↧
سڈنی اوپیرا ہاؤس : جدید طرز تعمیر کی عمدہ مثال
↧
دنیا بھر میں جنگی اخراجات میں اضافہ
سویڈش ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک نے عسکری شعبے میں اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور یہ ممالک جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ سپری کے مطابق گزشتہ برس عالمی سطح پر دفاعی شعبے میں خرچ کیا جانے والا سرمایہ 1.822 ٹریلین امریکی ڈالر تھا، یعنی 2017 کے مقابلے میں 2.6 فیصد زائد ہے۔ سِپری کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں عسکری شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کرنے والا ملک بدستور امریکہ تھا، جہاں 2017 کے مقابلے میں گزشتہ برس 4.6 فیصد زائد سرمایہ خرچ کیا گیا۔ سپری کے مطابق سات برس کےدوران پہلی مرتبہ عسکری شعبے میں سرمایے کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور سلسلہ آئندہ کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
امریکہ میں 2019 اور 2020 میں فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس شعبے میں اگلے 20 برس میں 1.8 ٹریلین ڈالر سرمایہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں روایتی ہتھیاروں سے لے کر جوہری صلاحیتوں تک میں اضافہ شامل ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق دفاع اخراجات کے اعتبار سے جرمنی دسویں نمبر پر ہے، جس نے گزشتہ برس اپنے جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ دو فیصد حصہ خرچ کیا، تاہم امریکہ کی جانب سے جرمنی پر دباؤ ہے کہ نیٹو کے رکن ملک کی حیثیت سے مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرے۔
جرمن حکومت نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے 2024 تک کا وقت رکھا ہے۔ نیٹو کے رکن ممالک نے اس سلسلے میں اتفاق کیا تھا، تاہم جرمنی میں ایک بڑا طبقہ دفاعی شعبے میں اخراجات میں اضافے کے خلاف بھی ہے۔ سیپری کے مطابق فرانس اور برطانیہ بھی دفاع کے شعبے میں اخراجات کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں۔ تاہم روس فہرست میں چوتھے سے چھٹے مقام پر چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ روس کی جانب سے کم سرمایہ خرچ کرنا نہیں بلکہ روسی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی تھی۔ سپری کے مطابق گزشتہ برس روسی عسکری اخراجات میں 3.5 فیصد کمی کی بنیادی وجہ افراط زر میں اضافہ تھا۔ مقامی کرنسی میں دیکھا جائے تو روس نے 2017 اور 2018 میں ایک جتنا سرمایہ خرچ کیا۔ اس فہرست میں پاکستان دنیا میں 20 نمبر پر ہے۔ سپری کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس گیارہ اعشاریہ چار ارب ڈالر دفاع کے شعبے میں خرچ کیے۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
↧
بحیرۂ روم کی قدیم تاریخ
بحیرۂ روم افریقہ، یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک سمندر ہے۔ اردو میں اسے بحیرۂ متوسط یا بحیرۂ ابیض بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کم و بیش سارا خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ شمال میں اس کی سرحد یورپ، مشرق میں ایشیا اور جنوب میں افریقہ سے ملتی ہے۔ اس بحیرہ کی تاریخی، ثقافتی اورتجارتی اہمیت مسلّم ہے۔ مغرب میں یہ آبنائے جبل الطارق کے ذریعے بحرِ اوقیانوس سے ملا ہوا ہے۔ جنوب مشرق میں نہر سویز کے ذریعے یہ بحیرۂ قلزم سے مل جاتا ہے۔ یہ بحیرہ درہ دانیال اور آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرۂ مرمرہ اور بحیرۂ اسود سے منسلک ہے۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ 59 لاکھ برس قبل یہ بحرِ اوقیانوس سے علیحدہ ہوا۔
یہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جو پوری دنیا کے سمندری رقبے کا 0.7 فیصد بنتا ہے۔ بحیرۂ روم کی اوسط گہرائی 49 سو فٹ ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 17,280 فٹ ہے۔ یہ بحیرہ زمانہ قدیم سے تجارت اور سیاحت کے لیے بہت اہم رہا ہے ۔ اسی کے سبب مختلف ثقافتوں اور علاقوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو جانا اور اشیائے ضروریہ کا تبادلہ کیا۔ وسائل اور بحری راستوں پر قبضے کے لیے یہاں بہت سی جنگیں ہوئیں۔ نسبتاً معتدل موسم، زرعی پیداوار اور تجارت کے سبب یہاں انسانی آبادی زمانہ قبل از تاریخ سے موجود ہے۔ دنیا کی بہت سی قدیم تہذیبوں نے اس کے ساحلوں پر جنم لیا۔
اس کے ساحلوں پر موجود ثقافتوں میں بہت سی مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں. کیونکہ یہاں کا موسم اور جغرافیہ ملتا جلتا ہے۔ اس کے ساحلوں پر جنم لینے والی دو مشہور تہذیبوں میں یونانی اور فونیشیائی شامل ہیں۔ ان دونوں تہذیبوں نے بحیرہ ٔروم کے وسیع ساحلی علاقوں کو اپنی نو آبادی بنائے رکھا۔ پھر ایک زمانہ آیا جب یہ بحیرہ رومیوں کے کنٹرول میں آ گیا۔ رومی سلطنت تقریباً چار سو سال تک یہاں سیاہ و سفید کی مالک رہی اور بحری راستوں پر اس کا کنٹرول رہا۔ ساتویں صدی میں ایک اور طاقت نمودار ہوئی۔ یہ عرب مسلمان تھے جنہوں نے بحیرۂ روم کے بیشتر علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور بحری راستوں پر اپنے وجود کو ثابت کر دیا۔
اس کے نتیجے میں مغربی اور مشرقی یورپ کی باہمی تجارت متاثرہوئی۔ تاہم یورپ کی باہمی تجارت اور مشرق و مغرب کی تجارت کے لیے دوسرے راستوں کو کامیابی سے آزمایا جانے لگا۔ یہاں تجارت کو وائیکنگ کے حملوں سے بھی نقصان پہنچا۔ یہ حملہ آور شمالی یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔ آٹھویں صدی کے وسط میں یہاں بازنطینیوں کا اثرورسوخ بالخصوص شمال مشرقی علاقوں میں بڑھا۔ لیکن پھر ایک نئی طاقت نے ان کے اثر کو کم کرنا شروع کر دیا۔ عثمانیوں کی طاقت کے بڑھنے اور بازنطینیوں کے زوال کے بعد سولہویں صدی میں یہ بحیرہ سلطنتِ عثمانیہ کے کنٹرول میں چلا گیا۔
عثمانیوں نے اس کے ساحلوں پر متعدد بحری اڈے قائم کیے۔ پھر یورپ کی بحری قوت بڑھنے لگی اور انہوں نے عثمانیوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر عثمانی سلطنت زوال پذیر ہوئی اور یورپی ممالک آگے نکل گئے۔ بحیرۂ روم کے ساحلوں پر آباد بڑے شہر وں میں الجیریا، سکندریہ، مارسیلز، ایتھنز، وینس، بیروت، غزہ، خان یونس، بارسلونا، تونس، استنبول اور ازمیر شامل ہیں۔ اس میں واقع دس بڑے جزیرے اٹلی، قبرص، فرانس ، یونان اور سپین کے پاس ہیں۔
محمد اقبال
↧
وینز ویلا میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا
وینز ویلا میں جاری سیاسی بحران شدید پیچیدہ صورت اختیار کر گیا ہے اپوزیشن رہنما جوآن گائیڈو نے فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ حکمران صدر نکولس میڈیورو کا تختہ الٹ دے، دوسری جانب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملکی فوج اب بھی حکومت کی حامی اور وفادار ہے۔ وینزویلا میں حکومتی اور سیاسی بحران اس سال اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ برس بڑے پیمانے پر عوامی بائیکاٹ کے بعد نکولس میڈیورو دوسری مدت کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ 23 جنوری کو اپوزیشن کے مضبوط ترین رہنما جوآن گائیڈو نے خود کو عبوری صدر قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت کئی ممالک کی حکومتیں گائیڈو کی حمایتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ صدر نکولس کو عوام مسترد کر چکی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق جوآن گائیڈو نے فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ صدر میڈیورو کو اقتدار سے بے دخل کر دے۔ گائیڈو کی تازہ ویڈیو میں وہ اپنا مطالبہ دہرا رہے ہیں اور ان کے ساتھ فوجی لباس میں ایک شخص بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر حکومتی حلقوں کو فوری طور پر یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ صدر کا تختہ الٹنے کی ایک چھوٹی اور کمزور کوشش کی گئی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب گائیڈو نے اس فعل کو صدر میڈیورو کی اقتدار سے بے دخلی کا حتمی اور ’آخری مرحلہ‘ قرار دیا ہے۔
اگرچہ فوج نے اب تک اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے لیکن بعض تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ فوج اب بھی صدر نکولس میڈیورو کے ساتھ ہے۔ دوسری جانب وینزویلا کے بڑے شہروں میں شدید احتجاج اور جھڑپیں بھی جاری ہیں جس میں اب تک صرف ایک شہر کاراکاس میں 52 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے اطلاعات ہیں۔ امریکہ نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ صدر میڈیورا اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور وہ گائیڈو کو ذمے داریاں سونپ دیں۔ امریکا نے اس صورتحال کو فوجی بغاوت یا تختہ الٹنے کا عمل قرار دینے سے بھی گریز کیا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس اردو
