↧
امریکا نے پاکستان، افغانستان کیلئے مختص فنڈ میکسیکو سرحد پر لگا دیا
↧
پانچ بڑے عالمی مالیاتی بحران، جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
عالمی تاریخ میں یکے بعد دیگرے کئی مالیاتی بحران آئے۔ ان میں سے بیشتر مختصر اور کم شدید تھے جن کا اثر وسیع پیمانے پر محسوس نہیں کیا گیا۔ بعض کے اثرات پورے براعظم یا دنیا بھر میں ہوئے۔ ان کے نتیجے میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ضروریات زندگی پوری کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ ذیل میں پانچ سب سے تباہ کن مالیاتی و معاشی بحرانوں کو مختصراً بیان کیا گیا ہے۔
قرضوں کا بحران، 1772ء
1772ء سے قبل کی دہائیوں میں برطانیہ نو آبادیوں میں اپنی جڑیں خاصی مضبوط کر چکا تھا۔ سلطنتِ برطانیہ مشرق سے ویسٹ انڈیز اور شمالی امریکا تک پھیلی چکی تھی۔ برطانیہ اور نوآبادیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر مختلف اجناس اور بنیادی ضروریات کی اشیا کا تبادلہ ہو رہا تھا لیکن امریکی نوآبادیوں میں سرمایے کی کمی کی وجہ سے، ان کا برطانوی قرض دہندگان پر بہت زیادہ انحصار تھا، تاکہ آسان شرائط پر قرض مل سکے۔ دوسری طرف سلطنتِ برطانیہ نوآبادیوں اور تجارت سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کر چکی تھی۔ اس سے بہت زیادہ امیدیں پیدا ہوئیں اور برطانوی بینکوں نے دل کھول کر قرض فراہم کیے۔
یہ تیزی جون 1772ء کو اختتام کو پہنچی جب لندن کے دو بینک زوال پذیر ہوئے اور اس کے اثرات دوسرے بینکوں اور قرض دہندگان تک پہنچے۔ آٹھ جون 1772ء کو الیگزینڈر فورڈائس کا فرار اس کا نکتۂ آغاز مانا جاتا ہے۔ قرض کی ادائیگی سے بچنے کے لیے وہ فرانس بھاگ نکلا۔ وہ لندن میں قائم بینک ’’نیل، جیمز، فورڈائس اینڈ ڈاؤن‘‘ میں شراکت دار تھا۔ فرار کی خبر پھیلتے ہی برطانیہ کے بینک ہیجانی کیفیت کا شکار ہو گئے۔ یہ بحران سکاٹ لینڈ، نیدرلینڈز اور پھر یورپ کے دوسرے حصوں میں پھیلتا ہوا امریکی نوآبادیوں تک پہنچ گیا۔ یہ دورِ امن کا بحران تھا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق ’’امریکی انقلاب‘‘، جو برطانیہ سے امریکا کی آزادی پر منتج ہوا، کا ایک اہم سبب یہی مالیاتی بحران تھا۔
عالمی کساد بازاری، 1929-39ء
یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا مالیاتی اور معاشی بحران تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس عالمی کساد بازاری کا آغاز 1929ء میں وال سٹریٹ کے دھڑن تختہ سے ہوا اور بعدازاں امریکی حکومت کے غلط فیصلوں نے اسے مزید بڑھا دیا۔ یہ کساد بازاری تقریباً 10 برس جاری رہی جس کے نتیجے میں لوگوں کی آمدنی پر بہت زیادہ منفی اثر پڑا، بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا، اور بالخصوص صنعتی ممالک میں پیداوار کم ہو گئی۔ اس کے اثرات سے شاید ہی کوئی شعبہ بچ پایا ہو، صنعت، زراعت، انفراسٹرکچر، شپنگ، کان کنی، تعمیرات سب متاثر ہوئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بے روزگاری کی شرح 1933 ء میں کم وبیش 25 فیصد ہو گئی۔
تیل کی قیمتوں کا بحران، 1973ء
سن 1973 ء میں اس بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک (آرگنائزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز)، جن میں عرب ممالک اہم تھے، نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ردِعمل کا سبب چوتھی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی تھی۔ اوپیک ممالک نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی فراہمی روک دی۔ اس سے تیل کی بہت زیادہ قلت پیدا ہو گئی اور اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ خام تیل کی قیمت، جو تین ڈالر فی بیرل تھی، 1974ء میں 12 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ نتیجتاً امریکا اور بہت سے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بحران پیدا ہو گیا۔ اس بحران میں افراطِ زر کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی اور معیشت جامد ہو گئی۔ کئی برسوں کے بعد افراطِ زر اور پیداوار پچھلی سطح پر آئے۔ اس بحران کے دوران جاپان کی وہ گاڑیاں جو کم تیل استعمال کرتی تھیں مقبول ہوئیں۔
ایشیائی بحران،1997ء
چند دہائیاں قبل ’’ایشیائی ٹائیگرز‘‘ کی اصطلاح چار ترقی یافتہ معیشتوں ہانگ کانگ، سنگاپور، جنوبی کوریا اور تائیوان کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ 1990ء کی دہائی میں مشرقی ایشیا کے ممالک تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائیشیا تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔ اس دوران قلیل المدت بیرونی قرضوں پر حد سے زیادہ انحصار کیا گیا اور قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا جس سے بالآخر بحران پیدا ہو گیا۔ اس بحران کی ابتدا 1997ء میں تھائی لینڈ سے ہوئی اور پھر یہ پورے مشرقی ایشیا اور ان کے تجارتی شراکت داروں تک پھیل گیا۔
اس بحران کو بڑھانے والے دیگر عوامل میں رئیل سٹیٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور مختلف طرح کی سٹہ بازی تھی۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اسے مینجمنٹ اور ادائیگیوں کا عدم توازن قرار دیا جسے درست تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس نے جو ’’حل‘‘ تجویز کیے ان میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بندوبست اور سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسیوں کا نفاذ شامل تھے جن کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے تھائی لینڈ میں بے روزگاری تین فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہو گئی اور مجموعی قومی پیداوار میں ایک سال کے اندر 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس بحران سے نکلنے میں کئی برس لگے۔
مالیاتی بحران، 2007-2008ء
یہ دورِ حاضر کا سب سے شدید بحران تھا۔ اس نے پوری دنیا کے بینکنگ اور مالیاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسے عالمی کساد بازاری کے بعد سب سے بڑا بحران مانا جاتا ہے۔ اس کی ابتدا امریکا میں ہاؤسنگ کے بحران سے شروع ہوئی جب ’’لہمین برادرز‘‘ دیوالیہ ہوا۔ اس کا شمار سرمایہ کاری کرنے والے بڑے عالمی بینکوں میں ہوتا تھا۔ یہ اپنے ساتھ کئی مالیاتی اداروں اور کاروباروں کو لے ڈوبا یا انہیں شدید بحران میں مبتلا کر دیا۔ اس سے لوگوں کی آمدن میں اربوں روپے کی کمی ہوئی اور کروڑوں افراد کی ملازمتیں متاثر ہوئیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
↧
ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی، يورپ کا کردار کيا ہو گا ؟
جرمنی اور برطانيہ کے وزرائے خارجہ نے امريکا اور ايران کے مابين کشيدگی ميں حاليہ اضافے پر تشويش کا اظہار کيا ہے۔ يہ پيش رفت امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو کے برسلز کے غير اعلانيہ دورے کے موقع پر سامنے آئی۔ جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے کہا ہے، ’’ہم خطے ميں جاری پيش رفت اور کشيدگی پر تشويش کا شکار ہيں۔‘‘ ماس نے يہ بيان برسلز کا غيراعلانيہ دورہ کرنے والے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو کے ساتھ ملاقات کے بعد ديا۔ جرمن وزير خارجہ کے مطابق وہ نہيں چاہتے کہ کشيدگی اس قدر بڑھے کہ بات فوجی تصادم تک جا پہنچے۔
قبل ازيں برطانوی وزير خارجہ جيريمی ہنٹ نے بھی کچھ ايسے ہی خيالات کا اظہار کيا۔ ہنٹ کے بقول وہ اس بارے ميں فکرمند ہيں کہ کسی حادثے کے نتيجے ميں باقاعدہ تصادم کا خطرہ بڑھ نہ جائے، جو دونوں فريق نہيں چاہتے۔ ہنٹ نے يہ بيان يورپی يونين کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ برسلز ميں ملاقات سے قبل ديا۔ انہوں نے فريقين سے اطمينان کا مظاہرہ کرنے کی اپيل کی۔ ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی دراصل اس وقت سے جاری ہے، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے سال جوہری ڈيل سے يک طرفہ طور پر امريکا کی دستبراداری کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر سخت اقتصادی پابندياں بحال کر دی تھيں۔
يہ معاملہ واشنگٹن حکومت اور يورپی يونين کے مابين بھی ايک تنازعے کی شکل اختيار کر چکا ہے۔ برسلز کی کافی عرصے سے کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس ڈيل کو بچايا جا سکے کيونکہ يورپی سطح پر يہ سلامتی سے متعلق اہم ترين معاملات ميں سے ايک ہے۔ جرمن وزير خارجہ نے برسلز ميں بات چيت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے قريبی سمندر ميں بحری جہازوں پر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھی تشويش ظاہر کی۔ يہی وجہ ہے کہ آج برسلز ميں پومپيو سے جرمن، فرانسيسی اور برطانوی وزرائے خارجہ نے پہلے خود ملاقات کی اور بعدازاں ايک اور ملاقات بھی ہوئی جس ميں يورپی يونين کے خارجہ امور کی نگران فيڈريکا موگرينی بھی شريک تھيں۔
يہ ملاقات ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابين سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل کو بچانے کے بارے ميں تھی۔ بعدازاں پومپيو کے ترجمان مورگن اورٹاگس نے بتايا کہ ايران کے حاليہ بيانات اور اقدامات کے بعد کی صورتحال پر يورپی پارٹنرز کے ساتھ تبادلہ خيال کے ليے مائيک پومپيو نے آخری لمحات ميں ماسکو کا دورہ بھی منسوخ کر ديا ہے۔ واضح رہے کہ ايران نے پچھلے ہفتے جوہری ڈيل سے جزوی دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ آج يورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس ميں اس موضوع پر بات چيت جاری ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
چین کا جوابی وار 5 ہزار امریکی مصنوعات پر 60 ارب ڈالر کے ٹیکس
