Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

وینزویلا پر سلامتی کونسل کا اجلاس اختلافات کی نذر ہو گیا

$
0
0

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل وینزویلا کے بحران پر کوئی متفقہ مؤقف اپنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ وینزویلا میں جاری سیاسی بحران پر غور کے لیے 15 رکنی کونسل کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا تھا لیکن کونسل کے ارکان بحران سے متعلق کسی قرارداد پر متفق نہ ہو سکے۔ اجلاس کے دوران وینزویلا کے بحران پر امریکہ اور روس نے دو متضاد قراردادیں پیش کی تھیں لیکن کونسل ان میں سے کوئی بھی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں وینزویلا کی صورتِ حال کو مزید خراب نہ ہونے دینے اور پورے ملک میں امداد کی بلارکاوٹ فراہمی کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تھا ۔  کونسل کے بیشتر ارکان نے امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا لیکن یہ قرارداد روس اور چین نے ویٹو کر دی۔

روس کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کے حق میں کونسل کے صرف چار ارکان نے ووٹ دیا۔ امریکہ، اس کے مغربی اتحادی اورکئی لاطینی ممالک وینزویلا میں حزبِ اختلاف کے رہنما ہوان گویڈو کو ملک کا عبوری صدر تسلیم کر چکے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ صدر نکولس مدورو اقتدار چھوڑ دیں۔ اس کے برعکس روس اور چین صدر مدورو کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں وینزویلا کی فوج کا تعاون بھی حاصل ہے۔ وینزویلا میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری اقتصادی بحران جاری سیاسی کشیدگی کی وجہ سے مزید سنگین صورت اختیار کر گیا ہے جس نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

بحران کے پیشِ نظر امریکہ نے ہوان گویڈو کی اپیل پر وینزویلا کے عوام کے لیے خوراک اور دیگر امدادی سامان روانہ کیا تھا جو گزشتہ کئی روز سے پڑوسی ملک کولمبیا میں موجود ہے۔ لیکن صدر مدورو اس امداد کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکاری ہیں اور ان کا موقف ہے کہ امریکہ کی یہ امداد وینزویلا میں فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد میں وینزویلا میں مئی 2018ء کے صدارتی انتخابات پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جس میں صدر مدورو ایک بار پھر چھ سال کی مدت کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے تھے۔

قرارداد میں انتخابات کو غیر شفاف اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ اور وینزویلا میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی پرامن بحالی کے لیے حمایت کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس روس کی جانب سے تجویز کردہ قرارداد میں وینزویلا کے بحران کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بحران کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ البتہ روس نے بھی اپنی قرارداد میں صدر مدورو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ امدادی قافلوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دے دیں۔

جمعرات کو کونسل کے اجلاس سے خطاب میں اقوامِ متحدہ میں وینزویلا کے سفیر سیموئل مونکاڈا نے دعویٰ کیا کہ وینزویلا میں صورتِ حال بہتر اور پرامن ہے ۔  انہوں نے الزام لگایا کہ اگر وینزویلا کے امن کو کوئی خطرات لاحق ہیں تو وہ سرحدوں کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے ہیں۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور صدر مدورو کے حامی ممالک کا آئندہ لائحۂ عمل کیا ہو گا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ


بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی امن کی طرف دلیرانہ قدم کیوں اور کیسے؟

$
0
0

گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھجوانے کے فیصلے پر دونوں ملکوں میں تنقید اور تعریف ہو رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل اے وی ایم کپل کاک نے اعتراف کیا ہے کہ پائلٹ کی واپسی بھارتی فوجی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔ ریٹائرڈ کپل کاک پاکستان کے اس فیصلے کو سراہنے والے واحد شخص نہیں، بلکہ سیاستدانوں، سابق ججوں اور عام عوام کی بڑی تعداد پاکستان کے اس فیصلے کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر ہی دیکھتی ہے، تاہم بھارتی میڈیا کی جنگ جویانہ روش سے عام تاثر یہی ہے کہ شاید پاکستان کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا یا پھر اس کے نتائج ہماری توقع کے برعکس نکلے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں یہ بھی تاثر دیا گیا کہ جنیوا کنونشن کی رُو سے اس کی رہائی ہونی ہی تھی بلکہ 8 دن میں ایسا ہونا لازم تھا۔ جنیوا کنونشن کو دونوں طرف سے اپنی مرضی کے مطابق بیان کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہر ہونے کا ہرگز دعویدار نہیں تاہم ماضی اور حال کی چند مثالوں کی روشنی میں دیکھنا ہو گا کہ جنیوا کنونشن کس حد تک مؤثر رہا ہے؟

پہلی مثال: روس بمقابلہ یوکرین
گزشتہ سال نومبر میں جب روس اور یوکرین کے مابین حالات کشیدہ ہو گئے تھے تو روس نے بحیرہ اسود میں کرائمین جزیرہ نما میں یوکرینی بحریہ کی 2 جنگی کشتیوں سمیت 3 جہازوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس واقعے میں یوکرینی کشتیوں میں موجود عملہ زخمی بھی ہوا۔ روس نے یوکرین پر ملک کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا الزام لگایا اور یوکرین کے گرفتار ملاحوں کو روس جنگی قیدی ماننے سے انکار کرتا آ رہا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان کوئی باضابطہ جنگ نہیں اس لیے یوکرینی بحریہ کے گرفتار اہلکار جنگی قیدی کا درجہ نہیں رکھتے۔ یوکرین ان قیدیوں کو صحت کی سہولتیں دلوانے اور جنگی قیدی قرار دلوانے کے لیے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں جا چکا ہے۔ اس عدالت میں یوکرین اور روس کے 5 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

دوسری مثال: جنوبی کوریا بمقابلہ شمالی کوریا
ایک اور نمایاں اہمیت کا کیس جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ کا ہے۔ 70 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھی گولی نہیں چلی لیکن یہ جنگ باضابطہ طور پر ختم بھی نہیں ہوئی، جس کی بڑی وجہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ نہ ہونا ہے۔ دونوں ملکوں نے جنگ بندی تو کر لی لیکن کوئی معاہدہ نہ ہو پایا کیونکہ اس وقت کے جنوبی کوریا کے صدر نے ملک کی تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ جولائی 1953ء میں جنگ بندی ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان بڑے پیمانے پر قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن شمالی کوریا نے تمام قیدی واپس نہیں کیے۔ 8 ہزار جنگی قیدی واپس کرنے کے بجائے لیبر کیمپوں میں دھکیل دیے گئے۔ 2010ء میں جنوبی کوریا نے ایک تخمینہ جاری کیا جس کے مطابق 560 قیدی زندہ اور شمالی کوریا کے قبضے میں تھے لیکن شمالی کوریا ان قیدیوں پر بات کرنے سے انکار کرتا آ رہا ہے۔

تیسری مثال: کارگل جنگ
پاک بھارت کشیدگی کی ہی ایک مثال کارگل جنگ ہے۔ اس جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ کے فلائٹ لیفٹیننٹ نچیکیتا 27 مئی 1999ء کو پاکستان کے ہاتھ لگے۔ لیکن پاکستان نے ایک ہفتے بعد یعنی 3 جون کو نچیکیتا کو بھارت کےحوالے کر دیا۔

ان 3 مثالوں سے چند نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ روس نے یوکرین کے ساتھ جنگی تصادم کو ماننے سے انکار کیا اور یوکرین کے قیدیوں کو جنگی قیدی کا درجہ نہیں دیا۔ اس حوالے سے تیسرا جنیوا کنونشن لاگو ہونے کی بات کی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ کنونشن اعلانیہ جنگ یا کسی مسلح تنازع سمیت دونوں ہی صورتوں میں لاگو ہوتا ہے، اس کے باوجود کہ دونوں فریقین حالتِ جنگ کو تسلیم نہ کریں۔ روس تیسرے جنیوا کنونشن کے رُو سے یوکرینی بحریہ کے گرفتار اہلکاروں کو جنگی قیدی نہیں مان رہا۔

دوسری مثال کوریا جنگ کی ہے۔ جنیوا کنونشن پر عمل تو ہوا لیکن شمالی کوریا نے 8 ہزار قیدی پھر بھی واپس نہیں کیے اور خطہ جنگ بندی کے باوجود اب تک حالت جنگ میں ہے۔ کشیدگی کم نہیں ہو پائی اور امریکا اب تک خطے سے نکلنے کا نام نہیں لیتا۔

