↧
کیا مودی اقلیتوں کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
↧
کمیاب معدنیات تجارتی جنگ میں چین کا ٹرمپ کارڈ ہوں گی
چین ایسے اشارے دے رہا ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ شدت پکڑتی ہے تو وہ امریکہ کی ان کمیاب معدنیات تک رسائی کو ختم یا محدود کر سکتا ہے جس سےامریکہ کی کئی صنعتوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ کمیاب معدنیات جنھیں ’ریئر ارتھ‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، ان کی نوے فیصد سے زیادہ مقدار صرف چین میں پائی جاتی ہے۔ یہ معدنیات بجلی سے چلنے والی کاروں، موبائل فون جیسی مصنوعات کی تیاری میں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ گذشتہ برس امریکہ کے جیالوجیکل سروے نے ان معدنیات کو ملکی دفاع اور ملکی معیشت کے لیےانتہائی ضروری قرار دیا تھا۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ چین کمیاب معدنیات کی امریکہ برآمد کو روکنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔
کمیاب معدنیات کیا ہیں؟
ریر ارتھ سترہ مختلف معدنیات کا ایک گروپ ہے جو مختلف صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں جن میں دوبارہ قابل استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی، آئل ریفائنری، الیکٹرانکس اور شیشے کی صنعت شامل ہیں۔ کہنے کو تو انھیں کمیاب کہا جاتا ہے لیکن امریکہ جیالوجیکل سروے کے مطابق یہ زمین کی پرت میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں لیکن دنیا میں صرف چند جگہیں ہیں جہاں انھیں نکالا جاتا ہے۔ ان معدنیات کو نہ صرف نکالنا مشکل ہے بلکہ وہ ماحول کی خرابی کا بھی سبب بنتی ہیں۔ ان کمیاب معدنیات کی 70 فیصد مقدار صرف چین میں پائی جاتی ہے۔ چین کے علاوہ میانمار، آسٹریلیا، امریکہ کے علاوہ چند اور ممالک صرف تھوڑی سی مقدار نکالتے ہیں۔ ان معدنیات کو صاف کرنے کے حوالے سے چین کا غلبہ اور زیادہ ہے اور دنیا بھر میں قابل استمعال اوکسائیڈ کا نوے فیصد چین میں پایا جاتا ہے۔ چین کے علاوہ صرف ایک آسٹریلین کمپنی ملائیشیا میں یہ معدنیات نکالتی ہے۔ چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں کمیاب معدنیات کی برآمد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کا چین پر کتنا بھروسہ ہے؟
امریکہ کمیاب معدنیات کا ستر فیصد چین سے درآمد کرتا ہے۔ امریکہ فرانس، ایسٹونیا اور جاپان سے بھی تیار شدہ نایاب معدنیات درآمد کرتا ہے لیکن یہ تمام ممالک بھی خام مال چین سے ہی درآمد کرتے ہیں۔ امریکہ میں ایک کان کمیاب معدنیات کو نکال کر اسے پراسیسنگ کے لیے چین بھیجتی ہے اور تجارتی جنگ ہونے کے بعد اس پر 25 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کی جا چکی ہے۔ امریکہ کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ ان کمیاب معدنیات کو ملائیشیا سے درآمد کرے لیکن اس کی مقدار امریکی طلب سے کہیں کم ہے۔ ملائیشیا کی حکومت ماحولیاتی خدشات کی وجہ سے ان کمیاب معدنیات کی پیداوار کو روکنے کی دھمکی دی چکی ہے۔
کیا امریکہ کمیاب معدنیات کی صنعت کو ترقی دے سکتا ہے؟
یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے وقت اور سرمایہ کی ضرورت ہو گی۔ درحقیقت امریکہ 1980 تک یہ کمیاب معدنیات سب سے زیادہ پیدا کرتا تھا۔ چین ماضی میں بھی کمیاب معدنیات کی برآمد کو محدود کر چکا ہے۔ 2010 میں جاپان کے ساتھ کچھ جزیروں کی ملکیت کے تنازعہ کی وجہ سے چین نے ان کمیاب معدنیات کی جاپان برآمد کو محدود کر دیا تھا۔ اگر چین نے ان معدنیات کی امریکہ کو برآمد روک دی یا محدو د کر دیا اس سے امریکہ کی کھربوں ڈالر مالیت کی کئی صنعتوں پر منفی اثر پڑے گا۔
بی بی سی ریلٹی چیک اور بی بی سی مانیٹرنگ
بشکریہ بی بی سی نیوز
↧
↧
امريکی لڑاکا طيارے يا روسی ميزائل دفاعی نظام : ترکی کيا کرے؟
امريکا نے ترکی کو جولائی کے اختتام تک کی مہلت دی ہے کہ وہ روس کے ساتھ ميزائل کی ڈيل ختم کرے۔ بصورت ديگر امريکی ايف پينتيس لڑاکا طياروں کے پروگرام سے ترکی کو خارج کر ديا جائے گا۔ امريکی محکمہ دفاع کی ايک سينیئر اہلکار ايلن لارڈ نے کہا ہے کہ اگر ترکی نے مقررہ مدت تک روسی ايس چار سو طرز کے ميزائل دفاعی نظام کی خريداری سے متعلق ڈيل کو منسوخ نہيں کيا، تو امريکا ميں ترک پائلٹس کی تربيت کا عمل روک ديا جائے گا۔ علاوہ ازيں امريکی ايف پينتيس کی تياری کے ليے ترک کمپنيوں سے طے شدہ معاہدے بھی ختم کر ديے جائيں گے۔ ترکی کی جانب سے روسی ساخت کے S-400 ميزائل دفاعی نظام کی خريداری کا معاملہ ان دنوں انقرہ اور واشنگٹن حکومتوں کے مابين تنازعے کا سبب بنا ہوا ہے ترکی کا کہنا ہے کہ اس ڈیل سے اس کی دفاعی صلاحیتوں میں بہتری آئے گی۔
تاہم امريکا کو کا موقف ہے کہ روسی ساخت کے اس ميزائل دفاعی نظام سے روس مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کی جاسوسی کر سکے گا۔ يہی وجہ ہے کہ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ڈيل کی حوصلہ شکنی کے ليے واشنگٹن حکومت نے ترکی کے ساتھ ايف پينتيس جنگی طياروں کی ڈيل معطل کر رکھی ہے اور اقتصادی پابنديوں کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ امريکا نے ترکی کو اپنا زيادہ مہنگا پيٹرياٹ دفاعی نظام رعايت کے ساتھ فروخت کرنے کی پيشکش بھی کی تھی۔
ايلن لارڈ نے اپنے تازہ بيان ميں کہا کہ ترکی کے پاس راستہ بدلنے کے ليے اب بھی وقت ہے۔ ان کے بقول اگر انقرہ حکومت روسی ميزائل نہيں خريدتی، تو معاملات معمول پر آ جائيں گے۔ يہ امر اہم ہے کہ ترکی اور امريکا، دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے رکن ممالک ہيں۔ تاہم ان دونوں ممالک کے مابين گزشتہ چند برسوں ميں فاصلے بڑھے ہيں، جس کی واحد وجہ يہ ميزائل ڈيل ہی نہيں۔ ترک صدر رجب طيب ايردوآن مسلم دنيا ميں زيادہ فعال کردار ادا کر رہے ہيں جبکہ شام کے معاملے پر بھی ان کے امريکا کے ساتھ اختلافات ہيں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
’پھر نہ کہنا ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا‘: چین نے یہ جملہ آج تک صرف تین بار کہا ہے
صدر ٹرمپ کی طرف سے شروع کردہ امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ وسیع تر ہوتی جا رہی ہے، جس میں اب نایاب زمینی دھاتیں بھی ایک کلیدی ہتھیار بنتی جا رہی ہیں اور اس جنگ کے اقتصادی نتائج امریکہ کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ کیمیائی طور پر جو مادے نایاب زمینی دھاتیں یا Rare Earth Metals (REMs) کہلاتے ہیں، وہ دراصل اتنے نایاب بھی نہیں ہیں، جتنے سننے میں لگتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی سمارٹ فون کے بارے میں سوچیں، اپنے ہیڈ فونز پہنیں یا کسی الیکٹرانک آلے کی بیٹری کی بات کریں، تو آپ دراصل نایاب زمینی دھاتوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
اس لیے کہ یہی دھاتیں ان سب مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ نایاب زمینی دھاتیں کہلانے والے مادوں کی کل 17 اقسام ہیں، جن میں نیوڈِم، لَینتھن اور سَیر جیسے کیمیائی مادے شامل ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب دھاتیں ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ بات چینی حکمرانوں کو بھی پتہ ہے اور وہ اسے اپنے لیے بڑی آسانی سے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ چین کے لیے سٹریٹجک حوالے سے بہت فائدہ مند بات یہ ہے کہ یہ نایاب زمینی دھاتیں پوری دنیا میں زیادہ تر صرف چین سے نکالی اور وہیں پر صاف کی جاتی ہیں۔ انہیں عسکری نوعیت کے ساز و سامان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بیجنگ امریکہ کے ساتھ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اپنی تجارتی جنگ میں کس قدر اہم اور فیصلہ کن ہتھیار کا حامل ہے. اس کا صرف ایک اشارہ چینی صدر شی جن پنگ نے چند ہفتے قبل اس وقت کرایا تھا جب انہوں نے وسطی چین کے صوبے گان ژُو میں REMs کی ایک فیکٹری کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ چین چاہے تو امریکہ کو نایاب زمینی دھاتوں کی برآمد محدود یا بند بھی کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں اس سوال کا جواب کوئی راز نہیں بلکہ کسی بھی انسان کا عام سا اندازہ ہی ہو سکتا ہے کہ آیا بیجنگ امریکہ کے خلاف ان نایاب زمینی دھاتوں کو اپنے سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے ؟
چینی کمیونسٹ پارٹی واشنگٹن کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ میں اپنے موقف کے اظہار میں ایک اہم جملے کا استعمال کرنا نہ بھولی۔ یہ جملہ تھا’’پھر نہ کہنا ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا۔’’ تاریخ گواہ ہے کہ چینی حکومت یا کمیونسٹ پارٹی نے جب بھی یہ جملہ استعمال کیا ہے، اس کے بعد کوئی نہ کوئی بہت بڑا تاریخی واقعہ ضرور رونما ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 1962ء میں بھی چین کی طرف سے یہی جملہ کہا گیا تھا، تو اس کے صرف 4 ہفتے بعد چینی فوجی دستے بھارت میں داخل ہو گئے تھے اور چینی بھارتی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ پھر 1978ء میں جب بیجنگ نے ایک بار پھر یہی تنبیہی جملہ کہا تھا، تو اس کے صرف دو ماہ بعد چینی ویت نام جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اب اس جملے کی بیجنگ میں امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعے کے حوالے سے ادائیگی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے ؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے واضح طور پر مراد نایاب زمینی دھاتوں کی امریکہ کو برآمد میں کمی یا بندش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن امریکہ شاید بیجنگ کے اس اقدام کا متحمل نہیں ہو سکے گا، اس لیے کہ اس سے واشنگٹن کی پوری کی پوری ہائی ٹیک انڈسٹری کے مفلوج ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جائیگا۔ امریکی وزیر تجارت وِلبر رَوس کے بقول امریکہ کے لیے مجموعی طور پر 35 دھاتیں اور خام زمینی مادے ایسے ہیں جنہیں وہ اپنی اقتصادی اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی فیصلہ کن’ تصور کرتا ہے ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان میں وہ 17 نایاب زمینی دھاتیں بھی شامل ہیں جو امریکی کمپنیاں زیادہ تر چین سے درآمد کرتی ہیں۔ چین کو اس شعبے میں تقریباً عالمگیر اجارہ داری حاصل ہے۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
ایس-400 میزائل نظام کیسے کام کرتا ہے؟
ایس- 400 میزائل نظام ہے کیا؟
ایس-400 'ٹریمف'زمین سے فضا میں مار کرنے والا دنیا کا سب سے جدید میزائل نظام ہے۔ یہ میزائل نظام 400 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ہی وقت میں تقریباً 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ میزائل نظام فضا میں نچلی سطح پر پرواز کرنے والے ڈرونز سمیت مختلف بلندیوں پر پرواز کرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دور تک مار کرنے والے میزائلوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ایس-400 میزائل نظام کیسے کام کرتا ہے؟
