Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

جب سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا

$
0
0

روانڈا کی کل آبادی کے دسویں حصے کی موت کا باعث بننے والی نسل کشی کے 25 سال مکمل ہونے پر ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔
ملک میں 100 دنوں تک سوگ منانے کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 1994 میں 100 دنوں میں روانڈا میں آٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت تتسی قبیلے کے لوگوں کی تھی جنھیں ہوتو قبیلے کے شدت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ روانڈا میں تتسی قبیلہ اقلیت میں ہے۔ روانڈا کے صدر پال کگامے نے دارالحکومت کیگالی میں ان واقعات کی یادگار پر شمع روشن کی۔ صدر پال کگامے نے اس باغی گروہ کی قیادت کی تھی جس نے نسل کشی کو ختم کرایا تھا۔

روانڈا یاد کیسے منائے گا؟
ایک ہفتے تک جاری رہنے والی تقریبات کے آغاز کے طور پر صدر کگامے اس یادگار پر شمع روشن کی جہاں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد دفن ہیں۔ نسل کشی کے بعد سے اب تک روانڈا میں بر سرِاقتدار 61 سالہ صدر کگامے دارالحکومت کیگالی میں کنونشن سینٹر میں خطاب کریں گے۔ صدر کگامے اماہارو نیشنل سٹیڈیم میں دعائیہ تقریب کی سربراہی کریں گے۔ قتل عام کے دوران اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے تتسی اقلیت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سٹیڈیم کا استعمال کیا تھا۔ فرانس قتل عام سے پہلے موجود ہوتو حکومت کا قریبی اتحادی تھا۔ فرانس پر الزام ہے کہ اس نے حالات کو نظرانداز کیا اور حملے کرنے والی ہوتو ملیشیا کو تربیت دی۔

نسل کشی کیسے شروع ہوئی؟
6 اپریل 1994 کو روانڈا کے اس وقت کے صدر جوینل ہابیاریمانا کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا۔ اِس حملے میں صدر سمیت طیارے میں سوار تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ صدر جوینل ہابیاریمانا کا تعلق ہوتو قبیلے سے تھا۔ ہوتو شدت پسندوں نے تتسی باغیوں کے گروپ ’روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ‘ (آر پی ایف) پر اس حملے کا الزام لگایا۔ تاہم آر پی ایف نے اس الزام سے انکار کیا. قتل و غارت کی اس منظم مہم میں ہوتو ملیشیاؤں کو تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرستیں دی گئیں۔ بہت سے افراد کو انتہائی بیہمانہ طریقے سے بڑے چھروں سے قتل کیا گیا۔ نوجوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا کا تعلق حکمران پارٹی کے یوتھ ونگ سے تھا۔ اس ملیشیا نے تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو تلاش کرنے کے لیے سڑکوں پر ناکے لگائے، ریڈیو نشریات کے ذریعے نفرت انگیز اعلانات کیے، جزبات بھڑکائے اور گھر گھر کی تلاشی لی۔

نسل کشی کیسے ختم ہوئی؟
قتل عام روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر زیادہ کوششیں نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ اور بیلجیئم کی افواج روانڈا میں موجود تھیں لیکن اقوام متحدہ کے مشن کو کارروائی کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ یوگینڈا کی حمایت یافتہ تتسی باغیوں کی ملیشیا آر پی ایف نے کیگالی کی طرف پیش قدمی کی جس کے بعد ہوتو قبیلے کے تقریباً 20 لاکھ افراد وہاں سے بھاگ گئے، زیادہ تر نے جمہوریہ کانگو میں پناہ لی۔
آر پی ایف پر بھی ہزاروں ہوتو افراد کے قتل کا الزام ہے جس سے وہ انکار کرتی ہے۔ تنزانیہ میں قائم انٹرنیشنل کریمینل ٹریبیونل فار روانڈا نے ہوتو نسل سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو نسل کشی میں ان کے کردار پر سزائیں سنائیں اور روانڈا کی کمیونٹی عدالتوں میں ہزاروں ہوتو افراد پر مقدمے چلائے گئے۔

روانڈا کے موجودہ حالات
نسل کشی نے ملک کی مجموعی سوچ اور تعمیر نو پر گہرا اثر ڈالا اور نسل کے موضوع پر بات کرنا اب بھی غیر قانونی ہے۔ لیکن ملک اقتصادی طور پر بحال ہوا ہے اور صدر کگامے کی پالیسیوں نے تیز رفتار معاشی نمو اور ٹیکنالوجی میں جدت کو فروغ دیا ہے۔ 2017 کے انتخابات میں 98 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کگامے تیسری مرتبہ صدر بننے میں کامیاب رہے۔ معاشی ترقی کی رفتار حوصلہ افزا ہے اور افریقی ترقیاتی بینک کے مطابق سنہ 2018 میں ترقی کی شرح 7.2 فیصد رہی۔ تاہم صدر کگامے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ آمرانہ خیالات کے مالک ہیں اور اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے۔

بشکریہ بی بی سی اردو


لیبیا میں خانہ جنگی کی نئی لہر

$
0
0

اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں نے لیبیا میں مسلح دستوں کے دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومتی کی حامی فوجوں اور باغیوں کے رمیان طرابلس کے قریب جھڑپیں جاری ہیں۔ دنیا کے امیر ترین جی سیون ممالک نے لیبیا کے باغیوں سے کہا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی فوراً روک دیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا ہے۔ اپنے آپ کو لیبیئن نیشنل آرمی (العسكري القوی فی ليبيا) کہلانے والے باغی مسلح دستوں کے سربراہ خلیفہ حفتر نے طرابلس پر چڑھائی کا حکم دیا تھا۔

لیبیا میں یہ بد امنی اس پس منظر میں پیدا ہوئی جب اقوامِ متحدہ کی لیبیا سے متعلق ایک کانفرنس ہونے جارہی ہے جس میں لیبیا میں ممکنہ نئے انتخابات سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ طرابلس میں اس وقت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے اور اس حکومت کو اقوامِ متحدہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔  طرابلس میں اقوامِ متحدہ کی تعینات افواج کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ سنہ 2011 میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے لیبیا میں مسلسل خانہ جنگی یا شورشیں چلی آرہی ہے۔

لیبیا کے زمینی حقائق کیا ہیں؟
لیبیئن نیشنل آرمی کے سربراہ حفتر اپنے زیرِ کمان افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی کر دیں۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گُتریس طرابلس میں موجود تھے۔ جنرل حفتر نے مسٹر گُتریس سے اس وقت بات کی تھی جب وہ بن غازی میں تھے۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ ان کی فوج اُس وقت تک اپنی کارروائی نہیں روکے گی جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہے۔ لیبیئن نیشنل آرمی نے کارروائی کر کے طرابلس کے جنوب میں سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبے پر قبضہ کر لیا تھا۔ 

اب خبریں آرہی ہیں کہ جنرل حفتر کے دستوں نے طرابلس کے ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایئر پورٹ سن 2014 سے بند پڑا ہوا ہے۔ طرابلس کے مشرق میں مصراتہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہاں سے حکومت کی وفادار فوج کو دارالحکومت کے دفاع کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی وفادار فوج نے کہا ہے کہ اُس نے باغیوں کے کئی ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس برس کے آغاز میں باغیوں نے لیبیا کے جنوب میں واقع تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 

ردِّعمل کیا ہے؟ 

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر گُتریس نے ایک ٹویٹ میں بہت ’افسوس اور تشویش کے ساتھ‘ امید کا اظہار کیا ہے کہ دارالحکومت کو میدانِ جنگ بننے سے بچانے کے ابھی بھی رستے موجود ہیں۔ جی 7 کے ممالک نے بھی خانہ جنگی کی نئی لہر پر ردِّعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ فوجی کاروائی کو روک دیا جائے۔ ’ہم لیبیا میں فوجی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں ہم خطے کی تمام ممالک سے کہتے ہیں کہ لیبیا میں انتخابات اور ایک پائیدار استحکام کے لیے مدد کریں۔‘ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ایک بند دروازے میں اجلاس کیا تھا۔ ادھر روس میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کریملن جنرل حفتر کی کاروائی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ’لیبیا کے لیے پرامن سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے۔‘

اقوام متحدہ کے ایک خصوصی ایلچی عسان سلامے نے کہا ہے کہ 14 سے لے کر 16 اپریل کو ہونے والی کانفرنس میں ابھی تک وقت ہے تاہم حالات کی ابتری کی صورت میں دوسرے اقدام لینے کی مجبوری ہو سکتی ہے۔ جنرل حفتر کے دستوں کو ملی جلی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ جنوب میں ان کی حامی فوج کو کامیابی ملی ہے لیکن مغرب میں انھیں پسپائی ہوئی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت انھیں اپنا سیاسی قد بنانے میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور آیا وہ طرابلس پر واقعی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لیبیا میں کرنل قضافی کے خلاف بغاوت پر واپس آئے تھے۔ اس کے بعد وہ شوترشوں سے بھرے ہوئے لیبیا کے سب سے زیادہ طاقتور جنرل کے طور پر اُبھرے۔

دنیا بھر میں ان کے خلاف مذمتی بیانات کے باوجود انھیں خطے کے کئی ممالک کی حمایت ملی ہے جن میں مصر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ لیبیا میں سیاسی حل کی تمام کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جنرل حفتر نے سنہ 1969 میں کرنل قذافی کو اقتدار پر قبضہ کرنے میں مدد دی تھی۔ اس کے بعد ان کے قذافی سے تعلقات خراب ہو گئے اور وہ امریکہ چلے گئے۔ وہ سنہ 2011 میں واپس آئے اور قذافی کی مخالف فوج کے کمانڈر بن گئے۔ گذشتہ برس دسمبر میں انھوں نے طرابلس میں وزیراعظم فیاض السراج سے ملاقات کی تھی لیکن کانفرنس میں ان سے سرکاری طور ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ا

بشکریہ بی بی سی اردو

 

سنکیانگ : قدرتی گیس اور معدنیات کی دولت سے مالامال خطہ

$
0
0

چین کے شمال مغرب میں واقع علاقے کو ’’سنکیانگ ویغور خود مختار‘‘ (مختصراََ سنکیانگ ) کہا جاتا ہے۔ اس کا کل رقبہ 16 لاکھ 64 ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ آٹھ ممالک سے ملحقہ یہ صوبہ رقبے کے اعتبار سے چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مشرق سے مغرب تک سنکیانگ بالترتیب منگولیا ، روس قازقستان ، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان ، پاکستان اور بھارت سے ملحقہ ہے۔اس کی سرحدی حدود کی لمبائی 5600 کلومیٹر ہے۔ سنکیانگ چین کا سب سے زیادہ ممالک سے ملحقہ، سب سے زیادہ بیرونی خشک گودیوں کا حامل اور سب سے طویل سرحد وں والا صوبہ ہے۔ سنکیانگ چین کی اقلیتی قومیتوں کے پانچ خود مختار علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس میں ویغور ، قازق، ہوئی ، کرغز ، ، منگولیائی اور ہان سمیت تیرہ قومیتوں کے باشندے آباد ہیں۔ 