تیسری مثال کارگل کی ہے۔ پاکستان نے اس وقت بھی حالتِ جنگ ڈیکلیئر نہ ہونے کے باوجود بھارتی پائلٹ واپس کیا جس کا مقصد کشیدگی میں کمی تھا اور اب بھی پاکستان نے یہ ثابت کرنے کے لیے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو واپس بھیج دیا کہ پاکستان جنگ نہیں امن چاہتا ہے۔ ابھی نندن کی واپسی سے پاکستان کے کیا مقاصد اور عزائم ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔ پاکستان نے بھارت کو پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا اور ابھی نندن کی واپسی اس حوالے سے اہم سی بی ایم (Confidence-building measures) ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے بھارتی ونگ کمانڈر کی رہائی کا فیصلہ کر کے بھارت کو ایک قدم آگے بڑھ کر بتایا کہ ان کی پیشکش سنجیدہ ہے۔ سی بی ایم عصرِ حاضر میں تسلیم شدہ تصور ہے جو عسکری، سیاسی اور معاشی شعبوں میں کئی اقدامات پر محیط ہے۔ سی بی ایم کی اصطلاح ابتدائی طور پر عسکری حوالے سے سامنے آئی تھی۔ 1998ء سے ایک اور اصطلاح ٹی سی بی ایم ( Trust and Confidence-building measures) استعمال ہوتی ہے جو جنیوا کانفرنس میں سامنے آئی اور یہ نئی اصطلاح عسکری شعبے کے ساتھ معاشی اور سیاسی شعبوں کو بھی شامل کرتی ہے۔ سی بی ایم کی اصطلاح 1970ء میں یورپ میں سامنے آئی تاہم عملی طور پر اس کا استعمال دنیا کے مختلف خطوں میں پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں

1949ء کا کراچی ایگریمنٹ،
1950ء کا لیاقت نہرو معاہدہ،
1960ء کا انڈو پاک بارڈر گراؤنڈ رولز ایگریمنٹ،
1962ء کا سندھ طاس معاہدہ،
1966ء کا اعلانِ تاشقند اور
1972ء کا شملہ معاہدہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

سی بی ایم وسیع ترین معنوں میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جبکہ عسکری حوالوں سے سی ایس بی ایم (Confidence and Security Building Measures) زیادہ موزوں اور مخصوص اصطلاح تصور کی جاتی ہے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کو سی ایس بی ایم کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے حوالے سے کئی اقدامات پہلے بھی کیے جا چکے ہیں اور ان کے فوائد دونوں فریقین کو حاصل ہوئے ہیں۔ اعتماد سازی کے اقدمات آسان مرحلہ نہیں۔ اعتماد سازی کو 3 مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 

پہلا مرحلہ تنازعات سے بچنا یعنی سی اے ایم (Conflict Avoiding Measures) ہے ۔ اس کی بہترین مثال پاک بھارت تعلقات میں 1991ء کا معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ملک بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں سے پہلے ایک دوسرے کو اطلاع دیتے ہیں اور مشترکہ سرحد پر نو فلائی زون کا قیام ہے۔ اعتماد سازی کا دوسرا مرحلہ زیادہ مشکل ہے۔ تنازعات سے بچنے کے بعد اس مرحلے میں سیاسی پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں اس کا سیاسی اور مشکل ترین پہلو مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مرحلے میں تنازعات سے بچنے کے اقدامات پر عمل کا ریکارڈ بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اگر سی اے ایم پر پوری طرح عمل نہ ہو رہا ہو تو آگے بڑھنا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ ان دونوں مراحل پر عمل کے بعد تیسرا مرحلہ پائیدار امن کی طرف پیش رفت ہے۔ اس مرحلےمیں فوجی نقل و حرکت اور مستقبل کے دفاعی سودوں پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لینا شامل ہے۔ سیاسی تنازعات کی شدت اس مرحلے کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں سی بی ایمز کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی جس کی بنیادی وجہ سیاسی تنازعات کی شدت ہے۔ اس کی ایک مثال 1962ء کا انڈو پاک ایگریمنٹ ہے۔ بھارت نے معاہدے کے باوجود کیمیکل ہتھیاروں کا حصول جاری رکھا اور بالآخر کیمیکل ہتھیاروں کے کنونشن کے تحت اسے اس کا اعتراف کرنا پڑا۔ ایک اور مثال 1998ء کا معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ مئی 1998ء میں انٹیلی جنس اطلاعات موصول ہوئیں کہ بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی تیاری کر لی ہے جسے وہ اپنے بچاؤ کے تحت پیشگی حملہ قرار دے گا۔ یہ بحران ٹالنے کے لیے بھارتی ہائی کمشنر کو نصف شب طلب کر کے واضح کیا گیا کہ اس طرح کی کسی بھی کارروائی کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

ایک مثال بھارت کی اکتوبر 1998ء کی فوجی مشقیں ہیں جو براس ٹیک کے بعد سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں۔ اگرچہ بھارت نے ان مشقوں کی اطلاع دی لیکن یہ مشقیں پاکستان کی بَری اور بحری سرحدوں کے بہت قریب تھیں جو معاہدے کی روح کی کھلی خلاف ورزی تھی اور ان مشقوں نے کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی پاکستان کی طرف سے عسکری اعتماد سازی (سی ایس بی ایم) کا ایک قدم کہا جا سکتا ہے جو خطے میں امن کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اسے جنیوا کنونشن کی رُو سے دیکھنا یا کسی کی فتح یا کمزوری بنا کر پیش کرنا اعتماد سازی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

سی بی ایمز کی خلاف ورزی کی تاریخ بھی ایسے اقدامات کی کامیابی کو دھندلا رہی ہے لیکن امن کے لیے کچھ بہادرانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کا یہ فیصلہ امن کی طرف پہلا دلیرانہ قدم ہے لیکن اگر اسے کمزوری سمجھا گیا تو نتائج بھارت سمیت پورے خطے کے لیے بھیانک ہو سکتے ہیں ۔  اعتماد سازی کے لیے بہت صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات میں فوری نتائج کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ دیرپا امن کے لیے اٹھایا گیا یہ پہلا قدم درست سمت کا تعین کر رہا ہے، لہٰذا بھارت کی طرف سے اس کا مثبت جواب آنا ضروری ہے۔

آصف شاہد

بشکریہ ڈان نیوز اردو

پاک بھارت کشیدگی افغان امن عمل کو متاثر نہ کرے، امریکی کوشش

$
0
0

امریکا کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تازہ شدید کشیدگی ایک تیسرے ملک کو متاثر نہ کرے۔ یہ ملک افغانستان ہے، جہاں سترہ برسوں سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں امریکا کو اب طالبان کے ساتھ قیام امن کی امید ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن ہندوکش کی ریاست افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلح مزاحمت کے باعث گزشتہ 17 سال سے بھی زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے سے متعلق اپنی کوششوں میں کوئی بھی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اسی لیے امریکا کی کوشش ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ میں کیے گئے خود کش بم حملے کے بعد سے دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو انتہائی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے، اسے واشنگٹن کی افغان طالبان کے ساتھ امن مکالمت کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔

اسی کشیدگی کے نقطہ عروج پر بھارتی جنگی طیاروں کی طرف سے 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سے پہلی بار پاکستان میں فضائی حملے بھی کیے گئے تھے۔ ان حملوں کے جواب میں پاکستانی جنگی طیاروں نے بھی کارروائی کرتے ہوئے کم از کم ایک بھارتی فائٹر جیٹ مارگرایا تھا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین ایک بھرپور اور باقاعدہ جنگ شروع ہو جانے کے خطرے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے پاکستان اپنے طور پر ایک مثبت قدم اٹھاتے ہوئے ابھینندن کمار نامی اس بھارتی پائلٹ کو واپس بھارت کے حوالے بھی کر چکا ہے۔

پاکستان کا ’تنبیہی‘ موقف
اس پس منظر میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امریکا نے اسلام آباد میں پاکستان کے اعلیٰ حکام سے رابطوں میں اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی مسلح تصادم کے خطرے کو کم کیا جائے۔ ان رابطوں کے دوران اسلام آباد کی طرف سے مبینہ طور پر امریکا کو افغانستان کے حوالے سے ’تنبیہی پیشکشیں‘ بھی کی گئیں۔ ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حکام کی طرف سے امریکا سے کہا گیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدگی ایک باقاعدہ اور بھرپور ’بحران‘ کی شکل اختیار کر گئی، تو اس سے اسلام آباد کی افغان امن مذاکرات کے لیے تائید و حمایت کی اہلیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

