↧
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سبقت لے گئیں
↧
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا خود کار ہتھیاروں پر پابندی کا اعلان
نیوزی لینڈ میں خودکار ہتھیاروں پر پابندی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا کہنا ہے کہ قانون سازی جلد کی جائے گی، یہ صرف کام کا آغاز ہے۔ مساجد میں فائرنگ کے بعد وزیر اعظم نے خود کار اور نیم خود کار رائفلز اور حملوں میں استعمال ہونے والے اسلحے کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی۔ جیسنڈا آرڈن نے عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ضمن میں جلد قانون سازی کی جائے گی، پولیس تفصیل ملنے کے بعد انہیں تباہ کر دے گی۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں شہدا کی تدفین کا سلسلہ بھی جاری ہے، کراچی کے رہائشی اریب کی نماز جنازہ میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
افغان شہریوں حاجی داؤد نبی اور مطیع اللہ صافی کی نماز جناہ بھی کرائسٹ چرچ میں ادا کی گئی۔ مساجد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد نیوزی لینڈ کے شہری لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ولنگٹن کی وکٹوریہ یونیورسٹی کے طلبا نے 50 میٹر طویل دیوار پر تعزیتی پیغامات لکھ کر سانحہ کرائسٹ چرچ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ نیوزی لینڈ کے اداکار سیم نیل کا کہنا ہے کہ مساجد میں فائرنگ کی اطلاع مسلمان ٹیکسی ڈرائیور نے دی جسے سن کر وہ جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا اس مشکل گھڑی میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا کردار قابل تحسین ہے۔
↧
↧
نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں قرآن کی تلاوت، وزیرِاعظم کا 'السلامُ علیکم'سے خطاب کا آغاز
نیوزی لینڈ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی اجلاس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جبکہ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے سلام سے خطاب کا آغاز کیا۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں اسپیکر ٹریور مالارڈ کی قیادت میں منعقد خصوصی اجلاس میں تمام مذاہب کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کے بعد پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا آغاز قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیات 153-156 کی تلاوت سے ہوا۔ واضح رہے کہ سورۃ البقرہ کی ان آیات میں ایمان والوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے جبکہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ کہنے کا حکم ہے، ان آیات میں جان و مال سے آزمائے جانے کا بھی ذکر ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اجلاس سے خطاب کا آغاز سلام سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی دہشت گرد کو اس دہشت گردی سے بہت سی چیزیں مطلوب تھیں وہ شہرت (بدنامی) کی تلاش میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’ آپ مجھے کبھی اس (دہشت گرد) کا نام لیتے ہوئے نہیں سنیں گے، وہ ایک دہشت گرد ہے، مجرم ہے، وہ ایک انتہا پسند ہے لیکن جب میں اس کے حوالے سے بات کروں گی تو وہ بے نام ہو گا‘۔ جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ’ان کا نام لیں جنہیں اس حادثے میں کھو دیا نہ کہ اس شخص کا جو اس کا ذمہ دار ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ اسے شاید شہرت کی تلاش ہو گی لیکن ہم نیوزی لینڈ میں اسے کچھ نہیں دیں گے، اس کا نام بھی نہیں‘۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت متاثرین کا خیال اور سب کی حفاظت ضروری ہے‘۔ وزیراعظم نے متاثرہ خاندانوں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم آپ کا غم نہیں جان سکتے لیکن ہم ہر مرحلے پر آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں، ہم محبت، مہمان نوازی سے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں اور دیں گے‘۔ نیوزی لینڈ کے نائب وزیراعظم اور وزیر برائےخارجہ امور ونسٹن پیٹرس نے اس مشکل گھڑی میں جیسنڈا آرڈرن کی کارکردگی کو سراہا۔ ونٹسن پیٹرس نے کہا کہ ’ان کی وضاحت، ہمدردی اور متحد قیادت ملک کو اس آزمائش کے حل میں مدد دے رہی ہے، ہم اس مثال پر عمل کریں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی لائی گئی اور یہ ایک بزدلانہ کام تھا۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟
یومِ پاکستان کی پُر عزم اور پُر شکوہ تقریبات میں شرکت کے لیے ہمارے معزز مہمان ، ملائیشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے اس ہم منصب سے دِلی محبت کرتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے سے پہلے بھی جناب عمران خان بکثرت ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر طیب اردوان کے بارے میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی مجھے موقع ملا تو مَیں مہاتیر محمد اور طیب اردوان ایسی جرأتیں دکھاؤں گا اور پاکستان کو روشن کروں گا ، خوشحالی لاؤں گا کرپشن کا خاتمہ بھی کروں گا اور مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کروں گا۔
خاتونِ اوّل، بشریٰ بی بی صاحبہ، نے بھی طیب اردوان کی تعریف کرتے ہُوئے تصدیق کی کہ اُن کے سرتاج وزیر اعظم بھی جناب اردوان کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں پارلیمانی کے بجائے، صدارتی طرزِ حکومت کو رواج دیا ہے ۔ اب جب کہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا وہ اب بھی مہاتیر محمد اور طیب اردوان کی پالیسیوں کے تتبع میں پاکستان کو آگے بڑھانے کا عندیہ رکھتے ہیں؟ اور یہ کہ وہ ان دونوں حکمرانوں سے کیا کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
گزشتہ روز ایک خبر یوں شایع ہُوئی تھی: ’’ ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا رجسٹر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اپنی پارٹی کے27ویں مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے انھوں نے کہا کہ ترکی کا اقتصادی اشاریہ بہت سے ممالک سے زیادہ اچھی سطح پر ہے، اس لیے عالمی مالیاتی فنڈ ز ( آئی ایم ایف) کا رجسٹر ہمیشہ کے لیے ہم نے بند کر دیا ہے۔ ترک معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہے۔ یہ قوم کے اعتماد اور پوری حکومتی ٹیم کی مشترکہ اور انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ کیا ہمارے چیف ایگزیکٹو صاحب بھی اِسی طرح آئی ایم ایف کے بارے میں ایسا ہی کوئی اعلان کر سکتے ہیں؟۔
قوم حیران ہے کہ خان صاحب کا ہیرو ( طیب اردوان) آئی ایم ایف کو طلاق دینے کی باتیں کر رہا ہے اور خان صاحب کے وزیر خزانہ اُسی عالمی مالیاتی ادارے کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ’’دل پھر کُوئے ملامت کوجائے ہے/ پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہُوئے۔‘‘ ہمیں معلوم ہے کہ جبریہ حالات نے خان صاحب کو اپنے سابقہ اعلانات کے برعکس یہ قدم اُٹھانے پر مائل کیا ہے۔ ہماری معیشت ملائیشیا اور ترکی کی طرح مضبوط ہوتی تو شائد ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی آئی ایم ایف کے سامنے یونہی سینہ تان سکتے۔
