↧
افغانستان : پاکستان کی جانب سے جناح ہسپتال کا تحفہ
↧
روس یورپ میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے، جرمن آرمی چیف
وفاقی جرمن فوج کے سربراہ جنرل ایبرہارڈ سورن نے تنبیہ کی ہے کہ روس یورپ میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل سورن نے کریمیا اور یوکرائن کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ کئی زمینی حقائق ان کے اس موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔ وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی فیڈرل آرمی کے چیف آف سٹاف نے یہ باتیں اپنے ایک ایسے انٹرویو میں کہیں، جس کی تفصیلات ایک بڑے جرمن میڈیا گروپ کے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوئیں۔
جنرل ایبرہارڈ سورن نے کہا کہ اگر ماسکو کی طرف سے یوکرائن کے جزیرہ نما کریمیا کے زبردستی روس کے ریاستی علاقے میں شامل کیے جانے کو دیکھا جائے، اس کے علاوہ یوکرائن کا جنگی تنازعہ اور وہاں علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک، برطانیہ میں ایک سابق روسی ڈبل ایجنٹ سیرگئی اسکرپل کو زہر دیا جانا اور روس کا امریکا کے ساتھ جوہری میزائلوں سے متعلق دوطرفہ معاہدے آئی این ایف کو معطل کر دینا، یہ سب ایسی مثالیں ہیں، جو ثابت کر دیتی ہیں کہ روس ’یورپ میں امن کے لیے ایک بڑا خطرہ‘ ہے۔
جنرل سورن نے ’جرنلسٹ نیٹ ورک جرمنی‘ نامی میڈیا گروپ کو بتایا، ’’اگر ان تمام حقائق کر یکجا کر کے دیکھا جائے، تو ان کی اپنی ہی ایک مخصوص معنویت ہے۔‘‘ فیڈرل جرمن آرمی کے سربراہ نے مزید کہا، ’’جہاں تک روسی امریکی آئی این ایف معاہدے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ماسکو اور واشنگٹن کے مابین تخفیف اسلحہ کے بارے میں نئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔‘‘ ایبرہارڈ سورن کے الفاظ میں، ’’اگر آئی این ایف معاہدہ سرے سے ہی ناپید ہو جاتا ہے، تو میرے رائے میں یہ بات باعث تشویش ہو گی کہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے متعلق مستقبل کی صورت حال کیسی ہو گی؟ تب ایک نیا بین الاقوامی مانیٹرنگ نظام بھی ناگزیر ہو جائے گا۔‘‘
انسپکٹر جنرل سورن کے مطابق ایسے کسی ممکنہ کنٹرول سسٹم کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ اس نئے نظام میں تمام بڑی طاقتوں کو شامل کیا جائے، یعنی روس، امریکا اور چین کو بھی۔‘‘ جنرل سورن نے کہا کہ خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ کے تدارک کے لیے ایک ایسا نیا بین الاقوامی نظام جرمنی سمیت پورے یورپ کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو گا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
↧
سوشل میڈیا کے استعمال سے ذہنی دباؤ میں 75 فیصد اضافہ
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جم کر ایک جگہ بیٹھے رہنے کے بھی کم وبیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد بھی سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کے برابر ہی ہے۔ مارچ 2019ء کو سوشل میڈیا کے بے تحاشا استعمال کے اثرات پر بی بی سی نے تفصیلی خبر جاری کی۔ بی بی سی نے اسے بچوں بالخصوص ٹین ایجرز میں ذہنی امراض کا ایک سبب قرار دیا۔ پبلک آڈٹ کمیٹی نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزرا سے کمیشن بنا کر اس پر تحقیق کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ گزشتہ 5 برس کے دوران بچوں کے ذہنی امراض میں 22 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
پبلک آڈٹ کمیٹی کو ڈیٹا اکھٹا نہ کرنے کے اس سرکاری رویے پر اعتراض ہے۔ گزشتہ سال برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کی روک تھام کے لئے وزیر صحت کو ’’وزیر برائے تنہائی اور خود کشی سے بچاؤ‘‘ کا اضافی چارج بھی دے دیا ہے۔ انہوں نے کم عمری میں موبائل کے بے تحاشا استعمال کے منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی روک تھام کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ تنہائی کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے۔ وزیر کے مطابق ’’عوام کو ایک لڑی میں پرونا ضروری ہے‘‘۔ گزشتہ 5 برسوں میں سکاٹ لینڈ میں ذہنی امراض کے حوالے سے رجوع کرنے والے یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد میں دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ 2012ء میں 7 ہزار طلبہ نے ذہنی امراض کے علاج میں معاونت مانگی۔ 2016ء میں یہ تعداد 1170 ہو گئی۔
گلاسگو یونیورسٹی میں مذکورہ عرصے میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں 75 فیصد، گلاسگو سکول آف آرٹس میں 72 فیصد اور یونیورسٹی آف سڑلنگ میں دباؤ کا شکار طلبہ کی تعداد میں 74 فیصد اضافہ ہوا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں بھی ذہنی امراض میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گلاسگو شیل ڈونین یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس افئیر کے ڈائریکٹر جے کی مین کے مطابق یہ مسئلہ یکجہتی نہیں، بلکہ اس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں۔ ہمارے ہاں طلبہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے تنقید، گالی، دھمکیاں اور دھونس چلتی ہے جس کے باعث سوشل میڈیا بھیانک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ وہاں 24 گھنٹے پائی جانے والی تلخی اور کشیدگی نے نوجوانوں کا ذہن مفلوج کر دیا ہے۔
ذہنی امراض میں خوفناک اضافے کے باوجود نظام صحت نوجوانوں کی مدد کرنے سے معذور ہے۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے رہن سہن اور سماجی زندگی پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کو گرم کرنا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں گلیشئرز خوب پگھلیں گے اور ان کا پانی کئی ممالک اور شاید کئی امریکی ریاستوں کو بھی ڈبو دے۔ کون ڈوبے گا اور کون بچے گا؟ یہ جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے۔ طبی ماہرین نے ایک جگہ جم کر بیٹھنے کو بھی نئی ’’سگریٹ نوشی ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ بیٹھے رہنے کے بھی کم وبیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
مرنے والوں کی تعداد بھی سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کے برابر ہی ہے یعنی سوشل میڈیا اور سگریٹ نوشی کو ایک جیسا قاتل کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
انسانی صحت تو ایک طرف، یہ دونوں جانیں لینے میں بھی کم نہیں ہیں۔ امریکی جریدہ ’’فوربز‘‘ میں شائع ہونے والے ایلس جی والٹن کے مضمون کا موضوع بھی یہی ہے یعنی ’’سوشل میڈیا چھ طریقوں سے ہماری ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں جب ایک دو منٹ بھی فارغ ملتے ہیں تو ہم نیوز فیڈ یا ٹوئٹر وغیرہ کھول لیتے ہیں، بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ حرکت ہمارے ذہن اور صحت پر کتنی بھاری پڑتی ہے۔