جغرافیہ: سنکیانگ سمندر سے دور ایشیا ء کے مرکز میں واقع ہے۔ چاروں اطراف بلندو بالا پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال سے جنوب تک بالترتیب ارٹائی ، تھیان شان اور، کھون لون نامی پہاڑی سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان جونگور بیسن اور طالمور بیسن ہیں۔ چین کا دو تہائی صحرائی علاقہ سنکیانگ میں واقع ہے۔ جنوبی سنکیانگ کے تکلی مکان صحرا کا رقبہ تین لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جو چین کا سب سے بڑا صحر اہے۔ شمالی سنکیانگ کے علاقے جونگور بیسن میں گربان تونگت صحرا چین کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔

یہ صحرا تیل، قدرتی گیس اور معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ صحرا اور پہاڑ کے اطراف میں کئی دریا ، جھیلیں اور نخلستان پھیلے ہوئے ہیں۔ سنکیانگ کے تمام شہر اور قصبے ان نخلستانوں میں واقع ہیں۔ سنکیانگ کی آب و ہوا معتدل یا نیم معتدل ہے۔ یہاں ہونیوالی بارش کی سالانہ اوسط مقدار 165.6 ملی میٹر ہے۔ یہاں برف پوش پہاڑوں اور برفانی چوٹیوں سے منفرد، قدرتی اور نمکین آبی ذخیرے کی تشکیل ہوئی۔ اس خطے میں گلیشئرز 21.3 کروڑ مکعب میٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں سے پگھلنے والی برف سے متعدد دریا اور جھیلیں وجود میں آئیں جن میں ایک ہزار مربع کلومیٹر پرمحیط میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ’’بوستن ‘‘ بھی شامل ہے۔

سنکیانگ کے مشرق میں واقع ترپان بیسن کی آئی دنگ جھیل سطح سمندر سے 154 میٹر نیچے ہے۔ یہ چینی سر زمین کا انتہائی نچلا حصہ ہے۔ تارم بیسن کے علاقے میں تارم دریا کی کل لمبائی دو ہزار ایک سو کلومیٹر بنتی ہے جو چین کی اندرونی سر زمین کا سب سے لمبا دریا ہے۔ سنکیانگ کے مختلف علاقوں میں موسم اورآبی وسائل کی صورتحال بھی مختلف ہے۔ یہاں سردیوں اور گرمیوں کے درجہ حرارت میں فرق بہت زیادہ ہے۔ التائی چین کا سب سے سرد اور ترپان گرم ترین علاقہ ہے۔ 

تاریخ: سنکیانگ کو قدیم زمانے میں ’’مغربی علاقے‘‘کے طور پر جانا جاتا تھا۔ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے سے یہ چین کا ایک حصہ چلا آ رہا ہے۔ ساٹھ قبل از مسیح میں ہان شاہی خاندان نے سنکیانگ پر براہ راست حکمرانی شروع کی۔ اس کے بعد ایک ہزار سے زائد برسوں میں سنکیانگ کے علاقے کے سرکاری ادارے چین کی مرکزی حکومت کی طرف سے قائم کئے جا رہے ہیں۔ تین سو سال قبل چھینگ شاہی خاندان کی مرکزی حکومت سنکیانگ کے تمام علاقوں پر حکمرانی کرنے لگی۔ 1884ء میں سنکیانگ کو صوبے کا درجہ دیا گیا۔ یوں چین کے مختلف صوبوں کے درمیان قریبی روابط قائم ہونے لگے۔ ستمبر 1949ء میں سنکیانگ میں پرامن طریقے سے آزادی کا اعلان ہوا۔ اسی سال یکم اکتوبر کو عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا اورسنکیانگ دوسرے صوبوں کی طرح چین کا ایک خودمختار علاقہ بن گیا۔  

عبدالرئوف

بشکریہ دنیا نیوز

امریکی عدالت نے پناہ گزینوں سے متعلق حکومتی پالیسی معطل کر دی

$
0
0

امریکہ کی وفاقی عدالت نے پناہ گزینوں کو امریکہ آنے سے روکنے اور اپنے مقدمات کے فیصلوں کا میکسیکو میں ہی انتظار کرنے کی صدر ٹرمپ کی پالیسی پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پناہ گزینوں کو مقدمات کے فیصلے تک امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی تھی جس کا مقصد بڑٰی تعداد میں پناہ گزینوں کو امریکہ میں داخلے سے روکنا تھا۔ سان فرانسیسکو کے ڈسٹرکٹ جج رچرڈ سی برگ کے فیصلے پر اطلاق قومی سطح پر ہو گا۔ اپنی ٹویٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جج نے حکم دیا ہے کہ میکسیکو پناہ گزینوں کے لئے خطرناک جگہ ہے، یہ قابو سے باہر اور نامناسب ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ یہ منصوبہ جنوری میں سامنے لائی تھی جس کا مقصد امریکی سرحد پرپناہ گزینوں کی آمد کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان میں زیادہ تر جنوبی امریکہ سے آنے والے خاندان ہیں گذشتہ ماہ ان کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ امریکہ میں داخلے کے لئے پناہ گزینوں کی متعدد درخواستیں زیرالتوا ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جنہیں زیادہ دیر تک حراست میں رکھنا غیر قانونی تھا لہذا انہیں رہا کر کے میکسیکو میں ہی فیصلے کا انتظارکرنے کا کہا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق 'پناہ گزینوں کے تحفظ کی پالیسی'کو اپنانا اس لئے ضروری تھا چونکہ بہت سے پناہ گزین سالہا سال امریکہ میں گزار دیتے ہیں اور اپنے مقدمات کے سلسلے میں عدالت میں پیش بھئ نہیں ہوتے۔ یہ افراد بے دخل کئے جانے کے خوف سے ایسا کرتے ہیں۔

امریکی جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ 'امیگریشن قوانین'یہ نہیں ہیں جس طرح حکومت نے انہیں استعمال کیا۔ حکومتی پالیسی پناہ گزینوں کے تحفظ اور ان کی آزادی کی بھی ضمانت نہیں تھی۔ امریکی محکمہ انصاف اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے عدالتی فیصلے پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم امریکی حکومت کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائرکرنے کا اختیار موجود ہے۔
امیگریشن سے متعلقہ وکلا اورپناہ گزینوں نےجج کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

ایردوان بلدیاتی انتخابات میں کامیاب یا ناکام ؟

$
0
0

ترکی میں 31 مارچ کے بلدیاتی انتخابات سے قبل، اسے صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی حکومت کی مقبولیت کا ایک کڑا امتحان قرار دیا جا رہا تھا اور اب ان کے حاصل نتائج کی روشنی میں اسے صدر ایردوان اور ان کی جماعت کے لیے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے میڈیا میں اسے ایردوان کی شکست اور زوال کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ صدر ایردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گزشتہ اور موجودہ بلدیاتی انتخابات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آق پارٹی نے 2009 کے بلدیاتی انتخابات میں 38.40 فیصد ووٹ حاصل کئے اور اس کے چار سال بعد 2014 کے بلدیاتی انتخابات میں 43.32 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ اکتیس مارچ 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں سترہ سال کے طویل اقتدار کے بعد بھی اپنے ووٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے 44.32 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ 

دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں جہاں ڈیموکریسی موجود ہے وہاں پر کوئی بھی جماعت اتنا طویل عرصہ برسرِ اقتدار رہنے کے بعد اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یعنی ترکی کی آق پارٹی نے سولہ سال کے طویل اقتدار کے بعد بھی اپنے ووٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اگرچہ ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں دارالحکومت انقرہ (جہاں پر گزشتہ 25 برسوں سے دائیں بازو کی جماعت جس میں سولہ سال آق پارٹی کا عرصہ بھی شامل ہے) میں دائیں بازو ہی کی جماعت کو میئرشپ حاصل رہی۔ اتنے طویل عرصے کے بعد پہلی بار بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے اس شہر کی میئر شپ حاصل کی ہے لیکن بڑی ہی عجیب بات ہے کہ طویل عرصے کے بعد شہر کی میئر شپ حاصل کرنے والی اس جماعت کے نو منتخب میئر ’’منصور یاواش‘‘ دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں.

یعنی پارٹی بائیں بازو کی ہے لیکن اس کا میئر دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہے اور اسی طرح استنبول جہاں پر ایردوان نے اپنی سیاست کا آغاز بطور میئرکیا تھا ( اس وقت سے وہاں پر آق پارٹی ہی نے میئر شپ حاصل کر رکھی تھی) اکتیس مارچ 2019 کے بلدیاتی انتخابات بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے امیدوار اکرم امام اولو، جنہوں نے ہمیشہ اپنی سیاست کا محور دائیں بازو کی جماعت ہی کو سمجھا، اس بار بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے میئر شپ کے امیدوار بن کر کامیابی حاصل کی اور اس طرح بائیں بازو کی اس جماعت نے کامیابی حاصل کرنے کے لئے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کا سہارا لیا جبکہ ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر پر طویل عرصے سے ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ہی گرفت قائم کئے رکھی اور اس بار بھی واضح طور پر کامیابی حاصل کی ہے۔

عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے انقرہ اور استنبول جیسے بڑے شہروں کے بلدیاتی اور عام انتخابات میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا رہا اور یہاں سے منتخب ہونے والے میئر شپ کے امیدوار بہت ہی کم مارجن سے جیتتے رہے اور کئی کئی بار گنتی کرنے اور ایک دوسرے کی کامیابی کو چیلنج کرنے کے بعد ہی کامیابی کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس بار بھی میئر شپ کے کامیاب امیدواروں کا اعلان کئے جانے کے باوجود ایک دوسرے کی کامیابی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، جس سے اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی مقبولیت میں ذرہ بھر بھی کوئی فرق نہیں آیا، تاہم اس بار ان دونوں شہروں میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی میں کردوں کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی HDP کے ووٹروں کا ہاتھ نمایاں رہا۔

اگرچہ’’اتحادِ ملت‘‘ کے نام سے قائم سیاسی جماعتوں کے اتحاد، جس میں ری پبلکن پیپلزپارٹی اور گڈ پارٹی شامل ہیں، میں بغیر کسی سمجھوتے کے پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی نے پردے کے پیچھے رہ کر اپنے امیدوار کھڑے نہ کرتے ہوئے اس اتحاد کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں دونوں اتحادوں کے درمیان سخت مقابلے کے نتیجے میں ری پبلکن پیپلزپارٹی کے میئر شپ کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان دونوں شہروں میں سولہ سال سے برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے ووٹوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا گیا تاہم اس بار ری پبلکن کی اسٹرٹیجی کامیاب رہی۔

آق پارٹی اگرچہ ترکی کے پہلے تین بڑوں شہروں میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن اس کے باوجود اس نے سولہ بڑے شہروں میں میئرشپ حاصل کر لی اور سب سے اہم بات جنوب مشرقی اناطولیہ اور مشرقی اناطولیہ جہاں پر کردوں کو اکثریت حاصل ہے اور ان علاقوں سے ہمیشہ ہی HDP کو اکثریت حاصل رہی ہے۔ آق پارٹی نے پہلی بار کامیابی حاصل کی۔ استنبول اور انقرہ جیسے شہروں میں اگرچہ ری پبلکن پیپلزپارٹی کے میئرز کے لئے کام کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان دونوں شہروں کے علاقائی مجلس میں آق پارٹی کو بڑی واضح اکثریت حاصل ہو چکی ہے اور ان میئر کو مجلس سے بل پاس کروانے اور فنڈز حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا.