چین اور امریکا کے مابین تجارتی تنازع شدت اختیار کر گیا۔ امریکا کی جانب سے 200 ارب ڈالر کے ٹیکسز عائد کیے جانے کے بعد چین نے جوابی وار کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 60 ارب ڈالر کے ٹیکس لگا دیے۔ چین نے امریکا کی 5 ہزار سے زائد مصنوعات پر 5 سے 25 فیصد تک ٹیکس عائد کیے ہیں۔ امریکی مصنوعات پر نئے ٹیکسز یکم جون سے لاگو ہو جائیں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ دوسری جانب چینی نائب وزیراعظم لیو ہی نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں بڑے اصولی معاملات پر کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
ان مذاکرات میں چین کی جانب سے اعلیٰ مذاکرات کار لیو نے چینی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان تین معاملات کو ضرور نمٹایا جانا چاہیے، جنہیں وہ بنیادی خدشات کہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ چین کی خواہش ہے کہ دو طرفہ سمجھوتا طے ہوتے ہی امریکا چینی مصنوعات پر عائد تمام تر اضافی محصولات ہٹا دے۔ بیجنگ کی دوسری خواہش ہے کہ چین کی جانب سے درآمدات کو توسیع دینے کے طریقوں پر دونوں ممالک کا وہ اتفاق رائے برقرار رہے، جو گزشتہ سال دسمبر میں چین اور امریکا کے سربراہان کی ارجنٹائن میں ہونے والی ملاقات میں ہوا تھا۔ تیسرا اور آخری نکتہ چین کی یہ خواہش ہے کہ سمجھوتے کے الفاظ متوازن ہوں، تاکہ چینی وقار متاثر نہ ہو۔
بیجنگ کو بظاہر خدشہ ہے کہ دستاویز میں ایسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، جو چین کی خودمختار حیثیت کے خلاف ہوں گے۔ چین کا کہنا تھا کہ 2 کھرب ڈالر مالیت کی چینی مصنوعات پر امریکا کی جانب سے محصولات بڑھائے جانے کے بعد چین کے پاس جوابی اقدامات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ ادھر چین کی جانب سے نئے ٹیکسوں کا اعلان کرنے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین نے کئی سال تک امریکا کی نرمیوں کا فائدہ اٹھایا ہے، کیوں کہ ہمارے گزشتہ صدور نے اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا۔ چین کو امریکا کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ٹیکسوں کے جواب میں ٹیکس عائد نہیں کرنے چاہیں، ورنہ چین کو بہت بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بشکریہ روزنامہ جسارت
↧
سعودی عرب کی نئی اقامہ پالیسی
سعودی عرب کی شوریٰ کونسل نے کاروباری افراد ، سرمایہ کاروں اور ہُنرمند تارکین ِوطن کے لیے خصوصی اقامتی اجازت نامے کی منظوری دی ہے۔ یہ معیشت کی ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہے کیونکہ اس سے علم کی منتقلی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئیے! اس کے فوری مثبت پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت خلیج کی لیبر مارکیٹ کے کھلے پن کو بہتر معیارِ زندگی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خلیجی شہریوں اور خلیج میں مقیم غیر ملکی تارکینِ وطن دونوں کو اس کا تجربہ ہو رہا ہے۔ تاہم مختصر اور درمیانی مدت کے ثمرات تو انھیں ضرور حاصل ہوئے ہیں لیکن ان کے لیے ایک طویل المیعاد سقم بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ غیرملکیوں کو مقامی شہریوں کو علم منتقل کرنے کا بہت تھوڑا اور بعض اوقات تو منفی انداز میں صلہ ملتا ہے۔
مزید برآں جن تارکین ِ وطن کے معیّنہ مدت کے ملازمتوں کے معاہدے ہوتے ہیں اور ان کے آجر ان کی تجدید نہ کرنے کا بھی فیصلہ کر سکتے ہیں تو ایسے تارکِ وطن ورکر خلیجی شہریت کے حامل اپنے ساتھیوں کی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور انھیں ہُنر سیکھانے میں متردد ہوتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو تارکین ِ وطن کی جگہ ہُنرمند خلیجی شہری لے لیں گے۔اسی بات کا کسی مقامی شراکت دار کے ساتھ کام کرنے والی غیر ملکی کاروباری شخصیت پر اطلاق کیا جا سکتا ہے ۔ اگر وہ مقامیوں کی صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیتے ہیں تو پھر ان کے لیے تو کوئی جگہ نہیں رہے گی۔
خلیج میں تارکِ وطن ورکروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔ بالخصوص اگر وہ اعلیٰ مہارتوں کے حامل ہیں تو انھیں کم تر اجرتوں پر راغب نہیں کیا جا سکتا۔ آجر حضرات اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سعودی شہریوں کے لیے جامعات میں آئی ٹی کے کورسز کی پیش کش کے باوجود انھیں غیر ملکی ٹیلنٹ کی خدمات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ امریکا سمیت تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی ( او ای سی ڈی) میں شامل ممالک میں تو تارکِ وطن ورکروں کو مستقل اقامت اور شہریت دینے کا ایک واضح اور نسبتاً تیز رفتار راستہ ہے۔ اس طرح مقامی شہریوں کے ان کی جگہ لینے کا خدشہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ نتیجتاً وہاں علم کی منتقلی کے لیے مثبت مراعات و ترغیبات دی جاتی ہیں کیونکہ ہر کوئی زیادہ اہل اور باصلاحیت ساتھیوں کےساتھ کام کو ترجیح دیتا ہے۔
تاہم سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں اب تک گرین کارڈ ز دینے کا کوئی ڈھانچا موجود نہیں ہے۔ اب اگر نیا نظام موجودہ نظام کی جگہ رائج کیا جاتا ہے تو سعودی عرب کے پاس یقینی طور پر اپنا کیک ہو گا اور وہ اس کو کھا رہا ہو گا۔غیر ہُنر مند ورکروں کے زمرے میں وہ موجودہ نظام کی لچکداری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے تحت کم اجرتوں کا سلسلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے جبکہ ہُنرمند ورکروں کے زمرے میں نئے نظام کو علم کی منتقلی کے لیے مراعات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے سعودی عرب کو او ای سی ڈی کے رکن ممالک میں ایک طرح کی برتری حاصل ہے۔ وہاں کی لیبر مارکیٹ میں غیرملکیوں کی ایک تناسب سے موجودگی کی خواہش تو موجود ہے اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان کا داخلہ محدود اور سخت کر دیا گیا ہے۔
بالخصوص کم اجرت کے زمرے میں۔ مگر بہت سوں کو اس نئے نظام سے باہر رکھنے کے لیے اضافی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں سے کسی کے ہاں بھی علم کی منتقلی کے لیے کسی منظم ومنضبط پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ سنگاپور ایسے ممالک اس طریق کار سے بہت آگے چلے گئے ہیں۔ وہ اس امید میں غیرملکیوں کو اپنے شہریوں کے برابر لے آئے ہیں کہ اس طرح ایک سے دوسرے میں علم منتقل ہو گا، اس کے بجائے وہ منظم مراعات اور دانش مندی سے ان تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں۔ مثال کے طور پر سائنسی تحقیق کے شعبے میں سنگاپور میں اعلیٰ درجے کے غیر ملکی پروفیسروں کی ان کے کیرئیر کے اختتام پر خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور سنگاپور کے نوجوانوں کو ان کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
ان کے یہ سنگاپوری شاگرد اگر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر ان غیرملکی پروفیسروں کو مزید مراعات اور بھاری مشاہرے ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کی جانچ اس طرح کی جاتی ہے کہ سنگاپوری شاگردوں نے ازخود تنہا یا ان غیرملکی پروفیسروں کے ساتھ مل کر کتنے تحقیقی مقالے ( پیپر) شائع کروائے ہیں۔ سنگاپوری حکام جن غیرملکی سپر اسٹاروں کی ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب خدمات حاصل کرتے ہیں، انھیں یہ دھڑکا نہیں لگا رہتا کہ ان کے شاگرد ان کی جگہ لے لیں گے کیونکہ انھیں تو بہرحال اپنے ذمے داریو ں سے سبکدوش ہونا ہے اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے منتظر ہوتے ہیں۔
سعودی عرب بھی اسی طرح کی حکمتِ عملی اختیار کر سکتا ہے۔ وہ تارکین ِ وطن کے ساتھ ملازمتوں کے معاہدے کے تحت انھیں شہریوں کو اپنی مہارتیں منتقل کرنے کا پابند بنا سکتا ہے کیونکہ روایتی طور پر تو یہ کارکردگی کی جانچ کا کسی طرح کا معیار نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سعودی عرب سنگاپور کی مثال کی پیروی کر کے مقامی لیبر مارکیٹ میں غیرملکی ٹیلنٹ کی جگہ بہتر سعودی ٹیلنٹ کو لا سکتا ہے۔ سعودیوں کی صلاحیت کار کی تعمیر و ترقی میں نمایا ں کردار ادا کرنے والے غیرملکی سرمایہ کاروں اور ورکروں کے کام کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر برطانوی حکومت غیر شہریوں ( تارکینِ وطن) کو اپنے ملک اور برطانیہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے کردار پر اعزازی سر کا خطاب دیتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والے ٹیلنٹ کو نوجوان سعودیوں میں علم وہنر کی منتقلی پر اس طرح کے اعزازات سے نواز جا سکتا ہے اور یہ ایک توانا ترغیب ہو گی۔ فی الوقت تو متعارف کردہ مستقل اقامت کی جانب بہت سے لوگ راغب ہو سکتے ہیں کیونکہ تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے رکن ممالک میں اب مسلمانوں کا کوئی زیادہ جوش وخروش سے خیرمقدم نہیں کیا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ا نھیں خوش آمدید کہنے کا سلسلہ تھم سا گیا ہے۔ اس کا اندازہ 2018ء کے ایک سروے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس میں پانچ ہزار سے زیادہ امریکی شہریوں سے تارکین ِ وطن افراد کے بارے میں سوال پوچھے گئے تھے اور مسلمانوں کے حق میں سب سے کم رائے کا اظہار کیا گیا تھا اور صرف 48 فی صد امریکیوں نے ان کے حق میں رائے دی تھی۔
سعودی عرب اس وقت مذہبی مقامات بالخصوص مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں الحرمین الشریفین کی تعمیر وتو سیع کے بڑے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ اس سے مسلمان سعودی عرب کی جانب پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں راغب ہو رہے ہیں۔ چناں چہ سعودی عرب اپنی نئی ویزا پالیسی کو دنیا بھر سے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مسلمانوں کو ترغیب دینے کے لیے بروئے کار لاسکتا ہے۔ اسی طرح درست ضمنی پالیسیوں کے نتیجے میں سعودی نوجوان بڑے فاتح بن کر ابھر سکتے ہیں۔
عمر العبیدلی
بشکریہ العربیہ اردو
↧
↧