کہنا پڑے گا کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کے پاس جا نے کا عندیہ دے کر دراصل اپنے ہیرو طیب اردوان کی جرأتوں کے برعکس فیصلہ کیا ہے۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ طیب اردوان کا دل میں احترام اور اکرام رکھنے کے باوجود خان صاحب کئی معاملات میں پوری طرح اُن کے نقوشِ قدم پر نہیں چل سکتے۔ چلنا بھی نہیں چاہیے کہ ہمارے مسائل اور معاملات اُن سے مختلف ہیں۔ مثلاً: طیب اردوان جس ملک اور قوم کے سربراہ ہیں، اُس ملک اور قوم کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جب کہ عمران خان صاحب جس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، وہ ملک اور اُس کے عوام اسرائیل کو ایک ناجائز، غاصب اور خائن ریاست سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ اس ملک کا کوئی شہری اسرائیل نہیں جا سکتا۔ ترکی میں مبینہ طور پر اِس وقت (بعض) اخبار نویسوں اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کے ملک میں، الحمدللہ، خان صاحب اور پاکستان کی صحافتی برادری کے مابین کوئی کشیدگی ہے نہ تناؤ ۔ اس فرق کے باوجود ہم سب پاکستانی عوام ترکی اور طیب اردوان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پیرس کی ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ نے پاکستان کو دھمکایا تو اس آزمائشی موقع پر یہ صرف ترکی تھا جو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہُوا تھا۔
ہمارے دو مشہور دوست ممالک نے تو پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کے خلاف تازہ بھارتی جارحیت کے موقع پر ترکی ڈٹ کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ عمران خان کا دَورئہ ترکی بھی ایک بار پھر ثابت کر گیا تھا کہ پاک، ترک تعلقات مثالی ہیں ۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد کو بھی ہمارے وزیر اعظم عمران خان دل سے چاہتے ہیں۔ مہاتیر محمد میں واقعی معنوں میں کئی ایسے خواص ہیں جو انھیں لائقِ احترام بناتے ہیں۔ انھوں نے محنت اور کمٹمنٹ سے اپنے ملک کو دُنیا کے محترم ممالک میں لا کھڑا کیا ہے۔ صنعت اور تعلیم کو جدید عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ بنا کر اپنے عوام کی غربت میں کمی اور خوشحالی میں اضافہ کیا ہے۔ ملائیشیا کو پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ صاف ، شفاف اور سرسبز بنایا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے ’’ کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ کی طرف جو پہلا عملی قدم اُٹھایا ہے، دراصل اپنے ہیرو مہاتیر محمد کی پیروی ہے اور یہ پیروی مستحسن بھی ہے۔ مہاتیر محمد اپنے ملک کے سابق حکمرانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی اربوں ڈالر کی مبینہ کرپشن سامنے لا کر سخت احتساب کر رہے ہیں۔ سابق ملائشین وزیر اعظم ، نجیب رزاق، اور اُن کی اہلیہ، پتری زائنہ سکندر، دارو گیر کے کئی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ نجیب رزاق پر 32 اور اُن کی اہلیہ پر17 منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے ہیں۔ عمران خان بھی بدعنوانوں کو اِسی اسلوب میں نشانہ عبرت بنا کر پاکستان کو کرپشن فری ملک بنانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے ان اقدامات کی بازگشت ملائیشیا تک بھی یقینا پہنچی ہو گی۔ اِسی لیے تو ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب ہمارے وزیر اعظم کو کئی بار تحسینی فون بھی کر چکے ہیں۔
دونوں نے ایک دوسرے کو انتخابات میں کامیابیاں سمیٹنے کی مبارکبادیں بھی دی تھیں۔ عمران خان ملائیشیا کا دَورہ کر چکے ہیں اور اب مہاتیر محمد پاکستان تشریف لائے ہیں۔ پاکستان اور ملائیشیا میں اچھے اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ ہمارے ایک ممتاز عالمِ دین پر جب بوجوہ پاکستان کی زمین تنگ ہو نے لگی تو انھیں بھی امان ملائیشیا ہی میں ملی۔ جناب عمران خان اور جناب ڈاکٹر مہاتیر محمد کی باہمی محبت ایک واقعہ ہے.
مگر سوال یہ ہے کہ مہاتیر محمد نے جس دانشمندی کے ساتھ اپنے ملک میں چینی سرمایہ کاری کے لیے چین کے سامنے جو انتہائی جائز اور دل کو لگنے والی شرائط رکھی ہیں. کیاعمران خان ایسی ہی دانشمندی کی چمک دکھا سکتے ہیں؟ چینی صحافیوں کی وساطت سے پاکستان کے بہترین دوست، چین، تک ایسی ہی خواہشات پہنچا سکتے ہیں؟ مہاتیر محمد نے جس شائستگی اور تہذیب سے چینیوں کے سامنے یہ شرائط رکھی ہیں، ہمارے سب حکام کو مہاتیر محمد کا چینی صحافیوں کو دیا گیا انٹرویو پڑھنا اور سننا چاہیے۔ عمران خان سمیت ہماری جملہ ہیتِ مقتدرہ اِس انٹرویو کے مندرجات سے کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
تنویر قیصر شاہد
↧
فیس بک صارفین کے پاسورڈز تک کمپنی کے ملازمین کو رسائی کا انکشاف
اگر تو آپ فیس بک استعمال کرنا پسند کرتے ہیں تو اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ بنانے کے لیے پاسورڈ فوری بدل لیں۔ درحقیقت فیس بک کے کروڑوں صارفین کے پاسورڈ تک اس کمپنی کے ملازمین کو رسائی حاصل ہو چکی ہے۔ انٹرنیٹ سیکیورٹی محقق برائن کریبس نے پاسورڈ کے تحفظ پر فیس بک کی ناکامی کا انکشاف کیا جس سے 60 کروڑ صارفین کا ڈیٹا متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیس بک ذرائع نے انہیں اس سیکیورٹی ناکامی کے بارے میں بتایا جس سے ڈویلپرز کو ایسی اپلیکیشنز بنانے کا موقع ملا جو کہ پاسورڈ کو انکرپٹ کیے بغیر لاگ ان اور محفوظ کرتیں ہیں۔ اس انکشاف کے بعد فیس بک نے بھی اس کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے نیٹ ورک میں محفوظ پاسورڈ کے اس مسئلے کو دور کر دیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اس بارے میں فیس بک کے انجنیئر اسکاٹ رینفرو نے بتایا کہ اس بات میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس خامی کا 'کوئی غلط استعمال'نہیں ہوا۔ کمپنی کی جانب جاری بیان کے مطابق یہ مسئلہ جنوری میں معمول کے سیکیورٹی چیک اپ کے دوران سامنے آیا اور تحقیقات سے معلوم ہوا اس سے فیس بک لائٹ ایپ کے صارفین زیادہ متاثر ہوئے، جو ان ممالک میں زیادہ استعمال ہوتی ہے جہاں انٹرنیٹ اسپیڈ ناقص ہوتی ہے۔کمپنی اب ان تمام کروڑوں صارفین کو اس بارے میں آگاہ کرنا چاہتی ہے جن میں لاکھوں انسٹاگرام صارفین بھی شامل ہیں۔ مگر کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ صارفین کو پاسورڈ ری سیٹ کرنے کا اس وقت ہی کہے گی جب اسکی ٹاسک فورس یہ دریافت کرے گی کہ صارفین کے لاگ ان تفصیلات کا غلط استعمال ہوا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے کی مہم کا آغاز
نیوزی لینڈ میں 2 مساجد پر دہشت گرد حملے کے بعد معاملے کو سنبھالنے پر نیوزلینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو امن کا نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو امن کے نابل انعام کے لیے نامزد کرنے سے متعلق 2 قراردادوں پر دستخطی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ ان قراردادوں میں ایک چینج ڈاٹ او آر جی کی جانب سے 4 دن پہلے شروع کی، جس پر 3 ہزار سے زائد دستخط ہو گئے ہیں جبکہ فرانسیسی ویب سائٹ آواز ڈاٹ او آر جی کی جانب سے دوسری پٹیشن پر ایک ہزار سے زائد دستخط ہو چکے ہیں۔