↧
لندن میں جولیان اسانج کی ملک بدری کے لیے سماعت
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی امریکا ملک بدری کے لیے لندن کی ایک عدالت میں سماعت شروع ہو گی۔ ایک برطانوی عدالت نے اسانج کو ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی پر پچاس ہفتوں کی سزائے قید بھی سنا دی۔ وکی لیکس کے 47 سالہ بانی اور آسٹریلوی شہری جولیان اسانج کو برطانوی دارالحکومت لندن کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، تو عدالت نے انہیں 50 ہفتے سزائے قید کا حکم سنا دیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ سات سال قبل جب اسانج کو برطانوی عدلیہ نے ضمانت پر رہا کیا تھا، تو یہ آسٹریلوی شہری برطانیہ سے اپنی ممکنہ ملک بدری کے بعد سویڈن بھیجے جانے سے بچنے کے لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
جولیان اسانج نے 2012ء میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی اور وہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ قریب سات سال قبل اسانج نے لندن میں اپنی ضمانت کی قانونی شرائط کی خلاف ورزی اس لیے کی تھی کہ برطانوی حکام انہیں ملک بدر کر کے سویڈن نہ بھیجیں، جہاں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا تھا۔ تب اسانج کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر انہیں برطانیہ سے سویڈن بھیج دیا گیا، تو سویڈش حکام انہیں دوبارہ ملک بدر کر کے امریکا کے حوالے کر دیں گے، جہاں ان کو اپنے خلاف قانونی الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کا تعلق افغانستان اور عراق کی جنگوں میں واشنگٹن کے کردار کے بارے میں ان خفیہ امریکی دستاویزات سے ہے، جو وکی لیکس نے شائع کر دی تھیں۔
امریکا برطانیہ سے یہ درخواست کر چکا ہے کہ وہ جولیان اسانج کو ملک بدر کر کے واشنگٹن کے حوالے کرے۔ خود اسانج اپنی برطانیہ سے امریکا ملک بدری کے خلاف قانونی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس بارے میں لندن میں عدالت کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ سنائے جانے میں ممکنہ طور پر برسوں لگ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اسانج کو انہیں آج سنائی جانے والی ساڑھے گیارہ ماہ کی سزائے قید کے بعد دوبارہ ایک برطانوی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ یہ عدالت ان کی امریکا ملک بدری سے متعلق مقدمے میں اپنی ابتدائی سماعت شروع کر رہی ہے۔
جرمن حکومت خاموش
اسانج کی امریکا ملک بدری سے متعلق اس مقدمے کی سماعت کے آغاز پر کئی حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بظاہر جرمن حکومت کے لیے کسی تشویش کا باعث نہیں ہے کیونکہ برلن نے اس بارے میں اب تک مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک اہم بات اس حوالے سے لندن میں ایکواڈور کے سفیر کا ایک بیان بھی ہے۔ برطانیہ میں ایکواڈور کے سفیر خائمے مارچان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی محکمہ انصاف نے ان کے سفارت خانے کو ایک باقاعدہ درخواست دے دی ہے، جس میں اس سلسلے میں معلومات طلب کی گئی ہیں کہ ایکواڈور کے سفارت خانے میں کئی برسوں تک قیام کے دوران جولیان اسانج کس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے کو امریکا کی یہ درخواست ایکواڈور کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ذریعے موصول ہوئی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکا اور ایکواڈور کے حکام خفیہ طور پر آپس میں اس لیے اعلیٰ ترین سطح پر تعاون کرتے رہے ہیں کہ برطانیہ سے اسانج کے امریکا کے حوالے کیے جانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
جرمنی میں اسانج کے لیے سیاسی حمایت
جرمنی میں ایک سے زائد سیاسی جماعتیں اس امکان کے خلاف ہیں کہ اسانج کو برطانیہ سے ملک بدر کر کے امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ جب اسانج کو گرفتار کیا گیا تھا، تو تقریباﹰ اسی وقت چند جرمن سیاستدانوں نے ان سے ایکواڈور کے سفارت خانے میں ملاقات کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ وکی لیکس کے بانی کی گرفتاری کے بعد لندن ہی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت لیفٹ پارٹی کی ایک وفاقی رکن پارلیمان سیوِم ڈاگڈیلین نے واضح طور پر کہہ دیا تھا، ’’ہمارا مقصد اسانج کے امریکا کے حوالے کیے جانے کو روکنا ہے۔‘‘
اس موقع پر لندن میں اسانج کے حق میں کیے جانے والے ایک مظاہرے میں جرمن پارلیمانی نمائندے بھی شریک ہوئے تھے۔ ان میں لیفٹ پارٹی کی خاتون رکن پارلیمان داگڈیلین، لیفٹ پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والی ہائیکے ہَینزل اور ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی یورپی پارلیمان کی رکن آنا میرانڈا بھی شامل تھیں۔ ان جرمن سیاستدانوں کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اپنی طرف سے جولیان اسانج کی برطانیہ سے ملک بدری کے لیے چھ صفحات پر مشتمل جو فرد جرم پیش کی ہے، اگر اس کا نتیجہ واشنگٹن کی خواہشات کے مطابق رہا، ’’تو یہ دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے ایک خطرناک بات ہو گی۔ اس کا مطب یہ بھی ہو گا کہ صرف یورپی یونین میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کرنے والے صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث مجرم ٹھہرا کر ان کی امریکا ملک بدری کی ایک خطرناک مثال قائم ہو جائے گی۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
↧
وینزویلا میں امریکی فوجی کارروائی ’ممکن‘ ہے، امریکی وزیر خارجہ پومپیو
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے وینزویلا میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے ’فوجی کارروائی ممکن‘ ہے۔ وینزویلا میں گزشتہ روز بھی ’فوجی بغاوت‘ کی ایک کوشش ناکام بنا دی گئی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا فوکس نیوز نیٹ ورک کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو امریکا سیاسی بے یقینی کے شکار ملک وینزویلا میں ’فوجی کارروائی کر سکتا‘ ہے۔ پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ امریکا وینزویلا میں اقتدار کی پرامن منتقلی چاہتا ہے اور ایسا اسی صورت ممکن ہوگا، جب صدر نکولاس مادورو اقتدار سے الگ ہوتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کریں گے۔
امریکا کے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ وہ وینزویلا میں خفیہ معلومات جمع کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم نامے پر بخوبی عمل کیا جا سکے۔ ان کا کانگریس کی ایک سماعت کے دوران کہنا تھا، ’’آج گوآئیڈو اور مادورو کے مابین موجودہ صورتحال غیر واضح ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ صدر ٹرمپ کو ہماری ضرورت پڑے تو بہتر انداز میں ردعمل ظاہر کیا جائے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ مزید اس حوالے سے کیا کرنے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب روس نے امریکا کو وینزویلا میں کوئی بھی ’جارحانہ‘ کارروائی کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کا اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وینزویلا میں کسی بھی طرح کے مزید ’جارحانہ اقدامات‘ کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ نے وینزویلا میں ان کے بقول امریکی مداخلت کی بھی شدید مذمت کی۔ قبل ازیں مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے وینزویلا میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے ’فوجی کارروائی ممکن‘ ہے۔ قبل ازیں امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور امریکی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا تھا کہ روس اور کیوبا وینزویلا میں قیادت کی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء برازیل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وینزویلا کی فوج میں تقسیم پیدا ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نکولاس مادورو کی سوشلسٹ حکومت کا ’خاتمہ‘ ممکن ہے۔ گزشتہ روز وینزویلا حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ’فوجی بغاوت‘ کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ حکومت نے اس کی ذمہ داری اپوزیشن اور مغربی دنیا کے حمایت یافتہ لیڈر خوآن گوآئیڈو پر عائد کی تھی۔ وينزويلا کے اپوزيشن ليڈر اور خود کو ’حقيقی صدر‘ قرار دینے والے خوآن گوآئيڈو نے کہا ہے کہ نکولاس مادورو کو اقتدار سے ہٹانے کے ليے ’آخری مرحلہ‘ جاری رہے گا۔ ٹوئٹر پر اپنے ايک پيغام ميں گوآئيڈو نے لکھا کہ ملک بھر ميں سڑکوں پر ان کے حمايتی بڑی تعداد ميں موجود ہوں گے۔ اسی دوران مادورو اور گوآئيڈو کے حاميوں کے مابين جھڑپوں ميں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہيں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