آئی ایم ایف پروگرام، امیدیں اور پریشانیاں دونوں ایک ساتھ ؟
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا حالیہ پروگرام جہاں ایک طرف صنعتی حلقوں کے اہم حصوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے وہیں بڑے کاروباری افراد اسے طویل عرصے میں ایک امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ یہ پروگرام معیشت میں طویل عدم توازن کو کچھ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ اُس ایڈجسٹمنٹ کے پیمانے جو حکومت نے طے کیے ہیں، تفصیلات ان سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والا اعلامیہ ایسی زبان پر مشتمل ہے، جس کے بہت سے معنیٰ نکل سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ آئی ایم ایف اعلامیہ اس تمام معاملے پر جاری ہونا والا واحد باضابطہ بیان ہے۔ اس حوالے سے جب سابق وزیر خزانہ اور واشنگٹن میں اسد عمر کی سربراہی میں آئی ایم ایف سے آخری راؤنڈ کے مذاکرات کرنے والے وفد میں شامل ڈاکٹر حفیظ پاشا سے پوچھا گیا کہ ’اس کا کیا مطلب ہے کہ جب فنڈ کہے گا تو پروگرام پر عملدرآمد صرف بین الاقوامی شراکت داروں کے ’مالی وعدوں‘ کی تصدیق کے بعد ہو گا‘۔ جس پر وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی پریشان کن ہے‘، ’کیا وہ یہ کہہ رہے کہ ادائیگیوں کے توازن کی حمایت کے لیے دیگر ممالک کی جانب سے جمع ذخائر کو پروگرام کی شرط کے حصے کے طور پر لازمی طور پر ختم کرنا چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ فنڈ پروگرامز ملک کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور ادائیگیوں کے توازن کے تحفظ کے لیے سمجھا جاتا ہے نا کہ بین الاقوامی قرض دہندگان کے لیے شرائط پر اصرار کرنے کے طور پر۔ انہوں نے اس بیان کے علاوہ انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف عزم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا فنڈ پروگرام اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کلیئرنس کے تابع ہونے جارہا ہے؟‘ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی منتقلیوں پر استعمال کی گئی زبان تشویش کا باعث ہے، آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق ’آنے والے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تناظر میں حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ موجودہ معاملات کے توازن کی کوشش کرے گی‘۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ’یہ ایک آئینی معاملہ ہے‘، ’18 ویں ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ کم نہیں ہو سکتا، لہٰذا حکومت کو اس پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ جہاں اس طرح کی زبان استعمال ہوتی نظر آئی وہ تجارت تھی، انہوں نے نقطہ اٹھایا کہ ’بیان میں تجارتی سہولیات سے متعلق متعلق بات کی گئی‘،’اس کا مطلب یہ لگتا ہے کہ حکومت کو درآمدات کو کم کرنے سمیت برآمدات میں مراعات کے لیے اعلان کیے گئے مختلف اقدامات سے پیچھے ہٹنا ہو گا‘۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر یہ پروگرام حکومت کو صرف ایک آلے کے ساتھ چھوڑ دے گا، جس سے وہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دے گی اور وہ ایکسچینج ریٹ ہو گا۔
ان تمام خدشات کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ’بنیادی خسارے کی مد میں جی ڈی پی میں 1.6 فیصد کی کمی کا تخمینے کا ہدف بہت چیلنجنگ ہو گا لیکن مجھے خاص طور پر اس حوالے سے تشویش ہے کہ اس سب کے باعث دفاعی اخراجات پر بھی دباؤ موجود ہے‘۔ دوسری جانب فیصل آباد ایوان صنعت و تجارت کے صدر ضیا علمدار کہتے ہیں کہ پنجاب میں برآمدی صنعت اس سمت سے متعلق بہت فکرمند نظر آتی ہے، ’ہمارے 2 تحفظات ہیں جو آگے بڑھانے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سیلز ٹیکس پر زیرو ریٹنگ کو واپس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے معیشت کا برآمدی شعبہ فائدہ حاصل کر رہا ‘ جبکہ ’گیس اور بجلی کی قیمتوں پر دی گئی مراعات کو بھی واپس نہیں لینا چاہیے‘۔
ادھر پاکستان کے تمام بڑے بزنس ہاؤسز کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ پاکستان بزنس کونسل کے احسان ملک کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ فوری طور پر نگلنے کے لیے ایک کڑوی گولی ہو گی لیکن یہ پروگرام ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ چیز تھی جسے فوری طور پر کرنا چاہیے‘ کیونکہ وقت سے کھیلنے کی حکومتی حکمت عملی کا فائدہ نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام ایک ’مذاق‘ ہے کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی پروڈکٹ ہے جس میں حکومت نے بطور تماشائی آئی ایم ایف سے بات کی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’کیوں حفیظ شیخ اور ان کے ساتھیوں نے اس طرح کے کوئی اقدام اپنے سابقہ دور میں کیوں نہیں اٹھائے‘۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ بہرحال ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹیم یہاں صرف ایک مقصد کے لیے ہے اور وہ ریاست کی کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنا ہے‘۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
امریکہ میں غیر ملکی ٹیلی کام کمپنیوں کے خلاف اقدامات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کے کمپیوٹر ’نیٹ ورکس‘ کو ’غیر ملکی‘ حریف کمپنیوں سے بچانے کے لیے قومی ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے ذریعے امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی حریف ٹیلی کام کمپنیوں کی خدمات استعمال کرنے سے منع کیا جن کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر میں کسی بھی کمپنی کا نام خاص طور پر نہیں لیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے خاص طور پر چین کی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے حوالے سے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
بہت سے ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین نگرانی کے لیے چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کی مصنوعات کو استعمال کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ہواوے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا کام کسی کے لیے بھی خطرے کا باعث نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کے آرڈر کا مقصد ’امریکہ کو غیر ملکی حریف کمپنیوں سے بچانا ہے جو فعال اور تیزی سے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی اور خدمات کے مسلسل استعمال کے لیے حساس ہیں۔ بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ اقدام کامرس سیکریٹری کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ’ایسے ٹرانزیکشن کو روکے جو ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘
امریکہ کی وفاقی کمیونیکیشنز کمیشن کے چیئرمین اجیت پائی نے امریکی صدر کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا ہے ’یہ اقدام امریکہ کے نیٹ ورکس کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔‘ خیال رہے کہ امریکہ پہلے ہی وفاقی ایجنسیوں کو ہواوے کمپنی کی مصنوعات کے استعمال کو محدود کر چکا ہے اور اپنے اتحادیوں کو ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے نیکسٹ جینریشن کے فائیو جی موبائل نیٹ ورکس میں چینی کمپنی ہواوے گیئر کے استعمال کو روک دیا ہے۔ لیکن چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے نے شدت سے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ دریں اثنا ہواوے کے چیئرمین لیانگ ہو نے کہا ہے کہ وہ منگل کو لندن میں ہونے والے ایک ملاقات کے دوران ’حکومتوں کے ساتھ غیر جاسوسی معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی قوت میں اضافہ جاری
امریکی فوج مشرق وسطیٰ میں اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کر رہی ہے تاکہ ایران کی جانب سے کسی امکانی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایران کے لیے امریکہ کی جانب سے طاقت کا ایک اور واضح سگنل، پیٹریاٹ میزائل بیٹری، ’یو ایس ایس آرلنگٹن‘، اور بی 54 بمبار طیاروں کی شکل میں سامنے آیا ہے جو خلیج کی جانب بڑھنے والے ’یو ایس ایس ابراہم لنکن‘ طیارہ بردار اسٹرائیک گروپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ کمانڈروں نے ہتھیاروں کی اضافی کمک کی درخواست اس انٹیلی جینس کے بعد کی تھی کہ خطے میں امریکی فورسز کے لیے ایران کی جانب سے بری اور بحری حملے کے خدشات موجود ہیں۔
امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹ شناہن کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے یہ سمجھ لینا اہم ہے کہ امریکیوں یا اس کے مفادات پر کسی حملے کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ ایک سینئر فوجی عہدے دار کے مطابق، ان خطرات میں وہ کمرشل گاڑیاں شامل ہیں جن پر میزائل نصب کرنے کے لیے ایران کی ’پاسداران انقلاب کور‘ نے خصوصی فوجی ہارڈ وئیر لگا دیے ہیں۔ لیکن داعش کے خلاف لڑنے والے اتحاد کے ایک سینئر افسر نے ایک مختلف بات کی۔ پنٹاگان کی ایک بریفنگ میں داعش کے خلاف لڑنے والے اتحاد کے کمانڈر فار اسٹریٹجی, برطانوی میجر جنرل کرس گیکا سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ نے خطرے کی علامات دیکھی ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے خطرے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
تاہم، امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ایرانی خطرہ موجود ہے اور عراق اور شام میں متعین عملے کے تمام ارکان ہائی الرٹ ہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل اوہینلن کہتے ہیں کہ اگر ہم رد عمل کے لیے کوئی بہت محدود راستہ تلاش کر سکتے ہیں، تو میرا خیال ہے کہ ہم ایسا کریں گے، اور میرا خیال ہے کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن، اگر ہم غیر ضروری کارروائی کریں گے تو ہم جنگ کے راستے پر جا سکتے ہیں۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ امریکہ جنگ نہیں چاہتا۔ لیکن، وہ امریکی فورسز کی حفاظت کرے گا۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