امریکا کی ’’اکادمی برائے زچگان‘‘ نے سوشل میڈیا کے خوفناک اثرات سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے ٹین ایجرز اور کم عمر بچوں میں آپس میں محاذ آرائی اور بحث مباحثے کو ذہنی نشوونما کے لئے نہایت نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اسی لئے مغرب میں ’’FaceBook Depression‘‘ اور ’’Cyber Bullying ‘‘ کے نام سے دو نئے امراض متعارف ہوئے ہیں۔ یہ نفسیاتی مسائل بچوں سے مخصوص نہیں، مغربی تحقیق کے مطابق موبائل فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اٹین ایجرز اور ان سے کم عمر کے بچوں میں یہ امراض عام ہوتے جا رہے ہیں لیکن بڑے بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔
یہ چھ طریقوں سے ذہنی نشوونما کو برباد کر رہا ہے۔ ایک تو یہ نشہ بن چکا ہے۔ اسی موضوع پر کئی برس پر مشتمل تحقیق سے سوشل میڈیا اور نشے کا باہمی تعلق بھی دریافت کیا گیا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا انسانی ذہن پر کم وبیش وہی اثرات مرتب کرتا ہے جو نشہ سے ہوتے ہیں۔ تمام سائنسدان اس سے متفق نہیں ہیں، مگر سب کا اتفاق کرنا ضروری یا لازمی بھی نہیں ہے۔ نوٹنگھم یونیورسٹی کی رپورٹ کا ٹائٹل (FaceBook Addiction Disorder) ہی اس کی تحقیق کی تصدیق کرتا ہے۔ انہوں نے اسے ڈس آرڈر یعنی دماغی خلل سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی مدد سے نوجوان عملی زندگی سے فرار حاصل کرتا ہے۔ وہ معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔ ذہن ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا رہتا ہے۔ اس سے قوت برداشت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
اگرچہ سوشل میڈیا کا مقصد آپس کے تعلقات کو مضبوط کرنا اور ایک دوسرے کو مسلسل رابطے میں رہنا ہے۔ ایسی سائٹس 1996ء میں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں اور اب ان کی تعداد حشرات الارض کی طرح بڑھتی جا رہی ہے بلکہ شاید ان سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ہر سائٹ پر ہر کسی کا ذہنی میعار اور نکتہ نظر مختلف ہے۔ ان سب پر لازم نہیں کہ وہ دوسرے کا نکتہ نظر تسلیم کریں یا اس کا جواب دیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ’’راستہ ‘‘ ہی بدل لیں یعنی کوئی دوسری سائٹ کھول لیں۔ ورنہ وہاں ہونے والے ذہنی تصادم کا نتیجہ پریشانی اور خلفشار کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔ اس سے ذہنی خلفشار بڑھ رہا ہے۔ اسی لئے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ معلومات ضرور حاصل کیجئے مگر اس حد تک نہیں کہ آپ سوشل میڈیا کے غلام بن جائیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
یورپی یونین میں رہائش اور ملازمت کیلئے بلیو کارڈ کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟
یورپی یونین کے رکن ممالک میں بلیو کارڈ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوں اور انہیں ای یو کے کسی رکن ملک میں ملازمت کی آفر بھی ہو۔ یورپی یونین کا بلیو کارڈ دراصل یورپی یونین سے باہر کے ممالک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کو کام اور رہائش کی سہولت دیتا ہے۔ اس کارڈ کے حامل لوگوں کو سہولیات اور تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق بلیو کارڈ رکھنے والے افراد مخصوص وقت کے بعد یورپ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے اہلخانہ کو بھی یورپ بلا سکتے ہیں۔
درخواست منظور ہونے کے بعد مدت ملازمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک تا چار برس کے دورانیے کے لیے بلیو کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس کی مزید دورانیے کے لیے تجدید بھی کی جا سکتی ہے۔ دو سال تک قیام کے بعد بلیو کارڈ کے حامل شخص کے حقوق یورپی یونین کے شہریوں کے مساوی ہو جاتے ہیں تاہم وہ قرض یا مکان کے لیے فراہم کردہ حکومتی مراعات کے لیے اہل نہیں ہوتا۔
درخواست گزار نے کم از کم یونیورسٹی سطح تک تعلیم حاصل کی ہو۔ اسے یورپی یونین کے کسی ملک میں ملازمت کی آفر ہو۔ ملازمت کے لیے کم از کم تنخواہ بھی متعین ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں بلیو کارڈ حاصل کرنے کے لیے سالانہ تنخواہ کم از کم 52 ہزار یورو ہونا چاہیے۔
تاہم ایسے شعبوں میں، جن میں ہنرمند افراد کی کمی ہو، ملازمت کرنے والے افراد کی تنخواہ 40560 بھی ہو، تب بھی وہ بلیو کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ یورپی یونین کے کسی بھی رکن ممالک میں بلیو کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دی جا سکتی ہے۔ یہ درخواست متعلقہ ملک میں غیر ملکیوں سے متعلق امور کے دفتر میں جمع کرائی جاتی ہے۔ درخواست گزار خود بھی بلیو کارڈ کے لیے اپلائی کر سکتا ہے بصورت دیگر اسے ملازمت فراہم کرنے والا ادارہ بھی بلیو کارڈ کے لیے درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ بلیو کارڈ سکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کیلئے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
انٹر نیٹ کی ا یجاد کب اور کیسے ہوئی ؟
کیا کبھی آپ نے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے سوچا کہ چند بٹن دبانے سے معلومات کا سمندر کیسے ہمارے سامنے پلک جھپکتے ہی آموجود ہوتا ہے؟ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب کوئی بھی معلومات کسی بھی انسان کی دسترس سے دور نہیں ہے۔ ہم اپنے پیاروں سے بات کرتے ہیں، تحریری پیغام بھیجتے ہیں، وڈیو کال کرتے ہیں، تصاویر ارسال کرتے ہیں، خبریں پڑھتے اور دیکھتے ہیں، بہت سی کتابیں گانے فلمیں ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، ریڈیو سننے اور آن لائن گیم کھیلنے کے علاوہ چیزوں کی بکنگ کرتے ہیں، یہ فنگر ٹپس پر دستیاب ہوتا ہے۔ اس کا واحد بہترین ذریعہ ہے انٹرنیٹ۔ اب یہ آیا کہاں سے، کس نے بنایا؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ دراصل یہ کئی ذہین انسانوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
انٹرنیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ صرف 55 سال پہلے کی بات ہے یعنی 1962ء میں جے سی آر لائک نامی سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی بنیاد انٹر گلیکٹک نامی نیٹ ورک بنا کر رکھی۔ دراصل یہ ایک ایجنسی سے تعلق رکھتے تھے جس کا نام ’ڈی ارپا‘ یعنی ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ پروجیکٹ تھا، جس کا اولین مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی معلومات تک رسائی دینا ممکن بنانا تھا۔ اس خواب کو لے کر جے سی آر لائک میدان میں اتر گئے اور ڈی ارپا کے ہیڈ بنے۔ ان کے 2 بیٹے وینٹ کرف اور بوب کھین، جنہوں نے 1974ء میں انٹرگلیکٹک نیٹ ورک کا نام انٹرنیٹ رکھ دیا اور جے سی آر لائک کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹی سی پی ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول کا نظام متعارف کروایا۔
اس کے بعد 1976ء میں ڈاکٹر رابرٹ کلف نے ایک تار ایجاد کیا جسے ایتھرنیٹ کوایکسیل کیبل کہتے ہیں، اس کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹاٹرانسفر کیا جا سکتا تھا۔ جیسے فائل ٹیکسٹ وغیرہ۔ مگر یہ محدود جگہ میں کام کر سکتا تھا۔ صرف دفتر، اسکول یا کسی عمارت کے اندر۔ پھر 1983ء میں وینٹ کرف اور بوب کھین نے ڈی ارپا کا نام تبدیل کر کے ارپا نیٹ رکھ دیا اور ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ جسے بھی انٹرنیٹ درکار ہو، اسے ٹی سی پی لینا ہو گا۔ یہ ابھی شروعات تھی۔ مزید ترقی 1984ء میں ہوئی جب ڈاکٹر جوہن پوسٹل نے ویب کی بنیاد رکھی.