لانگ رینج کی نگرانی کے ریڈار گاڑیوں کو کمانڈ کرنے کے لۓ اشیاء اور ریل کی معلومات کو ٹریک کرتی ہے، جو ممکنہ اہداف کا تعین کرتی ہے. ہدف کی نشاندہی کرتا ہے اور کمانڈ گاڑی کو میزائل داغنے کے احکامات جاری کرتا ہے. لانچ ڈیٹا کو میزائل لانچ کرنے کی لیے موزوں جگہ پر کھڑی گاڑی کوہدف کی معلومات فراہم کرتا ہے اور وہ زمین سے فضا میں میزائل داغ دیتی ہے. ریڈار میزائلوں کو ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
روس اور امریکا کے بحری جنگی جہاز تصادم سے بال بال بچ گئے
بحرالکاہل میں روس اور امریکا کے بحری جنگی جہاز ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ دونوں کے درمیان تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا تاہم معجزانہ طور پر دونوں جہاز بال بال بچ گئے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے جنوب مشرق میں بحرالکاہل کے بیچوں بیچ روس اور امریکا کے بحری جنگی جہاز محض 50 فٹ کی دوری پر آگئے، سمندر کی اونچی اونچی لہروں کے باعث عین ممکن تھا کہ دونوں کی ٹکر ہو جاتی تاہم معجزانہ طور پر ایسا نہ ہوا۔ اتنے بڑے جنگی بحری جہازوں کے درمیان تصادم سے جہاں بڑے پیمانے پر نقصان کا احتمال تھا. وہیں اس حادثے کے نتیجے میں دونوں بڑے حریفوں کے درمیان پیدا ہونے والی تلخی کے خطے کے امن پر بھی دور رس نتائج مرتب ہو سکتے تھے۔
سخت حریفوں کے جنگی بحری جہازوں کے اتنے قریب آجانے کی وجہ کا تاحال تعین نہیں کیا جا سکا تاہم دونوں ہی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ امریکی جہاز یو ایس ایس چانسلر سویل ہمارے جہاز کے اتنے قریب آگیا کہ عملے کو حفاظتی اقدامات کرنا پڑے۔ دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ روسی بحری جہاز ونوگرادوف نے امریکی جنگی جہاز کے سامنے صرف 50 میٹر کے فاصلے تک پہنچ کر ایک غیر محفوظ قدم اُٹھایا جس کے نتائج بھیانک بھی ہو سکتے تھے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
دنیا میں ادئیگیوں کا نظام چند ہاتھوں میں ہے
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سربراہ نے انتباہ کیا ہے کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی دیو ہیکل کمپنیاں عالمی مالیاتی لین دین کے نظام کو منتشر کر سکتی ہیں۔ کریسٹین لیگارڈ نے کہا ہے کہ صرف چند ایک کمپنیاں جن کو دنیا کے’بِگ ڈیٹا‘ اور مصنوعی ذہانت تک رسائی ہے وہ دنیا بھر کی ادائیگیوں اور لین دین کے نظام کو کنٹرول کر سکتی ہیں۔ انھوں نے یہ انتباہ ایسے وقت میں دیا ہے جب دنیا کی بیس بڑی معیشتوں (جی-20) کے وزرائے خزانہ کا اجلاس جاپان میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں فیس بک اور گوگل جیسی انٹرنیٹ دیوہیکل کمپنیوں کے ٹیکس دینے سے بچنے کے رستوں کو بند کرنے کے بارے میں بھی غور و فکر ہو رہا ہے۔
غور کیے جانے والی چند تجاویز میں سے ایک کے مطابق ان کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس ان ممالک میں لگایا جائے جہاں یہ منافع بناتی ہیں، نہ کہ ان ممالک میں جہاں ان کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہیں۔ جاپان کے جنوب مغربی شہر فکواوکا میں جی-20 کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مس لیگارڈ نے کہا کہ دیو ہیکل کمپنیاں مالیاتی نظام میں حقیقی رکاوٹیں کسی بھی وقت پیدا ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایسی کمپنیاں ’اپنے صارفین کی بے شمار تعداد اور اپنی بے انتہا مالی طاقت کو استعمال کر کے ایسی مالیاتی پراڈکٹس پیش کر سکتی ہیں جو بگ ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر تیار ہوتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ موجودہ منفرد قسم کے مالیاتی نظام کے استحکام اور اچھی کاکردگی کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘ انھوں اس سلسلے میں چین کی تازہ ترین مثال دی ہے۔ مس لیگارڈ نے کہا کہ ’پچھلے پانچ برسوں میں چین میں ٹیکنالوجی کی ترقی بہت زیادہ ہوئی ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ قسم کی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں اور کروڑوں نئے صارفین مالیاتی مارکیٹ میں شامل ہوئے ہیں اور وہ نِت نئی مالیاتی پراڈکٹ سے استفادہ کر رہے ہیں۔‘ ’لیکن اس وجہ سے صرف دو کمپنیوں نے موبائیل ادائیگیوں کی مارکیٹ کے نوے فیصد حصے پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
کوہِ نور ہیرا تاریخ کے آئینے میں
جب بھی کوہِ نور ہیرے کا ذکر ہوتا ہے تو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دیو مالائی کہانی کو بیان کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے۔ یہ ہیرا جنوبی اور مغربی ایشیاء میں بہت سے ہاتھوں میں رہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ ہیرا برطانیہ بھجوا دیا تھا۔ بعد از اںاس ہیرے کو ٹاور آف لندن کے جیول ہاؤس میں رکھ دیا گیا ۔ ’’کوہ نور‘‘ دنیا کے چند بڑے ہیروں میں سے ایک ہے، وزن 21.12 گرام ہے۔ اردو، ہندی اور فارسی میں کوہ نور کا مطلب ’’روشنی کا پہاڑ‘‘ (Mountain of Light) ہے۔ کوہ نور ہیرے کے حصول کے لئے متعدد لڑائیاں لڑی گئیں اس لیے جب یہ برطانوی شاہی خاندان کی ملکیت میں آیا تو یہ خاندان ایک خاص قسم کی توہم پرستی کا شکار ہو گیا۔ انہیں یہ وہم ہو گیا کہ جو مرد اس ہیرے کو پہنے گا بدنصیبی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اس لئے برطانیہ میں اسے شاہی خاندان کی عورتوں نے ہی پہنا۔
ملکہ وکٹوریہ کے بعد سے یہ ہیرا مختلف ملکائوں کے تاج کی زینت بنا۔ پھر 1937 میں ملکہ الزبتھ کے تاج کا حصہ بن گیا۔ پاکستان نے کئی بار برطانیہ سے یہ ہیرا واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار کوہِ نور ہیرے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا۔ برطانیہ نے کہا کہ اسے ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ (Last Treaty of Lahore) کے تحت حاصل کیا گیا ہے اس لیے واپس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ کیا تھا ؟ اصل میں جب نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کیا تو اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی ۔ محمد شاہ رنگیلا نے تاوان کے طور پر جہاں اور بہت کچھ نادر شاہ درانی کے حوالے کیا وہاں کوہ نور ہیرا بھی درانی کو دے دیا۔ نادر شاہ کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو کوہ نور ہیرا اس کے پوتے کی ملکیت میں آ گیا جس نے احمد شاہ درانی کو یہ ہیرا اس شرط پر دے دیا کہ وہ اس کی حمایت کرے گا۔
لیکن درانی سلطنت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اس لئے شجاع درانی کوہ نور ہیرا لاہور لے آیا جہاں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی کو پناہ دے دی لیکن اس کے بدلے میں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے کوہ نور ہیرا لے لیا۔ یہ 1813 کی بات ہے۔ رنجیت سنگھ نے یہ وصیت کی کہ یہ ہیرا جگن ناتھ مندر میں رکھ دیا جائے ۔ یہ مندر ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر انتظام تھا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا گیا۔ 1849ء میں پنجاب پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ پر دستخط کئے گئے۔ اس ہیرے کے علاوہ رنجیت سنگھ کے دوسرے اثاثوں پربھی کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ معاہدے کا آرٹیکل III یہ کہتا ہے، ’’کوہ نور ہیرا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے لیا تھا وہ لاہور کا مہاراجہ برطانوی ملکہ کے حوالے کر دے گا‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ اس ہیرے کو رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے برطانوی ملکہ کے حوالے کیا۔ دلیپ سنگھ رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو خود 1854ء میں انگلستان چلا گیا تھا۔ آج کوہ نور ہیرا برطانیہ کے پاس ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ہیرے کی داستان بہت انوکھی اور ناقابل یقین ہے، بہر حال یہ داستان مبنی بر حقیقت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ کوہ نور ہیرا ایک تاریخی ورثہ ہے جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ بے مثال ہے، انمول ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں، تمام تر لڑائیوں کے باوجود یہ انمول ہیرا قائم رہا تاہم اس کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا تھا۔ اب تک کروڑوں لوگ اس ہیرے کو دیکھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ اس کی بے مثال شہرت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔
طیب رضا عابدی
↧
پاکستان کا بھارتی وزیراعظم کو فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے طیارے کو کرغزستان جانے کے لیے ملک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کرغزستان میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بشکیک جائیں گے۔ واضح رہے کہ بھارتی فورسز کی دراندازی اور پھر پاکستان کے بھرپور جواب کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہو گئے تھے جبکہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود مکمل طور پر بند کر دی تھی۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق بھارت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی فضائی حدود کھول دیں اور وزیراعظم نریندر مودی کا طیارے اپنی فضائی حدود سے گزر کر کرغزستان جانے کی اجازت دیں۔
بھارت کے نامعلوم حکام نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ انڈیا کو تصدیق کی تھی کہ پاکستانی حکومت نے بھارتی حکومت کو وزیراعظم نریندر مودی کا طیارہ اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد بھارتی حکومت کو اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کر دیا جائے گا۔ حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اپنے ایئر ٹریفک کنٹرول کو آگاہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا خواہاں ہے جسے اس کی پیشکش میں بھارت کی جانب سے بھی مثبت جواب کی امید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایس سی او سربراہی کانفرنس میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ممکن نہیں تاہم پاکستان، بھارت سے اپنی بات چیت کی پیشکش کے مثبت جواب کا خواہش مند ہے۔ جب ڈان نے پاکستانی وزارت خارجہ میں حکام سے رابطہ کیا تو انہوں تصدیق کی کہ انہیں بھارتی وزیراعظم کا طیارہ پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت کی درخواست موصول ہوئی تھی۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے طیارے کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ بھی پاکستان نے بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کے طیارے کو پاکستانی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی جب وہ ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے بشکیک گئیں تھیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
دنیا کا گرم ترین شہر، یہاں درجہ حرارت کتنا ہے؟
