↧
بھارت کے عام انتخابات : کیا یہ گاندھی خاندان کی سیاست کا اختتام ہے؟
↧
بریگزٹ میں ناکامی کا اعتراف, تھریسا مے کا مستعفی ہونے کا اعلان
برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کو تین بار بریگزٹ ڈیل پر قائل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد وزارت عظمی کے عہدے سے استعفی دے رہی ہیں۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ‘‘میرے لیے اب یہ واضح ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ ایک نیا وزیر اعظم اب ان کوششوں کی سربراہی کرے۔ اس لیے میں یہ اعلان کر رہی ہوں کہ میں کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہو رہی ہوں۔ نیا پارٹی لیڈر چننے کا عمل تھریسا مے کے استعفی کے اگلے ہفتے شروع ہو گا۔
جسے بھی پارٹی لیڈر چنا جائے گا وہ بعد میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لے گا۔
برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر کھڑے ہو کر اپنے بیان میں تھریسا مے نے کہا کہ ان کے لیے یہ امر ہمیشہ گہرے دکھ کا باعث رہے گا کہ وہ بریگزٹ پر ڈلیور نہ کر پائیں۔ تھریسا مے کے استعفے کے بعد برطانوی وزیراعظم بننے کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ نئے وزیراعظم کے لیے تھریسا مے نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کوششوں میں کامیاب ہو جائے جن میں تھریسا مے ناکام ہو گئی ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
چین ترقی کی راہ پر مسلسل گامزن، 373 میل فی گھنٹہ رفتار والی ٹرین تیار کر لی
چین ترقی کی راہ پر مسلسل کامیابیاں حاصل کرنے کی طرف گامزن ہے، ملک میں ایسی ٹرین تیار کر لی ہے جس کی رفتار 373 میل فی گھنٹہ ہے جس کی آزمائش بھی شروع کر دی گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرین چائنا ریلوے رولنگ اسٹاک کارپوریشن نے تیار کی ہے اور مکمل پروڈکشن 2021 میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس رفتار سے چین میں بیجنگ سے شنگھائی کا سفر 3 گھنٹے میں ممکن ہو سکے گا جبکہ لاہور سے کراچی کا فاصلہ یہ ٹرین 2 گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کر سکے گی۔ اس موقع پر سی آر آر سی کے ڈپٹی چیف انجنیئر ڈینگ سان سان کے مطابق بیجنگ اور شنگھائی کے درمیان طیارے سے پہنچنے میں ساڑھے 4 گھنٹے لگتے ہیں۔
ٹرین مقناخیزی نظام کے تحت سفر کرے گی یعنی ٹرین پٹری کے مقناطیسی میدان پر ہوا میں معلق ہو کر چلتی ہے۔ چین میں دنیا کا تیز ترین کمرشل مقناخیزی سسٹم کام کر رہا ہے جو 267 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کی سہولت شنگھائی ائیرپورٹ سے شہر کے وسط تک فراہم کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ پہلی ٹرین نہیں جو اتنی تیز رفتار ہو، جاپان میں ٹرین نے 2015ء میں 375 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کا ریکارڈ بنایا ہوا ہے۔ جاپان ٹوکیو اور ناگویا کے درمیان 314 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی مقناخیزی ریل لائن پر کام کر رہا ہے جسکا 2027 تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
واٹر گیٹ سکینڈل امریکی سیاسی تاریخ کا وہ واقعہ جو صدر نکسن کو لے ڈوبا
امریکہ کی سیاسی تاریخ میں جس سکینڈل نے عالمی شہرت حاصل کی وہ واٹر گیٹ سکینڈل ہے۔ اس سکینڈل نے 1972 کے صدارتی انتخابات کے بعد سر اٹھانا شروع کیا۔ 1972 سے 1974 کے دوران پانچ آدمی واشنگٹن ڈی سی میں واقع ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کے دفتر میں گھس گئے۔ بعد میں صدر نکسن کی انتظامیہ کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کسی طرح صدر رچرڈ نکسن کا نام اس سکینڈل میں نہ آئے۔ یہ پانچوں نقب زن پکڑے گئے اور سازش بے نقاب ہو گئی۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے میں چند صحافیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ واٹر گیٹ سکینڈل کی تحقیقات امریکی کانگرس نے کیں۔ اسی اثنا ء میں نکسن انتظامیہ نے ان تحقیقات کی مزاحمت کی جس سے آئینی بحران پیدا ہو گیا۔
اس سکینڈل کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ نکسن انتظامیہ کے اہلکار خفیہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ ان سرگرمیوں میں سیاسی مخالفین کے دفاتر کی جاسوسی کرنا بھی شامل تھا۔ ان لوگوں کی بھی جاسوسی کی گئی جو نکسن انتظامیہ کے نزدیک مشکوک تھے۔ نکسن اور ان کے قریبی ساتھیوں نے متحرک گروپوں اور سیاسی شخصیات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا اور اس مقصد کیلئے ایف بی آئی، سی آئی اے اور آئی آر ایس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس سکینڈل کی تحقیقات سے یہ بات بھی منظر عام پر آئی کہ نکسن انتظامیہ کے ارکان اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ صدر نکسن کے مواخذے کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا۔
سکینڈل کے نتیجے میں 69 افراد پر فرد جرم بھی عائد کی گئی اور ان میں سے 48 پر جرم ثابت ہو گیا۔ ان میں زیادہ تر نکسن انتظامیہ کے اراکین تھے۔ 17 جون 1972 کو پانچ افراد ڈی این سی ہیڈ کوارٹر میں نقب لگا کر داخل ہوئے تھے ۔ ایف بی آئی نے نقب زنوں سے بھاری رقم برآمد کی ۔ اس کے علاوہ نکسن کی سرکاری سطح پرمہم چلانے والی تنظیم سی آر پی سے بھی خطیر رقم برآمد کی گئی۔ جولائی 1973 میں صدر کے سٹاف کے خلاف مزید ثبوت مل گئے ۔ ان میں وہ حلفیہ بیان بھی شامل تھا جو سابق سٹاف ممبرز نے ایک تحقیقات کے دوران دیا تھا۔ یہ تحقیقات سینیٹ واٹر گیٹ کمیٹی نے کی تھیں۔
یہ معاملہ بہت عرصے تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا کہ صدر تمام ٹیپس حکومتی تحقیقاتی اداروں کو جاری کرے۔ ٹیپس سے معلوم ہوا کہ صدر نکسن نے ان تمام سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی جو کہ نقب زنی کے بعد کی گئیں۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کا بھی علم ہوا جو تحقیقات کا رخ موڑنے کے لئے کی گئیں ۔ جب صدرنکسن کو یہ یقین ہو گیا کہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ ان کا مواخذہ کرے گا تو انہوں نے 9 اگست 1974 کو صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 8 ستمبر 1974 کو صدر جیرالڈ فورڈ نے انہیں معاف کر دیا۔ جو نکسن کے مستعفی ہونے کے بعد صدر بنے تھے۔
