↧
افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار
↧
برطانیہ کے نَو منتخب وزیر اعظم بورس جانسن کون ہیں؟
برطانیہ کے نئے منتخب ہونے والے وزیر اعظم بورس جانسن اس وقت برطانیہ کے با اثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 19 جون، 1964 کو نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کی پیدائش کی رجسٹریشن بیک وقت امریکہ اور برطانوی قونصل خانے میں ہوئی۔ یوں وہ بیک وقت امریکی اور برطانوی شہری ہیں۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد سٹینلے جانسن برطانوی شہری کی حیثیت سے کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ 1969 میں برطانیہ کے شہر ونفورڈ کے فارم ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ تاہم 1980 میں ان کے والدین میں طلاق ہو گئی اور وہ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ اپنی والدہ شارلٹ کے ساتھ لندن میں رہنے لگے۔
بعد میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہ 1984 میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے صدر منتخب ہو گئے۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی 1977 میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی صدر رہ چکی ہیں۔ بورس 1987 سے 1994 تک ایک صحافی کی حیثیت سے ’’ٹائمز‘‘ اور ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے سیاسی موضوعات پر بہت سے مضامین لکھے اور سابق کنزرویٹو وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر بھی ان مضامین کی وجہ سے ان کی مداح بن گئیں۔ تاہم مارگریٹ تھیچر کے جانشین جان میجر ان کے ناقدانہ مضامین پر غم و غصے کا اظہار کرتے رہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بورس کے ان تنقیدی مضامین کی وجہ سے کنزرویٹو پارٹی 1997 کے عام انتخابات میں شکست کھا گئی۔
سنہ 1987 میں ہی ان کی شادی موسٹن اووین سے ہوئی۔ تاہم یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور مئی 1993 میں ان میں طلاق ہو گئی۔ انہوں نے طلاق کے ایک ماہ بعد دوبارہ شادی کر لی۔ انہی دنوں بورس قدامت پسند جماعت کے نظریات سے ہٹ کر زیادہ لبرل رجحان کی طرف مائل ہو گئے اور وہ موسمیاتی تبدیلی اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اگرچہ ان کے مضامین کو عمومی طور پر سراہا گیا تاہم بعض مضامین میں افریقی اور ہم جنس پرست افراد کے بارے میں غیر مناسب جملے لکھنے کی بنا پر انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز 1993 میں کیا۔ 1994 میں قدامت پسند جماعت کی طرف سے یورپین پارلیمنٹ کا انتخاب اور پھر 1997 میں ویسٹ منسٹر سے ایم پی کا انتخاب ہارنے کے بعد وہ 2001 میں ایم پی منتخب ہو ہی گئے۔
وہ اگلی مدت کے لیے 2005 میں دوبارہ ایم پی منتخب ہوئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے انہیں شیڈو ہائر ایجوکیشن منسٹر مقرر کیا۔ تاہم چھ ماہ بعد ہی انہیں اس منصب سے اس وقت ہٹا دیا گیا جب شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک صحافی پیٹرونیلا ییٹ کے ساتھ معاشقے میں مبتلا ہوئے اور اسے چھپانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد تنازعات کا شکار رہے۔ اسلام کے بارے میں ان کے متنازعہ بیانات پر بھی انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اسلام میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے مسلمان تمام دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک اور مضمون میں برقع پہنے والی مسلمان خواتین کو لیٹر بکس اور بینک لوٹنے والوں سے تشبیہ دی، جس پر برطانیہ کی مسلمان تنظیموں نے شدید تنقید کی تھی۔
تاہم بورس نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور وہ 2008 میں لندن کے میئر منتخب ہو گئے۔ میئر منتخب ہونے کے بعد بورس نے عوامی ٹرانسپورٹ میں شراب نوشی پر پابندی لگائی۔ میئر کی حیثیت سے انہوں نے ٹرانسپورٹ سمیت مختف عوامی سیکٹرز میں اصلاحات کی کوششیں کیں۔ 2012 میں وہ ایک مرتبہ پھر لندن کے میئر منتخب ہو گئے۔ تاہم دو سال بعد انہوں نے دوبارہ ہاؤس آف کامنز کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ 2015 میں دوبارہ ایم پی منتخب ہو گئے۔ اس وقت یہ افواہیں زور پکڑنے لگیں کہ وہ ڈیوڈ کیمرون کو قدامت پسند جماعت کے لیڈر اور وزیر اعظم کے منصب سے ہٹا کر خود وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے اگلے برس 2016 میں برطانیہ کے یورپین یونین سے الگ ہونے کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
انہوں نے ڈیوڈ کیمرون کی بریگزٹ مخالف پالیسی پر شدید تنقید کی۔ بورس کا کہنا تھا کہ متحدہ یورپ کی صورت میں ’’رومن سلطنت‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب تھیریسا مے قدامت پسند جماعت کی لیڈر اور وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے بورس جانسن کو برطانیہ کا وزیر خارجہ مقرر کر دیا۔ بورس جانسن برطانیہ کے سیاسی حلقوں میں غیر روایتی اور متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ وہ اچھے وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا تعلق مسلمان خاندان سے ہے؟
برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے جس کا اظہار وہ خود انتخابات کے دوران ایک مباحثے میں کر چکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ترک اخبار نے بورس جانسن کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے جس میں نومنتخب وزیراعظم نے اپنا تعلق مسلمان خاندان سے بتایا تھا تاہم اسلام مخالف ہونے، بُرقع میں ملبوس خواتین کو لیٹر باکس اور بینک لوٹنے والے ڈاکوؤں سے تشبیہ دینے کی وجہ سے کم لوگوں نے بورس جانسن کی اس بات پر اعتبار کیا تھا۔ ترکی اخبار حریت کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہونے والے بورس جانسن کے پڑدادا ترکی النسل اور تاجر تھے اور ان کا نام علی کمال تھے جو ایک صحافی اور لبرل سیاست دان تھے۔ بورس جانسن کے پڑدادا علی کمال کے والدین بھی مسلمان تھے اور سلطنت عثمانیہ میں اہم مقام رکھتے تھے۔
بورس جانسن کے پڑدادا علی کمال ابتدائی تعلیم استنبول میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جنیوا اور پیرس میں مقیم رہے جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں ڈگری مکمل کی اور اسی دوران سوئس خاتون سے شادی کی جن سے دو بچے سلمیٰ اور عثمان علی ہوئے۔ عثمان علی کی پیدائش کے فوری بعد اہلیہ کے انتقال پر دونوں بچوں کی پرورش برطانیہ میں مقیم بچوں کی نانی مارگریٹ برون نے کی جب کہ علی کمال نے استنبول میں دوسری خاتون سے شادی کر لی تھی۔ ننھیال میں دونوں بچوں کے نام تبدیل کر دیئے گئے۔ غیر مسلم خاندان میں پرورش کے باعث عثمان علی بعد میں ولفریڈ عثمان جانسن میں تبدیل ہو گئے جن کی شادی ایرین وِلس نامی فرانسیسی خاتون سے ہوئی، ان کے تین بچے اسٹینلے جانسن (بورس کے والد)، پیٹر جانسن (چچا) اور ہِلری جانسن (پھوپھی) ہوئے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
پی ٹی آئی بنام صحافی برادری
بہتر تو یہ ہوتا کہ تم لوگ سر غفور کی بات مان لیتے جو انھوں نے بہت شائستہ لہجے میں کہی تھی کہ صحافی صرف چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کریں پھر دیکھیں پاکستان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔ تم میں سے اکثر مان گئے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو آزادی صحافت کا رونا روتے رہے۔ حامد میر کے پرانے پروگراموں سے کلپ نکال کر ماتم کرتے ہیں کہ نئے پاکستان کے بانی اور فاتحِ واشنگٹن ڈی سی نے تو خود کہا تھا حامد میں آزادی صحافت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہوں کیونکہ پی ٹی آئی تو بنی ہی میڈیا کی وجہ سے تھی اور جب دس بارہ سال تک قوم میری بات نہیں سنتی تھی تو صرف صحافی سنتے تھے۔
تو صحافیو تم لوگوں کو یہ زعم ہے کہ پی ٹی آئی تم نے بنوائی تو سنو، سب کے سب سنو، دائیں بازو والے صحافیو اور بائیں بازو والے صحافیو، اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے کاٹ کر بیرونی ہاتھ ڈھونڈتے صحافیو، لفافہ صحافیو، بریف کیس صحافیو، اپنی تنخواہوں میں چالیس فیصد کٹوتی کرانے والے صحافیو، چالیس فیصد کٹی ہوئی تنخواہ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے صحافیو، نئی موٹر سائیکل کی خواہش کرنے والے صحافیو، اپنا ذاتی جہاز رکھنے والے صحافیو، بےروزگار صحافیو، بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے صحافیو، ججوں کے ویڈیو پر ویڈیو بنانے والو، بڑے پیروں کے گھروں میں سالم بکرے کھانے والو، پریس کلبوں میں بیٹھ کر سرکاری چیک وصول کرنے والو.