دنیا کے بیشتر ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں تاہم کویت کے شہر’مطربہ‘ کو دنیا کا گرم ترین شہر قرار دیا گیا ہے جہاں درجہ حرارت 50.1 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔ تین سال قبل مطربہ شہر میں درجہ حرارت 54 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ عراقی شہر بصرہ دنیا کا دوسرا گرم ترین شہر ہے جہاں درجہ حرارت 49.6 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مطربہ، بصرہ اور گرد و نواح میں درجہ حرارت مزید بڑھے گا۔ عراقی ریڈیو ’صوت العراق‘ کے مطابق کویتی شہر مطربہ ابھی غیر آباد ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور انڈیا کے بعض علاقے بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔
ریاست راجستھان کے شورو شہر میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں درجہ حرارت 44.9 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ ہماچل پردیش جو معتدل آب و ہوا کے لیے مشہور ہے وہاں بھی درجہ حرارت بڑھا ہے۔ پاکستان میں بھی لاہور، فیصل آباد اور کراچی سمیت کئی دیگر شہروں میں بھی پارہ اوپر گیا ہے۔ بعض علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سنیٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ادھر سعودی ماہر موسمیات عبدالعزیز الحصینی نے بتایا ہے کہ شدید گرمی کے باعث سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں سانپ اور بچھو بلوں سے باہر آنے لگے ہیں۔ عسیر ریجن میں مقامی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو سانپ اور بچھوؤں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا ہے۔
بشکریہ اردو نیوز
↧
ترک روس میزائل معاہدہ اور امریکہ
نیٹو نے مشکلات میں ترکی کی فوجی قوت کو استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا تاہم جب ترکی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو نیٹو مختلف حیلوں بہانوں سے ترکی کی مدد سے کتراتا رہا ہے۔ قبرص اور دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے معاملے میں ہم پہلے ہی نیٹو کے اتحادی ممالک کا ترکی سے متعلق رویہ دیکھ چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی نیٹو نے کوئی قابلِ ذکر مدد نہ کی جب ترکی پر شامی سرحدوں کی جانب سے مسلسل گولہ باری کی جا رہی تھی اور ترکی نیٹو سے پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا لیکن امریکہ نے ترکی کو براہ راست پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کے بجائے عبوری عرصے کے لئے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں موجود پیٹریاٹ میزائلوں کو نصب کر دیا۔ ترکی نے امریکہ پر دبائو ڈالا لیکن امریکہ کسی بھی صورت ترکی کو پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے پر کچھ عرصہ قبل تک راضی نہ ہوا اور صرف اس وقت نرمی دکھانا شروع کی جب ترکی نے روس کے ساتھ ایس- 400 دفاعی نظام خریدنے کے سمجھوتے پر دستخط کئے۔
ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کبھی بھی امریکہ جیسے قریبی تعلقات قائم نہیں رہے ہیں بلکہ امریکہ ہمیشہ ہی ترکی کو روس کے خلاف مختلف طریقوں سے استعمال کرتا رہا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں ذیلی شاخ ’’وائی پی جی‘‘ اور ’’پی وائی ڈی‘‘ کی پشت پناہی کئے جانے پر ترکی نے کئی بار امریکہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی لیکن امریکہ نے کوئی کان نہ دھرے جس پر دونوں ممالک کے تعلقات منفی طور پر متاثر ہونا شروع ہو گئے لیکن نومبر 2015 میں ترکی کے ایف 16 طیاروں کے شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ایک روسی ’’سخوئی-24‘‘ جنگی طیارے کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ترکی اور امریکہ تو ایک دوسرے کے قریب آگئے لیکن روس اور ترکی کے تعلقات جو کچھ حد تک بہتری کی جانب گامزن تھے متاثر ہوئے.
تاہم روس اور ترکی کے درمیان یہ سرد مہری زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی بلکہ صدر ٹرمپ کی ترکی کے بارے میں اپنائی جانے والی منفی پالیسی کی بدولت روس اور ترکی ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آگئے اور اسی دوران ترکی نے اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لئے روس سے ایس 400 میزائل خریدنے کے سمجھوتے پر دستخط کر دئیے جس پر امریکہ جو ترکی کو کسی بھی صورت پیٹریاٹ میزائل دینے پر تیار نہ تھا، نے نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے ترکی کو پیٹریاٹ میزائلوں کی فروخت کے بارے میں نئی آفر دینے کے ساتھ ساتھ روس سے ایس-400 میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے کو منسوخ کرنے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیا لیکن صدر ایردوان کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک ایس-400 میزائل نظام کے حصول کے معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کرے گا اور ان میزائلوں کوحاصل کر کے ہی دم لے گا۔
روس کا یہ میزائل نظام 400 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ہی وقت میں تقریباً 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ میزائل نظام فضا میں نچلی سطح پر پرواز کرنے والے ڈرونز سمیت مختلف بلندیوں پر پرواز کرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں کو بھی نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ روس سے ایس-400 دفاعی نظام حاصل کرنے سے ترکی کی دفاعی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہو گی لیکن امریکہ کسی بھی صورت اس سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کے حق میں نہیں ہے، اس لئے اس نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی انتظامیہ کا موقف ہے کہ روسی ساخت کے اس میزائل دفاعی نظام سے روس مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جاسوسی کرنے کے ساتھ تمام متعلقہ معلومات حاصل کر سکے گا۔
اسی لئے امریکہ نے ترکی کو جولائی کے آخر تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سے ایف 35 جنگی جہاز خریدنے یا روس سے طیارہ شکن میزائل سسٹم خریدنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شانہان نے ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آقار کو دھمکی آمیز خط لکھتے ہوئے حکومتِ امریکہ کے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ روس کا دفاعی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ عالمی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں روس سے اس دفاعی نظام کو خریدنے سے باز آنے اور امریکی پیٹریاٹ طیارہ شکن میزائل خریدنے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس بات کا کئی بار برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت روس کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے سے باز نہیں آئیں گے، ترکی ایک آزاد ملک ہے اور وہ اپنے دفاع اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ترکی امریکہ کے ساتھ 100 امریکی ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پر ان میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے سے قبل ہی دستخط کر چکا ہے اور طے پانے والے سمجھوتے کی رو سے ایف 35 طیارے کے پرزے بنانے کے لئے 937 ترکی کمپنیاں پہلے ہی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کی ایک سینئر اہلکار ایلن لارڈ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی نے مقررہ مدت تک روسی ایس 400 طرز کے میزائل دفاعی نظام کی خريداری سے متعلق ڈيل کو منسوخ نہیں کيا، تو امریکہ ميں ترک پائلٹس کی تربیت کا عمل روک دیا جائے گا۔
ترک پائلٹس ان دنوں امریکہ میں ہیں اور F-35 اڑانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی ایف 35 جنگی طیاروں کی تیاری کے لیے ترک کمپنیوں سے طے شدہ معاہدے بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ امریکہ اور نیٹو کے دبائو کے باوجود ترک صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی ایس400 دفاعی میزائل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اب روس کے ساتھ ایس 500 جدید میزائل دفاعی نظام مشترکہ طور پر تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں روس کے ساتھ مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ ترکی کے اس رویے اور عزم سے یہ بات عیاں ہے کہ ترکی روس سے لازمی طور پر ایس 400 دفاعی نظام نہ صرف حاصل کرے گا بلکہ وہ روس کے ساتھ آئندہ مشترکہ طور پر ایس 500 دفاعی نظام تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کر چکا ہے چاہے اسے امریکہ سے ایف 35 ایک سو عدد جنگی طیارے حاصل ہوں نہ ہوں ۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
ڈیل کارنیگی : مایوس افراد کی زندگی بدلنے والا
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں،‘‘ کم عمر نوجوان نے آنکھوں میں ارمان لے کر اپنے سامنے کھڑی خوبصورت دوشیزہ سے کہا۔ اس کی سانسیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ ’’تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟‘‘ لڑکی نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر کہا، ’’تم کیا سمجھتے ہو کہ تم میرے قابل ہوں؟ دو ٹکے کا گوالا خاندان ہے تمہارا! ہے کیا تمہارے پاس مجھے دینے کو؟ ہونہہ!‘‘ لڑکی کا غصہ عروج پر تھا اور وہ یہ کہتی ہوئی بڑے بڑے قدم اٹھاتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب ایسے ہوا کہ نوجوان اندازہ ہی نہ کر سکا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ تقدیر اسے اس جیسے ردعمل کی طرف لے آئے گی۔ ذلت کے احساس کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھر آئیں لیکن وہ بہت بے بس تھا، اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے گھر واپس آجاتا ہے۔ آج اسکول کا کام بھی نہیں کر سکا تھا۔ بہت دیر روتا رہا، خود سے باتیں بھی کیں اور تھک ہار کر سو گیا کیونکہ صبح اسے کام کے لیے بھی جلدی اٹھنا تھا۔
وہ صبح تین بجے اٹھا، جانوروں کو چارہ ڈالا اور پھر بھینسوں کا دودھ نکال کر جلدی سے تیار ہو کر اپنے اسکول کےلیے نکل پڑا۔ سارا دن وہ اپنی مایوس سوچوں میں غرق رہا۔ پورا ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ دن رات کا کچھ پتا نہ تھا۔ وہ ایک ایسا جسم بن گیا تھا جس میں جان نہیں تھی۔ ایسی ہی سوچوں میں گم وہ اپنے گاؤں میں ایک تالاب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ تالاب میں بلا وجہ پتھر پھینک رہا تھا۔ اس کا دماغ مایوسی کی باتوں سے بھرا تھا کہ اسی دوران ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ لڑکی مان جاتی تو میں اس سے شادی کرتا، شادی کے بعد بچے پیدا کرتا اور اسی میں مر جاتا۔ وہ سوچنے لگا کہ قدرت مجھ سے کچھ اور چاہتی ہے۔ اس نے اپنی یاس کی کیفیت کو جھٹکا دیا اور سوچنے لگا کہ میں خود اپنے حالات بدلوں گا، اپنے خاندان کے حالات بدلوں گا، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے حالات بدلوں گا! میں پوری دنیا کے حالات بدل دوں گا!