فرانسیسی صفحات کی جانب سے کہا گیا کہ ’کرائسٹ چرچ کے افسوس ناک واقعے پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے واضح اور پرامن ردعمل دیا، ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے نوبل انعام کو وہ وصول کریں‘۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نیوزی لینڈ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد نیوزی لینڈ وزیر اعظم کے اقدامات پر دنیا بھر میں تعریف کی گئی تھی۔ ان کے اس اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے دبئی میں برج خلیفہ کو ان کی ایک باحجاب مسلم خاتون سے گلے ملتے ہوئے لی گئی تصویر سے روشن کیا گیا۔ یو اے ای کے وزیر اعظم شیخ محمد نے جیسنڈا آرڈرن کا ’مخلصانہ ہمدردی اور حمایت‘ پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا احترام جیت لیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ شب نیو یارک ٹائمز میں ایک اداریے میں ان کے کردار کی تعریف کی گئی۔ واضح رہے کہ 15 مارچ کو جمعے کے روز 2 مساجد میں دہشت گرد حملے 50 افراد کی شہادت کے بعد جیسنڈا آرڈرن نے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی سے ہمدردرانہ رویے پر دنیا بھر کی توجہ حاصل کی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کا عنوان امریکا بھی جیسنڈا آرڈرن جیسے اچھے لیڈر کا مستحق ہے میں لکھا گیا کہ دنیا کو جیسنڈا آرڈرن سے سیکھنا چاہیے، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے خوف کا جواب دیا ہے‘۔ اداریے میں لکھا گیا کہ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے خاص طور پر گن کنٹرول سے متعلق مسئلے کو سنبھالا، انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کی بات کو سنا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کچھ دنوں میں حکومت فوجی طرز کے ہتھیاروں پر نئے قوانین متعارف کروائے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
برطانیہ : دس لاکھ افراد کا بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بریگزٹ مخالفین کا بڑا مظاہرہ ہوا جہاں انہوں نے حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے یورپین یونین سے اخراج کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق پیپلز ووٹ مارچ کا آغاز پارک لین اور دیگر مقامات سے ہوا اور برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچا جہاں آئندہ چند دنوں میں بریگزٹ پر حمتی فیصلہ ہو گا۔ مظاہرین نے یورپین یونین کے پرچم اٹھا رکھے تھے اور یونین کے ساتھ برطانیہ کے طویل شراکت داری برقرار رکھنے کے مطالبے درج تھے۔ بریگزٹ مخالف مظاہرے میں برطانیہ بھر سے عوام موجود تھے جو وزیراعظم تھریسامے کو بریگزٹ سے دست بردار کرنے کے لیے پرعزم تھے۔
لبرل ڈیموکریٹ رہنما وینس نے مظاہرین کی تعداد حیران کن اور متحد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ملک بھر زندگی کے ہر شعبے اور عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے اور ملک میں ہم 60 فیصد افراد بریگزٹ کو روکنے کے خواہاں ہیں۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کی تعداد کے حوالے سے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی تاہم آزاد ذرائع کے مطابق بریگزیٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی تعداد 10 لاکھ تھی۔ دوسری جانب آن لائن پٹیشن میں 40 لاکھ سے زائد افراد نے آرٹیکل 50 کے خلاف ووٹ دیا تھا جو بریگزٹ معاملے کو مزید گھمبیر بنانے کا باعث بن گیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ روز اراکین پارلیمنٹ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ بریگزٹ معاہدے کو پارلیمنٹ میں نہ لائیں تاہم دیگر اراکین کا خیال تھا وہ اپنے معاہدے کو اس وقت پارلیمنٹ میں لائیں گی جب اس کی حمایت کرنے والے اراکین کی تعداد زیادہ ہو گی۔ خیال رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم تھریسامے کے بریگزیٹ منصوبے کی مخالفت میں ووٹ پڑے تھے جس کے بعد انہیں اپنے منصوبے پر عمل درآمد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور طے شدہ وقت تک بریگزٹ ممکن نہ ہو پایا۔ یورپی یونین اراکین نے برطانیہ کو علیحدگی کے لیے دو ڈیڈ لائن دی گئی تھیں اور 22 مئی تک بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے وقت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے اراکین پارلیمنٹ کو لکھے گئے خط کے باوجود تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔
برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان کے مطابق یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے دو سال قبل طے کی گئی 29 مارچ کی تاریخ سے صرف 10 روز اور یورپی یونین کی اہم ترین کانفرنس سے 2 روز قبل تھریسا مے، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو معاہدے میں تاخیر کے لیے خط لکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور ہوں گی لیکن مستقبل میں اس کا فائدہ ہو گا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہو چکا ہو گا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں ہی خرچ ہو سکے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
پاکستانی قوم کے لیے مودی کا پیغام
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ یوم پاکستان کے موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی قوم کے لیے خیر سگالی کا پیغام بھیجا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان نے لکھا کے انہیں نریندر مودی کا پیغام ملا ہے کہ ’میں پاکستان کے قومی دن کے موقع پر پاکستان کے عوام کو نیک خواہشات اور مبارکباد دیتا ہوں۔‘ عمران خان کے بقول مودی کے پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ بر صغیر کے لوگ دہشت اور تشدد سے پاک ماحول میں مل کر جمہوریت، امن، ترقی اور مستحکم خطے کے لیے کام کریں۔`
پاکستان کے وزیرِ اعظم کی جانب سے انڈین وزیرِ اعظنم کا پیغام شئیر کرنے پر ٹوئٹر صارفین نے حیرت اور خوشی کا اظہار کیا ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے نریندر مودی کو بلآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے اور وہ پر امن انداز میں بات کر رہے ہیں۔ وہیں کئی لوگ اس بات پر غیر یقینی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں کے خیال میں مودی کا یہ پیغام دیانت داری پر مبنی نہیں ہے اور کئی اسے ایک اور انتخابی حربہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف نجدہ نے عمران خان کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’چلیں اس نیک خواہشات کو قبول کر لیں اور انسانیت اور امن کے لیے دعاگو ہوں۔`
جبکہ ابو صارم کا خیال تھا کہ ’آب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔‘ کچھ ٹوئٹر ہینڈل سے، جن میں گبر اور ساجد سنی شامل ہیں، شک کا اظہار کرتے ہوئے مودی کے پیغام کا سکرین شاٹ دکھانے کی فرمائش کی گئی۔ ایک صارف راحیل خان نے خبر دار کیا کہ ’خیال رہے جبکہ پچھلی بار مودی کی جانب سے ایسا ہی پیغام آیا تو بالاک کوٹ والا حملہ کیا گیا اور ہمارے درخت قتل کیے گئے۔‘ فہد امازئی نے لکھا ’اچھی بات ھے بس کاش یہ بات ہم مودی کے اکاؤنٹ سے دیکھتے تو زیادہ اچھا ہوتا نہ آپ کو مودی کی ترجمانی کرنی پڑتی لیکن اچھا ہوا کم ازکم مودی نے آپ کی کال نہ اٹھانے کے بعد آپکو پیغام تو بھیجا۔‘ عمران ایوب نامی صارف بھی انڈین وزیرِ اعظم کے پیغام پر کچھ خاص مطمئن نظر نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا ’نہیں اس آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں جو اپنے ملک کے فوجی مروا سکتا ہو الیکشن کے لیے اُس سے کوئی خیر کی توقع نہیں‘۔ ابرار رسول کے بقول یہ نریندر مودی کا ’الیکشن سٹنٹ ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے لیے کیوں اہم ہیں؟