جبکہ اس سے قبل آق پارٹی کی میئرشپ کے دوران دونوں شہروں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کئے گئےاور شہروں کو یورپی شہروں کے ہم پلہ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کی حاکمیت میں رہنے والے شہر ازمیر جسے بحیرہ ایجین کا موتی کہا جاتا تھا اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا۔ صدر ایردوان کو جماعت کی کامیابی پر عالمی رہنماؤں سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے صدر ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’دعا ہے کہ ایردوان کی جماعت کا نیا بلدیاتی دور ترک عوام کیلئے مزید استحکام اور خوشحالی کا موجب بنے‘‘۔ جبکہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ترک زبان میں دئیے گئے تہنیتی پیغام میں کہا کہ صدر ایردوان نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی کامیابی عوامی خدمت کے بل بوتے پر حاصل ہوتی ہے اور یہ کامیابی ان کی قیادت پر عوام کے اعتماد کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

ترکی : امریکہ نے ایف-35 نہ دیے تو روس سے جدید طیارے خریدیں گے

$
0
0

ترکی نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے F-35 طیارے اور پیٹریاٹ میزائل شیلڈ فراہم کرنے سے انکار کیا تو وہ روس سے جدید جیٹ طیارے اور فضائی دفاعی نظام خرید لے گا۔ اس اعلان سے روس اور نیٹو کے رکن ملک ترکی کے درمیان قریبی دفاعی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے روس سے S-400 میزائل شکن نظام خریدنے کے اعلان کے بعد امریکہ نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی دفاعی نظام نیٹو کے دفاعی نظاموں سے مطابقت نہیں رکھتا اور اگر امریکہ ترکی کو طے شدہ معاہدے کے مطابق F-35 جیٹ طیارے فراہم کرتا ہے تو اس سے اُن طیاروں کی سیکورٹی متاثر ہو گی۔

امریکہ نے ترکی کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ روس سے S-400 دفاعی نظام کی خرید کا سودہ منسوخ کر دے تو وہ ریتھیون کمپنی کا تیار کردہ پیٹریاٹ دفاعی نظام فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ امریکہ نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ روس سے معاہدہ منسوخ نہ کرنے کی صورت میں امریکہ نہ صرف ترکی پر پابندیاں عائد کر دے گا بلکہ وہ F-35 جیٹ طیاروں کی فراہمی بھی روک دے گا۔ تاہم ترکی کے صدر اردوان نے امریکی درخواست رد کر دی ہے۔ صدر اردوان نے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا کہ روس سے S-400 میزائل دفاعی نظام کی فراہمی جولائی کی طے شدہ تاریخ سے پہلے مکمل کر لی جائے گی۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے بھی کہا ہے کہ روس سے S-400 دفاعی نظام کی خریداری کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ اگر امریکہ پیٹریات دفاعی نظام بیچنے کے لئے تیار ہے تو ترکی اسے خریدے گا۔ تاہم اگر امریکہ ترکی کو یہ نظام فراہم نہیں کرنا چاہتا تو ترکی روس سے مزید S-400 دفاعی نظام حاصل کرے گا۔ ایک ترک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ چاوش اوغلو نے مزید کہا کہ اگر امریکہ F-35 طیاروں کی فراہمی بھی روک دیتا ہے تو ترکی روس سے SU-34 اور SU-57 جیٹ طیارے خرید لے گا۔ اُدھر روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس ترکی کے ساتھ فوجی اور ٹیکنکی تعاون بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات اور فوجی خدمات کی کمیٹی نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ روس سے دفاعی نظام خریدنے کی صورت میں اسے سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرے گا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

برلن کی فتح کے بعد

$
0
0

دوسری عالمی جنگ میں جب روسی افواج کے مقابل زیادہ تر نازی افواج ہتھیار ڈال چکیں تو دو مئی کو جنرل ہیلموتھ ویڈلنگ روسی کمانڈر سے ملنے آیا۔ یہی وہ جنرل تھا جس کے سپرد برلن کی حفاظت کا کام تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کے ڈویژن نے بڑی کامیابی سے کئی مقامات پر روسیوں کو روکا تھا اور انہیں پسپا بھی کیا تھا۔ لیکن ہٹلر اور گوئبلز کی خودکشی کے بعد بڑے افسروں کے دل ٹوٹ گئے تھے۔ ہٹلر کی موت کی خبر اگرچہ ابھی عام نہیں ہوئی تھی پھر بھی نازی پارٹی کے سربراہوں کو اس کا علم ہو گیا تھا۔ شاید اسی سبب سے اور کچھ فوجی مجبوریوں کی بنا پر بھی جنرل ویڈلنگ نے ہتھیار ڈال دیے تھے مگر اس وقت جنرل ویڈلنگ کا روسی افسروں کے پاس آنا ضرورتاً تھا۔ 

اس نے روسی افسروں کو اطلاع دی کہ برلن کی تمام محافظ افواج پر چونکہ اس کا حکم نہیں چلتا اس لیے ممکن ہے کہ روسیوں کو کسی مقام پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے اور یہ مزاحمت ایس ایس یونٹ ہی کر سکتا ہے جو کٹر نازیوں پر مشتمل ہے۔ چند منٹ بعد ڈاکٹر فرشی کا ایک وفد بھی آ گیا۔ اس نے جنرل ویڈلنگ سے کچھ بات چیت کی۔ اتنے میں مارشل زکوف کا ٹیلی فون آیا۔ اس نے روسی کمانڈر کو کچھ ہدایات دیں۔ پھر روسی افسروں نے نازی وفد کو ایک اعلان پڑھ کر سنایا جس کی بعض شرائط بہت اہم تھیں۔ ۱۔ روسی کمان برلن کی محافظ افواج کی سپراندازی کو تسلیم کرتی ہے اور جنگ بندی کا حکم صادر کرتی ہے۔ ۲۔ تمام جرمن افسروں، فوجیوں، سپاہیوں اور عوام کو تنبیہ کر دی جائے کہ وہ برلن کی عمارتوں، سرکاری دفتروں، کارخانوں، مشینوں اور تمام قیمتی مال و اسباب کو صحیح سالم رہنے دیں.

اگر کسی نے ان کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو اسے گولی سے اڑا دیا جائے گا۔ ۳۔ ڈاکٹر فرشی برلن ریڈیو پر جا کر اسی وقت اعلان کریں گے تاکہ پبلک صورت حال سے باخبر ہو جائے۔ ۴۔ تمام نازی افسروں، سپاہیوں اور شہریوں کی جان و مال کی گارنٹی دی جاتی ہے اور وعدہ کیا جاتا ہے کہ زخمیوں کی بھی خبر گیری کی جائے گی۔ ۵۔ روسی فوج کا مطالبہ ہے کہ برلن کے افسروں، فوجیوں، یا شہریوں کی جانب سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہ ہو ورنہ اس کا سخت بدلہ لیا جائے گا۔ یہ شرائط سخت نہ تھیں لہٰذا جرمنی کے وفد نے انہیں تسلیم کر لیا۔ اس سے فارغ ہو کر جرمن وفد کو روسی افسروں نے ہدایت کی کہ ڈاکٹر فرشی سے اسی وقت ایک حکم نامہ جاری کرنے کو کہیں جس میں یہ ہدایت ہو کہ جرمنی کی تمام افواج جہاں کہیں بھی ہوں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں۔ 

ریڈیو پر تمام شرائط کا اعلان کر دیا جائے اور یہ بھی جتا دیا جائے کہ ان شرائط میں ترمیم کی گنجائش نہیں اور ساری شرائط نازیوں کو تسلیم کرنی پڑیں گی، روسی بھی ان پر عمل کریں گے۔ بہرحال اب نازی ازم کا زبردست اڈا تباہ ہو چکا تھا۔ ہٹلر، گوئبلز، گورنگ، بارمن جیسے سرغنہ ختم ہو گئے تھے، مگر شاید ابھی مکمل طور پر نازی ازم کا صفایا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کی جگہ ایک اور جذبہ، جو اپنی شدت میں کسی دوسرے جذبہ سے کم نہ تھا، پیدا ہو گیا تھا۔ یہ جذبہ تھا وطن پرستی کا۔ جس نے وطن پرستوں میں ایک عام خیال قائم کر دیا کہ ہٹلر جرمنی کا ہیرو تھا اور وہ ایک ہیرو کی موت مرا۔ اس کے علاوہ نوجوان جرمن جب اتحادیوں کے ہاتھوں برلن کی تباہی کا تصور کرتے تو ان کا خون کھولنے لگتا اور رگوں میں ایک جذبہ انتقام جوش مارنے لگتا۔ 