اس طرح مختلف اداروں کے لیے الگ الگ طریقوں سے سرچ کیا جا سکتا تھا. جیسے آج ہم .com، .org، .edu، .gov لکھ کر سرچ کرتے ہیں لیکن ابھی تو انٹرنیٹ کا سفر بمشکل شروع ہی ہوا تھا۔ 1989ء میں ایک بار پھر جے سی آر لائک کے دونوں بیٹے وینٹ کرف اور بوب کھین نے اہم قدم اٹھایا اور ایک کمپنی آئی ایس پی کی بنیاد رکھی۔ یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر۔ اس کے 2 فائدے ہوئے۔ ایک ان کے والد کا خواب پورا ہوا، دوسرا برسوں کی محنت اب کاروبار میں بدلنے والی تھی کیونکہ انٹرنیٹ کنکشن اب گھر گھر جا سکتا تھا۔ بالکل ٹیلیفون وائر کی طرح اور اس کے ساتھ ایک رسیور بھی دیا جاتا جس کو ہم موڈیم کے نام سے جانتے ہیں۔
یوں باآسانی کسی بھی صارف کا کمپیوٹر انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ منسلک ہو جاتا تھا اور کمپنی اس کا بل وصول کرتی تھی۔ یہ ڈائل اپ سسٹم کہلاتا ہے۔ 1991ء میں ٹم برنلس نے www وضع کی یعنی ورلڈ وائیڈ ویب۔ اس اضافے کے بعد بہت سے کام اب آن لائن ہو سکتے تھے۔ اس کامیابی کا نتیجہ بہت سے حیرت انگیز انقلابوں کا راستہ استوار کرنے میں اہم پیش رفت ثابت ہوا۔ سب سے پہلے پیزاہٹ نے آن لائن سروس کو اپناتے ہوئے پیزا بک کرنا انتہائی آسان کر دیا، مگر ابھی بھی کافی کمیاں تھیں ۔ 1996ء وہ سال تھا جب پہلی ای میل سروس ہاٹ میل لاؤنچ ہوئی۔ برقی خطوط بذریعہ انٹرنیٹ کہیں بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ 1998ء میں ہمارا جانا مانا سرچ انجن گوگل لاؤنچ ہوا۔ اسے بنانے کا سہرا لیری پیچ اور سرجی برین کے سر جاتا ہے۔
سن 1999ء میں انٹرنیٹ کے تاروں سے تنگ آکر ایک نوجوان نے ذرا الگ طریقے سے سوچنا شروع کیا۔ وہ سوچ یہ تھی کہ جیسے آواز بنا تار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے، ریڈیو میں تو کوئی ڈیٹا کیوں نہیں، اسی جدوجہد میں وائی فائی کا جنم ہوا یعنی کہ وائرلیس فڈیلیٹی ، جس سے موڈیم پر بھی فرق پڑا۔ یہ ایک اہم سنگ میل تھا جو آج ہمارے لیے کافی کارگر ہے۔ اس کارنامے کو انجام دینے والے کا نام نیپسٹر ہے۔ 2001ء میں وکی پیڈیا ویب سائٹ بنی۔ اسے ایجوکیشن کا کوئی بھی معاملہ حل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
سن 2003ء کی آمد کے ساتھ انٹرنیٹ پر تفریح کا سامان مہیا ہونے لگا۔ اس دوران ایپل کمپنی نے آئی ٹون نامی سائٹ میں 200000 گانے اپ لوڈ کر دیے۔ 2004ء وہ وقت تھا جی میل لاؤنچ ہوا اور ڈیٹا اسٹوریج کی صلاحیت 1 جی بی کر دی گئی جبکہ اس سے پہلے یاہو، ہاٹ میل صرف 2,4 ایم بی ہی دیتے تھے۔ اب باری آئی انٹرنیٹ پر وڈیو کی، یہ مسئلہ 2005ء میں یوٹیوب کے آنے کے بعد حل ہو گیا۔ یہ عنایت بھی گوگل کی طرف سے کی گئی۔ اسکے لاؤنچ ہونے کا اضافی فائدہ تھا کیونکہ وڈیو ڈاؤنلوڈ اور اپلوڈ دونوں کی جا سکتی تھیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ کام 2006ء میں ہوا کہ جب فیس بک اور ٹوئٹر کا ظہور ہوا۔ انہیں بنانے والے مارک زکربرگ اور جیک ڈارسی ہیں۔ ان سائٹس سے کیا فوائد حاصل ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جسارت
↧
↧
مونا لیزا : آخر اس پینٹنگ میں ایسا کیا ہے؟
اطالوی فنکار لیونارڈو ڈا ونچی کی پورٹریٹ پینٹنگ ’’مونا لیزا‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے مقبول، سب سے قیمتی اور سب سے زیادہ زیادہ دیکھی جانے والی پینٹنگ ہے لیونارڈو صرف مصور نہیں تھا بلکہ سائنس دان، ماہر تعمیرات اور موجد بھی تھا اور اسے انتہائی ذہین انسان سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس کی پینٹنگ کو بھی غیرمعمولی سمجھا جانے لگا۔ اگرچہ بعدازاں پیش کردہ شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس اور تعمیرات میں اس نے کوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام نہیں دیا، لیکن اکیسویں صدی تک وہ انتہائی ذہن فرد کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔ لیو نارڈو نے اسے 1503ء سے 1506ء کے درمیان پینٹ کیا، البتہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 1517ء تک کسی نہ کسی شکل میں اس پر کام کرتا رہا۔
اب یہ فرانس کی ملکیت ہے اور پیرس میں واقع لوویرے عجائب گھر میں 1797ء سے نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے جہاں اسے دیکھنے والوں کا تانا بندھا رہتا ہے۔ لازماً سوچا جاتا ہے کہ ایک عورت، جسے زیادہ حسین بھی نہیں کہا جا سکتا بغیر زیور پہنے، سادہ لباس میں کرسی پر بیٹھی نظریں جمائے سامنے دیکھ رہی ہے، بس۔ آخر اس پینٹنگ میں ایسا کیا ہے! اس بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اس میں جہاں مصور کا کمال ہے وہیں حادثاتِ زمانہ کا بھی ہاتھ ہے۔ بلاشبہ یہ نہایت عمدہ پینٹنگ ہے جس میں مونا لیزا کے تاثرات کو عام طور پر پُراسرار اور پیچیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان تاثرات کے معنی کیا ہیں، اس بارے میں آرا بہت سی ہیں لیکن کسی ایک کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ مونا لیزا کرسی پر تن کر بیٹھی ہے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر آرام سے رکھا ہوا ہے جو کہ پُروقار اور اخلاقیات کی پابند عورت کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی زندہ صورت سامنے ہو۔
لیونارڈو نے اس میں لائنوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ مصوری کی وہ تکنیک برتی جسے ’’سفو ماٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں رنگ ایک دوسرے میں آہستگی سے جذب ہوتے ہیں اور انسانی نظر کسی ایک مقام پر ٹھہر نہیں پاتی۔ اس مقصد کے لیے لیونارڈو نے عدسوں اور انسانی نظر پر اپنی تحقیق سے استفادہ کیا۔ مونا لیزا کے پیچھے ایک خیالی قدرتی منظر کو پیش کیا گیا ہے۔ لیونارڈو نے اردگرد کے ماحول کو مرکزی کردار پر اثر ڈالنے کے لیے برتا۔ مونا لیزا کی پلکیں اور بھنویں دکھائی نہیں دیتیں جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس دور میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی عورتیں انہیں اتروا بھی دیا کرتی تھیں۔ لیونارڈو کے ایک دوست کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت فلورنس کے مالدار تاجر فرانسسکو ڈل جیوکونڈو کی بیوی لیزا جیرار ڈینی ہے۔
مونا لیزا کی نظروں اور ہلکی سی مسکراہٹ کو انیسویں صدی تک پراسرار نہیں کہا جا تا تھا، تاہم آج اس کے تاثرات پر خاصے مباحثے ہوتے ہیں۔ بہت سی دوسری اچھی پینٹنگز بھی ہیں جن کی خوبیاں کم از کم اس پینٹنگ کے ہم پلہ ضرور ہوں گی لیکن وہ مونالیزا جتنی خوش قسمت نہیں۔ یہ پینٹنگ لوورے میں ہے، جو ان عجائب گھروں میں سے ہے جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔ یہ ابتدا میں فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کے پاس آئی۔ اسی بادشاہ کے دربار میں لیونارڈو نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ فرانسیسی محل میں یہ پینٹنگ صدیوں تک عام لوگوں سے اوجھل رہی۔ پھرفرانس میں ایک عوامی ابھار آیا جسے انقلابِ فرانس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فنون کے شاہی ذخیرے کو عوامی ملکیت قرار دے دیا گیا۔
پینٹنگ نے کچھ وقت نپولین کے سونے کے کمرے میں گزارا۔ انیسویں صدی کی آمد پر یہ لوورے عجائب گھر میں لگا دی گئی۔ لوورے کی سرپرستی بڑھنے کے ساتھ مونا لیزا کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔ لیونارڈو یورپی نشاۃ ثانیہ کا اہم کردار تھا اور انیسویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کے بارے میں سکالرز کی دلچسپی بھی بڑھ چکی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ 1911ء میں ’’مونا لیزا‘‘ چوری ہو گئی جسے ذرائع ابلاغ نے بہت زیادہ کوریج دی۔ لوگ دھڑا دھڑ اس خالی جگہ کو دیکھنے آئے جہاں کبھی یہ نصب تھی۔ ایسا ہنگامہ ہوا کہ عجائب گھر کے ڈائریکٹر نے استعفیٰ دے دیا اور مشہور مصور پابلو پکاسو تک کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پینٹنگ کو ریاست ہائے متحدہ امریکا اور جاپان کی سیر کرائی گئی جس سے اس کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔ المختصر، پینٹنگ بہت اچھی ہے لیکن اس کی شہرت میں بہت سے دیگرعوامل کار فرما ہیں۔
رضوان عطا
↧
Bird hunters of Afghanistan
Bird hunting is an ancient sport in Afghanistan, where local and migrating species have flocked for thousands of years and where even amid the chaos of the past 40 years of conflict, the tradition persists. Untold numbers of migratory birds are being caught and killed every year in Afghanistan, helping drive species like the Siberian Crane to the verge of extinction. Hunters say other bird populations are also declining rapidly, raising fears among environmentalists. Noar Agha loads small stones into the leather pouch attached to his homemade sling shot. "This is like a big transit airport for birds," he says, pointing to a lush valley ringed by snowy Hindu Kush peaks in Parwan province, about 160km (100 miles) from Kabul.