صحافت کے نام پر پلاٹ مانگنے والو، وٹس ایپ سے ٹِکر چلانے والو، آدھی رات کو سیٹھ کے حکم پر ہیڈ لائن بنانے والو، انگریزی والو، سندھی والو، اردو والو، کراچی کے ساحل پر مرنے والے کچھوں کی کہانیاں کہنے والے صحافیو، ریکوڈک کے سونے میں مزدوروں کے شب و روز کی کہانیاں ڈھونڈنے والے صحافیو،
گوادر میں پانی کے ٹینکر کی قیمت کا حساب رکھنے والے صحافیو، ملک ریاض کی سلطنت کے نقشے کھوجتے صحافیو، پاکستان سے چین جانے والی دلہنوں کے دکھ سناتے صحافیو، خضدار میں مرنے والے صحافیو، تربت میں اجتماعی قبریں ڈھونڈتے صحافیو، منظور پشتین کے ساتھ فوٹو بنوانے والے صحافیو، قومی رازوں کو فرنٹ پیج پر چھاپ کر غیر ملکی این جی اوز سے ہیرو ٹائپ ایوارڈ لینے والے صحافیو.
صحافت کو مشن سمجھنے والے صحافیو، صحافت کو دھندہ ہے پر گندا ہے سمجھ کر کرنے والے صحافیو، یوٹیوپ پر اپنے چینل بنا کر سیٹھوں سے مقابلہ کرنے کے خواب دیکھنے والے صحافیو، ٹوئٹر پر صبح شام علاقہ گیری کرتے صحافیو، صحافیوں نے کوڑے کھائے تھے کی گردان کرنے والے صحافیو، منیر نیازی کے شعروں سے قوم کے مستقبل کی فال نکالنے والے صحافیو، ناول گاڈ فادر کو تاریخی دستاویز سمجھنے والے صحافیو، جونیئر، سینیئر اور تجزیہ نگاری کی نرسری میں پل رہے صحافیو، فحاشی کی کمائی کھا کر فحاشی کے خلاف جہاد کرنے والے صحافیو، سر باجوہ کے لیے ایکسٹینشن کا مطالبہ کرتے صحافیو، ایک حدیث سے شروع کر کے غالب کے شعر پر کالم ختم کرنے والے صحافیو.
اوئے سب ایڈیٹرو، اخبار کا پیج بنانے والو، ٹکر ٹائپ کرنے والو، ٹیلی ویژن کی ڈی ایس این جی وین پر جنریٹر چلانے والو، قمیض کے اندر سے ہاتھ ڈال کر مائیک لگانے والو اور ان سب کے مالکو، شکیلو، لاکھانیو، ہارونو، حاجیو اور قاضیو سب سن لو۔
تم صحیح کہتے ہو۔
ہمارا (بلکہ اب امریکہ کا بھی) لیڈر صحیح کہتا ہے کہ پی ٹی آئی میڈیا نے بنائی تھی۔ اب ہم آپ کو ایک نئی پی ٹی آئی کیوں بنانے دیں گے اور اگر سچ بولنے کا اتنا ہی شوق ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ کیا واقعی اس ملک کو ایک اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے؟
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
یورپ بھر میں شدید گرمی کی لہر فرانس میں نیا ریکارڈ قائم
یورپی ممالک میں شدید گرمی کی لہر کے دوران فرانس کے شہر بورڈوا میں درجہ حرارت کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانسیسی محکمہ موسمیات نے جنوب مغربی شہر میں موسم کی شدت 41.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کی، جسے اب تک کا بلند ترین درجہ حرارت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2003ء میں 40.7 ڈگری سینٹی گریڈ بلند ترین درجہ ریکارڈ ہوا تھا۔ موسم کی پیش گوئی کرنے والے اداروں کے مطابق رواں ہفتے بلجیم، جرمنی اور نیدرلینڈ سمیت یورپ بھر میں ریکارڈ توڑ گرمی پڑنے کا امکان ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم ڈبلیو ایم او کی ترجمان کلیئر نلِس کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہریں واضح طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں، جو اب پہلے سے زیادہ آتی ہیں اور پہلے سے زیادہ شدید ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں۔ فرانس کے زیادہ تر حصوں میں اورنج الرٹ جاری کیا گیا ہے جو کہ انتباہ کا دوسرا بلند ترین درجہ ہے۔ فرانس کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے پیرس میں درجہ حرارت نئی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔
↧
↧
رشوت کے الزامات، مائیکروسافٹ ڈھائی کروڑ ڈالر ادا کرنے پر رضامند
مائیکروسافٹ کورپوریشن نے ہنگری سمیت دیگر ممالک میں سرکاری افسران کو رشوت دینے کے مقدمات میں 2 کروڑ 53 لاکھ ڈالر ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ امریکا کے محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ مائیکروسافٹ 87 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا جو 3 سالہ معاہدے کے تحت ہو گا اور جس میں مائیکروسافٹ ملازمین کے غیر قانونی اقدام کی ذمہ داری کا اعتراف کرے گا۔ مائیکروسافٹ نے ہنگری، سعودی عرب، تھائی لینڈ اور ترکی میں اپنی سرگرمیوں پر اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر ایک کروڑ 66 لاکھ ڈالر امریکی سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی جانب سے لگائے گئے سول چارجز پر ایک کروڑ ڈالر ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
ملازمین کو کی گئی ای میل میں مائیکروسافٹ کے صدر بریڈ سمتھ کا کہنا تھا کہ ملازمین کا غیر قانونی عمل ناقابل برداشت ہے، ہنگری میں ملوث ملازمین اب کمپنی کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'کاروباری سرگرمیوں میں ناقابل قبول عمل پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں'۔ واضح رہے کہ اس سے قبل عدالت میں استغاثہ کا کہنا تھا کہ 'ہنگری کی سرکاری ایجنسیوں کو سافٹ ویئر کا لائسنس فروخت کرنے کی اسکیم سے مائیکروسافٹ کا 2013 سے 2015 کے درمیان ایک کروڑ 46 لاکھ ڈالر کا فائدہ ہوا'۔ مائیکروسافٹ ہنگری کے ایگزیکٹوز اور ملازمین نے مائیکروسافٹ سے کہا کہ ان ٹرانزیکشنز کے لیے ڈسکاؤنٹ درکار ہے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ 'ڈسکاؤنٹ سے ہونے والی بچت صارف کو جانی چاہیے تھی تاہم یہ درمیان میں ڈیلرز نے حاصل کی اور سرکاری حکام کو اس سے رشوت بھی دی۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
پاکستان میں ججوں کیلئے ریسرچ سینٹر کا قیام
کچھ عرصہ پہلے تک عدالتوں پر مقدمات کا زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے فوری انصاف کا حصول خاصا مشکل دکھائی دیتا تھا مگر موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منصب سنبھالتے ہی انصاف کی فوری اور یقینی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے ایسے خاطر خواہ اقدامات کئے جو حقیقتاً وقت کی ناگزیر ضرورت تھے اور جو اب ثمر آور ثابت ہو رہے ہیں۔ جھوٹی شہادتوں اور جھوٹے گواہان کیخلاف سخت ایکشن، ججوں اور عدالتوں کی استعدادِ کار میں اضافہ، محکمہ پولیس کی بہتری کیلئے اقدامات اور ماڈل کورٹس کے قیام کے بعد اب ججوں کیلئے ریسرچ سینٹر کا قیام اُن کا ایسا اقدام ہے جو نہ صرف لائقِ تحسین ہے بلکہ اِس ریسرچ سینٹر کے قیام کے بعد کمپیوٹر کے صرف ایک کلک پر تمام کیس لاز اور ممکنہ فیصلہ بتا دے گا جس سے جج صاحبان کا قیمتی وقت بھی بچے گا اور سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہو سکے گی۔
اِس سے پہلے بھی عدالتوں میں ریفرنس سیکشن موجود تھے لیکن وہاں جا کر کسی مخصوص کیس کے حوالے سے ریفرنس تلاش کرنے کیلئے کافی وقت درکار ہوتا تھا، اِس ریسرچ سینٹر کے قیام سے وہی وقت مختلف کیسوں کے بروقت فیصلہ کرنے کیلئے استعمال میں لایا جا سکے گا۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق قوانین پر دوسری 3 روزہ ورکشاپ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 معاشرے کے ہر فرد کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ چیف جسٹس کی کوششوں سے قائم کی گئی کریمنل ماڈل کورٹس میں گزشتہ 96 دنوں میں ملک بھر میں 10 ہزار 600 قتل اور منشیات کے مقدمات مکمل کئے گئے۔ اسی طرح جھوٹے گواہوں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ انصاف کے عمل کو مزید تیز اور سہل بنانے کیلئے محکمہ پولیس میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو اِس طرف بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
تخت طاؤس : سونے سے مرصع اس تخت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے بنوایا
کوہ نور ہیرا کی کہانی سے تو بہت سے لوگ واقف ہوں گے لیکن تختِ طائوس کی داستان سے لوگوں کو اتنی شناسائی نہیں ۔ سونے سے مرصع اس تخت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے بنوایا تھا ۔ یہ دہلی کے لال قلعے کے دیوان خاص میں رکھا گیا تھا۔ اس تخت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بنانے میں تاج محل سے بھی زیادہ رقم خرچ ہوئی تھی ۔ اصلی تخت طائوس مغل بادشاہوں کے پاس 1739 تک قائم رہا۔ اس کے بعد اسے ایران کا بادشاہ نادرشاہ درانی لے گیا۔ اس تخت کے علاوہ وہ کوہ نور ہیرا بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ تخت طائوس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اسے نادر شاہ درانی اپنے ساتھ لے گیا تو پھر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ بعد میں اس کی جگہ ایک اور تخت طائوس دہلی کے لال قلعے کے اندر رکھ دیا گیا جسے اس کا متبادل کہا گیا ۔ یہ تخت طائوس 1857 کی جنگ آزادی تک موجود رہا.
