↧
چین نے بوئنگ 737 میکس 8 طیاروں کی پروازیں معطل کر دیں
↧
کیپ ٹاؤن : جنوبی افریقہ کا مشہور شہر
کیپ ٹاؤن ساحل سمندر پر واقع جنوبی افریقہ کا مشہور شہر ہے۔ آئیے اس سے متعلق کچھ انوکھی باتیں جانیں۔
قانون ساز دارالحکومت: جنوبی افریقہ کے تین دارالحکومت ہیں۔ کیپ ٹاؤن قانون ساز دارالحکومت ہے کیونکہ ملک کی پارلیمنٹ یہاں ہے۔ پریٹوریا اور بلوئم فونٹین انتظامی اور عدالتی دارالحکومت ہیں۔ صدر اور جنوبی افریقہ کی کابینہ پریٹوریا میں کام کرتے ہیں جبکہ نیشنل کورٹ آف اپیل بلوئم فونٹین میں ہے۔
قدیم شہر: کیپ ٹاؤن کو سترہویں صدی میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تعمیر کیا۔ اس تعمیر کا مقصد مشرق بعید اور ہندوستان سے ہونے والی بحری تجارت کی معاونت تھا۔ کیپ ٹاؤن بہت جلد ترقی کرتے ہوئے معاشی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ سونے کی دریافت سے قبل، جب جوہانسبرگ نے اہمیت اختیار کر لی، کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ کا سب سے بڑا شہر تھا۔
جغرافیائی تنوع: کیپ ٹاؤن شہر کے ساتھ اگر مضافاتی علاقے کو شامل کر لیا جائے تو یہ وہ شہر بن جاتا ہے جس کا جغرافیہ بہت متنوع ہے۔ اس شہر میں پہاڑ بھی ہیں، ساحل بھی، وادیاں بھی اور صحرا بھی۔
نیلسن منڈیلا کا قید خانہ: رابن جزیرہ، جس میں نسل پرست مخالف رہنما اور نوبیل انعام پانے والے نیلسن منڈیلا کو 18 برس قید رکھا گیا، کیپ ٹاؤن کے مغربی ساحل کے قریب واقع ہے۔ اب اس جزیرے کو یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل کر لیا گیا ہے اور یہاں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
نباتات کی جنت: کیپ ٹاؤن میں طرح طرح کے جاندار پائے جاتے ہیں۔ یہاں واقع ٹیبل ماؤنٹین میں نباتات کی 2200 انواع ہیں۔ اسی طرح شہر میں دیگر سیکڑوں انواع ہیں۔
وہیل کا نظارہ: اگر آپ سمندر میں وہیل کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو کیپ ٹاؤن شاندار مقام ہے۔ شہر کے ساحل پر دو انواع کی وہیل اچھلتے ہوئے اکثر دکھائی دیتی ہیں۔ ان دو کے علاوہ دیگر اقسام بھی اس ساحل سے گزرتی ہیں۔ ڈولفن کی ایک قسم ہیوی سائیڈ کہلاتی ہے جو کیپ ٹاؤن سے منسلک سمندر میں پائی جاتی ہے۔ یہ اور ڈَسکی ڈولفن کیپ ٹاؤن کے پانیوں میں نظر آتی ہیں۔ کیپ ٹاؤن کا ساحل افریقی پینگوئن کا قدرتی گھر ہے۔
دل کے ٹرانسپلانٹ کا پہلا آپریشن: دنیا میں دل کے ٹرانسپلانٹ کا پہلا آپریشن ڈاکٹر کرسٹیان برنارڈ نے 1967ء میں کیپ ٹاؤن میں کیا تھا۔ بدقسمتی سے مریض نمونیا ہونے کے باعث صرف 18 دن زندہ رہ پایا۔
محمد شاہد
↧
↧
چرنوبل : دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی حادثے کی داستان
یہ حادثہ چرنوبل نیو کلیئر پاور پلانٹ میں رات کے وقت میں اچانک پیش آیا تھا، جس سے فوری طور پر کم سے کم 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ میں حادثے سے بہت سارہ خطرناک تابکار مادہ ہوا میں خارج ہوا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے یوکرین سمیت یورپ کے دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
اس حادثے کی وجہ سے یورپ کے متعدد ممالک میں لاکھوں انسان کینسر اور سانس کی بیماریوں سمیت کئی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو گئے تھے اور اب تک ان علاقوں میں بیماریوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ چرنوبل نیو کلیئر پاور پلانٹ کے حادثے کے وقت یوکرین متحدہ روس یعنی سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس وقت چرنوبل نیو کلیئر پاور پلانٹ کے انتظامی معاملات سوویت فوج کے پاس تھے۔ بعد ازاں 1991 میں سوویت یونین بکھر گیا تو یوکرین سمیت کئی ریاستیں آزاد ممالک کی حیثیت میں وجود میں آئیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
طالبان نے ملا عمر کے خفیہ ٹھکانے کی تصاویر جاری کر دیں
افغان طالبان نے ملا عمر کے اس خفیہ ٹھکانے کی تصاویر جاری کر دیں، جہاں طالبان کے اس رہنما نے مبینہ طور پر اپنی زندگی کے آخری پانچ برس گزارے تھے۔ طالبان کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملا عمر سن دو ہزار تیرہ میں اپنے انتقال تک اسی خفیہ ٹھکانے میں مقیم رہے، جو مبینہ طور پر افغانستان میں تھا۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق ملا عمر گلاب کے پھولوں والے صحن میں دھوپ میں لیٹتے تھے۔ امریکا کے زومیا سینٹر نامی تھنک ٹینک نے ڈچ خاتون صحافی بیٹے ڈیم کی تحقیقات پر مبنی دستاویزات شائع کی تھیں، جن کے مطابق طالبان کے رہنما ملا عمر ایک عرصے تک افغانستان میں ایک امریکی فوجی اڈے کے انتہائی قریب رہائش پذیر رہے تھے۔
بیٹے ڈیم کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’سرچنگ فار این اینیمی‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملا عمر سن دو ہزار تیرہ میں اپنی وفات سے پہلے تک دراصل افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکا کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ اس کتاب کے مطابق وہ تقریباﹰ خفیہ زندگی گزار رہے تھے اور اپنے اہل خانہ سے بھی نہیں ملتے تھے۔ وہ اس دوران اپنی یادداشتیں بھی تحریر کرتے رہے تھے۔ اس ڈچ خاتون صحافی نے اپنی نئی کتاب کے لیے تقریباً پانچ برس تک تحقیق کی اور انہوں نے جبار عمری کا انٹرویو بھی کیا۔ جبار عمری ملا عمر کے محافظ تھے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہی کے ساتھ رہے تھے۔
اس کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ملا عمر بی بی سی پشتو کی شام کی سروس لازمی سنا کرتے تھے جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سن کر بھی انہوں نے بیرونی دنیا کو کوئی پیغام دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ ڈیم مزید لکھتی ہیں کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی حکومت نے ملا عمر کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر رکھ دی تھی جبکہ وہ اس وقت افغان علاقے قلات میں واقع ایک کمپاؤنڈ میں چھپے ہوئے تھے۔ جس گھر میں ملا عمر کی رہائش تھی، اس گھر میں رہنے والی فیملی کو بھی اس ’پراسرار مہمان‘ کی شناخت کا علم نہیں تھا۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں سختی سے ایسے دعووں کی تردید کی گئی ہے کہ ملا عمر افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہمارے پاس ایسے کافی شواہد ہیں کہ وہ پاکستان میں رہے اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا۔‘‘
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بوئنگ 737 کو گراؤنڈ کرنے کا حکم
ایتھوپیا میں طیارہ حادثے کے بعد امریکا نے بھی بوئنگ سیون تھری سیون میکس اور نائن طیارے گراؤنڈ کر دیے ہیں ۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ طیارے فوری طور پر گراؤنڈ کیے جارہے ہیں، ٹرمپ کے اعلان پر کچھ ہی دیر میں امریکی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی نے ہنگامی حکم نامہ جاری کر دیا۔ امریکی ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق ایتھوپیا میں حادثے کے مقام سے جمع شواہد اور سیٹلائٹ سے حاصل ڈیٹا کی روشنی میں طیارے گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے امریکی ایوی ایشن ریگولیٹر نے طیارے گراؤنڈ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ طیارے کی کارکردگی میں کوئی خرابی نہیں۔ واضح رہے کہ ایتھوپیا میں بوئنگ 737 میکس طیارہ گرنے سے تمام 157 مسافر ہلاک ہو گئے تھے، پانچ ماہ میں طیارے کو پیش آنے والا یہ دوسرا مہلک حادثہ تھا، امریکا سے پہلے چین، ایتھوپیا، انڈونیشیا، سنگاپور، آسٹریلیا، عمان، فرانس اور بھارت سمیت کئی ممالک بوئنگ 737 میکس طیارے گراؤنڈ کرنے یا اس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
↧
↧
ملک شام جو بچوں کا ’مقتل‘ بن گیا، شامی بچوں کا ناقابل بیان المیہ
یورپی دارالحکومت برسلز میں جاری ’تیسری عالمی ڈونر کانفرنس برائے شام‘ کے موقع پر یونیسف کی جاری کردہ اپیل کے مطابق 1106 ہلاکتوں کے ساتھ 2018 شامی بچوں کے لیے بدترین سال تھا۔ یونیسف کی اپیل شام کے متحارب فریقوں، ہمسایہ ممالک (اردن، مصر، عراق، لبنان اور ترکی)، ہنگامی اور طویل المدتی انسانی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں اور حکومتوں کو متنبہ کرتی ہے کہ شام کے بچے پہلے سے زیادہ مشکل صورت حال کا شکار ہیں۔ 2018 اس حوالے سے بدترین سال تھا کہ جب 1106 بچے جنگ کا ایندھن بن گئے۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ یہ صرف ان بچوں کی تعداد ہے جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کر پائے ہیں ورنہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
2018 میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر 262 حملے ہوئے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
شام کے لیے یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کے مطابق، ’بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ برس 434 بچے ہلاک اور شدید زخمی ہوئے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں شمال مغربی شام میں تقریبا 59 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرق میں واقع الہول کیمپ میں 65000 لوگ موجود ہیں جن میں 240 لاوارث بچے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، باغوز سے کیمپ تک 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے 60 بچے ہلاک ہو گئے۔‘ رپورٹ کے مطابق، 26 لاکھ شامی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں جو اتنی بڑی آبادی کو رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہیں.