یہ معاملہ تو حل ہو گیا لیکن اس سے حکمران ری پبلکن پارٹی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا۔ 1976 کے صدارتی انتخابات ری پبلکن پارٹی ہار گئی اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے جمی کارٹر امریکہ کے صدر بن گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نکسن آخری وقت تک اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ وائٹ ہائوس انتظامیہ کا کوئی فرد اس سکینڈل میں ملوث نہیں تھا۔ اسی طرح نکسن کا دفاع کرنے والوں نے بارہا کہا کہ نقب زنی سے نکسن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سکینڈل کو بے نقاب کرنے میں میڈیا نے بہت زبردست کردار ادا کیا۔ خاص طور پر ’’واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز‘‘ نے جن خطو ط پر تحقیقات کیں اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔
اس سکینڈل کو جتنا اخبارات نے اچھالا اس سے لوگوں کی دل چسپی اور بھی اس میں بڑھ گئی اور پھر اس کے سیاسی نتائج اور اثرات بھی سامنے آئے۔ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹرز بوب وڈورڈ اور کارل برنسٹن نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ نقب زنی اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کا تعلق محکمہ انصاف ، ایف بی آئی اور سی آئی اے سے ملتا ہے ۔ ان رپورٹرز کے خفیہ ذرائع میں ایک شخص شامل تھا جس کا اصل نام کچھ اور تھا لیکن اسے ’’ڈیپ تھروٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کا اصل نام مارک فلیٹ سینئر ہے جو کہ ستر کی دہائی میں ایف بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔
ان ساری باتوں سے یہ چیز سامنے آئی کہ اگر کامل یکسوئی سے کسی بھی سکینڈل کی تحقیقات کی جائیں تو حقائق چھپ نہیں سکتے ۔ کامل یکسوئی کے ساتھ دیانت داری کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی یہ بات یاد آتی ہے کہ اگر آپ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کا عزم کر لیں تو پھر کوئی چیز آپ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ واٹر گیٹ سکینڈل آج بھی امریکہ کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل مانا جاتا ہے ۔
طیب رضا عابدی
بشکریہ دنیا نیوز
↧
پانچ سال تک کے بچوں کیلیے ٹی وی، ٹیبلٹ اور موبائل فون دیکھنے کی حد مقرر
پہلی مرتبہ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نومولود سے لے کر پانچ سال سے کم عمر تک کے بچوں کے لیے ٹی وی، ٹیبلٹ اور موبائل فون دیکھنے کی ایک حد مقرر کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر بچہ 5 سال سے کم ہے تو اسے ایک گھنٹے تک اسکرین دکھایا جا سکتا ہے جبکہ ایک سال سے کم عمر بچے کو سختی سے اسکرین سے دور رکھا جائے ناکہ انہیں گھنٹوں کارٹونوں سے بہلایا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی ادارہ برائے صحت امریکی اکادمی برائے اطفال کی ہدایات کی روشنی میں یہ تفصیلات جاری کی ہیں جنہیں اب ایک کانفرنس میں بھی پیش کیا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ نے باضابطہ طور پر کہا ہے کہ ایک سال سے کم عمر کے بچوں کی بصارت تشکیل پارہی ہوتی ہے اور اس لیے انہیں ایک منٹ کے لیے بھی ٹی وی یا اسکرین کو دیکھنے نہ دیں جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ اسکرین دکھایا جائے۔ بچے کو چپ کرانے کے لیے بار بار ٹیبلٹ یا فون دینے سے گریز کیا جائے۔ اسی طرح ایک سال سے کم عمر بچوں کو بھرپور نیند بھی ملنی چاہیے۔ ہاں اگر بچے کی عمر ایک سے دو سال ہو جائے تو اسکرین ٹائم ایک گھنٹے سے بھی کم رکھا جائے جبکہ اسے کم ازکم تین گھنٹے کی کوئی جسمانی سرگرمی یا کھیل میں مصروف رکھا جائے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
↧
ہواوے اپنا آپریٹنگ سسٹم لانچ کرنے کے قریب پہنچ گیا
ہواوے اپنا آپریٹنگ سسٹم لانچ کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ ہواوے کی ڈیوائسز کے لیے اینڈرائیڈ کے متبادل کی اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب گوگل نے چینی کمپنی کو اپنی سروس دینے سے معذرت کر لی تھی۔ ٹیکنالوجی کی سب بڑی ویب سائٹ کے مطابق ہواوے اپنے آپریٹنگ سسٹم پر 2012 سے کام کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ہواوے انٹرپرائز بزنس گروپ کی سربراہ الا الشیمی نے کہا ہے کہ کمپنی جانتی تھی ایسی صورتحال کا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے آپریٹنگ سسٹم جنوری 2018ء میں تیار کر لیا گیا تھا۔ یہ ہمارا پلان بی تھا۔
الا الشیمی کے مطابق ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپریٹنگ سسٹم کو مارکیٹ میں متعارف کرائیں کیونکہ ہمارے گوگل اور دیگر سے گہرے تعلقات تھے اور ہم اسے خراب نہیں کرنا چاہتے تھے، تاہم کمپنی آئندہ ماہ اس کو متعارف کرانے کیلئے تیار ہے۔ موجودہ اینڈرائیڈ کی تمام ایپلی کیشنز ہواوے کے نئے آپریٹنگ سسٹم پر بھی چلیں گی جس کا مطلب ہے کہ یہ نیا آپریٹنگ سسٹم اینڈرائیڈ کے اوپن سورس ورژن پر قائم ہے۔ اینڈرائیڈ پر ہواوے کا اپنا ایپ اسٹور ہواوے ایپ گیلری کے نام سے موجود ہے جو نئے ایپ کا مرکز بن سکتا ہے۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
یہ ’’ انار کلی‘‘ تھی کون؟
چار عہد کی گواہ ’’عمارت سول سیکرٹریٹ‘‘ سے ذرا اونچائی پر مقبرہ انارکلی واقع ہے۔ یہ محبت کی داستان کے مشہور کردار انارکلی کا مقبرہ ہے۔ بائیں جانب کونے میں سفید سنگ مرمر سے بنی انارکلی کی قبر ہے۔ چاروں طرف محرابی دروازوں کے درمیان مغل بادشاہوں اور شہزادوں کی منی ایچرز اور قدیم سکّے پڑے تھے۔ انارکلی کی قبر کے ساتھ انگریزی زبان میں اس کی تاریخ لکھی تھی۔ روایت یوں ہے کہ نادرہ بیگم عرف شرف النساء اکبر بادشاہ کے حرم سرا میں ایک خوب صورت کنیز تھی جس کے حُسن سے متاثر ہو کر اکبر نے اسے ایک موقع پر انار کلی کا خطاب دیا تھا۔
سلیم جو اس وقت شہزادہ تھا، انارکلی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ وہ چُھپ کر اسے ملتا، بات محل میں پھیل گئی۔ پھر ایک بار دربار میں اکبر نے خود انارکلی کو آئینے میں سلیم کو محبت اور سرور سے دیکھتے ہوئے اندازہ کیا کہ واقعی انارکلی شہزادے پر فدا ہے۔ اس نے شہزادے کو دارالخلافہ سے باہر کسی مہم پر بھیج دیا اور انارکلی کو اس جگہ اب سول سیکرٹریٹ میں جہاں اس کا مقبرہ ہے، اینٹوں میں زندہ دفن کر دیا اور دیوار چُن دی۔ ان دنوں یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ شہزادے کو اس پر بہت دُکھ ہوا۔ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا لیکن بے بسی میں کچھ نہ کر سکا۔ 6 سال بعد اکبر بادشاہ کے انتقال پر شہزادہ سلیم جہاںگیر کے نام سے شہنشاہ ہند بنا۔