شروع شروع میں اسے تخت طائوس کا نام نہیں دیا گیا اور اسے تخت مرصع کہا جاتا تھا بعد میں مورخوں نے اسے تخت طائوس کا نام دیا جب اس تخت پر موروں کے مجسمے نصب کئے گئے ۔ تخت طائوس 22 مارچ 1635 کو مکمل کیا گیا جب شاہ جہاں کو اقتدار سنبھالے سات برس ہو چکے تھے ۔ اس تاریخ کا انتخاب نجومیوں نے کیا کیونکہ یہ تاریخ بہت اہم تھی ۔ ایک طرف تو عید الفطر بھی اسی دن تھی اور دوسرا یہ جشن نوروز بھی اسی دن منایا جاتا تھا ۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں اور اس کے مصاحب کشمیر سے واپس آرہے تھے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ نوروز کا تیسرا دن بادشاہ سلامت کے لئے سعد ہو گا اگر وہ اس دن دہلی میں داخل ہوں اور تخت طائوس پر رونق افروز ہوں ۔
شاہ جہاں کے پسندیدہ شاعر محمد قدسی سے کہا گیا کہ وہ بیس اشعار لکھے جنہیں تخت پر کندہ کیا جائے گا ۔ قدسی نے اپنے اشعار میں کاریگروں کے ہنر کی بے حد تعریف کی اس کے علاوہ اس نے سونے اور جواہرات کی توصیف میں بھی اشعار کہے جو اس تخت پر کندہ کئے گئے ۔ شاعر ابو طالب کریم نے63 اشعار لکھے اور اسے ہر شعر کے عوض سونے کے چھ ٹکڑے انعام میں دیئے گئے ۔ شاہ جہاں کی وفات کے بعد اس کے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے تخت طائوس سنبھالا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد اس کا بیٹے بہادر شاہ تخت پر بیٹھا۔ بہادر شاہ صرف پانچ سال تک اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن رہا۔ اس کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا۔ سیاسی عدم استحکام، فوجی شکستوں اور درباری سازشوں نے مغلیہ سلطنت کو کمزور کر دیا۔ 1720ء میں محمد شاہ رنگیلا اقتدار میں آیا اور اس کا عہد 28 سال تک قائم رہا۔
اس دور میں آرٹ اور ثقافت کو فروغ ملا لیکن محمد شاہ رنگیلا بھی مغلوں اور مرہٹوں کے درمیان جنگوں کو نہیں روک سکا۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس کے نتیجے میں جنگِ کرنال ہوئی۔ یہ 13 فروری 1739ء کا واقعہ ہے۔ محمد شاہ کو شکست ہوئی۔ نادر شاہ دہلی میں داخل ہوا تو اس نے ہزاروں افراد کو قتل کر دیا۔ واپسی پر نادرشاہ کوہ نورسمیت تختِ طاؤس بھی ساتھ لے گیا۔ کچھ مؤرخوں کے مطابق نادر شاہ نے محمد شاہ سے تاوان لیا تھا۔ جب نادرشاہ کو 19 جون 1747ء میں اس کے اپنے افسروں نے قتل کر دیا تو تختِ طاؤس غائب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس تختِ طاؤس میں جڑی قیمتی اشیا کو حاصل کرنے کے لیے اسے توڑ دیا گیا تھا۔
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق تختِ طاؤس کو سلطنتِ عثمانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن اس حوالے سے کوئی شواہد نہ مل سکے۔ ایران کے بادشاہ فتح علی شاہ نے ’’تختِ شمس‘‘ تیار کروایا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اصل تختِ طاؤس کے کچھ حصے ’’تختِ شمس‘‘ کی تعمیر میں استعمال کئے گئے لیکن اس کی بھی باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ بہرحال تختِ طاؤس کہاں گیا، اس کا حتمی طور پر کچھ پتہ نہ چل سکا۔ کوہِ نور کے بارے میں تو سب کو علم ہے کہ ملکہ برطانیہ نے حاصل کر لیا تھا۔ لیکن تختِ طاؤس کی کہانی کا انجام کیا ہوا؟ یہ سوال آج بھی موجود ہے۔
طیب رضا عابدی
↧
ٹرمپ انتخابات سے قبل افغانستان سے فوجی انخلا کے خواہاں ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کو 2020 کے انتخابات سے قبل افغانستان سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی کے احکامات دے دیے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مائیک پومپیو نے اکنامک کلب آف واشنگٹن میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے سوال کے جواب میں بتایا کہ 'مجھے یہ احکامات صدر سے خود ملے ہے، وہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور فوجی انخلا کر رہے ہیں'۔ ان کی یہ رائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد سامنے آئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے ماحول پیدا کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'واشنگٹن کا تمام افغانیوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ملک واپس لیں'۔ انہوں نے کہا کہ فوجی انخلا کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ ان کے بطور امریکی صدر کارکردگی اس سے جڑی ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ فوجی انخلا پر تحفظات صرف امریکا کو ہی نہیں بلکہ یورپ اور دنیا بھر کے کئی ممالک کی افغانستان میں افواج موجود ہیں اور ہمیں امید ہے کہ خطے میں فورسز کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی ضرورت میں کمی کی وجہ کارکردگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'حقیقی کارکردگی، میں وقت نہیں گنواتا، میں دور اندیش ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم صرف طالبان سے مذاکرات نہیں کر رہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم تمام افغانیوں سے بات کر رہے ہیں، صدر اشرف غنی، ان سے میری بات ہوئی، میں اپوزیشن سے بھی بات کر رہا ہوں اور ہم طالبان حکام سے بھی بات کر رہے ہیں'۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے افغانستان کے لیے چیف مذاکرات کار، زلمے خلیل زاد پورے افغانستان میں کام کر رہے ہیں، انہوں نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی ہے جن میں این جی اوز اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ بھی شامل ہیں'۔ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ملک واپس لیں اور ہم چاہتے کہ جو ہمارے لیے اربوں ڈالر کے اخراجات اور جو امریکا کے لیے لڑنے والے آپ کے بچوں کے بڑے خدشات کا باعث بنتا ہے اس کا خاتمہ کریں'۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
Eruptions from Mount Etna light up night sky
Eruptions of Etna follow a variety of patterns. Most occur at the summit, where there are currently (as of 2019) five distinct craters — the Northeast Crater, the Voragine, the Bocca Nuova, and the Southeast Crater Complex (2). Other eruptions occur on the flanks, which have more than 300 vents ranging in size from small holes in the ground to large craters hundreds of metres across. Summit eruptions can be highly explosive and spectacular but rarely threaten the inhabited areas around the volcano. In contrast, flank eruptions can occur down to a few hundred metres altitude, close to or even well within the inhabited areas. Numerous villages and small towns lie around or on cones of past flank eruptions. Since the year AD 1600, at least 60 flank eruptions and countless summit eruptions have occurred; nearly half of these have happened since the start of the 20th century. Since 2000, Etna has had four flank eruptions — in 2001, 2002–2003, 2004–2005, and 2008–2009. Summit eruptions occurred in 2006, 2007–2008, January–April 2012, in July–October 2012 and again in December 2018.