گیدڑ کے بارے میں دلچسپ معلومات
٭ گیدڑ اپنی بزدلی کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن ان کا تعلق جانوروں کے ’’کینین خاندان‘ ‘ سے ہے جس میں بھیڑیے اور کتے جیسے بہادر جانور شامل ہیں۔
٭ گیدڑ زیادہ تر جنوب مشرقی یورپ، ایشیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔
٭ جنگل میں اس جانور کی عمر آٹھ سے 10 برس ہوتی ہے، لیکن اگر اسے پال کر اس کا خیال رکھا جائے تو یہ 16 برس تک جی سکتا ہے۔
٭ گیدڑ سانپ، رینگنے والے جانور، حشرات، چھوٹے غزال، چھوٹی بھیڑیں، پھل، پھلیاں، یہاں تک کہ گھاس بھی کھا جاتے ہیں۔
٭ یہ اپنا علاقہ بنا کر رکھتے ہیں اور اس میں بیرونی گیدڑوں کو نہیں گھسنے دیتے۔
محمد ریاض
↧
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
جنوری سے اب تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں 17 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں سال کے پہلے مہینے میں پیٹرول کی قیمت 90.76 فی لیٹر تھی، وہیں مئی میں یہ بڑھا کر 108.4 روپے فی لیٹر کر دی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سفارش آئل اینڈ گیس ریگیولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے کی گئی تھی اور وفاقی حکومت نے ان کی منظوری کا اعلان کیا، جس کے ردعمل میں شہریوں کی طرف سے سوشل میڈیا سمیت عوامی حلقوں میں بھی غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران یہ قیمتوں میں بڑا اضافہ ہے۔ مارچ میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت 92.89 روپے تھی جو یکم اپریل کو 98.89 ہو گئی اور اب مئی میں 108.24 تک پہنچ گئی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے اضافے کو عوام نے ’پیٹرول بم‘ کا نام بھی دیا ہے۔
بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیوں اور کیسے ہوتا ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس کا طریقہ کار جاننے کے لیے ماہرین سے بات کی جس سے پتہ چلا کہ 1999 تک حکومت خود ان قیمتوں کا تعین کرتی تھی، لیکن 2001 کے بعد یہ اختیار اوگرا کو دے دیا گیا۔ پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ایک تحقیقاتی مقالے کے مطابق 2001 سے پہلے حکومتیں ان مصنوعات کی قیمتوں کا تعین معاشی صورتحال کو بالائے طاق رکھ کر کرتی تھیں اور اس کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما تھے جس سے کبھی کبھار حکومت کو معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑتا تھا۔
لیکن 2001 کے بعد تیل کی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنا ایک آزاد ادارے یعنی اوگرا کو سونپ دیا گیا۔ مقالے کے مطابق پاکستان میں تیل کی ضرورت پورا کرنے کے لیے حکومت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ معاہدے کرتی ہے اور اس کے مطابق قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اوگرا کے سابق اہلکار حفیظ اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اوگرا کی جانب سے قیمتوں میں اضافے یا کمی کی سفارش آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کو کی جاتی ہے اور بعد میں قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔
حفیظ اللہ کے مطابق پاکستان میں تیل کی مصنوعات کی پیدوار، چاہے وہ خام تیل ہو یا فنیشڈ پراڈکٹ جیسے پیٹرول یا ڈیزل، اتنی نہیں ہے کہ ملکی ضرورت کو پورا کر سکیں تو وہ اسے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے مارکیٹ کی پچھلے ایک مہینے کی قیمتوں کی اوسط نکال کر آئندہ ماہ کے لیے قیمتوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ ’لیکن اب درآمد شدہ تیل کے دس ٹینکروں کی اوسط قیمت لگا کر آئندہ ماہ کے لیے قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ یعنی مارکیٹ میں مئی کے مہینے میں 10 ٹینکروں کی جو اوسط قیمت ہو گی اس کی بنیاد پر جون کے لیے قیمت کا اعلان کیا جاتا ہے۔‘
عالمی مارکیٹ میں قمیتیں بڑھنے کا پاکستان پر اثر
حفیظ اللہ نے بتایا کہ عالمی مارکیٹ میں روزانہ قیمتیں بدلتی ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر وہاں قیمتیں بڑھیں گی تو پاکستان میں بھی بڑھیں گی، یا وہاں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی کم ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا : ’چونکہ ہم اوسط نکال کر قیمت کا تعین کرتے ہیں تو اسی اوسط کے حساب سے قیمت کم بھی ہو سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے، اس سے قطع نظر کے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کتنی بڑھی ہیں یا کم ہوئی ہیں۔‘ مثلاً اگر 3، 7 اور 10 مئی کو عالمی مارکیٹ میں قیمیتیں زیادہ ہو گئی ہوں اور پھر 25 ،26 مئی کو کم تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جون میں پاکستان میں قیمتوں میں کمی ہو گی۔
حفیظ اللہ کے مطابق پہلے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ فی لیٹر پیٹرول کی بنیادی قیمت کیا ہو گی۔ اس کے بعد سیلز ٹیکس، پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی، فریٹ چارجز یعنی ٹرانسپورٹ کے چارجز اور خریداروں کے کمیشن کو ملا کر اس کو ملک بھر میں قائم 29 ڈیپوز پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ حفیظ اللہ کے مطابق تمام ڈیپوز میں تقریباً ایک ہی قیمت پر تیل دیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ ڈیپوز پیٹرول پمپس کو تیل فراہم کرتے ہے اور قیمت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ’پیٹرول پمپ جتنا دور ہو گا اسی حساب سے پیٹرول کی قمیت بھی زیادہ ہو گی۔ مثال کے طور پر دیر اور سوات میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت پشاور میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت سے زیادہ ہو گی۔‘
کیا تیل کا مصنوعی بحران پیدا کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈیپوز کی اگر بات کی جائے تو وہاں پر مصنوعی بحران بہت کم دیکھنے کو ملا ہے لیکن ٹینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایسا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’بعض اوقات ٹنیکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا جاتا ہے اور کراچی سے دیگر شہروں کو تیل کی مصنوعات کی رسد روک دی جاتی ہے جس سے ملک میں تیل کے بحران کا خدشہ پیدا ہوتا سکتا ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض اوقات مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘
پیٹرول کی قیمت طے کرنے میں حکومت کا کردار
حفیظ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ جب اوگرا قمیتوں کا تعین کرتا ہے تو کیا حکومت کو انہیں کم کرنے کا اختیار ہے، تو انہوں نے بتایا کہ حکومت قیمتوں میں کمی نہیں کر سکتی جب تک اوگرا کی جانب سے سفارش نہیں کی جاتی۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ طریقہ کار میں پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی، جس کو سادہ لفظوں میں پیٹرولیم ٹیکس بھی کہا جا سکتا ہے، میں ایک مارجن رکھا گیا ہے اور اسی کے حساب سے حکومت اسی ٹیکس کو کم اور زیادہ کر سکتی ہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں حکومت کی جانب سے کمی ہو سکتی ہیں۔
اظہاراللہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
ڈی جی صاحب نے مزید کیا کہا ؟
فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی میڈیا بریفنگ میں فوج کے نقطہ ِ نظر سے معروضی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے حسبِ توقع پشتون تحفظ موومنٹ کے مصالحے پر پورا فوکس کیا اور ڈی جی صاحب نے دیگر موضوعات پر جو اہم باتیں کیں ان کا سرسری تذکرہ کیا۔ چنانچہ میرا جی چاہا کہ ڈی جی صاحب کی ان باتوں پر فوکس کروں جو میڈیا نے قدرے آؤٹ فوکس کر دیں۔ یہاں میرے الفاظ ختم ہوئے۔ آگے آپ جو پڑھیں گے وہ ڈی جی صاحب کے فرمودات ہیں۔
بھارت
جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ سچ ایک دفعہ بولا جاتا ہے۔ جن کے پاس جوہری صلاحیت ہوتی ہے۔ سمجھ داری یہ ہوتی ہے کہ اس جوہری صلاحیت کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ ڈیٹیرنس کا ہتھیار ہے اور اس ملک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جس کے پاس یہ ہتھیار ہو۔ یہ بھی یاد رکھیں ( بھارت ) کہ یہ انیس سو اکہتر نہیں ، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات۔
میڈیا