اس نے چُنی ہوئی دیوار کی جگہ انارکلی کا ایک خوب صورت مقبرہ تعمیر کیا جو مغل طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ قبر پر ایک طرف جہانگیر کا اپنا شعر فارسی میں تحریر ہے اور نیچے ’’سلیم اکبر‘‘ لکھا ہے جو شہزادے کا نام تھا۔ ’’انارکلی کو زندہ دیوار میں چننے کا واقعہ 1599ء میں ہوا۔ 1605ء میں جہانگیر تخت نشین ہوا اور 1615ء میں جہاںگیر کے حکم پر یہ مقبرہ اور باغ مکمل ہوا۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ سارا واقعہ محض افسانہ ہے۔ دراصل یہ مقبرہ جہاںگیر کی چہیتی بیوی قدسی منش خاتون کا ہے وہ زین خاں کوکہ کی دختر اور شہزادہ سلطان پرویز کی والدہ تھیں۔ اکبر اس شادی کے خلاف تھا لیکن اکبر نے بیٹے کا جنون دیکھ کر شادی کی اجازت دے دی تھی۔
یہ بیگم 1003ھ میں لاہور میں انتقال کر گئی۔ سلیم نے اس کی آخری آرام گاہ پر یہ مقبرہ تعمیر کرایا۔ انارکلی باغ کی وجہ تسمیہ یہ ہو سکتی ہے کہ اناروں کے باغ کی وجہ سے یہ پہلے انار باغ تھا اور رفتہ رفتہ انارکلی ہو گیا۔ بہر حال مقبرے کی عمارت گول طرز میں بنی ہوئی ہے۔ جس کے اوپر ایک بڑا اور وسیع گنبد ہے جو مغل طرز تعمیر کی ایک خاص صفت ہے۔ آٹھ بڑے اور کشادہ محراب نما دروازے ہیں جن کی چوڑائی 14 فٹ ہے۔ سنگ مرمر کا نہایت عمدہ کام ہے جو ابتدائی مغل دور میں برصغیر میں رائج ہوا۔ مشرق سے مغرب تک اس عمارت کی وسعت 72 فٹ تک ہے۔ اس زمانے میں اس مقبرے کے ساتھ وسیع باغات تھے ۔ راوی بھی مقبرے کی دیواروں کے ساتھ بہتا تھا۔
رنجیت سنگھ کے زمانے میں انار کلی کا مقبرہ اس کے جانشین کھڑک سنگھ نے اپنی رہائش کے طور پر استعمال کیا۔ مقبرے کا چبوترہ جو سنگ مر مر کا تھا وہ مہا راجا نے پہلے ہی اتروا لیا تھا اور پھر ایک تعویذ کو غائب کر دیا گیا۔ انگریزوں نے مقبرہ کو گرجا گھر بنا کر اس کا نام سینٹ جیمس چرچ رکھ دیا اور بُرج کلاں پر سنگ سرخ کی دو فٹ لمبی ایک صلیب لگا دی اور قبر کے مرمریں تعویذ جس کو سکھ حکومت کے عہد میں ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا تھا ، ایک گوشہ میں رکھ کر بند کر دیا۔ مال روڈ پر جب نیا چرچ بنا تو یہ چرچ ختم ہو گیا ۔ 1891ء میں اسے ریکارڈ آفس میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب بھی مقبرے کی عمارت میں ریکارڈ آفس (آر کائیوز) قائم ہے۔ مگر اسے مقبرہ انار کلی کی حیثیت سے لازوال حیثیت حاصل ہے جس کی قبر پر جہاں گیر کا دردناک شعر درج ہے اور جس کا مطلب کچھ یوں ہے: ’’آہ ! کاش میں اپنی محبوبہ کا چہرہ ایک بار پھر دیکھ سکتا۔‘‘
اسد سلیم شیخ
بشکریہ دنیا نیوز
↧
اسرائیل، ایک سال میں دو بار پارلیمانی الیکشن نیتن یاہو کے لیے بہت بڑا دھچکہ
اسرائیل میں نومنتخب قانون سازوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے جس کے بعد ملک میں ازسر نو الیکشن کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم نیتن یاہو اتحادی حکومت بنانے میں ناکام ہو گئے تھے۔
’روئٹرز‘ کے مطابق اب اسرائیل میں نئے انتخابات ستمبر میں ہوں گے۔ یہ ایک سال میں ہونے والے دوسرے پارلیمانی الیکشن ہوں گے۔ اس فیصلے کو وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے بہت بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے جن کی پارٹی نے گذشتہ ماہ 9 اپریل کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں دوسری جماعتوں پر معمولی برتری حاصل کی تھی۔
پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں ازسر نو الیکشن کرانے کے حق میں 74 ووٹ پڑے جبکہ 45 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ خیال رہے کہ اسرائیل کی پارلیمان کے کل 120 ارکان ہیں۔ پارلیمان میں یہ ووٹنگ نیتن یاہو کو پانچویں بار حکومت سازی اور اکثریت ثابت کرنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے چند منٹ پہلے ہوئی۔ خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی اتحادی سمجھی جانے والی قدامت پسند یہودی جماعتوں کے درمیان حکومت بنانے میں تنازع اس وقت پیدا ہوا جب اتحادیوں نے نوجوان مذہبی سکالرز کو لازمی فوجی سروس سے استثنٰی دینے کا مطالبہ کیا۔
نیتن یاہو کی بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیر دفاع اوگڈور لبرمین نے حکومت بنانے کے لیے قدامت پسند جماعتوں کی یہ شرط تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ لبرمین کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی سروس میں سب کو حصہ لینا چاہیے تاکہ بوجھ بٹایا جا سکے۔ روئٹرز کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں بھی حصہ لیں گے اور انہیں امید ہے کہ وہ جیت جائیں گے۔ لیکود پارٹی کے ترجمان نے نیتن یاہو کی تصویر کے ساتھ مسکرانے والی ’ایموجی‘ پوسٹ کر کے لکھا ہے کہ ’جائیں اور ووٹ دیں۔‘ 69 سالہ نیتن یاہو جنہیں گذشتہ ماہ کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے پر ان کے حامیوں نے سیاسی جادوگر قرار دیا تھا‘ کو اب پارٹی کے اندر مخالفت کا خطرہ ہے۔
بشکریہ اردو نیوز
↧
چین کی امریکا کو نایاب دھاتوں سے محروم کرنے کی دھمکی
چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں جوابی حملے کے طور پر نایاب دھاتوں کی برآمدات کم کرنے سے واشنگٹن ممکنہ طور پر اسمارٹ فونز سے لے کر فوجی سازو سامان تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ایک اہم عنصر سے محروم ہو جائے گا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین کی برآمدات پر ٹیرف میں اضافے اور چین ٹیلی کام کمپنی ہواوے پر پابندی لگانے کے بعد جہاں تجارتی مذاکرات تحطل کا شکار ہیں وہاں یہ انتباہ تنازع میں استعمال کیا جانے والا تازہ ترین حربہ ہے۔
دوسری جانب ہوواوے نے قانونی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وفاقی محکموں کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کے آلات استعمال کرنے سے روکنے کے خلاف اپیل کے فیصلے کو جلد سنانے کے لیے بھی درخواست جمع کروا دی ہے۔ علاوہ ازیں چینی صدر زی جنگ پنگ کے نایاب دھاتوں کی فیکٹری کے دورے کی تصاویر دکھا کر بیجنگ پہلے ہی اس بات کی جانب اشارہ کر چکا ہے کہ نایاب دھاتوں کو تنازع میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری میڈیا دی پیپلز ڈیلی، جو کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان ہے، نے خبردار کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت یہ سوال پوچھ کر کی کہ ’کیا نایاب دھاتیں امریکی جارحیت کے خلاف چین کا جوابی ہتھیار ثابت ہوں گی، اس کا جواب پراسرار ہے‘.