In 396 BC, an eruption of Etna reportedly thwarted the Carthaginians in their attempt to advance on Syracuse during the Second Sicilian War. A particularly violent explosive (Plinian) summit eruption occurred in 122 BC, and caused heavy tephra falls to the southeast, including the town of Catania, where many roofs collapsed. To help with reconstruction after the devastating effects of the eruption, the Roman government exempted the population of Catania from paying taxes for ten years. The Roman poet Virgil gave what was probably a first-hand description of an eruption in the Aeneid. During the first 1500 years AD, many eruptions went unrecorded (or records have been lost); among the more significant are: (1) an eruption in about 1030 AD near Monte Ilice on the lower southeast flank, which produced a lava flow that travelled about 10 km, reaching the sea north of Acireale; the villages of Santa Tecla and Stazzo are built on the broad delta built by this lava flow into the sea; (2) an eruption in about 1160 (or 1224), from a fissure at only 350–450 m (1,148–1,476 ft) elevation on the south-southeast flank near the village of Mascalucia, whose lava flow reached the sea just to the north of Catania, in the area now occupied by the portion of the city named Ognina.
Courtesy : Wikipedia
↧
گزشتہ سال بارہ ہزار بچے جنگوں میں ہلاک و زخمی ہوئے، اقوامِ متحدہ
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے متاثرہ مختلف ملکوں میں گزشتہ سال 12 ہزار سے زائد بچے ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں افغانستان میں 3062 بچے ہلاک ہوئے۔ شام میں فضائی حملوں اور بم دھماکوں میں 1854 بچے جان سے گئے جب کہ یمن پر ہونے والے حملوں میں 1689 بچے ہلاک اور زخمی ہوئے۔ خبر رساں ادارے 'رائٹرز'کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ شدت پسند گروہوں کی جانب سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ گزشتہ سال جنگجوؤں کے ہاتھوں بچوں کے استحصال، بچوں پر جنسی تشدد اور ان کے اغوا کے علاوہ اسکولوں اور اسپتالوں پر ہونے والے حملوں جیسی بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے 24000 واقعات کی تصدیق ہوئی۔ انتونیو گوتیرس نے بتایا کہ مختلف حکومتوں اور بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں 2017 کے مقابلے میں گزشتہ برس خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ گوتیرس نے کہا کہ وہ ان ممالک پر پابندی لگنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں جہاں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے بڑھتے واقعات پر فکرمند ہیں۔ خاص طور پر بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بچوں کی بڑھتی تعداد ان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جب سے سکیورٹی کونسل نے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی مانیٹرنگ شروع کی ہے بچوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
فلسطین۔اسرائیل تنازع میں بچوں کی ہلاکتیں
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2018 کے دوران بچوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں فلسطین میں ریکارڈ کی گئیں جہاں 59 بچوں کے ہلاک اور 2756 بچوں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی۔
صومالیہ اور نائیجیریا
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ افریقی ملک صومالیہ میں جنگجوؤں نے 2300 بچے بھرتی کیے جن میں آٹھ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے۔ صومالیہ کی ایک شدت پسند تنظیم الشباب نے 1865 بچوں کو اپنی تنظیم میں شامل کیا۔ نائیجیریا میں شدت پسند تنظیموں نے 1947 بچے بھرتی کیے جن میں سے چند بچوں سے خودکش حملے بھی کرائے گئے۔ گزشتہ برس صومالیہ میں 331 بچوں اور کانگو میں 277 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ صومالیہ میں 1609 بچوں کو اغوا بھی کیا گیا۔
شام
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال شام کے اسکولوں اور اسپتالوں پر 225 حملوں کی تصدیق ہوئی جو 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
افغانستان
رپورٹ کے مطابق افغانستان کے اسکولوں اور اسپتالوں کو 254 بار مختلف حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے مطابق گزشتہ سال دسمبر تک اسرائیل میں 203 بچے مختلف الزامات میں قید تھے۔ جن میں 114 قانونی حق ملنے کے انتظار میں ہیں اور 87 بچے اپنی سزائیں مکمل کر رہے ہیں۔ گوتیرس کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کو 127 فلسطینی بچوں نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ ان کی گرفتاری کے دوران ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا تھا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
اور جب دھرتی بیمار ہو جائے؟
مریض اور بچے کو یکساں توجہ، نگہداشت، زود ہضم غذا اور نرم گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی علامتی سرزنش کے ساتھ بچپنا سمجھ کے درگزر کیا جاتا ہے اور سنگین بیماری میں مبتلا شخص کا بھی مسلسل حوصلہ بڑھایا جاتا ہے، دلجوئی جاری رہتی ہے اور اس کی توجہ مضرِ صحت خواہشات سے سلیقے کے ساتھ ہٹائی جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر جاں بلب مریض کے منہ پر یہی کہتا ہے’ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ بس زرا سی تکلیف ہے۔ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ ہم آپ کو بھلا چنگا کیے بغیر تھوڑی جانے دیں گے۔مگر وعدہ کریں کہ صحت یاب ہونے کے بعد بد پرہیزی نہیں کریں گے اور ایک برس تک ہر مہینے چیک اپ کرانا نہیں بھولیں گے۔‘
اہلِ خانہ اور عیادت کے لیے آنے والے ذہینوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مریض کس سنگینی سے گزر رہا ہے تب بھی وہ دم ، درود ، دلاسے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ افسردگی، ڈیپریشن اور ناامیدی سے نکالنے کے لیے دلچسپ قصے اور لطائف سناتے ہیں۔ مریض کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہارٹ اٹیک؟ ارے اس سے کیا ڈرنا۔ میرے ماموں کو تین ہارٹ اٹیک ہو چکے ہیں۔ دو بائی پاس کروا کے بیٹھے ہیں پھر بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے دس برس سے بھلے چنگے خوش و خرم ہیں۔ آپ کو تو ابھی پہلا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ آج کل تو لگ بھگ سبھی کو دل کی چھوٹی موٹی تکلیف ہو جاتی ہے اس سے کیا ڈرنا۔ ابھی تو ماشااللہ جینے کو عمر پڑی ہے۔
کینسر؟ کینسر تو بھائی آج کل بچوں کا کھیل ہو گیا ہے۔ چچا جان کو نہیں دیکھتے۔ان کی تشخیص تو بالکل آخری سٹیج پر ہوئی تھی پھر بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ کیمیو تھراپی ہوئی، ایک معمولی سا آپریشن ہوا اور دیکھیے پچھلے پندرہ برس سے ٹھیک ٹھاک گھوم پھر رہے ہیں اور پوتے نواسوں کو بھی کھلا رہے ہیں۔ تو جانِ جگر بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ دن گئے جب کینسر کا نام سنتے ہی غش آجاتا تھا ۔اب تو ایسی ایسی دوائیں ایجاد ہو گئی ہیں کہ پوچھو مت۔ تمہارا تو ڈاکٹر بھی بہت اچھا ہے۔ دور دور سے مریض آتے ہیں۔ سب کو یہی کہتا ہے آدھا علاج میں کروں گا آدھا تم خود کرو گے۔ یعنی جینے کی تمنا کبھی نہیں چھوڑنا۔ اور تم نے دیکھا کہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں کتنی شفا ہے۔ لو یہ جوس پئیو اور دل سے تمام ایسے ویسے خیالات نکال دو۔ زندگی بہت حسین ہے۔ ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ جو لوگ اپنے مریض کی آخری سانس تک اتنی دل جوئی کرتے ہیں۔ اپنے خونی رشتوں کے ہر اچھے وصف کو ابھارتے اور عیبوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جو کسی کی بے بسی نہیں دیکھ سکتے۔ جو کسی کمزور کو پٹتے دیکھ کر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کا قصور کیا ہے۔ جو کسی بھوکے کو بھوکا دیکھتے ہیں تو بھلے مدد نہ کر سکیں مگر اندر ہی اندر ضرور احساسِ جرم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جو ایک ایکڑ کیا اپنی ایک فٹ زمین کے لیے لڑ مرتے ہیں وہی لوگ کتنی آسانی سے جس ملک میں رہتے ہیں اسی کے بارے میں کہہ دیتے ہیں اس کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔ مجھے تو یہ پنپتا نظر نہیں آ رہا۔