Syed Khel district's wheat fields and orchards offer a perfect resting point for migratory birds. "Thousands of White-naped Cranes, flamingos, ducks, falcons and sparrows migrate from India and Pakistan when summer temperatures begin to rise there. They make a stopover here before taking off for Russia. That's when we make a move," Mr Agha says. About a dozen of his grandchildren nod in appreciation. Then a boy perched on a tree top waves a piece of cloth and Mr Agha orders everyone to scatter. Soon a huge flock of sparrows descends on the valley. He and his grandchildren fire a volley of stones from their sling shots. As dozens of sparrows crash to the ground, three hunting dogs are let loose. They quickly retrieve the injured birds, including those that dropped far from sight.
↧
پاک ایران دوستی کے نئے عہد و پیماں
پاکستان اور ایران صدیوں سے لازوال تاریخی مذہبی ثقافتی اور تجارتی رشتوں میں منسلک ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے تعلقات میں مزید گرمجوشی آئی لیکن پچھلے دو تین عشروں سے بین الاقوامی سطح پر فروغ پانے والی دہشت گردی سے یہ دونوں برادر ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان میں بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ جس کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کی تقریباً ساڑھے 9 سو میل لمبی مشترکہ سرحد کے آر پار بعض ناخوشگوار واقعات کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ مثلاً حال ہی میں سرحد کی دوسری طرف ایران میں موجود بلوچ دہشت گرد گروپ نے پاکستان میں گھس کر مکران کوسٹل ہائی وے پر 14 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کر دیا۔
اس سے قبل مبینہ طور پر پاکستان کی سرحد کے اندر سے ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان جا کر دہشت گردوں نے ایران کے انقلابی گارڈز کی بس پر حملہ کیا اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے جن سے دونوں ملکوں میں بے اعتمادی کی کیفیت نمایاں ہوئی۔ اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان کا دو روزہ دورہ ایران باہمی تحفظات دور کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور دوسرے رہنمائوں سے وزیراعظم کی ملاقاتوں کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ دونوں ملکوں میں دوستی اور تعاون بڑھانے کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی کی غمازی کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان سیکورٹی تعاون بڑھانے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشترکہ سرحد کے تحفظ کے لئے مشترکہ سریع الحرکت فورس بنانے پر اتفاق ہوا ہے جس کے تحت اس عہد کی نئے سرے سے تجدید کی گئی کہ دونوں ممالک اپنی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر آہنی باڑھ لگائی جائے گی پاکستان نے جیش عدل اور لشکر خراسان سمیت تمام دہشت گرد گروپوں پر پابندی لگانے کی یقین دہانی کرائی جن پر اس کی سر زمین ایران کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔
سیکورٹی تعاون بڑھانے کے لئے دونوں ملکوں کی سیکورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں کی ملاقات میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اہم تجاویز زیر غور آئیں۔ اس وقت بارڈر سیکورٹی میکانزم موجود ہے جس کے تحت سرحدوں پر مشترکہ گشت اور نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور اشیاء کے تبادلے کے لئے کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ صحت اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ دونوں ملک سرحدی علاقوں میں مشترکہ صنعتیں لگائیں گے۔ صدر روحانی نے پاکستان کی تیل و گیس کی ضرورت پوری کرنے اور بجلی کی برآمد دس گنا بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔
اس حوالے سے دونوں ملکوں نے ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ایرانی صدر نے اپنی چاہ بہار بندرگاہ کو ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے گوادر پورٹ سے ملانے کی پیشکش بھی کی۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں لیکن ان کے دشمن بھی ہیں جو ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے دہشت گردوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے صدر روحانی کو یقین دلایا کہ پاکستان ایران کے خلاف کسی محاذ کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہ بھی کہا کہ ہم نئے پاکستان میں ایران جیسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جس میں امیر اور غریب کے مابین کوئی تفریق نہ ہو۔
مجموعی طور پر وزیراعظم کا دورہ ایران باہمی مفاد میں بہت کامیاب رہا۔ اس دوران ہونے والے فیصلوں سے دونوں ملکوں کو سلامتی کے علاوہ معاشی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔ اس حوالے سے اقتصادی تعاون کی تنظیم جس کے پاکستان، ترکی اور ایران بانی ملک ہیں، کے تحت استنبول سے اسلام آباد تک ریلوے لائن کی بحالی کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی رو سے ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ اور چین کے ساتھ بھی ان کے رابطے استوار ہو سکیں گے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
لائبیریا : سیاہ فام امریکیوں کا ملک
طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد امریکی سیاہ فاموں کو مساوی حقوق ملے۔ یہ جدوجہد بہت سے نشیب و فراز سے عبارت ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے خیال اور نظریے نے غلبہ پایا لیکن آخر کار غلامی کا طوق سیاہ فاموں کی گردن سے اتر گیا۔ حیرت انگیز طور پر امریکی سیاست افریقہ میں ایک نئے ملک کی تخلیق کا باعث بنی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رہنماؤں کے سامنے سب سے بڑا سوال ’’غلامی‘‘ تھا… اسے جاری رکھنا چاہیے یا ختم کر دینا چاہیے؟ اگر امریکا میں غلامی ختم کر دی جائے تو کیا آزاد ہونے والوں کو ملک میں رہنے دیا جائے یا کہیں اور بھیج دیا جائے؟
سفید فاموں میں ایک اچھوتا خیال پروان چڑھا… آزاد سیاہ فام امریکیوں کو افریقہ میں ’’کالونائزیشن‘‘ یا نو آبادکاری کے ذریعے بھیج دیا جانا چاہیے۔ 1816ء میں قائم ہونے والی ’’امریکن کالونائزیشن سوسائٹی‘‘ نے اس مقصد کے لیے افریقہ میں نوآبادی بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ دراصل انہیں کوششوں کے نتیجے میں بالآخر افریقہ کا ملک لائبیریا وجود میں آیا۔ اس سوسائٹی میں مستقبل کے امریکی صدور جیمز مونرو اور اینڈریو جیکسن بھی شامل تھے۔ یہ امریکا میں غلامی کے خاتمے سے 50 برس قبل کی بات ہے۔ 1821ء میں سوسائٹی نے مغربی افریقہ کے مقامی رہنماؤں سے ایک معاہدہ کیا اور زمین کی ایک پٹی حاصل کر لی۔ اگلے برس سوسائٹی نے آزاد ہونے والے لوگوں کو یہاں بھیجنا شروع کر دیا۔ ان میں زیادہ تر خاندان تھے۔ 40 برسوں میں 12 ہزار کے لگ بھگ سیاہ فام امریکی اس نئی نو آبادی میں پہنچے۔
امریکن کالونائزیشن سوسائٹی سیاہ فاموں کی اس تحریک سے جدا تھی جو امریکی سیاہ فاموں کے افریقہ واپس جانے کی حمایت کرتی تھی اور اس کے خیال میں امتیازی سلوک سے بچنے کے لیے واپسی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف بہت سے سیاہ فام واپسی کے مخالف بھی تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ اس ملک (امریکا) کو انہوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے اس لیے اس پر ان کا بھی برابر کا حق ہے۔ 1830ء کی دہائی کے اوائل میں غلامی کے خاتمے کی تحریک زور پکڑنے لگی جس کا مطالبہ تھا کہ غلامی کو یک لخت ختم کیا جائے۔ اس تحریک سے وابستہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ سیاہ فام امریکیوں کو لائبیریا بھیجنا ظلم ہے جہاں انہیں اجنبی ماحول سے نپٹنا پڑتا ہے۔
جوزف جینکنز رابرٹس 1841ء میں مذکورہ افریقی نوآبادی کے پہلے سیاہ فام گورنر بنے، اور 1847ء میں لائبیریا کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ پہلی افریقی نوآبادی تھی جس نے آزادی حاصل کی۔ امریکا نے لائبیریا کو فوری طور پرآزاد ملک تسلیم نہیں کیا۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن تب نوآبادی قائم کرنے کے تصور سے دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ لیکن جب امریکی خانہ جنگی شروع ہوئی تو انہوں نے ایسی کالونائزیشن کے خیال کو ترک کر دیا اور سیاہ فاموں کے ووٹ کے حق کی کھلے عام حمایت شروع کر دی۔ آج لائبیریا 43 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک آزاد ملک ہے۔