اگر انیس سو اکہتر میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا جیسا ہوتا تو وہ آپ کی (بھارت) سازشوں کو بے نقاب کر سکتا۔ وہاں ( مشرقی پاکستان ) کے حالات کی رپورٹنگ کر سکتا، وہاں پر ہونے والی اندرونی زیادتیوں کو رپورٹ کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ آج کے ماحول میں ریڑھی والا ، رکشے والا، تانگے والا، بیوروکریٹ، سیا ستداں ہر کوئی بول سکتا ہے۔ مگر ایک آرمی چیف ہے جس نے چالیس سال اس ملک کے لیے ایک سسٹم میں رہتے ہوئے کام کیا ہے۔ وہ پاکستان کا شہری ہے مگر وہ نہیں بول سکتا۔ میں اس کا ترجمان ہوں مگر آپ کو نہیں پتہ کہ میں کتنا بندھ کر بولتا ہوں۔ میرے پاس وہ آزادی نہیں کہ جو دل میں آئے وہ رات کو ایک بجے اٹھ کر بول دوں۔
میں نے بڑے دل سے کہا ہے کہ اگر آپ انیس سو اکہتر میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے۔ سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے۔ ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنیے، ہماری رہنمائی کیجیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کو شائد فوج یا آئی ایس پی آر کنٹرول کرتا ہے۔ کیا کوئی ایک اینکر بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کرنے سے منع کیا گیا اور وہ بات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ میں آپ کو اپنی لاجک دوں گا۔ اگر آپ اس سے قائل نہیں ہوتے تو پلیز بات کریں۔
انتہا پسندی اور مدارس
ان (شدت پسند) تنظیموں کے اسپتال ہیں، مدرسے ہیں۔ اگر ان میں سے دس فیصد لوگ شدت پسندی کی طرف راغب ہیں تو نوے فیصد فلاحی کام کر رہے ہیں جس پر حکومت اور اداروں کی نظر ہے۔ ان کو پیسہ کہاں سے آتا ہے، کون کون فنانس کرتا ہے، کون کون چندہ دیتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ آپ اس طرح خیرات دیں کہ دائیں ہاتھ کا بائیں کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اگر دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنا ہے تو پھر دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ کو پتہ ہونا چاہیے۔ اب اس رقم کے استعمال اور ان کے مدارس حکومتی عمل داری میں لانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ دنیا کے ایجوکیشنل انڈیکس میں شامل ایک سو انتیس ممالک میں سے ہمارا نمبر ایک سو تیرہواں ہے۔
یہ شرمندگی کی بات ہے۔ پچیس ملین پاکستانی بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سرکاری و نجی اسکول اور مدارس شامل ہیں۔ انیس سو سینتالیس میں دو سو سینتالیس مدرسے تھے جو انیس سو اسی تک دو ہزار آٹھ سو اکسٹھ ہو گئے اور آج تیس ہزار سے زائد ہیں۔ ان میں ڈھائی ملین بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں سے متشدد انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد ہماری اسکریننگ کے مطابق سو سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی مدرسے انتہا پسند یا دہشت گرد پیدا نہیں کر رہے۔ ان مدارس میں آٹھ سال درسِ نظامی پڑھایا جاتا ہے، مزید دو برس کے تخصص سے ایک طالبِ علم مفتی بن سکتا ہے۔ مگر یہ فارغ التحصیل طلبا صرف دینی اداروں میں ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، اینکر، رپورٹر یا فوجی بن سکیں۔
جامعہ رشیدیہ کے ایک طالبِ علم کو فوج میں کمیشن ملا کیونکہ وہ میرٹ پر اترتا تھا۔ لیکن ایسے مدارس کم ہیں۔ اب حکومتِ پاکستان اور مددگار اداروں نے ان مدارس کو مین اسٹریم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھیں وزارتِ صنعت کے بجائے وزارتِ تعلیم کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انھیں تعلیمی بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک کیا جائے گا۔ ان اداروں میں جدید مضامین پڑھائے جائیں گے۔ دینی نصاب وہی رہے گا مگر اس میں سے نفرت انگیز مواد خارج کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف کہتے ہیں اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ اب ہم دہشت گردی کے مقابلے سے نسبتاً فارغ ہوئے ہیں۔ اب ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کا پاکستان سے خاتمہ کرنا ہے۔ اور یہ تب ہی ہو گا جب ہمارے بچوں کو یکساں تعلیم اور یکساں مواقعے ملیں گے۔
پی ٹی ایم اور لاپتہ افراد
جب تحریکِ لبیک کے خلاف ایکشن ہوا تو لوگوں نے کہا پی ٹی ایم ( پشتون تحفظ موومنٹ ) بہت بولتی ہے آپ ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں کرتے۔ ان کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ چیک پوسٹوں میں کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتہ افراد کی بازیابی۔ فوج کی اڑتالیس ٹیموں نے پینتالیس فیصد ایریا بارودی سرنگوں سے کلیئر کر دیا ہے۔ اس کام کے دوران پاک فوج کے ایک سو ایک جوانوں کا جانی نقصان ہوا۔ لاپتہ افراد کی فہرست پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اب ڈھائی ہزار کیسز بچے ہیں۔ میری آپ ( پی ٹی ایم ) سے درخواست ہے کہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) کی جو افرادی قوت اس وقت افغانستان میں بیٹھی ہے۔ ان کی لسٹ بھی مجھے دے دیں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ آپ کی لاپتہ افراد کی لسٹ کا کوئی بندہ ان میں تو شامل نہیں۔ پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ باقی لاپتہ افراد کہاں گئے۔
بہت ساری اور تنظیمیں بھی بہت سی جگہ لڑ رہی ہیں آپ کے تو بہت وسائل ہیں۔ ان کی لسٹ بھی ہمیں دے دیں تاکہ ہم اپنے لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ڈی جی صاحب نے پی ٹی ایم کے بیرونی ڈانڈوں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط) کے بارے میں بھی سوالات کی ایک فہرست سنائی۔ اور کہا کہ آپ کا وقت پورا ہو گیا۔ اب آپ سے قانونی طریقوں سے نمٹا جائے گا۔ حامد میر نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ تو پی ٹی ایم نے گزشتہ سال اٹھایا ہے مگر یہ بات تو دو ہزار پانچ اور چھ سے چل رہی ہے۔ آپ نے پی ٹی ایم کے سامنے جو سوالات رکھے ہیں تو پی ٹی ایم والے کہتے ہیں کہ ہم پر تو الیکٹرونک میڈیا کے دروازے بند ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ وہ میڈیا پر آ کر جواب دیں۔
اس پر ڈی جی صاحب نے فرمایا کہ حامد میر صاحب مجھے پتہ ہے کہ لاپتہ افراد کے ساتھ آپ کو دلی لگاؤ ہے۔ ہمارا بھی اتنا ہی لگاؤ ہے۔ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی بندہ مسنگ ہو۔ مگر جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ محبت و جنگ میں سب جائز ہے۔ جنگ بہت سفاک ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اور دوسرے سیکیورٹی ادارے اسے فرض سمجھ کے لڑتے ہیں۔ یہ ان کی کوئی ذاتی جنگ تو نہیں۔ میں نے آپ سے کہا نا کہ لاپتہ لوگ وہ نہیں جو یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ ٹی ٹی پی کی لسٹ دے دیں تاکہ ہم اپنے مسنگ پرسنز کو کلیئر کر لیں۔ آج میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط ) یہ تو لوگوں کو پہلے سے نہیں پتہ۔ ان سوالوں کے جواب ہم قانونی طریقے سے لیں گے۔ میڈیا پر ڈبیٹ نہیں کروائیں گے۔ جب ان کی زبان سیدھی ہو جائے گی جب وہ ایکسپوز ہو جائیںگے پھر آپ انھیں سات دن چوبیس گھنٹے ٹی وی پر رکھیں۔
متفرقات
پاکستان میں اس وقت کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں۔ مگر یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی موجود نہیں۔ ابھی ہمیں بہت کام کرنا ہے۔ فوج کا کام ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں معیشت ترقی کر سکے۔ اللہ کا شکر ہے فوج بہت بہتری لے آئی ہے۔ اب جو کام باقی لوگوں نے کرنے ہیں وہی کریں گے انشاء اللہ۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
↧
تاریخ کی دوسری بدترین ایبولا وبا میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک
افریقہ کے ملک ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر کانگو) میں جاری ایبولا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
ہلاکت خیزی کے لحاظ سے اِسے تاریخ کی دوسری بدترین وبا قرار دیا جا رہا ہے اور ڈی آر کانگو کے وزیرِ صحت اولے اِلونگا نے کہا ہے کہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اس جان لیوا وائرس سے اب تک ایک ہزار آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خانہ جنگی اور عوام میں عدم اعتماد کے احساس نے اس قدامت پرست ملک میں اس خطرناک وبا پر قابو پانے کی کوششوں کی رہ میں رکاوٹ ڈل رکھی ہے۔
حالانکہ یہ وبا 2014 سے 2016 کے درمیان مغربی افریقہ کے ممالک گنی، سیرا لیون اور لائبیریا میں ہونے والی وبا کی جیسی سنگین نہیں ہے جس میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے.