دراصل یہ ملک بنا ہی غلط تھا۔ جیسے پہلے ایک بازو ٹوٹ گیا اب دوسرا بازو ، ہاتھ ، پاؤں بھی ٹوٹ جائیں گے۔۔۔شرم آتی ہے ایسے ملک کا شہری کہلاتے ہوئے۔بڑی غلطی کی ہمارے بزرگوں نے، جانے کیوں یہاں آ گئے۔ کیا ضروری تھا کہ میں بھی یہیں پیدا ہوتا۔ اس سے تو اچھا تھا کہیں کانگو وانگو میں جنم لے لیتا۔ ویسے اس ملک نے ہمیں کیا دیا۔ جو تن پر تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس کے لئے دعا بھی مانگیں تو کیا مانگیں۔ شکر کریں ابھی تک بد دعا منہ سے نہیں نکلی۔ یہ ملک جس بیماری میں مبتلا ہے وہ لاعلاج ہے۔ کون سا ہمسایہ ہے جو اس سے تنگ نہیں۔ ہر ایک کے پھٹے میں ٹانگ اڑانا اس کی عادت ہے۔ گھر میں نہیں دانے اماں چلیں بھنانے۔
اجی ملک کیا ہے اپنے لیے عذاب اور دنیا کے لیے تماشا ہے۔ مجھے تو بالکل حیرت نہ ہو گی اگر کسی دن ساری دنیا مل کے اس پر ٹوٹ پڑے اور تیا پانچا کر دے۔ اس ملک نے بھی مہذب دنیا میں اپنے رہنے کے لیے گنجائش کہاں چھوڑی ہے۔ کیا کبھی ملک کو گالی دیتے دیتے آپ کے ذہن میں آیا کہ میرے بڑے بھائی نے اپنی ماں کو دو تھپڑ مار دیے ۔ قصور میرے بھائی کا نہیں اس گھر کا ہے جس میں یہ موزی رہتا ہے اس لیے باقی بہن بھائی مل کے یہ گھر ہی بیچ ڈالیں تو پاپ کٹے۔ فلانے ہسپتال میں سات نوزائیدہ بچے آکیسجن نہ ملنے کے سبب جان سے گئے۔ دراصل یہ اسپتال ہی منحوس ہے لہٰذا اس پر بلڈوزر چلنا چاہیے۔ فلانے سکول میں ہر سال ستر فیصد بچے فیل ہو جاتے ہیں آؤ اس سکول کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ ڈھماکی عبادت گاہ کے لاؤڈ سپیکرز سے مسلسل میرے عقیدے کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ خرابی دراصل عبادت گاہ میں ہے۔ چلو آگ لگا دیتے ہیں۔ یہ شہر مظلوموں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ کوئی باہر سے آ کے اس شہر پر ہی قبضہ کر لے۔
اگر آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی بھی ملک ایک مخصوص رقبے کی چار دیواری سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جو بھی اچھائی یا برائی ہے اس کے ذمہ دار چار دیواری کے اندر رہنے والے ہوتے ہیں۔ حکومت، اس کے اداروں اور اپنی بے اعتدالیوں کے کڑے احتساب کی کوشش کے بجائے چار دیواری کو گالی دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جب ماں بیمار ہو جائے تو آپ اسے بچانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں اور جب دھرتی بیمار ہوجائے تب؟ ملک نام کی چادر کیا ہوتی ہے؟ پوچھنا ہو تو سفاک آسمان تلے شامیوں سے پوچھیے، افغانوں سے پوچھیے، فلسطینیوں سے پوچھیے یا روہنگیوں سے پوچھیے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ اردو نیوز
↧
افغان امن عمل میں درپیش چیلنجز
وزیراعظم کے حالیہ دورۂ امریکا میں سب سے زیادہ توجہ افغان امن عمل پر تھی۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ صدارتی انتخابات سے پہلے اس مسئلے کو حل کر لیں۔ شاید اسی وجہ سے یہ دورہ کامیاب رہا، کیوںکہ امریکا کو اس سلسلے میں پاکستان کی مدد درکار ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ جس میں چین، روس، امریکا اور پاکستان شامل ہیں۔ اس سے پہلے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی طالبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ شاید پہلی بار امریکا افغان مسئلے کے حل کے لیے اتنا سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں کئی قسم کی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں، جو مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔
اب تک طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ امریکا کے ساتھ ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ طالبان کی براہ راست بات چیت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان امریکا کو ہی اصل طاقت سمجھتے ہیں، جبکہ افغان حکومت ان کی نظر میں کٹھ پتلی حکومت ہے۔ سب سے پہلی کوشش تو یہ ہو گی کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کیا جائے، جو کہ امریکا کی بھی خواہش ہے۔ شاید دبائو ڈال کر طالبان کو مذاکرات کےلیے آمادہ کر لیا جائے گا۔ لیکن جب اس کے بعد اگر حکومت سازی کا مرحلہ آتا ہے تو کیا طالبان موجودہ افغان سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟ آئین سازی کا مرحلہ بھی بہت پیچیدہ ہو گا۔ طالبان موجودہ جمہوری سسٹم کو پسند نہیں کرتے تو وہ اس سسٹم کا حصہ کیسے بنیں گے؟ دوسری صورت میں اگر طالبان خلافت کا نظام لانا چاہیں تو امریکا اس کو کیسے قبول کرے گا؟
طالبان کا ایک اہم ترین مطالبہ غیرملکی افواج کا انخلا ہے۔ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی بھی یہی خواہش ہے، لیکن یہ مطالبہ کسی باقاعدہ ڈیل تک ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ مطالبہ پورا ہو بھی جائے تو افغانستان کی سیکیورٹی کا ذمے دار کون ہو گا، جبکہ افغانستان کی کوئی باقاعدہ فوج اور ایئرفورس بھی نہیں ہے۔ اس وقت مذاکرات صرف طالبان کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ داعش اور دیگر جنگجو گروپ جو افغانستان میں سرگرم ہیں، وہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔ جنگ بندی صرف طالبان کے ساتھ ہی ممکن ہو گی، دیگر جنگجو تنظیمیں ہتھیار اٹھائے رکھیں گی۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، کیوںکہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ایک خلا پیدا ہو جائے گا اور یہ خلا ایک ایسے موقع پر پیدا ہو رہا ہے جب داعش مشرق وسطیٰ میں شکست کے بعد افغانستان میں قدم جمارہی ہے۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی خطے کے تمام ممالک کےلیے بہت بڑاخطرہ ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں خطے کے حالات بہت تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ امریکا کی ایران کے ساتھ کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے۔ ایران کا امریکی ڈرون گرانا اور پھر برطانوی بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے لینا حالات کو مزید سنگین کر دیتا ہے۔ دوسری جانب امریکا کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور روس کے ساتھ بگڑتے تعلقات سونے پر سہاگہ ہیں۔ ان حالات میں امریکا کسی نہ کسی صورت میں افغانستان میں موجود رہے گا۔ امریکا کی موجودگی نہ طالبان کو اور نہ ہی علاقائی طاقتوں کو منظور ہو گی۔ ایسے حالات میں پراکسی وار کو تقویت ملے گی اور حالات ویسے ہی رہیں گے یا پھر ایک نئے بحران کا راستہ ہموار ہو گا۔
افغان امن عمل میں خطے کے دو اہم ممالک ایران اور انڈیا غائب ہیں۔ انڈیا میں اس کو اپنی پالیسی کی ناکامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ انڈیا کے ایک ممتاز کالم نگار اور سفارت کار بھدرا کمار نے اس کو انڈیا کی شکست اور پاکستان کی کامیابی قرار دیا ہے۔ انڈیا اس سے پہلے دو تین دفعہ اس پیس پراسس کو سبوتاژ کر چکا ہے۔ انڈیا کے افغانستان میں معاشی اور اسٹرٹیجک نوعیت کے مفادات ہیں۔ ان حالات میں انڈیا کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ہم کو سفارتی محاذ پر بہت ایکٹیو رہنا پڑے گا۔ اس وقت جہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ فوری طور پر جنگ بندی ہو جائے، جبکہ طالبان کسی حتمی معاہدے تک جنگ بندی پر راضی نہیں ہوں گے۔ اس پیس پراسس کے دوران اگر طالبان کوئی بڑا حملہ کر دیتے ہیں یا امریکی افواج کسی اہم طالبان لیڈر کو نشانہ بناتی ہیں تو یہ افغان امن عمل کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پیس پراسس کے دوران دونوں جانب سے جنگ بندی ہو۔
فراز شفیع خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
↧
امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پھر پیشکش