وہ خود یہ بڑی بڑی باتیں سوچ کے بھونچکا رہ گیا۔ وہ اٹھا، کپڑے جھاڑے اور اپنے دل کی دنیا لے کر چل پڑا۔ لیکن اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ نوجوان واقعی ایک دنیا بدل دے گا۔ 1904 میں جب وہ صرف 16 سال کا تھا تو اس کا خاندان امریکا کے ایک گاؤں وارنز برگ میں منتقل ہوا جہاں اس نے اپنا ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کا اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا اور اس میں ٹوائلٹ بھی نہیں تھا۔ وہ اسکول ہی سے غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس نے وارنز برگ ہی کے ایک کالج سے 1908 میں گریجویشن مکمل کی۔ پھر جب وہ 22 سال کا ہوا تو اس کا خاندان بیلٹن، میسوری چلا آیا۔ وہ بولتا اچھا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اس کی پہلی جاب سیلز میں لگی۔ اس کی کمپنی کا نام ’’آرمر اینڈ کو‘‘ تھا۔ وہ کمپنی کےلیے گوشت اور صابن کا سیلز مین مقرر ہوا۔ وہ اپنی مہارت کی بدولت بہت جلد اپنے ایریا ساؤتھ اوماہا کا سیلز انچارج بن گیا اور بالآخر ترقی کرتے کرتے کمپنی کا سیلز ہیڈ بن گیا۔
لیکن یہ اس کی منزل نہیں تھی۔ اس نے تقریباً 500 ڈالر (آج کے 13 ہزار ڈالر) جمع کیے اور 1911 میں جاب چھوڑ کر اپنی دنیا بدلنے نکل پڑا۔ اس نے امریکا میں موجود ایک تنظیم کے لیے، جس سے وہ اسکول کے زمانے سے منسلک تھا، لیکچررشپ شروع کر دی۔ لیکن یہاں بھی اسے کام کا مزہ نہ آیا اور جلدی ہی اس نے امریکن ڈرامہ سوسائٹی میں ایکٹنگ کےلیے اپلائی کیا اور ایکٹر بن گیا۔ لیکن یہاں قدرتی طور پر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ وہ نیویارک آگیا اور وائی ایم سی اے (ینگ مینز کرسچین ایسوسی ایشن) کے ہاسٹل میں رہنے لگا۔ مگر اس کے پاس پیسے ختم ہو رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ سیلز جاب ہی بہتر تھی۔ اسے پریشانیوں نے گھیر لیا تھا اور نوبت فاقوں تک آنے لگی تھی۔ اس دوران ہی اسے ایک خیال آیا : پبلک اسپیکنگ۔ ہاں! لیکن اس کےلیے اسے لیکچر دینے کے لیے ایک ہال یا کلاس روم چاہیے تھا۔ اس نے وائی ایم سی اے ہی کے مینیجر سے بات کی۔ مینیجر نے منع کر دیا لیکن اس نے پھر مینیجر کو اکٹھی ہونے والی فیس کا 80 فیصد دینے کا کہا۔ اب کی بار مینیجر انکار نہ کر سکا۔ مینیجر کا وہ اقرار ہی اس کا پہلا سنگِ میل تھا۔
جب وہ اپنا پہلا سیشن کروا رہا تھا تو لیکچر کے دوران اس کا مواد ختم ہو گیا اور وہ زیادہ بول ہی نہ سکا۔ یہاں پر اس نے ایک نئی تکنیک ایجاد کی۔ اس نے اپنے اسٹوڈنٹس کو کسی ایسے عنوان پر بولنے کو کہا جس سے انہیں غصہ آئے۔ اس کی یہ سو چ کام کر گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس طریقے سے لوگوں کے اندر خود اعتمادی آتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے پبلک اسپیکنگ کر سکتے ہیں۔ بعد میں اس کورس کا نام ’’ڈیل کارنیگی کورس‘‘ رکھا گیا، اور وہ اس کورس سے 500 ڈالر ہر ہفتے کمانے لگا۔ جی ہاں! یہ ڈیل کارنیگی ہی تھا جس نے انتہائی نامساعد حالات کا مقابلہ کر کے نہ صر ف اپنی دنیا بدلی بلکہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی مایوسی، ناکامی اور احساس کمتری سے نکال کر کامیاب اور خود اعتماد بنانے میں مدد دی۔
سن 1916 تک ڈیل اس قابل ہو چکا تھا کہ لیکچر کےلیے خود ہی ایک ہال کرائے پر حاصل کر لیتا۔ ایک وقت میں جب وہ لیکچر دے رہا ہوتا تھا تو ہال میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اس کی کتاب 1932 میں شائع ہوئی جس کا نام Public speaking and influencing men in business تھا۔ یہ دنیا میں سیلف ہیلپ پر پہلی کتاب تھی۔ اس سے پہلے لوگ ناول، فکشن یا ڈرامہ لکھتے تھے۔ لیکن اس کی کامیاب ترین کتاب How to win friends and influence people ثابت ہوئی۔ یہ وہ کتاب تھی جس نے واقعی لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ یہ 1936 میں شائع ہوئی، بیسٹ سیلر بنی، چند مہینوں میں 17 بار طبع ہوئی، 31 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور اب تک مجموعی طور پر اس کی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی طالبہ یا طالب علم اتنا کنفیوزڈ اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا کہ لڑکھڑا جاتا تو ڈیل خود ڈائس کے پاس آتا، شفقت سے اس کا بازو پکڑ لیتا اور بولنے کو کہتا۔ وہ تب تک اس کے ساتھ کھڑا رہتا جب تک اسٹوڈنٹ اپنی بات پوری نہ کر لیتا۔ اس نے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ لوگوں کا سب سے بڑا خوف موت کا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا سامنا کرنے کا ہوتا ہے۔ اس نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا، لیکن اتنا نہیں؛ اور اپنی اتنی کامیابی پر وہ خود بھی حیران ہے۔ ڈیل کارنیگی نے ایک ادارہ ’’ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ‘‘ بھی بنایا جس کا مقصد انسانی رویوں اور مؤثر بول چال پر تعلیم دینا ہے۔
ڈیل کارنیگی کا انتقال 1955 میں خون کے ایک قسم کے کینسر سے ہوا۔ اسے اس کے ماں باپ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ڈیل کے انتقال تک تقریباً ساڑھے چار لاکھ طالب علم اس کے ادارے سے تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی بدل چکے تھے۔ ڈیل کارنیگی کی زندگی ان تمام لوگوں کےلیے ایک پیغام ہے جو اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکے ہیں؛ کہ کس طرح اپنی سوچ بدل کر ہم نہ صرف اپنی دنیا بدل سکتے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
مدثر حسیب
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
آصف زرداری پندرہ سال بعد پھر سلاخوں کے پیچھے
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد آصف علی زرداری مسلسل خبروں میں رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہی اپوزیشن کی جانب سے ان پر کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے۔ پی پی حکومت خاتمے کے بعد صدرغلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں میں ان پر مقدمات بنتے رہے۔ آصف زرداری مجموعی طور پر 11 سال جیل میں رہے۔ مبینہ طور پر جیل میں ان کی زبان کاٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔ سنہ 2004 میں رہائی کے بعد آصف زرداری پہلے امریکہ اور بعد ازاں دبئی میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس دوران وہ سیاسی معاملات سے الگ رہے۔ پاکستان کی سیاست میں فعال کردار کے طور پر آصف زرداری سنہ 2008 کے اوائل میں سامنے آئے۔ اس سے قبل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف قومی مصالحتی آرڈی ننس یا این آر او کے تحت مقدمات ختم کر دیے تھے۔
سنہ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے۔ آصف علی زرداری سنہ 2015 میں فوج مخالف بیان کے بعد ایک بار پھر بیرون ملک چلے گئے۔ وہ 23 دسمبر 2016 کو واپس وطن لوٹے، اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ سابق صدر کی حکومت کے ساتھ ان کی نوک جھونک چلتی رہی تاہم مجموعی طور پر ان کے لیے زیادہ مسائل نہیں بنے۔ تاہم 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے بعد صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے لیے بھی حالات بدلنا شروع ہوئے۔ کراچی میں گذشتہ سال بے نامی اکائونٹس سامنے آئے تو آصف زرداری ایک بار پھر عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہوئے۔
بے نامی بنک اکاؤنٹس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جوس بیچنے اور رکشہ چلانے والوں کے اکائونٹس میں بڑی رقوم کی منتقلی کا انکشاف کیا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو اور ملک ریاض کے داماد زین ملک سمیت دیگر کے نام سامنے آئے۔ ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو کی پیشیاں ہوتی رہیں۔ اسلام آباد میں بلاول بھٹو کی پیشی کے موقع پر ناخوش گوار صورت حال بھی پیدا ہوئی جب پولیس نے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا۔ اس پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بعض دوسری پارٹیوں کی جانب سے حکومت کی مذمت بھی کی گئی۔
جاوید مصباح
بشکریہ اردو نیوز
↧
↧
الطاف بھائی : اتنی محبت، اتنی نفرت
پاکستان کی تاریخ میں بہت کم شخصیات ایسی ہوں گی جن سے بیک وقت اتنی محبت اور اتنی نفرت کی گئی ہو۔ ان میں سے ایک کردار الطاف حسین ہیں۔ ایک طرف تو کراچی کی مہاجر برادری کا بڑا حصہ انھیں اپنا نجات دہندہ اور مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقے کے حقوق کا رکھوالا سمجھتی تھی، تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں الطاف حسین کے ہاتھ ہزاروں لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین اس قدر متنازع اور منقسم کرنے والی شخصیت کیسے بن گئے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ان کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔
سنہ 1953: کراچی میں پیدائش
الطاف حسین 17 ستمبر 1953 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین آگرہ سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ انہوں نے کراچی کے عزیز آباد کے علاقے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1978: اے پی ایس ایم او کا قیام
اسلامیہ سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں فارمیسی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 11 جون 1978 کو کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم کی، جس کا مقصد صوبہ سندھ میں آباد اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ برتی جانے والی مبینہ ’نسلی اور لسانی ظلم و ستم‘ کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لا قائم تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر الطاف حسین کو اے پی ایم ایس او کا بانی سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے پی ایم ایس او کے پہلے چیئرمین عظیم طارق اور جنرل سیکریٹری ڈاکٹرعمران فاروق تھے۔