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی ڈی آر کانگو میں اس وبا کی حقیقی صورتحال صاف ظاہر نہیں ہے۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی جانب سے ایبولا کے بحران کے لیے قائم کیے گئے ایمرجنسی ادارے کے ڈائریکٹر طارق ریبل نے کہا:’حقیقتاً متاثرہ افراد کی تعداد دوگنا بھی ہو سکتی ہے، جن کے بارے میں ہم ابھی نہیں جان پائے ہیں۔‘ اس وائرس کے ڈی آر کانگو سے پڑوسی مملک یوگینڈا اور روانڈا یا مزید افریقی علاقوں میں پھیلاؤ کے شدید خطرے کے باوجود اپریل میں عالمی ادارہِ صحت نے اسے عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال قرار دینے کے اعلان سے گریز کیا۔
ایبولا کیا ہے؟
ایبولا ایک غیر معمولی اور مہلک وائرس ہے جو بخار، جسم کے درد اور اسہال کا سبب بنتا ہے اوربعض اوقات اس میں جسم میں اندرونی اور بیرونی طور پرخون جاری ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ وائرس جسم میں پھیلتا ہے یہ جسم کے مدافعاتی نظام پر حملہ آور ہو کر اعضاء کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ بالآخر اس سے خون کے کلاٹنگ خلیات کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی اور نہ روکنے والی بلیڈنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ویب سائٹ ویب ایم ڈی کے مطابق، ایبولا وائرس سے متاثرہ 90 فیصد لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ڈی آر کانگو میں اس سنگین صورتحال کے باوجود ملک بھر میں صحت کے مراکز پر حملے جاری ہیں جس کے بعد بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے ملک کے متاثرہ علاقے جیسے کاٹوا اور بوٹیمبو سے اپنے عملے کو واپس بلا لیا ہے جبکہ حکومت تنہا اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہے۔
گذشتہ ماہ عالمی ادارہِ صحت کے لیے کام کرنے والے کیمرون کے ایک ماہرِ صحت کو بوٹیمبو شہر کے ہسپتال پر حملے کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ عالمی ادارہِ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل رائین نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ڈی آر کانگو میں سیکورٹی کی بدتر صورتحال ایبولا کی وبا کو کنٹرول کرنے کی کوششیوں میں ’بڑی رکاوٹ‘ ثابت ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوری سے اب تک ڈی آر کانگو میں 119 ایسے واقعات پیش آچکے ہیں، جن میں صحت کے مراکز پر 42 حملے شامل ہیں۔ ایسے واقعات میں 85 ہیلتھ ورکرز یا تو ہلاک ہوئے ہیں یا زخمی۔
علاقے میں درجنوں مسلح باغی تنظیمیں سرگرم ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی باہمی دشمنیاں بھی بہت سے لوگوں کی جانب سے ہیلتھ ورکز کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی وجہ ہیں۔ مائیکل رائین نے کہا: ’ہمیں جب جب اس وائرس کو کنٹرول کرنے یا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات میں کامیابی ملی ہے، سیکورٹی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔‘ انہوں نے اس وبا کے مزید پھیلاؤ کے خدشے کا اظہار بھی کیا جو افریقہ سے نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایبولا کی اس وبا کے زیادہ تر کیسیز مشرقی کانگو میں دیکھے گئے ہیں جبکہ سرحد کے نزدیک اس انتہائی گنجان آباد اور کثیر آبادی علاقے میں کیسیز بڑھ رہے ہیں۔
ان علاقوں میں بہت سے متاثرہ لوگ ایبولا کے علاج کے مراکز میں جانے سے گھبرا رہے ہیں اور وہ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے یہ وائرس ان کے خاندان کے دیگر افراد اور پڑوسیوں کو منتقل ہونے کا شدید خدشہ ہے۔ 24 سالہ ویانے موساولی نے کہا کہ بوٹیمبو کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایبولا ان کے شہر میں جان بوجھ کر لایا گیا ہے۔ ’میں یہ جان کر افسردہ ہوں کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ ایبولا ایک سیاسی چیز ہے اور اسی لیے لوگ ابھی تک ہیلتھ ٹیموں پر حملہ کر رہے ہیں۔‘
سیکورٹی کی بدتر صورتحال کے باعث اکثر ویکسین ٹیمیں ان علاقوں میں جا نہیں پائیں ہیں جس سے وبا سے نمٹنے کے مواقعے مزید محدود ہو گئے ہیں۔ اس سب کے باوجود ایک لاکھ نو ہزار سے زائد افراد کو ایبولا کے تجرباتی لیکن مؤثر حفاظتی ٹیکے لگا دیے گئے ہیں۔ مائیکل رائین نے کہا کہ حکام ایک اور دوا کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید مالی مدد کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کو وبا کی روک تھام کے لیے اب بھی 54 لاکھ ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے۔
ایلکس میتھیوز کنگ
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ
↧
میانمار میں فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا
میانمار کی حکومت نے 2017ء میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی تحقیقات کرنے والے دو صحافیوں کو 500 دن سے زائد قید رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
دونوں صحافیوں – 33 سالہ وا لون اور 29 سالہ کیو سوئی او – کو میانمار کی ایک عدالت نے نو آبادیاتی دور کے ایک قانون 'آفیشل سیکریٹس ایکٹ'کے تحت گزشتہ سال ستمبر میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سزا کے خلاف ان کی اپیلیں گزشتہ ماہ ہی میانمار کی سپریم کورٹ نے مسترد کردی تھیں۔ لیکن دونوں صحافیوں کو ینگون کے نواح میں واقع جیل سے رہا کر دیا گیا۔ 'رائٹرز'کے مطابق دونوں صحافیوں کی رہائی ایک صدارتی حکم نامے کے تحت عمل میں آئی ہے جس کے تحت میانمار کی حکومت نے ساڑھے چھ ہزار سے زائد قیدیوں کی سزائیں معاف کی ہیں۔
میانمار کے صدر ون منٹ گزشتہ ماہ سے اب تک قید کی سزا کاٹنے والے ہزاروں قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں جن میں سیکڑوں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو عام معافی مقامی سالِ نو کے جشن کے سلسلے میں دی جا رہی ہے جس کا آغاز 17 اپریل کو ہوا تھا۔ دونوں صحافیوں کو پولیس نے دسمبر 2017ء میں حراست میں لیا تھا اور ان کی سزا کی مدت ان کی گرفتاری کے دن سے شروع ہوئی تھی۔ دونوں صحافیوں پر خفیہ سرکاری دستاویزات حاصل کرنے اور انہیں اپنے پاس رکھنے کا الزام تھا۔ لیکن صحافیوں کا مؤقف تھا کہ پولیس نے راکھین میں جاری مظالم سے متعلق ان کی تحقیقات روکنے کے لیے انہیں خفیہ سرکاری دستاویزات کے مقدمے میں پھنسایا۔
دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں، ذرائع ابلاغ کے اداروں ، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ملک میانمار کی حکومت سے ان صحافیوں کی رہائی اور ان کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جسے میانمار کی حکومت ماننے سے انکاری تھی۔ سزا پانے والے دونوں صحافیوں کا تعلق برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز'سے ہے اور وہ اپنی گرفتاری سے قبل ریاست راکھین کےا یک گاؤں اِن ڈن میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں 10 روہنگیا نوجوانوں اور مردوں کے مبینہ قتل اور دیگر مظالم کی تحقیقات کر رہے تھے۔
دونوں صحافیوں کی مرتب کردہ رپورٹ کو بعد ازاں صحافتی دنیا کے اعلیٰ ترین اعزاز 'پلٹزر پرائز'کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز اور بودھ انتہا پسندوں کے حملوں کا سلسلہ اگست 2017ء میں شروع ہوا تھا جو کئی ماہ تک جاری رہا تھا۔ اقوامِ متحدہ اور کئی ممالک ان حملوں اور کارروائیوں کو روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔ فسادات اور حملوں سے بچنے کے لیے راکھین سے سات لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سر وسامانی کے عالم میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جو دو سال گزرنے کے باوجود تاحال وہیں مقیم ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
ہبل خلائی دوربین جس نے ستاروں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا ہے
وزیرِ سائنس اور ٹیکنالوجی مقامی فواد فواد چوہدری کو سوشل میڈیا پر پھر تنقید کا سامنا ہے۔ وہ ایک مقامی چینل کے ایک پروگرام میں چاند کی شہادتوں کے تنازعے پر قمری کیلینڈر سے متعلق اپنا موقف دے رہے تھے جس میں انھوں نے کہا کہ چاند کو دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں ایک زمین پر نصب سو سال پرانی دوربینوں کی ٹیکنالوجی ہے اور ایک طریقہ ’ہبل‘ دوربین کا بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہبل ٹیلی سکوپ کو پاکستانی خلائی ایجنسی سپارکو نے خلا میں بھیجا جو کہ درست نہیں ہے۔ اس کلپ کے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور ہبل ٹرینڈ کرنے لگا۔
ہبل ٹیلیسکوپ کیا ہے؟
ہبل ایک خلائی دوربین ہے جسے امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا نے سنہ 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔ یہ اُس وقت کی بڑی اہم پیش رفت تھی کیونکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دوربین کو خلا میں بھیجا گیا۔ یہ خلائی دوربین زمین کے مدار میں ہی سفر کرتی ہے اور اس میں ایک ڈیجیٹل کیمرا بھی موجود ہے جس سے وہ پچھلے کئی برسوں سے خلا کی تصویریں لے کر زمین پر بھیج رہی ہے۔ ناسا کے مطابق ہبل ایک سکول بس جتنی بڑی ہے اور اس کا وزن دو بالغ ہاتھیوں جتنا ہے۔ہبل ایک گھنٹے میں 27،300 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے لہذا یہ محض 95 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کر لیتی ہے۔
ہبل نے کیا کچھ دیکھا ہے؟