اخبار کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم امریکا کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے ترقیاتی حقوق اور مفادات کے تحت چین کی قابلیت کو کم نہیں سمجھے پھر مت کہنا کہ ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا‘۔ ایک دوسرے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے اداریے میں لکھا گیا کہ ’امریکا چین کو نایاب دھاتوں کے حوالے سے اقدام پر مجبور کرنے پر پچھتائے گا‘۔ واضح رہے کہ ان نایاب دھاتوں میں اس وقت مکمل طور پر چینی کی اجارہ داری ہے جو دنیا کی کل پیداوار کا 95 فیصد فراہم کرتا ہے اور امریکا اس کی 80 فیصد درآمد کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے۔ یہ نایاب دھاتیں 17 عناصر پر مشتمل ہیں جو موبائل فونز سے لے کر ٹیلی ویژن اور کیمرا سے لائٹ بلب بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اس ضمن میں نیشنلسٹ ٹیبلوائڈ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات یقینی ہے کہ اگر امریکا چین کی ترقی پر دباؤ بڑھائے گا تو جلد یا بدیر چین نایاب دھاتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرے گا‘۔ قبل ازیں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو سے جب نایاب دھاتوں کے حوالے سے خطرے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کاکہنا تھا کہ ’امریکا پہلے ہی حالیہ اصولوں کے تحت دہائیوں سے مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور اب ٹرمپ حکومت کا واحد مقصد چین کو پیچھے دھکیلنا ہے‘۔ ہواوے پر ایک بار پھر وار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کی چینی ریاست کے ساتھ ’گہرے رابطے‘ ہیں جو امریکی نظام کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ مائیک پومپیو کے مطابق ’اگر ایسا معاملہ ہو کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ٹیکنالوجی کمپنی سے کوئی معلومات لینا چاہے جو ہواوے کے پاس ہو تو یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ہواوے انہیں فراہم کر دے گی‘۔ اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے ہواوے نے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکی حکومت نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے کہ ہواوے سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے‘۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
امریکی ویزے کے لیے سوشل میڈیا تفصیلات دینا لازم ہو گا
نئے قوانین کے مطابق اب امریکی ویزے کے لیے تقریباً تمام درخواست گزاروں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کرانا ہوں گی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکی ویزے کے لیے اب درخواست گزاروں کو سوشل میڈیا پر موجود اپنے نام اور پانچ برسوں میں استعمال کردہ ای میل ایڈریس اور فون نمبرز بھی جمع کرانا ہوں گے۔ گزشتہ برس جب یہ تجویز پیش کی گئی تھی تو حکام نے اندازہ لگایا تھا کہ اس سے سالانہ 14 اعشاریہ سات ملین لوگ متاثر ہوں گے۔ تاہم بعض سفارتی اور سرکاری ویزا کے درخواست گزار ان نئے اقدامات سے مستثنی ہوں گے۔ لیکن امریکہ کام یا پڑھائی کے لیے جانے والے افراد کو یہ معلومات لازمی فراہم کرنا ہوں گی۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے ’امریکہ میں قانونی طور پر سفر کر کے آنے والوں کی حمایت کے ساتھ ہم اپنے سکریننگ کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے بھی مسلسل کام کر رہے ہیں تاکہ امریکی شہریوں کی حفاظت کی جا سکے۔‘ اس سے قبل صرف ایسے ہی افراد کی اضافی جانچ کی جاتی تھی جو کبھی دنیا کے ایسے حصوں میں رہے ہوں جہاں دہشت گرد گروہوں کا کنٹرول ہو۔ لیکن اب درخواست گزاروں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی فہرست میں موجود اپنے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی اور اس کے علاوہ ان تمام ان اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی دینا ہوں گی جو لسٹ میں شامل نہیں۔
امریکی اخبار دا ہل سے بات کرتے ہوئے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ جو کوئی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے متعلق جھوٹ بولے گا اسے ’سنگین امیگریشن نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ قوانین سب سے پہلے گزشتہ برس مارچ میں تجویز کیے تھے۔ اس وقت سول حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ امریکی سول لبرٹیز یونین نے کہا تھا ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سوشل میڈیا مانیٹرنگ مؤثر ثابت ہو گی‘ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سے لوگ خود کو آن لائن سینسر کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سنہ 2016 کی انتخابی مہم میں امیگریشن کا معاملہ اہم موضوع تھا۔ انھوں نے اپنے دور حکومت کے دوران اور اس سے پہلے تارکین وطن کی ’سخت جانچ‘ کا کہا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
پاکستان میں تمباکو نوشی سے سالانہ 1 لاکھ اموات ہونے لگیں
تمباکو نوشی کا انجام موت، پاکستان میں بری عادت کے باعث سالانہ ایک لاکھ جبکہ دنیا بھر میں 80 لاکھ اموات ہونے لگیں۔ آج انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ تمباکو نوشی ایک ایسی عادت ہے جو ہر سال 80 لاکھ جانیں نگل جاتی ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق سگریٹ نوشی کی لت کی وجہ سے 70 لاکھ سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ 10 لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے تاہم اس زہریلے دھوئیں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں جس میں تقریبا 42 فیصد مرد اور 7 فیصد خواتین شامل ہیں، تمباکو نوشی کی وجہ سے پاکستان میں 40 فیصد مرد کینسر کا شکار ہوئے.
پاکستان میں دوسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر منہ کا سرطان ہے جسکی بڑی وجہ تمباکو کا استعمال ہے۔ پاکستان، دنیا کے ان 15 ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو کی وجہ سے سب سے زیادہ صحت کے مسائل ہیں، گلوبل اڈلٹ ٹوباکو سروے کے مطابق پاکستان میں یومیہ ایک ہزار سے بارہ سو نوجوان اس بری عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی ہر حالت میں نقصان دہ ہے، ایک سگریٹ انسان کی عمر 8 منٹ تک کم کر دیتی ہے، تمباکو کے دھوئیں میں 250 انتہائی خطرناک کیمکلز پائے جاتے ہیں جو سرطان کا باعث بنتے ہیں، تمباکو نوشی سے انسان کو دل، پھیپھڑے، سانس، نظام ہاضمہ، معدہ، جگر اور منہ کے کینسر کا خطر ہ ہوتا ہے۔ اس بے رحم عادت کی وجہ سے انسان اپنی طبعی موت سے 15 سال پہلے ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
بھارتی انتخابات : بہتری کے مغالطے سے فی الحال نکل آئیں
