی نعشیں بھی دستیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی یہ تعداد بچ جانے والے افراد کے اندازوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح ان کا خیال ہے کہ مہاجر بچوں کی ہلاکتوں کا ڈیٹا ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس حوالے سے بھی ایسے بچوں کی عمروں کا تعین نہیں کیا جا سکا اور زیادہ تر معلومات بچ جانے والے افراد کے بیانات پر مبنی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے
ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن سے جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ملاقات کر کے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے صدر مون جے اِن کے ہمراہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن سے ملاقات کرنے آج جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے پہنچے جہاں اُن کا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے امریکی صدر کو خوش آمدید کہا اور دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اورتصاویر بھی بنوائیں۔
دونوں رہنماؤں نے 20 منٹ ون ٹو ون ملاقات بھی کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ کم جونگ اُن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے دو طرفہ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا کی پرانی مذاکراتی ٹیم ہی اس بار بھی برقرار رہے گی جس کی سربراہی اسٹیفن بیگن نے کی تھی۔ شمالی کوریا کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے، شمالی کوریا کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن کم یونگ کول کے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کی خبریں گرم تھیں تاہم شمالی کوریا نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شمالی کوریا کے مذاکراتی ٹیم کے رکن کے قتل کی خبر پر زیر لب تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے کم از کم ایک رکن کے زندہ ہونے کی مصدقہ اطلاع ہے اور ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ دیگر اراکین بھی زندہ ہوں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملاقات کے بعد جنوبی کوریا کے لیے روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے اوسان ایئر بیس پر تعینات امریکی فوج کے اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے شمالی کوریا کے صدر سے غیر متوقع ملاقات کو خوش آئند قرار دیا۔ بعد ازاں صدر ٹرمپ امریکا کے لیے روانہ ہو گئے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