لارنس آف عریبیہ، ایک پُر اسرار کردار
تھامس ایڈورڈ لارنس کو جن ناموں سے پکارا جاتا تھا ان میں سب سے مقبول ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ ہے۔ 16 اگست 1888ء کو ویلز میں پیدا ہونے والے اس غیر معمولی فرد نے 19 مئی 1935ء کو وفات پائی۔ اس ایک فرد میں بہت سی صلاحیتیں یکجا تھیں۔ وہ بیک وقت ماہرِآثارِ قدیمہ، فوجی افسر، جاسوس، سفارت کار اور مصنف تھا۔ اسے شہرت پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں عسکری حکمت عملی میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے پر ملی۔ اپنی سرگرمیوں کا ذکر اس نے اپنی کتاب ’’دی سیون پِلرز آف وزڈم‘‘ میں کیا جس میں ممکن ہے واقعات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لارنس نے کس مہارت سے اپنے وقت کی انتہائی طاقت ور مشرقی سلطنت کو مشکل میں ڈالا۔ 15 برس کی عمر میں اسے قدیم نوادرات اور عمارات سے حد درجہ دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔
دوران تعلیم اس نے عہدِ وسطیٰ کے عسکری طرزِ تعمیر پر توجہ مرکوز کی، فرانس، شام اور فلسطین میں صلیبی قلعوں پر تھیسس لکھا اور 1910ء میں اسی کی بنیاد پر تاریخ میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کا تھیسس اس کی موت کے بعد 1936ء میں ’’صلیبی قلعے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ایک کالج کی فیلو شپ کے تحت وہ دریائے فرات کے کنارے کرکمیش میں قدیم ہٹیٹی بستیوں کی کھدائی کرنے نکل کھڑا ہوا اور 1911 سے 1914ء تک اس میں مصروف رہا۔ اس دوران فارغ اوقات میں وہ آس پاس کے علاقوں کا جائزہ لیتا، وہاں کی زبان سیکھتا اور لوگوں کے بارے میں جانتا۔ پہلی عالمی جنگ کے شروع ہوتے ہی اس نے ملک کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے مصر میں اپنی خدمات پیش کیں۔ 1914ء کے اوائل میں اس کا ایک ’’کارنامہ‘‘ ماہرِ آثارِ قدیمہ کے روپ میں غزہ (فلسطین) سے عقبہ (اردن) تک کے عسکری نقشے تیار کرنا تھا جو ان حالات میں فوری اہمیت اختیار کر گئے۔
پہلی عالمی جنگ کے ابتدائی عرصے میں وہ شعبہ نقشہ جات کے ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اس کا کام سینائی (مصر) کا عسکری لحاظ سے مفید نقشہ تیار کرنا تھا۔ دسمبر 1914ء میں وہ قاہرہ میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر تھا۔ اس وقت ایسے لوگوں کی کمی تھی جو سلطنت عثمانیہ کے زیرانتظام عرب علاقوں کا سفر کر چکے ہوں اور ان سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس کام کے لیے غالباً لارنس سے موزوں کوئی فرد نہیں تھا۔ اب لارنس کے ذمے جاسوسی کا کام تھا اور اس نے زیادہ تر برس قیدیوں کے انٹرویوز کرنے، نقشے بنانے اور دشمن کی صفوں میں موجود ایجنٹوں سے حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کرنے میں گزارے۔ مغربی محاذ پر زور دار جنگ جاری تھی اور 1915ء میں لارنس کے دو بھائی فرانس کے محاذ پر اس کی نذر ہو چکے تھے۔
عرب علاقوں میں اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے ہی اسے عثمانیوں سے بدلہ لینے کا خیال آیا۔ سلطنتِ عثمانیہ جرمنوں کی اتحادی تھی اور اسے زِچ کرنے سے برطانیہ کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ دوسری جانب عرب علاقوں میں آزادی کی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ لارنس نے عرب علاقوں میں آزادی کی تمنا کو فوجی مقاصد کے تحت لاتے ہوئے اور وہاں کے حالات، سیاست، معاشرت اور لوگوں کی استعداد کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ترکوں کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ اس نے دمشق سے مدینہ تک کی ریلوے لائن کو ترکوں کے لیے کسی کام کا نہ چھوڑا۔ بحیرہ احمر کے انتہائی شمال میں عقبہ عرب چھاپہ ماروں کی اولین کامیابی ثابت ہوا اور جولائی 1917ء میں انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں عرب لباس میں ترکوں نے اسے پکڑ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تاہم وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
مختلف مہمات میں کامیابی کے بعد اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ جب اکتوبر 1918ء میں عرب افواج دمشق پہنچنے میں کامیاب ہوئیں، لارنس جسمانی اور جذباتی طور پر بہت تھک چکا تھا۔ وہ کئی بار گرفتار ہوا، تشدد کا نشانہ بنا، بھوک کا شکار ہوا۔اسے یوں لگا کہ اس نے جو کیا سب بے کار تھا۔ اس نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ جنگ کے بعد اس کی کارروائیاں منظر عام پر آنے لگیں اور وہ مقبول ہونے لگا۔ کئی برس بعد وہ عرب امور کے ماہر کے طور پر مشرقِ وسطیٰ واپس گیا۔ وہ اس وقت کے نوآبادیاتی وزیر ونسٹن چرچل کے ماتحت تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس ملازمت کو چھوڑا اور نام بدل کر اگست 1922ء میں رائل ائیرفورس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کی دوستی جارج برنارڈ شا جیسے بڑے نام کے ساتھ ساتھ بھی رہی۔
لارنس قبائلی علاقے میران شاہ میں بھی مقیم رہا۔ اس نے افغانستان کے حاکم کو غیر مستحکم کرنے کا کام کیا۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ شاہ امان اللہ خان کے خلاف پراپیگنڈہ اور سازشیں کر کے اس کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ شاہ انقلابی اور جدید نظریات رکھتا تھا اور اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا۔ لارنس ایک طلسماتی سا کردار بن چکا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا اور 1962ء میں اس کی زندگی سے ماخوذ معروف فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ بنی۔ تاہم تیسری دنیا میں اس کی حیثیت ایسے شخص کی ہے جس نے زیادہ تر جنگوں اور تقسیموں کو جنم دینے والی منفی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
رضوان عطا
↧
↧
حکومت کو آئی ایم ایف کے بعد ’میثاقِ معیشت‘ کی طرف جانا چاہیے؟
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جب ہم نے بیل آؤٹ کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ’اصولوں کی خلاف ورزی!‘ کا شور مچا رہے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پروگرام ناگزیر بن گیا تھا۔ مالیاتی ادارے کی عائد کردہ شرائط کسی کو پسند ہوں یا نہیں، مگر یہ طے ہے کہ یہ شرائط اور معاشی استحکام کا عمل دشواری سے بھرپور ہے۔ مگر کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے؟ معیشت اگر لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو تو اسے ٹھیک کرنا ہی پڑتا ہے اور اس مقصد کے لیے سخت فیصلے درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان عملے کی سطح کا معاہدہ طے پا چکا ہے، تاہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس حوالے سے حتمی اشارہ ملنا باقی ہے اور ابھی تک معاہدے کی تفصیلات کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستانی تاریخ میں سب سے سخت ترین آئی ایم ایف پروگرام ہو گا۔
اس بار شرائط کا تعلق صرف معیشت سے نہیں بلکہ سیاسی عمل میں بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آخری منظوری حکومت کی جانب سے چند مطلوبہ اہم اقدامات اٹھانے سے مشروط ہے۔ ایسی تجویز کا اشارہ بھی ملا ہے کہ اس پروگرام کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کلیئرنس سے جوڑا جائے۔ پاکستان اگرچہ آئی ایم ایف کے پاس ایک درجن سے زائد بار جا چکا ہے، لیکن پروگرامز کو، جزوی طور پر یا مکمل طور پر عمل کرنے کی کچھ خاص اچھی ساکھ نہیں رکھتا۔ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ہر حکومت آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام میں داخل ہوئی مگر معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ جہاں آئی ایم ایف کی چند ہدایات بلاشبہ ہمیں زبردست طریقے سے متاثر کریں گی وہیں کئی ایڈجسٹمنٹس اور اصلاحات جن پر ہم اتفاق کر چکے ہیں ان پر ہمیں پہلے ہی عمل کر لینا چاہیے تھا۔ اس بات پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ پروگرام کی تکمیل کے 3 سال بعد ہی ہم کیوں مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ہم کبھی بھی وعدوں پر عمل پیرا نہیں رہتے۔
ہمیں اب بظاہر طور پر سب کچھ شروع سے شروع کرنا ہو گا وہ بھی پہلے سے زیادہ ناموافق شرائط کے ساتھ۔ ہمیں اس بات کی قطعی طور پر ضرورت نہیں تھی کہ آئی ایم ایف ہمیں یہ بتائے کہ کہ ہمارے ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ہے، ریوینیو میں اضافہ کرنا ہے، سرکاری اداروں کے خسارے ختم کرنے ہیں اور سرکاری اخراجات میں کمی لانی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسٹرکچرل اصلاحات لانے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کیا ہم اس سے پہلے ہم یہ سب نہیں سن چکے؟ 9 ماہ کی حکمرانی کے دوران متعدد بار اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے والی پی ٹی آئی حکومت اب تک کوئی خاص امید جگا نہیں پائی ہے۔ نئی اقتصادی ٹیم بظاہر زیادہ تجربہ کار اور پروفیشنل تو نظر آسکتی ہے مگر سخت زمینی حقائق سے نمٹنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔
اس کا تعلق معیشت سے زیادہ سیاست سے ہے۔ کسی بھی معنی خیز اصلاحاتی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست کے ایک حد سے زیادہ سرگرم ادارے اور حکمران اشرافیہ ہیں۔ ان کے ذاتی مفادات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں اٹھا پاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان تمام مشکلات کا بوجھ متوسط اور غریب افراد پر پڑتا ہے۔ امیر اور طاقتور افراد سے ٹیکس اکٹھا کرنا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ کسی بھی قسم کی اصلاحات کے خلاف اس حکمران اشرافیہ کی جانب سے زبردست مزاحمت سامنے آسکتی ہے جو خود کو حاصل مراعات ترک کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ۔ حکومت اس وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی کہ وہ ٹیکس کے جال کو بڑھائے گی، لیکن حکومت گزشتہ سالانہ بجٹ میں متعین کردہ اہداف کو بھی حاصل نہیں کر سکی، ایسے میں مجموعی ٹیکس ادائیگیوں کے حجم میں اضافہ تو دُور کی بات ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خسارہ اب 300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت کو نئی ٹیکس کاری اور وصولی کے بہتر نظام کے ذریعے پہلے کے مقابلے میں 700 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو بار بار بدلنے سے وفاقی ریوینیو بورڈ کی کارکردگی بہتر نہیں ہونے والی۔ حتیٰ کہ اگر اس محکمے میں اصلاحات لانے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو بھی ان کے نتائج شاید فوری طور پر برآمد نہ ہو سکیں۔ گزشتہ حکومت نے جب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی تو پی ٹی آئی نے اس کو ’کرپشن کو قانونی شکل‘ کے مترادف قرار دیا تھا، لیکن اب جب اپنی حکومت آئی تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ رعایتوں کے ساتھ اس اسکیم کو متعارف کروا دیا گیا ہے۔ گزشتہ کئی اسکیموں کے بعد اب اس تازہ اسکیم کو لے کر یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ اس سے بڑی تعداد میں کالی معیشت کو مرکزی دھارے میں لانا ممکن ہو گا، لیکن مختلف حکومتوں کی جانب سے متعارف کردہ اسکیمیں لوگوں کی چھپی ہوئی دولت ظاہر کروانے اور اسے ٹیکس کے جال میں لانے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ لوگ اس ترغیبی مراعت پر ردِعمل دیتے ہیں یا نہیں۔
حکومت کے لیے سب سے مشکل چیلنج غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کی کفایت شعاری پر مبنی مہم مالی صورتحال پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر پائی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے ساتھ زیادتی کو بند کیا جائے، اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ایک ادارے کے اضافی اخراجات میں کمی کی جائے۔ ملکی بجٹ کا چوتھا بڑا حصہ دفاعی اخراجات کی صورت ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی تک یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جا سکتی، لیکن اب ضروری ہے کہ اس معاملے پر ناصرف بات کی جائے، بلکہ اس پر نظرِثانی بھی ضروری ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیکیورٹی ایک اہم ترین معاملہ ہے، لیکن معیشت کی مضبوطی سے بھی تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بحران کا شکار معیشت ممکنہ طور پر سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ بن سکتی ہے۔ بیرونی امداد پر انحصار ہونے کی وجہ سے ہماری خود مختاری پر تو ویسے بھی سمجھوتا ہو چکا ہے۔ لہٰذا سیکیورٹی پر آنچ آئے بغیر اس مد میں کتوٹی کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ کفایت شعاری کی مہم مسلح افواج تک پہنچنی چاہیے۔
یہ تو صاف ہے کہ وفاقی حکومت تنہا اس مالی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ بن چکی ہے کیونکہ ترمیم کے تحت صوبوں کو زبردست حد تک مالی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہے۔ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی ہم آہنگی کا قیام ضروری ہے۔ اقتصادی اور مالی طور پر ہمارے بُرے حالات کی ایک اہم وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا اور ان پر عمل درآمد کروانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ صورتحال کو سنبھالنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے مالی سہارا تو فراہم کرے گا لیکن اگر ہمیں بحران سے نکلنا ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہونا ہے تو اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام بلکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ حکومت کے لیے سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی استحکام کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔ لڑائی جھگڑے کے موجودہ ماحول نے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو سنگین حد تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور انہیں چاہیے کہ وہ سابق وزیرِ اعظم شاید خاقان عباسی کی جانب سے ’میثاق معیشت‘ پر بین الجماعتی مذکرات کے آغاز کی پیش کش کو قبول کر لیں۔
زاہد حسین
بشکریہ ڈان نیوز
↧
کیا بھارت واقعی ترقی کر رہا ہے؟
بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) نے ملک کی معاشی ترقی کے اعداد و شمار پر شکوک وشبہات ظاہر کیے ہیں۔ این ایس ایس او کے جمع کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کی ترقی کے اعداد و شمار کا حساب کرنے میں کئی خامیاں تھیں۔ این ایس ایس او کی یہ رپورٹ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے دھچکا ثابت ہو سکتی ہے جو بھارت میں جاری انتخابات دوسری بار جیتنے کے خواہش مند ہیں۔ مودی اکثر ملکی معیشت میں بہتری کا ذمہ دار اپنی پچھلی حکومت کو ٹھہراتے ہیں، لیکن مخالف کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اعداد و شمار گھوما پھرا کر ایسے پیش کرتی تھی جس سے وہ ماضی کی حکومتوں سے بہتر لگیں۔
این ایس ایس او کی تحقیق میں مزید معلوم ہوا کہ معاشی ترقی کا تخمینہ لگانے کے لیے جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک تہائی یا تو ’بند تھیں یا ان کا اتا پتا معلوم نہیں ہو سکتا تھا‘۔ ممبئی کے اقتصادی ماہر اشوتوش داٹر نے اے ایف پی کو بتایا : ’بھارت کے مجموعی قومی پیداوار کے اعداد و شمار کچھ عرصے سے عالمی نظروں میں ہیں۔ نئی رپورٹ ان کے سچ اور بھروسہ مند ہونے پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔‘ یہ رپورٹ پچھلے ہفتے جاری ہوئی تھی مگر اخبار ’منٹ‘ میں رپورٹ ہونے کے بعد عام ہوئی۔
پچھلے سال مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے کانگریس کے گذشتہ دور حکومت میں ترقی کے اعداد و شمار کو کم کرنے کے بعد کانگریس لیڈر راہول گاندھی مودی کی حکومت میں بھارت کے مجموعی قومی پیداوار کے اعداد و شمار پر اعتراض اٹھا تے رہے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے یہ ریوژن مجموعی قومی پیداوار کا حساب لگانے کے ایک نئے طریقے کی بنیاد پر ہوئی جسے پارٹی نے چار سال پہلے اقتدار میں آنے کے بعد متعارف کرایا تھا۔ ریوژن کے نتیجے میں کانگریس کے 2005 سے 2012 تک کے دور میں بھارت میں ہونے والی ترقی کے اعداد و شمار بی جے پی کے 2014 میں حکومت میں آنے کے بعد کے اعداد و شمار سے کم ہو گئے۔
مودی حکومت نے ریوژن کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھارت کو دوسری بڑی معیشتوں میں مجموعی قومی پیداوار کا اندازہ لگانے کے طریقہ کار کے قریب لاتی ہے۔ اس سال یہ دوسری مرتبہ ہے کہ کسی سرکاری ادارے کے اعداد و شمار مودی حکومت کے لیے شرمندگی کا سبب بنے ہوں۔ جنوری میں وزارت شماریات سے لیک ہونے والے ڈیٹا سے پتہ چلا تھا کہ 2017 سے 2018 میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تک پہنچ گئی جو 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ فروری میں ریلیز ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 19۔2018 کے مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ 7.1 فیصد سے کم ہو کر 6.6 فیصد ہو گیا۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی معیشت کو ہر سال کم از کم سات فیصد بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ماہ لیبر مارکٹ میں شامل ہونے والے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا ہو سکیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
جنگ ہوئی تو نتیجہ ایران کا خاتمہ ہو گا : صدر ڈونلڈ ٹرمپ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو اس کا نتیجہ ایران کا خاتمہ ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ تہران امریکہ کو دھمکیاں دینا چھوڑ دے اگر ایران جنگ چاہتا ہے تو اس جنگ میں ایران مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ تاہم صدر نے اپنے پیغام کی مزید وضاحت نہیں کی۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ ایران سے جنگ کے امکان کو رد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں تاہم مبصرین کے نزدیک صدر کا تازہ بیان پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے مشرق وسطی میں کشیدگی کے پیش نظر جنگی بیڑا بھی خلیج فارس میں تعینات کر دیا ہے جبکہ وہ ایک لاکھ 20 ہزار فوجی بھی خطے میں تعینات کرنے پر غور کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق بغداد میں ہوئے راکٹ حملے سے امریکی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم امریکہ اس حملے کو نہایت سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے کہا کہ امریکہ خطے میں اپنی تنصیبات پر حملے برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حملوں کے ذمہ دار ایران نواز عسکریت پسند گروپ ہیں امریکہ ایسی کارروائیوں کا بھرپور جواب دے گا۔
اس سے قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر بھی واضح کر چکے ہیں کہ سعودی عرب جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتا تاہم وہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