لہذا چائلڈ لیبر، جنسی استحصال، اغوا اور نوعمری میں شادی جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یونیسف نے ڈونر کانفرنس سے اپیل کی ہے کہ بچوں کے مفادات کو ترجیح دی جائے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کرتے ہوئے یہ مت دیکھا جائے کہ ان کا خاندان کس فریق سے تعلق رکھتا ہے۔ شام کے مصیبت زدہ خاندانوں اور ان کے بچوں کی ہنگامی اور طویل المدتی امداد اور بحالی کے لیے موجودہ سطح سے کہیں زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے۔
شام کی جنگ دراصل بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے
مزکورہ بالا رپورٹ جاری کرنے والے، یونیسف کے دفتر برائے یورپی یونین کو ڈی ڈبلیو اردو نے چند سوالات ارسال کیے جن کے تحریری جواب کا خلاصہ درج زیل ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا شام کی جنگ کے متحارب فریقین، ہمسایہ ممالک اور مغربی ممالک شامی بچوں کی صورت حال کا ادراک رکھتے ہیں؟
یونیسف: حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے شام کا ہر بچہ متاثر ہوا ہے۔ ادراک سب کو ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے۔ شام میں 57 لاکھ بچوں اور 70 لاکھ بالغ افراد کو فوری امداد درکار ہے اور یہ کام ہنگامی بنیادوں اور اجتماعی طور پر ہونا چاہیے۔ بچوں کی ایک غالب تعداد ذہنی صدمے سے دوچار ہے جس کے دور رس اور مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ یونیسف اور اس کی ساتھی تنظیموں نے شام کے 377000 بچوں کو نفسیاتی علاج کی مدد فراہم کی ہے لیکن بحران بہت بڑا ہے۔ اسی طرح تحفظ اطفال پروگرام میں بارودی سرنگوں سے متاثرہ بچوں کی مدد اور اس حوالے سے دیگر بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی گئی جس سے 1,168,000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ شامی پناہ گزینوں کے مہمان ممالک میں بھی بچوں پر تشدد، جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، نو عمری کی شادیوں وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے کام کیا گیا جس سے 381000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ اسی طرح 68000 بچوں کو خصوصی نگہداشت فراہم کی گئی۔
ڈی ڈبلیو: حقوق طفلاں کا اعلامیہ جنگ زدہ بچوں کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟
یونیسیف: 1989 میں جب یہ اعلامیہ منظور کیا گیا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ بچوں کے مفادات پر کسی بھی صورت حال میں سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے آج ان قوانین اور اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ شام کی جنگ کا ہر فریق بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ درحقیقت یہ جنگ بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران ہر لمحہ بچے کے حق تحفظ کو پامال کیا گیا ہے۔ کچھ اس جنگ کے فریق ہیں، کچھ بلواسطہ طور پر کسی فریق کو مدد اور حمایت فراہم کر رہے ہیں اور کچھ دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، تو شام کے بچوں کے مجرم ہم سب ہیں۔ ہم سب ان قدروں، اصولوں اور قوانین کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں جن پر غیر مشروط عمل درآمد معاشروں، حکومتوں، ریاستوں اور عالمی برادری پر لازم ہے۔
ڈی ڈبلیو: سینکڑوں شامی بچوں کی گمشدگی کے بارے میں یونیسف کا موقف کیا ہے؟
یونیسیف: اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2013 سے 2018 تک شام کے 693 بچے اغوا ہوئے ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ جنگ میں فریقین ایک دوسرے کے بچوں کو اغوا کر کے شدید تشدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر اوقات بچوں کا اغوا دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات زبردستی جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یونیسف اپیل کرتا ہے کہ ان بچوں کی فوری رہائی، والدین سے ملاپ، نفسیاتی اور جسمانی بحالی ہونی چاہیے۔
شامی بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے
برسلز میں جاری عالمی ڈونر کانفرنس میں شریک، بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم شامی تنظیم سے وابستہ، ریاض نجم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی مسائل کا شکار ہو چکی ہے خصوصا بے گھری اور پناہ گزینی کا شکار ہونے والے بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے۔ لاکھوں بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور جنگ نے ان کے دل و دماغ میں گہرا خوف پیدا کر دیا ہے۔ یہ بچے اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ سے دوری کا کرب سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر، شہر ، گاؤں اور اسکول تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ بچے ناامیدی اور یاسیت کا شکار ہو چکے ہیں، کچھ بے خوابی کا شکار ہیں، کچھ اچانک چیخنے لگتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہو چکے ہیں۔
جنگ زدہ علاقوں اور کیمپوں میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ معروف عالمی تنظیم کاریتاس جرمنی کے فونسوا لانج کا کہنا تھا کہ شام کی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کو مہاجرت اور بے گھری کا سامنا ہے۔ یہ لوگ بہت بری صورت حال میں، سہولیات سے محروم پلاسٹک کی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ شام کے بچے امید کھو چکے ہیں۔ اسکول ہوں یا کھیل کے میدان، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ بہت سے بچے دوران پیدائش یا نہایت کم عمری میں مر جاتے ہیں کیونکہ تربیت یافتہ دائیوں، صفائی ستھرائی اور بنیادی ادویات جیسی سہولیات میسر نہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کھانے کو خوراک ہی نہیں۔
بشکریہ DW اردو
↧
افغانستان سےغیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق مسودے پراتفاق ہو گیا