یہ الگ بات کہ الطاف حسین نے شہرت و مقبولیت میں ان دونوں کو اس قدر پیچھے چھوڑ دیا کہ آج ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر اے پی ایس او کے قیام کے بارے میں لکھے گئے صفحے پر عظیم طارق اور عمران فاروق کا نام تک درج نہیں۔ اے پی ایم ایس او کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی اور اس کی شاخیں سندھ بھر کے تعلیمی اداروں میں پھیل گئیں۔ 1979 میں مارشل لا حکومت نے الطاف حسین کو بہاری مہاجرین کے حق میں مظاہرے کے دوران گرفتار کر کے نو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔
سنہ 1984: ایم کیو ایم کی داغ بیل
اے پی ایس او کے پذیرائی دیکھتے ہوئے الطاف حسین نے 18 مارچ 1984 ایم کیو ایم کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ اس زمانے میں سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والی اردو برادری کو حکومت سے کئی شکایات تھیں۔ جن میں سرِ فہرست سندھ میں کوٹا سسٹم تھا جس کے تحت دیہی علاقوں میں بسنے والوں کو تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ترجیحی بنیادوں میں داخلے ملتے تھے۔ دوسری طرف کراچی میں پشتون، پنجابی، اور دوسری قومیتوں کے افراد کی بڑی تعداد میں آمد سے بھی مہاجروں کو خدشات لاحق ہونا شروع ہو گئے۔
الطاف حسین نے مہاجر قومیت کارڈ کھیلا اور اب تک گالی سمجھے جانے والے لفظ ’مہاجر‘ کو سیاسی مہم کا حصہ بنا لیا۔ 15 اپریل 1985 کی صبح بشریٰ زیدی نامی ایک 20 سالہ مہاجر لڑکی کے ٹریفک حادثے میں ہلاکت ایم کیو ایم کی تاریخ کا اہم موڑ ہے جس کے بعد کراچی بھر میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر فسادات شروع ہو گئے جن میں 60 سے زیادہ افراد مارے گئے۔ اس کے دو سال بعد جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم نے سندھ کے تمام شہروں میں کلین سویپ کر دیا۔
سنہ 1988: تیسری قوت
سنہ 1988 میں جنرل ضیاء الحق جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوئے تو ملک میں انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 27 نشستیں جیت کر ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سب کو حیرت زدہ کر گئی۔ تاہم الطاف حسین نے خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور قائدِ تحریک بن کر جماعت کے معاملات چلاتے رہے۔ اسی زمانے میں الطاف حسین اور ان کی جماعت کے خلاف تشدد کو بطور سیاسی حربہ استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے۔
سنہ 1992: خود ساختہ جلاوطنی
21 دسمبر 1991 کو الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے چند ماہ بعد وہ ملک چھوڑ کر برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ سنہ 1992 میں نواز شریف کے دور میں ایم کیو ایم کے خلاف ’آپریشن کلین اپ‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔
سنہ 2002: برطانوی شہریت
سنہ 2002 میں برطانیہ نے نہ صرف الطاف حسین کو شہریت دے دی بلکہ ان کے علاوہ بھی ایم کیو ایم کے بہت سے ارکان کو برطانیہ نے اپنے ہاں خوش آمدید کہا اور انھیں لندن میں مرکوز ہونے دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برطانوی حکومت پاکستان میں ایم کیو ایم کے سیاسی اثر و رسوخ سے سفارتی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اس کی ایک شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ چند برس پہلے الطاف حسین کا ایک خط سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے برطانوی حکومت کو اپنی خدمات پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم ایم کیو ایم نے اس خط سے برات کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں الطاف حسین کے خلاف 30 سے زیادہ قتل کے الزامات کے تحت مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر الزام لگتے رہے کہ وہ لندن سے تقریریں کر کے پاکستانی عوام کو تشدد کے لیے اکساتے ہیں۔
سنہ 2016: تشدد پر اکسانے کے الزام
سنہ 2016 میں ان کی ایک تقریر سننے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے ایک ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کر دیا، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی، جس کے بعد سے ان کا نام لینا بھی پاکستانی میڈیا پر ممنوع ٹھہرا اور انہیں ’بانیِ ایم کیو ایم‘ کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان۔ ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور اس کے کارکن زیرِ زمین چلے گئے، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔
سنہ 2016: لندن میں پہلی گرفتاری اور بریت
تاہم ان کی زندگی کا ایک اور ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب 2016 میں لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس نے ان کے دفتر اور گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے پانچ پاؤنڈ کیش برآمد کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ وہاں سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم کو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے مالی امداد ملتی تھی۔
البتہ چند ماہ کے بعد میٹ پولیس نے یہ کر کہہ کر تحقیقات ختم کر دیں کہ انہیں کافی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی اس بات کا ثبوت ملا کہ یہ رقم مجرمانہ طریقے سے حاصل کی گئی تھی یا اس رقم کو غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
سنہ 2019: دوبارہ گرفتاری
11 جون 2019 میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایک بار پھر الطاف حسین کو گرفتار کر لیا۔ اس بار ان پر الزام ہے کہ انہوں نے تقاریر کے ذریعے بیرونِ ملک لوگوں کو تشدد کے لیے اکسایا ہے۔
ظفر سید
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
پاکستان میں اب کون کتنا انکم ٹیکس دے گا ؟
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں جہاں کم از کم قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ سے کم کر کے تنخواہ دار طبقے کے لیے چھ لاکھ اور دیگر غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے چار لاکھ مقرر کی ہے وہیں انکم ٹیکس کا تعین کرنے کے لیے موجود سلیبز کی تعداد بڑھا کر 12 کر دی گئی ہے۔ 12 لاکھ کی حد گزشتہ برس پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے چھٹے اور آخری بجٹ میں مقرر کی تھی تاہم بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرِ محصولات حماد اظہر نے کہا کہ اس اقدام سے 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 2019-20 کے فنانس بل میں تنخواہ دار طبقے کے لیے جو سلیبز مقرر کیے گئے ہیں ان میں کم از کم ٹیکس کی شرح پانچ فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ شرح 35 فیصد ہے۔
سلیبز میں کی جانے والی تبدیلیوں کے بعد پہلے سلیب میں ایسے افراد آئیں گے جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے کم یعنی 50 ہزار روپے ماہانہ ہے تاہم ان افراد کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ دوسرے سلیب میں ایسے تنخواہ دار افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کی آمدن چھ لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ تک ہے اور انھیں چھ لاکھ سے زائد رقم پر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس دینا ہو گا۔ مثال کے طور پر وہ شخص جس کی آمدن دس لاکھ روپے سالانہ یا ماہانہ 83 ہزار تین سو تینتیس روپے ہو وہ اب تک صرف ایک ہزار روپے سالانہ ٹیکس دے رہا تھا تاہم اسے نئے قوانین کے تحت چھ لاکھ کی آمدن پر چھوٹ حاصل ہو گی اور بقیہ چار لاکھ روپے پر وہ پانچ فیصد کی شرح سے 20 ہزار روپے سالانہ ٹیکس دے گا یعنی اس کا ٹیکس 666 روپے بڑھ جائے گا۔
تیسرا سلیب 12 لاکھ سے 18 لاکھ آمدن والے افراد کے بارے میں ہے جنھیں اب 30 ہزار روپے کے فکس ٹیکس کے علاوہ 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس دینا ہو گا۔ چوتھے سلیب میں 18 لاکھ سے 25 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ نئے قوانین کے تحت یہ لوگ 90 ہزار روپے سالانہ فکس ٹیکس دیں گے جبکہ 18 لاکھ سے زائد آمدن پر انھیں پندرہ فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ انکم ٹیکس کا پانچواں سلیب 25 لاکھ سے 35 لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدن پر لاگو ہوتا ہے اور اس کے تحت ایک لاکھ 95 ہزار روپے فکس ٹیکس کے علاوہ 25 لاکھ سے زائد آمدن پر ساڑھے 17 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
چھٹا سلیب 35 لاکھ سے 50 لاکھ آمدن والے افراد کے لیے ہے جو 3 لاکھ 70 ہزار روپے سالانہ فکس ٹیکس کے علاوہ 35 لاکھ سے زیادہ آمدن کا 20 فیصد بطور انکم ٹیکس دیں گے۔ ساتویں سلیب میں 50 لاکھ سے 80 لاکھ تک کمانے والے لوگوں پر 6 لاکھ 70 ہزار فکس ٹیکس کے علاوہ 50 لاکھ سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 22 فیصد انکم ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس برس زیادہ آمدن والے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کو مزید کئی سلیبز میں تقسیم کیا گیا ہے اور آٹھویں سلیب میں 80 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ آمدن والے افراد کو 13 لاکھ 45 ہزار روپے سالانہ فکس ٹیکس کے علاوہ 80 لاکھ سے زیادہ آمدن کا 25 فیصد بطور انکم ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