گولان کی پہاڑیاں شام اور اسرائیل کے درمیان تنازعے اور کشیدگی کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس متنازعہ علاقے پر اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ باون برسوں کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ امریکا گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی مکمل جغرافیائی حاکمیت کو تسلیم کر لے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ علاقہ اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اُدھر اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے اعلان کو پورِم کے مقدس تہوار پر رونما ہونے والا معجزہ قرار دیا ہے۔ گولان ہائٹس کے معاملے کو ایک دن قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ زیر بحث لائے تھے اور ٹرمپ کے اعلان کو اُس کا تسلسل خیال کیا گیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اس مناسبت سے واشنگٹن سے باضابطہ اعلان امکاناً نیتن یاہو کے اگلے ہفتے کے دوران شروع ہونے والے دورہٴ امریکا کے موقع پر ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی پوزیشن کو یقینی طور پر تقویت حاصل ہو گی۔ دوسری جانب امریکی صدر کے بیان کی کئی عالمی لیڈروں نے مذمت کی ہے۔ روس نے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا ہے۔ اس دوران شامی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان کی پہاڑیوں سے متعلق سابقہ موقف کو اچانک تبدیل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس امریکی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صیہونی قبضے کے ساتھ ساتھ جارحانہ اقدامات کی حمایت کا تسلسل ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے بھی شامی موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس امریکی فیصلے کو بین الاقوامی قانون کی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑیاں کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے۔ یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ سمندر نما جھیل خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس میں سے اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی مستفید ہوتا ہے۔
بشکریہ DW اردو
↧
↧
کیا دنیا میں سونے کی قلت ہونے والی ہے ؟
ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کے ذخائر تقریباً دریافت کر لیے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس دھات کے لیے سرمایہ کاروں کا جوش ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو برسوں سے ایسی سرگوشیاں جاری ہیں کہ دنیا بھر میں دستیاب سونے کے ذخائر میں کمی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کئی ماہرین اور صنعت کاروں سمیت کانوں میں سے سونے نکالنے والی بڑی کینیڈین کمپنی گولڈ کورپ کے سربراہ ایان ٹیلفر بھی کہہ چکے ہیں کہ قیمتی دھات کے حصول کی کوششیں اپنے عروج کو پہنچ گئی ہیں۔ ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ اب دنیا بھر میں کوئی نیا سونے کا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔
اس وقت سونے کے حصول کا گراف نیچے کی جانب آنا شروع ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب دنیا میں کوئی بہت بڑے ذخائر کی موجودگی کا امکان بہت ہی کم ہے۔ اسی طرح کان کنی میں ایک ٹن میں سے سونے کی مقدار کا حصول بھی کم ہو گیا ہے۔ 1970ء میں یہ ایک ٹن میں دس گرام ہوتا تھا اور اب یہ 1.4 گرام فی ٹن ہو گیا ہے۔ عالمی سطح پر گولڈ انڈسٹری میں گراوٹ کے تناظر میں کمپنیوں کا آپس میں انضمام شروع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں دو بڑی کمپنیوں بیرک گولڈ اور نیو مونٹ مائننگ میں انضمام کی اربوں ڈالر کی ڈیل طے پائی ہے۔ کینیڈین کمپنی گولڈ کورپ کی دس بلین امریکی ڈالر میں فروخت کی بات چیت بھی مکمل ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ سونے کی کان کنی میں اب محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری زیادہ اور منافع کم ہونے لگا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کی کان رکھنے والوں کے لیے کم قیمت دینے سے مراد سونے کی قلت کا احساس ہے۔ یہ عام تاثر ہے کہ اس قلت میں اضافہ ہوا تو موجودہ تیرہ سو ڈالر فی اونس کی قیمت دو ہزار فی اونس تک پہنچ جائے گی۔
2011ء میں سونے کے فی اونس کی قیمت اٹھارہ سو امریکی ڈالر تک پہنچی تھی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں سونے کی قلت نہیں ہے لیکن موجودہ قیمت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ واقعی سونا اب کم ہونے لگا ہے۔ قیمتیں کم ہونے پر کانوں سے سونے کو نکالنے کا عمل سست کر دیا جاتا ہے اور یہی عمل پھر قیمت کا تعین کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے سونے کے ذخائر کی تلاش کے عمل کو وسیع کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کانوں سے سونا نکالنے پر چالیس فیصد سرمایہ کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا سے آتا ہے۔
اب لاشطینی امریکا اور افریقہ کے مزید علاقوں کی جانب کان کنی کے لیے رخ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانوں میں سے سونے کے حصول میں ممکنہ کمی تو ہو سکتی ہے لیکن زیورات کے لیے سونے کی کشش کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ زیورات کے لیے سونے کی طلب میں تیس فیصد تک اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ زیورات امیر بھی خریدتے ہیں اور متوسط طبقہ بھی۔ ہر سال دنیا بھر کی کانوں سے تین ہزار ٹن سونا نکالا جاتا ہے۔ ایک ماہر کا خیال ہے کہ مستقبل میں سونے کی سپلائی ری سائیکلنگ پر زیادہ اور کان کنی پر کم ہو گی۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
اٹلی، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہونے والا پہلا جی سیون ملک
چین کے صدر شی جن پنگ دو روزہ دورے پر اٹلی پہنچے جہاں دونوں ممالک کے درمیان 5 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے 29 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جبکہ اٹلی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہونے والا جی سیون کا پہلا رکن بن گیا ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ اور اٹلی کے وزیراعظم گیوسیپے کونٹ نے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی، اطالوی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان 5 ارب یورو سے 7 ارب یورو (5 ارب 60 کروڑ ڈالر سے 8 ارب ڈالر) مالیت کے منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ چین کے نیشنل ڈیولپمنٹ کمیشن کےچیئرمین ہی لیفنگ اور اٹلی کے نائب وزیراعظم اور وزیر معاشی ترقی لیوگی ڈی مائیو نے معاہدے پر دستخط کیے۔
لیوگی ڈی مائیو نے تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹلی کا ہدف تجارتی خسارے کو متوازن کرنے، اٹلی کے کاروبار اور معیشت کی بہتری کے لیے چین کو برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر دستخط کیے گئے چند معاہدوں کی مالیت دو ارب 50 کروڑ یورو ہے تاہم اس کو 20 ارب یورو تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔ لیوگی ڈی مائیو نے کہا کہ ان معاہدوں کے ذریعے اٹلی میں آنے والی چینی مصنوعات سے پیدا شدہ عدم توازن کو برابر کرنے اور اطالوی مصنوعات کو چین تک پہنچانا ہمارا مقصد ہے۔ چین سے ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ‘ اٹلی کو اپنی برآمدات میں بتدریج اضافے کی توقع ہے اور ہمیں اگلے برس تک تجارتی خسارے کو برابر کرنے کی توقع ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں پر دستخط کی تقریب ویلا میڈما پیلس میں منعقد ہوئی جہاں دو روزہ دورے پر موجود چینی صدر شی جن پنگ نے بھی شرکت کی جس کے بعد وہ سسلی روانہ ہو گئے۔ خیال رہے کہ اٹلی سے ان معاہدوں کے بعد چین کو اپنے وسیع منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے ایشیا کو یورپ سے ملانے کے لیے علامتی کامیابی ملی ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تجارت اور دیگر معاملات پر چین پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اسی لیے یورپی یونین ممالک کی جانب چین سے معاہدے کرنے والا پہلا ملک اٹلی بن گیا ہے۔ امریکا کے علاوہ یورپی ممالک بھی چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر رسوخ سے خوش نہیں ہیں اور وہ چین کو معاشی میدان میں اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