سعودی عرب کے آئل پمپنگ اسٹیشنز پر ہوئے ڈرون حملوں کی ذمہ داری بھی ایران نواز حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ جبکہ متحدہ عرب امارات میں خلیج عمان کے قریب دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت چار تیل بردار جہازوں میں تخریب کاری کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ خطے کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عرب ممالک کا اجلاس مکہ میں طلب کیا ہے۔ جبکہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی فوج نے خلیج عمان میں گشت بڑھا دیا ہے۔ کشیدگی کے باعث خلیج میں امریکی جنگی جہازوں کی نقل و حمل میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی ایران پر لگنے والی امریکی پابندیوں کے باعث شروع ہو ئی جس کے تحت امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنی ختم کر دیا تھا۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ طے پانے والے 2015 کے جوہری معاہدے سے بھی الگ ہو گئے تھے۔ جس کے جواب میں ایران نے بھی جوہری معاہدے سے الگ ہو کر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ امریکہ نے بھی واضح کیا تھا کہ وہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
کیا ایران امریکا جنگ ناگزیر ہے ؟
جانے دیجیے یہ بحث کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بارے میں چار برس پہلے امریکا کی طرف سے جس اوباما نے مشترکہ عالمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اسی امریکا کے ٹرمپ کو آخر اس معاہدے میں ایسے کیا کیڑے نظر آنے لگے جو باقی ضمانتیوں ( فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس، چین ) کو اب تک دکھائی نہیں دے رہے۔ اس بحث کا وقت بھی گذر گیا کہ قصور وار امریکا ہے جس نے سال بھر پہلے اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کر کے ایران کا ایک بار پھر اقتصادی حقہ پانی بند کرنا شروع کر دیا یا پھر قصور وار ایران ہے جس نے اس معاہدے کے بعد ڈھیلی ہونے والی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی کو اندرونِ ملک عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کے بجائے اپنے علاقائی اثرونفوذ میں اضافے کی سیڑھی بنایا یا پھر امریکا کی جانب سے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے بعد تیل کی آمدنی میں مسلسل کمی کے سبب مغربی طاقتوں کو حال ہی میں خبردار کیا کہ اگر ساٹھ دن کے اندر جوہری معاہدے کے دیگر ضمانتیوں نے اس کی اقتصادی مشکلات کا شکنجہ ڈھیلا کرنے میں مدد نہ کی تو تنگ آمد ایران دوبارہ یورینیم کو ہتھیاروں کے معیار تک افزودہ کرنے کا کام شروع کر دے گا۔
یہ بحث بھی اب پرانی ہو چکی ہے کہ آیا سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت اور اسرائیل امریکا کو جنگ پر اکسا رہے ہیں یا پھر واشنگٹن میں بیٹھے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ٹائپ عہدیدار ٹرمپ کو سمجھا رہے ہیں کہ خدا نے انھیں امریکا کا صدر ہی اس لیے بنایا ہے کہ وہ اسرائیل اور دیگر عرب اتحادیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایران کو تباہ کر دیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ خلیجِ فارس میں طیارہ بردار امریکی بحری بیڑے کی آمد بی باون بمبار طیاروں کو قطر اور امارات کے امریکی فضائی اڈوں پر اتارے جانے اور علاقے میں میزائل شکن پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریاں پہنچانے اور چار آئل ٹینکروں کے سبوتاژ ہونے اور ایک سعودی تیل پائپ لائن پر ڈرون حملے اور سعودی عرب کی جانب سے خلیجی ریاستوں کا ہنگامی اجلاس بلائے جانے اور عراق سے غیر ضروری امریکی سفارتی عملے کی گھر واپسی کے سبب جو ماحول بن رہا ہے اس کے نتیجے میں ایران اور امریکا میں جنگ ہو گی کہ نہیں ؟
جو لوگ اس سوال کا جواب صدر ٹرمپ کی ٹویٹر ٹائم لائن میں ڈھونڈھ رہے ہیں وہ شائد تجزیاتی خسارے میں رہیں۔ کیونکہ ٹرمپ کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر انھوں نے رات کو سونے سے پہلے ٹویٹ کیا کہ شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم یونگ ان ایک شریف آدمی ہیں تو ضروری نہیں کہ صبح جب ٹرمپ اٹھیں تو ان کے خیالات وہی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ صبح کا پہلا ٹویٹ یہ ہو کہ شمالی کوریا کا ڈکٹیٹر کم یونگ ان ایک لفنگا ہے اور میں اسے صرف ایک بٹن دبا کے تباہ کر سکتا ہوں۔ عین ممکن ہے دوپہر کو ٹرمپ ٹویٹ کر دیں کہ امریکا چین کی اسٹیل مصنوعات پر ڈھائی سو فیصد ڈیوٹی لگا رہا ہے اور شام کو ٹویٹ کر دیں کہ ژی زن پنگ ( چینی صدر ) بھائیوں جیسا ہے اس سے مل کر مسئلے کا حل نکل آئے گا۔ قطعاً ضروری نہیں کہ ان دونوں ٹویٹس سے پہلے ٹرمپ نے اپنے سیکریٹری خزانہ یا تجارت کے سیکریٹری سے مشورہ کیا ہو۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ امریکا کی اس وقت دو خارجہ پالیسیاں ہیں۔ ایک وہ جسے ٹویٹر ہینڈل کرتا ہے اور دوسری وہ جو دفترِ خارجہ کا دردِ سر ہے۔
ٹرمپ کے ٹویٹ زدگان میں کوئی بھی اپنا پرایا ہو سکتا ہے۔ جیسے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسرائیلی عام انتخابات سے قبل جب وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے یروشلم میں ملاقات کر رہے تھے تو اچانک ٹویٹر پر ایک لائن چمکی ’’ امریکا گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرتا ہے‘‘۔ یہ لائن پڑھتے ہی پومپیو اور نیتن یاہو کو زور کا جھٹکا لگا۔ نیتن یاہو کا منہ خوشی سے اور پومپیو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور پھر دونوں نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔ ( یہ روداد موقر اسرائیلی اخبار ہارتز میں شائع ہوئی )۔ ایران کے معاملے میں بھی ٹرمپ کے ٹویٹ پر بھروسہ کرنا اور یہ آنکڑا لگانا کہ جنگ ہو گی کہ نہیں تجزیاتی خودکشی کے برابر ہے۔ مثلاً تین دن پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ کشیدگی ضرور ہے مگر جنگ کا امکان نہیں۔ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ایران پر دباؤ برقرار رہے گا مگر جنگ کی نوبت شائد نہ آئے۔ لیکن کل ہی صدر ٹرمپ نے بالکل الٹ ٹویٹ کر دیا ’’ جنگ ہوئی تو اس کا مطلب ایران کا مکمل خاتمہ ہو گا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ دو دن میں ایسا کیا ہو گیا کہ ٹرمپ کا دماغ پھر الٹ گیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم الجزیرہ کی رپورٹر پیٹی کیلاہان نے اس ٹویٹ کی فارسی سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے ٹرمپ کے سامنے ایرانی عزائم کے بارے میں کچھ کلاسیفائیڈ معلومات رکھی گئی ہوں جنھیں پڑھ کے ان کا پارہ چڑھ گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے کسی ٹی وی چینل پر ایران کے بارے میں کوئی ایسی رپورٹ دیکھ لی ہو جس سے ان کا دماغ گھوم گیا ہو۔ مگر ہوا میں شمشیر زنی اپنی جگہ۔ کیا واقعی امریکا ایران کو براہ راست فوجی نشانہ بنائے گا؟ امریکا کو ایران کے ہمسائیہ ملک افغانستان سے نکلنے کی بھی عجلت ہے اور امریکا جانتا ہے کہ اس وقت ایران اور طالبان کی قربت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ روس نہ صرف مشرقِ وسطی میں ایران کا سٹرٹیجک ساجھے دار ہے بلکہ ایران میں روس نے خاصی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ چین کو ایرانی تیل کی کتنی ضرورت ہے۔ اور چین اور روس سے امریکا کے مجموعی تعلقات عدمِ اعتماد کے کس غار میں پڑے ہوئے ہیں۔ امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ ایران کا شمالی ہمسائیہ ترکی قطر سعودی سرد جنگ میں کھل کے قطر کے ساتھ ہے اور ایران بھی اس ساجھے داری میں شریک ہے اور قطر ان ممالک میں سے ہے جن کی تحویل میں گیس کے سب سے بڑے عالمی ذخائر ہیں اور ایران ان ذخائر میں پارٹنر ہے۔ جب کہ ناٹو کا رکن ہونے کے باوجود ترکی کی اس وقت امریکا کے بجائے روس سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ بلکہ ترکی تو بذاتِ خود امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔ امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ عراق پر اس کا اثر و نفوذ جتنا بھی گہرا سہی مگر تاریخی و مذہبی اعتبار سے ایران سے زیادہ گہرا نہیں ہو سکتا۔
امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ جنگ کی صورت میں بھلے کامیابی امریکا ہی کی کیوں نہ ہو مگر خلیجی ریاستیں بشمول سعودی عرب اور ایران کا مشرقی ہمسائیہ پاکستان اس جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے اقتصادی جھٹکوں سے شائد بہت عرصے تک سنبھل نہ پائیں۔ اور سب سے بڑی بات کہ خلیجِ فارس اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں ایک درمیانے درجے کی جنگ بھی آخری جنگ ہو گی۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ گرج چمک کے ساتھ بوندا باندی کا تو امکان ہے مگر گہرے بادلوں کے باوجود موسلادھار بارش مشکل ہے۔ بھلے ٹرمپ صاحب کتنا بھی ٹوٹیاتے رہیں اور ایران کتنے بھی الٹی میٹم دیتا رہے اور سعودی عرب ، امارات و اسرائیل بطور چئیر لیڈر امریکی ہاتھی کو مست کرنے کے لیے کتنے بھی ٹھمکے لگا لیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
↧
ہواوے کا اپنا آپریٹنگ سسٹم بنانے کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی کمپنی ہواوے کو بلیک لسٹ کرنے کے بعد گوگل نے بھی ہواوے کے ساتھ کاروبار معطل کر دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہواوے استعمال کرنے والے صارفین فی الحال تو اینڈرائڈ ایپس اور گوگل پلے سروس کو استعمال کر سکیں گے تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں سال گوگل کے اگلے ورژن کے لانچ ہونے کے بعد یہ ہواوے کی ڈیوائسز پر دستیاب نہیں ہو سکیں گی۔ البتہ ہواوے کے صارفین اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم اوپن سورس لائسنس کے ذریعے اس نئے ورژن کو استعمال کرسکیں گے۔ خیال رہے کہ یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی کمپنی ہواوے کو ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل کیا جو امریکی فرمز کے لائسنس کے بغیر کاروبار نہیں کر سکیں گی۔