نواں سلیب ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے تین کروڑ روپے سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے جو 23 لاکھ 45 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس کے علاوہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 27 فیصد انکم ٹیکس دیں گے۔ دسواں سلیب تین کروڑ سے پانچ کروڑ آمدنی والوں کے لیے ہے جن سے 72 لاکھ 95 ہزار روپے فکس ٹیکس کے علاوہ تین کروڑ سے زیادہ آمدن پر 30 فیصد ٹیکس لیا جائے گا۔ 11ویں سلیب میں پانچ سے ساڑھے سات کروڑ روپے سالانہ آمدن والے افراد آتے ہیں جو ایک کروڑ 32 لاکھ 95 ہزار روپے فکس اور پانچ کروڑ سے زیادہ رقم پر ساڑھے 32 فیصد ٹیکس دیں گے۔ آخری اور 12واں سلیب ایسے افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن ساڑھے سات کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یہ افراد دو کروڑ 14 لاکھ 20 ہزار روپے فکس اور ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ آمدن پر 35 فیصد ٹیکس دیں گے۔
ذیشان حیدر
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
↧
بھارت امریکا اتحاد کے خلاف پاک چین اتحاد ناگزیر کیوں بنتا جارہا ہے؟
گزشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں خفیہ نوعیت کے بلڈربرگ اجلاسوں کے بعد فنانشل ٹائمز کے محترم اقتصادی کالم نگار مارٹن وولف نے ‘The 100 year fight facing the US and China’ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ وولف نے جو نتائج اخذ کیے وہ کافی اہم ہیں۔ وولف کے مطابق ’چین سے مسابقت امریکی اقتصادی، خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیوں کا ایک مرکزی اصول بنتی جا رہی ہے اور اصل مقصد ہے امریکی غلبہ۔ اس کا مطلب ہے کہ چین پر کنٹرول یا پھر چین سے علیحدگی۔ اس کوشش کی ناکامی تو ناگزیر ہے۔ یہ ہمارے دور کی ایک سب سے اہم جغرافیائی پیش قدمی ہے۔ اس طرح تمام ممالک یا تو کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر غیر جانبداری کے لیے زبردست جدوجہد کرنی پڑ جائے گی۔ ہر ایک جو یہ سمجھتا ہے کہ قوانین و ضوابط پر مشتمل غیر ملکی تعلقات کا نظم و سق، ہماری عالم گیر معیشت یا ہم آہنگی سے بھرپور بین الاقوامی تعلقات کے باعث اس تنازع سے بچا جا سکتا ہے وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔‘
پاکستان، بھلے ہی چین اور امریکی کے اس ابھرتے طوفان کے مرکز میں نہ ہو لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔ غیر جانبداری کا آپشن پاکستان کو دستیاب نہیں ہے۔ امریکا ’انڈو پیسیفک‘ اور جنوبی ایشیا کے خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو پہلے ہی اپنا اسٹریٹجک پارٹنر منتخب کر چکا ہے۔ امریکا کی جنوبی ایشیا پر اعلانیہ پالیسی برِصغیر کے ہندوستانی غلبے پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہندوستانی تجارت کو لے کر ہونے والی ہلکی پھلکی تُو تُو میں میں کے باوجود امریکی اسٹیبلشمنٹ چین کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہندوستان کی فوجی طاقت کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف چین کے ساتھ شراکت داری پاکستان کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور بھارت کے اتحاد کے باعث پاک چین شراکت داری میں اور بھی زیادہ پختگی پیدا ہو جائے گی۔ ہندوستان کی جنوبی ایشیا میں اجارہ داری اور امریکا بھارت گرینڈ اسٹریٹجی کی کامیابی میں پاکستان ایک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اس ’رکاوٹ‘ کو راستے سے ہٹانے یا پھر غیر جانبدار بنانے کی کوششیں کریں گے۔
امریکا بھارت کو جدید ترین اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں مصروف ہے، جس کا فوری اور سب سے بڑا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ بھارت کی فوجی طاقت میں اضافے سے پاکستان کے ساتھ اسلحے کا توازن بدترین حد تک بگڑ رہا ہے، جس کے باعث بھارتی جارحیت کو ہوا ملے گی اور پاک بھارت تنازع میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی نہج تک پہنچنا پہلے کے مقابلے میں مشکل نہیں ہو گا۔
صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اب واشنگٹن نے بھی بھارت کی صف میں شامل ہو کر کشمیر کی جائز جدوجہد آزادی کو ’مذہبی دہشتگردی‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو ہائبرڈ وار کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔ اسلحے کی طاقت میں اضافے، ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور کشمیر کی آزادی کی مخالفت کے علاوہ مغربی خصوصیات کی حامل منحرف میڈیا مہم کے ساتھ سابقہ فاٹا میں نسلی جارحیت اور تحریک طالبان پاکستان اور بی ایل اے کی دہشتگردی کو کھلے عام ہندوستان کا تعاون رہا ہے۔
ہندوستان کی جنوبی ایشیا میں اجارہ داری اور امریکا بھارت گرینڈ اسٹریٹجی کی کامیابی میں پاکستان ایک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اس ’رکاوٹ‘ کو راستے سے ہٹانے یا پھر غیر جانبدار بنانے کی کوششیں کریں گے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی دھمکیوں اور سی پیک کی مخالفت کے پیچھے امریکا اور ہندوستان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکا پہلے ہی بیل آؤٹ میں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پیکیج کو تاخیر کا شکار بھی بنا چکا ہے۔ اگرچہ امریکا نے طالبان کو ’مناسب‘ رویے کی طرف راغب کرنے کے لیے پاکستان کا تعاون استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی جانب اپنی کھلے بیر کو معتدل رکھا ہوا ہے، مگر ایک بار جب افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے یا پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا تو امریکا اپنا مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگا سکتا۔
مستقبل قریب میں چین امریکی تنازع میں مزید شدت آسکتی ہے۔ امریکا کی جانب سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنی صفوں میں کھڑا کرنے کی خاطر ڈالا جانے والا دباؤ امریکی ہاکس کی ہدایت کے تحت شدید تر ہو جائے گا۔ ژی جن پنگ کے زیرِ اقتدار چین ’نہ اپنی طاقت چھپائے گا اور نہ ہی درست وقت کا انتظار کرے گا‘۔ بیجنگ واشنگٹن کی تجارتی پابندیوں کے خلاف اپنا جواب بخوبی انداز میں دے چکا ہے۔ چین اپنی سرزمین کے ’ایک ایک انچ کا دفاع‘ کرے گا۔ قوی امکان ہے کہ نریندر مودی اپنی دوسری مدت میں پاکستان کی جانب زیادہ لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ انتہا پسند ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں، کشمریوں اور بالخصوص پاکستان کی جانب دشمنی کے جذبات کی بنیاد پر منتخب ہو کر آئے ہیں۔ مودی اپنے اس لب و لہجے اور کردار کو ترک کرنا نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کا دھیان نوکریاں فراہم کرنے میں بی جے پی کی ناکامی کی طرف نہ جائے، اور نہ ہی اس طرف کہ ہندوستان میں اشرافیہ کی طرزِ زندگی کس طرح بہتر ہوئی ہے۔
بھارتی معیشت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں اور پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔ بھارت کو صرف متنازع کشمیر کا ہی مسئلہ درپیش نہیں، بلکہ وہاں بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف مقبول اور مستحکم بغاوت کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں کئی جگہوں پر شورش برپا ہے۔ پلوامہ بحران نے کشمیر تنازع سے ممکنہ خطرات کی تصدیق کر دی ہے۔ بھارتی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت میں کشمیری گروہ چند موقعوں پر انسانی حقوق کی ناگوار اور منظم بھارتی خلاف ورزیوں کا جواب پُرتشدد انداز میں دیں گے۔ بھارت اس تشدد اور کشمیری مزاحمت کو دبانے میں اپنی ناکامی کا الزام پاکستان پر لگائے گا۔ اگلا پاک بھارت تنازع عام دشمنیوں کا دروازہ کھول سکتا ہے جن کی شدت بڑھ کر جلد ہی ایٹمی نہج تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے خطرناک منظرنامہ امریکی ایٹمی ’چھتری‘ تلے بھارتی روایتی حملہ ثابت ہو گا اور پاکستان کے پاس جوابی ایٹمی حملے کی صلاحیت ہی اس آفت خیز منظرنامے کا مقابلہ کرنے کا واحد اور یقینی طریقہ ہے۔ کسی بھی قیمت پر ہندوستان کے ساتھ امن کی آواز کو اس سے لاحق ہونے والے چیلنجز کے باعث پاکستان میں چند لوگوں کا دل خاصا دکھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان کے پاس ‘سرینڈر کا آپشن نہیں ہے۔‘ (یہ اقتباس اقوام متحدہ کے حوالے سے جان بولٹن کی کتاب کے عنوان سے لیا گیا ہے)۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستانی غلبے کو تسلیم کرنا تشکیلِ پاکستان کے اہم ترین مقصد کو ٹھیس پہنچانے کے برابر ہو گا۔ ہندوستان میں محصور زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی موجودہ بدتر صورتحال ان لوگوں کے لیے ایک عملی مثال ہے جو یہ مانتے ہیں کہ خیر سگالی کے مظاہرے سے ہندوستان کی دوستی حاصل کر لی جائے گی۔ پھر ہزاروں برسوں پر محیط تاریخ اس سوچ کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستان چاہے جو بھی کرے اس سے قطع تعلق کشمیری ہر ہر موقعے پر تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وہ پاکستانی لاتعلقی کے کئی ادوار بھی جھیل چکے ہیں۔ اگر مودی حکومت انتخابی مہم کے دوران جموں کشمیر کے خصوصی، خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوششیں کرتی ہے تو اس سے کشمیری مزاحمت میں مزید شدت پیدا ہو گی۔ جس کے بعد اسلام آباد کے پاس 2 ہی آپشن باقی رہ جائیں گے۔ یا تو وہ جائز کشمیری جدوجہد کا ساتھ دے یا پھر اس کے دبانے کے لیے ہندوستان کو تعاون فراہم کرے (ٹھیک جس طرح ریاستی حیثیت کے لیے جاری فلسطینی جدوجہد کو دبانے کے لیے عرب ریاستوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔) جہاں پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم اور پیداوار کی بحالی کے لیے کوشاں ہے وہیں سول اور فوجی قیادت کو اس ملک کی سلامتی اور اسٹریٹجک آزادی کے تحفظ کا پورا پورا دھیان رکھنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر خود کو بھارتی و امریکی صوبہ دار بنا لیا جائے۔