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا میراتھن راونڈ مکمل کر لیا ہے، جب کہ انسداد دہشتگردی اور غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق مسودے پر اتفاق بھی ہو گیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے مابین جاری افغان امن مذاکرات کا پانچواں دورختم ہو گیا ہے، لیکن دونوں فریقین کا کسی حتمی نکتے پر اتفاق نہیں ہو سکا، تاہم طالبان اور امریکا نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ افغان مفاہمتی عمل کے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے سوشل میڈیا پر پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا میراتھن راونڈ مکمل کر لیا ہے، مذاکرات میں انسداد دہشت گردی،غیر ملکی افواج کے انخلاء، جنگ بندی اور انٹرا افغان ڈائیلاگ پر بات ہوئی، جب کہ انسداد دہشتگردی اور غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق مسودے پر بھی اتفاق ہو گیا ہے۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امن کی شرائط میں بہتری آئی ہے، دونوں اطراف کےلوگ جنگ ختم کرنے کےخواہشمند ہیں، تاہم امن کے لیے افغانوں میں مذاکرات، انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور جامع جنگ بندی پرمعاہدہ درکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوری کے مذاکرات میں ان چار نکات کے اصولوں پر بات کی تھی، اور اب تیار ہونے والے ڈرافٹ میں ان میں سے پہلے دو نکات پراتفاق ہوا ہے۔ دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق 16 روز کی ملاقاتوں میں کئی نکات پرمعاہدے کی دستاویزات انگریزی اورافغان زبان میں تیار کی گئی ہیں، معاہدے پرفریقین نے دستخط نہیں کیے۔ زلمے خلیل زاد امریکی صدر ٹرمپ اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے، اور رواں ہفتے ہی امریکی نمایندہ خصوصی کا امریکا واپس جانے کا امکان ہے۔
↧
ایپل کمپیوٹر اور آئی فون کا بانی سٹیو جابز : بد ترین ناکامی پر فتح
1973ء میں 18سال کی عمر میں نوکر ی کی تلاش میں در بدر پھرنے والے نوجوان کی ایک صفحاتی درخواست 2 کروڑ 37 لاکھ روپے (174757 ڈالر) میں فروخت ہوئی۔ لندن کے نیلام گھر میں فروخت ہونے والی یہ درخواست غلطیوں سے بھرپور تھی۔ درخواست گزار کے پاس تعلیم تھی نہ گھر۔ گھر کا پتہ بھی اس نے اپنے سابقہ ریڈ کالج کا لکھا جہاں سے وہ پہلے ہی سمسٹر کے بعد 1972ء میں نکالا جا چکا تھا۔ کھانے کو پیسے نہ تھے، فیس کہاں سے دیتا۔ وہ کالج کے دوستوں کے ساتھ کیمپس میں چھپ چھپا کر علم حاصل کرتا رہا۔ درخواست میں جگہ جگہ کومہ اور فل سٹاپ کی غلطیاں تھیں۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے کالج کا نام بھی غلط لکھا۔ کئی دوسرے الفاظ کے ہجے بھی غلط تھے۔
اپنی مہارت بتایئے؟ اس خانے میں لکھا، ’’ ڈیزائن انجینئر ‘‘۔ انجینئرنگ کے ہجے بھی درست نہ تھے، گرائمر کی ٹانگ توڑتے ہوئے اس نے بلا جواز کومے، فل سٹاپ اور سلیش لگا دئیے۔ یونیورسٹی کا نام بھی غلط لکھا۔ اس نے لکھا کہ اسے’’کمپیوٹر اور کیلکولیٹر میں خصوصی مہارت حاصل ہے۔ اس نے لکھا کہ ’’میں الیکٹرانک ٹیک ہوں یا شاید ڈیزائن انجینئر ڈیجیٹل ہوں‘‘۔ انجینئر کے بعد فل سٹاپ لگا دیا۔ ایک اور جگہ اس نے اپنے آپ کو ’’ڈیزائن ٹیک‘‘ بھی لکھا۔ اس نے لکھا کہ اس کے پاس ’’ڈرائیونگ لائسنس ہے مگر فون کوئی نہیں‘‘۔ اس کے ماں باپ مالی اعانت کو تیار نہ تھے، وہ کالج میں استاد کے لیکچرز بہت غور سے سنا کرتا تھا، استاد جو کہتا، وہ سب کچھ ازبر کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر کیا کرتا، گرائمر اسے کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ وہ ہجے ہمیشہ بھول جاتا۔ پھر بھی اس کی یہ درخواست 1 لاکھ 74ہزار ڈالر میں کیسے فروخت ہو گئی؟
اس لئے کہ بے روزگاری سے تنگ اس نوجوان نے اپنا مستقبل آپ بنانے کی کوشش کی۔ کئی جگہ سے ٹھکرایا جانے والا یہ شخص اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک دن بہت بڑا آدمی بن گیا۔ یہ درخواست لکھے جانے کے دو برس بعد اسے Atari کمپنی میں نوکری مل گئی ۔ اس نے 1976ء میں اٹاری میں اپنے ایک ساتھی سٹیو وزنائک کی مدد سے کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ پھر وہ اتنا بڑا انسان بن گیا کہ آج اربوں لوگ اس کی محنت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ کل کا نالائق سمجھا جانے والا یہ شخص علم کی دنیا میں انقلاب لانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں، ایپل کمپیوٹر اور آئی فون کا بانی سٹیو جابز تھا۔ اس نے سٹیو واز نچ کے ساتھ مل کر ایپل کمپیوٹر کی بنیاد رکھی ۔
اس کا کاروبار بڑھتا چلا گیا۔ کچھ نیا کرنے کے لئے کامیابی کا انتظار کرنا ضروری نہیں۔ نوکری ملے نہ ملے، انتھک کام کرتے جائو، سب کچھ تمہارے قدموں میں آ جائے گا۔ 1973ء میں نوکری کی تلاش میں در بدر پھرنے والے سٹیو جابز نے 2007ء میں آئی فون ایجاد کیا۔ اس نے اپنے ایک اور دوست کے ساتھ مل کر ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اسٹیوفورڈ یونیورسٹی میں ایک مرتبہ لیکچر دینے گیا۔ کہتا تھا کہ دوران تعلیم فیسیں زیادہ تھیں، میں پڑھ نہ سکا۔ لیکن میکن ٹوچ کے پروفیسر کی باتیں میں بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ گھر تھا نہیں۔ نیلام گھر کمپنی کا مالک آر آر کہتا ہے کہ یہ درخواست آئی ٹی گروپ نے صرف اس لیے خریدی کہ انسان اپنے بل بوتے پر اپنی محنت سے بد ترین ناکامیوں پر فتح پا سکتا ہے۔ اس کا ذہن شکست خوردہ نہیں ہونا چاہیے۔
انجینئررحمیٰ فیصل
↧
میکسیکو سرحدی دیوار کے خلاف کانگریس کی قرارداد صدر ٹرمپ نے ویٹو کر دی
اپنے دورہٴ صدارت کا پہلا ویٹو استعمال کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے اعلان کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ صدر نے امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کے اعلان کا دفاع کرتے ہوئے کانگریس کے اقدام کو معطل کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے اول آفس میں اس خصوصی حکم نامے پر دستخط کیے۔ صدر نے کہا کہ ’’کانگریس کے پاس قرارداد منظور کرنے کی آزادی ہے، جب کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں اُسے ویٹو کروں‘‘۔ خصوصی حکم نامے پر دستخط کے وقت قانون کا نفاذ کرنے والے اہلکار اور ساتھ ہی اُن بچوں کے والدین بھی موجود تھے جنھیں امریکہ میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے جرائم پیشہ افراد نے ہلاک کیا تھا۔
ٹرمپ نے کانگریس کے اقدام کو ’’خطرناک‘‘ اور ’’ناعاقبت اندیشی‘‘ پر مبنی قرار دیا۔ کانگریس نے صدر ٹرمپ کے قومی ایمرجنسی کے اعلان کو باضابطہ طور پر مسترد کیا تھا، جس میں سرحد کی تعمیر کے لیے رقوم مختص کی گئی تھیں، جب کہ سینیٹ نے اس انتظامی حکم نامے کو 41 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے نامنظور کیا۔ سینیٹ میں قرارداد کی منظوری کے لیے ڈیموکریٹس کا ساتھ ایک درجن ریپبلیکنز نے دیا تھا۔ کئی ہفتے قبل، ایوان نے جماعتی بنیاد پر اقدام کو منظور کیا۔ ٹرمپ کی جانب سے ویٹو کے استعمال کے بعد اب یہ معاملہ پلٹ کر کانگریس واپس ہو گیا ہے، جہاں ممکن نہیں لگتا کہ ویٹو پر حاوی پایا جا سکتا ہے۔ صدر کے ویٹو کو مسترد کرنے کے لیے دونوں، ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی.