ہواوے کا اپنا آپریٹنگ سسٹم بنانے کا اعلان
دوسری جانب ہواوے کمپنی کی ڈیوائسز پر گوگل اور اینڈرائیڈ سسٹم کی رسائی معطل ہونے پر ہواوے کمپنی نے اپنا آپریٹنگ سسٹم بنانے کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ ہواوے کے موبائل چیف رچرڈ یو چینگ ڈونگ کا کہنا تھا کہ اگر ہواوے پر گوگل اور اینڈرائیڈ سروسز مستقل طور پر معطل ہو گئیں تو ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان کی کمپنی نے پہلے سے ہی اپنا ایک آپریٹنگ سسٹم تیار کر لیا ہے۔ کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ضرورت پڑنے پر موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے لیے اس سسٹم کو متعارف کروا دیا جائے گا۔ گوگل کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ گوگل کے اس اقدام کے بعد دنیا بھر میں بڑی تعداد میں موجود ہواوے کے موبائل فونز پر اثر پڑے گا۔ تاہم اس حوالے سے رچرڈ یو چینگ ڈونگ نے کہا کہ وہ اس قسم کی ہر صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
صحرائے گوبی : جسکا رقبہ پاکستان سے بھی بڑا ہے
صحرائے گوبی وسطی ایشیا میں واقع ہے۔ منگولیائی زبان میں گوبی کا مطلب ہے ’’بے آب جگہ‘‘۔ یہ صحرائی و نیم صحرائی علاقہ منگولیا اور چین کے بہت بڑے حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ گوبی کا زیادہ تر حصہ ریت کے بجائے چٹانوں پر مشتمل ہے۔ اس حصے پر کار کی مدد سے کسی بھی سمت طویل ڈرائیو کرنا ممکن ہے۔ اگر شمال کی جانب جائیں تو الٹائی اور ہنگیان سلسلہ کوہ آتے ہیں، مشرق کی جانب ڈاہنگان سلسلہ کوہ آتا ہے، جنوب کا رخ کیا جائے تو بی ماؤنٹینز اور ہوانگ ہی کی وادی آتی ہے۔ مغرب کی جانب اس کی حدیں ایغور خودمختار علاقے سنکیانگ تک جاتی ہیں۔ صحرائے گوبی کا رقبہ 13 لاکھ مربع کلومیٹر ہے یعنی یہ پاکستان سے بڑا صحرا ہے۔
اس کے میدانوں میں پائی جانے والی چٹانیں اندازاً چھ کروڑ 60 لاکھ برس پرانی ہیں۔ صحرائے گوبی کے مرکز میں ’’میسوزویک دور‘‘ (تقریباً چھ کروڑ 60 لاکھ سے 25 کروڑ 20 لاکھ سال قبل) کے ڈائنوسارس کے فاسلز ملے ہیں۔ یہاں قدیم میملز کے فاسلز بھی ملے ہیں۔ یہاں ابتدائی اور اختتامی دور حجری کے انسانوں کے آثار ملے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں منگولیا میں ہونے والی ایک کھدائی میں 35 ہزار برس پرانے اوزار، زیوارت وغیرہ ملے۔ یہاں کے موسم میں سال بھر خاصی تبدیلی آتی ہے۔ سرما انتہائی سرد ہوتا ہے، بہار خشک اور سرد اور گرما گرم ہوتا ہے۔ جنوری میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ ہو سکتا ہے اور جولائی میں درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ سے زائد ہو سکتا ہے۔
بارش مختلف مقامات پر مختلف ہوتی ہے۔ یہ مغرب میں دوانچ (50 ملی میٹر) سے کم ہو سکتی ہے اور شمال مشرق میں آٹھ انچ سے زیادہ۔ خزاں، سرما اور بہار میں گوبی میں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ صحرا میں عام طور پر پودے بکھرے ہوئے ہیں اور سبزہ کم کم ہے۔ یہاں پر کچھ مفید جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہاں پر مختلف قسم کے جانور پائے جاتے ہیں جن میں جنگلی اونٹ جیسے بڑے جانور بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غزال، چکارا اور مختلف رینگنے والے جانور ہیں۔ یہاں جنگلی گھوڑے کی ایک قسم بھی پائی جاتی تھی جسے Przhevalsky کہا جاتا ہے لیکن اب صحرا میں یہ ناپید ہو چکی ہے۔
یہاں ایک عجیب و غریب میمل پایا جاتا ہے جسے روڈنٹ کہتے ہیں۔ صحرا میں انسانی آبادی بہت کم ہے۔ اوسطاً یہاں ایک مربع کلومیٹر میں ایک فرد رہتا ہے۔ یہاں کی مقامی آبادی خانہ بدوش ہے اور مویشی پال کر گزارہ کرتی ہے۔ البتہ صحرا کے چینی علاقوں میں زراعت نے ترقی کی ہے۔ صحرائے گوبی کے جو علاقے نیم صحرائی ہیں ان میں مال مویشی بالخصوص بھیڑ بکری پالنے کا کام مقامی معیشت کا اہم ستون ہے۔ اس کے بعد بڑے سینگ والی گائے کی اہمیت ہے۔ یہاں نقل و حمل کے لیے اونٹ بھی پالے جاتے ہیں۔ مال مویشی پالنے کا کام عموماً خانہ بدوشی کی حالت میں کیا جاتا ہے۔ صحرا میں نمک، کوئلہ، پیٹرولیم، تانبا اور دیگر معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔
قدیم شاہراہِ ریشم گوبی کے ایک حصے سے گزر کر جاتی تھی اس لیے تجارتی مقاصد کے لیے سفر کرنے والے ایشیائی اس صحرا سے واقف تھے، لیکن یورپیوں کو پہلی بار تیرہویں صدی میں مشہور سیاح مارکوپولو کے توسط سے معلوم ہوا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں یورپیوں کی اس علاقے میں دلچسپی بڑھی۔ روسیوں اور برطانویوں نے اس کے جغرافیائی جائزے لیے۔ اس کے بعد سوویت یونین گوبی کے جغرافیائی جائزے لیتا رہا۔ 1960ء کے بعد اس کام میں چینی اور منگولیائی سرگرمی سے حصہ لینے لگے۔ یہاں پر غاروں کے ساتھ موجود بدھ متوں کی عمارتیں سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہیں۔
یہ چین کے صوبہ گانسو میں واقع ہیں اور یونیسکو نے 1987ء میں انہیں عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔ بدھوں کے یہ ٹمپل چوتھی سے دسویں صدی عیسویں میں بنائے گئے۔ ان میں موجود مصوری اور تحریریں بہت حد تک محفوظ ہیں۔ صحرائے گوبی کا جو حصہ منگولیا میں ہے وہاں منگولیائی، روسی اور امریکی ماہرین آثارِ قدیمہ نے 1990ء دہائی میں پتھر کے زمانے کی انسانی غاروں کو تلاش کیا۔
محمد ریاض
↧
ماؤنٹ سینٹ ہیلنز : اس کی وجہ شہرت اس کا آتش فشانی ہونا ہے
ماؤنٹ سینٹ ہیلنز امریکی ریاست واشنگٹن میں واقع ہے۔ اس کی وجہ شہرت اس کا آتش فشانی ہونا ہے۔ اس کا نام برطانوی سفارت کار لارڈ سینٹ ہیلنز سے منسوب ہے، جس نے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں اس علاقے کا سروے کیا۔ بڑی آتش فشانی سے قبل چوٹی سے بھاپ نکلنے کا آغاز 27 مارچ 1980ء سے ہونے لگا تھا۔ 18 مئی 1980ء کو امریکی تاریخ کا سب سے مہلک اور معاشی لحاظ سے تباہ کن آتش فشانی دھماکا ہوا۔ اس کے نتیجے میں 57 افراد ہلاک ہوئے، 250 گھر، 47 پل، 24 کلومیٹر ریلوے لائن اور 298 کلومیٹر ہائی وے تباہ ہوئی۔ آتش فشاں کے پھٹنے کے ساتھ زلزلہ آیا جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 5.1 تھی۔
اس سے چوٹی پر 1.6 کلومیٹر وسیع گڑھا پڑ گیا۔ دھماکے کے بعد پورے علاقے میں دھول چھا گئی۔ 500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر درخت گر گئے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ چوٹی کا بالائی حصہ اڑ گیا اور اس کی کل اونچائی کم ہو گئی۔ اس کے بعد ایک بار پھر 1986ء میں یہاں سے لاوا برآمد ہوا۔ یہ پہاڑی 1989، 1991، 1995 اور 1998ء میں بھی متحرک ہوئی۔ 1982ء میں اس پہاڑی کے اردگرد 445 کلومیٹر رقبے کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے سائنسی تحقیق کے لیے وقف کر دیا گیا۔ یہاں لاوا اور آتش فشانی کے اثرات کا مطالعہ کیا جانے لگا۔
محمد شاہد
↧
امریکہ کا مشرقِ وسطیٰ میں مزید فوج کی تعیناتی پر غور
امریکی حکام نے کہا ہے کہ محکمۂ دفاع (پینٹاگون) ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ بعض امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ پینٹاگون کے اعلیٰ حکام عن قریب وائٹ ہاؤس کو ایک مجوزہ منصوبے پر بریفنگ دینے والے ہیں جس کے تحت مزید کئی ہزار امریکی فوجی اور بھاری اسلحہ مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی تجویز ہے۔ حکام کے مطابق پینٹاگون سے مزید فوجی اہلکار، جنگی جہاز اور میزائل مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی درخواست امریکی فوج کی سینٹرل کمان نے کی ہے اور اس پر وائٹ ہاؤس کو بریفنگ دیے جانے کا امکان ہے۔
لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا وائٹ ہاؤس سینٹ کام کی یہ درخواست منظور کرے گا یا نہیں۔ پینٹاگون نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ مستقبل کے دفاعی منصوبے پر رائے دینا محکمے کی پالیسی نہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہو گئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں بحال کر دی تھیں جو رواں ماہ موثر ہوئی ہیں۔
ان پابندیوں کے موثر ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے جس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے اپنا طیارہ بردار جہاز، جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں اپنے مفادات پر ایران کے ممکنہ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر اٹھایا ہے۔ لیکن ایران امریکہ کے اس اقدام پر سخت برہم ہے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری ہے۔ اگر وائٹ ہاؤس نے مزید فوجی اہلکار اور اسلحہ مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی سینٹ کام کی درخواست منظور کر لی تو یہ صدر ٹرمپ کے موقف کے برخلاف اقدام ہو گا جو صدر بننے کے بعد سے بارہا بیرونِ ملک تعینات امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلانے کی حمایت کر چکے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
سمندروں کی سطح بلند ہونے سے 18 کروڑ افراد بے گھر ہو جائیں گے
پوری دنیا میں سمندروں کی اوسط سطح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ کرہ ارض کے مستقل برفانی ذخائر کا پگھلاؤ ہے اوراس صدی کے اختتام تک کروڑوں افراد نقل مکانی پرمجبور ہو سکتے ہیں۔ امریکا میں ماہرین نے نیشنل اکیڈمی آف سائنسس کی پروسیڈنگز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گزشتہ 40 سال کے مقابلے میں اب گرین لینڈ کی برف پگھلنے کی رفتار 6 گنا بڑھ چکی ہے۔ 1980 کے عشرے میں گرین لینڈ کی برف پگھلنے کی شرح بھی کئی گنا بڑھی ہے یعنی اس وقت سالانہ 40 ارب ٹن برف پانی میں گھل رہی تھی اور اب سے اس کی شرح 252 ارب ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس برف پگھلنے سے انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر اگلے 80 برس میں زمین کا اوسط درجہ حرارت 5 درجے سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے تو اس سے سمندروں کی سطح انچوں میں نہیں بلکہ فٹوں میں بڑھ سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے 80 برس یعنی 2100 تک شنگھائی سے لے کر نیویارک تک کے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہوں گے جس کی وجہ سے 18 کروڑ 70 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دنیا پگھلتے برف کو نظرانداز کر رہی ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