امن مذاکرات کے لیے سہولت کار
ایک اور اعلیٰ امریکی اہلکار نے پاکستان کی طرف سے واشنگٹن تک پہنچائی گئی تنبیہات میں دیے گئے پیغام کو دوہراتے ہوئے روئٹرز کو بتایا، ’’وہ ان مذاکرات کے سہولت کار ہونے سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ وہ اس دباؤ سے بھی ہاتھ کھینچ لیں گے، جو وہ (افغان طالبان پر) ڈال رہے ہیں۔‘‘ پاکستان ایک سے زائد مرتبہ اور باضابطہ طور پر ان الزامات کی تردید کر چکا ہے کہ پلوامہ میں ہوئے خود کش بم حملے میں اس کا کسی بھی قسم کا کوئی کردار تھا۔ 

لیکن اس ہلاکت خیز حملے کی ذمے داری پاکستان ہی میں کالعدم قرار دی جا چکی عسکریت پسند تنظیم جیش محمد قبول کر چکی ہے، جس نے پاکستان میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور جس کے بارے میں نئی دہلی کا اسلام آباد پر الزام ہے کہ وہ اس تنظیم کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکا بھی پاکستان پر عرصے سے یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ اس کے افغانستان میں ان طالبان عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں، جو کئی برسوں سے وہاں امریکا کی حمایت یافتہ کابل حکومت اور ملکی اور غیر ملکی سکیورٹی دستوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی قیام امن کو روکنے کی اہلیت
اب جب کہ امریکا افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر چکا ہے اور اس عمل میں پاکستان نے پس پردہ رہتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، واشنگٹن یہ نہیں چاہتا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی امریکا کی افغان طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ امن معاہدے کے لیے بات چیت پر اثر انداز ہو۔ اس سلسلے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار لارل ملر نے روئٹرز کو بتایا، ’’میرے خیال میں پاکستان کے پاس اتنی اہلیت تو نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں براہ راست قیام امن کو ممکن بنا دے، لیکن وہ اس بات کا اہل تو بہرحال ہے کہ (افغانستان میں) قیام امن کا راستہ روک دے۔‘‘

’ٹرمپ کی سیاست بھی مسائل کی وجہ‘
اسی بارے میں امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے لیے سابق خصوصی مندوب ڈین فیلڈمین نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان میں کئی اعلیٰ حکام ایسے ہیں، جو بھارت کے ساتھ روابط کے نگران بھی ہیں اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بھی۔ ’’اسی لیے وہ افغان امن مذاکرات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘‘ ڈین فیلڈمین کے مطابق امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا پر اپنی توجہ کے جس فقدان کا اب تک مظاہرہ کیا ہے، وہ مختلف مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ٹرمپ انتظامیہ کو اس خطے کے لیے اپنی حکمت عملی میں زیادہ گہری اور مرکوز سوچ اور پھر اسی سوچ پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو

چین نے دفاعی بجٹ بڑھا دیا، ہمسایہ ممالک کو تشویش

$
0
0

سن دو ہزار اٹھارہ کے مالی سال کے مقابلے میں رواں سال چین اپنے دفاعی اخراجات میں 7.5 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ بیجنگ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جدید تر بنائے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ سن دو ہزار انیس کے مالی سال کے دوران چینی حکومت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں اپنے دفاعی بجٹ میں 7.5 فیصد کا اضافہ تجویز کر دیا ہے۔ ملکی پارلیمان کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن پیش کردہ اس تجویز میں مگر یہ تفصیلات نہیں ہیں کہ دفاعی بجٹ کو زیادہ تر کن ذیلی شعبوں میں خرچ کیا جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چین اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جدید تر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق سن دو ہزار انیس میں چین کا دفاعی بجٹ 1.19 ٹریلین یوآن یعنی 177.49 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہو گا۔ چین کے اسٹریٹیجک مفادات کے تناظر میں عالمی طاقتیں بالخصوص بیجنگ حکومت کی طرف سے عسکری صلاحیتوں کے مزید جدید اور بہتر بنانے کی پالیسی کو غور سے پرکھتی ہیں۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب گزشتہ برس چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی نوٹ کی گئی تھی۔ نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے پارلیمان کو بتایا کہ عصر حاضر میں عسکری حکمت عملی کو اس طرح ترتیب دیا جا رہا ہے کہ جنگی حالات میں فوجی تربیت کو زیادہ بہتر بنایا جائے اور چین کی سالمیت، سکیورٹی اور ترقیاتی مفادات کا زیادہ بہتر انداز میں دفاع کیا جا سکے۔

یہ رقوم زیادہ تر پیپلز لبریشن آرمی کو جدید تر بنانے، اسٹَیلتھ جنگی طیاروں اور طیارہ بردار بحری بیڑوں کے حصول اور دیگر ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کی جائیں گی۔ چینی وزیر اعظم کے مطابق نئی عسکری حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی اختراعات بھی کی جائیں گی۔ چینی فوج دو ملین فوجیوں پر مشتمل ہے۔ دفاعی اخراجات کے حوالے سے چین دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ پہلے نمبر پر امریکا آتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سال دو ہزار انیس میں ملکی دفاعی بجٹ کی خاطر ساڑھے سات سو بلین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ چین میں اقتصادی ترقی کی شرح میں کچھ کمی کے باعث یہ اضافہ گزشتہ برس کے دفاعی بجٹ میں کیے گئے اضافے سے اگرچہ کم ہے تاہم اس کے باوجود اتنے زیادہ دفاعی اخراجات پر چین کے ہمسایہ ممالک کو کافی تشویش ہے۔ دوسری طرف چین کا کہنا ہے کہ اس کی عسکری طاقت صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔

بشکریہ DW اردو

بھارت دنیا کا آلودہ ترین ملک ہے، تحقیق

$
0
0

ماحولیاتی آلودگی کی دو بڑی تنظیموں کی جانب سے جاری تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں سے 22 بھارتی شہر ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے لیے کام کرنے والی دو معروف تنظیموں ایئر ویژول اور گرین پیس نے ہوا کے معیار کے لحاظ سے دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں کی فہرست مرتب کی ہے، 30 آلودہ ترین شہروں میں سے 22 شہر بھارت کے ہیں۔
بھارتی دارالحکومت نئی دلی کے نواحی شہر گروگرام کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے جہاں ہوا کے معیار کا تناسب 135.8 ہے جو کہ صحت مند فضا کے لیے درکار تناسب سے تین گنا زیادہ آلودہ ہے۔

ماہرین کے مطابق ان شہروں میں صرف ہوا کے معیار کا تناسب ہی بہت خراب نہیں بلکہ ہوا میں موجود ’فائن پارٹیکلز‘ کی مقدار بھی بہت کم تھی۔ ماہرین ہوا کے معیاری اور صحت مند ہونے کو ایک انڈیکس سے ظاہر کرتے ہیں جسے ’ایئر کوالٹی انڈیکس‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی شہروں میں دہلی، کلکتہ، احمد آباد، آگرہ، لکھنو، غازی آباد، فریدآباد، پٹنہ، اور دیگر کا ایئر کوالٹی انڈیکس خطرناک حد کو بھی پار کرچکا ہے جو شہریوں کی صحت کے لیے نہایت مہلک ہے۔ حکومت وقت نے ماحولیاتی آلودگی کے سدباب کے لیے اب تک ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے ہی ’فائن پارٹیکلز‘ کی ہوا میں موجودگی کے لحاظ سے بھی دنیا کے آلودہ ترین 20 شہروں میں سے 14 بھارتی شہر تھے اور اب ہوا کی کوالٹی کے انڈیکس کے حساب سے بھی دنیا کے آلودہ ترین 30 شہروں میں سے 22 بھارتی شہر ہیں۔