↧
↧
New Zealand pays tribute to victims of Christchurch attack
The Christchurch mosque shootings were two consecutive terrorist mass shootings at Al Noor Mosque and the Linwood Islamic Centre in Christchurch, New Zealand, during Friday prayers on 15 March 2019. The attacks resulted in 50 people killed and at least 50 injured. The suspected perpetrator was arrested and charged with murder. The first attack was live streamed on Facebook Live.
The attacks began at the Al Noor Mosque in Riccarton, a suburb of Christchurch, at 1:40 p.m. on 15 March 2019 and continued at the Linwood Islamic Centre at about 1:55 p.m. Early reports spoke of "a multiple, simultaneous attack", but later on one suspect was charged for the "planned" murder at both mosques.
A gunman began shooting worshippers at the Al Noor Mosque on Deans Avenue, Riccarton, at around 1:40 p.m. He was described in media reports as a 28-year-old Australian white supremacist who used neo-Nazi symbols. Between three to five hundred people may have been inside the mosque, attending Friday prayers, at the time of the shooting. A neighbour of the mosque told reporters that he witnessed the shooter flee the mosque and drop what appeared to be a firearm in the driveway while he fled. The neighbour said that the shooter appeared to be wearing military-style clothes. After the shooting ended, the neighbour went inside to help the victims.
The gunman live streamed the first 17 minutes of the attack on Facebook Live, starting with the drive to the mosque and ending with the drive away. Moments before the shooting, the perpetrator—seated in his car—played both a traditional marching song of the British military called "The British Grenadiers" and "Serbia Strong", a Serb nationalist song from the Bosnian War (1992–1995) celebrating Radovan Karadžić, who was found guilty of genocide against Bosnian Muslims. Just before the shooting, the gunman appeared to be greeted by one of the worshippers, who said "Hello, brother" and was amongst the first people to be killed. The live streamed footage also showed that the gunman shot at other people in the area, before driving away, having spent about six minutes at the mosque. The footage stopped as he was driving along Bealey Avenue, heading in the direction of the Linwood Islamic Centre. Police were alerted to the shooting at 1:53 p.m.
Linwood Islamic Centre
A second shooting occurred at about 1:55 p.m. at the Linwood Islamic Centre, a mosque 5 kilometres (3.1 mi) away from Al Noor. Seven people were killed there. The mosque's acting imam Latef Alabi credited a worshipper named Abdul Aziz for stopping the attack before the gunman could enter the mosque; at that point, the gunman had already shot several people outside the mosque. Aziz related the following account in interviews: hoping to distract the gunman from attacking people in the mosque, he grabbed a credit card reader and ran out from the mosque shouting: "come here!" As the gunman retreated to his car, Aziz threw the machine at him. The gunman obtained another firearm and fired at Aziz, who took cover among the cars and retrieved an empty shotgun the gunman had dropped. When the gunman returned to his car again, Aziz threw the shotgun and shattered a car window, causing the attacker to curse and drive away, despite Aziz's efforts to chase him.
Explosive devices
Two improvised explosive devices were found attached to a vehicle and were subsequently defused by the New Zealand Defence Force. No explosives were found on the gunman.
The attack killed 50 people—42 at Al Noor Mosque, seven at the Linwood Islamic Centre and one who died in Christchurch Hospital. The age range of the victims was 2 at the youngest, with the oldest being 71. From Police Commissioner Mike Bush's update, as of 10:00 a.m. on 17 March 2019, 50 people were injured, 36 people were being treated for gunshot wounds at Christchurch Hospital, two of whom were in a serious condition, with one child at Starship children's hospital in Auckland.
In the wake of the attacks, dozens of people remain missing and several diplomatic offices and foreign ministries released statements concerning the number of victims from their nations. The police have requested registration of missing people or those listed as missing identifying themselves to be safe be done online. A list of missing people has been published by New Zealand Red Cross, and includes nationals of Afghanistan, Bangladesh, India, Jordan, Pakistan and Saudi Arabia.
Brenton Harrison Tarrant, a 28-year-old Australian, is suspected of carrying out the attack. He was arrested on Brougham Street by two "rural community" police officers 36 minutes after the first emergency call.Mobile phone footage showed his car had been rammed against the kerb by police before his arrest at gunpoint. Prime Minister Jacinda Ardern stated that he had been planning to continue the attack. He appeared in the Christchurch District Court on 16 March, where he was charged with murder and remanded in custody. During his court appearance, he smirked at the media and made an OK gesture. The case was transferred to the High Court, with his next appearance scheduled for 5 April 2019.
Tarrant recorded his beliefs in a 73-page manifesto titled "The Great Replacement", a reference to the Great Replacement and white genocide conspiracy theories. It expresses several anti-immigrant sentiments including hate speech against migrants, white supremacist rhetoric, and calls for non-European immigrants "invading his land" to be removed. Tarrant describes himself as an ethno-nationalist. Nine minutes before the attacks, Tarrant sent the manifesto by email to over 30 recipients, including the Prime Minister's office. He also shared links to the manifesto on Twitter and 8chan immediately before the attack. He said he began planning an attack two years earlier and chose the Christchurch location three months earlier. He stated that he targeted Muslims as a form of “revenge against Islam for 1,300 years of war and devastation that it has brought upon the people of the West and other peoples of the world.”
↧
الحمرا : جس کی تعمیر اپنی مثال آپ تھی
آٹھویں ویں صدی میں جب عرب والے یورپ میں پہنچے تب وہ اپنے ہمراہ تہذیب اور جنگ دونوں لے کر آئے۔ ان کے سائنس دانوں نے ریاضی، کیمسٹری اور علم فلکیات اور آرٹسٹوں نے ایسا طرز زندگی متعارف کروایا جس سے قرون وسطیٰ کے لوگ نا آشنا تھے۔ انہوں نے ایسا طرز زندگی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔عربوں نے کئی ایک خوبصورت مقامات تعمیر کئے۔ ان خوبصورت مقامات میں غرناطہ کا الحمرا ایک انتہائی خوبصورت ترین مقام تھا۔ یہ تعمیر اپنی مثال آپ تھی۔ عیسائیوں نے اسپین فتح کرنے کی جنگ کے دوران جب عربوں کے دارالحکومت پر قبضہ جما لیا تب عربوں نے غرناطہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا اور شہر کو عرب طرز تعمیر میں ڈھالنا شروع کر دیا۔