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر مداخلت کے لیے تیار ہیں تاہم اس کا فیصلہ دونوں ممالک کے سربراہان نے کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو ہفتے قبل میری وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ مصالحت کار یا ثالث بننا چاہیں گے تو میں نے پوچھا کہاں، جس پر انہوں نے کہا کہ کشمیر، کیونکہ یہ مسئلہ کئی برسوں سے ہے'۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک رپورٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے جب بھارت کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد کیے جانے سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواباً پوچھا کہ 'کیا انہوں نے پیشکش قبول کی ہے یا نہیں؟' جب انہیں بتایا گیا کہ نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ 'یہ وزیراعظم نریندر مودی پر منحصر ہے'۔ امریکی صدر نے کہا کہ 'میں نے عمران خان اور نریندر مودی سے ملاقات کی ہے، میرے خیال میں دونوں بہترین لوگ ہیں اور ایک ساتھ اچھے تعلقات قائم کر سکتے ہیں'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'تاہم اگر وہ چاہتے ہیں کہ کوئی مداخلت کرے، مدد کرے تو میں تیار ہوں، میں نے اس معاملے پر پاکستان اور بھارت سے بات کی ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے سے جاری ہے'۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
کشمیر پر نحوست کے بادل
پچھلے کچھ دنوں سے مقبوضہ وادی میں بے چینی کی فضا پائی جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر حالات بگڑ رہے ہیں۔
کارگل کی جنگ کو 20 سال گزرنے کے بعد بھی کئی سوال جواب طلب ہیں لیکن ان سوالوں کے جواب تاریخ میں ہمیشہ مبہم رہے ہیں سو رہیں گے۔ کارگل کی جنگ کے بارے میں جو ’سازشی تھیوری‘ ہم نے سنی اس کے مطابق یہ ایک کنٹرولڈ جنگ تھی جس کی ثالثی تب بھی امریکہ نے کرنا تھی اور اس کے نتیجے میں لیہ، لداخ اور جموں انڈیا کے حصے میں آنے تھے جبکہ باقی ماندہ کشمیر پاکستان کے ساتھ ایک خود مختار یا نیم خود مختار ریاست کی طرح آزاد رہنا تھا۔
کہنے والوں نے کہا کہ نواز شریف کی وجہ سے نسخہ کچا رہ گیا جس کی سزا نواز شریف نے تب بھی بھگتی اور اب بھی بھگت رہے ہیں۔ چونکہ یہ ایک ’سازشی تھیوری‘ تھی اس لیے اس کے راوی اور ذرائع سب نا معلوم اور غیر معتبر ٹھہرے۔ کشمیر کا مسئلہ خطے میں ایک ناسور کی طرح موجود رہا۔ لگتا تو یوں ہے کہ اس معاملے ہی کے باعث پاکستان اور انڈیا ترقی کے راستے میں بہت پیچھے رہ گئے اور سیاست کے اس اندھے موڑ ہی نے دونوں ممالک کو بار بار ایک دوسرے پر فوج کشی کرنے اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند تحریکوں کی سر پرستی پر مجبور کیے رکھا۔
دونوں ملکوں کے عوام ایک جیسے مسائل سے نبردآزما ہیں لیکن سیاستدان انھیں کشمیر کی گولی کھلا کے ہر بار سلا دیتے ہیں۔ خیر وادی میں ہونے والی پر اسرار نقل و حرکت کے بارے میں کم از کم مجھے کوئی خوش فہمی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے بعد سے صورت حال خاصی شکل بدل چکی ہے اگر امریکہ کشمیر پر ثالثی کو تیار ہے اور اس کے بدلے پاکستان سے کسی طرح کا تعاون چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے۔ مسئلہ کشمیر تو حل نہیں ہو گا البتہ لائن آف کنٹرول کے آر پار حالات بہت بری شکل اختیار کر جائیں گے کیونکہ اگر یہ معاملہ کسی بھی صورت حل ہو گیا تو پاکستان، انڈیا کے گلے پڑا ایک بہت بڑا طوق اتر جائے گا۔
یہ طوق جو دونوں ملکوں کے عوام کے گلے میں پڑا ہے اور ان کے منہ کے نوالے چھین کر جنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے۔ ہاں وادی میں جتنا ہنگامہ ہو گا ثالث کے لیے دونوں ملکوں کو ایران کے خلاف خریدنے کے امکانات روشن سے روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ جن لوگوں کو اندرا گاندھی کے زمانے میں کیا جانے والا ’گولڈن ٹمپل کا محاصرہ‘ یاد ہے شاید وہ آج کے حالات کسی حد تک سمجھ رہے ہوں گے۔ خالصتان کی تحریک کسی بھی طرح کشمیر میں اٹھنے والی تحریکوں سے کم نہ تھی مگر اسے جس بے رحمی سے کچلا گیا اور جس طرح اصلاحات کے نام پر پنجابی سکھوں کی کمر توڑی گئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
انڈیا کی عسکری اور سیاسی تاریخ کے لیے چاہے وہ ایک روشن مثال ہو گی لیکن اس انسانی المیے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ امرتسر میں اسی طرح کا قتل عام عین اسی موسم میں جلیانوالہ باغ میں کولونیل فوج نے کیا تو آج تک اس پر واویلا کیا جاتا ہے لیکن گولڈن ٹمپل میں مارے جانے والوں کا حساب کوئی نہیں مانگ سکتا۔ جس طرح امرتسر میں بیساکھی کا موسم ہی کسی بھی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے مناسب سمجھا جاتا رہا کچھ اسی طرح کشمیر میں بھی موسم بدل رہا ہے۔ شدید گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ برفباری سے پہلے کشمیر کی وادی میں ایک نسبتا خشک موسم آئے گا۔ یہ موسم فوج کشی یا کسی بھی طرح کے آپریشن کے لیے موزوں ترین ہوتا ہے۔
اگر مودی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ وادی میں امرتسر کی طرز پر آپریشن کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے جائیں گے تو یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔ کشمیر کا جغرافیہ پنجاب سے مختلف ہے۔ یہ تحریک بہت حد تک کشمیریوں کے اندر سے ابھری ہے۔ ان کی چار نسلوں نے اس تحریک کے لیے قربانی دی ہے۔ خالصتان کی تحریک اور جاٹوں کا مزاج کشمیر کی تحریک اور کشمیریوں کے مزاج سے بہت فرق ہے۔ مزید یہ کہ لداخ کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ اس سرحد پر چین اور انڈیا کے درمیان ’لائن آف ایکچوئیل کنٹرول‘ موجود ہے۔ یاد رہے کہ لداخ بلتستان کے علاقے سے متصل ہے۔ پاکستان کچھ برس پہلے گلگت بلتستان کو خیبر پختونخوا صوبے سے الگ ایک صوبہ بنا چکا ہے اور یہ صوبہ آزاد کشمیر میں بھی شامل نہیں۔
افغانستان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات سنہ 1999 کی نسبت آج خاصے فرق ہیں مگر بہر حال یہ پنجاب نہیں کشمیر ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں کشمیر ایک بار پھر اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایران، امریکہ تعلقات، پاکستان اور امریکہ کی تجدید تعلقات، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال، انڈیا کی موجودہ حکومت کی پالیسیاں یہ سب مل کر مستقبل کی ایک بہت واضح تصویر بنا رہی ہیں جس میں کون سیاسی اور مالی لحاظ سے کیا پاتا ہے وہ تو ایک طرف ہے لیکن انسانی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑے المیے کی تصویر ہے۔ برفباری سے پہلے وادی میں کچھ ہو نے جا رہا ہے برف پگھلنے تک پوسٹ آپریشن اقدامات کر لیے جائیں گے اور موسم بہار تک انڈیا کے سر سے یہ کانٹا ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔
ذرائع کے مطابق جموں کو آزاد حیثیت دی جائے گی، جبکہ کشمیر، لیہ اور لداخ کو یو پی میں شامل کر دیا جائے گا۔ کچھ ایسا ہی خواب کارگل کی جنگ سے پہلے دیکھا گیا تھا۔ ہوا یہ کہ دونوں طرف کے فوجیوں کی عمروں میں 20 سال کا اضافہ ہوا اور عقل جہاں تھی وہیں رہی یعنی ٹخنوں میں۔ تحریک حریت کے سربراہ علی گیلانی صاحب کی ایک مبینہ ٹوئٹ بھی نظر سے گزر رہی ہے جس میں وہ کشمیری مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی کے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ گدھ اور چیلیں ایک بار پھر ہمالیہ کی چوٹیوں پہ نمودار ہو رہے ہیں، بارود کی فصل پک چکی ہے، کسی بھی لمحے کٹائی کا آغاز ہو جائے گا۔
آمنہ مفتی
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
روس اور امریکا کے مابین نیوکلیئر ٹریٹی ختم
جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ آئی این ایف ٹریٹی کے ختم ہو جانے سے یورپ کو سیکورٹی کے بڑے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ اس طرح خطے میں اسلحے کی دوڑ میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ امریکا اور روس کے مابین نیوکلیئر ٹریٹی (آئی این ایف) کا خاتمہ یورپ میں امن اور سکیورٹی سے جڑے معاملات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے اصرار کیا ہے کہ ان ممالک کو 'انٹر رینج نیوکلیئر فورسز‘ کے خاتمے بعد ان ممالک کو اسلحے کی دوڑ کو روکنے کی خاطر کیے گئے دیگر معاہدوں پر عمل رہنا چاہیے۔