امریکا میں واقع نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے مطابق گرین لینڈ کا رقبہ ٹیکساس سے تین گنا بڑھا ہے اور اگر اس میں انٹارکٹیکا کو بھی شامل کر لیا جائے تو پوری دنیا کا 99 فیصد میٹھا پانی برف کی صورت میں یہاں موجود ہے۔ اس کا پگھلنا کسی سانحے سے کم نہ ہو گا۔ دونوں خطوں میں برف کی پرتیں تین کلومیٹر تک بلند ہیں ۔ انسانوں کی جانب فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے بے تحاشہ اخراج سے اب سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی سکت ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد زمینی درجہ حرارت بڑھنے سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندروں کی اوسط سطح بلند ہو رہی ہے اور دنیا کی دو سے ڈھائی فیصد آبادی اس کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو گی۔
بشکریہ ایکسپریس اردو
↧
ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک ہفتے میں دس کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران رواں ہفتے 10 کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی وجہ مبینہ طور پر ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑنے والے ’خطرناک رش‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ نیپالی حکام کے مطابق صرف گذشتہ منگل کو 120 سے زائد کوہ پیماؤں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ ان میں سے کچھ رش کی وجہ سے ڈھلوان پر پھنس گئے جس کے بعد تھکن اور پیاس کی شدت سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ 8 ہزار 850 میٹرز یعنی 29 ہزار 35 فٹ بلند ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کے دوران بھارت سے تعلق رکھنے والے تین کوہ پیما، جن میں دو خواتین اور ایک مرد شامل تھا، تھکن سے ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کوہ پیما 54 سالہ انجلی شردھ کلکرنی، 49 سالہ کلپنا داس جبکہ مرد کوہ پیما 27 سالپ نہال اشپک بگوان شامل ہیں۔
ٹور انتظامیہ کے مطابق بگوان رش کی وجہ سے 12 گھنٹے تک ڈھلوان پر پھنسے رہے اور وہ بری طرح تھک چکے تھے۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایک کوہ پیما کی بھی ہلاکت ہوئی۔ 44 سالہ برطانوی کوہ پیما روبن فشر ہفتے کی صبح چوٹی تک پہنچ گئے تھے، تاہم پھر وہ ڈھلوان سے 150 میٹرز نیچ گر کر ہلاک ہو گئے۔ ٹور انتظامیہ سے منسلک موراری شرما نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمارے گائیڈز نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ فوراً ہی دم توڑ گئے۔‘ ماؤنٹ ایورسٹ پر تبت کی جانب بھی ایک 56 سالہ آئرش کوہ پیما کی موت واقع ہوئی، جس کی تصدیق ان کی ٹور انتنظامیہ نے فیس بک پیج کے ذریعے کی۔
مذکورہ کوہ پیما نے چوٹی سر کیے بغیر ہی واپسی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وہ 22 ہزار 965 فٹ کی بلندی پر اپنے خیمے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ صرف اس سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک افراد کی تعداد گذشتہ سال میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ گذشتہ برس یہ تعداد پانچ تھی۔ نیپالی حکومت کی جانب سے اس سال ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کے لیے 380 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 365 تھی۔ 2016 میں 289 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔ اس سے قبل اس ہفتے ہلاک ہونے والے دیگر کوہ پیماؤں میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ شخص بھی شامل تھے جو تبت کی شمالی سمت میں ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں ایک اور بھارتی اور امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والے 55 سالہ امریکی کوہ پیما ڈان کیش نے ایورسٹ کو سر کر کے ہر براعظم میں بلند ترین چوٹی سر کرنے کا اپنا خواب پورا کر لیا تھا۔ گائیڈ مہیا کرنے والی کمپنی پائنیر ایڈوینچر کے سربراہ پسنگ تنیجا کہتے ہیں: ’جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو وہ گر پڑے۔ ان کے ساتھ موجود افراد نے ان کو مساج اور مصنوعی سانس دینے کی کوشش کی جس کے بعد وہ ہوش میں آگئے لیکن کچھ دیر بعد ہیلری سٹیپ کے قریب وہ دوباہ گر گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں بلند مقام پر رہنے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔‘ ایورسٹ بلاگر ایلن آرنیٹ کے مطابق جمعرات کو تبت کی جانب سے آنے والے افراد میں ایک سوئس کوہ پیما ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیما کا نام ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر سیموئس لالیس بھی 16 مئی کے بعد سے نہیں دیکھے گئے۔ مارچ سے شروع ہونے والے اس کوہ پیمائی کے سیزن میں ہمالیہ کی مختلف چوٹیوں پر 17 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سات کا تعلق بھارت سے ہے۔ آرنیٹ اپنے بلاگ میں کہتے ہیں: ’تیز ہوائیں واپس آچکی ہیں اور پہاڑ کے دونوں اطراف میں لوگوں کی بڑی تعداد رش کا سبب رہی ہے۔ اس بار پہاڑ سر کرنے کے مواقع کم مل رہے ہیں۔‘ واضح رہے کہ بلند مقام پر آکسیجن کی کم مقدار کے باعث انسان اکثر سر درد، قے، سانس لینے میں دشواری اور دماغ ماؤف ہونے جیسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
ہواوے امریکی پابندیوں سے کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے؟
امریکی پابندیوں کی شکار چین کی اسمارٹ فونز بنانے والی کمپنی ہواوے کی ڈیوائسز کی فروخت میں رواں سال 25 فیصد کمی آنے کا امکان ہے جبکہ اس کے اسمارٹ فونز عالمی مارکیٹس سے غائب ہو سکتے ہیں۔ خبررساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ اگر امریکی پابندی برقرار رہی تو دنیا کی دوسری بڑی اسمارٹ فون کمپنی ہواوے کی ڈیوائسز کی فروخت میں 2019 کے دوران 4 سے 24 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ ہواوے فونز کی شپمنٹس میں اگلے 6 ماہ تک کمی آئے گی مگر درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ پابندی کے حوالے سے کافی کچھ غیریقینی ہے۔
امریک اور چین سے جاری تجارتی جنگ میں شدت آنے کے بعد امریکی محکمہ تجارت نے گزشتہ ہفتے ہواوے کو امریکی مصنوعات کی خریداری سے روک دیا تھا اور اس کا اطلاق امریکی ساخہ ٹیکنالوجی اور میٹریلز پر کیا گیا جبکہ ممکنہ طور پر امریکا سے باہر کمپنیاں بھی اس کی زد میں آسکتی ہیں، مگر فی الحال امریکی محکمے نے ہواوے کو 3 ماہ کے لیے عارضی ریلیف دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل اور چپ ڈیزائنر اے آر ایم نے ہواوے سے اپنے تعلقات منطقع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رائٹرز سے بات کرتے ہوئے اسٹرٹیجی اینالیٹکس کی وائرلیس اسمارٹ فون اسٹرٹیجز ڈائریکٹر لنڈا سوئی کا کہنا تھا 'اگر گوگل سروسز تک رسائی ختم ہو گی تو ہواوے مغربی یورپ کی اسمارٹ فون مارکیٹ سے اگلے سال تک باہر ہو سکتی ہے'۔
انہوں نے پیشگوئی کی کہ ہواوے فونز شپمنٹس میں اگلسے سال تک مزید 23 فیصد کمی آئے گی مگر ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ کمپنی چینی مارکیٹ کے حجم کے باعث خود کو بحران سے باہر نکال لے گی۔ دوسری جانب فیوبون ریسرچ اینڈ اسٹرٹیجی اینالیٹکس نے کچھ عرصے پہلے پیشگوئی کی تھی کہ ہواوے دنیا بھر میں 2019 کے دوران 25 کروڑ 80 لاکھ اسمارٹ فونز فروخت کرے گا مگر اب اس کا کہنا ہے کہ بدترین منظرنامے میں یہ تعداد 20 کروڑ تک رہنے کا امکان ہے۔
انڈسٹری ٹریکر آئی ڈی سی کے مطابق ہواوے کا اس وقت عالمی مارکیٹ میں 30 فیصد شیئر ہے اور اس نے گزشتہ سال دنیا بھر میں 20 کروڑ سے زائد فونز فروخت کیے، جن میں سے 50 فیصد چین سے باہر تھے۔
ہواوے یورپ کو اپنے فلیگ شل فونز کے لیے اہم ترین مارکیٹ تصور کرتی ہے۔
ہواوے کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی ٹیکنالوجی کو تیار کیا ہے جو برسوں تک خود انحصاری کے لیے کافی ثابت ہو گی مگر ماہرین کمپنی کے دعویٰ سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہواوے ڈیوائسز کے لیے درکار پرزہ جات اور دیگر امریکا سے باہر دستیاب نہیں۔ ایک ماہر اسٹیورٹ رینڈل کے مطابق 'ہواوے کو ممکنہ طور پر ہزاروں افراد کو نکالنا ہو گا اور کچھ وقت کے لیے عالمی مارکیٹ سے غائب ہونا ہو گا'۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا تھا کہ ہواوے فونز کو خریدنے والوں کو فلیگ شپ ڈیوائسز کے لیے ممکنہ طور پر سام سنگ اور ایپل کا رخ کرنا ہو گا جبکہ مڈرینج فونز کے لیے اوپو اور ویوو کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
آئی ڈی سی میں گلوبل اسمارٹ فونز ریسرچر برائن ما کے مطابق ہواوے کو مارکیٹ میں اپنا کافی شیئر حریف کمپنیوں کے حوالے کرنا پڑ سکتا ہے خصوصاً سام سنگ کو یورپ جیسے خطوں میں مضبوط ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
پرائس اسپائی نامی ایک پراڈکٹ سائٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ہواوے فونز کے لیے آن لائن شاپرز کی جانب سے کلک بہت کیے جارہے ہیں۔ سائٹ کا کہنا تھا 'گزشتہ 4 دنوں کے دوران ہواوے فونز مقبولیت میں نیچے گر گئے ہیں جبکہ برطانیہ میں ان پر کلکس میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 50 فیصد کمی آئی ہے جبکہ عالمی سطح پر 26 فیصد کمی دیکھنے میں آئی'۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