مگر اب انتقام کا وقت گزر چکا تھا۔ اب تو جو کچھ رہ گیا تھا اسی کو سنبھال کر رکھنا تھا تاکہ ترقی کی راہیں کھل سکیں۔ ہٹلر نے اپنی زندگی ہی میں حکم دے رکھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے برلن کو کسی قیمت پر بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اتحادیوں نے برلن پر یلغار کی تو نازیوں نے امریکا اور برطانیہ کا شدید مقابلہ کیا۔ نازیوں کے بے شمار آدمی مارے گئے مگر انہوں نے مورچے نہیں چھوڑے یہاں تک کہ ٹینک انہیں کچلتے ہوئے نکل گئے تھے۔ انہوں نے روسی حملہ آوروں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کئی بار تو نازیوں کے جوابی حملوں سے روسیوں کے پیر اکھڑ گئے تھے۔ روسیوں پر اگر سٹالن گراڈ اور دوسرے محاذوں پر جرمنی کے ہاتھوں شکست کھانے کا انتقامی جذبہ طاری نہ ہوتا تو شاید وہ برلن کو فتح نہ کر سکتے اور اگر کرتے بھی تو انہیں بہت وقت لگتا۔ 

پھر جرمن افواج میں نوجوان لڑکوں کی اکثریت تھی جو فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے، 1939ء سے، اپنے ملک کی فتوحات دیکھ رہے تھے۔ ان میں برتری کا ایک جذبہ تھا ساتھ ہی جرمنی میں فوجی تربیت کا ایک آسان اور نہایت مؤثر طریقہ رائج تھا جس کی وجہ سے چند ہی ہفتوں میں یہ نوجوان ہر قسم کا پیچیدہ اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت حاصل کر لیتے۔ یہ جنگ کے زمانے کی باتیں ہیں، جنگ کے بعد اقدار بدل جاتی ہیں۔ ہاں تو جنرل ویڈلنگ کافی دیر تک روسی فوجی افسروں کے پاس رہا۔ پھر ان کے ایما پر اس نے شہریوں اور جرمنی کی افواج کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا کہ فیوہرر (ہٹلر) گوئبلز، بارمن وغیرہ نازی پارٹی کے چوٹی لیڈر مر چکے ہیں، ہمارے پاس ایمونیشن کا ذخیرہ تقریباً ختم ہے۔ ان حالات میں جنگ جاری رکھنے سے اب کوئی فائدہ نہیں لہٰذا اسے حکم سمجھا جائے یا اپیل کہ جنگ بند کر دی جائے۔ کس قدر عبرت تھی، یہ وہی مغرور نازی تھے جو خود کو افضل ترین نسل اور ناقابل تسخیر قوم سمجھتے تھے، اب ایک طرف تو امریکا اور برطانیہ کے آگے ہتھیار ڈال رہے تھے، دوسری طرف روسیوں کے سامنے!

قیسی رامپوری

بشکریہ دنیا نیوز

مارک زکربرگ کی سیکیورٹی پر سالانہ 3 ارب 20 کروڑ روپے خرچ

$
0
0

فیس بک پر جعلی خبروں کی ترسیل اور پرتشدد واقعات پر مبنی ویڈیوز نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا کے بانی مارک زکربرگ کو ممکنہ ’خطرات‘ کے پیش نظر سال 2018 میں اپنی اور اپنے اہلخانہ کی سیکیورٹی پر 2 کروڑ 26 لاکھ ڈالر (3 ارب 20 کروڑ روپے) خرچ کرنے پڑے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ فیس بک کے سی ای او (مارک زکربرگ) کی ماہانہ تنخواہ ایک ڈالر ہے اور انہیں کمپنی سے انہیں کوئی بونسز یا مراعات وغیرہ بھی نہیں ملتی مگر ان کی سیکیورٹی پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق فیس بک پر جعلی خبروں اور قابل اعتراض مواد کی تشہیر کے بعد عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا۔ تاہم مارک زکربرگ نے سال 2018 میں سیکیورٹی کی مد میں دگنا اضافہ کر دیا، اس سے قبل 2017 میں ان کی سیکیورٹی پر 90 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ مارک زکربرگ نے سیکیورٹی کی مد میں استعمال ہونے والے نجی طیارے پر 26 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔


نیویارک ٹائمز پر 102 سال تک کی جانے والی غلطی

$
0
0

نیویارک ٹائمز دنیا کے مشہور ترین اخبارات میں سے ایک ہے اور اس کے شماروں میں غلطیوں پر اس کی اشاعت کے آغاز کے ساتھ سے ہی کڑی نظر رکھی جاتی تھی، مگر پھر بھی اس کے صفحہ اول پر ایک غلطی 102 سال تک شائع ہوتی رہی اور کوئی بھی اسے پکڑ نہیں سکا۔ جی ہاں واقعی 1898 سے 2000 تک نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر یہ ٹائپ کی غلطی مسلسل شائع ہوتی رہی۔ اگر آپ کو کبھی یہ اخبار دیکھنے کا موقع ملا ہو تو اس کے صفحہ اول پر بائیں جانب اوپر اس کا شمارہ نمبر لکھا ہوتا ہے۔

اٹھارہ ستمبر 1851 سے اشاعت شروع ہونے کے بعد سے روزانہ شمارہ نمبر لکھا جاتا ہے اور اب یہ تعداد 50 ہزار اوپر جا چکی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس اخبار کی اشاعت 50 ہزار سے زائد دنوں سے ہو رہی ہے۔ جیسا لکھا جا چکا ہے کہ آغاز کے ساتھ ہی شمارہ نمبر لکھا جارہا تھا مگر سات فروری 1898 کو کسی نامعلوم ایڈیٹر نے حساب کی ایک سادہ غلطی کی۔ چھ فروری کے شمارے میں اس نے شمارہ نمبر 14499 لکھا دیا اور لگتا ہے کہ اسے 4 کی جگہ 999 نظر آیا اور اس نے سات فروری کے شمارے پر 15 ہزار کا نمبر لکھ دیا۔ یعنی راتوں رات اخبار 500 دن آگے نکل گیا اور کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔


نیویارک ٹائمز کی جانب سے اس غلطی کے ساتھ اشاعت جاری رہی بلکہ 102 سال تک جاری رہی۔ پھر 1999 میں ایک چوبیس سالہ شخص جو کہ ہر ایڈیشن کے شمارہ نمبر کو اپ ڈیٹ کرتا تھا، نے اس نظام میں ممکنہ غلطی کے حوالے سے کام شروع کیا اور پھر اس پر ایک صدی پرانی غلطی کا انکشاف ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یکم جنوری 2000 کو نیویارک ٹائمز نے اس غلطی کو درست کرتے ہوئے صارفین کو بھی آگاہ کرتے لکھا 'چونکہ گزشتہ روز تک ہم سے 500 شماروں (51753) کی غلطی ہو رہی تھی، تو آج سے ہم نے سیکونس کو ٹھیک کر دیا ہے اور یہ شمارہ نمبر 51254 ہے'۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس ایک صدی پرانی غلطی کی قیمت اس روزنامے کو کچھ خاص نہیں چکانا پڑی۔

بشکریہ ڈان نیوز 

وہ اہم راز جو جولین اسانج نے افشا کیے

$
0
0

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سفارت خانے نے انھیں سنہ 2012 سے پناہ دے رکھی تھی ۔  امریکہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے چیلسی میننگ کے ساتھ مل کر دفاعی ادارے کے کمپیوٹرز میں موجود خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی سازش کی۔ اس جرم کی پاداش میں انھیں پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔  سنہ 2006 میں اپنے باقاعدہ آغاز کے بعد سے اب تک وکی لیکس ہزاروں خفیہ دستاویزات شائع کر کے مشہور ہو چکا ہے۔ یہ خفیہ معلومات فلم انڈسٹری سے لے کر قومی سلامتی اور جنگوں سے متعلق رازوں پر مشتمل ہیں۔

ہیلی کاپٹر حملہ
سنہ 2010 میں وکی لیکس نے امریکہ کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر سے بنائی گئی ویڈیو نشر کی جس میں عراق کے شہر بغداد میں شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جس میں پائلٹس کو اکسایا جا رہا ہے کہ ان سب کو مار دو اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے گلیوں میں موجود شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جب ایک گاڑی جائے حادثہ سے زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آتی ہے تو اس پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز سے منسلک فوٹو گرافر نمیر نور الدین اور ان کے معاون سعید چماغ بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی فوجی انٹیلیجینس
وکی لیکس نے ان ہزار ہا دستاویزات کو بھی شائع کیا جو سابقہ امریکی انٹیلیجینس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے ان کو فراہم کیں۔ افغانستان میں جنگ سے متعلقہ دستاویزات کے ذریعے یہ راز فاش ہوا کہ کیسے امریکی فوج نے سیکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور یہ واقعات رپورٹ نہ ہو پائے۔ عراق جنگ سے متعلق دستاویزات سے یہ پتا چلا کہ 66 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے کم ہے جو رپورٹ ہوئی تھی۔ دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ عراقی فورسز نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ان لیکس میں وہ دو لاکھ پچاس ہزار پیغامات بھی شامل تھے جو امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کلیدی عہدیداروں کے بائیو گرافک اور بائیو میٹرک معلومات جیسا کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس حاصل کرنا چاہتا تھا۔

9/11 کے پیغامات
وکی لیکس نے تقریباً 573000 ریکارڈ کیے گئے وہ پیغامات بھی شائع کیے جو 9/11 میں شدت پسندوں کے امریکہ میں حملوں کے دوران بھیجے گئے۔ ان پیغامات میں وہ پیغامات بھی شامل تھے جو مختلف امریکی خاندانوں نے اپنے پیاروں سے رابطوں کے لیے اور حکومتی اداروں نے ایک دوسرے کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے تھے۔ ایک پیغام میں کہا گیا 'صدرِ مملکت کو اپنے روٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وہ واشنگٹن واپس نہیں آ رہے لیکن اس بات کا یقین نہیں کہ وہ کہاں جائیں گے۔'

ڈیموکریٹس کی ای میلز
وکی لیکس نے ہزاروں وہ ای میلز بھی شائع کیں جو سنہ 2016 میں سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی الیکشن مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا کے اکاؤنٹ سے ہیک کی گئی تھیں۔ ان ای میلز میں جان پوڈیسٹا ہیلری کلنٹن کے مخالف برنی سینڈرز کو پیرس میں ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر تنفید کرنے کی وجہ سے 'بیوقوف'کہتے ہوئے پائے گئے۔ ای میلز سے یہ بھی پتا چلا کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا ایک صحافی کلنٹن کی ٹیم کو ایک سوال کے بارے میں بتا رہا ہے جو ان سے الیکشن ڈیبیٹ کے دوران اس نشریاتی ادارے نے پوچھنا تھا۔ ان ای میلز کے ایسے وقت میں سامنے آنے پر ویکی لیکس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہیلری کلنٹن کو الیکشن سے قبل بدنام کرنا چاہتا ہے۔ وکی لیکس نے ریپبلیکن امیدوار سارہ پیلن کے یاہو اکاؤنٹ کی ای میلز کو بھی سنہ 2008 میں شائع کیا۔