آئی این ایف نامی تاریخی ٹریٹی سن انیس سو ستاسی میں طے پائی تھی۔ اس وقت امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت صدر میخائیل گورنا چوف نے اس ڈیل پر دستخط کیے تھے، جس کے نتیجے میں زمین سے درمیانے رینج کے میزائلوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ میزائل مغربی یورپی ممالک سے روس تک مار کر سکتے تھے اور روس سے یورپی ممالک تک۔ فروری میں امریکا نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اس ٹریٹی سے دستبردار ہو جائے گا۔ تب امریکا نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایسے ہتھیار بنا رہا ہے، جو اس ٹریٹی کی خلاف ورزی ہیں۔ واشنگٹن نے کہا تھا کہ اگر روس دو اگست تک اس ٹریٹی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تو اس وہ اس ٹریٹی سے دستبردار ہو جائے گا۔
اس امریکی انتباہ کے بعد روس نے بھی اس ٹریٹی کو ختم کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس ڈیل کے ممکنہ خاتمے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ظاہری طور پر روس کو قصوروار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں افسوس ہے کہ روس اس ٹریٹی کو بچانے کی خاطر ضروری اقدامات کرنے سے قاصر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں ممالک کو کوشش کرنا چاہیے کہ اسلحے کی دوڑ سے بچنے کی خاطر کوشش کی جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس ٹریٹی کے ممکنہ خاتمے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرد جنگ کے زمانے میں طے پانے والا یہ معاہدہ اُس دور میں جوہری جنگ کو روکنے میں بہت اہم ثابت ہوا تھا۔ جمعرات کے دن نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹریٹی کی موت سے بیلسٹک میزائلوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
↧
پاکستان میں واٹس ایپ کا غلط استعمال
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تھی جس نے دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ خاص طور پر انٹرنیٹ جیسی کرشماتی ایجاد سے دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ مزید جدت آئی تو اسمارٹ فون متعارف ہوئے، گویا اب دنیا انسان کی جیب میں سما گئی۔ اب انٹرنیٹ پر دنیا بھر کی اعلیٰ درسگاہوں کے آن لائن کورسز بھی ہو رہے ہیں اور کسی بھی نوع کی معلومات محض ایک بٹن دبانے سے مل جاتی ہیں۔ روابط میں آسانی کا یہ عالم ہے کہ آپ دنیا کے کسی بھی کونے کھدرے میں بیٹھے شخص سے یوں بات کر سکتے ہیں کہ گویا وہ آپ کے سامنے موجود ہے، کہ بات کرنے والے کی تصویر بھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سہولت اسمارٹ فونز پر سماجی رابطے کی متعدد ویب سائٹس مہیا کرتی ہیں جسے کم خرچ بالا نشیں کہا جا سکتا ہے۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اوائل میں بنائی جانے والی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ واٹس ایپ اس وقت دنیا کی مقبول ترین انٹرنیٹ مسیجنگ سروس ہے. جس نے اعلان کیا کہ اس کے ماہانہ صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور دنیا کا ہر ساتوان شخص اس سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہے۔ برائی ٹیکنالوجی میں نہیں، اس کے استعمال میں ہے اور اس پر بے شمار مباحث بھی ہو چکے، وجہ یہ سامنے آئی کہ ہمارے ہاں اس کے غلط استعمال کی وجہ اس ٹیکنالوجی کا کچے ذہنوں کے ہاتھ لگ جانا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا میں سائبر کرائمز نہیں ہوتے، ضرور ہوتے ہیں لیکن ان ممالک میں اخلاقی جرائم کی شرح اس لئے کم ہے کہ وہاں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے عمر کی قید ہے۔ حکومت، والدین اور اساتذہ کرام کو مل کر اس غلط استعمال کو روکنا ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
سینیٹ انتخابات، دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کےسلسلے میں اپوزیشن اراکین کے حوالے سے ہم اپنے کالموں میں جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ درست ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے نہ تو باوثوق ذرائع ہیں اور نہ ہی باخبر لوگوں سے میل جول۔ یہ وژن یا زیرک زاویے کا بھی کمال نہیں، بلکہ اُس موقع پرست سیاست کی دیدہ دلیری ہے جو ہم جیسے کم علم وکج فہموں سے بھی کوئی بات خفیہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ حکمراں و سیاستدان کہتے ہیں اب دیہات سے لے کر شہروں ومحلوں تک میں لوگ جان چکے ہوتے ہیں کہ ان میں سچ کتنا ہے یا اس کے پسِ پشت کیا اغراض ہیں۔
ہمارا ان کالموں میں کہنا یہ تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل سینیٹ انتخابات میں جب موجودہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی رضا ربانی کو ووٹ دینے پر آمادہ تھی، تو وہ کیا مقاصد تھے کہ رضا ربانی کی یقینی کامیابی کو نظر انداز کر کے پیپلز پارٹی نے صادق سنجرانی صاحب کو اپنا اُمیدوار قرار دیا تھا۔ یہاں اس کی تفصیلات یوں غیر ضروری ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے تمام آثار ظاہر ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے 30 جون کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’اے پی سی، بڑے سیاستدان چھوٹے فیصلے‘ میں لکھا ’’اپوزیشن نے اے پی سی کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ جیسے یہ مہنگائی بم کیخلاف ایٹم بم ثابت ہو گی لیکن وائے افسوس کہ اس میں رہبر کمیٹی کے ماسوا کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا! سامنے کا واقعہ یہ ہے کہ بڑے سیاستدانوں نے چھوٹے فیصلے کئے۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ اگرچہ بڑا ہے لیکن پی پی اس سلسلے میں سابقہ کمٹمنٹ سے انخراف کا کس قدر جوہر رکھتی ہے، یہ سامنے آنا ابھی باقی ہے‘‘۔ 21 جولائی کو اپنے کالم’ سینیٹ، اپوزیشن کو درپیش امتحان‘ میں ہم نے لکھا ’’کیا اپوزیشن کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا واویلا ان کے نظریاتی ضعف کو ظاہر نہیں کرتا، کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو ایوان بالا کا رکن بنایا ہے جن پر انہیں اعتبارہی نہیں کہ وہ کب بِک جائیں گے۔ یہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہی ہے جس سے اپوزیشن کی درست پوزیشن کا تعین ہو سکے گا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی آزمائش پیپلز پارٹی کو لاحق ہے، اس جماعت نےجب جناب رضا ربانی پرصادق سنجرانی صاحب کو فوقیت دی تھی تو ظاہر ہے کسی کمٹمنٹ کے تحت ہی ایسا کیا تھا، اسی سبب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اس کمٹمنٹ کو بالائے طاق رکھ پائے گی؟ یا سارا نزلہ کسی جہاز والے پر اُتار دیا جائے گا‘‘۔
خیر اب تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے اندرون ِ خانہ ہونے والے منصوبوں کو ہر شہری کیلئے عام کر دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جہاں حکومت اپنے چیئرمین کے خلاف تحریک کو ناکام بناتی ہے وہاں وہ ڈپٹی چیئرمین کو بھی بچانے کا اہتمام کئے ہوئے ہوتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ جس طریقے سے اس سیٹ اپ کو قائم کیا گیا تھا، اُسی سلیقے سے اسے برقرا ر بھی رکھا گیا، معاملات جس طرح بھی طے ہوئے ہوں لیکن تحریک اعتماد لا کر اپوزیشن نے اپنا اعتماد آپ کھو دیا ہے، بقول مومن خان مومنؔ
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس کی تجویز پر تحریک اعتماد کا فیصلہ کیا گیا، اُس جماعت کو یہ اندازہ کیوں نہ ہو سکا کہ اس کے نتائج ماسوائے رسوائی کے اور کیا برآمد ہو سکیں گے، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہاں اس واقعہ سے اپوزیشن کی رہی سہی پوزیشن کو دھچکا لگا ہے وہاں اپوزیشن کے باہمی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے، یوں اس بے وقت کی راگنی سے ماسوائے چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے والوں کے، سب تاوان میں رہے، سابقہ کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ گھوٹکی انتخابات کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے۔ ان جیسی دیگر باتوں سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ اس طرح دن دہاڑے ’کودیتا‘ ہونے کے بعد بھی بالخصوص اپوزیشن کی بڑی جماعتیں کیا ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی!