ترکی: روسی ایس 400 ڈیفنس سسٹم یا امریکی ایف 35 طیاروں کا انتخاب

$
0
0

ایک اعلیٰ امریکی فوجی عہدے دار نے کہا ہے کہ وہ امریکی سینیٹ کو یہ مشورہ دیں گے کہ اگر انقرہ روس سے ڈیفنس میزائل سسٹم خریدنے کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھاتا ہے تو وہ اسے امریکہ کے ہائی ٹیک لڑاکا طیارے ایف 35 فروخت نہ کریں۔ یورپ کی کمان کے امریکی سربراہ جنرل کرٹس سکیپروٹی نے کہا ہے کہ ترکی کو روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خرید کے معاہدے پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو وہ اس سال خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ روسی ایئر ڈیفنس سسٹم ایف 35 طیاروں کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ امریکی عہدے دار اس وقت ترکی کو ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے نتائج سے آگاہ کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دسمبر میں ترکی کو ساڑھے تین ارب مالیت کے پیٹریاٹ ڈیفنس سسٹم فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔ ترکی کی جانب سے ایس 400 میزائل سسٹم کی خرید سے متعلق بات چیت کے بعد امریکہ نے جدید لڑاکا طیارے ایف 35 کی فراہمی التوا میں ڈال دی ہے۔

پاکستان کی سمندری حدود کہاں تک ؟

$
0
0

بین الاقوامی سمندری حدود کیا ہے؟
اس بارے میں پاکستان بحریہ کے سابق ایڈمرل افتخار راؤ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کی سمندری حدود کو مختلف زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس ملک کے ساحلی پٹی پر ایک بیس لائن ( Baseline) بنائی جاتی ہے۔ اس بیس لائن سے 12 ناٹیکل مائل سمندر کی جانب تک 'ٹیریٹوریل واٹر' ( Territorial Waters) یعنی دفاعی سمندری حد ہوتی ہے۔ یہ بلکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے زمینی سرحد اور یہ پہلی سمندری حد ہوتی ہے۔ دوسری سمندری حد میں ان 12 ناٹیکل مائل کے بعد مزید 12 ناٹیکل مائل کا علاقہ 'کنٹی گیوس زون' ( Contiguous Zone) یعنی متصل علاقے کا پانی کہلاتا ہے جو مجوعی طور پر 24 ناٹیکل مائل بنتا ہے۔ اس میں اس ملک کےکسٹمز اور تجارت کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تیسری حد (Special Economic Zone) 'خصوصی اقتصادی زون'کہلاتی ہے اور یہ حد اس ملک کی بیس لائن سے 200 ناٹیکل مائل آگے تک ہوتی ہے۔ اس حد میں صرف وہی ملک کوئی اقتصادی سرگرمیاں کر سکتا ہے جیسا کہ سمندر میں معدنیات کی تلاش کا کام، ماہی گیری وغیرہ۔ اس سے بھی مزید آ گے پھر'ایکسٹینشن آف کانینٹل شیلف' ( Extension of Continental Shelf) کی حدود شروع ہوتی ہے۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کے تحت اس ملک کو کچھ سمندری حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

پاکسان کے سمندری پانی کی حدود کیا ہے؟
پاکستان کی سمندری حدود کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاک بحریہ کے سابق ایڈمرل افتخار راؤ نے بتایا دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی سمندری حدود کا تعین بھی اسی طرح کیا گیا ہے۔ ہماری ساحلی پٹی سے متصل بین الاقوامی طور پر ظاہر کی گئی بیس لائن سے 12 ناٹیکل مائل تک 'ٹیریٹوریل واٹر'یعنی دفاعی سمندری حد ہے۔ اسی طرح بتدریج 24 ناٹیکل مائل تک 'کنٹی گیوس زون'، 200 ناٹیکل مائل تک 'خصوصی اقتصادی زون'اور 'ایکٹینشن آف کانینٹل شیلوز'تک پاکستان کی سمندری حدود ہے۔ پاکستان نے 'ایکسٹینشن آف کانینٹل شیلوز'کے لیے اقوام متحدہ کو درخواست دی تھی جو منظور ہو چکی ہے۔

بین الاقوامی مشترکہ پانی یا حدود کیا ہے؟
کہ کسی بھی ملک کے 'ٹیریٹوریل واٹر'یعنی دفاعی سمندری حدود اور 'کنٹی گیوس زون'میں کسی اور ملک کے جنگی جہاز یا آبدوز کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم غیر ممالک کے تجارتی بحری جہازوں کو اس پانی سے گزرنے کی اجازت دی جا سکتی۔ ایڈمرل راؤ کا کہنا تھا کہ سمندر تو بہت بڑا ہے لہذا خصوصی اقتصادی زون یعنی 200 ناٹیکل میل سے آگے موجود سمندری پانی کو 'کومن ہیرٹیج آف مین کائنڈ' ( Common Heritage of Mankind) یعنی انسانیت کا مشترکہ اثاثہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ سمندر تمام ممالک کے لیے مشترکہ ہے اس پانی میں کسی بھی ملک کے کوئی بھی جہاز جا سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 'خصوصی اقتصادی زون کے سمندری پانی میں کوئی دوسرا ملک کوئی اقتصادی سرگرمی نہیں کر سکتا البتہ اس پانی سے کسی بھی دوسرے ملک کے تجارتی اور جنگی بحری جہاز گزر سکتے ہیں۔ البتہ آبدوز کو زیر سمندر گزرنے کی اجازت نہیں اگر اس کو گزرنا ہے تو اس کو پانی کے سطح پر رہتے ہوئے گزرنا ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کو ’انوسنٹ پیسیج‘ (Innocent Passage) یعنی معصومانہ راہداری کہا جاتا ہے۔ جو کہ اقوام متحدہ کے سمندری قانون کے مطابق ہے۔

امن یا کشیدگی: دشمن کے جنگی جہاز کو روکنے کا طریقہ کار کیا ؟
اس بارے میں سابق ایڈمرل افتخار راؤ کا کہنا تھا کہ اگر ہم انڈین آبدوز کے پاکستانی سمندری حدود میں داخلے کی مبینہ کوشش کے واقعہ پر بات کریں تو یہ آبدوز پاکستان کی دفاعی سمندری حدود میں نہیں تھی۔ لیکن ہماری خصوصی اقتصادی زون کی سمندری حدود کے اندر تھی لہذا جیسا کہ آجکل کشیدگی کے دن ہیں تو ہم اگر اس آبدوز کا سراغ لگانے کے بعد نشانہ بناتے، تو ہم پر کوئی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ ہوتی۔ کیونکہ ایک آبدوز کا نہ صرف سراغ لگانا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس بارے میں پاکستان بحریہ کے سباق ایڈمرل احمد تسنیم کا کہنا کہ اس پر طریقہ کار ملکی حالات اور حکومت پالیسی پر بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں جنگی بحری جہاز اور آبدوز میں فرق ہے کیونکہ بحری جنگی جہاز سمندری سطح پر دکھائی دیتا ہے اور اس کو امن کے دنوں میں وارننگ دی جاتی ہے۔ مگر آبدوز کا مقصد جاسوسی کرنا ہے خفیہ معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے اس کے لیے طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کبھی اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور کبھی اس کو وارننگ جاری کی جاتی ہے۔ سابق ایڈمرل افتخار راؤ کہنا تھا کہ پاکستان بحریہ نے انڈین آبدوز کا نہ صرف سراغ لگایا بلکہ اس ہر نظر رکھ کر اس کو پانی کی سطح کے قریب آنے پر مجبور کیا اور انڈیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگی جنون میں شدت کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اور اسی لیے پاکستان بحریہ نے ان کو واپس ان کے پانیوں میں دھکیل دیا۔

انڈین آبدوز کا پاکستان کی سمندری حدود میں کہاں سراغ لگایا گیا اس پر پاکستان بحریہ کی جانب سے تو کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا لیکن سابق ایڈمرل افتخار راؤ اور ایڈمرل احمد تسنیم متفق ہے کہ انڈین آبدوز کو پاکستان کی خصوصی اقتصادی زون کی سمندری حدود میں تقریباً 100 ناٹیکل مائل پر پکڑا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈین آبدوز کی جانب سے پاکستانی حدود میں داخلے کی مبینہ کوشش کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب پاکستان اور انڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی عروج پر ہے۔