لیوگی ڈی مائیو نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ اٹلی اپنے تمام اتحادی امریکا، نیٹو اور یورپی ممالک کے ساتھ ہے لیکن اپنے معاشی مفادات کو بھی دیکھنے ہیں۔
اٹلی کے نائب وزیراعظم نے کہا کہ امریکا میں کسی نے کہا تھا کہ سب سے پہلے امریکا، اسی طرح میں کہوں گا کہ معاشی تعلقات میں سب سے پہلے اٹلی۔ واضح رہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں گزشتہ برسوں سے تاحال مجموعی طور پر ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کے بارے میں چین کا دعویٰ ہے کہ 150 ممالک نے اس منصوبے سے منسلک کئی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
امریکا، جاپان اور بھارت سمیت کئی ممالک کو چین کے اس منصوبے سے خدشات لاحق ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح چین پوری دنیا میں اپنے اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب چینی حکام کا واضح موقف ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ خالصتاً معاشی منصوبہ ہے اور اس کے پیچھے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے گزشتہ برس ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہاں تک کہ چین کو دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے تو تھی وہ اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
صدر ٹرمپ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ بری الزمہ بھی نہیں : ملر رپورٹ
سن 2016 کے امریکی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت کے بارے میں سپیشل کونسل رابرٹ ملر کی تیارہ کردہ خفیہ رپورٹ کا خلاصہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا ہے۔ تاہم اُنہیں بری الزمہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپیشل کونسل رابرٹ ملر نے اپنی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران روس کے ساتھ کسی ساز باز کا بھی کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے۔ اٹارنی جنرل ولیم بر نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں صدر ٹرمپ کی طرف سے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے سلسلے میں کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم رپورٹ میں نہ تو اُنہیں قصور وار قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی اُنہیں مکمل طور پر بری الزمہ قرار دیا گیا ہے۔
ملر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس بات کا فیصلہ وہ اٹارنی جنرل ولیم بر پر چھوڑ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی جرم کیا ہے یا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے، کوئی سازش نہیں، انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، میں مکمل طور پر بری الزمہ ہوں۔ امریکہ کی عظمت کو قائم رکھیں ۔ تجزیہ کارں کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل ولیم بر کی طرف سے ملر رپورٹ کے اس خلاصے کے حوالے سے واشنگٹن میں ایک نئی بحث شروع ہونے کا امکان ہے۔ ڈیموکریٹک ارکان کانگریس کا اصرار ہے کہ خلاصے کے بجائے رپورٹ کا مکمل متن جاری کیا جائے جبکہ صدر ٹرمپ اس رپورٹ کو اس جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور مخالفین اس معاملے کو اچھال کر اُن کی صدارت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اُنہوں نے نہ تو روس سے کوئی ساز باز کی تھی اور نہ ہی انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہے۔ تاہم امریکہ کے خفیہ اداروں کا کہنا تھا کہ صدر نے ایسا کیا ہے۔ رابرٹ ملر نے 22 ماہ تک جاری رہنے والی تفتیش کے بعد یہ خفیہ رپورٹ اٹارنی جنرل ولیم بر کو پیش کر دی تھی اور اُنہوں نے اور اُن کے عملے نے ہفتے کے روز کئی گھنٹے تک اس رپورٹ کا جائزہ لیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ صدر ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی کے اہم ارکان کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ رپورٹ مکمل حالت میں جاری کی جائے۔ تاہم اس بات کی توقع کم ہے کہ اٹارنی جنرل ایسا کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ مکمل رپورٹ جاری کرنے کی مخالفت نہیں کریں گے۔ تاہم اُنہوں نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ خود اٹارنی جنرل کو کرنا ہے کہ اس رپورٹ کا کتنا حصہ جاری کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس رپورٹ کے بارے میں فی الحال کوئی بریفنگ نہیں دی گئی ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
بریگزٹ : برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا مسلسل ناکامی کا اعتراف
برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے کی توثیق کے لیے پارلیمان میں تیسری بار رائے شماری کے لیے انہیں مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ پارلیمان میں بحث کے دوران تھریسا مے نے کہا کہ تاہم وہ اس حوالے سے قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا مسلسل یہی یقین ہے کہ برطانیہ کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی معاہدے کے ساتھ جلد از جلد یورپی یونین سے علاحدگی اختیار کر لے۔ خیال رہے کہ تھریسا مے کی بریگزٹ سے متعلق سیاست پر ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کی کابینہ کے 11 وزرا مبینہ طور پر انہیں استعفے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار سنڈے ٹائمز نے تو بغاوت کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ اس بارے میں برطانوی جریدے سنڈے ٹائمز کے ایڈیٹر ٹم شپ مین نے ہفتے کی شب اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ مے کی کابینہ کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف ایک بغاوت پنپ رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس برطانوی صحافی نے ملکی کابینہ کے 11 ایسے وزرا کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیا، جو اب یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم تھریسا مے کو حکومتی سربراہ کے عہدے سے علاحدہ ہو جانا چاہیے۔
مختلف خبر رساں اداروں نے ٹم شپ مین کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا ہے کہ کابینہ کے ایک رکن نے جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، سنڈے ٹائمز کے اس مدیر کو بتایا کہ مے کا اختتام قریب ہے۔ وہ 10 روز بعد برطانیہ کی وزیر اعظم نہیں ہوں گی۔ دوسری جانب اختتام ہفتہ پر برطانیہ کی سڑکوں پر 10 لاکھ سے زائد افراد نے احتجاج کیا تھا اور ان کا بنیادی مطالبہ یورپی یونین سے انخلا پر دوبارہ ریفرنڈم کرانا تھا۔ برطانیہ میں بریگزٹ مخالف احتجاج نے شدت اختیار کرلی ہے۔ مظاہرین نے یورپی یونین کے حق میں درجنوں پوسٹر اور پرچم اٹھا کر احتجاج کیا۔
بشکریہ روزنامہ جسارت
↧
↧
گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم، ٹرمپ نے دستخط کر دیے