دو روز قبل نریندر مودی نے دوسری بار وزارتِ عظمی کا حلف اٹھا لیا۔ راشٹر پتی بھون کے لان میں بالی وڈ کے ستاروں سمیت جن چار ہزار مہمانوں نے شرکت کی ان میں دو ہزار چودہ کی حلف برداری کے برعکس سارک سربراہانِ مملکت و حکومت کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے خلیجِ بنگال منصوبہ برائے اقتصادی و کثیر جہتی تکنیکی تعاون ( بمسٹیک ) کی سات رکنی تنظیم کے نمایندوں کو بطور خصوصی مہمان دعوت دی گئی۔ نیز بمسٹیک سے باہر کے دو ممالک مالدیپ اور کرغیزیہ کے صدور کو بھی بلایا گیا۔ بمسٹیک کیا بلا ہے ؟ اس کے بارے میں خود بھارتی صحافی اور بدھی جیوی بھی بہت کم جانتے ہیں۔ بس اتنا معلوم ہے کہ خلیجِ بنگال کے اردگرد قائم سات ممالک بھارت ، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، نیپال ، سری لنکا برما اور تھائی لینڈ پر مشتمل علاقائی تعاون کی یہ تنظیم انیس سو ستانوے میں قائم ہوئی اور اس کے اب تک چار سربراہ اجلاس ہو چکے ہیں۔
دو رکن ممالک برما اور تھائی لینڈ جنوب مشرقی ایشیا کی اقتصادی تعاون کی تنظیم آسیان کے بھی رکن ہیں۔ جب کہ باقی پانچ ارکان سارک کی آٹھ ملکی تنظیم کا بھی حصہ ہیں۔ گویا اگر مالدیپ کو بھی ملا لیا جائے تو عملاً مودی نے سارک کے چھ رکن ممالک کو اپنی تقریبِ حلف میں مدعو کیا سوائے افغانستان اور پاکستان کے۔بمسٹیک کے باہر سے اگر مالدیپ اور کرغستان کے صدور کو نیوتا بھیجا گیا تو دوست افغان صدر اشرف غنی کو کیوں نہیں ؟ اس سوال کا جواب صرف مودی جانتے ہیں۔ اس طولانی تمہید کا مطلب کیا ہوا ؟ مطلب یہ ہوا کہ کہیں پاکستان کو دعوت نامہ نہ دینا پڑ جائے اس کے لیے یہ سارا بکھیڑا کیا گیا۔ حالانکہ یہ پاکستان کا بالا کوٹ ہی تھا جس نے مودی کو الیکشن جتایا۔
عمران خان نے جب مودی کو جیت کی مبارک باد دی تو جوابی شکریے کے دودھ میں بھی یہ مینگنیاں ڈالی گئیں کہ جب تک سرحد پار سے دہشت گردی بند نہیں ہوتی تب تک بات چیت نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ عمران خان نے مبارک باد کے رسمی پیغام میں بات چیت کا ذکر تک نہیں کیا تھا صرف نیک خواہشات اور اچھے تعلقات کی تمنا ظاہر کی تھی۔ انتخابی نتائج کے اعلان سے صرف ایک دن پہلے بائیس مئی کو کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میں شنگھائی تعاون کونسل کے وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا منہ بھی میٹھا کروایا۔ کیا یہ مٹھائی بی جے پی کی زبردست کامیابی کے اعلان سے قبل کی پیشگی خوشی میں کھلائی گئی یا سشما سوراج نے بطور وزیرِ خارجہ الوداعی ملاقات کو ایک اچھے نوٹ پر ختم کرنے کے لیے کھلائی۔ اس کا جواب بھی صرف سشما جانتی ہیں۔
اس میٹھی ڈپلومیسی کے صرف سات دن بعد دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے جو روائتی افطار پارٹی دی۔ اس میں مدعو ڈھائی سو مہمانوں میں سے بمشکل ستر مہمان ہی تشریف لا سکے۔ کیونکہ ہائی کمیشن کے باہر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ پولیس اور سادہ کپڑوں والوں کی غیر معمولی تعداد تھی۔ انھوں نے گاڑیوں کی جم کے تلاشی لی ، شناختی دستاویزات طلب کی گئیں اور ہر آنے والے مہمان کی تصویر کھینچی گئی۔ اس سے پہلے تئیس مارچ کو پاکستانی ہائی کمیشن نے یومِ پاکستان کے موقع پر جو استقبالیہ دیا اس موقع پر بھی یہی حرکتیں ہوئیں۔ بلکہ کئی مہمانوں کو سادہ انٹیلی جینس اہلکاروں نے مشورہ بھی دیا کہ انھیں اس تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ یہ سن کر مجھے یاد آیا کہ دو ہزار نو میں بھارتی الیکشن کی کوریج کے لیے جب میں کراچی سے دلی جا رہا تھا تو ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے ایک افسر نے میرا پاسپورٹ اور ویزا چیک کرتے ہوئے کہا ’’ آپ کیوں بھارت جا رہے ہیں۔ وہ کوئی اچھا ملک تو نہیں ہے ‘‘۔
سشما سوراج واجپائی سرکار سمیت ہر بی جے پی کابینہ میں وزیر رہی ہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس بطور وزیرِ خارجہ انھیں صرف نمایندگی اور تقاریر پر مامور رکھا گیا اور خارجہ پالیسی عملاً نریندر مودی اور مشیرِ قومی سلامتی اجے دوال طے کرتے رہے۔ سشما سوراج نے خرابیِ صحت کا عذر پیش کرتے ہوئے چناؤ میں حصہ نہیں لیا۔ چنانچہ نئی کابینہ میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان سابق سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم شنکر کو سونپا گیا ہے۔ بھارتی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاستدان کے بجائے ایک کیرئیر ڈپلومیٹ کو وزیرِ خارجہ بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر شنکر امریکا اور چین میں سفیر رہ چکے ہیں اور جاپان ، سنگا پور اور سری لنکا میں اعلی سفارتی ذمے داریاں نبھا چکے ہیں۔
وہ بھارت امریکا سول نیوکلئیر معاہدے کی تکمیل میں بھی فعال رہے ہیں۔ ان کے دور میں بھارتی خارجہ پالیسی کا رخ جنوب مشرقی ایشیا اور بحرِ ہند میں چین کے مقابلے میں امریکا اور جاپان کی تائید سے مزید اثر و رسوخ بڑھانے کی جانب ہو گا۔ کیونکہ چین بھی بھارتی پڑوسی بنگلہ دیش ، برما ، نیپال ، سری لنکا اور مالدیپ میں اپنے سفارتی و اقتصادی مہرے دھیرے دھیرے کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے اور پاکستان تو خیر اس کا قریبی ساجھے دار ہے ہی۔ سارک کے بجائے بمسٹیک نامی غیر معروف تنظیم کے رکن ممالک کو تقریب حلف میں مدعو کرنا بھی نئی پالیسی کے خد و خال کی جانب ٹھوس اشارہ کرتا ہے۔ راج ناتھ سنگھ سابق کابینہ میں وزیرِ داخلہ تھے۔ ان کے ہوتے کشمیر کے حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ اب انھیں وزارتِ دفاع کا قلمدان دے دیا گیا ہے اور ان کی جگہ بی جے پی کے صدر اور نریندر مودی کے بادشاہ گر امیت شاہ نے وزارتِ داخلہ سنبھال لی ہے۔
امیت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران بار بار کھل کے کہا کہ شمال مشرقی ریاست آسام میں غیر قانونی طور پر آباد لاکھوں گھس بیٹھئے جنہوں نے دھوکے سے بھارتی شہریت حاصل کر لی تھی انھیں شہریت سے محروم کرنے کے لیے شہریت کا جو نیشنل رجسٹر کھولا گیا ہے اس کا دائرہ پورے دیش تک بڑھا دیا جائے گا۔اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ آسام اور دیگر ریاستوں میں آباد بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر لاکھوں کی تعداد میں ملک سے نکالا جائے گا۔ اور بیرونِ بھارت جو ہندو اور سکھ بھارت کی شہریت لینا چاہیں ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ امیت شاہ نے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کا نام لیے بغیر کہا کہ بھارت کو جو دیمک چمٹی ہوئی ہے اس کا علاج کیا جائے گا۔ بی جے پی نے یہ وعدہ بھی انتخابی منشور کا حصہ بنایا ہے کہ اس بار کشمیر کے علیحدہ تشخص کی ضمانت دینے والے آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کو منسوخ کر کے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں جیسا عام درجہ دیا جائے گا۔