برٹش نیشنل پارٹی کے ممبران
سنہ 2008 میں وکی لیکس نے برٹش نیشنل پارٹی کے 13 ہزار سے زائد ممبران کے نام، پتے، اور رابطے کی معلومات بھی شائع کیں۔ اس سیاسی جماعت کے منشور میں تجویز دی گئی تھی کہ مسلمان ممالک سے تارکین وطن کی امیگریشن پر پابندی عائد کی جائے اور برطانیہ کے باسیوں کو کہا جائے کہ وہ نسلی بنیادوں پر اپنے علاقوں میں واپس آ کر آباد ہوں۔ ایک سابق ممبر کو یہ راز فاش کرنے پر 200 برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

سونی پکچرز ہیک
سنہ 2015 میں وکی لیکس نے ایک لاکھ ستر ہزار ای میلز اور 20 ہزار وہ دستاویزات شائع کر دیں جو فلم سٹوڈیو سونی پکچرز سے چرائی گئیں تھیں۔ اس کمپنی کو شمالی کوریا پر بنائی گئی فلم دی انٹرویو کی ریلیز سے چند ہفتوں قبل سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان ای میلز سے پتہ چلا کہ اداکاراؤں جینیفر لورینس اور ایمی ایڈمز کو فلم امریکن ہسل کے لیے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے کم معاوضہ دیا گیا۔ جب کہ وہ پیغامات بھی تھے جن میں اس کمپنی کے ہدایت کار اور اعلی عہدیداران مشہور فلمی شخصیات بشمول اینجلینا جولی کی بے عزتی کرتے پائے گئے۔ سونی پکچرز کی ایک فلم مسترد کرنے پر اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کو 'کمینہ'کہا گیا۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کا کہنا ہے کہ یہ ای میلز عوامی مفاد میں جاری کی گئیں کیونکہ ان کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنی میں اندرونِ خانہ کام کرنے کے طریقہ کار کا پتا چلتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Who will win the General Elections in India and why?

$
0
0

The 2019 Indian general election is scheduled to be held in seven phases from 11 April to 19 May 2019 to constitute the 17th Lok Sabha. The counting of votes will be conducted on 23 May, and on the same day the results will be declared. Legislative Assembly elections in the states of Andhra Pradesh, Arunachal Pradesh, Odisha and Sikkim will be held simultaneously with the general election. All 543 elected MPs will be elected from single-member constituencies using first-past-the-post voting. The President of India nominates an additional two members from the Anglo-Indian community if he believes the community is under-represented. Eligible voters must be Indian citizens, 18 or older, an ordinary resident of the polling area of the constituency and possess a valid voter identification card issued by the Election Commission of India. Some people convicted of electoral or other offences are barred from voting.


Earlier there were speculations that the Modi Government might advance the 2019 general election to counter the anti-incumbency factor, however learning from the past blunder of preponing an election made by the Vajpayee Government it decided to go into election as per the normal schedule which was announced by Election Commission of India (ECI) on 10 March 2019, after which Model Code of Conduct was applied with immediate effect. The voter-verified paper audit trail (VVPAT) system which enables electronic voting machines to record each vote cast by generating the EVM slip, will be introduced in all 543 Lok sabha constituencies. A total of 17.4 lakh VVPAT units and 39.6 lakh EVMs will be used in as many as 10,35,918 polling stations during the elections. On 9 April 2019, Supreme Court of India gave the judgement, ordering the Election Commission of India to increase VVPAT slips vote count to five randomly selected EVMs per assembly constituency, which means Election Commission of India has to count VVPAT slips of 20,625 EVMs. Though the exercise of matching EVM results with paper trail machine slips was being held in various assembly elections, this is the first time it will be undertaken in Lok Sabha polls. According to the Election Commission of India, 900 million people were eligible to vote, with an increase of 84.3 million voters since the last general election in 2014, making this the largest-ever election in the world. 15 million voters in the age group of 18–19 years are eligible to exercise their right to vote for the first time while 38,325 transgenders will be able to vote for the first time as members of the third-sex and not as male or female. 71,735 overseas voters have been enrolled in the electoral rolls for the 2019 Lok Sabha elections.


The election schedule was announced on 10 March 2019, and with it the Model Code of Conduct came into force. The election is scheduled to be held in seven phases, with counting starting on 23 May. In Bihar, Uttar Pradesh and West Bengal, the election will be held in all seven phases. The polling for the Anantanag constituency in the state of Jammu and Kashmir will be held in three phases, the first of its kind, due to violence in the region that had prompted the ECI to cancel a bypoll in 2016, leaving it vacant since then. A number of issues are expected to be of importance in this election. These include the country's recent conflict with Pakistan, GST,  unemployment, and national security. 


During the election campaign, the opposition parties have claimed that the NDA government is destroying democratic institutions and processes. Opposition party leaders such as Mamata Banerjee have campaigned on this issue. In response, Modi termed the allegations "a big joke", commenting that Congress and the communists had themselves undermined institutions including the police, CBI and the CAG, and cited the murder of BJP activists in Kerala and Madhya Pradesh. According to The Times of India, the major economic achievements of the incumbent NDA government include an inflation rate less than 4 percent, the GST reform, the Insolvency and Bankruptcy Code, its programs in recent years have positively touched many among the Indian masses, programs such as the Jan Dhan Yojana, rural cooking gas and electricity for homes. According to the IMF, the Indian economy has been growing in recent years, its GDP growth rate is among the highest in the world for major economies, and India is expected to be the fastest growing major economy in 2019-2020 and 2020-2021, with real GDP projected to grow at 7.3 percent. The GDP growth data has been disputed by a group of Indian social scientists, economists and the political opposition, while a group of Indian chartered accountants has defended the data, the GDP calculation methodology, and questioned the motivations of those challenging the recent Indian GDP statistics. The opposition's election campaign has highlighted that both the demonetization and GST law has "seriously hit small business, farmers and casual labor", states The Times of India. 


In response to the 2019 Pulwama attack, the Indian Air Force conducted airstrikes inside Pakistan — for the first time since the 1971 Indo-Pak war. The country's ongoing conflict with Pakistan is predicted to be a significant factor in this election. The opposition accused Modi of politicising the army, whilst the BJP countered their accusations by stating that such allegations raised by them were adversely affecting the morale of India's armed forces. According to the Pew Research Center, both before and after the outbreak of recent India-Pakistan tensions, their 2018 and 2019 surveys suggest that the significant majority of the Indian voters consider Pakistan as a "very serious threat" to their country, and terrorism to be a "very big problem".


According to the Pew Research Center, a significant majority of Indian voters consider the lack of employment opportunities as a "very big problem" in their country. "About 18.6 million Indians were jobless and another 393.7 million work in poor-quality jobs vulnerable to displacement", states the Pew report. A report on unemployment prepared by the National Sample Survey Office's (NSSO's) periodic labour force survey, has not been officially released by the government. According to Business Today, this report is the "first comprehensive survey on employment conducted by a government agency after Prime Minister Narendra Modi announced demonetisation move in November 2016". According to this report, the 2017–2018 unemployment rate in India at 6.1%, a four decade high. The government has claimed that the report was not final. According to the International Labor Organization (ILO) – a United Nations agency, unemployment is rising in India and the "unemployment rate in the country [India] will stand at 3.5 percent in 2018 and 2019 – the same level of unemployment seen in 2017 and 2016", instead of dropping to 3.4 percent as it had previously projected. According to the ILO's World Employment Social Outlook Report, the unemployment rate in India has been in the 3.4% to 3.6% range over the UPA-government led 2009–2014 and the NDA-government led 2014–2019 periods.


On 12 January 2019, prime minister Narendra Modi launched the Bharatiya Janata Party's election campaign, which sought a second term. On the same day, both Mayawati (president of the Bahujan Samaj Party) and Akhilesh Yadav (president of the Samajwadi Party) announced an alliance to contest 76 seats out of the 80 in Uttar Pradesh and the alliance will not fight in four seats, namely Amethi and Rae Bareli which they left for Congress and another two for other political parties. The alliance did not include Congress, with Mayawati stating, "Including Congress in the alliance will hurt SP-BSP prospects as Congress's votes do not get transferred" and "the policies of both these parties [BJP and Congress] have been mostly the same". The alliance was the second of its kind with a similar coalition formed 25 years ago in 1993. The Indian National Congress Party president Rahul Gandhi launched his election campaign from Gujarat's Lal Dungri site where other members of the Nehru dynasty began their general elections campaign, including his grandmother Indira Gandhi and father Rajiv Gandhi. In 2015, an India-Bangladesh boundary agreement was signed, in which the two countries exchanged their enclaves. As a result, it will be the first time in which residents of these former enclaves vote in an Indian general election.
Courtesy : Wikipedia



Assange's seven years in the Ecuadorean embassy

$
0
0

On 19 June 2012, the Ecuadorian foreign minister, Ricardo Patiño, announced that Assange had applied for political asylum, that his government was considering the request, and that Assange was at the Ecuadorian embassy in London. Wikileaks insiders stated that Assange made the decision to seek asylum because he felt abandoned by the Australian government. The Australian attorney-general at the time, Nicola Roxon, had written a letter to Assange's legal representative, Jennifer Robinson, in which she wrote that Australia would not seek to involve itself in any international exchanges about Assange's future. She also wrote that "should Mr. Assange be convicted of any offence in the United States and a sentence of imprisonment imposed, he may apply for an international prisoner transfer to Australia". Assange's lawyers described the letter as a "declaration of abandonment". Assange and his supporters state he is concerned not about any proceedings in Sweden as such, but believe that his deportation to Sweden could lead to politically motivated deportation to the United States, where he could face severe penalties, up to the death sentence, for his activities related to WikiLeaks.


On 16 August 2012, Patiño announced that Ecuador was granting Assange political asylum because of the threat represented by the United States secret investigation against him. In its formal statement, Ecuador reasoned that "as a consequence of [Assange's] determined defense to freedom of expression and freedom of press… in any given moment, a situation may come where his life, safety or personal integrity will be in danger". Latin American states expressed support for Ecuador. Ecuadorian President Rafael Correa confirmed on 18 August that Assange could stay at the embassy indefinitely,  and the following day Assange gave his first speech from the balcony. Assange's supporters forfeited £293,500 in bail and sureties. An office converted into a studio apartment, equipped with a bed, telephone, sun lamp, computer, shower, treadmill, and kitchenette, became his home from then until 11 April 2019.