ناسا کا کہنا ہے کہ ہبل نے ستاروں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا ہے اور اس نے ایسی کہکشاؤں کو بھی دیکھا ہے جو اس سے کئی کھرب میل دور موجود ہیں۔ ہبل کی مدد سے پلوٹو کے وہ چاند نظر آئے جو پہلے دریافت نہیں ہوئے تھے، ہبل نے بلیک ہول بھی دیکھیں ہیں۔ اس خلائی دوربین کی بدولت سائنسدان بہتر طریقے سے خلا، سیارے اور کہکشاؤں کے بننے کا مطالعہ کر پائے۔ انہی تصویروں کی وجہ سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات 14 ارب سال پرانی ہے۔ ناسا کے مطابق ہبل نے سنہ 1990 سے اب تک لگ بھگ 13 لاکھ مشاہدات کیے ہیں اور ماہرین فلکیات نے 15،000 سے زائد سائنسی مقالات لکھے ہیں جن کا مزید سات لاکھ 38 ہزار دفعہ دیگر مقالات میں حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ لہذا اس کا شمار سب سے زیادہ تعمیری سائنسی آلات میں ہوتا ہے۔
ہبل کا مستقبل کیا ہے؟
ناسا کے مطابق 2009 میں پانچھویں دفعہ جب خلاباز ہبل پہ سوار ہوئے تو اس وقت اس کی مرمت کی گئی تھی، اس میں نئے پرزے، کیمرا اور ٹیلی سکوپ نصب کیا گیا تھا۔ 2018 میں بھی دوربین کا ’جائروسکوپ‘ خراب ہو گیا تھا جو خلائی طیارے کی تیزی کو ناپتا تھا اور جس کی مدد سے وہ نئے ہدف کی طرف اپنا رخ موڑتا تھا۔ بعد میں ناسا نے زمین سے ہی اسے ٹھیک کر لیا۔ تقریباً سنہ 2021 تک ہبل کی جگہ ایک نئی ٹیلی سکوپ ’جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ‘ خلا میں بھیج دی جائے گی۔ یہ دوربین ہبل کی طرح ہماری دنیا کے گرد نہیں گھومے گی بلکہ 15 لاکھ کلومیٹر دور سورج کے گرد گھومے گی۔ یہ ہبل کے مقابلے میں زیادہ بڑی بھی ہو گی اور اس سے کہیں زیادہ دور دیکھ سکے گی۔ اس نئی دوربین کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خلا میں جانے کے بعد یہ ان ستاروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے گی جو کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
ماریانہ ٹرنچ : جہاں ماؤنٹ ایورسٹ بھی ڈوب جائے گی
مغربی بحرالکاہل میں ماریانا جزائرسے تقریباً دو سو کلومیٹر دور گہری ترین سمندری کھائی (trench) واقع ہے۔ یہ 2,550 کلومیٹر طویل اور 69 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کھائی کے جنوب میں ایک مقام ہے جو سب سے گہرا ہے، اسے ’’چیلنجر ڈیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں گہرائی 36,070 فٹ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو اس میں ڈالا جائے تو ساری ڈوب جائے گی۔ اس کھائی کی تہہ میں دباؤ سطح سمندر کی فضا پر موجود دباؤ سے ایک ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت ایک سے چار سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس کا نام قریبی جزائر پر ’’ماریانا کھائی‘‘ رکھا گیا جبکہ جزائر کا نام ہسپانوی ملکہ ’’ماریانا آف آسٹریا‘‘ کے نام پر رکھا گیا جو فلپ چہارم کی بیوہ تھی۔
سب سے پہلے اس کھائی کی گہرائی ’’چیلنجر بحری مہم‘‘ کے دوران ناپی گئی۔ یہ مہم 1872ء سے 1876ء تک جاری رہی جس کے دوران بہت سی سائنسی دریافتیں ہوئیں اور بحری جغرافیہ یا اوشنوگرافی کی بنیاد رکھی گئی۔ 1875ء میں رسی کی مدد سے ہونے والی اس پیمائش میں گہرائی 26,850 فٹ قرار دی گئی۔ 1975ء میں ایک اور جغرافیائی مہم ’’چیلنجر دوم‘‘ میں گہرائی کو آواز کی گونج کی مدد سے ناپا گیا جو بہتر اور آسان طریقہ تھا۔ اس دوران سب سے گہرے حصے کی گہرائی 35,760 فٹ بتائی گئی اور اسے ’’چیلنجرڈیپ‘‘ کا نام دیا گیا۔ 1957ء میں سوویت یونین کے ایک بحری جہاز نے گہرائی 36,201 فٹ بتائی۔ 1962ء میں ایک اور بحری جہاز نے گہرائی 35,810 فٹ بتائی۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہا، بالآخر کم و بیش حتمی گہرائی پر اتفاق ہوا۔
سن 1997ء سے 2001ء کے دوران ہونے والے جائزوں میں ماریانا کھائی میں ایک ایسے مقام کا پتا چلایا گیا جس کی گہرائی ’’چیلنجر ڈیپ‘‘ سے تھوڑی سی کم ہے۔ اس نئے مقام کو ’’ایچ ایم آر جی ڈیپ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پہلی مرتبہ سوئٹزرلینڈ میں ڈیزائن کی گئی، اٹلی میں بنائی گئی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بحریہ کی ملکیت ’’عُمق پیما آبدوز‘‘ 23 جنوری 1960ء کو اس کھائی کی تہہ میں پہنچی۔ اس میں دو افراد ڈون والش اور یاک پکارڈ موجود تھے۔ اس کے بعد 1996ء اور 2009ء میں دو مزید ایسی مہمیں تکمیل کو پہنچیں لیکن ان میں انسان موجود نہ تھے۔ چوتھی بار یہ کوشش کینیڈا کے فلم ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 2012ء میں کی۔ وہ 26 مارچ کو ماریانا کھائی کی تہہ میں پہنچے۔
محمد اقبال
↧
↧
استنبول میں چوروں نے بیلٹ باکس کے ذریعے عوامی امنگوں کو لوٹ لیا تھا : صدر اردوعان
ترکی کے صدر رجب طیب اردوعان نے انتخابی بورڈ کی جانب سے استبنول کے میئر کے دوبارہ الیکشن کرانے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’چوروں‘ نے بیلٹ باکس کے ذریعے قومی امنگوں کو چوری کر لیا تھا۔ صدر اردوعان نے حکمران جماعت اے کے پی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’ہمیں یقین ہے کہ ان انتخاب میں منظم بدعنوانی اور بے قاعدگیاں ہوئیں۔
صدر اردوعان نے کیا کہا ؟
صدر اردوعان نے کہا کہ استنبول میں دوبارہ انتخابات کا ہونا ایک بہترین جمہوری عمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ہمیں اپنے مسائل کو جہموریت اور قانون کے دائرے میں حل کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ’چوروں‘ نے بیلٹ باکس کے ذریعے قومی امنگوں کو چرا لیا تھا اور اگر ہم نے اس کا حساب نہ لیا تو عوام ہم سے اس کا حساب لیں گی۔
استنبول میں دوبارہ انتخابات کیوں؟
انتخابی بورڈ پر حکمران جماعت کے نمائندے رجب اوزل نے کہا ہے کہ استنبول میں دوبارہ انتخابات کی وجوہات میں الیکشن بورڈ میں کچھ غیر سرکاری افراد کی موجودگی اور کچھ بیلٹ پییپروں پر دستخط نہ ہونا ہے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے چیئرمین اونسرل ادیغزل نے کہا کہ استنبول میں دوبارہ انتخابات کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اے کے پی کے خلاف الیکشن جیتنا غیر قانونی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا ’صاف اور واضح ڈکٹیٹرشپ ہے۔
انھوں نے کہا ایسا نظام جو لوگوں کے رائے کو خاطر میں نہیں لاتا وہ نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی قانونی۔ ایکرم اماموگلو نے جو اکتیس مارچ کو ہونے انتخابات میں فاتح قرار پائے تھے، انتخابی بورڈ کے فیصلے کی مذمت کرنے ہوئے کہا کہ وہ حکمران جماعت کے دباؤ میں ہے۔ ایکرم اماموگلو نے کہا کہ ہمیں اصولوں پر سودا نہیں کریں گے۔ ’یہ ملک آٹھ کروڑ محب وطنوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم جمہوریت کے لیے آخری دم تک لڑیں گے۔‘ ایکرم اماموگلو کے ایک حامی گروپ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ’ متحد رہیں، ہم پھر جیتیں گے، ہم پھر جیتیں گے۔‘
استنبول انتخابات کا پس منظر
ترکی میں اکتیس مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت اے کے پی نے عمومی طور پر اکاون فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن دالحکموت انقرہ، ازمیر اور استنبول میں حکمران جماعت کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر رجب طیب اردوعان بھی استنبول کے میئر رہ چکےہیں اور ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جس کے پاس استنبول ہے ، اس کے پاس ترکی ہے۔ اکتیس مارچ کو ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ ایم کے ایکرم اماموگلو چودہ ہزار ووٹوں کی اکثرتیت سے فاتح قرار پائے تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
امریکہ کا ایران کو ’واضح پیغام‘ دینے کے لیے جنگی بیڑہ روانہ
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ ایران کو ’واضح اور سخت‘ پیغام دینے لیے امریکہ مشرق وسطیٰ کی جانب ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ اور بمبار ٹاسک فورس روانہ کر رہا ہے۔ جان بولٹن نے کہا ہے کہ ’امریکہ ایران کے اشتعال انگیز اقدامات کے رد عمل میں بحری بیڑے ابراہم لنکن اور بمبار ٹاسک فورس کو خطے میں موجود امریکی سینٹرل کمانڈ کی جانب روانہ کر رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ خطے میں امریکہ یا ہمارے اتحادیوں کے مفادات پر کسی بھی حملے کا جواب پوری طاقت سے دیا جائے گا۔ ’امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن پاسدارنِ انقلاب یا ایرانی فوج کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔‘
خبر راساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بحری بیڑے کو روانہ کرنے کی کیا وجہ ہے، لیکن یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب حال ہی میں غزہ میں موجود فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے پر جان لیوا راکٹ اور فضائی حملے جاری ہیں۔ دوسری جانب واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری پروگرام کو لے کر ایران پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کے بعد کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس سے قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے عوام سے کہا تھا کہ وہ امریکی دباؤ کا ’متحد ہو کر مقابلہ‘ کریں۔
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ’امریکہ صرف اس وقت اس کھیل کو ختم کرے گا جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ اس سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس متحد ہو کر مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ امریکی کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کے باوجود اپنے گاہکوں کو تیل کی سپلائی جاری رکھیں گے۔ گذشتہ سال آٹھ مئی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکالتے ہوئے ایران پر کئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے ایرانی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ
↧
کیا امریکہ اور ایران کی جنگ ہو سکتی ہے؟
ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے اور کسی بھی فریق کی معمولی غلطی کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ غلطی نہ صرف دونوں فریقوں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ قومی سلامتی کے امریکی مشیر جان بولٹن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ایران کی جانب سے ’پریشان کن اشارے‘ ملنے کے بعد بحری بیڑہ ’ابراہام لنکن‘ اور بمبار طیارے مشرق وسطیٰ بھیج رہا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جان بولٹن ایرانی حکومت تبدیل کرنے کے لیے جنگ چاہتے ہیں۔ مارچ، 2015 میں جب ایران اور اوبامہ انتظامیہ کے درمیان ایٹمی معاملے پر مذاکرات عروج پر تھے تو بولٹن نے اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’ایرانی بموں کو روکنے کے لیے اس پر بمباری کی جائے‘۔
بولٹن نے اپنے مضمون میں تجویز دی تھی کہ امریکہ یا اسرائیل کو ایرانی ایٹمی ڈھانچے پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ ایرانی حزب اختلاف کی بھی کھل کر حمایت کرے تاکہ حکومت تبدیل کی جا سکے۔ اسی طرح 2017 میں ایرانی اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق کے اجتماع کے موقعے پر بولٹن نے کہا تھا کہ امریکہ کی پالیسی ملاؤں کی حکومت کا خاتمہ ہونی چاہیے۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے میں بولٹن کا کردار نمایاں تھا اور آج ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے حوالے سے وہی باتیں کر رہے ہیں لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ نہیں چاہتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران حکومت تبدیل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے، بس وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ اوبامہ دور میں ہونے والا ایٹمی معاہدہ منسوخ کر کے ایک نئے اوربہتر معاہدے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ ناقدین کی رائے میں ٹرمپ ایران کے ساتھ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس پر ان کا نام لکھا ہو۔ دوسری جانب، قومی سلامتی کی جو ٹیم اس وقت ٹرمپ کے اردگرد موجود ہے وہ انھیں جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ امریکہ میں آج کا سیاسی ماحول عراق کے خلاف جنگ سے پہلے کے ماحول سے مختلف ہے۔ عراق پر حملہ نائن الیون واقعے کے بعد کیا گیا جب امریکی عوام غصے میں تمام ’دشمنوں‘ سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔ اُس وقت جنگ مشکل نہیں تھی چاہے وہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جزوی اطلاعات کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔
گذشتہ دس برس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج امریکی عوام مشرق وسطیٰ میں طویل جنگوں سے اکتا چکے ہیں کیونکہ ان میں ہزاروں افراد کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں جبکہ عوام کے ٹیکس کے اربوں ڈالرز جنگوں پر صرف ہوئے۔امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں جنگ کے حامی تو موجود ہیں لیکن ان کے ایجنڈے کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔ ایک فرق اور بھی ہے، وہ یہ کہ یورپ ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگ نہیں چاہتا جس کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی موجودگی ہے۔ بولٹن جانتے ہیں کہ امریکی عوام کو ایران کے ساتھ ایک بھرپور جنگ پر تیار کرنا ممکن نہیں لیکن اس کے ساتھ یہ واضح ہے کہ کسی ’حادثے‘ کی صورت میں قومی سلامتی کے امریکی مشیر ایران کے خلاف جنگ میں دیر نہیں لگائیں گے اور یہ جنگ عراق کی جنگ کے مقابلے میں زیادہ بری ہو گی جس کے امریکی اور ایرانی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
نگار مرتضوی
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ
↧
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کے دوران اب تک تین ٹن کچرا اور چار نعشیں برآمد ہو چکی ہیں۔ اب تک ماؤنٹ ایورسٹ پر 300 کے قریب کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے تین چوتھائی کی نعشیں دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر ہی چھوڑ دی جاتی ہیں۔ 1953 میں ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نارجے نے پہلی بار اس چوٹی کو سر کیا تھا۔ اس کے بعد سے تقریباً 5200 افراد یہ چوٹی سر کر چکے ہیں۔ اس وجہ سے اس چوٹی پر ڈھیروں کے حساب سے کچرا موجود ہے جسے اب رضاکار صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے دو ہفتے کے دوران نیپال کی جانب سے صفائی کی مہم کے دوران تین ٹن کے قریب کچرا اور چار نعشیں مل چکی ہیں۔
حکام کے مطابق یہ صرف شروعات ہے اور 45 دن پر محیط اس مہم کے دوران چوٹی کے راستے سے 11 ٹن کے قریب کچرا ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر اس وقت 30 ٹن کے قریب کچرا ہے مگر اس صفائی مہم کے دوران وہ سب صاف نہیں کیا جا سکے گا۔ نیپال کے سیاحت کے ڈائریکٹر ڈانڈو راج گھمیر کا کہنا تھا کہ ‘‘ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم جس قدر ممکن ہو ماؤنٹ ایورسٹ سے کچرا نکال سکیں تاکہ اس چوٹی کی عظمت بحال کی جا سکے۔ یہ چوٹی صرف دنیا کے سر کا تاج ہی نہیں بلکہ ہمارا فخر بھی ہے۔’’
سی این این کے مطابق چودہ ممبران پر مشتمل صفائی مہم کی یہ ٹیم اب بیس کیمپ تک پہنچ گئی ہے۔ اس ٹیم کو نیپال کی فوج کی طرف سے ایک ہیلی کاپٹر کی مدد بھی حاصل ہے جو کچرا لے جانے کا کام دے رہا ہے۔ اس پراجیکٹ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ٹیم کو اپنے کام کی تکمیل کے لیے تمام ضروریات میسر ہوں۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر نعشیں ملی ہوں۔ ماضی میں بھی چوٹی پر سے نعشیں ڈھونڈنے کی مہمات ہوتی رہی ہیں جن میں سابقہ کوہ پیماؤں کی لاشیں ملتی رہی ہیں۔ چوٹی سر کرنے کے تمام مشن چونکہ بہت خطرناک ہوتے ہیں اس لیے مرنے والے کوہ پیماؤں کی نعشیں چوٹی پر ہی چھوڑ دی جاتی ہیں۔
پچھلے مہینے بھی کچھ نعشیں برآمد ہوئی تھیں کیونکہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے نے چوٹی پر برف کو پگھلا دیا تھا۔ نیپال ماؤنٹینئیرنگ ایسوسی ایشن کے سابق صدر آنگ شیرنگ شیرپا نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے چوٹی پر برف اور گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کی وجہ سے جمی ہوئی نعشیں برآمد ہو رہی ہیں۔’’ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سال 775 افراد دنیا کی یہ سب سے بلند چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کریں گے۔ بہت سے لوگ ان مہمات میں اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں۔ ہر برس ہزاروں کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے دوران بڑی مقدار میں کچرا اپنے پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
فلسطینی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
اسرائیل کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک فلسطینیوں کی جاری بے دخلی کا المیہ دنیا کے سامنے رہا ہے۔ 1948ء اور 1967ء کی 2 بڑی لہروں نے فلسطینیوں کو اپنی ہی زمین سے جبری طور پر بے دخل کر دیا اور پڑوسی ملکوں کے اندر فلسطینی بڑی تعداد میں پناہ گزین بن گئے۔ جنگوں اور پھر غیر قانونی رہائشی علاقوں کی تعمیر کے ذریعے عرب زمینوں پر قبضے کر کے اسرائیل نے فلسطینی زمین پر اپنا جابرانہ اثر وسیع کیا تو دیگر ملکوں میں بکھرے ہوئے ان فلسطینیوں کا اپنی آبائی سرزمین پر لوٹنے کا خواب حقیقت سے دُور ہوتا چلا گیا۔ یاد رہے کہ اسرائیلی قبضے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (اونرا) کے ساتھ رجسٹرڈ شدہ فلسطینی پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد 53 لاکھ بنتی ہے۔ 20 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی میزبانی اردن کرتا ہے، اور غزہ پٹی سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ دیگر فلسطینیوں کو پاسپورٹ اور شہریت کی فراہمی کے معاملے میں اردن کافی فلسطین دوست پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ شام دیگر 5 لاکھ 26 ہزار پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا آ رہا ہے، جہاں انہیں شہریت کو چھوڑ کر مقامی آبادی کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ اونرا غزہ اور ویسٹ بینک میں کیمپس چلاتی ہے۔ مصر اور عراق بھی ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے۔
لبنان جیسے چھوٹے ملک نے اپنی مقامی آبادی کے اعتبار سے زیادہ پناہ گزینوں کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ خطے میں یہی وہ جگہ ہے جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کی حالتِ زار بدترین ہے۔ 1948ء سے لے کر اب تک شہریت کی سہولت حاصل نہ ہونے کے باعث بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں بدتر حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں نامور (یا بدنام کہیے) سابرا اور شاتیلا رہے ہیں جہاں خانہ جنگی کے دوران اسرائیل کی خفیہ مدد کے ساتھ فالانج ملیشیا کے ہاتھوں فلسطینیوں کا گھناؤنا قتلِ عام کیا گیا۔ جہاں پناہ گزینوں کی پہلی نسل آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے وہیں دوسری نسل خود کو تاریک مستقبل کے ساتھ کیمپوں پر محیط زندگی تک محدود پاتی ہے۔ فلسطینی پناہ گزین وہ حقوق نہیں رکھتے ہیں جو دیگر غیر ملکیوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