سو سال سے بھی کم عرصے میں وہ اس شہر کو گنوا بیٹھے اور فرڈی نند اور ازابیلا کی افواج نے ان سے یہ شہر چھین لیا۔ یہ واقعہ 1492ء میں پیش آیا۔ اس وقت آخری عرب حکمران بوب دل تھا۔ اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود الحمرا کو نظر انداز کر دیا گیا اور شہنشاہ چارلس V نے اس کے کئی ایک حصوں کو تباہی و بربادی سے دو چار کر دیا۔ وہ اسے اٹلی طرز تعمیر میں ڈھالنا چاہتا تھا اور یہ طرز تعمیر کبھی بھی اپنی تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ تا ہم اس کا کافی زیادہ حصہ محفوظ رہا جو دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
الحمرا ایک فوجی قلعے پر مشتمل ہے جس کی دیواریں اور مینار سرخ پتھروں سے تعمیر کئے گئے تھے اور انہی سرخ پتھروں کی وجہ سے اس کو الحمرا کا نام دیا گیا تھا۔ عربی میں الحمرا کا مطلب ہے ’’سرخ قلعہ‘‘۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ الحمرا گلاب کے پھولوں، نارنگیوں، حنا اور خوشبودار پودوں کیلئے مشہور ہے جو فضا کو خوشبو سے معطر کرتے ہیں بالخصوص رات کے وقت فضا خوشبو سے ازحد معطر محسوس ہوتی ہے۔ الحمرا کی خوبصورتی قابل دید ہے۔
شاہدہ لطیف
↧
مائونٹ فیوجی : جاپان کا سب سے بلند اور خوبصورت پہاڑ
مائونٹ فیوجی جاپان کا سب سے بلند اور خوبصورت پہاڑہے۔ یہ اسی ہونشو جزیرے پر واقع جس جزیرے پر ٹوکیو آباد ہے۔ اس پہاڑ کی بلندی 12388 فٹ ہے اور اس پہاڑ کا ٹوکیو سے فاصلہ 100 کلو میٹر یعنی 62 میل ہے۔ یہ مجموعی طور پر 78 میل لمبا ہے اور اس کا قطر 30 میل ہے، جبکہ اس کے دہانے کا قطر 1600 فٹ اور گہرائی 820 فٹ ہے۔ یہ ٹوکیو شہر سے جنوب مغرب کی سمت واقع ہے۔ فیوجی پہاڑ کو فیوجی یاما بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ٹوکیو شہر بلکہ یوکوہاما سے بھی نظر آتا ہے۔ ٹوکیو سے اوسا کا جانے والی ریلوے لائن مائونٹ فیوجی کے قریب ہی سے گزرتی ہے۔ مائونٹ فیوجی کی چوٹی سال میں زیادہ تر برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ جس سے اس کی خوبصورتی میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ سیاح اس کی خوبصورتی کو کیمرے میں محفوظ کر لیتے یں۔
یہ پہاڑ دُنیا کے مشہور 35 پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس پہاڑ کو جاپان میں ایک مقدس پہاڑ کا درجہ بھی حاصل ہے۔ شنتو اور بدھ مت کے ماننے والے اس پہاڑ پر عبادت کی غرض سے بھی آتے ہیں۔ مائونٹ فیوجی کو جاپان کے کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو، پینٹنگ، شاعری، لوک کہانیاں سب ہی مائونٹ فیوجی کے ذکر کے بغیر نامکمل ہیں۔ اکثر فلمو ں میں مائونٹ فیوجی کو فلمایا جاتا ہے۔ مائونٹ فیوجی ایک خفتہ آتش فشاں پہاڑ ہے۔ آخری دفعہ یہ پہاڑ دسمبر 1707 ء میں پھٹا تھا۔ لیکن ماہرین ارضیات کے مطابق اس کو مردہ آتش فشاں پہاڑوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ایک خفتہ ( سویا ہوا) پہاڑ ہے۔ ہر سال تقریباً ایک لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
فقیر اللہ خان
↧
چین نے جرمنی پر برتری حاصل کر لی ہے
شاید یورپی یونین کیلئے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے سب سے بڑا جغرافیائی مسئلہ چین کے ساتھ مستقبل کے تعلقات ہیں۔ گزشتہ ہفتے جرمن کے بزنس میگزین نے رپورٹ دی کہ چانسلر اینگلا مرکل کے سینئر حکام نے انسداد جاسوسی معاہدے کی کوشش کیلئے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح کے معاہدوں کی عموما کاغذٰ پر تحریر اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ اس دورے کا سیاق و سباق چین کی ٹیلی کمیونیکشن سامان ساز کمپنی ہووائے کی جانب سے جرمنی میں ففتھ جنریشن موبائل لائسنس کیلئے درخواست تھی (جس کا فیصلہ رواں ماہ کسی تاریخ کو ہونا ہے)۔ جاسوسی نہ کرنے کا معاہدہ جرمنی کو یہ ظاہر کرنے کی اجازت دے گا کہ اسے چین سے سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات کافی دلچسپ ہیں۔ چین کے بارے میں جرمنی تذبذب کا شکار ہے۔ اسے چین کی ہواوئے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے موبائل فون آپریٹرز ہواوئے کی فائیو جی درخواست پر خاص طور پر کافی آرزومند ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے نیٹ ورکس میں چینی کمپنی کے ہارڈویئر استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم جرمنی بھی اس کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے والی چینی کمپنیوں کے بارے میں فکرمند ہے۔ گزشتہ دسمبر نئے قانون نے ایکویٹی اسٹیک کی حد میں کمی کر دی جو خودکار طریقے سے تحقیقات کو متحرک کرتا ہے۔ وزیر اقتصادیات پیٹر الٹمیئر نے چینی مہارت سے ایئر کرافٹ، فنانس، ٹیلی کمیونیکشن، ٹرین، انرجی اور روبوٹکس سمیت تمام شعبوں کی حفاظت کیلئے حال ہی میں نئی صنعتی حکمت عملی پیش کی۔
پرتگال کے سابق یورپی وزیر نے اپنی حالیہ کتاب میں نوٹ کیا کہ چین اور جرمنی کے تعلقات بدرجہ غایت بدل گئے ہیں۔ جرمنی جو پہلے کبھی چین کو اپنی مشینری کی برآمدات کے لئے ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتا تھا جس کے ساتھ چین اپنی صنعتی بنیاد تیار کرے گا۔ آج، چین تعلقات میں ایک سینئر پارٹنر بن رہا ہے۔ کار کی صنعت اہمیت کی حامل بننے جا رہی ہے۔ یہ جرمنی کی ماضی کی کامیابی اور چین کی مستقبل کی خوشحالی کا ذریعہ ہے۔ تاہم دونوں اطراف مخالف مفادات رکھتے ہیں۔ ڈیزل ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار نے جرمن کو کار انڈسٹری میں برقی بیٹریوں اور مصنوعی انٹیلی جنس میں تاخیر سے سرمایہ کاری کرنے والا بنا دیا۔ برونو میکیس نے نوٹ کیا کہ چین نے ایک مختلف کھیل کھیلا ہے۔ چین ابتدائی طور پر پیداواری پلانٹس کو محفوظ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ پوری الیکٹرک کار ویلیو چین کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
ایسا کرنے کے لئے چین نے بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی لازمی دھات کوبالٹ کی عالمی سپلائی کے بڑے حصے کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔
دونوں ممالک میں کافی کچھ مشترک ہے۔ دونوں بڑے پیمانے پر بیرونی بچت کے اضافے کے ساتھ برآمدات پر انحصار کرنے والی معیشتیں ہیں۔ تاہم جرمنی کی اقتصادی حکمت عملی تقریبا مستقل نہیں ہے۔ جرمنی کی سیاسی ترجیح یہ ہے کہ عوامی قرض کو کم کیا جائے۔ اس وقت تک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے۔ حد سے زیادہ مالی استحکام سڑکوں، ٹیلی کام نیٹ ورکس اور دیگر نئی ٹیکنالوجیز میں کم سرمایہ کاری کا بنیادی سبب رہا ہے۔
جرمنی اپنے دفاعی شعبے میں بھی کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔ وزیر دفاع ارسولا وین ڈیر لین نے حال ہی میں دفاعی بجٹ 2023 تک مجموعی ملکی پیداوار کا موجودہ 1.3 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد بڑھانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ لیکن وزیر خزانہ اولف شلز نے اس پر اعتراض کیا۔ یہ ضمنی واقعہ بنیادی یورپی مسائل کا علامتی مظہر ہے: چین کے برعکس اقتصادی پالیسی، صنعتی پالیسی اور خارجہ و سیکیورٹی پالیسی ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ ہواوئے کی فائیو جی کی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین سیکیورٹی اور صنعتی پالیسی کے درمیان ربط کے ساتھ نبٹنے کے لئے اچھی طرح سے تیار نہیں ہے۔ اور نہ ہی یورپ نے ان کے مالیاتی قوانین کے اثرات پر بہت توجہ دی ہے اور نہ ہی کم از کم دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیوں پر۔ اس کے برعکس چین کا اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ مربوط نکتہ نظر ہے۔