مسیحی باشندے اکثریت میں ہیں جبکہ 12 فیصد مسلمان بھی آباد ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران لائبیریا نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں اس نے وہاں خاصی سرمایہ کاری کی۔ دوسری طرف یہاں آباد مقامی قبائل کے ساتھ نو آباد لوگوں کی شروع میں زیادہ نہ نبھ پائی جس کی وجہ سے کچھ قبائل آبادکاروں پر حملہ آور بھی ہوتے رہے۔ گزشتہ کچھ چند دہائیوں میں سیاسی تنازعات اور خانہ جنگی سے ملکی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا ہے اور غربت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
رضوان عطا
↧
↧
امریکی صدر ٹرمپ کی ٹوئٹر کے سربراہ سے ملاقات : میرے فالوور کم کیوں ہوئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹیو جیک ڈورسی سے ملاقات کی ہے۔ صدر ٹرمپ بارہا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قدامت پسندوں کے خلاف متعصب ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر کے سربراہ جیک ڈورسی سے ملاقات سے ایک روز قبل ہی ٹوئٹر پر قدامت پسندوں کے خلاف متعصب ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکی صدر کے ان الزامات کے بعد ٹوئٹر کے مارکیٹ شیئرز میں پندرہ فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹیو سے ملاقات کے دوران بھی زیادہ تر وقت ان سے یہی پوچھتے رہے کہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کے فالوورز کی تعداد میں کمی کیوں ہو رہی ہے۔
اس ملاقات کے بعد اپنے ٹوئٹر پیغام میں صدر ٹرمپ نے لکھا، ’’وائٹ ہاؤس میں ٹوئٹر کے جیک سے ملاقات بہترین رہی۔ ان کے پلیٹ فارم اور سوشل میڈیا کی دنیا کے بارے میں کئی موضوعات زیر بحث آئے۔‘‘ صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے جواب میں جیک ڈورسی نے لکھا، ’’آپ کے وقت کے لیے شکریہ۔ ٹوئٹر تمام عوام کے لیے مباحثے کی خدمات فراہم کرتا ہے اور ہم اسے مزید صحت مند اور مہذب بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئندہ بھی کھل کر گفتگو کے منتظر ہیں۔‘‘ نیوز ایجنسی روئٹرز اس ملاقات سے باخبر ایک ذریعے کے حوالے سے لکھا کہ صدر ٹرمپ اس ملاقات کے زیادہ تر وقت کے دوران جیک ڈورسی سے یہی پوچھتے رہے کہ ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ کے فالوورز کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے۔
جواب میں ڈورسی نے انہیں بتایا کہ کمپنی نے سن 2016 میں غلط معلومات پھیلائے جانے کے معاملے کے بعد سے جعلی اور اسپیم صارفین کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کئی اکاؤنٹس بلاک کیے گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ کے دنیا بھر میں ساٹھ ملین سے زائد فالوورز ہیں اور وہ اکثر اوقات بین الاقوامی سفارت کاری کے لیے بھی ٹوئیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر متعصب ہونے اور ان کے فالوورز کم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہی الزامات دہرائے تاہم اس مرتبہ حیران کن طور پر ٹوئٹر کے شیئرز میں پندرہ فیصد کمی دیکھی گئی۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
چین نے 313 پاکستانی مصنوعات کو اپنی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری رسائی دیدی
وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ چین نے 313 پاکستانی مصنوعات کو اپنی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری رسائی دیدی ہے ۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ آزادنہ تجارتی معاہدہ دوئم پر بیجنگ میں دستخط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے 313 پاکستانی مصنوعات کو اپنی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری رسائی دی ہے اور یہ ڈیوٹی کی چھوٹ صرف ٹیکسٹائل مصنوعات تک محدود نہیں بلکہ کیمیکل، انجنیئرنگ، فٹ ویئر، پلاسٹک اور فوڈ آئٹمز بھی ڈیوٹی فری ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ آزادانہ تجارتی معاہدے میں مقامی صعنت کو ترجیح دی گئی ہے جس سے پاکستان کی مقامی صنعتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو گا جب کہ پاکستان کو ڈیوٹی فری رسائی دینے والی اشیاء کی چین میں سالانہ درآمد 40 ملین ڈالر کی ہے۔ مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ چین کی 1700 مصنوعات کو حساس لسٹ میں رکھا گیا ہے، اگر ملکی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہو گا تو سیف گارڈ لگائے جائیں گے، صنعت کے تحفظ کے لیے 1700 چینی اشیاء پر سیف گارڈ بھی لگا دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ برآمد کندگان چین کے ساتھ ہونے والے تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اقدامات کریں کیوں کہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بہترین مواقع ہیں اور اس کو گنوانا نہیں چاہیے۔
بشکریہ جیو نیوز
↧
پاکستان ایف اے ٹی ایف میں اپنا کیس پیش کرنے کیلئے تیار
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے عالمی معیار کی تعمیل کرتے ہوئے اور کارکردگی کی بنیاد پر جائزے کی سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سری لنکا میں فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے سامنے اپنا کیس پیش کرے گا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے اب تک ایف اے ٹی ایف کے 28-29 نکات میں سے 19 پر عملدرآمد کروا دیا ہے جبکہ انتظامی اور قانون سازی کے حوالے سے 5 نکات پر ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو امید ہے کہ بقیہ نکات پر مالی بل 20-2019 کے ذریعے رواں برس جون تک عمل کر لیا جائے گا۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ وزارت خارجہ ایف اے ٹی ایف میں جغرافیائی صورتحال کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لینے کے لیے امریکا سمیت بااثر ممالک اور یورپی یونین سے رابطہ کرے گی اور اس کے لیے ایف اے ٹی ایف کے صدر مارشل بلنگسلیا کے سامنے بھی موقف پیش کیا جا چکا ہے۔ خیال رہے کہ مارشل بلنگسلیا، امریکی محکمہ خزانہ میں نائب سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہیں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت اور مالی جرائم کی روک تھام کی تنظیم کی سربراہی بھی انجام دے رہے ہیں۔
اجلاس کے بعد کمیٹی کے چیئرمین فیض اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایف اے ٹی ایف پر دی گئی حکومتی بریفنگ سے مطمئن ہیں، ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر تیزی سے عمل کر رہی ہے اور اُمید ہے کہ معاملات جلد حل ہو جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان شرائط پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں کسی کو بھی ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کمیٹی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی عہدیدار ایف اے ٹی ایف کی شرائط کا غلط استعمال یا کسی کو ہراساں کرنے کا مرتکب پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
North Korean leader Kim Jong Un arrives in Russia
North Korean leader Kim Jong Un arrived in the Russian city of Vladivostok on Wednesday for a summit he is likely to use to seek support from Russian President Vladimir Putin while Pyongyang's nuclear talks with Washington are in limbo. Diplomatic relations between North Korea (Democratic People's Republic of Korea, DPRK) and the Soviet Union (Union of Soviet Socialist Republics, USSR, the predecessor state to the Russian Federation) were first established on October 12, 1948, shortly after the Democratic People's Republic of Korea was proclaimed. During the Korean War, the Korean People's Army was supported by the Soviet military forces. North Korea was founded as part of the Communist bloc, and received major Russian support.[1] China and the Soviet Union competed for influence in North Korea during the Sino-Soviet split in the 1960s, as North Korea tried to maintain good relations with both countries.
Relations between the two countries continued after the fall of the Soviet Union. The relationship gained some importance again after Vladimir Putin was elected President of Russia in 2000. Kim Jong-un also accepted an invitation to visit Russia in mid-2015. The two states share a border along the lower Tumen River , which is 17 kilometers (11 mi) long and was formed in 1860 when the Tsar Alexander II acquired territory ceded from China in the Convention of Peking. Favorable perceptions of North Korea in Russia are gradually declining, with only 34% of Russians viewing North Korea as a friendly nation and 60% of Russians believing that North Korea's nuclear arms pose a threat to other countries; only 8% of Russians favor supporting North Korea in a potential conflict. According to a 2014 BBC World Service Poll, 19% of Russians view North Korea's influence positively, with 37% expressing a negative view.