یہ درست ہے کہ کل کی حریف ان جماعتوں کو حالات کے جبر نے اکٹھا کر رکھا ہے، لیکن وسیع تناظر میں سیا سی حلقے یہ توقع بھی کر رہے تھے کہ شاید ماضی کی جملہ غلاظتوں کو دفن کر کے اپوزیشن حکومت مخالف سرگرمیوں کے علاوہ کوئی ایسا چارٹر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جو آئندہ پائیدار جمہوری نظام کا ضامن بن سکے۔ شومئی قسمت مگر اس ڈرامے کے بعد سیاسی کارکن انگشت بدنداں ہیں، وہ یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں کہ محض پیسہ ہی اس ڈرامے کا اصل کردار ہے، سینیٹ انتخابات کے فوری بعد پریس کانفرنس میں اگرچہ بلاول بھٹو گرج رہے تھے لیکن مصلحت کی چادر میں لپٹے دو چار جملے کہنے والے شہباز شریف سے لے کر حاصل بزنجو تک کے چہرے شاید کہہ رہے تھے۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اجمل خٹک کثر
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور اس کی بھی قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کر دیا۔ اجلاس کے دوران بھارتی اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید احتجاج کیا۔ بھارتی آئین کی اس شق ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار کشمیر میں آباد ہو جائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔
کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ
بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے۔ آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ سرکاری نوکریوں، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف کشمیری باشندوں کو حاصل تھا۔ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
دفعہ 35 اے گئی تو کشمیر فلسطین بن جائے گا
انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کر لیا گیا۔ انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گذشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی ہے جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔
مثال کے طور پرجموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ کرنی ہو تو پہلے مقامی اسمبلی اپنے آئین میں ترمیم کرتی ہے اور اس کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔ حالانکہ کشمیر کی خودمختاری کی اب وہ صورت نہیں رہی جو 70 سال قبل تھی۔ یہاں پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی طرح وزیراعظم ہوتا تھا اور صدرریاست ہوتا تھا۔ لیکن اب دیگر ریاستوں کی طرح گورنر اور وزیراعلی ہوتا ہے۔ تاہم 35-A کی آئینی شق ابھی بھی ریاست کے باشندوں کو غیر کشمیریوں کی بے تجاشا آبادکاری سے بچا رہی ہے۔ اسی شق کو بی جے پی کی حامی این جی او'وی دا سٹیزنز'نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں کیا ہو گا؟
سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کئی سال سے ہو رہی ہے اور اکثر اوقات سماعت موخر ہو جاتی ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فرد یا جماعت آئین کی کسی شق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے تو حکومت ہند عدالت میں اس کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ ظاہر ہے بی جے پی بھی چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ مکمل ادغام ہو، لہذا حکومت اس معاملے میں خاموش ہے اور عندیہ یہ دیا جارہا ہے کہ جو کچھ کرے گی سپریم کورٹ کرے گی۔ 6 اگست کو اس کیس کی سماعت تین میں سے ایک جج کی غیرحاضری کے باعث موخر ہو گئی تاہم اگلی سماعت کی تاریخ 27 اگست مقرر کی گئی ہے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ یا تو ایک وسیع آئینی بینچ کا تعین کر کے اس معاملے پر دوبارہ غور کرے گی اور بعد ازاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 35-A کو پارلیمنٹ میں بحث اور توثیق کے لیے ریفر کیا جائے۔ بی جے پی کے اعتراض کی بنیاد ہھی یہی ہے کہ اس آئینی دفعہ کو 'چوردروازے'سے آئین میں داخل کرایا گیا اور پارلیمنٹ میں اس پر نہ بحث ہوئی اور نہ اس کی توثیق ہوئی۔
دفعہ 35-A ختم ہوئی تو کیا ہو گا ؟
کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اگر آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آبادکار یہاں بس جائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔ یہ خدشہ صرف علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں۔ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاو میں پیش پیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر ہی نہیں بلکہ کرگل اور جموں کے سبھی مسلم اکثریتی علاقوں میں سخت ترین ہڑتال کی گئی۔ تجزیہ نگار پروفیسر حمیدہ نعیم کہتی ہیں: 'دراصل بی جے پی مسئلہ کشمیر کو اپنے حساب سے حل کرنا چاہتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ کشمیریوں کے علیحدگی پسند جذبات کی بنیادی وجہ دفعہ 35-A ہے، اسے ختم کیا گیا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کیونکہ بعد میں یہاں کی آباد میں مسلمانوں کا تناسب حد درجہ گھٹ جائے گا۔'
ہند نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر سنہ 1947 میں ایک خودمختار ریاست تھی جس نے بعض اختیارات ایک الحاق نامہ کے تحت بھارت کو دے دیے۔ ان میں دفاع، مواصلات اور کرنسی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ کہتے ہیں: 'اگر 35-A کو ختم کیا گیا تو الحاق بھی ختم ہو جائے گا۔'پی ڈی پی کی سربراہ اور سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 'اگر 35-A کو چھیڑا گیا تو کشمیر میں بھارتی ترنگا لہرانے والا کوئی کشمیری نہیں ہو گا۔'
کیا صرف کشمیریوں کو خطرہ ہے؟
پہلی جنگ عظیم کے بعد انڈیا کے پنجاب، ہریانہ اور دلی جبکہ پاکستان کے پنجاب اور سندھ سے لاکھوں لوگ کشمیر میں کاروبار کے سلسلے میں آتے تھے اور ان میں سے بیشتر یہاں آباد بھی ہو جاتے۔ 1927 میں جموں کے ہندو ڈوگروں نے اسُ وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جموں کشمیر کے پشتینی باشندے اقلیت میں بدل جائیں گے اور ان کی روزی روٹی بھی ختم ہو جائے گی۔ بعد ازاں کئی سال تک قانون سازی کی گئی اور حق باشندی کا قانون یا 'سٹیٹ سبجیکٹ لا'وجود میں آیا۔ جموں میں نیشنل کانفرنس کے رہنما دیوندر سنگھ رانا کہتے ہیں: 'دفعہ 35-A کو ختم کیا گیا تو جموں کے ڈوگروں کی شناخت ہی ختم ہو جائے گی۔ یہاں جموں کشمیر کی پولیس نہیں بلکہ پنجاب پولیس نظر آئے گی جو ڈوگروں پر ظلم کرے گی۔ نوجوانوں کے روزگار پر اثر پڑے گا، ہماری منفرد ثقافت کو بھارت سے آنے والے کروڑوں لوگ نگل لیں گے۔'
کیا 35-A پر سیاست ہو رہی ہے
تجزیہ نگار ریاض ملک کا کہنا ہے کہ بی جے پی ہمیشہ مسلم بیشنگ اور ہندوتوا کارڈ کی بنیاد پر انتخابات لڑتی ہے۔ نریندر مودی کے چار سالہ دور اقتدار میں معشیت میں بہتری، روزگار، تعمیرو ترقی کے ضمن میں کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا: 'پاکستان کے خلاف جارح پالیسی بھی تلخ کلامی تک محدود رہی۔ ایودھیا میں رام مندر بھی نہیں بن پایا۔ اب لے دے کے کشمیر بچتا ہے، جہاں بی جے پی اپنی نظریاتی فتح کا جھنڈا گاڑنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی برس سے کشمیر میں نہ صرف سخت ترین سکیورٹی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے بلکہ کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔' دوسری جانب گذشتہ تین سال سے ہند نواز حلقوں کو شدید عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔ وہ بھی اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے عوامی ہمدردی بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علیحدگی پسندوں کی کال پر مظاہروں اور ہڑتال کی جو کال دی گئی تھی اس میں ان جماعتوں کے کارکنوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ریاض مسرور
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
↧