امریکا نے شام اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ کا سبب بنی گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے باضابطہ طور پر گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے اقدام کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ گولان سے متعلق امریکی فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب ایران شام میں فوجی اڈے قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاواروف نے گولان سے متعلق معاہدے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر شروع ہو جائے گی۔ ساتھ ہی شام نے گولان کی پہاڑیوں سے متعلق امریکی حکومت کے فیصلے کو اپنے ملک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ گولان کی پہاڑیاں شام اور اسرائیل کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے، جہاں اسرائیل نے 1967 کی 6 روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ گولان کی پہاڑیوں کو پانی کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے اور انہی پہاڑوں کے چشموں سے بہنے والے پانی سے اسرائیل کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ مستفید ہوتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
اپنی تنخواہ غریبوں میں بانٹ دینے والے ٹیچر کے لیے ایک ملین ڈالر انعام
مشرقی افریقی ملک کینیا کے ریاضی اور فزکس کے استاد کو دنیا کا بہترین استاد قرار دے دیا گیا۔ کینسا کے ساحلی صوبے رفت ویلے کے علاقے پوانی کے پسماندہ گاؤں میں پڑھانے والے 36 سالہ پیٹر تبیچی کو دبئی میں ہونے والے سالانہ ’گلوبل ٹیچر پرائز‘ میں بہترین استاد منتخب کیا گیا۔ یہ ایوارڈ ہر سال دبئی کی ’رکی فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے دنیا بھر کے ان استادوں کے لیے منعقد کیا جاتا ہے جو مشکلات کے باوجود احسن طریقے سے تعلیم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ رواں برس اس مقابلے میں دنیا بھر کے 180 ممالک کے اساتذہ نے درخواستیں جمع کرائی تھیں، جس میں سے دنیا بھر کے 50 اساتذہ کو فائنل کیا گیا تھا۔ بہترین استاد کے انتخاب کے لیے فائنل کے دوسرے راؤنڈ میں صرف 10 اساتذہ کو منتخب کیا گیا تھا جس میں فلسطین کی خاتون استاد سمیت یورپ و امریکی ممالک کے اساتذہ بھی شامل تھے۔
تاہم آخری مرحلے میں کینیا کے استاد 36 سالہ پیٹر تیبچی کو ’گلوبل ٹیچر پرائز‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔ رکی فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گلوبل ٹیچر پرائز کی تقریب 23 اور 24 مارچ کی درمیانی شب کو دبئی میں منعقد ہوئی جس کی میزبانی ہولی وڈ اداکار ہف جیکمین نے کی۔ ایوارڈ تقریب میں دبئی کے شہزادے شیخ حمدان بن محمد بن راشد المختوم سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی اور پیٹر تیبچی کو دبئی کے شہزادے نے ایوارڈ دیا۔ ایوارڈ جیتنے کے بعد پیٹر تیبچی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افریقی استادوں کے لیے ہر گزرتا دن نئے چیلنجز لاتا ہے اور وہاں کے استاد ہر روز نئے مسائل سے جنگ لڑ کر تعلیم کو جاری رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
پیٹر تیبچی کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ نہ صرف ان کی بلکہ افریقا کے ہر اس استاد کی خدمات کا اعتراف ہے جو مشکلات کے باوجود تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پیٹر تیبچی کا تعلق نہ صرف دیہی بلکہ کینیا کے پسماندہ ترین علاقوں سے ہے۔ پیٹر تیبچی سرکاری استاد ہیں اور انہیں ریاضی اور فزکس میں مہارت حاصل ہے۔ وہ اپنی تنخواہ کا 80 فیصد حصہ بے گھر اور غریب بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرتے ہیں۔ بہترین استاد کا یہ ایوارڈ ہر سال دبئی میں منعقد ہوتا ہے اور یہ ایوارڈ گزشتہ 5 سال سے منعقد کیا جا رہا ہے، اس ایوارڈ کو تعلیم کے شعبے میں نوبل انعام جتنی اہمیت حاصل ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
Inside Huawei
Huawei Technologies Co., Ltd. is a Chinese multinational telecommunications equipment and consumer electronics manufacturer, headquartered in Shenzhen, China. Ren Zhengfei, a former military engineer in the People's Liberation Army, founded Huawei in 1987. At the time of its establishment, Huawei focused on manufacturing phone switches, but has since expanded to include building telecommunications networks, providing operational and consulting services and equipment to enterprises inside and outside of China, and manufacturing communications devices for the consumer market. Huawei had over 170,000 employees as of September 2017, around 76,000 of them engaged in research and development (R&D). It has 21 R&D institutes in countries including China, the United States, Canada, the United Kingdom, Pakistan, Finland, France, Belgium, Germany, Colombia, Sweden, Ireland, India,[10] Russia, Israel, and Turkey. As of 2017 the company invested US$13.8 billion in R&D, up from US$5 billion in 2013.
Huawei has deployed its products and services in more than 170 countries, and as of 2011 it served 45 of the 50 largest telecom operators. Its networks, numbering over 1,500, reaches one third of the world's population. Huawei overtook Ericsson in 2012 as the largest telecommunications-equipment manufacturer in the world, and overtook Apple in 2018 as the second-largest manufacturer of smartphones in the world, behind Samsung Electronics. It ranks 72nd on the Fortune Global 500 list.[ In December 2018, Huawei reported that its annual revenue had risen to US$108.5 billion in 2018 (a 21% increase over 2017), surpassing $100 billion for the first time in company history.
Although successful internationally, Huawei has faced difficulties in some markets, due to allegations – primarily from the United States government – that its telecom infrastructure equipment may contain backdoors that enable unauthorised surveillance by the Chinese government entities (citing, in particular, its founder having previously worked for the People's Liberation Army). Cybersecurity concerns over Huawei intensified with the development of 5G wireless networks, with calls to prevent the company from providing equipment for them, and to prevent use of products by Huawei, or fellow Chinese telecom ZTE, by government entities. Several major U.S. wireless carriers, as well as retailer Best Buy, began to drop Huawei's products in early-2018, prompting Huawei to pull out of the market entirely due to unmarketability. The company has argued that its products posed "no greater cybersecurity risk" than those of any other vendor, and that there is no evidence of the U.S. espionage claims.
In 2017, Huawei began helping BYD build a standardized, smart factory. In December 2018, Huawei's vice-chairperson and CFO Meng Wanzhou was arrested in Canada on 1 December 2018, at the request of the United States, which accuses her of violating US sanctions against Iran. The U.S. Department of Justice filed formal charges of fraud, obstruction of justice, and theft of trade secrets against Huawei in January 2019.
The name Huawei may be translated as "splendid act" or "China is able". However, pronunciation of Huawei by non-Chinese varies in other countries, for example "Hua Way" or "How Wee" in the United States and "Hoe-ah-wei" in the Netherlands. The company had considered changing the name in English as it was concerned that non-Chinese may find the name hard to pronounce, but decided to keep the name, and launched a name recognition campaign instead to encourage a pronunciation closer to "Wah-Way" using the words "Wow Way".