بہتر مستقبل ممکن ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ زیادہ نمایاں انداز میں نظر نہیں آتا۔ خیر، امریکی صدر ٹرمپ اور چینی صدر ژی آئندہ جی 20 سمٹ یا اس کے بعد تجارت اور ٹیکنالوجی پر اپنے اپنے اختلافات کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ یا پھر 2020ء کے انتخابات میں ٹرمپ چین کے ساتھ سرد جنگ کے مخالف معقول ڈیموکریٹ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں ممکن ہے کہ پیوٹن، ژی اور قومی غیرت مل کر مودی کو امریکی اشاروں سے جان سے چھڑانے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل بناتے ہوئے ایک اشتراکی ایشیائی نظم و نسق میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کر دیں۔ تاہم پاکستان اس قسم کے امید افزا مستقبل کے منظرناموں کو اپنی سلامتی اور اپنے وجود کے لیے بنیاد نہیں بنا سکتا۔ پاکستان کو بدترین حالات کے لیے تیاری جبکہ بہترین حالات کی امید کرنی ہو گی۔
منیر اکرم
یہ مضمون 9 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
↧
امریکہ روس تعلقات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں : پوٹن
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ "بد سے بدتر"ہوتے جا رہے ہیں۔ مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی موجودہ حکومت نے حالیہ کچھ عرصے میں روس پر درجنوں نئی اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں جو ان کے بقول تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی صدر پوٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ تعلقات میں خرابی کے موجودہ رجحان کے باوجود انہیں امید ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ کریملن کی جانب سے روسی صدر کے انٹرویو کا متن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے ایک روز بعد جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نے پولینڈ میں مزید ایک ہزار امریکی فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ کے اس اعلان پر روس کا سخت ردِ عمل متوقع ہے۔ روس اپنے پڑوسی ملکوں اور سابق سوویت ریاستوں میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی موجودگی کا سخت مخالف رہا ہے اور اسے اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں پولینڈ کے صدر آندرے دودا کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ امریکہ کا یورپ میں موجود اپنے فوجی اہل کاروں کی تعداد میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں اور پولینڈ میں بھی مزید اہل کار کسی دوسرے یورپی ملک سے وہاں بھیجے جائیں گے۔ پولینڈ کی حکومت نے اپنے ملک میں امریکی فوجیوں اور اسلحے کی موجودگی کے لیے دو ارب ڈالر مختص کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جو پولینڈ کے بقول ممکنہ روسی جارحیت کے مقابلے کے لیے ضروری ہیں۔
پولینڈ امریکہ سے 32 سے 35 جدید ترین جنگی طیارے 'ایف 35'کی خریداری میں بھی دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے جس کا صدر ٹرمپ بذاتِ خود خیر مقدم کر چکے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ روس کی گیس پائپ لائن 'نارڈ اسٹریم 2'پر بھی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ روس اس پائپ لائن کے ذریعے جرمنی سمیت یورپ کے کئی ملکوں کو گیس فراہم کرے گا جس کی امریکہ مخالفت کر رہا ہے۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ یورپی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس پر انحصار سے گریز کریں اور متبادل ذرائع تلاش کریں۔ لیکن بظاہر روس کو بھڑکانے والے ان تمام اقدامات کے اعلان کے باوجود صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ روس کے ساتھ "بہترین تعلقات کے قیام"کا خواہاں ہے۔
امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ رواں ماہ جاپان میں ہونے والے 'جی 20'سربراہ اجلاس کے موقع پر صدر پوٹن سے ملاقات بھی کریں گے۔ حالاںکہ ایک روز قبل ہی کریملن نے واضح کیا تھا کہ دونوں سربراہانِ مملکت کی ملاقات تاحال یقینی نہیں ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں خرابی کا آغاز چند سال قبل یوکرین میں ہونے والی بغاوت سے ہوا تھا جس میں روس نواز باغی ملوث تھے۔ بعد ازاں شام میں جاری خانہ جنگی اور 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت نے دو طرفہ کشیدگی بڑھا دی تھی۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
انڈیا : خشک سالی کے سبب لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور
انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے گاؤں میں 75 سالہ دگادو بیلدار روزانہ صبح اٹھ کر دال چاول کا ناشتہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے لیے کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ گذشتہ تین برسوں سے بیلدار اپنے ایک کمرے کی جھونپڑی میں تنہا رہتے ہیں۔ ان کا گھر جنگلوں کے پاس پہاڑی گاؤں ہتکرواڈی میں ہے۔ قحط سالی نے ان کی اہلیہ اور تین بیٹوں کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ زمین پر دراڑیں نظر آتی ہیں جبکہ کنویں سوکھ چکے ہیں۔ نہانے اور پینے کے لیے پانی نہیں ہے اور ان کے باجرے کے کھیت خالی پڑے ہیں۔ ان کے دو بیٹوں کو تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر سنگلی کی ایک شوگر مل میں کام مل گیا ہے۔ یہ علاقہ گنے کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔ جبکہ ان کی بیوی تیسرے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو کہ وہاں سکول جاتا ہے۔ ان کے لیے ہتکرواڈی ایک تکلیف دہ یاد ہے۔
عمر کے ساتھ بیلدار اونچا سننے لگے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے اندھیرے کمرے میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کے ایک پڑوسی گنیش سدگر کا کہنا ہے کہ 'وہ بہت تنہا ہیں۔ تین سال سے وہ اپنے گھر والوں سے نہیں ملے۔ اور یہ سب پانی کی وجہ سے ہے۔' گلی کی دوسری طرف 75 سالہ کشن سدگر کے اکلوتے بیٹے نے تقریباً ایک دہائی قبل گھر چھوڑ دیا اور کہیں دور شوگر مل میں کام کرنے چلے گئے۔ وہ اپنی اہلیہ اور ایک کتے کے ساتھ رہتے ہیں۔ کشن سدگر نے بتایا کہ 'میرا بیٹا بہ مشکل کبھی گھر آتا ہے۔ اور جب وہ آتا ہے تو دو تین دن میں جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں پانی نہیں ہے۔' دو تین گھر چھوڑ کر ساگا بائی اپنی 14 سالہ گونگی اور بہری بیٹی پاروتی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے واحد بیٹے اپپا نے برسوں پہلے فیکٹری میں کام کرنے کے لیے گھر چھوڑ دیا۔ ساگا بائی کہتی ہیں کہ 'وہ شاید ہی کبھی گھر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بارش ہو گی تو آؤں گا۔'
اور گاؤں کے واحد گریجویٹ گنیش سدگر کو شادی کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل رہی ہے کیونکہ 'پانی کی کمی کے سبب کوئی بھی اس گاؤں میں آنا نہیں چاہتی ہے۔' ہتکرواڈی تپتے ہوئے سورج کی زد میں آنے والے ضلعے بیڈ میں پڑتا ہے جو کہ بارش کی کمی کے سبب خشک سالی کا شکار ہے۔ ابھی بہت وقت نہیں گزرا جب اس 125 گھروں والے گاؤں میں 1200 افراد رہا کرتے تھے۔ لیکن اب ان میں سے نصف سے زیادہ گاؤں چھوڑ چکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد مردوں کی ہے۔ ان کے گھربند پڑے ہیں۔ یہ پانی کے مارے پناہ گزین دور دراز کے شہروں اور قصبوں میں جا کر رہنے لگے ہیں، وہ گنے کے کھیت اور شوگر ملوں یا تعمیراتی پروجیکٹس میں کام کرتے یا پھر ٹیکسی چلاتے ہیں۔
گاؤں کے 42 سالہ مکھیا بھیم راؤ بیلدار کہتے ہیں کہ 'یہاں پانی نہیں ہے تو پھر لوگ یہاں کیوں ٹھہریں؟' جب میں گاؤں پہنچا اس سے پچھلی رات وہاں تھوڑی بارش ہوئی تھی۔ دوسری صبح آسمان میں چھائے کالے بادل مزید بارش کی نوید دے رہے تھے۔ لیکن پھر دوپہر تک آسمان تپنے لگا اور بارش کی امید بھی ختم ہو گئی۔ یہاں ایسے ہی امیدیں دم توڑتی ہیں۔ تین سال قبل یہاں 'مناسب بارش'ہوئی تھی۔ ظالم موسم گرما نے ہتکرواڈی سے زندگی چھین لی ہے۔ زمین بھوری پڑ چکی ہے اور اس میں شگاف نظر آتے ہیں۔ کپاس اور باجرے کے کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ گاؤں کے 35 کنوؤں میں سے صرف دو کنوؤں میں پانی بچا ہے۔ وہاں تقریبا ایک درجن بور ویل ہیں لیکن زمین میں پانی کی سطح کم ہونے سے پانی کے لیے انھیں مزید گہرے 650 فٹ تک کھودنا پڑ رہا ہے۔
ذرا سی ہوا بھی بجلی کے منقطع ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے بور ویل بھی اکثر کام نہیں کرتے ہیں۔ پانی کے ٹینکرز ہی اس خشک سالی کے شکار علاقوں کی شہ رگ ہیں لیکن وہ بھی تنگ راستوں کی خستہ حالت کی وجہ سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی کے لیے تیار نہیں۔ مویشیوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے 300 بھینسوں کو چارہ کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کے مالک انھیں اپنے ساتھ باندھ کر رکھتے ہیں۔ حکومت کی نئی سکیم کے تحت گاؤں میں 75 نئے بیت الخلا بنے ہیں تاکہ کھلے میں رفع حاجت نہ کیا جائے لیکن وہ پانی کی کمی کے سبب استعمال میں نہیں ہیں۔ زیادہ تر گاؤں والے اپنے امیر پڑوسیوں سے پانی حاصل کرتے ہیں جن کے پاس اپنے بور ویل ہیں۔