Courtesy : Wikipedia
↧
↧
افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلاء پر امریکا، روس، چین متفق
امریکا نے روس اور چین کے ساتھ مذاکرات میں اتفاق کیا ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کو نکال لیا جائے۔ افغانستان کیلئے امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے ماسکو میں روسی اورچینی مندوبین سے ملاقات کی ۔ مشترکہ بیان میں تینوں ممالک نے کئی اہم نکات پر اتفاق کیا اور امن عمل کیلئے فورسز کے انخلاء پر آمادگی ظاہر کی۔ طالبان نے بھی عز م ظاہر کیا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلق توڑ لیں گے اور داعش کے خلا ف لڑیں گے۔ اپنے زیر کنٹرول علاقے کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ قبل ازیں امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ جنگ ’بہت طویل ہوگئی‘ ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
شمالی کوریا سے گہرے تعلقات چاہتا ہوں، ولادی میر پوٹن
روس کے صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان ولادی ووسٹوک میں ملاقات ہوئی ہے۔ پوٹن کے مطابق اس ملاقات میں جزیرہ نما کوریا کے حالات پر تفصیل کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ ولادی ووسٹوک میں روسی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر نے اپنی پہلی ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اس میٹنگ میں زیر بحث لائے گئے موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ کم جونگ اُن نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس ملاقات سے روس اور شمالی کوریا کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہونے کے علاہ خطے میں استحکام بھی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ کم جونگ اُن اور ولادیمیر پوٹن نے مشرقی روسی شہر ولادی ووسٹوک میں ہونے والی میٹنگ میں اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنائیں گے۔ روسی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ شمالی کوریائی لیڈر کے ساتھ علاقائی صورت حال پر بھی تفصیل کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے۔
پوٹن نے یہ بھی کہا کہ اس دوران شمالی کوریائی جوہری پروگرام پر پائے جانے والے عالمی خدشات کی شدت کو کم کرنے کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ روسی صدر کے مطابق اس میٹنگ میں چیئرمین کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کی صورت حال کو بہتر بنانے کے حوالے سے اپنی رائے سے بھی انہیں آگاہ کیا اور مجموعی علاقائی صورت حال کو پرامن انداز میں بہتر کرنے کو بھی موضوع بنایا گیا۔ پوٹن نے مجموعی بات چیت کو انتہائی مفید قرار دیا۔ اس میٹنگ کے بعد شمالی کوریائی لیڈر چیئرمین کم جونگ اُن نے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ روسی صدر کے ساتھ انتہائی بامعنی مذاکرات ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کے میٹنگ میں جزیرہ نما کوریا کی مجموعی صورت حال کو بہتر کرنے پر بھی انتہائی مفید مشاورت کی گئی۔
ولادی میر پوٹن اور کم جونگ اُن کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان مشرقی روسی شہر ولادی ووسٹوک میں مذاکرات کے آغاز سے قبل بھی روسی صدر نے صحافیوں پر واضح کیا کہ روس شمالی کوریائی لیڈر کی اُن کوششوں کی حمایت کرتا ہے، جو وہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن مذاکرات کے لیے اپنے اپنے وفود کے ہمراہ ولادی ووسٹوک کی ایک یونیورسٹی میں پہنچے تھے۔ شمالی کوریائی لیڈر اور روسی صدر کے یہ ملاقات کم جونگ اُن اور امریکی صدر کے درمیان رواں برس فروری میں مذاکرات نٰاکام ہونے کے بعد خاصی اہمیت کی حامل قرار دی گئی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
چین کی میزائل ٹیکنالوجی امریکہ کے لیے چیلنج بن گئی : رپورٹ
چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے ملک کے میزائل نظام کو اس قدر مضبوط کر دیا ہے کہ وہ اب ایشیا میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑوں اور چھاؤنیوں کیلئے غیر معمولی چیلنج کا باعث بن گیا ہے۔ امریکی بحریہ کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کیپٹین جیمز فینل نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ’’چین کے پاس اب دنیا کی جدید ترین بیلسٹک میزائل فورس ہے، اور اس میں اِتنی صلاحیت ہے کہ وہ ہمارے دفاعی نظاموں پر غالب آ سکتی ہے‘‘۔ رائٹرز نے اپنی خبر میں کہا ہے کہ کارکردگی کے اعتبار سے چین کے ہتھیار اور اسلحہ اب امریکہ کے مقابلے پر آگئے ہیں یا پھر اِن سے بہتر ہو گئے ہیں، اور امریکہ کی جانب سے جنوبی کوریا، جاپان اور تائیوان جیسے اتحادیوں کو فراہم کیے جانے والے حفاظتی حصار کو چیرتے ہوئےاندر تک مار کر سکتے ہیں۔
چین کے فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے سمندروں میں کسی تنازعے کی صورت میں، اب چین کے پاس ایسے ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ امریکہ کو اپنے ساحلوں سے دور رکھ سکتا ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک ریٹائرڈ کرنل نے رائٹرز کو بتایا کہ چین، امریکہ کو سمندروں میں شکست تو نہیں دے سکتا، لیکن اس کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں، جو کسی تنازعے کی صورت میں، امریکی طیارہ بردار جہازوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنا کر اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔ یہ امکانی طور پر ایک ڈرامائی انکشاف ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین میں تسلط کیلئے اپنی کارروائیوں کو وسعت دیتے ہوئے، چین کسی امریکی مداخلت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں پر، چین کا تائیوان اور جاپان کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔
اب اچانک امریکہ کے فوجی منصوبہ سازوں کو احساس ہوا ہے کہ امریکہ میزائل ٹیکنالوجی میں کچھ پیچھے رہ گیا ہے جو کہ ان کیلئے ایک نئی اور ڈراؤنی صورتحال ہے۔ چونکہ چین کے بحری جہاز شکن میزائل، اب طیارہ بردار بیڑوں کو نشانہ بنا سکیں گے، اس لئے کسی تنازعے کی صورت میں چین کو اب سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ اگر امریکی بحری جہازوں پر موجود طیاروں کو مجبوراً اپنی رینج سے باہر نکل کر کارروائی کرنا پڑی تو اُن کی کاٹ بہت کم ہو گی۔ کافی عرصے سے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں جنگوں میں مصروف، امریکہ، اب تیزی سے سبقت کا پلڑا اپنے حق میں کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ چھہ مہینوں میں روس کے ساتھ اپنے میزائل سمجھوتے سے الگ ہو رہا ہے، جس سے امریکہ کیلئے تین عشروں سے زمین سے مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری پر قدغن سے مبرّیٰ ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ چین کی وزارتِ دفاع، امریکہ کے محکمہ دفاع (پینٹاگون) اور یو ایس اِنڈو پیسیفک کمان نے اس بارے میں رائٹرز کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
چین کے ڈیجیٹل سلک روڈ کا مستقبل
چین ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے اپنے رابطے استوار کرنے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ مغربی اقوام اس عمل میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ سن 2017 میں پہلے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں چینی صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ اقوام عالم کے ڈیٹا کو بیلٹ اینڈ روڈ نامی منصوبے میں ضم کر کے اسے اکیسویں صدی کا ڈیجیٹل سلک روڈ کے طور پر عالمی منظر پر لایا جائے گا۔ صرف دو برسوں کے بعد ہی یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے قریب ہے۔ چین میں شروع بیلٹ ایڈ روڈ فورم میں ڈیجیٹل سلک روڈ میں چینی ٹیلی کام نے عالمی کاروباری لیڈروں کی جانب سے سرمایہ کاری کے امکانات کو واضح کیا ہے۔
حین اس ڈیجیٹل سلک روڈ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ عالمی مالی منڈیوں کو بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل ممالک کے مختلف شہروں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ اس ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے سیٹیلائٹ کوریج میں سہولت میسر آئے گی۔ یہ بھی اہم ہے کہ مغربی اقوام کی بڑی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل چھوٹے ممالک میں کوئی مسابقت میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مغربی اقوام کی بڑی ٹیلی مواصلاتی کمپنیاں چین کی مسابقت میں پیچھے ہیں.