چین تجارتی اشیاء کی مارکیٹوں کی کرنسی کے طور پر ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے حتمی مقصد کے ساتھ رینمنبی کو بطور عالمی کرنسی کے فروغ دے رہا ہے۔ یورپی سیاستدان اس طرح کی پالیسیوں کے بارے میں سوچنے کے عادی نہیں ہیں۔ خاص طور پر جرمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یورو زون یورو کو عالمی کرنسی کے طور پر فروغ دے۔ ماضی میں جرمنی کی انتہائی قدامت پسند میکرو اکنامک سوچ کم یا زیادہ اپنے صنعتی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی۔ یہ اب نہیں رہی، یورپی یونین دو مخالف اقتصادی طاقتوں کے درمیان دب چکا ہے اور بحران کا شکار کرنسی والی حکومت ہے۔
عوامی شعبے کے قرض میں کمی ایک سیاسی انتخاب تھا۔ اگر جرمنی اس کی بجائے دفاع اور مستقبل کے صنعتی فوائد میں سرمایہ کاری کرے، مالیاتی حیثیت جہاں جانا چاہتی اسے وہاں جانے کی اجازت دے تو ہم آج ایک مختلف جگہ پر ہوں گے۔ لیکن اس کیلئے جغرافیائی حکمت عملی کی ضرورت ہو گی جو یورپی یونین بھر میں پالیسی کے مباحثوں میں غائب ہے۔ شاید یورپی گزشتہ دس سال سے اپنے معاملات میں اتنے غرق رہے کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کیا آرہا ہے۔ اب ابھرتی ہوئی تحفظ پسندی، چین کے کاروبار پر قبضے کے خلاف تحفظ کی ضرورت کا اچانک ادراک، نشانیاں ہیں کہ اطمینان گھبراہٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ولفگنگ منچا
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
چین کے ساتھ مذاکرات ناکام بھی ہو سکتے ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی سربراہ رابرٹ لائتھزر نے خبردار کیا ہے کہ چین کے ساتھ ٹیرف جنگ ختم کرنے کیلئے مذاکرات ناکام ہونے کا خطرہ تھا، انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے قبل بڑے بڑے مسائل حل ہونے کی ضرورت ہے، اور وہ اس موقع پر کسی کامیابی کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے۔ سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے سامنے امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹھزر نے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ بات چیت کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور شاید ان کے حتمی ہفتوں میں داخل ہو گئی ہے، جیسا کہ دونوں ممالک نے ساختی اصلاحات اور نفاذ کی شرائط پر مباحثہ کیا۔ تاہم رابرٹ لائتھزر نے اشارہ دیا کہ معاہدہ طے ہونا ابھی حتمی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یا تو اچھے نتائج حاصل کر لیں گے یا ہم بہت طویل عرصے کیلئے برا نتیجہ حاصل کریں گے، لیکن میں کوئی مخصوص ٹائم فریم معین نہیں کر رہا ہوں اور نہ یہ مجھ پر منحصر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جتنی کوشش کر سکا کروں گا اور صدر یا چین مجھے بتائے گا کہ اب وقت پورا ہو چکا۔ رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ انہوں نے اور وزیر خزانہ اسٹون منچن نے بیجنگ کے حکام سے بات چیت کی، اور انہیں چینی حکام کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کی توقع ہے۔ امریکی اور چینی دونوں حکام کو امید تھی کہ اس ماہ کے آخر میں جنوبی فلوریڈا میں مار اے لاگو ریزورٹ میں چینی صدر شی جنگ پنگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دستخط کیلئے ایک سربراہی اجلاس طے کرنے کیلئے وہ کافی پیش رفت کر سکتے ہیں، یہ مقررہ وقت فی الحال مشکوک ہے۔
بڑی رکاوٹوں میں سے ایک امریکا کا شرائط کے سخت نفاذ کا مطالبہ یہ یقینی بنانے کیلئے کہ اگر امریکا کو اندازہ ہوا کہ معاہدے کی تضحیک کی جارہی ہے تو چین پر نئے ٹیرف عائد کرنے کے حق سمیت، چین معاہدے میں اپنے وعدوں کو پوا کرے گا۔ رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ہمیں ٹیرف میں اضافہ کرنے کا اپنا حق برقرار رکھنے کے قابل ہونا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اپنی دلیل میں رابرٹ لائتھزر پر یہ کہنے کیلئے زور دیا گیا کہ آیا ٹھوس شواہد کہ چین صنعتی سب سڈیز کو لگام ڈالنے، ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی میں کمی اور دانشورانہ ملکیت کی چوری کو کچلنے کیلئے اپنے وعدوں کو پورا کر رہا سے قبل یا اس کے بعد ، امریکا تقریبا 250 ارب ڈالر کے سازو سامان کو متاثر کرنے والا موجودہ ٹیرف چین پر سے اٹھا لے گا۔ تاہم امریکا کے تجارتی سربراہ نے کہا کہ یہ ابھی بھی مذاکرات کا موضوع ہے۔
سینیٹ کی سماعت رسمی طور پر عالمی تجارتی تنظٰیم کے مستقبل کیلئے وقف تھی، جو امریکی صدر کی جانب سے جنیوا کی باڈی کی جب تک تشکیل نو نہ ہو سے نکلنے کی دھمکی سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کی زد میں ہے۔ رابرٹ لائتھزر نے باڈی کی امریکی رکنیت کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ موجود نہیں تو اس کے اختراع کی ضرورت ہو گی۔ رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ عالمی تجارتی تنظیم ایک قابل قدر ادارہ ہے، اور امریکا کو تجارت پر اپنے مفادات کیلئے پیشرفت کیلئے متعدد مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس کے سنگین مسائل ہیں، جو اارے کے دیگر اراکین کی جانب سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عالمی تجارتی تنظیم میں اس امید کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ یہ مستحکم اور مزید مؤثر مارکیٹ کے فروغ کیلئے ہماری مدد کرے گی۔ بد قسمتی سے یہ امیدیں اکثر مایوسی میں بدل گئیں۔ امریکا عالمی تجارتی تنظیم کی تنازع کے حل کے طریقہ کار بلاخصوص اس کی اپیلیٹ باڈی کی اصلاح چاہتا ہے، کہا کہ یہ عدلیہ تحریک کی مجرم ہے اور جو اصول وضع کیے تھے ان پر کانگریس نے کبھی بھی دستخط نہیں کئے تھے۔ امریکا نے اپیلیٹ باڈی کیلئے نئے ججوں کی تقرری کو روک رکھا ہے، ناکافی پینالسٹ ہونے کی وجہ سے جس نے دسمبر میں اس کے فرائض شروع کرنے کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔
تاہم رابرٹ لائتھزر نے مذاکراتی فورم کے طور پر اس کی فعالیت میں کمی کیلئے، تجارت کیلئے نئی رکاوٹوں کی باڈی کی نشاندہی کیلئے ممالک کو مجبور کرنے میں اس کی کمزوری کیلئے، ابھرتی ہوئی بڑی مارکیٹوں کو ان کا بلند ٹیرف برقرار رکھنے کی اجازت دینے کیلئے اور بڑی معاشی ترقی کے باوجود ترقی پذیر ملک کی حیثیت پر عالمی تجارتی تنظیم پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقدامات عالمی تجارتی تنظیم کو نقصان پہنچانے کیلئے نہیں لیے ہیں، بلکہ یہ یقینی بنانے کیلئے کہ یہ ابھی بھی تیزی سے بدلتی دنیا کیلئے موزوں ہے۔ مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے ہمیں اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔
جبکہ ناقدین نے امریکا کے تخلیق کردہ کثیر جہتی نظام جس سے اس نے فائدہ اٹھایا کو سبوتاژ کرنے پر رابرٹ لائھزر کے عالمی تجارتی تنظیم کی جانب جارحانہ انداز پر حملہ کیا ہے، رابرٹ لائتھزر کا مؤقف کو دونوں اہم سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں کی جانب سے ہمدردانہ طور پر سنا گیا۔ اوریگان سے ڈیموکریٹک سینیٹر رون ویڈن نے کہا کہ چین نے علامی تجارتی تنظیم کے نظام میں کمزوریاں پہچان لیں اور اپنے اقتصادی فائدوں کیلئے ان پر قابو پا لیا۔ عالمی تجارتی تنظیم کی تجدید کرنا ایک مسئلہ ہے جہاں انتظامیہ بہت سخت باتوں کے بعد ناکام نہیں ہو سکتی ہے۔
آئیوا سے پینل کی ریپبلکن سربراہ چک گراسلے نے کہا کہ یہ بدقسمتی تھی کہ امریکا نے عالمی تجارتی تنظیم کی اصلاحات کیلئے توجہ حاصل کرنے کیلئے جارحانہ حکمت عملی کا استعمال کرنا پڑا تھا، تاہم پریشانیاں جائز تھیں۔ چک گریسلے نے کہا کہ میں لازمی اس نکتہ نظر کی توثیق نہیں کر رہا ہوں ، لیکن اب ہم یہاں ہیں ہم حکمت عملی کا واویلا کر کے وقت ضائع نہیں کر سکتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کے اراکین کو امریکا کو سنجیدگی سے لینا ہو گا اور معقول طور پر ہماری تشویش پر توجہ دینے کا وعدہ کرنا ہو گا۔
واشنگٹن : جیمس پولی
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کے لیے بڑا خطرہ ہے : مائیک پومپیو