During the 1980s, Chinese government tried to modernise the country's underdeveloped telecommunications infrastructure. A core component of the telecommunications network was telephone exchange switches, and in the late 1980s several Chinese research groups endeavoured to acquire and develop the technology, usually through joint ventures with foreign companies. Ren Zhengfei, a former deputy director of the People's Liberation Army engineering corp, founded Huawei in 1987 in Shenzhen. Rather than relying on joint ventures to secure technology transfers from foreign companies, which were often reluctant to transfer their most advanced technologies to Chinese firms, Ren sought to reverse engineer foreign technologies with local researchers. At a time when all of China's telecommunications technology was imported from abroad, Ren hoped to build a domestic Chinese telecommunication company that could compete with, and ultimately replace, foreign competitors.
During its first several years the company's business model consisted mainly of reselling private branch exchange (PBX) switches imported from Hong Kong. Meanwhile, it was reverse-engineering imported switches and investing heavily in research and development to manufacture its own technologies. By 1990 the company had approximately 600 R&D staff, and began its own independent commercialisation of PBX switches targeting hotels and small enterprises. The company's first major breakthrough came in 1993, when it launched its C&C08 program controlled telephone switch. It was by far the most powerful switch available in China at the time. By initially deploying in small cities and rural areas and placing emphasis on service and customizability, the company gained market share and made its way into the mainstream market. The company also developed collusive joint venture relationships with local authorities, whereby it would provide "dividends" to the local officials in exchange for their using Huawei products in the network. Ahrens writes that these methods were "unorthodox, bordering on corrupt," but not illegal.
In 1997, Huawei won a contract to provide fixed-line network products to Hong Kong company Hutchison Whampoa. Later that year, Huawei launched its wireless GSM-based products and eventually expanded to offer CDMA and UMTS. In 1999, the company opened a research and development (R&D) center in Bangalore, India to develop a wide range of telecom software. From 1998 to 2003, Huawei contracted with IBM for management consulting, and transformed its management and product development structure. After 2000, Huawei increased its speed of expansion into overseas markets, having achieved foreign sales of more than US$100 million by 2000 and establishing an R&D center in Stockholm, Sweden. In 2001, Huawei established four R&D centers in the United States, divested non-core subsidiary Avansys to Emerson for US$750 million and joined the International Telecommunications Union (ITU). By 2002, Huawei's foreign market sales had reached US$552 million.
Huawei has focused on expanding its mobile technology and networking solutions[buzzword] through a number of partnerships. In March 2003, Huawei and 3Com Corporation formed a joint venture company, 3Com-Huawei (H3C), which focused on the R&D, production and sales of data networking products. The company later divested a 49% stake in H3C for US$880 million in 2006. In 2005, Huawei began a joint venture with Siemens, called TD Tech, for developing 3G/ TD-SCDMA mobile communication technology products. The US$100 million investment gave the company a 49% stake in the venture, while Siemens held a 51% stake. In 2007, after Nokia and Siemens co-founded Nokia Siemens Networks, Siemens transferred all shares it held in TD Tech to Nokia Siemens Networks. At present, Nokia Siemens Networks and Huawei hold 51% and 49% shares of TD Tech respectively.
Courtesy : Wikipedia
Courtesy : Wikipedia
↧
نیوزی لینڈ : دنیا کا سب سے کم بدعنوان ملک
٭ نیوزی لینڈ کا کوئی حصہ سمندر سے 128 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں۔
٭نیوزی لینڈ میں جانور 95 فیصد اور انسان پانچ فیصد ہیں۔
٭ نیوزی لینڈ کا شمار دنیا کے سب سے کم بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔
٭ نیلسن لیکس نیشنل پارک میں واقع نیلی جھیل دنیا کی صاف ترین جھیلوں میں سے ہے۔
٭ نیوزی لینڈ میں سانپ نہیں پائے جاتے۔
٭ ملک کی تین سرکاری زبانیں ہیں، انگریزی، ماوری اور نیوزی لینڈ علامتی زبان۔
٭ دنیا کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والاپہلا فرد سر ایڈمونڈ ہلری کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا۔
٭ نیوزی لینڈ میں کسی دوسرے ملک کی نسبت پینگوئن کی سب سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔
٭ 1893ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق دینے والا پہلا ملک نیوزی لینڈ تھا۔
انتخاب: وردہ بلوچ
↧
↧
روس نے اپنے فوجی اور دفاعی آلات وینزویلا پہنچا دیے
روس اپنے پرانے حلیف کو بچانے کے لیے میدان میں آ گیا ہے۔ اپنے سو فوجی اور دفاعی آلات دو طیاروں کے ذریعہ وینزویلا پہنچا دیے گئے ہیں۔ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ وہ اور اس کے اتحادی روس کے رویہ کا محض تماشا نہیں دیکھیں گے۔ روس نے لاطینی امریکا میں زوردار انٹری دیتے ہوئے اپنے 100 فوجی، دفاعی آلات سمیت وینزویلا پہنچا دیے ہیں جس سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران روسی وزیر خارجہ سے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی روس کی اکسانے والی حرکتوں کا محض تماشا نہیں دیکھیں گے۔ دوسری جانب وینزویلا کے دارالحکومت کراکس سمیت ملک کے بیشتر حصہ بجلی معطل ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوب گئے ہیں۔ حکومت نے بحران کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے دیا ہے۔
↧
کیا امریکہ اور چین میں جنگ ممکن ہے؟
کچھ عرصہ پہلے تک چین کی ترقی کو بے ضرر کہا جاتا تھا، خیال تھا کہ معاشی ترقی چین کو اپنے سیاسی نظام میں تبدیلی پر مجبور کرے گی اور اس کا آمرانہ نظام لبرل نظام میں بدل جائے گا اور چین ایک ذمہ دار عالمی حصہ دار بن جائے گا۔ لیکن اب دن بدن چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی دونوں طاقتوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کی صورت میں بدل سکتی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ امریکہ میں ایک ایسے ماڈل کا ذکر ہو رہا ہے جو یونانی تاریخ دان توسیڈائیڈز کے نام کی مناسبت سے اسے تو سیڈائیڈز ٹریپ کہا جا رہا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر گراہم ایلسن کی کتاب‘ ڈیسٹائنڈ فار وار : کین امریکہ اینڈ چائنا آوائیڈ ٹوسیڈائیڈز ٹریپ’(Destined For War: Can America and China Avoid Thucydides Trap؟) ایک ایسی کتاب کی شکل دھار چکی ہے جو ہر پالیسی ساز، ماہر تعلیم اور صحافی کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ پروفیسر گراہم نے مجھے بتایا کہ توسیڈائیڈز ٹریپ ایک ایسے خطرناک عمل کا نام ہے جس میں ایک پرانی طاقت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اس کی جگہ لے لے گی۔ قدیم یونان میں جب سپارٹا کو ایتھنز سے خطرہ محسوس ہوا تو جنگ ہوئی۔ انیسویں صدی میں برطانیہ کو جرمنی سے خطرہ محسوس ہوا اور آج چین امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔
پروفیسر ایلسن نے پانچ سو برس کی تاریخ کو چھان کر سولہ ایسی مثالوں کی نشاندہی کی ہے جس میں ابھرتی ہوئی طاقتوں نے پہلے سے موجود طاقت کا سامنا کیا اور سولہ میں سے بارہ کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی رقابت عالمی تعلقات کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ تو کیا امریکہ اور چین توسیڈائیڈز ٹریپ سے بچ سکتے ہیں یا یہ محض ایک علمی بحث ہے ؟ چین کے مشہور نیول ماہر اور پیکنگ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اوشن ریسرچ کے پروفیسر ہو بو نے بتایا کہ طاقت کے موجودہ توازن میں توسیڈائیڈز ٹریپ کی تھیوری قابل یقین نہیں ہے۔ پروفیسر ہو بو کہتے ہیں کہ چین کی ترقی اچھی ہے لیکن اس کی موجودہ طاقت کا امریکی طاقت سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے اور چین زیادہ سے زیادہ بحرالکاہل میں کسی حد تک امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ بحرالکاہل میں دونوں ممالک کا آمنا سامنا دونوں طاقتوں کے مابین جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ کے نیول وار کالج کے سٹرٹیجی پروفیسر اینڈریو ارکسن کا کہنا ہے کہ چین کی موجودہ بحری طاقت کوئی زیادہ متاثر کن نہیں ہے لیکن وہ بہتر ہو رہی ہے۔ چین ایسے جدید جنگی بحری جہاز تیار کر رہا ہے جو یورپی جنگی جہازوں کی صلاحیت کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں چین کی بحری حکمت عملی دن بدن بااعتماد ہوتی جا رہی ہے۔ چین کی بحری طاقت امریکہ کو چین سے دور رکھنے کی پالیسی کے گرد گھومتی ہے۔ بیجنگ چاہتا ہے کہ امریکہ کی چین میں مداخلت کو مہنگا بنایا جا سکے۔ مثال کے طور پر چین چاہتا ہے کہ اگر وہ تائیوان میں طاقت کا استعمال کرتا ہے اور امریکہ چینی پانیوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے احساس ہو کہ اس دراندازی کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ لیکن امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا تعلق کچھ شخصیات سے بھی ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایشیا سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی الزبتھ اکانومی نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ چین کے ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو عالمی امور میں چین کے بڑے کردار کی خواہش کی علامت ہیں۔ الزبتھ اکانومی کے مطابق عالمی اداروں کو چینی اقدار کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے صدر شی کی کوششوں کو زیادہ توجہ نہیں ملی ہے۔ امریکہ بھی اپنی پوزیشن بدل رہا ہے۔ امریکہ چین اور روس کو ایسی طاقتیں تصور کرتا ہے جو اپنے نظریے پر غور کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی فوج چین کو اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ لیکن امریکہ میں ایک اور رجحان بھی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
واشنگٹن میں کچھ لوگوں نے روس کی طرح، چین کے ساتھ بھی سرد جنگ کی بات کی۔ لیکن امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے برعکس چین کے ساتھ سرد جنگ کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جو سوویت یونین کے ساتھ نہیں تھا۔ چین اور امریکہ کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جس سے سرد جنگ کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے اور وہ ہے ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں برتری۔ امریکہ اور چین کے مابین ہواوے ٹیلی کمیونیکیشن کا تنازعہ اس کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ ہواوے ٹیکنالوجی کو اپنے کمیونیکیشن نیٹ ورک میں استعمال ہونے پر پابندیاں عائد کر رہا ہے اور اپنے اتحادیوں پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔
امریکہ کی ہواوے ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کا تنازعہ اس امریکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ چین کے ٹیکنالوجی سیکٹر کو اپنے حقوق دانش اور رازوں کی چوری کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ سوچ کہ چین اگلے عشرے میں ایک غالب عالمی طاقت بننے کے لیے کوشاں ہے، اس کا انحصار چینی ترقی کی رفتار پر ہے۔ اس طرح کے اشارے ہیں کہ چونکہ آمریت کے سیاسی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی معاشی ترقی شاید ڈگمگا جائے۔ اگر چین کی معاشی ترقی سست ہو جائے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوں گے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس سے صدر شی کی حکمرانی کے قانونی جواز پر سوال اٹھیں گے جس پر قابو پانے کے لیے وہ قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے یا عالمی سطح پر زیادہ جارحانہ انداز اپنا سکتے ہیں۔
امریکہ اور چین کی رقابت حقیقی ہے اور یہ ختم نہیں ہو گی۔ کوئی ایک تزویراتی غلطی بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک ایک تزویراتی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یا تو دونوں کو ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا ورنہ دونوں ملک معاندانہ تعلقات کی جانب بڑھیں گے ۔ یہاں تو سیڈائیڈز ٹریپ واپس آ جاتا ہے ۔ لیکن پروفیسر ایلسن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ توسیڈائیڈز ٹریپ میں پھنسنا قسمت میں لکھا ہوا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب سفارت کاری کے بارے میں ہے قسمت کے بارے میں نہیں ہے ۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
پینٹاگون نے میکسیکو کی سرحدی دیوار کے لیے ایک ارب ڈالر کی منظوری دے دی
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے فوجی انجینئرز کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے ایک ارب امریکی ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد یہ پہلے فنڈز ہیں جو کہ کانگرس کو نظر انداز کر کے ان کی الیکشن مہم کے وعدے کے مطابق اس دیوار پر لگائے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی جنوبی سرحد پر معاملے کو ایک ’بحران‘ قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مجرموں کو امریکہ میں آنے سے روکنے کے لیے ایک دیوار کا بننا بہت ضروری ہے۔ ان کہ مخالفین کا کہنا ہے کہ انھوں نے بارڈر پر ہنگامی حالات خود ایجاد کیے ہیں۔
پینٹاگون کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری دفاع پیٹرک شیناہین نے ’ہو ایس آرمی کور آف انجینئرز کے کمانڈر کو اختیار دیا ہے کہ وہ ایک ارب امریکی ڈالر تک کے فنڈز اس مقصد کے لیے ڈپارمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی اور کسٹمز اینڈ بارڈر پٹرول کو متعین کیے جائیں۔ اس بیان میں ایک وفاقی قانون کا ذکر کیا گیا ہے جس کہ تحت ’ڈپارٹمنٹ آف ڈیفینس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ سڑکیں یا جنگلے بنائے اور روشنی کے انتظامات کرے تاکہ امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں بین الاقوامی سرحدوں پر منشیات کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔‘
امریکی میڈیا کے مطابق پیٹنا گون اور قانون سازوں کے درمیان ایسے فنڈز کے اختیارات کا معاملہ قانونی لڑائی کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ ڈیمو کریٹ سینیٹرز نے بھی شکایت کی ہے کہ پینٹاگون نے فنڈز جاری کرنے سے قبل متعلقہ کمیٹیوں سے اجازت نہیں لی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 فروری کو ایمرجنسی نافذ کی تھی جب کانگرس نے ان کی جانب سے سے سرحدی دیوار کے لیے 5.7 ارب ڈالر مہیا کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس ایمرجنسی کے باعث اب کانگرس کو بائی پاس کیا جا سکتا ہے اور عسکری فنڈز کے ساتھ دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ڈیمو کریٹس نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