Just before Assange was granted asylum, the UK government wrote to Patiño stating that the police were entitled to enter the embassy and arrest Assange under UK law. Patiño criticised what he said was an implied threat, stating that "such actions would be a blatant disregard of the Vienna Convention". Officers of the Metropolitan Police Service were stationed outside the building from June 2012 to October 2015 in order to arrest Assange for extradition and for breach of bail, should he leave the embassy. The police guard was withdrawn on grounds of cost in October 2015, but the police said they would still deploy "a number of overt and covert tactics to arrest him". The cost of the policing for the period was reported to have been £12.6 million. 


In April 2015, during a video conference to promote the documentary Terminal F about Edward Snowden, Bolivia's ambassador to Russia, María Luisa Ramos Urzagaste, accused Assange of putting the life of Bolivian president Evo Morales at risk by intentionally providing the United States with false rumours that Snowden was on the president's plane when it was forced to land in Vienna in July 2013 after France, Spain and Italy denied access to their airspace. "It is possible that in this wide-ranging game that you began my president did not play a crucial role, but what you did was not important to my president, but it was to me and the citizens of our country. And I have faith that when you planned this game you took into consideration the consequences", the ambassador told Assange. Assange stated that the plan "was not completely honest, but we did consider that the final result would have justified our actions. We weren't expecting this outcome. The result was caused by the United States' intervention. We can only regret what happened."


In an interview the following month with Democracy Now!, Assange explained the story of the grounding of Morales' plane, saying that after the United States cancelled Snowden's passport, WikiLeaks thought about other strategies to take him to Latin America, and they considered private presidential jets of those countries which offered support. The appointed jet was that of Venezuelan president, Nicolás Maduro, but Assange stated that "our code language that we used deliberately swapped the presidential jet that we were considering for the Bolivian jet ... and in some of our communications, we deliberately spoke about that on open lines to lawyers in the United States. And we didn't think much more of it. ... We didn't think this was anything more than just distracting." Eventually, the plan was not pursued and, under Assange's advice, Snowden sought asylum in Russia. 


Paris newspaper Le Monde, in its edition of 3 July 2015, published an open letter from Assange to French President François Hollande in which Assange urged the French government to grant him refugee status. Assange wrote that "only France now has the ability to offer me the necessary protection against, and exclusively against, the political persecution that I am currently the object of." In the letter Assange wrote, "By welcoming me, France would fulfill a humanitarian but also probably symbolic gesture, sending an encouragement to all journalists and whistleblowers ... Only France is now able to offer me the necessary protection ... France can, if it wishes, act."


On 11 April 2019, the Metropolitan Police—whom Ecuadorian authorities had invited into the embassy—arrested Assange in connection with his failure to surrender to the court in June 2012 for extradition to Sweden.  Ecuadorian president Lenin Moreno stated that Ecuador withdrew Assange's asylum after he repeatedly violated international conventions regarding domestic interference. He was found guilty of breaching his bail conditions later that afternoon. Assange was carrying Gore Vidal's History of the National Security State during his arrest.

Courtesy : Wikipedia



برطانیہ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ

$
0
0

برطانیہ اور فرانس کے درمیان 1337ء سے 1453ء تک جاری رہنے والی ایک جنگ کو ’’سو سالہ جنگ‘‘ کہا جاتا ہے حالانکہ یہ 116 سال جاری رہی تھی۔ جنگ کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ فرانس کے بادشاہ چارلس چہارم کا 1328ء میں انتقال ہو گیا اور اس کی وفات کے بعد فوری طور پر کوئی مرد وارث موجود نہیں تھا۔ اس کا کوئی بیٹا تھا نہ بھائی جو تخت سنبھال سکتا۔ اس حقیقت کے پیش نظر برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے ارادہ کیا کہ وہ فرانس کا بادشاہ بن جائے۔ ایڈورڈ سوم کا فیصلہ فرانس کے عوام کے لئے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ وہ ایک غیرملکی بادشاہ نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف فرانس کے فلپ ششم نے کہا کہ اسے ہر صورت بادشاہ بننا چاہیے ۔ 

قانون کے مطابق عورت حکومت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے فرانسیسیوں کے خلاف بعض نفرت انگیز محاورے بنائے وہ بھی اس جنگ کا پیش خیمہ بنے۔ یہ محاورے آج بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح فرانسیسیوں میں بھی انگریزوں کے خلاف غصہ موجود ہے۔ فرانس میں انگریزی زبان میں گفتگو کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وہ بنیادی اختلافات تھے جو دونوں ملکوں کے درمیان اس قدر شدت اختیار کر گئے کہ وہ جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ جنگ کے آغاز میں فرانس زیادہ مضبوط تھا۔ آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تھی جبکہ برطانیہ کی آبادی صرف چالیس لاکھ تھی۔ آخر کار ایڈورڈ سوم کو نہ چاہتے ہوئے بھی فلپ ششم کو فرانس کا بادشاہ تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن اس نے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کا حق محفوظ رکھا جن پر زبردستی قبضہ کیا گیا تھا۔ 

دراصل میں فرانس اور برطانیہ کی بادشاہتوں کے درمیان اختلافات گیارہویں صدی سے ہی شروع ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں 1066 ء میں نارمن نے برطانیہ کو فتح کر لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں برطانیہ کے تخت پر’ ’اشرافیہ‘‘ نے قبضہ کر لیا جس کی پہلے سے ہی فرانس میں زمینیں تھیں۔ اس پر فرانس کے بادشاہ کو یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ یہ اشرافیہ کہیں فرانسیسی بادشاہت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ مفادات کے اس ٹکرائو نے فرانس اور برطانیہ کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دی ۔ طویل مدت تک یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرتے رہے ۔ کوئی نہ کوئی علاقہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی بنیاد بنتا رہا۔ 

فرانس سکاٹ لینڈ کا اتحادی تھا کیونکہ انگریز بادشاہو ں نے کچھ عرصے کے لئے سکاٹ لینڈ کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی تھی ۔ 1295 ء میں فرانس اور سکاٹ لینڈ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ برطانیہ کی فرانس کے تخت کے حصول کے لئے کوششیں جاری رہیں اور جنگیں ہوتی رہیں۔ فرانس کے عوام میں جون آف آرک نے انقلابی جذبہ پیدا کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فرانس کی فتح کی اصل بنیاد جون آف آرک نے رکھی۔ اس نے فرانس کے کئی مفتوحہ علاقے انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرائے۔ 1429ء سے 1453ء تک کا عرصہ فرانس کے لئے بڑا شاندار رہا۔ جون آف آرک کو انگریزوں نے گرفتار کر کے زندہ جلا دیا تھا۔ آخری فتح فرانس کی ہوئی۔ یہ سو سالہ جنگ اقتدار اور دوسروں پر غلبہ پانے انسانی حرص کی نشاندہی کرتی ہے… انسانی تاریخ حرص کے حوالے سے رونما ہونے والے بے شمار خونیں واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ 

طیب رضا عابدی

بھارت کے انتخابات میں اصل ایشوز نظر انداز کر دیے گئے

$
0
0

انتخابی مہم میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حزبِ اختلاف کی جانب سے الگ الگ ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنما پاکستان، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مسائل اٹھا رہے ہیں وہیں اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، وعدوں کی عدم تکمیل، نوٹ بندی اور یکساں ٹیکس نظام سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا چرچا ہے۔

اصل ایشوز کیا ہیں؟
وزیرِ اعظم مودی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فوجیوں کی ہلاکت اور قوم پرستی الیکشن میں کلیدی ایشوز ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جب کسانوں کی خود کشی انتخابی ایشو بن سکتی ہے تو فوجیوں کی ہلاکت کیوں نہیں؟ وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی کے خیال میں قومی سلامتی اور دہشت گردی الیکشن میں اصل مسائل ہیں۔ ان کے بقول، "اپوزیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن حقیقی مسائل پر لڑا جانا چاہیے میں کہتا ہوں کہ قومی سلامتی اور دہشت گردی ہی حقیقی مسائل ہیں۔" کانگریس اور دوسری جماعتوں کا الزام ہے کہ بی جے پی اصل ایشوز سے فرار اختیار کر رہی ہے۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری، نوٹ بندی، معیشت کی تباہ حالی اور خواتین کی سلامتی جیسے مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے پاکستان اور بالاکوٹ پر بات کر کے لوگوں کی توجہ بٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان مخالفت
وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب دہلی میں ایسی حکومت ہے جو پاکستان کے عزائم کو ناکام بنانے کا حوصلہ اور ہمت رکھتی ہے۔ وہ پلوامہ حملے اور بھارتی فضائیہ کی جانب سے آپریشن بالاکوٹ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے مہاراشٹر میں تقریر کرتے ہوئے پہلی دفعہ ووٹ دینے والوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا پہلا ووٹ پلوامہ میں ہلاک ہونے والے جوانوں اور بالاکوٹ میں کارروائی کرنے والے فوجیوں کے نام وقف کریں۔ ریاستی الیکشن افسر نے اسے انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس بارے میں قومی الیکشن کمیشن کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے۔ لیکن تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی حقیقی مسائل کو اٹھانے کے بجائے جذباتی مسائل اٹھا رہے ہیں۔

ایک تجزیہ کار آلوک موہن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں نہ تو پاکستان کوئی ایشو ہے اور نہ ہی پلوامہ حملہ اور آپریشن بالاکوٹ۔ بلکہ اصل مسائل مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی تباہی، کسانوں کی خود کشیاں اور ناکام خارجہ پالیسی ہے۔ آلوک موہن کے بقول آج تمام پڑوسی ملکوں سے بھارت کے رشتے خراب ہیں۔ لیکن بی جے پی کے رہنما اس پر بات نہیں کرتے۔ ایک اور تجزیہ کار انجم نعیم کہتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک کو اپنے قریب لانے کے لیے انتخابی مہم کو یکطرفہ طور پر فرقہ وارانہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے پاکستان، فوج اور قوم پرستی کا نام لیا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں غربت، بے روزگاری اور ان تمام مسائل کو جن پر پہلے الیکشن لڑے جاتے تھے، اس بار نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حقیقی مسائل کو محض دکھانے کے لیے اٹھاتی ہیں ورنہ وہ بھی اکثریت کو اپنے قریب کرنے کی کوشش میں ماحول کو جذباتی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

فرقہ واریت و مذہبی منافرت
کئی حلقوں خصوصاً اقلیتوں کا الزام ہے کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ دیوبند میں ایک ریلی کے دوران بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے مسلمانوں کا نام لے کر ان سے اپیل کی کہ وہ اپنا ووٹ بٹنے نہ دیں اور صرف ان کے اتحاد کو ہی ووٹ دیں۔ اس کے دو روز بعد میرٹھ میں تقریر کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اگر کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو "علی"پر اعتقاد ہے تو ہمارا بجرنگ بلی پر ہے۔ "علی"تمھارے ہیں تو بجرنگ بلی ہمارے اور بجرنگ بلی کے ماننے والے ایسی زبان کو برداشت نہیں کریں گے۔