یعنی جموں کشمیر میں کوئی بھی بھارتی شہری آباد ہو سکے گا اور املاک خرید سکے گا۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ موجودہ مدتِ اقتدار میں ایودھیا میں رام مندر کی استھاپنا کا وعدہ ضرور پورا ہو گا۔ امیت شاہ کا وزیرِ داخلہ بنایا جانا بتاتا ہے کہ اس بار بی جے پی لوک سبھا میں اپنی دو تہائی اکثریت کے بل پر ایوانِ بالا راجیہ سبھا پر یقینی کنٹرول حاصل کرے گی اور پھر آئین میں بنیادی ترامیم کرنا کتنا آسان ہو جائے گا۔ ان ممکنہ ترامیم میں بھارتی آئین میں درج سیکولر جمہوریہ کو ہندو اکثریتی جمہوریہ گھوشت کرنا بھی شامل ہے۔ جی تو میرا بہت چاہتا ہے کہ عام بھارتیوں کو چیخ چیخ کر بتاؤں کہ اب بھی خود کو روک لو۔ آگے بہت گہری کھائی ہے۔ مگر ان میں سے کسی نے پلٹ کے پوچھ لیا کہ ہم کیوں ہندو راشٹر گھوشت نہیں کر سکتے۔ تم بھی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہو تو کیا کہوں گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
تیانمن سکوائر پر مظاہرین کے خلاف کارروائی درست تھی : چین
چین نے تین عشروں بعد بیجنگ کے تیاننمن سکوائر میں ہونے والی فوجی کارروائی کا دفاع کیا ہے جو اس سکوائر میں جمع ہونے والے شہریوں کے خلاف 3 اور 4 جون سنہ 1989 کو کی گئی تھی۔ چین کے وزیرِ دفاع ویئی فینگل نے سنگاپور میں ایک علاقائی کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے تیاننمن سکوائر میں سخت کارروائی کی تھی جو کہ ’درست‘ تھی۔ سنہ 1989 میں چینی طلبا اور مزدوروں نے بیجنگ کے معروف تیاننمن سکوائر میں جمہوری حقوق کے حصول کے لیے ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا تھا۔ کمیونسٹ حکام نے اس اجتماع کو ظالمانہ انداز سے کچل دیا تھا اور اس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کی خبریں دینے پر سختی سے پابندی رہی ہے۔ تیاننمن سکوائر میں 3 اور 4 جون کو ہونے والے قتلِ عام کے واقعے کو تیس برس ہو جائیں گے۔
چینی وزیرِ دفاع نے کیا کہا؟
سنہ 1989 کے جمہوریت کی حمایت میں کیے گئے ان مظاہروں پر اور ان کے کُچلے جانے کے اقدامات پر سرِ عام بات کرنا چین میں ممنوع ہے۔ لیکن سنگاپور میں تجارت اور علاقائی سلامتی پر منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کے اختتام پر چینی وزیرِ دفاع جنرل وایئی فینگے سے سامعین میں سے کسی نے تیاننمن سکوائر کے واقعے پر سوال کیا۔ مسٹر وایئی نے کہا کہ لوگ اب بھی یہ کیوں کہتے ہیں کہ چین نے اس واقعے کو مناسب طریقے سے نہیں نمٹا تھا۔ ’یہ واقعہ ایک سیاسی ہنگامہ تھا اور مرکزی حکومت نے اس ہنگامے کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ درست تھے۔‘ ’پچھلے 30 برس کے حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ چین میں حالات بدل گئے ہیں‘ یہ کہہ کرجنرل وایئی نے مزید کہا کہ حکومت کے اس وقت کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے ’چین میں استحکام پیدا ہوا اور (اقتصادی) ترقی ہوئی۔‘
بھول جانے کا عمل
بیجنگ میں سرکاری طور پر تیاننمن سکوائر کے واقعے کی یاد میں کوئی تقریب نہیں ہوتی ہے۔ لیکن وزیرِ دفاع کا بیان جو کہ حقائق کے لحاظ سے درست ہے، لیکن متوازن ہرگز نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تیاننمن سکوائر میں جو کچھ ہوا تھا اُسے دبانے کے لیے ہر برس بہت ہی پابندی کے ساتھ بڑی سطح پر ایسے اقدامات لیے جاتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس واقعے کو ’بھلانے کے اقدامات‘ ہیں۔ رواں ہفتے چار جون کا جب وہ دن آرہا ہے جس دن تیاننمن سکوائر کا واقعہ پیش آیا تھا تو دنیا کی سب سے بڑی سیسنر شپ کی مشین نے بڑی تیزی سے حرکت میں آ گئی ہے۔
خود کار الگورتھمز، انٹرنیٹ پر سوفٹ وئرز کے علاوہ تربیت یافتہ افراد کی ایک بڑی فوج ایسے تمام پیغامات اور پوسٹوں کو پکڑ رہی ہے جن میں اشارتاً یا کنایۃً کہیں بھی اس واقعے کا ذکر موجود ہو۔ وہ افراد جو سینسر کی کوششوں کو توڑتے ہیں یا جنھیں اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے فعال تصور کیا جاتا ہے انھیں چھ ماہ سے لے کر تین برس کے لیے قید بھی کر دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک سزا ابھی حال ہی میں ایک گروپ کو سنائی گئی جو اس واقعے کا ایک یاد گاری نشان جاری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سنہ 1989 میں کیا ہوا تھا؟
دس لاکھ سے زیادہ افراد نے چین کے دارالحکومت بیجنگ کے معروف تیاننمن سکوائر پر سنہ 1989 میں قبضہ کر لیا تھا۔ اسے چین کی تاریخ میں کمیونسٹ پارٹی کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ کہا جاتا ہے۔ یہ چھ ہفتے تک جاری رہا۔ اس دوران اسی قسم کے مظاہرے ملک کے دوسرے شہروں اور یونیورسٹیوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گئے تھے۔ مظاہرین جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کے مطالبات کے علاوہ آمریت کے خاتمے کے مطالبات کر رہے تھے۔
مظاہرین مہنگائی میں اضافے، تنخواہوں کی کمی اور رہائیش کے مسائل پر بھی شکایات کر رہے تھے۔ تین جون کی شب فوجی ٹینک حرکت میں آگئے اور فوجی دستوں نے فائرنگ شروع کر دی جس سے تیاننمن سکوائر میں کئی لوگ ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد حکام نے کہا کہ اس کارروائی کے دوران کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا تھا۔ چینی حکام نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ اس واقعے میں کئی مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم مختلف اندازوں کے مطابق تیاننمن سکوائر میں فوجی کارروائی کے دوران سینکڑوں کی تعداد سے لے کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
کیا آسٹریلیا جزیرہ ہے؟
آسٹریلیا کا رقبہ 77 لاکھ مربع کلومیٹر ہے اور یہ کرۂ ارض کا سب سے چھوٹا براعظم ہے۔ اس کا سائز جنوبی امریکا کی نسبت گرین لینڈ کے قریب ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آسٹریلیا گرین لینڈ کی طرح ایک جزیرہ ہے؟ بعض اوقات آسٹریلیا کو ’’جزائری براعظم‘‘ کہا جاتا ہے لیکن زیادہ تر جغرافیہ دان جزائر اور براعظموں میں تفریق کرتے ہیں۔ ایک تعریف کے مطابق جزیرہ خشکی کا وہ حصہ ہے جو ہر طرف سے پانی میں گھرا ہو اور براعظم سے چھوٹا ہو۔ اس تعریف کے مطابق آسٹریلیا جزیرہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ پہلے ہی براعظم ہے۔ آخر آسٹریلیا اور گرین لینڈ میں تفریق کیسے کی جائے؟ 2,165,230 مربع کلومیٹر کے گرین لینڈ کو دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کے بجائے براعظم کیوں نہ تسلیم کر لیا جائے۔
بدقسمتی سے براعظم کی کوئی واضح سائنسی تعریف موجود نہیں، تاہم چند ایک معیارات ضرور ہیں جنہیں براعظموں کے مابین امتیاز کے لیے برتا جاتا ہے۔ اول، ایک جغرافیائی تفریق ہے۔ آسٹریلیا اور ایشیا کا زیادہ تر حصہ علیحدہ ٹیکٹونک پلیٹس پر واقع ہے جبکہ گرین لینڈ کی ٹیکٹونک پلیٹ شمالی امریکا کے بھی حصے میں آتی ہے۔ دوم، ایک حیاتیاتی امتیاز ہے۔ آسٹریلیا کے پودوں اور جانوروں کی بہت سی انواع ایسی ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتی جبکہ گرین لینڈ میں ایسی انواع بہت کم ہیں۔ سوم، ایک تفریق بشری ہے۔ ابارجینل لوگ ( براعظم کے اولین باشندے) آسٹریلیا تک محدود ہیں.