بیڈ کے نقشے پر ہتکرواڈی ایک دھبہ ہے۔ اس علاقے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد قحط سالی کا شکار ہیں۔ وہاں جنگلوں میں تیزی سے کمی ہو رہی اور اب صرف دو فیصد جنگل ہی بچے ہیں۔ جبکہ صرف 16 فیصد کھیتوں میں آبپاشی ہوئی ہے۔ جب مون سون کی اچھی بارشیں ہوتی ہیں تو یہاں آباد ساڑھے چھ لاکھ کسان، کپاس، سویا بین، گنے، بروا اور باجرے کی فصل اگاتے ہیں۔ گذشتہ چھ سالوں سے بیڈ میں مسلسل بارش میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ غیر مستقل اور بے موسم بارش کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ دس دنوں تک بارش کا نہ ہونا بھی فصلوں کی بربادی کے لیے کافی ہے۔ گذشتہ برس کافی بارش ہوئی تھی اور 699 ملی میٹر سالانہ اوسط سے 99 فیصد بارشیں ہوئی تھیں لیکن پھر بھی فصلیں نہیں ہو سکیں کیونکہ ان میں چار بڑے وقفے ہو گئے تھے۔
اس علاقے کا اہم دریا گوداوری سوکھ رہا ہے۔ بیڈ کے چھوٹے بڑے تمام 140 ڈیمز سوکھ چکے ہیں۔ وہاں کے دو بڑے ڈیمز میں حکام کے مطابق نہ ہونے کے برابر پانی ہے جو کہ کیچڑ آلود ہے۔ یہ وہ پانی ہے جہاں سے تالابوں میں پمپ کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ایک ہزار ٹینکر پانی لے جاتے ہیں۔ ان کی آلودگی کو کلورین سے صاف کیا جاتا ہے اور پھر 300 مختلف پیاسے دیہاتوں میں انھیں پہنچایا جاتا ہے۔ چارے کی کمی کے سبب بیڈ کے آٹھ لاکھ مویشیوں میں سے نصف کو تقریبا 600 مویشی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے حکومت کی سکیم کے تحت کام کرنا شروع کیا ہے اور حکام لوگوں کو مفلسی سے بچانے کے لیے اسے مزید لوگوں کے لیے کھول رہے ہیں۔
خشک سالی نے شہر کے لوگوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ بیڈ شہر کے ڈھائی لاکھ باشندوں کو ایک ہفتے میں اور کبھی کبھی دو ہفتوں میں ایک ہی بار پانی مل رہا ہے۔ بیڈ کے سب سے سینیئر اہلکار آستک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ 'یہ دہائیوں میں سب سے خراب خشک سالی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے پینے کا پانی جولائی تک بچا رہے اور اس کے بعد بہت بارش کے آثار ہیں۔' مہاراشٹر کو مفلوج کرنے والی خشک سالی اس وسیع موسمیاتی آفت کا ایک حصہ ہے جس نے انڈیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کی 40 فیصد زمین کو خشک سالی کا سامنا ہے جبکہ کم سے کم دس ریاستوں کے پانچ کروڑ افراد اس سے بری طرح متاثر ہیں۔
دیہی علاقوں میں کام کرنے والے اور 'پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا'کے مدیر پی سائیناتھ کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی 'دھماکہ خیز مسئلہ'ہے۔ ان کے مطابق محض خشک سالی ہی اس بحران کی واحد وجہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پانی کی تقسیم اور غریبوں کی قیمت پر امیروں کو پانی پہنچانا بھی اس میں شامل ہے۔ 'پانی کو کسانوں سے لے کر صنعتوں میں پہنچانا، غذائی فصل سے لے کر پانی پینے والی نقدی فصلوں میں دینا، دیہی علاقے سے لے کر شہری علاقوں کو دینا، گزر بسر کرنے سے لے کر لائف سٹائل کے لیے شہروں کے سوئمنگ پول کو دینا بھی اس میں شامل ہے۔'
سوتک بسواس
بشکریہ بی بی سی، انڈیا
↧
ڈالر کو روکیں : صورتحال ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہے
انٹرا بینک میں ڈالر چار روپے سے زائد کے اضافے کے بعد ملکی تاریخ کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، اگر یہی حال رہا تو صورتحال ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہے۔ یہ کیفیت اس قدر نازک ہے کہ اگر اس سے فوری طور پر نہ نمٹا گیا تو غیر ملکی قرضوں کی مالیت جو ایک سال میں 28 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 35 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین پہلے ہی موجودہ صورتحال کو دیوالیہ پن کی علامت قرار دے چکے ہیں. تاہم ماضی میں بہت سے ممالک ایسے حالات سے دوچار ہوئے ہیں جن میں سے اکثر اپنی پالیسیوں کو ازسر نو ترتیب دے کر اپنی اقتصادیات کو منظم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں.
بلکہ آج دنیا کے خوشحال ترین اور قرضے دینے والے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت بھی گزشتہ آٹھ دس ماہ کے دوران کیے گئے اقدامات خصوصاً حالیہ بجٹ کو دیوالیہ پن کی کیفیت سے نکلنے میں دور رس نتائج کا حامل قرار دے رہی ہے لیکن سردست ڈالر، سونا، بجلی، پٹرول و گیس کی قیمتوں کے مسلسل اوپر جانے سے دوسرے نقصانات کے علاوہ درآمدات پر اثر پڑ سکتا ہے اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے بحرانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کو کرنسی مارکیٹ کی موجودہ کیفیت کا فوری نوٹس لینا چاہئے، اس کے علاوہ ترسیلاتِ زر میں فوری اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے جس کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کے کے آغا کون ہیں ؟
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم آئینی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل آج سے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کے خلاف اپنے حلف کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کی شکایات کے تحت صدر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنسز کی سماعت کررہا ہے۔ ان دو ججز میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا شامل ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور یہاں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آ کر وکالت شروع کی۔ وہ بطور وکیل تقریبا 27 سال ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیرئیر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انھیں 5 ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ انھوں نے نومبر 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کی مخالف کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس عرصے کے دوران کئی اہم مقدمات میں انتہائی اہم فیصلے تحریر کیے۔ سنہ 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی بھی کی۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی پر الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان میں فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی۔
جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا تھا۔
کوئٹہ خودکش دھماکہ انکوائری کمیشن
اسی طرح 8 اگست 2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد اس کے حقائق جاننے کے لئے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی بھی جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو سونپی گئی۔ انکوائری کمیشن نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں خود کش دھماکے کو حکومت کی غفلت قرار دیا تھا۔ انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔
حدیبیہ پیپر ملز کیس
جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ نیب نے حدیبیہ پیپر مل کیس میں لاہور کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
چیف جسٹس سے اختلافات
گزشتہ سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اختلافات کے باعث اپنی سربراہی میں قائم اس تین رکنی بینچ سے بھی نکال دیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ ان درخواستوں کی سماعت کی مجاز ہے جو عوامی نوعیت کی ہوں اور اس میں بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی درپیش ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چئف جسٹس کے اس اقدام پر اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کے فیصلے کو عجلت اور عدالتی نظام کے لیے برا شگون قرار دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس
وکلا رہنماؤں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس کی بنیاد ان کے فیض آباد دھرنا کیس میں تحریر کیا گیا فیصلہ ہے جو فوج سمیت بہت سی مقتدر قوتوں کو ناگوار گزرا تھا۔ فروری 2017 میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے داخلی علاقے فیض آباد میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال کیس کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریرکیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت وقت کے علاوہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے دھرنے میں خلاف قانون کردار پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نفرت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ فیصلے میں چیف آف آرمی اسٹاف کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی ایک جماعت، سیاست دان یا تنظیم کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے میں سے فوج اور خفیہ ایجنسی سے متعلق سطور خارج کی جائیں۔
جسٹس کے کے آغا کون ہیں؟
سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف بھی ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ جسٹس محمد کریم خان آغا 20 ستمبر 1964 کو پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد قانون کا پیشہ اختیار کیا۔ جسٹس کریم خان آغا اقوام متحدہ میں قانونی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2010 میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل تعینات کیا گیا تھا جس کے بعد وہ قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ لگ بھگ 25 سال تک قانون کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد انہیں 30 اکتوبر 2015 کو سندھ ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا۔ اس وقت وہ سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے حساب سے 21 ویں نمبر پر ہیں اور 19 ستمبر 2026 کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوں گے۔
محمد ثاقب
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