عماد خالق
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

روسی گیس کے منصوبے پر امریکہ کا یورپ کو تعزیرات کا انتباہ

$
0
0

یوکرین کے سربراہ، پیٹرو پوروشنکو نے متنبہ کیا ہے کہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ کے ذریعے روس جب چاہے گا مغربی یورپ کی گیس جاری رکھتے ہوئے یوکرین اور وسط یورپ کی گیس بند کر دے گا، جس حربے کے ذریعے وہ اپنے قریبی ہمسایوں کو بلیک میل کر سکتا ہے۔ برسلز میں توانائی کے موضوع پر منعقدہ ایک اجلاس کے دوران امریکی اہلکاروں نے متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اُن یورپی کمپنیوں کے خلاف تعزیری کارروائی کرے گی جو کریملن کی پسندیدہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ قدرتی گیس پائپ لائن تعمیر کر رہی ہیں، جس کے ذریعے یوکرین کو نظر انداز کرتے ہوئے روس جرمنی کو توانائی کی رسد پہنچائے گا۔

’نورڈ اسٹریم 2‘ کا منصوبہ زیادہ تر پرانی پائپ لائن کی جگہ لے گا۔ یہ پائپ لائن یوکرین اور پولینڈ سے گزرے گی، جس منصوبے کو جرمن حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن، اس کی وجہ سے وسط یورپی حکومتیں چوکنا ہو گئی ہیں، اور اُنھیں جرمن حکومت کی جانب سے ان کی تشویش کی پرواہ نہ کرنے پر افسوس ہے۔ اُنھیں ’نورڈ اسٹریم 2‘ پر اعتراض تھا، جو منصوبہ 1200 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور روس کے شہر وائمبرگ سے جرمنی کے شہر ربمن تک جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بحیرہ بلقان کے اندر سے گزرتا ہے، جس سے نہ صرف پرانی پائپ لائن پر اٹھنے والی خاصی مالیت پر محصول سے بچا جائے گا، بلکہ روس کے نزدیک اس کی وجہ سیاسی ہے ناکہ تجارتی۔

بیلجئم کے دارالحکومت، نکول گبسن میں توانائی کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے، امریکی محکمہٴ خارجہ کے معاون سربراہ برائے یورپ نے متنبہ کیا کہ اگر یورپی کمپنیاں اس سال کے آخر تک پائپ لائن بچھانے کا کام پھر سے شروع کریں گی، تو ان کی خلاف ’’اہم تعزیرات کا خطرہ‘‘ موجود ہے۔ گبسن نے تعزیرات کی دھمکی کے بارے میں مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ کا معاہدہ طے ہو چکا ہے۔ بقول اُن کے، ’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ امر واقعہ ہے کہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ معاہدہ طے ہو چکا ہے۔ ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ ہم یورپی سربراہان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ پر عمل درآمد نہ کیا جائے‘‘۔ یوکرین کے سربراہ، پیٹرو پوروشنکو نے متنبہ کیا ہے کہ ’نورڈ اسٹریم 2‘ کے ذریعے روس جب چاہے گا مغربی یورپ کی گیس جاری رکھتے ہوئے یوکرین اور وسط یورپ کی گیس بند کر دے گا، جس حربے کے ذریعے وہ اپنے قریبی ہمسایوں کو بلیک میل کر سکتا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ


شمالی کوریا اپنی جوہری تنصیبات کو دوبارہ بحال کر رہا ہے، ماہرین

$
0
0

شمالی کوریا ان جوہری تنصیب کی بحالی پر کام کر رہا ہے جنہیں امریکا سے معاہدے کے تحت بند کر دیا گیا تھا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ماہرین نے سٹیلائٹ تصاویر کی مدد سے انکشاف کیا ہے کہ شمالی کوریا نے اپنی حال ہی میں ختم کر دینے والی راکٹ لانچ کرنے کی سائٹ کی دوبارہ تعمیر شروع کر دی ہے۔ شمالی کوریا نے سہائے کی یہ سائٹ امریکا سے معاہدے کے تحت بند کی تھی۔ سہائے کی تنگچینج-ری سائٹ کی ازسر نو بحالی کی سٹیلائٹ تصاویر اُس وقت سامنے آئی ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان ویتنام میں ہونے والی دوسری تاریخی ملاقات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔

گزشتہ برس امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان کے درمیان پہلی تاریخی ملاقات سنگاپور میں ہوئی تھی جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت شمالی کوریا اپنے جوہری تنصیبات کو مرحلہ وار بند کر دے گا جب کہ امریکا شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دے گا۔ دونوں ممالک معاہدے پر دو طرفہ عمل درآمد کی رفتار پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، تاہم دوسری ملاقات کے بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد شمالی کوریا کا جوہری تنصیبات کی بحالی کا آغاز خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے شمالی کوریا کے اس اقدام پر کسی قسم کا تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ 2012 سے سہائے میں واقع شمالی کوریا کی جوہری تنصیب سٹیلائٹ کی لانچنگ سائٹ ہی نہیں بلکہ یہ سائٹ ایسے میزائل کے تجربے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جو امریکا تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

افغان جنگ کے خاتمے کا بل امریکی سینیٹ میں پیش کر دیا گیا

$
0
0

امریکی سینیٹ کے دو ممبران نے ایوان میں قریب دو دہائیوں سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے لئے بل پیش کر دیا ہے۔ یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب امریکی حکام افغان طالبان کے ساتھ امریکی فورسز کی واپسی اور دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق مذاکرات کر رہے ہیں۔ یہ بل ری پبلکن ممبر سینیٹر رینڈ پال اور ڈیموکریٹ سینیٹر ٹام اوڈال نے پیش کیا ہے، جسے افغان ایکٹ 2019 کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے واشنگٹن افغانستان میں اپنی جیت کا اعلان کرے گا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اگلے 45 دنوں میں، ایک پلان بنایا جائے گا جس کے ذریعے فورسز کی باضابطہ واپسی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور ایک سال کے اندر افغانستان سے سارے امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اور سیاسی مفاہمت کے طے کیے جانے والے فریم ورک کو افغانستان اپنے آئین کے تحت نافذ کرے گا اور اس عمل میں اسے کی معاونت کی جائے گی۔‘‘

سینیٹر پائل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’طویل جنگ ہماری قومی سیکورٹی کو کمزور، ہماری آئندہ نسل کے مستقبل کو شدید قرض کی وجہ سے تباہ اور ہمارے مزید دشمن پیدا کرتی ہے جو ہمارے لئے خطرہ ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملے پر القاعدہ کو سزا دینے کا مشن پورا ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ اس طویل جنگ کو ختم کیا جائے۔ پاول کا کہنا تھا کہ افغان جنگ میں امریکی فوج نے 2300 سے زائد اہل کاروں کی قربانی دی ہے اور تقریباً 20 ہزار زخمی ہوئے۔ اس جنگ میں امریکہ نے اب تک دو ٹرلین ڈالر کا خرچ برداشت کیا ہے اور ہر سال اس جنگ پر 51 ارب ڈالر کا اضافی خرچ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم امریکہ کی مقامی ضروریات میں خرچ کی جا سکتی ہے۔

اس بیان میں سینیٹر اوڈال نے لکھا کہ جلد ہی اب امریکہ اس جنگ میں ایسے فوجی بھیجنا شروع کر دے گا جو جنگ شروع ہونے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس ملک کی طویل ترین جنگ کے بارے میں مختلف انداز سے سوچنا شروع کر دیں۔ سینیٹر پاول نے اس بل کے پیش کئے جانے سے پہلے اپنے ایک ویڈیو پیٖغام میں اس جنگ میں کئے گئے بے جا اخراجات کا ذکر کیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں سوال اٹھایا کہ اب افغانوں کو اپنے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اس جنگ میں جیت کا اعلان کرے اور اب یہ اپنے ملک میں تعمیر کا وقت ہے نہ کہ افغانستان میں۔

یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرت میں مصروف ہے تاکہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ختم ہو سکے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اعلان کیا تھا کہ اگر مذاکرات مثبت رہے تو وہ افغانستان میں موجود امریکی افواج میں کمی کر سکتے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا موجودہ دور قطر میں جاری ہے۔ امریکی ٹیم کی قیادت زلمے خلیل ذاد کر رہے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی فریق نے کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پچھلے برس کی خزاں کے بعد سے مذاکرات میں تسلسل آیا ہے اور دونوں فریقین نے مذاکرات میں پیش رفت کے بیانات دئے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اب تک مذاکرات اس بات پر ہو رہے ہیں کہ امریکی افواج کب خطے سے نکل جائیں گی اور انخلا کے بعد کیا گارنٹیاں دی جائیں گی جن میں طالبان سے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے روکنا ہے۔