جبکہ گرین لینڈ کے مقامی لوگ (انویٹ) پورے قطب شمالی میں بستے ہیں جس میں کینیڈا، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور روس کے حصے شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی معیار حتمی نہیں۔ مثال کے طور یورپ اور ایشیا میں بھی ٹیکٹونک پلیٹ کا اشتراک ہے۔ انہیں ثقافتی وجوہ پر مختلف براعظم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ان معیارات کے مخصوص اشتراک سے ایک الگ براعظم کا تصور تشکیل پاتا ہے۔ بلاشبہ سائز بھی ایک بنیادی سبب ہے۔ آسٹریلیا گرین لینڈ سے چار گنا بڑا ہے۔ اگر سائز میں اتنا فرق نہ ہوتا تو شاید گرین لینڈ کو بھی براعظم تسلیم کر لیا جاتا۔
جان کننگھم
↧
کردار کشی ہو رہی ہے دباؤ میں نہیں آؤں گا : جسٹس فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے جانے کے معاملہ پر پاکستان کے صدر عارف علوی کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف حکومت کی طرف سے میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ پانچ صفحات پر مشتمل یہ دوسرا خط ہے جو صدر عارف علوی کو ایک ہفتہ کے دوران لکھا گیا ہے۔ اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر کو اپنے خلاف دائر ریفرنس کی بابت جاننے کے لیے خط لکھا تھا کہ انہیں میڈیا کے ذریعے اطلاعات مل رہی ہیں کہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے، لیکن انہیں اس ریفرنس کی کاپی نہیں بھجوائی گئی۔
لکھے جانے والے خط میں قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی، میرا جواب آتا، میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور مختلف حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص حصے میڈیا میں پھیلا رہے ہیں۔ فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب رویہ ہے اور کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ حکومتی ارکان اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دے رہے ہیں۔ کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جو ریفرنس میرے خلاف آپ نے دائر کیا، اس کی کاپی فراہم کرنے کا کہا تھا۔ لیکن نہ تو آپ نے اور نہ ہی وزیراعظم نے مجھے ریفرنس کی کاپی فراہم کی۔ کونسل نے مجھے ابھی نوٹس بھی جاری نہیں کیا، لیکن میرے خلاف ایک تحریک شروع کر دی گئی ہے۔ اس تحریک کا مقصد سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی پر اثر انداز ہونا تھا۔ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی خبریں لیک کر دی گئیں۔ ان خبروں سے مقاصد حاصل نہ ہونے کے بعد اب حکومتی عہدیداروں نے جائیداد کی تفصیلات بھی لیک کر دیں۔ کیا اس سب کے پیچھے کوئی خفیہ مقصد نظر نہیں آتا؟
خط میں جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جناب صدر آپ نے، آپ کے وزیراعظم، وزراء اور اعلی عدلیہ کے ججز نے حلف اٹھایا تھا اور اس حلف میں کہا جاتا ہے کہ میں اپنے ذاتی معاملات کو سرکاری فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دوں گا۔ میری معلومات کے مطابق ریفرنس میں لندن کی تین جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان جائیدادوں سے کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے کبھی بھی لندن جائیدادوں کی ملکیت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ میری اہلیہ اور بچے میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ جن جائیدادوں کا ذکر کیا گیا وہاں میرے بچے اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔
میرے بچے لندن میں مقیم ہیں اور وہیں کام کرتے ہیں۔ میں قانونی طور پر لندن جائیداد ظاہر کرنے کا پابند نہیں تھا۔ میری اہلیہ عبدالحق کھوسو کی بیٹی ہیں اور اسپین کی شہری ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میری اہلیہ اور بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خود کفیل ہیں اور یہ جائیدادیں میری بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھے نوٹس ملنا چاہیے تھا۔ لیکن میڈیا پر حکومتی ارکان میری کردار کشی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد بلوچستان کے پہلے بیرسٹر تھے، جب کہ میری بیٹی بلوچستان کی پہلی خاتون بیرسٹر ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کی طرف سے کوئی بھی ٹیکس کا نوٹس نہ ملنے اور محض الزامات عائد کرنے پر کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بننے سے پہلے میں ایک لیڈنگ لاء فرم کا پارٹنر تھا۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے رہے ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے۔ جو لوگ ٹیکس بہت کم دیتے ہیں ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ انہوں نے صدر عارف علوی کو کہا کہ وزیراعظم سے پوچھیں، کیا انہوں نے اپنی بیویوں اور بچوں کی جائیدادیں اور اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے آپ کو ریفرنس دائر کرنے کا کہا تو بطور صدر آپ کا فرض بنتا تھا کہ آپ ان سے بھی یہ سوال پوچھتے۔
حکومت نے یہ جو کچھ کیا ہے منصفانہ ٹرائل کے حق کے خلاف ہے۔ اگر حکومتی اراکین سمجھتے ہیں کہ مجھ پر دباؤ ڈال کر حلف کی خلاف ورزی پر مجبور کریں گے تو یہ لوگ یہ خیال ذہنوں سے نکال دیں۔ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں بلا خوف اور قانون کے مطابق کام کروں گا۔ میرے والد قاضی محمد عیسی نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور آزادی حاصل کی۔ میں قائداعظم کے نظریات کو کبھی نقصان پہنچنے نہیں دوں گا۔ میرے خلاف جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ان کا مقصد آزاد عدلیہ کو دباؤ میں لانا تھا۔ جناب صدر آپ اطمینان رکھیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ آئین کو تحفظ دوں گا اور اس کا دفاع کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھ پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ میں اپنے اثاثہ جات ظاہر کروں۔ کیونکہ میرے کردار پر شک کیا گیا اس لیے رضا کارانہ طور پر ظاہر کر رہا ہوں۔ جب سے قانون کا پیشہ اختیار کیا، تب سے ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے جن لوگوں نے ریفرنس دائر کیا ہے انہوں نے مکمل چھان بین کی ہو گی۔ جب انہیں کچھ بھی نہیں ملا تو جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس دائر کیے ہیں جس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ بار نے 14 جون کو کونسل کی پہلی سماعت کے موقع پر ملک بھر سے وکلا کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے اور حکومت سے ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
تیل کی گرتی قیمتیں، پاکستان کی معیشت کیلئے امید کی کرن
پچھلے پانچ ہفتوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں اس دوران تیل کی قیمتوں میں تقریباً 29 فیصد کمی ہو چکی ہے جو سب سے بڑی کمی بتائی جاتی ہے جس سے پاکستانی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے۔ پروگرام دنیا کامران خان کیساتھ کے میزبان کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی سرد جنگ کے نتیجے میں ٹریڈ اور منسلک معاملات میں کمی آ رہی ہے جس سے تیل کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی درآمد تیل کی ہوتی ہے اس پر 15 سے 16 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں اگر 5 ہفتوں سے جاری گراوٹ جاری رہی تو تیل کی امپورٹ اربوں ڈالر کم ہو جائے گی اور زرمبادلہ ذخائر بہتر ہونگے۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس سعودی عرب سے تیل درآمد کرنے کی سہولت موجود ہے ہم سعودی عرب سے 3.2 ارب ڈالر کا تیل لے سکتے ہیں اگر تیل کی قیمت کم ہو گی تو ہمیں زیادہ مقدار میں تیل مل جائے گا گویا ہر لحاظ سے پاکستان کیلئے فائدہ ہے۔
ٹاپ لائن سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو افسر محمد سہیل نے کہا موجودہ صورتحال میں یہ پیش رفت انتہائی اہم ہے اور پاکستان کیلئے بہت بڑی خبر ہے، گزشتہ ایک دو ماہ میں تیل کی قیمتیں 63 سے 53 ڈالر ہو گئی ہیں اور اگر یہ اسی سطح پر منجمد رہیں تو پاکستان کے درآمدی بل میں 2 ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ ہو گا یہی حالات 2014 میں پچھلی حکومت کے دور میں بھی ہوئے تھے جب تیل کی قیمت 90 ڈالر سے 40 ڈالر ہو گئی تھی، پاکستان کے معاشی حالات میں یہ پیشرفت ایک امید کی کرن ہے اور یہ پاکستان کی معیشت کو اوپر اٹھا سکتی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں پٹرول کی جو قیمتیں بڑھی ہیں یہ پچھلے مہینے کا اوسط ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر اگلے مہینے آئے گا اور توقع ہے کہ اگلے مہینے حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کرے گی اور اس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
کامران خان
بشکریہ دنیا نیوز
↧
ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں، گرمی سے بچیں