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک انٹرویو میں امریکی سلامتی کو درپیش پانچ بڑے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں لگ جانے کا خدشہ ان میں سے ایک ہے۔ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو ایکشن لئے ہیں وہ ہم سے پہلے کسی حکومت نے نہیں لئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو وہ بہت سنجیدہ لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے خود اپنے دوستوں کو اس لڑائی میں کھویا ہے۔
"ہم نے 11 ستمبر کے حملوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم نے پاکستان پر اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کے لیے زور ڈالا ہے۔"پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کشیدگی پاکستان کے علاقے سے جانے والے دہشت گردوں کی وجہ سے شروع ہوئی ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ان دہشت گردوں کو روکنے کے لئے اپنے اقدامات بڑھانے ہوں گے اور ان دہشت گردوں کو محفوظ پناگاہیں دینا بند کرنا ہو گا۔
افغان امن مذاکرات
افغانستان کے مسئلے پر امن مذاکرات کے بارے میں اس سوال پر کہ کیا طالبان القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے اپنے تعلقات ختم کر لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں ایک حتمی حل کے لئے کام کر رہی ہے۔ وہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ پومپیو نے کہا کہ زلمے خلیل زاد ابھی اسی سلسلے میں چھ سے آٹھ دن دوہا میں مذاکرات کے لئے گئے تھے اور کل ہی لوٹے ہیں۔ اور ان مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ "اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات کریں
صدر ٹرمپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس طویل جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی ایسا حل نکلے جس سے امریکہ کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا خدشہ نہ رہے۔ حالیہ دنوں میں افغان فورسز پر کئے جانے والے حملوں میں طالبان نے 50 افغان فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا جبکہ اس سے ایک ہفتہ پہلے 70 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس بارے میں پومپیو نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان حملوں سے افغان اور اتحادی فوجیں کمزوری کی پوزیشن پر آگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ امن مذاکرات کی ٹیبل پر کون بیٹھا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم امریکہ کو مزید محفوظ بنائیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
ترک شہر استنبول میں دنیا کے سب سے بڑے ائیرپورٹ کی تعمیر
یا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ائیرپورٹ کی موجودگی کا اعزاز ایک مسلم ملک کے پاس جانے والا ہے؟ جی ہاں دنیا کا سب سے بڑا ائیرپورٹ بہت جلد ترک شہر استنبول کے نئے ائیرپورٹ کو قرار دیا جائے گا اور وہ امریکا کے ائیرپورٹ سے یہ اعزاز چھین لے گا۔ اور اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے اور وہ ہے 6 رن ویز اور 823 ملین اسکوائر فٹ رقبے پر پھیلا یہ ائیرپورٹ بہت جلد استنبول کے اتاترک ائیرپورٹ کی جگہ لے گا (اگلے ماہ سے اتاترک ائیرپورٹ کی جگہ اس ائیرپورٹ کو دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا)۔ اس کا افتتاح تو گزشتہ سال اکتوبر میں ہو گیا تھا مگر رواں سال مارچ میں اس ائیرپورٹ کے پہلے مرحلے کی تعمیر مکمل ہو جائے گی اور اس کے بعد یہ سالانہ 9 کروڑ مسافروں کو ہینڈل کر سکے گا جبکہ مزید تعمیراتی مراحل کی بدولت یہ تعداد پہلے 15 کروڑ اور پھر 20 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
اور مسافروں کو بھی تیار ہونا ہو گا کیونکہ انہوں نے ایسا ائیرپورٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ نہ صرف یہ دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ ہو گا بلکہ اس میں ایک چھت کے نیچے سب سے بڑا ٹرمینل بھی موجود ہو گا۔ اس ائیرپورٹ کے ڈیزائن کو ورلڈ آرکیٹکچر فیسٹول کے فیوچر انفراسٹرکچر پراجیکٹ ایوارڈ 2016 سے بھی نوازا گیا تھا اور اس وقت بھی مسافروں نے اس کے تعمیراتی انداز پر 98 فیصد اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کی چھت ترکی کے مشہور گنبدوں اور مساجد کی عکاسی کرے گی جبکہ ائیرٹریفک کنٹرول ٹاور بھی دنیا بھر میں سب سے منفرد ہو گا جس کی وجہ ٹیولپ کی طرز کا ڈیزائن ہے۔
اس ائیرپورٹ کو ڈیزائن کرنے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ ہمیں ترکی میں رنگوں اور پیٹرن کے استعمال کے انداز نے متاثر کیا تھا، عمارات میں روشنی کے داخلے اور معیار کے ساتھ سلیمان مسجد کے طرز تعمیر نے بھی ہمیں متاثر کیا۔ اس ائیرپورٹ کا ڈیوٹی فری ایریا بھی دنیا کا مصروف ترین کاروباری مرکز ہو گا اور طویل سفر سے بیزار مسافر کے مزاج پر بھی یہاں کا ماحول خوشگوار اثرات مرتب کرے گا۔ مسافر یہاں نہ صرف میک اپ کے نمونے آزما سکیں گے بلکہ وہ اگیومینٹڈ سیلفی اسٹیشنز کو بھی ٹیسٹ کر سکیں گے۔ اسی طرح پروفیوم، چاکلیٹ اور مشروبات پر اپنا نام تحریر کروا سکیں گے اور مقامی انتظامیہ کا وعدہ ہے کہ لیگج ارائیول کے لیے لوگوں کا وقت بچایا جائے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
ایتھوپیائی ائیرلائن کا بوئنگ 737 ہوائی جہاز کیوں گرا ؟
سامنے آنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ حال ہی میں ایتھوپیا میں ہوائی جہاز کا گرنا آٹومیٹک کنٹروم سسٹم میں خرابی کے باعث ہوا۔ یہ خرابی عملے پر حاوی ہو گئی اور جہاز کو برباد کر گئی۔ حادثے کے نتیجے میں 157 افراد کی جان چلی گئی۔ تجزیے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایتھوپیائی ائیرلائن بوئنگ 737 کے عملے اور پائلٹ نے تمام اصول و ضوابط پر عمل کیا۔ اس ہوائی جہاز کی اڑان کا آغاز پائلٹ خود کرتے ہیں۔ وہ اسے رن وے پر دوڑاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ فضا میں بلند کرتے ہیں۔ مذکورہ ہوائی جہاز نے یہ سب کام ٹھیک طرح سے کیا۔ اس کے بعد عام طور پر پائلٹ جہاز کی رفتار تیز رکھتے ہیں تاکہ وہ پوری طرح پرواز کرنے لگے۔
جب جہاز ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے تو پائلٹ ذمہ داری خود کار نظام کے سپرد کر دیتے ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں معاملہ کمپیوٹر کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ تمام تر ڈیٹا یہی نشاندہی کرتا ہے کہ اسی لمحے سے ایتھوپیائی ائرلائن میں خرابی کا آغاز ہوا۔ جوں ہی فلائٹ رن وے سے ایک ہزار فٹ بلند ہوئی اس کا راستہ بدل گیا۔ ایسی صورت میں پائلٹ کو خود کار نظام میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ ہوائی جہاز بلند ہوتا رہے۔ اس کے بجائے بدقسمت فلائٹ نے غوطہ لگایا اور یہاں تک کہ یہ ہوائی اڈے سے چند کلومیٹر دور زمین سے جا ٹکرایا۔ جہاز کے اس طرح گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک انجن کی خرابی ہے۔ لیکن ڈیٹا سے انجن میں خرابی کا اشارہ نہیں ملتا۔
دیگر وجوہ میں پروں یا دُم کا ٹوٹنا شامل ہیں۔ اس کے بھی شواہد نہیں ملتے۔ حادثہ پائلٹ کی غلطی کا نتیجہ بھی نہیں لگتا۔ شواہد عندیہ دے رہے ہیں کہ آٹومیٹک کنٹروم سسٹم نے پائلٹ کو اجازت نہ دی کہ وہ جہاز کو کنٹرول کر سکے۔ جہاز بنانے والی کمپنی ’’بوئنگ‘‘ نے کہا ہے کہ وہ اپنا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ خاص طور پر وہ خامی دور کی جائے جو بدقسمت جہاز کے گرنے کا سبب بنی۔ نیز کوئی دوسری خامی اگر ہے تو اسے دور ہونا چاہیے۔
ٹموتھے ٹاکا ہاشی
↧
↧
فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور مائیکرو سوفٹ سربراہان طلب
سانحہ نیوزی لینڈ کی ویڈیو وائرل ہونے پر سوشل میڈیا کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا گیا ہے۔ امریکی ایوان کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی نے فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور مائیکرو سوفٹ سربراہان کو 27 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق سانحہ نیوزی لینڈ کی براہِ راست ویڈیو فیس بک پر بہت کم صرف 200 افراد نے دیکھی تاہم اسے بڑی تعداد میں کاپی کر کے دوبارہ پوسٹ کیا گیا اور سوشل پلیٹ فارمز اسے پھیلنے سے نہ بچا سکے۔ وائرل ہونےکے سبب سانحہ نیوزی لینڈ کی ویڈیو کروڑوں افراد نے دیکھی ہے۔ فیس بک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیس بک سے 15 لاکھ ویڈیوز کو ہٹا دیا گیا ہے۔