طالبان نے، جو افغانستان کے آدھے سے زیادہ رقبے پر اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں، افغان حکومت سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 17 سال سے جاری اس جنگ میں محتاط اندازوں کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عام شہری، افغان اور بین الاقوامی فورسز کے اہل کار، غیر ملکی کنٹریکٹر اور شورش پسند شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں افغانستان میں تقریباً 4000 عام شہری ہلاک ہوئے جو ایک عشرے دوران اس ملک میں جاری لڑائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔

ایاز گل

بشکریہ وائس آف امریکہ

کیا پاک بھارت ایٹمی جنگ ممکن ہے ؟ نیویارک ٹائمز کا تجزیہ

$
0
0

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نےاپنے اداریے میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنا عین ممکن ہے۔ امریکا کے مقبول ترین اخباروں میں سے ایک نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ سرحدوں پر دونوں ملکوں کی فوج تیار ہے اور حکومتوں کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے، خوف ناک صورت حال کا سامنا رہے گا ۔ اپنے اداریہ میں اخبار کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑجانے کا امکان ہے، دونوں ملک خطرناک صورتحال میں داخل ہو چکے ہیں۔

اخبار کے مطابق دونوں ملکوں کے ایٹمی ہتھیاروں کے سبب اگلی محاذ آرائی اس سے کہیں زیادہ بعید ازقیاس ہوگی، اور ممکن ہے اتنی آسانی سے ختم نہ ہو۔ اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت کا پاکستان پر حملے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد مارنے کا دعویٰ مشکوک ہے۔ اخبار نے واضح کیا ہے کہ 70 برس میں 3 جنگیں لڑنے والے دونوں ممالک کے درمیان صورتحال خراب تر ہو سکتی تھی۔ سرحدوں پر دونوں ملکوں کی فوج تیار ہے، مگر حکومتوں کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ سونے پہ سہاگہ نریندر مودی پاکستان کے خلاف بات کر کے ہندو قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گرفتار بھارتی پائلٹ واپس کیا جو خیر سگالی کے طور پر دیکھا گیا، اس سے نریندر مودی کو بھی موقع ملا کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہ کریں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد سے اب تک پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئی ہے، مگر یہ نسبتا ًکمی مسئلہ کا حل نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان اور بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر کا بنیادی تنازعہ حل نہیں کرتے صورتحال غیر متوقع رہے گی۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونے تک دونوں ملکوں کو خوفناک صورتحال کا سامنا رہے گا۔ نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے کے لیے عالمی کردار کی بھی وکالت کی اور واضح کیا کہ عالمی دباؤ کے بغیر دیرپا حل ناممکن ہے، ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار رہے گا۔

اخبار نے یاد دلایا کہ انیس سو نناوے، سن دوہزار دو اور سن دو ہزار آٹھ میں پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی صدور بل کلنٹن، جارج بش اور براک اوباما نے اہم کردار ادا کیا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے کشیدگی میں کمی سے متعلق اس وقت بیان دینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے کے لیے ٹرمپ کا بطور ثالث کردار نظر نہیں آتا، کیونکہ تجارتی مفادات سامنے رکھ کر ٹرمپ نے امریکا کا جھکاؤ پاکستان کے خلاف اور بھارت کی جانب کر دیا ہے۔ اداریہ کے مطابق اقوام متحدہ کے نزدیک بھی بھارتی پالیسی سے عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے، مسئلہ کا حل پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان بات سے نکلنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کا امریکی حکومت پر مقدمہ

$
0
0

چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ’ہواوے‘ نے امریکی حکومتی اداروں کو اسکی مصنوعات خریدنے سے روکنے والے قانون کے خلاف قانونی محاذ آرائی کا آغاز کر دیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی ‘ کے مطابق مذکورہ کمپنی پر امریکی حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ چینی خفیہ اداروں کو معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ ہواوے کی جانب سے بتایا گیا کہ ٹیکساس کی ڈسٹرک عدالت میں 2019 کے دفاعی بل کو چیلنج کر دیا گیا ہے جس میں حکومتی اداروں کو کمپنی کے آلات خریدنے اور ایسی تھرڈ پارٹی کے ساتھ کام کرنے سے منع کیا گیا تھا جو ہواوے کے صارفین ہوں۔ ہواوے کی جانب سے یہ اقدام عالمی سطح پر اس جانب اشارہ ہے ہائی اسپیڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے مستقبل، 5 جی ٹیکنالوجی کی دوڑ سے روکے جانے پر کمپنی عدالتوں سمیت ہر راستہ اپنانے کو تیار ہے۔

ہواوے کے چیئرمین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’امریکی کانگریس ہواوے کی مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کی وجہ بننے والے شواہد پیش کرنے میں بار بار ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون کو ہٹا دیا جائے تو ہواوے امریکا میں بہترین 5 جی نیٹ ورک بنانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے جبکہ اس پابندی سے کمپنی کو ناقابلِ شمار نقصان ہو رہا ہے۔ چین میں کارپوریٹ ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی حکومت نے کمپنی کو محدود کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا‘۔

اس کے ساتھ انہوں نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے امریکی حکومت پر ہیکرز کی مدد سے اپنے سرورز کو ہیک کرنے اور ای میل اور سورس کوڈ چرانے کا الزام عائد کیا تھا۔ خیال رہے کہ امریکی حکومت طویل عرصے سے ہواوے کو اس کے بانی رین زینگفائی کے سابقہ فوجی انجینئر ہونے کی وجہ سے بڑا خطرہ قرار دیتی رہی ہے۔ یہ خدشات اس وقت مزید زور پکڑ گئے جب ہواوے نے دنیائے ٹیلی کام میں ترقی کرتے ہوئے ایپل اور سام سنگ کے ساتھ تیسری بڑی کمپنی بن کر ابھری۔ ہواوے کی جانب سے امریکی حکومت کے خلاف کیے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’یہ عدالتی یا حکومتی طاقت کا غیر آئینی مظاہرہ تھا‘۔

واضح رہے کہ بیجنگ کی جانب سے چینی کمپنیوں کو قومی سلامتی کے امور میں حکومت کی معاونت کرنے کے قانون نے امریکی خدشات میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ جس پر امریکی حکومت نے دیگر اقوام کو خبردار کیا تھا کہ چین کی کمیونسٹ حکومت ہواوے کے آلات میں گڑبڑ کر کے دوسرے ممالک میں جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے لہٰذا اس کمپنی سے بچا جائے۔ امریکا کا اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا الٹرا فاسٹ 5 جی ٹیکنالوجی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے ہواوے اہم کردار ادا کرے گی۔

بشکریہ ڈان نیوز

قا زقستان جہاں کی تقریباً 70 فیصد آبادی مسلمان ہے

$
0
0

قازقستان وسطی ایشیا کا ایک خوبصورت، قدرتی وسائل سے مالامال اور وسیع ملک ہے۔ اس کا رقبہ مغربی یورپ کے کل رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ اس کا سرکاری نام جمہوریہ قازقستان ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا لینڈ لاک ملک ہے، یعنی اس کی سرحدوں کے ساتھ کوئی سمندر نہیں۔ اس کے شمال میں روس، مشرق میں چین، جنوب مشرق میں کرغیزستان، جنوب میں ازبکستان اور ترکمانستان اور جنوب مغرب میں بحیرہ قزوین واقع ہیں۔ 1997ء تک دار الحکومت الماتے تھا جسے بعد میں استانہ منتقل کر دیا گیا۔ الماتے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ تاریخی طور پر یہاں ترک خانہ بدوش آباد رہے۔ 

تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ انسانوں نے سب سے پہلے قازقستان اور اس کے آس پاس کے میدانوں میں گھوڑوں کو سدھایا اور پھر اسے سواری کے لیے استعمال کرنے لگے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کے زمانے میں یہ منگول سلطنت کا حصہ بنا۔ سولہویں صدی میں قازق لوگ علیحدہ شناخت کے ساتھ سامنے آئے۔ روسیوں نے اٹھارہویں صدی میں اس جانب بڑھنا شروع کیا۔ انیسویں صدی کے وسط سے یہ سلطنت روس کا حصہ بن گیا۔ اس وقت روس میں بادشاہت تھی۔ 1917ء کے انقلابِ روس اور اس کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد اسے قازق سوویت سوشلسٹ ری پبلک کا نام دیا گیا اور یہ سوویت یونین کا حصہ بن گیا۔ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد قازقستان آزاد ہوا۔ یہ آخری سوویت ریاست تھی جو علیحدہ یا آزاد ہوئی۔ قازقستان کی وسیع و عریض سرزمین بڑی متنوع ہے، اس میں گھاس کے میدان، قطبی جنگلات، برف پوش پہاڑ، دریائی میدان اور صحرا سب کچھ شامل ہیں۔ 