اسٹریٹیجک ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں چین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر تعمیر کر کے زمین کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنے اثر میں لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس عمل کی تکمیل پر چین سائبر اسپیس میں اپنی حاکمیت قائم کر کے اپنے اصول و ضوابط متعارف کر سکے گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین بڑی تیز رفتاری کے ساتھ انتہائی برق رفتار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فائیو جی ٹیکنالوجی کے نیٹ ورک پر مبنی نظام کو فعال کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس نظام کی تکمیل پر ڈیجیٹل سلک روڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک سپر ہائی وے میں تبدیل ہو جائے گی۔ رواں برس فروری تک چینی کے بڑے ٹیلی کام ادارے ہواوے کے پاس فائیو جی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی پندرہ سو انتیس ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز کے جملہ حقوق رکھتی ہے۔ یہ کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں اگر ایک اور چینی ٹیلی کام کمپنی زیڈ ٹی آر کو بھی شامل کر لیا جائے تو چینی کمپنیاں چھتیس فیصد جدید ترین فائیو جی ٹیکنالوجی ڈیوائسز کے حقوق کی مالک ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ افریقی ملک زیمبیا میں چینی کمپنی ہواوے ٹیلی مواصلاتی انفراسٹرکچر بچھانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو چینی ای کامرس کے بڑے ادارے علی بابا اور ٹین سینٹ مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ چینی ٹیلی مواصلاتی کمپنیاں فائیو جی ٹیکنالوجی کے آلات مغربی اقوام کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت پر فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے بھی اندازے لگائے گئے ہیں کہ چین اور امریکا کا تجارتی تنازعہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو چین بیلٹ اینڈ روڈ ممالک میں ٹیلی مواصلاتی رابطوں کے لیے ایک علیحدہ نظام استوار کر سکتا ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
↧
China's navy on parade
China showed off the first of its new generation of guided missile destroyers as President Xi Jinping reviewed a major naval parade through mist and rain to mark 70 years since the founding of China's navy. The People's Liberation Army Navy is the naval warfare branch of the People's Liberation Army, which is the armed wing of the Communist Party of China and, by default, the national armed forces of the People's Republic of China. The PLAN can trace its lineage to naval units fighting during the Chinese Civil War and was established in September 1950. Throughout the 1950s and early 1960s, the Soviet Union provided assistance to the PLAN in the form of naval advisers and export of equipment and technology. Until the late 1980s, the PLAN was largely a riverine and littoral force (brown-water navy). However, by the 1990s, following the fall of the Soviet Union and a shift towards a more forward-oriented foreign and security policy, the leaders of the Chinese military were freed from worrying over land border disputes, and instead turned their attention towards the seas. This led to the development of the People's Liberation Army Navy into a green-water navy by 2009. Before the 1990s the PLAN had traditionally played a subordinate role to the People's Liberation Army Ground Force.
In 2008, General Qian Lihua confirmed that China plans to operate a small fleet of aircraft carriers in the near future, but for the purpose of regional defence as opposed to "global reach". As of 2013 PLA officials have also outlined plans to operate in the first and second island chains. Chinese strategists term the development of the PLAN from a green-water navy into "a regional blue-water defensive and offensive navy." The People's Liberation Army Navy is composed of five branches; the Submarine Force, the Surface Force, the Coastal Defense Force, the Marine Corps and the Naval Air Force. With a personnel strength of 255,000 servicemen and women, including 10,000 marines and 26,000 naval air force personnel, it is the second largest navy in the world in terms of tonnage, only behind the United States Navy, and has the largest number of major combatants of any navy.
The PLAN traces its lineage to units of the Republic of China Navy (ROCN) who defected to the People's Liberation Army towards the end of the Chinese Civil War. In 1949, Mao Zedong asserted that "to oppose imperialist aggression, we must build a powerful navy". During the Landing Operation on Hainan Island, the communists used wooden junks fitted with mountain guns as both transport and warships against the ROCN. The Naval Academy was set up at Dalian on 22 November 1949, mostly with Soviet instructors. The navy was established in September 1950 by consolidating regional naval forces under Joint Staff Department command in Jiangyan (now in Taizhou, Jiangsu). It then consisted of a motley collection of ships and boats acquired from the Kuomintang forces. The Naval Air Force was added two years later. By 1954 an estimated 2,500 Soviet naval advisers were in China—possibly one adviser to every thirty Chinese naval personnel—and the Soviet Union began providing modern ships. With Soviet assistance, the navy reorganized in 1954 and 1955 into the North Sea Fleet, East Sea Fleet, and South Sea Fleet, and a corps of admirals and other naval officers was established from the ranks of the ground forces. In shipbuilding the Soviets first assisted the Chinese, then the Chinese copied Soviet designs without assistance, and finally the Chinese produced vessels of their own design. Eventually Soviet assistance progressed to the point that a joint Sino-Soviet Pacific Ocean fleet was under discussion.
As the 21st century approached, the PLAN began to transition to an off-shore defensive strategy that entailed more out-of-area operations away from its traditional territorial waters. :23–30 Between 1989 and 1993, the training ship Zhenghe paid ports visits to Hawaii, Thailand, Bangladesh, Pakistan, and India. PLAN vessels visited Vladivostok in 1993, 1994, 1995, and 1996. PLAN task groups also paid visits to Indonesia in 1995; North Korea in 1997; New Zealand, Australia, and the Philippines in 1998; Malaysia, Tanzania, South Africa, the United States, and Canada in 2000; and India, Pakistan, France, Italy, Germany, Britain, Hong Kong, Australia, and New Zealand in 2001. In March 1997, the Luhu-class guided missile destroyer Harbin, the Luda-class guided missile destroyer Zhuhai, and the replenishment oiler Nancang began the PLA Navy's first circumnavigation of the Pacific Ocean, a 98-day voyage with port visits to Mexico, Peru, Chile, and the United States, including Pearl Harbor and San Diego. The flotilla was under the command of Vice Admiral Wang Yongguo, the commander-in-chief of the South Sea Fleet. (Reuters)
Courtesy : Wikipedia
↧
کیا ہمارے پاس چین کے علاوہ کوئی اور آپشن ہے؟
چینی صدر ژی جن پنگ نے 26/27 اپریل کو بیجنگ میں دوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے میزبانی کے فرائض انجام دیے، 125 ممالک اور 40 بین الاقوامی تنظیمیں بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو (بی آر آئی) سے منسلک ہو چکی ہیں۔ بی آر آئی ایک بہت ہی بلند نظر منصوبہ ہے جس کا مقصد پورے عظیم یوریشیائی قطعہ زمین اور اس کے قریب اور دور کنارے پر واقع جنوب مشرقی، جنوبی اور مغربی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے درمیان آپس میں جڑی زمین اور بحری انفرااسٹریچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے تحت رابطہ قائم کرنا ہے۔ 37 سربرہانِ مملکت و حکومت، وزرا کی ایک کثیر تعداد اور 5 ہزار وفود نے اس فورم میں شرکت کی جو کہ بی آر آئی پر بڑھتی ہوئی رضامندی کی عکاس ہے۔ یہ قبولیت ترقی پذیر ممالک کے درمیان چین کی اقتصادی ترقی کے کامیاب ’ماڈل‘ کو اپنانے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ منصوبہ عالمی اقتصادی پیداوار، زبردست خوشحالی اور ترقی پذیر ممالک میں امن اور استحکام کو جاتا انمول راستہ فراہم کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بی آر آئی کی شہہ سرخی کے ساتھ 175 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ 90 ارب ڈالر کے منصوبوں پر عمل ہو چکا ہے۔ جبکہ انفرا اسٹریچکر منصوبوں پر 1 ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بی آر آئی منصوبوں کی فنڈنگ میں باضابطہ غیر چینی مالی ذرائع اور نجی مالیاتی شعبے کی شمولیت سے مذکورہ عدد میں اضافے کا امکان بھی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل معیشت اور ای کامرس جیسے اشتراکی فورمز کی شمولیت اور اس کے ساتھ بی آر اسٹیڈیز نیٹ ورک سے وابستہ تھنک ٹینکس کے قیام پر غور کیا جارہا ہے۔ امریکا نے بی آر آئی پر اپنی مخالفت واضح کر دی ہے اور ترقی پذیر ممالک اور اپنے اتحادیوں کو اس منصوبے میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے سیاسی اور میڈیا مہم کی سرپرستی بھی کی۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی چین کی قرضے میں پھانسنے کی حکمت عملی سے بچنے کی تلقین، کرپشن اور ناکام منصوبوں کی کہانیاں اتنی بار دہرائی گئی ہیں کہ اب اکتاہٹ ہونے لگی ہے جبکہ ایسی رپورٹس کو متعلقہ فریقین بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔
چین کے قرضوں کو لے کر جو نصیحیتیں کی جا رہی ہیں وہ تو خاص طور پر باعثِ کوفت ہیں کیونکہ 90 فیصد سے زائد ترقی یافتہ ممالک مغربی ملکوں اور اداروں کے مقروض ہیں۔ ان ترقی پذیر ممالک میں سالانہ 30 فیصد کے قریب نقدی کرنسی اسی قرضے کی قسط کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ قرضہ خراب مغربی ترقیاتی ’امداد‘ کا نتیجہ ہے جس نے وصول کنندہ ممالک کی ترقی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کیا ہے۔ امریکی مخالفت کی اسٹریٹجک وجہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ دراصل یہ منصوبہ ’انڈیا پیسیفک‘ پر غلبہ قائم رکھنے کی خاطر چین کی سرحدوں پر اتحادیوں کا گھیرا بنانے کے امریکی مقصد کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کو اس جنگ میں اپنی تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
امریکا کے ایشیائی اتحادیوں میں سے کوئی بھی اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی چین کو للکارنے کا دم خم نہیں رکھتا ہے۔ ہندوستان نے واضح کر دیا کہ یہ چین کے ساتھ اقتصادی اشتراک کو اہمیت دیتا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا نے بحیرہ جنوبی چین میں ’فریڈم آف نویگیشن‘ آپریشنز میں امریکی نیوی میں شامل ہونے سے خود کو روک دیا ہے۔ جاپان امریکی محصولات سے بیزار آ کر بی آر آئی میں ’تھرڈ پارٹی‘ (تیسرے فریق) کے طور پر شامل ہو چکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے جاپان چائنہ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ 17 وسطی یورپی ممالک نے اقتصادی اشتراک بشمول رابطہ کاری کے منصوبوں کو فروغ دینے کے لیے چین کے ساتھ مل کر ایک گروپ قائم کیا ہے۔ اٹلی ’جی 7‘ کا وہ پہلا ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر بی آر آئی میں شامل ہوا۔ حتیٰ کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے دیگر ممالک، جو اپنے اتحادی امریکا کے ہاتھوں بی آر آئی پر تنقید کرنے کے لیے مجبور محسوس کرتے ہیں، وہ بھی چین کی اقتصادی وسعت اور بی آر آئی سے حاصل ہونے والے ہر ایک تجارتی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔
امریکا کی اپنی کمپنیاں باضابطہ بائیکاٹ پر دھیان دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔ ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد امریکی کمپنیاں چینی معیشت کے دائرے میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ محض چند ایک کا ہی باہر نکلنے کا امکان ہے۔ چین کے مزید ’دروازے کھلنے‘ سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے باہمی انحصار کو مزید تقویت ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان بی آر آئی کے ایک اہم حصے کا میزبان ہے۔ وزیراعظم عمران خان ان 7 سربراہان میں سے ایک تھے جنہوں نے کانفرنس کو خطاب کیا۔ انہوں نے بی آر آئی کو ساتھ مل کر کام کرنے، شراکت داری، رابطہ کاری اور مشترکہ ترقی کا ایک ماڈل اور عالمگیریت کی طرف لے جاتے ایک نئے اور منفرد مرحلے کا آغاز قرار دیا۔ سی پیک دو طرفہ تعلقات میں مضبوط تر بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مختص کیے جانے والے ایک ہزار ارب ڈالر میں سے 72 ارب ڈالر سی پیک کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اب تک 90 ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں سے تقریباً 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی۔
چین پاکستان کے ساتھ اپنی ’اسٹریٹجک شراکت داری‘ کو اہمیت دیتا ہے اور اس کی سالمیت، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کی اہمیت سمجھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم باہمی اعتماد کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ پاکستان کو بھارت کے خلاف اپنی قوت مزاحمت کے توازن کو برقرار رکھنے اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے چین کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کے لیے تیار بھی ہو جاتا ہے تو امریکا سے زیادہ چین اور شاید روس کی مصالحت زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ چین میں پاکستان کے لیے موقع نہایت اہم ہے۔ چین پاکستان میں انفرااسٹریکچر کی تعمیر اور صنعت کاری میں تعاون کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کی برآمدات کے لیے ایک پھلتی پھولتی ہوئی منڈی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا مقصد چین کی پیداوار کے راستے کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر اس کو مزید بہتر بنانا بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان کا مقصد 21 ویں صدی کی معاشی ساخت کے پیچھے دوڑنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ اس تعاون سے ماضی یا حال کی ٹیکنالوجیز کے حصول کی کوششیں کرنی ہیں اور ساتھ ساتھ مستقبل کی ان ٹیکنالوجیز اپنے پاس لانے کے لیے کوشاں رہنا ہو گا جنہیں چین اس وقت متعارف کر رہا ہے اور جن پر عمل پیرا ہے، مثلاً ہائی اسپیڈ ریل (پرانے نظام والی نہیں بلکہ جدید)، اے ون، برقی گاڑیاں، ماحول دوست توانائی، ای کامرس وغیرہ۔ پاکستان کو چاہیے وہ خود کو بہتر انداز میں منظم کرے۔ اسلام آباد کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ چین سے کیا چاہتا ہے اور اسے کیا کچھ درکار ہے، اور انہیں کس طرح حاصل کیا جائے، اس حوالے سے ایک حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی۔ اس قسم کی حکمت عملی کو پالیسی، عملی اور تکمیلی سطح پر چین کے ساتھ مربوط رکھنا ضروری ہو گا۔ پاکستان کو تعاون کے ہر ایک معاملے میں پاکستان کے اندر اور باہر موجود نجی یا سرکاری شعبے سے وابستہ سب سے بہترین دستیاب تکنیکی اور انتظامی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ ایک خود مختار سی پیک اتھارٹی کا قیام اپنی منشا کے مطابق نتائج کے حصول میں مددگار رہے گا۔
عظیم طاقت کی جاری دوڑ کے باعث رفابت سے بھرپور اس ماحول میں اسلام آباد کو اسٹریٹچک اعتبار سے واضح مؤقف اپنانا ہو گا۔ ہندوستان کی دشمنی تو مستقل جاری رہے گی، ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد یہ دشمنی، تناؤ یا پھر دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ تک محدود ہو جائے۔ امریکی ساؤتھ ایشیا حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان خطے میں غالب ہو۔ ایسی کسی خوش فہمی میں متبلا سوچ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ خیر سگالی یا ہوشیار سفارتکاری کے اظہار سے اس حکمت عملی کو بدلنا ممکن ہے۔ امریکا پاکستان کو اس وقت ہی مساوی نظر سے دیکھے گا جب اسے پاکستان میں پرکشش اقتصادی مواقع نظر آئیں گے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو چین کا تعاون درکار ہے۔ پاکستان کے پاس سب سے اچھا آپشن یہی ہے کہ وہ ’خود کو چین کے ساتھ لوہے کے چھلوں کے سے باندھ دے’ کہ یہی تجویز 1962ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ ایس کے دہلوی نے بھی دی تھی۔ اس نادر موقع کو ایک بار پھر ٹھکرانا ہمارے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہو گا۔
منیر اکرم
یہ مضمون 24 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
↧
امریکی فوجی اخراجات 649 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، رپورٹ
امریکی فوج کے اخراجات میں گزشتہ 7 سال کے دوران پہلی بار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نئی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اخراجات میں یہ اضافہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کے فوجی اخراجات میں چار اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا جو چھ سو انچاس ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ 2018 میں بھارت کے فوجی اخراجات تین اعشاریہ ایک فیصد اضافے کے ساتھ چھیاسٹھ ارب پچاس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے۔ پاکستان کے فوجی اخراجات گیارہ فیصد اضافے کے ساتھ گیارہ ارب چالیس کروڑ پر آگئے ہیں۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نئی رپورٹ کے مطابق صرف 5 ملکوں کے فوجی اخراجات دنیا بھر کے مجموعی فوجی اخراجات کا 60 فیصد ہیں، ان ملکوں میں امریکا، چین، سعودی عرب، بھارت اور فرانس شامل ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