ان دنوں ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور بعض شہروں میں درجہ حرارت 51 درجہ سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا ہے جس کے پیش نظر پنجاب میں ہیٹ ویو الرٹ جاری ہے۔ گرمی کی شدت کے باعث ساہیوال کے سرکاری اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں اے سی خراب ہونے سے 9 مولود بچے لقمہ اجل بن گئے جبکہ اس حوالے سے صحت کے صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ 5 بچوں کی اموات اے سی چلنے کے دوران واقع ہوئیں، بہرحال متذکرہ اموات جیسے بھی ہوئیں یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ موت کے وقت یہ بچے اسپتال میں داخل تھے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صورتحال کا بجا طور پر نوٹس لیا ہے، یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان میں ان دنوں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے تاہم صحت کے ماہرین ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لئے شہریوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جن میں دھوپ کے اوقات میں غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز، مجبوری کی صورت میں نکلتے وقت سر ڈھانپنا ضروری ہے۔ مزید برآں پانی یا سکنجبین پی کر گھر سے نکلنا چاہئے۔ جون ویسے بھی سال کا گرم ترین مہینہ ہے اور محکمہ موسمیات نے گرمی کی شدت میں مزید اضافے کی پیشگوئی کر رکھی ہے جبکہ بچوں جو انتہائی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، کو بھی محکمہ تعلیم نے بھی یکم جون سے گرمی کی چھٹیاں دے دی ہیں۔
اس لئے والدین کو چاہئے کہ بچوں کو دن بھر گھروں تک محدود رکھیں۔ جہاں تک سول اسپتال ساہیوال میں ہونے والی متذکرہ اموات کا معاملہ ہے، اس بارے میں مکمل تحقیقات ہونا چاہئیں اور یہ اموات جس طرح بھی ہوئیں اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے غفلت کے مرتکب افراد کا تعین کرکے سخت کارروائی عمل میں لائی جانا چاہئے۔ ساتھ ہی ضروری ہے کہ ملک بھر کے اسپتالوں میں فوری طور پر الرٹ جاری کرتے ہوئے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حالات کی مانیٹرنگ کی جائے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
روس سے ایس-400 دفاعی نظام کی ڈیل حتمی ہے، ایردوآن
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ امریکا کی تنقید کے باوجود روس کے ساتھ میزائل دفاعی نظام خریدنے کی ڈیل منسوخ نہیں کی جائے گی۔ اس تناظر میں واشنگٹن نے انقرہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس کے ساتھ میزائل دفاعی نظام S400 کی ڈیل سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔ رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ امریکا کے دباؤ کے باوجود اس ڈیل کو حتمی شکل دی جائے گی۔ سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے ترک صدر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ روس کے ساتھ ڈیل کی گئی ہے اور اب اس سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل اس کی دفاعی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کرے گی۔ تاہم امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہے اور اس کی روس کے ساتھ اس ڈیل پر اس عسکری اتحاد کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی پینٹا گون کی اعلیٰ اہلکار کیتھرین ویل برگر نے کہا تھا کہ اگر انقرہ حکومت روس سے اینٹی ایئر کرافٹ ہتھیار خریدتی ہے تو اس کے 'تباہ کن‘ نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی محکمہ دفاع میں بین الاقوامی سلامتی امور کی عبوری نائب نے مزید کہا کہ اس طرح ترکی کے مغربی دفاعی اتحاد کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت متاثر ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس صورت میں واشنگٹن مجبور ہو جائے گا کہ وہ ترکی پر پابندیاں عائد کرے۔
ترکی کی جانب سے روسی ساخت کے S-400 ميزائل دفاعی نظام کی خريداری پر امريکا کو تحفظات اس لیے بھی ہیں کیونکہ واشنگٹن حکام کا موقف ہے کہ روسی ساخت کے اس ميزائل دفاعی نظام سے روس مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کی جاسوسی کر سکے گا۔ يہی وجہ ہے کہ نيٹو کے رکن ممالک ترکی اور امريکا کے مابين اس معاملے پر کشيدگی بڑھ چکی ہے۔ اس ڈيل کی حوصلہ شکنی کے ليے واشنگٹن حکومت نے ترکی کے ساتھ ايف پينتيس جنگی طياروں کی ڈيل معطل کر دی تھی اور اقتصادی پابنديوں کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اسی دوران امريکا نے ترکی کو اپنا زيادہ مہنگا پيٹرياٹ دفاعی نظام رعايت کے ساتھ فروخت کرنے کی پيشکش بھی کی تھی۔
عید کی نماز کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر ایردوآن نے مزید کہا کہ ترکی امریکا سے پیٹریاٹ نظام خریدنے کی ڈیل میں پیشرفت اسی وقت ہو گی، جب ان کی ڈیلیوری کی شرائط ویسے ہی شفاف ہوں گی، جیسا کہ روس کے ساتھ ڈیل کے تحت طے پائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''لیکن بدقسمتی سے ہمیں پیٹریاٹ میزائل نظام کی خریداری کے حوالے سے امریکا کی طرف سے ویسا مثبت منصوبہ موصول نہیں ہوا، جیسا S400 کی خریداری پر روس سے ہوا ۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
کالاہاری : دنیا کا چھٹا سب سے بڑا صحرا
صحرائے کالاہاری براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ نو لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ آئیے اس صحرا کے بارے میں مزید جانتے ہیں:
٭ کالا ہاری دنیا کا چھٹا سب سے بڑا صحرا ہے۔
٭ اس میں بوٹسوانا، جنوبی افریقہ اور نمیبیا کے حصے شامل ہیں۔
٭ ’’کالا ہاری‘‘ کا ماخذ جنوبی افریقہ کی زبان ٹسوانا کا لفظ ’’کالا‘‘ (عظیم پیاس) یا ’’کالا گاڈی‘‘ (بے آب علاقہ) ہے۔
٭ ’’اوکاونگو‘‘ واحد دریا ہے جو صحرا میں مستقل طور پر بہتا ہے جس کے آس پاس دلدلی علاقہ ہے۔
٭ بارش کے بعد یہاں خوب گھاس اگتی ہے اور جانور کو چارہ میسر آتا ہے۔
٭ صحرائے کالاہاری کی سطح سمندر سے بلندی 600 سے 1600 میٹر ہے اور یہ صحارا کی نسبت ٹھنڈا ہے۔ یہاں درجہ حرارت عموماً 18 سینٹی گریڈ سے زائد رہتا ہے اور 29 سینٹی گریڈ سے اوپر نہیں جاتا۔ تاہم کچھ علاقوں میں یہ 45 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
٭ صحرا میں بارشوں کا موسم ایک سے چار ماہ تک رہتا ہے۔ صحرا کے مختلف علاقوں میں بارش کا تناسب مختلف ہے۔ خشک موسم آٹھ ماہ یا اس سے زائد عرصہ رہتا ہے۔
٭ یہاں ایک بہت بڑی جھیل تھی جو 10 ہزار برس قبل خشک ہو گئی۔ اندازاً اس کا رقبہ 46 ہزار مربع کلومیٹر تھا۔
٭ یہاں بہت سے پرندے اور جانور ہجرت کر کے آتے ہیں۔ ان میں چیتا، لگڑبگڑ، جنگلی کتے، شیر، لیوپرڈ، افریقی ہرن، سیہ، چکارا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں عقاب، شِکرا، الو وغیرہ کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
٭ ماہرین کے مطابق کالاہاری صحرا براعظم افریقہ میں 60 لاکھ برس قبل وجود میں آیا۔
یسرا خان
↧
دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافہ نہ لینے کا فیصلہ
پاکستان میں فوج کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ مالی سال کے لیے
دفاعی بجٹ میں اضافے کے حق میں نہیں ہے اور موجودہ بجٹ میں کٹوتی کر کے رقم قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی بہتری پر خرچ کی جائے گی۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے اس اقدام کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔ ادھر، آئی ایس پی آر کے سربراہ، میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بجٹ میں اس رضاکارانہ کٹوتی کا اخراجات، دفاع اور سیکورٹی کے امور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، جس کے لیے تینوں افواج مل کر مناسب داخلی اقدام کریں گی۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی ترقی میں شامل ہونا اہم معاملہ تھا۔
پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے پاکستان فوج نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پاک فوج نے رضا کارانہ طور پر دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ لینے اور موجودہ الاؤنسز میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ فوج نے راشن، سفری الاؤنس، انتظامی اخراجات میں کمی اور دفاعی ترقیاتی اخراجات بھی موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بچ جانے والی رقم کو قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے اس اقدام کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاک فوج کی طرف سے دفاعی اخراجات میں رضا کارانہ کٹوتی قابل تعریف ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’سلامتی کو درپیش چیلنجز کے باوجود مالی مشکلات کے تحت ایسا کیا گیا۔ یہ فیصلہ حقیقی قومی ادارے کی حب الوطنی کی عکاسی اور احسن اقدام ہے‘‘۔ پاکستان تحریک انصاف کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی ٹویٹ کی اور کہا کہ یہ کوئی چھوٹا قدم نہیں ہے۔ صرف مضبوط سول ملٹری تعاون ہی پاکستان کو گورننس اور معاشی مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی قیادت نے وزیر اعظم عمران کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال دفاعی بجٹ میں 11 سو ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اس بجٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے اضافہ کیا جارہا تھا اور ہر سال ملکی دفاع کو بہتر بنانے کے لیے اس میں اضافہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سال پاکستان فوج نے خود ہی اضافہ نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