آزادی کے بعد سے قازقستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کے روس کے ساتھ گہرے مراسم ہیں تاہم مغرب سے مخاصمت بھی نہیں۔ ملک اپنی معیشت، خصوصاً معدنی تیل اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی ترقی پر توجہ دے رہا ہے۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے ملک میں اظہارِ رائے پر خاصی پابندیاں ہیں۔ ملک کی 63 فیصد آبادی قازق ہے۔ اس کے علاوہ آباد قوموں میں روسی، ازبک ، یوکرینی، جرمن، تاتار اور او یغور شامل ہیں۔ تقریباً 70 فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ 26 فیصد مسیحی ہیں۔ ملک کی بڑی زبان قازق ہے جس کا تعلق ترک زبانوں کے گروہ سے ہے۔ آج قازق زبان قازقستان اور منگولیا میں سیریلک حروف تہجی میں لکھی جاتی ہے جبکہ چین میں دس لاکھ سے زائد قازق بولنے والے عربی ماخوذ حروف تہجی کا استعمال کرتے ہیں جیسا کہ سنکیانگ میں بولی جانے والی اویغور زبان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

محمد شاہد

ترکی نے ایس 400 نظام خریدا تو سنگین نتائج کا سامنا ہو گا : پینٹاگون

$
0
0

پینٹاگان نے کہا ہے کہ ’’اگر ترکی ایس 400 لیتا ہے تو اسے ایف 35 طیارے اور پیٹریاٹس نہیں دیے جائیں گے‘‘۔ پینٹاگان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ترکی نے روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والا نظام خریدا تو امریکہ اور ترکی کے فوجی تعلقات کو ’’سنگین نتائج‘‘ درپیش ہوں گے۔ پینٹاگان کے خاص ترجمان، چارلی سمرز نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اگر ترکی ایس 400 لیتا ہے تو فوجی تعلقات کے حوالے سے اُن کے ساتھ ہمارے تعلقات کے لیے سنگین نتائج نکلیں گے۔ سمرز نے کہا کہ اس سے ترکی کو امریکی فوجی ہتھیاروں کی فروخت متاثر ہو گی، جس میں امریکہ کا نیا ’ایف 35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر جیٹ‘ شامل ہو گا، جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار ہے۔

سمزر نے کہا کہ ’’اگر ترکی ایس 400 لیتا ہے تو اسے ایف 35 طیارے اور پیٹریاٹس نہیں دیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے پیٹریاٹ میزائل نظام کی جانب تھا، جس کا بنیادی کام بیلسٹک میزائلوں کے خلاف دفاع ہے، جسے ایس 400 کا امریکی متبادل خیال کیا جاتا ہے۔ ترکی نے ایس 400 میزائل نظام خریدنے کے لیے2017ء میں روس کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ اسی دوران، ترکی نے ایف 35 پروگرام کی مالی معاونت کی اور امریکہ سے 100 جیٹ طیارے خریدنے کا پروگرام بنایا، جس کی پہلی رسد اس سال کے اواخر تک فراہم کی جانی ہے۔

امریکہ کو اس بات کا ڈر ہے کہ ایس 400 نظام کے جدید ترین ریڈار ایف 35 کی ٹیکنالوجی میں حائل ہوں گے، جسے روسی ساختہ نظاموں کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ ایس 400 نظام اُس کی ضروریات بخوبی پوری کرتا ہے اور اس سے نیٹو کے نظاموں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔
اس ہفتے کے اوائل میں یورپی کمان کے امریکی سربراہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکہ ایف 35 کی فروخت کے معاملے پر آگے نہ بڑھے، اگر ترکی ایس 400 میزائل نظام خریدنے پر مصر ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

وینزویلا میں بجلی کا بدترین بریک ڈاؤن

$
0
0

ملک کے ستر فیصد علاقے تاریکی میں ڈوب گئے۔ صدر مدورو کا کہنا ہے کہ بجلی کی بندش کر کے امریکا نے جنگ مسلط کر دی ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے صورتحال کا ذمہ دار وینزویلا کی حکومت کو قرار دیا ہے۔ امریکا اور وینزویلا کے تعلقات میں مزید کشیدگی، وینزویلا نے بجلی کے طویل شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے دیا۔ گزشتہ روز وینزویلا کے دارالحکومت سمیت ملک کے 70 فیصد علاقوں میں 36 گھنٹوں تک بجلی غائب رہی جس پر صدر مدورو نے الزام عائد کیا کہ امریکا نے بجلی کی طویل بندش کر کے "بجلی کی جنگ"مسلط کر دی ہے۔ وزیر توانائی نے بھی ملبہ امریکا نواز اپوزیشن پر ڈال دیا۔ صدر مدورو کے الزام پر امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وینزویلا میں بجلی کی بندش کی ذمہ دار مدورو کی حکومت ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کو وینزویلا کا صدر تسلیم کرنے پر امریکا اور وینزویلا کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔


شمالی کوریا میزائل تجربے کی تیاری کر رہا ہے : رپورٹ

$
0
0

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر شمالی کوریا جوہری تجربات کی جانب پلٹتا ہے تو یہ ''انتہائی مایوس کن''امر ہو گا، ایسے میں جب حال ہی میں اُن کی شمالی کوریا کے سربراہ، کم جونگ اُن سے ملاقات ہو چکی ہے۔ 'نیشنل ریڈیو پبلک'نے خبر دی ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ شمالی کوریا میزائل یا خلائی تجربے کی تیاری کر رہا ہے۔ خبروں کے امریکی ادارے نے بتایا ہے کہ پیونگ یونگ کے قریب واقع سنومڈونگ تنصیب کی سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ ٹرکوں، کاروں، ریل کاروں اور کرینوں کی موجودگی کا بتا دیتا ہے۔ جیفری لوئیس کیلیفورینیا کے شہر مونٹیری میں قائم مڈلبری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے تعلق رکھتے ہیں۔

اُن کے الفاظ میں ''جب آپ سارے تانے بانے ملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے جب کوریا راکٹ تعمیر کرتا ہے تو منظر اسی نوعیت کا ہوتا ہے''۔ لوئیس نے ان تصاویر کا تجزیہ کیا ہے، جو 'ڈیجیٹل گلوب'نے فراہم کی تھیں، جو خلا اور زمین کی تصاویر لینے والا امریکی کمرشل ادارہ ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر شمالی کوریا جوہری تجربات کی جانب پلٹتا ہے تو یہ ''انتہائی مایوس کن''امر ہو گا، ایسے میں جب حال ہی میں اُن کی شمالی کوریا کے سربراہ، کم جونگ اُن سے ملاقات ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے یہ بیان اخباری نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیا۔ 

اُنھوں نے کہا کہ جب سے اُنھوں نے عہدہ سنبھالا ہے، امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ اُنھوں نے کہا ''دیکھیں، جب میں نے اختیارات سنبھالے؛ اس سے قبل اوباما انتظامیہ کے دور میں شمالی کوریا ایک تباہی کے راستے پر گامزن تھا۔ جنگ چھڑنے کا سماں تھا، شاید آپ کو اس بات کا پتا ہو۔۔۔ورثے میں مجھے ایسی خطرناک صورت حال ملی''۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ''اس وقت کوئی تجربہ نہیں ہو رہا، کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن، مجھے مایوسی ہو گی اگر کوئی تجربہ کیا جاتا ہے''۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو امریکی میڈیا نے کس طرح دیکھا ؟