لبنان میں 20 سے زائد پیشہ ورانہ کام ایسے ہیں جن میں فلسطینی پناہ گزینوں کا داخلہ ممنوع ہے اور انہیں ملکیت خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ یہ لوگ کیمپوں کے عارضی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ امریکن یونیورسٹی آف بیروت کی ایک رپورٹ میں یہ پایا گیا کہ محض 36 فیصد فلسطینی آبادی برسرِ روزگار ہے اور صرف 6 فیصد فلسطینی نوجوان یونیورسٹی ٹریننگ اسکیموں کا حصہ ہیں۔ اگرچہ لبنان میں اونرا سے رجسٹرڈ شدہ پناہ گزینوں کی کل تعداد 5 لاکھ کے لگ بھگ ہے مگر مختلف تخمینوں کے مطابق اس تعداد کو کم دکھایا جاتا ہے، یعنی 2 سے 3 لاکھ کے درمیان۔ دوسری طرف یہ مانا جاتا ہے کہ 3 سے 5 ہزار فلسطینی پناہ گزین کسی قسم کی شناختی دستاویزات نہیں رکھتے۔
یہ گروہ پوری طرح سے غیر سرکاری تنظیموں کے عطیات پر منحصر ہے۔ شام سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار کے قریب ایسے بھی فلسطینی پناہ گزین ہیں جو خانہ جنگی کے باعث نقل مکانی کر چکے ہیں۔ لبنانی و فلسطینی مذاکراتی کمیٹی نے لبنان میں واقع مہاجر کیمپوں سے فلسطینیوں کی ہجرت کے رجحان میں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ کیمپوں میں موجود فلسطینی اپنے حالاتِ زندگی کو لے کر اس قدر ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں کہ وہ اب نہ صرف ایتھوپیا بلکہ برازیل، بولیویا اور یوراگوئے جیسے دُور دراز واقع ملکوں کا رخ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
حالیہ برسوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اونرا کی امداد بند کیے جانے کے باعث فلسطینیوں کی حالتِ زار مزید بگڑ گئی ہے۔ اس فیصلے نے اونرا کی جانب سے فراہم کی جانے والی پہلے سے ہی ناکافی سماجی سروسز پر زبردست بوجھ ڈال دیا ہے۔
امداد روکے جانے سے صحت اور تعلیم جیسی اہم سروسز شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ فنڈنگ کی کمی کو خلیجی و دیگر ممالک کی جانب سے کی جانے والی امداد سے پورا کیا جارہا ہے، لیکن وہ شاید ہمیشہ جاری نہ رہے۔ یہ صورتحال فلسطینی پناہ گزینوں کو کسی دوسری جگہ بہتر زندگی کی تلاش میں نکلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ان خستہ حال کیمپوں میں موجود لوگ اب بھی اپنے وطن لوٹنے کے خواب دیکھتے ہیں، لیکن یہاں سے فلسطینی آبادی کے چلے جانے سے پناہ گزینوں کی گنتی میں کمی واقع ہو سکتی ہے، اور یہ کمی ان کے اپنے وطن لوٹنے کے حق پر اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ کم ہوتی مہاجر آبادی کے ساتھ ملک بدر فلسطینیوں کے لوٹنے کا معاملہ اپنی اہمیت کھو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنے وطن لوٹنے کے حق کی حمایت کرتا ہے جو عرب اسرائیل مذاکرات کا مرکزی نکتہ بھی رہا ہے۔ لیکن جتنے زیادہ فلسطینی کیمپوں کی زندگی ترک کرتے جائیں گے اتنا ہی زیادہ ان کا وطن واپس لوٹنے کا خواب تعبیر سے دُور ہو سکتا ہے۔ تاہم وطن واپسی اور جبری بے دخلی کی سیاست سے ہٹ کر پڑوسی ملکوں میں واقع کیمپوں کے اندر فلسطینی پناہ گزینوں کا المیہ جاری و ساری ہے جہاں فلسطینیوں کی کئی نسلیں تاریک راہوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر بڑی حد تک کی جانے والی سیاست سے فنڈنگ میں کٹوتی اور اس کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں کے انسانی اور شہریت کے بڑھتے مسائل کے باعث پیدا ہونے والی مفلسی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
عارف آزاد
یہ مضمون 9 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
↧
آئی ایم ایف مذاکرات : معاشی مشکلات سے چھٹکارا یا مہنگائی کا ایک نیا طوفان؟
ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرض کی زیادہ تر شرائط تو ابھی سامنے نہیں آئیں تاہم جو رپورٹس آ رہی ہیں یہ مصر ماڈل کا چربہ ہے۔ ’آئی ایم ایف میں مصر کو ایک پوسٹر چائلڈ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پہلے مصر میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے تھے اور آج یہ شرح 55 فیصد ہے۔` ’مصر میں اس طرح کے پروگرام کے ثمرات یہ ہیں کہ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مصر کی کرنسی کی قدر کم ہونے سے وہاں مہنگائی بہت تیزی سے بڑھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بھی یہی ہو گا، ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا، روپے کی قدر کم ہو گی، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی.
تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی اور یہ سب پاکستانی عوام کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس قرض سے پاکستان میں کسی طرح کا معاشی استحکام نہیں آئے گا کیونکہ یہ شرح نمو کو مزید گرا دے گا۔ ’آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے دو سے تین برس تک ہمیں اپنے جی ڈی پی کی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد رکھنا ہو گی۔ جس ملک میں 15 لاکھ نوجوان ہر برس روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اس ملک میں شرح نمو کم از کم سات سے آٹھ فیصد ہونا ضروری ہے۔‘
سٹیٹ بینک میں ہونے والی گورنر کی تقرری کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے پاکستان کو ایک پروگرام دے دینا ہے جو کسی صورت ملک کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔‘ صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ نئے قرض کے پاکستانی معیشت اور عوام پر قلیل مدتی اور طویل مدتی فوائد اور نقصانات ہوں گے۔ ’اگر قلیل مدتی اثرات کی بات کی جائے تو یہ قرضہ پاکستان کے لیے کسی حد تک معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو گا جبکہ معاشی پالیسیوں میں بہتری کا عنصر آئے گا۔
دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بالواسطہ عوام متاثر ہوں گے اور مہنگائی بڑھے گی اور تمام درآمدی اشیا کی قیمت بڑھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جبکہ شرح نمو آئندہ برسوں میں کم رہے گی۔ صحافی خرم حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام پر اس قرضے کے شدید معاشی اثرات ہوں گے۔ ’مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے، محصولات کو بہتر کرنا پڑے گا، شرح سود کو بڑھانا پڑے گا اور روپے کی قدر کو مزید گرانا پڑے گا۔` ’معاشی میدان میں موجودہ مشکلات اور مہنگائی میں صحیح معنوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط ہر عملدرآمد کے ساتھ شروع ہو گا۔
دانش حسین
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
↧
امریکا نے مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی بڑھا دی
امریکا نے کہا ہے کہ ایران سے ممکنہ خطرات کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب ایران نے عالمی جوہری ڈیل کی کچھ شقوں سے دستبردار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی محمکہ دفاع پینٹا گون کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فوجی موجودگی بڑھائی جائے گی تاکہ ایران سے لاحق ممکنہ خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکا کے اس بیان سے خطے میں ایک نئی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور ایرانی سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مبینہ جوابی بیانات بھی دیے جا رہے ہیں۔
پینٹا گون نے اعلان کیا کہ ایئر کرافٹ فورس کی حفاظت کی خاطر مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں پر پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں نصب کی جائیں گی اور ساتھ ہی جدید طرز کا ایک حملہ آور بحری جہاز بھی روانہ کیا جائے گا، جو پانی اور خشکی میں حملوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا نے بتایا ہے ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ ایران خطے میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اسی لیے یہ تیاری کی جا رہی ہے۔ پینٹا گون کے مطابق نئی عسکری کمک یو ایس ایس ابراہم لنکن کیریئر اسٹرائیک گروپ کا حصہ ہو گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان فوجی تنصیبات میں ایک B-52 بمبار اسکواڈرن کی خلیج میں تعیناتی بھی شامل ہے۔
پینٹا گون کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ایران کی طرف سے خطے میں امریکی فورسز اور مفادات پر حملوں کی تیاری کے جواب میں یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ امریکی محکمہ دفاع خطے میں ایران کی تمام تر سرگرمیوں کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس بیان کے مطابق امریکا اس خطے میں ایران کے ساتھ براہ راست کوئی تنازعہ نہیں چاہتا لیکن کسی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی فورسز مکمل طور پر تیار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی بڑھاتے ہوئے ایران کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خطے میں امریکا یا اس کے کسی اتحادی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔
ایران اور امریکا کے مابین یہ نئی کشیدگی ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب ایران نے خبردار کیا ہے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل کی کچھ شقوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ اس تناظر ميں ایران کی جانب سے ڈیل پر دستخط کرنے والے ممالک برطانيہ، چين، فرانس، جرمنی اور يورپی يونين کو خطوط لکھ کر باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا تھا۔ تہران حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ جوہری ڈیل کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلے گی اور اس کی بنیادی شرائط احترام جاری رکھا جائے گا۔ ایرانی حکومت بعض ایسی جوہری سرگرمیوں کو شروع کرنے کی خواہش رکھتی ہے جو اُس نے رضاکارانہ طور پر معطل کر رکھی تھیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