↧
جیسندا آرڈرن : چھوٹے ملک کی بڑی وزیراعظم، کاش باقی رہنما بھی ایسے ہوں
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسندا آرڈرن کا اپنی پارلیمنٹ میں کرائسٹ چرچ مسجد میں فائرنگ کے مرتکب دہشت گرد کو مجرم انتہا پسند قرار دیتے ہوئے اس کا نام نہ لینے کا اعلان دنیا بھر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نفرت کا واضح پیغام ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی قسم کی ہمدردی یا مدد کے مستحق نہیں۔ ان کی جانب سے یہ کہا جانا کہ میں یہاں صرف ان کے نام لینا چاہتی ہوں جو شہید ہوئے اور خصوصاً حملہ کے دوران دہشت گرد کو روکنے والے پاکستانی ہیرو نعیم رشید کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں جس نے اپنی جان دے کر کئی زندگیوں کو بچایا۔ یہ دراصل وہ احساس اور خدمات ہیں جو دہشت گردوں سے نمٹنے والوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے ہیں۔
کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں ہونے والی دہشت گردی پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرزعمل نے شہدا کے عزیز و اقارب نے ان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار، دکھ کرب اور غم کی فضا میں ان سے لپٹنا اور حوصلہ دینا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ خالصتاً انسانی جذبہ کے تحت مسلمانوں کے دکھ میں شامل ہوئیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے بھی مسلم عیسائی اور یہودیوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات سے نمٹنے کیلئے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ یورپ اور مغرب سے ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں کہ دہشت گردی کا تعلق کسی نسل’ مذہب اور فرقے سے نہیں۔ یہ انسانیت کی دشمن ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اس کی جڑیں کاٹنے کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ جہاں ایک جانب نیوزی لینڈ کے اس واقعہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا وہاں مغرب سے مشرق کے مقابلہ میں زیادہ موثر آوازیں اٹھتی نظر آتی ہیں اور اس کا کریڈٹ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو جاتا ہے جو نیوزی لینڈ کی 150 سالہ تاریخ میں سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں اور انہوں نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر پہلے ہی روز سانحہ کے فوری بعد حملہ کے مرتکب شخص کو دہشتگرد قرار دیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فونک کال پر مدعو ہونے کی بجائے واضح طور پر کہا کہ مرنے والے انسان ہیں اور ہمیں انسانیت کے ناطے ان کے دکھ غم میں ان کا ساتھ دینا ہے۔
آج دنیا کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو انسانیت کے قتل و عام کو مختلف مذاہب اور عقیدوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے انسانیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی عوام کے سامنے بھی سرخرو ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن چھوٹے ملک کی وزیراعظم نے بڑے پن کا مظاہرہ کر کے اپنی قیادت کو دنیا میں سرخرو کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے نہ صرف شہدا کی تدفین کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا بلکہ قتل عام کی وجہ سے آمدنی کا ذریعہ گنوا دینے والے افراد’ ان کے عزیزو اقارب کو سالوں تک مالی مدد فراہم کرنے کا اعلان کر کے انسان دوستی کی ایسی مثال قائم کی ہے جو مدتوں یاد رہے گی۔
تجزیہ: سلمان غنی
↧
بوسنیائی جنگ : جنگی مجرم راڈووان کراڈچچ جیل سے کبھی باہر نہیں آئے گا
نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی سربوں کی قیادت کرنے والے رہنما اور جنگی مجرم راڈووان کراڈچچ کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف ایک اپیل اقوام متحدہ کی ایک عدالت نے مسترد کر دی ہے۔ راڈووان کراڈچچ کے خلاف یہ مقدمہ انیس سو نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، قتل عام کے واقعات، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق آج تک کے سب سے بڑے مقدمات میں سے ایک تھا ۔ کراڈچچ کو ماضی میں دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا تو سنا دی تھی لیکن کراڈچچ کی طرف سے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی تھی۔ اب اس عالمی عدالت نے نہ صرف یہ اپیل مسترد کر دی ہے بلکہ مجرم کو سنائی گئی عمر قید کی سزا میں اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
اس موقع پر ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں قائم اس عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ راڈووان کراڈچچ کے جرائم کو مد نظر رکھا جائے تو انہیں گزشتہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اب پہلے سے زیادہ اور 40 سال کی جو نئی سزائے قید سنائی گئی ہے، وہ بھی دراصل بہت کم ہے۔ اس کے برعکس خود راڈووان کراڈچچ نے، جن کی قیادت میں بوسنیائی سرب دستے بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی مسلمانوں کے علاوہ بوسنیائی کروآٹ فورسز کے خلاف بھی لڑتے رہے تھے، کہا کہ وہ قریب ایک چوتھائی صدی پہلے بوسنیا کی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام سمیت جنگی جرائم کی اخلاقی ذمے داری تو قبول کرتے ہیں لیکن ذاتی طور پر خود کو ان جنگی جرائم کا ذمے دار نہیں سمجھتے۔ کراڈچچ کی عمر اس وقت 73 برس ہے اور 40 سال قید کا مطلب ہے کہ ان کے لیے اب جیل سے زندہ باہر نکلنا ناممکن ہو گا۔ عدالت کے مطابق کراڈچچ بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا لازمی حصہ رہے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد خونریز ترین یورپی تنازعہ
بوسنیا کی جنگ 1992 سے لے کر 1995 تک جاری رہی تھی اور وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد براعظم یورپ کی سب سے ہلاکت خیز اور خونریز جنگ ثابت ہوئی تھی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہوئے تھے اور کئی ملین بے گھر بھی ہو گئے تھے۔ راڈووان کراڈچچ نے اپنے جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کی عدالت کے جس گزشتہ فیصلے کے خلاف یہ اپیل دائر کی تھی، وہ 2016 میں سنایا گیا تھا۔ بوسنیائی جنگ کے بعد کراڈچچ سربیا میں روپوش ہو گئے تھے اور انہیں 2008 میں سربیا ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب وہ وہاں ایک تھیراپسٹ کے طور پر روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔
شاعر جو جنگی مجرم بن گیا
کراڈچچ کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بوسنیائی سرب سیاستدان ایک پیشہ ور ماہر نفسیات ہونے کے علاوہ ایک شاعر بھی تھے، پھر جنگ کے دوران وہ ’وارلارڈ‘ بن گئے تھے، اس کے بعد سربیا میں چھپ کر وہ کم از کم تیرہ برس تک ایک تھیراپسٹ کی زندگی گزارتے رہے تھے اور اب نسل کشی اور جنگی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ مجرم کے طور پر وہ اپنی باقی ماندہ زندگی جیل میں گزاریں گے۔ کراڈچچ کی سزا کی توثیق اور اس میں اضافے کے آج کے عدالتی فیصلے کی بوسنیائی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ، خاص کر سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام جیسے واقعات کے ہلاک شدگان کے پسماندگان نے خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’نفرت سے بھرے ایک مجرم کو اس کے کیے کا صلہ مل گیا ہے‘۔ بوسنیائی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے صرف ایک واقعے میں ہی جولائی 1995 میں کراڈچچ کے زیر کمان بوسنیائی سرب دستوں نے تقریباﹰ 8000 مسلمان مردوں اور نوجوان لڑکوں کا قتل عام کیا تھا۔
بشکریہ DW اردو
↧