الیکشن کمیشن نے ان بیانوں کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور مایاوتی پر منگل کی صبح چھ بجے سے 48 گھنٹے تک اور آدتیہ ناتھ پر 72 گھنٹے تک انتخابی مہم چلانے پر پابندی عائد کر دی۔ اس پر مایاوتی نے کمیشن کو دلت مخالف قرار دیا اور کہا کہ نریندر مودی اور امِت شاہ فوج کا نام لے کر ووٹ مانگ رہے ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ بی جے پی کی امیدوار اور مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے سلطان پور میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا تو وہ اپنے کام کے لیے ان کے پاس نہ آئیں۔ وہ ان کے کام نہیں کریں گی۔

ان کے اس بیان پر الیکشن کمیشن نے مینکا پر بھی 48 گھنٹے تک پابندی عائد کر دی ہے۔ رام پور سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار اعظم خان نے اپنی حریف جیا پردا کے خلاف نازیبا کلمات ادا کیے۔ جس پر وہ بھی 48 گھنٹے تک پابندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار آلوک موہن کے خیال میں سیاسی پارٹیوں اور خاص کر بی جے پی کی جانب سے اس قسم کی زبان اس لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ مذہبی منافرت پیدا کی جا سکے اور لوگوں کو ورغلا کر ان کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ ان کے بقول بی جے پی کے متعدد رہنما اقلیتوں کے خلاف بیان بازی کر کے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انجم نعیم کہتے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں بھی اکثریت کو ناراض کرنا نہیں چاہتیں اس لیے وہ بھی ان کو پسند آنے والی باتیں کر رہی ہیں۔

معاشی ایشوز غائب
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے بڑے کرنسی نوٹ بند کر کے اور غلط طریقے سے جی ایس ٹی نافذ کر کے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
لیکن بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کی حکومت میں معیشت کو فروغ حاصل ہوا ہے اور بھارت تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی قوت بن گیا ہے۔ مودی اگرچہ اب نوٹ بندی کے اپنے فیصلے کا دفاع نہیں کرتے لیکن کبھی کبھار اس بار ے میں بیان دے دیتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے جن لوگوں کا کالا دھن ختم ہو گیا وہ اب بھی نوٹ بندی کو نہیں بھول پائے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

انجم نعیم کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملکی معیشت کو بہت دھچکہ لگا لیکن اب اس کی بات ہی نہیں ہوتی۔ وزیرِ اعظم اب تک 79 جلسوں میں تقریر کر چکے ہیں لیکن انھوں نے صرف ایک ریلی میں نوٹ بندی کا ذکر کیا اور وہ بھی اپویشن کو نشانہ بنانے کے لیے۔ ان کے مطابق نوٹ بندی کے وقت خوب بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ اس سے معیشت کو بہت فائدہ ہو گا لیکن اب جب کہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے، تو اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس امریکہ


وکی لیکس کے بانی جولین اسانج ایکواڈور کے سفارتخانے سے گرفتار

$
0
0

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 7 سال کی طویل سیاسی پناہ گزارنے کے بعد برطانیہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جولین اسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے سے گرفتار کیا گیا۔
ادھر میٹروپولیٹن پولیس سروس (ایم پی ایس) کے مطابق وکی لیکس کے بانی کو سینٹرل لندن پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے، ’جہاں وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک انہیں جلد از جلد ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا‘۔ پولیس نے مزید کہا کہ ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ واپس لینے کے بعد سفارتکار نے پولیس کو سفارتخانے میں بلایا۔

واضح رہے کہ وکی لیکس کے بانی سوئڈن حوالگی سے بچنے کے لیے 7 سال سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے، تاہم ان کی سیاسی پناہ ختم کرنے کے اعلان پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے میں ناکام ہونے پر جولین اسانج کو گرفتار کیا گیا۔ ادھر ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد جولین اسانج کی سیاسی پناہ واپس لے لی گئی۔ تاہم وکی لیکس کی جانب سے ایک ٹوئٹ کی گئی کہ ایکواڈور کی جانب سے ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر جولین اسانج کی سیاسی پناہ کو ختم کیا گیا۔

دوسری جانب برطانوی سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس نے وکی لیکس کے بانی کو گرفتار کر لیا۔ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ جولین اسانج پولیس کی حراست میں ہیں اور وہ برطانیہ میں انصاف کا سامنا کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے لکھا کہ ’قانون سے کوئی بالاتر نہیں، میں تعاون پر ایکواڈور اور پیشہ وارانہ مہارت پر میٹ پولیس برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘۔ 47 سالہ جولین اسانج نے سفارتخانے کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وکی لیکس کی سرگرمیوں کے لیے سوالات پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

گرفتاری سے متعلق برطانوی وزیر خارجہ سر ایلن ڈنکن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ’ہمارے دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات ہوئے‘۔ اس بارے میں ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے ایکواڈور کو ضمانت دی گئی کہ جولین اسانج کو اس ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا جہاں موت کی سزا ہو۔ لینن مورینو کا کہنا تھا کہ ’انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہمارے بھرپور عزم کے تحت میں نے برطانیہ سے درخواست کی کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جولین اسانج کو ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے جہاں انہیں تشدد یا سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہو‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’برطانوی حکومت نے اپنے قوانین کے مطابق تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے‘۔ 

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سوئڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سوئڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔ بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہو گئے تھے۔ جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور وہ اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

بشکریہ ڈان نیوز


نوٹرڈیم : آٹھ سو سال پرانا گرجا جل گیا

$
0
0

پیرس میں واقع تاریخی گرجا گھر نوٹرڈیم میں اچانک بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی جس سے اس قدیم عمارت اور سیاحت کے ایک اہم مرکز کو شدید نقصان پہنچا۔ فائرفائٹرز نے کہا ہے کہ آتش زدگی سے 800 سو سال پرانے گرجا گھر کی چھت اور ایک مینار گر گیا تاہم اس کے پتھروں سے بنے ڈھانچے کو تباہ ہونے سے بچا لیا گیا۔

عمارت پر مرمت اور بحالی کا کام جاری تھا جس کے باعث چھت کا بیشتر حصہ ایسے ڈھانچوں سے بھرا ہوا تھا جو مرمت کے دوران عمارت کو سہارا دینے کے غرض سے لگائے گئے تھے۔ تفتیش میں ان ڈھانچوں کے پہلو کو بھی دیکھا جارہا کہ اگر یہ آگ لگنے کا سبب بنے۔

آگ لگنے کا یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق شام چھ بج کر 43 منٹ پر 15 اپریل کو پیش آیا، تصاویر ہمیں یہ واضح کرتی ہیں کہ عمارت کی مخروطی چوٹی آگ کے لپیٹ میں آکر تباہ ہو گئی تھی جس سے کچھ دیر قبل ہی سیاحوں کے لیے گرجا گھر میں داخلہ بند کر دیا تھا۔ آگ بہت تیزی سے لکڑی سے بنی چھت تک پہنچ گئی اور اسی دوران لوگ ان مناظر کو دیکھنے کے لیے جمع ہوتے رہے۔

تقریباً 500 آگ بجھانے والے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا مگر وہ گرجا گھر کے مخروطی مینار یا ’سپائر'کو نہ بچا پائے۔ اس سپائر کو 19ویں صدی میں تبدیل کیا گیا تھا جب عمارت پر مرمت کا کام کیا گیا تھا۔ سپائر مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے سے کچھ پہلے گر کر تباہ ہو گیا۔ 13ویں صدی میں ہونے والے کام کی بدولت عمارت کی چھت لکڑی کی لاتعداد کڑیوں سے لیس تھی۔







صرف ایک وقت کھانا اور روزانہ 8 کلومیٹر واک، ٹویٹر بانی کا معمول

$
0
0

سماجی رابطوں کی مشہور ایپ ٹویٹر کے بانی جیک ڈورسی روزانہ صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی میں ڈبکی لگاتے ہیں، روزانہ آٹھ کلومیٹر چلتے ہیں اور دو دن بھوک رہتے ہیں۔ اپنے اس معمول کو انہوں نے اپنی کامیابی کا راز قرار دیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں چھپنے والی دلچسپ خبر کے مطابق ٹویٹر کے سربراہ جیک ڈورسی روزانہ صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں، ہفتہ اور اتوار کو بھوکے رہتے ہیں اور 8 کلومیٹر پیدل چل کر اپنے دفتر جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ گزشتہ 20 برسوں سے کر رہے ہیں۔

اپنے روزانہ کے معمول کے علاوہ 42 سالہ جیک ڈورسی کی تنخواہ بھی بہت غیر معمولی ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق 42 سالہ جیک ڈورسی کی دولت پانچ ارب ڈالر ہے لیکن گزشتہ سال انہوں نے تنخواہ کا جو پہلا چیک دیا گیا تھا وہ محض ایک ڈالر چالیس سینٹ کا تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق 300 ملین صارفین ماہانہ ٹویٹر استعمال کرتے ہیں اور 2018ء کی آخری سہ ماہی میں کمپنی کو 909 ملین ڈالر کی ریکارڈ آمدن ہوئی تھی۔ ڈورسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ پورے دن میں شام ساڑھے چھ بجے کے قریب صرف ایک مرتبہ بھرپور کھانا کھاتے ہیں جس میں عموماً پروٹین اور سلاد شامل ہوتا ہے۔

بشکریہ دنیا نیوز


اصل تحریکِ انصاف کہاں گئی؟

$
0
0

پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کے بعد ایسے چہرے کابینہ میں شامل ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ زرداری اور مشرف حکومت کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بھی چہ موگوئیاں جاری ہیں کہ حکومت تو تحریک انصاف کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں تحریک انصاف کے ساتھ شروع سے وابستہ رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی جار ہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس کی 47 رکنی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی تعداد بڑھ کر 16 ہو گئی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی وزیرخزانہ کی ہے اسد عمر کی جگہ وزیرخزانہ بنائے جانے والے عبدالحفیظ شیخ مشرف دور میں سندھ کابینہ کا حصہ تھے۔ جبکہ 2010 میں انہیں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔

عبدالحفیظ شیخ 2012 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد وہ امریکہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ مقرر کئے جانے والے بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ کو پرویز مشرف کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعجاز شاہ، پرویز مشرف اور چوہدری پرویز الہی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو یہ شخصیات اس میں ملوث ہوں گی۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے مشرف دور حکومت میں انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر 2004 سے 2008 تک کام کیا اس دوران ان پر سیاسی انجینئرنگ کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پرویز مشرف انہیں آسٹریلیا میں پاکستان کا سفیر لگانا چاہتے تھے لیکن آسٹریلوی حکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے پر انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو لگا دیا گیا۔

اعجاز شاہ جولائی 2018 کے انتخابات میں ننکانہ صاحب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں شامل رہنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اطلاعات کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا تاہم اس وقت کے اسپیکر چوہدری امیر حسین سے ان کے اختلافات زبان زدعام رہے۔ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں اور پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراطلاعات و نشریات رہیں 2013 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انہیں سیالکوٹ سے شکست ہوئی جس کے بعد وہ عارضی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں تھیں۔ 2017 میں فردوس عاشق اعوان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی لیکن 2018 کے انتخابات میں انہیں شکست ہوئی تاہم اب انہیں وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کئے جانے والے فواد چوہدری بھی سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان رہ چکے ہیں جبکہ وہ پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال بھی پرویز مشرف کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر انسداد منشیات علی محمد خان مہر مشرف دور میں وزیرِ اعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں۔ علی محمد مہر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے رہے ہیں تاہم وہ مختلف ادوار میں پیپلزپارٹی کے اتحادی رہے ہیں لیکن اب وہ بھی پی ٹی آئی کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔

مخدوم خسرو بختیار، عمرایوب خان، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، ندیم افضل چن سمیت تحریک انصاف میں شامل بہت سے افراد کا تعلق ماضی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور سابق صدر پرویز مشرف سے رہا ہے۔ کابینہ میں ردوبدل کے بعد غیر منتخب افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے ان ٹیکنوکریٹس میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر ظفر اللہ اور ندیم بابر شامل ہیں۔ ان غیر منتخب ارکان نے ایم این اے اسد عمر، عامر کیانی اور غلام سرور خان کی جگہ لی ہے۔ فردوس عاشق اعوان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

وفاقی کابینہ میں وزراء کی تعداد 24 ہے، جس میں 5 وزیر مملکت، 13 معاونین خصوصی اور 5 مشیران بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ معاونین خصوصی میں سے صرف علی نواز اعوان رکن قومی اسمبلی جبکہ یار محمد رند رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ دیگر غیر منتخب معاونین خصوصی میں شہزاد اکبر، افتخار درانی، نعیم الحق، زلفی بخاری، شہزاد قاسم، عثمان ڈار، یوسف بیگ مرزا اور ندیم افضل چن شامل ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کی شمولیت کے بعد وزیراعظم کے مشیران کی مجموعی تعداد 5 ہو گئی ہے جو کوئی الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ دیگر غیرمنتخب مشیران میں ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، شہزاد ارباب اور ڈاکٹر عشرت حسین شامل ہیں۔ سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کی کابینہ اور غیرمنتخب افراد کو رکھنا تھا تو تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟

علی رانا

بشکریہ وائس آف امریکہ

صدر ٹرمپ نے تحقیقات روکنے کی متعدد کوششیں کیں، ملر رپورٹ

$
0
0

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کے کردار سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تحقیقات پر اثرانداز ہونے کے علاوہ خصوصی تفتیش کار رابرٹ ملر کو ہٹانے کی بھی کوشش کی۔ رابرٹ ملر نے 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق 448 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے۔ رابرٹ ملر نے اپنی رپورٹ میں کئی جگہوں پر دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے بار بار تحقیقات کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ تاہم صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں نے صدر کے احکامات کو نظر انداز کیا جس کے باعث وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر صدر ٹرمپ تحقیقات پر اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے کہا کہ "یہ خوفناک ہے اس سے میری صدارت جا سکتی ہے۔"

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صدرٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے کونسل ڈان میکگن کو تحقیقات کی نگرانی پر مامور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو طلب کرنے کا کہا۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ نے انہیں ہدایت دی کہ رابرٹ ملر کو کام کرنے سے روک دینا چاہیے۔ لیکن انہوں نے صدر کی ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے تحقیقات روکنے کے لیے اپنی صدارتی مہم کے مینیجر کورے لیونڈوسکی کو ہدایت کی کہ وہ اس وقت کے اٹارنی جنرل سے ملیں۔ اور انہیں پیغام پہنچائیں کہ یہ تحقیقات صدر کے ساتھ نا انصافی ہیں۔ لیکن مینیجر نے پیغام آگے نہیں پہنچایا۔
رپورٹ کے اجراء پر صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کے ذریعے 'گیم آف تھرون'کی نقل کرتے ہوئے اپنے ردِ عمل میں اسے ایک اچھا دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب کہانی ختم ہو گئی ہے۔

ڈیموکریٹ اور ری پبلکن قانون سازوں نے جمعرات کو 2016ء کے صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی گٹھ جوڑ پر جاری ہونے والی خصوصی تفتیشی اہلکار رابرٹ ملر کی رپورٹ پر مختلف نوعیت کے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق کہ 2016ء کے انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق ٹرمپ کی انتخابی مہم میں سے کسی نے جان بوجھ کر کوئی ساز باز نہیں کی۔ لیکن انھوں نے صدر کو اس بات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا کہ اُنھوں نے انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے اقدام نہیں کیے۔ ایک بیان میں اوکلوہاما سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن سینیٹر جیمز انہوف نے ملر کی رپورٹ کو "شور زیادہ تھا، کوئی گٹھ جوڑ اور کوئی رکاوٹ"ثابت نہیں ہو پائی۔ اُنھوں نے الزام لگایا کہ ڈیموکریٹس نے "صدر کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔"

دریں اثنا ڈیموکریٹس نے اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اقدامات کی چھان بین جاری رکھیں گے۔ نیو یارک سے ڈیموکریٹ رکن ایوانِ نمائندگان جیری نادلر نے اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "خصوصی تفتیشی اہلکار نے واضح کیا ہے کہ اُنھوں نے صدر کو الزام سے بری نہیں کیا اور اب یہ کانگریس کی ذمے داری ہے کہ وہ صدر کے اقدامات پر ان کا احتساب کرے۔"
انھوں نے کہا کہ "اس بات کی ضرورت ہے کہ کانگریس مکمل رپورٹ سامنے رکھ کر خصوصی تفتیشی اہل کار ملر کی جانب سے پیش کردہ ثبوت پر غور کرے۔"
ڈیموکریٹ قانون سازوں نے ملر رپورٹ کے ان حصوں کی نشاندہی کی ہے جن میں 2016ء کے صدارتی انتخابات میں مدِ مقابل ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کو نقصان پہنچانے کے لیے ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے غیر ملکی کارندوں سے رابطے کیے گئے، جن میں ان کی اِی میلوں کو ہیک کرنا اور حساس اِی میلوں کو جاری کرنا شامل ہے۔

اُنھوں نے ان واقعات کی دستاویزات کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی جن میں ٹرمپ نے روس سے متعلق چھان بین کو روکنے کی مبینہ کوشش کی۔ ڈیموکریٹ رکن کانگریس، بریڈ شرمن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "ملر نے گٹھ جوڑ دکھائی ہے، جو شاید مجرمانہ گٹھ جوڑ نہیں ہے۔ اِی میلوں کو جاری کرنا گٹھ جوڑ ہے، لیکن ہیکنگ ایسا عمل نہیں ہے۔ ملر نے مجرمانہ رکاوٹ ڈالنے کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔" اس سے قبل اخباری کانفرنس کرتے ہوئے اٹارنی جنرل ولیم بر نے کہا کہ "ڈپٹی اٹارنی جنرل اور میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خصوصی تفتیشی نمائندے نے جو ثبوت پیش کیے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ صدر ٹرمپ یا اُن کی صدارتی مہم کے کسی اہل کار نے انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔" امریکی اٹارنی جنرل نے تفتیشی رپورٹ جاری کرنے سے قبل رپورٹ کی چند تفصیلات پیش کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ صدر ٹرمپ کی صدارتی مہم اور روس کے درمیان کسی قسم کی ساز باز کے کوئی اشارے نہیں ملے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

السیسی کے اختیارات اور اقتدار میں توسیع کے لیے ریفرنڈم

$
0
0

مصری عوام ملکی صدر عبدالفتاح السیسی کی مدت صدارت میں توسیع کے بارے میں ریفرنڈم میں آج سے اپنی رائے دے رہے ہیں۔ عوامی تائید حاصل ہونے کی صورت میں صدر السیسی سن 2030 تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔ مصری صدر السیسی ریفرنڈم کے ذریعے ملکی آئین میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں عوامی تائید حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے نہ صرف السیسی زیادہ بااختیار ہو جائیں گے بلکہ وہ ممکنہ طور پر سن 2030 تک اقتدار میں بھی رہ سکیں گے۔ مصری پارلیمان میں السیسی کے حامیوں کو اکثریت حاصل ہے اور پارلیمان پہلے ہی ان مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری دے چکی ہے۔

سرکاری ٹی وی کی رپورٹوں کے مطابق صدر السیسی ووٹنگ کا عمل شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد اپنا ووٹ ڈالنے ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ سرکاری میڈیا پر بھی لوگوں کو ’ذمہ داری کا مظاہرہ‘ کرنے اور ’رائے دہی میں حصہ لینے‘ کے لیے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ سن 2014 کے آئین میں جن مجوزہ ترامیم کے لیے ریفرنڈم منعقد کرایا جا رہا ہے، ان تبدیلیوں کے تحت صدر السیسی کے عہدے کی موجودہ مدت چار سال سے بڑھا کر چھ برس کر دینا اور انہیں تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔ اس صورت میں السیسی ممکنہ طور پر سن 2030 تک اقتدار میں رہ پائیں گے۔ علاوہ ازیں ریفرنڈم میں عوامی تائید حاصل ہونے کی صورت میں مصری صدر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تعیناتی کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا۔ سیاست میں فوج کے زیادہ کردار کے بارے میں بھی ایک تجویز ان آئینی ترامیم میں شامل ہے۔

صدر السیسی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ آئینی ترامیم دیرپا ملکی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ دوسری جانب ملکی اپوزیشن جماعتوں نے عوام سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان آئینی تبدیلیوں کے ذریعے صدر السیسی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور انہیں ججوں کی تعیناتی کا اختیار دینا عدلیہ کی آزادی کے منافی ہو گا۔ مصری فوج نے سن 2013 میں صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے ایک برس بعد السیسی نے سن 2014 میں صدارتی عہدہ سنبھال لیا تھا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>