$
0
0

بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے خودکش حملے کے بعد بڑھنے والے حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر امریکن میڈیا میں سیکڑوں خبریں اور تجزیے سامنے آئے، جس میں تقریباً تمام نے پاکستان اور بھارت کے تنازع میں مسئلہ کشمیر کو مرکزیت کے طور پر اجاگر کیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے تعلقات دہائیوں کے سب سے زیادہ سنگین کشیدگی کا سامنا کر رہے ہیں‘۔ نیویارک ٹائمز نے خبردار کیا کہ ’ یہ شمالی کوریا نہیں، یہ وہ ہے جہاں جوہری تبادلے کا قوی امکان ہے‘، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوئی لیکن ان کے جوہری ہتھیاروں کا مطلب یہ ہے کہ ناقابل تصور نتائج ہمیشہ ممکن ہیں‘۔


تاہم ان سب میں کوئی بھی اتنا گہرائی میں نہیں گیا جتنا مورخ چترالیکھا زوتشی نے ’مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک سرحدی تنازع نہیں‘ کے عنوان سے اپنا تجزیہ چینل نیوز ایشیا (سی این اے) کے لیے لکھا، جسے اتوار کو ان کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں خود مختاری کے لیے موجود خواہش نے بار بار جدوجہد اور آزادی کی تحریکوں کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے لکھا کہ اب کشمیر میں ہونے والی جدوجہد اور تحریکوں کے درمیان ’کشمیر وادی میں بھارتی حکمرانی کے خلاف پرتشدد مزاحمت جاری ہے، جس کا آغاز 1989 میں ہوا اور 3 دہائیوں کے درمیان یہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری ہے‘۔

چترالیکھا زوتشی نے نشاندہی کی کہ اس تنازع میں ہزاروں افراد قتل ہوئے جبکہ وادی کشمیر ’موثر طور پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے قبضے میں ایک فوجی زون بن گیا‘۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’بھارتی اہلکار وہاں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیاں کر چکے ہیں، جس میں مظاہرین پر فائرنگ اور اس دوران لوگوں کو گرفتار کرنے سے انکار شامل ہے‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیر میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے لیکن وہاں ہونے والی تشدد کی بنیادی وجہ نہیں، لہٰذا ’میرے اندازے میں تنازع کشمیر کو صرف پاکستان اور بھارت کی جانب سے دوطرفہ طور پر حل نہیں کیا جا سکتا، یہاں تک کہ اگر دونوں ممالک اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کا اظہار کریں۔ انہوں نے لکھا کہ اس معاملے پر ایک کھلی بحث ہونی چاہیے جس میں کشمیری عوام کی امنگوں پر بھی مباحثہ اور انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔

انور اقبال
بشکریہ ڈان نیوز

ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں اضافہ، فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟

$
0
0

ہتھیاروں کی عالمی سطح پر تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہتھیار فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکا ہے، جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا چھتیس فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔ اسٹاک ہولم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ سِپری کے مطابق سن دو ہزار نو سے سن دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں دنیا بھر میں سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریبا آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بالترتیب روس، فرانس، جرمنی اور چین ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ سِپری کی اس رپورٹ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں:

سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک جتنے بھی ہتھیار فروخت ہوئے، ان میں سے چھتیس فیصد امریکا نے برآمد کیے۔ یوں سن دو ہزار نو سے لے کر سن دو ہزار تیرہ تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں چھ فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا نے مجموعی طور پر ایک سو سے کچھ کم ممالک کو ہتھیار فروخت کیے جبکہ مجموعی طور پر ان ہتھیاروں کا نصف حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کیا گیا۔ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک روس ہے، جس نے تقریباﹰ اٹھائیس ممالک کو اسلحہ بیچا۔

دنیا بھر میں ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ہر پانچویں ڈیلیوری روس نے کی۔ سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک دنیا میں ہتھیاروں کے پانچ بڑے برآمد کنندہ ممالک امریکا، روس، فرانس، جرمنی اور چین رہے۔ بین الاقوامی سطح پر جرمن ہتھیاروں کی فروخت میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا۔ بیرونی ممالک نے خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی خرید میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اس عرصے میں ماضی کے چار برسوں کے مقابلے میں دو گنا ہتھیار خریدے۔ سپری کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک بڑے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور میزائلوں جیسے بھاری ہتھیار زیادہ فروخت کیے گئے جبکہ دستی بموں اور رائفلوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے خطے کے امیر ممالک میں اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں بھی مزید اضافہ ہوا۔

بشکریہ DW اردو

مالی : براعظم افریقہ کا آٹھواں بڑا ملک

$
0
0

جمہوریہ مالی براعظم افریقہ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ مالی کے شمال میں الجزائر، مشرق میں نائیجریا، جنوب میں برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ، جنوب مغرب میں گنی اور مغرب میں سینیگال اور موریطانیہ واقع ہیں۔ شمال میں سیدھی اس کی سرحد مرکزی صحارہ تک جاتی ہے۔ زیادہ تر آبادی جنوب میں ہے۔ یہ سابقہ فرانسیسی سوڈان کا حصہ رہا۔ آزادی کے بعد ماضی کی سلطنت مالی کے نام پر مالی کہلایا۔ مالی بمبارا زبان میں دریائی گھوڑا یا گینڈا کو کہتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت بماکو ہے۔ جہاں مالی واقع ہے یہاں کبھی تین افریقی سلطنتیں ہوا کرتی تھیں جو صحارہ میں ہونے والی تجارت کو کنٹرول کرتی تھیں۔

گھانا سلطنت، مالی سلطنت اور سونغائی سلطنت۔ یہ مغربی افریقہ کا سنہرا دور تھا اور وہاں ریاضی، فلکیات، ادب اور فن ترقی کر رہا تھا۔ 1300ء میں اپنے عروج کے زمانے میں مالی سلطنت فرانس سے دگنے رقبے پر مشتمل تھی۔ مالی میں موسم گرم و خشک ہے اور سطح زمین زیادہ تر ہموار ہے جو شمال کی طرف قدرے بلند ہوتی جاتی ہے۔ زیادہ تر ملک صحارہ میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں گرم ہوائیں اور ریتلے طوفان چلتے ہیں۔ جنوبی علاقہ نسبتاً سرسبز ہے۔ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جہاں سونا، یورینیم، فاسفورس کے مرکبات، نمک اور چونا کی کانیں بکثرت ہیں۔ مالی کا شہر ٹمبکٹو مغربی افریقہ کی تین مذکورہ سلطنتوں میں اہم ترین شہر تھا۔ صحارہ سے منسلک ان سلطنتوں میں سونے، نمک، غلاموں وغیرہ کی وسیع تجارت ہوتی تھی۔

عروج کے زمانے میں ٹمبکٹو صحارہ سے ہونے والی تمام تجارت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ علم کا مرکز بھی تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ علاقہ فرانسیسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ مالی نے 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ مالی کی سرحد سے کوئی سمندر منسلک نہیں یعنی یہ لینڈ لاک ملک ہے۔ اس کا شمار دنیا کے گرم ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ کپاس بڑی مقدار میں برآمد کی جاتی ہے۔ مشہور فصلیں چاول، مکئی، سبزیاں، تمباکو ہیں۔ ملک کی 80 فیصد برآمدات زرعی اجناس، سونا اور مویشیوں پر مشتمل ہیں۔ 

معروف آزاد





بالکل نیا طیارہ ایک سال میں دو دفعہ گر چکا، بوئنگ 737 کی اڑان پر دنیا بھر میں پابندی

$
0
0

ایتھوپین ائیر لائن کے طیارے 737 میکس کو حادثہ پیش آنے کے بعد چین نے اپنے تمام بوئنگ 737 میکس 8 طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چین کی سول انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جدید طیارہ 737 میکس 8 گذشتہ پانچ ماہ کے دوران دو مرتبہ حادثے کا شکار ہوا اور یہ حادثات پرواز کے اُڑان بھرنے کے بعد پیش آئے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز ایتھوپین ائیر لائن کا ادیس ابابا سے نیروبی جانے والا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 157 افراد سوار تھے۔ بوئنگ 737 طیارے میں 149 مسافر اور عملے کے 8 ارکان موجود تھے اور حادثے میں کسی بھی مسافر کے زندہ بچنے کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

چین نے اس طیارے کے محفوظ ہونے پر بھی کئی سوالات اُٹھا دئے ہیں۔ تمام چینی ائیرلائنز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ بوئنگ 737 میکس 8 پر جانے والی تمام پروازوں معطل کر دیں۔ جبکہ کچھ اطلاعات کے مطابق کئی روٹس کی پروازوں کے طیاروں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ پُرانے جہازوں کو بھجوایا جائے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بوئنگ 737 میکس 8 اس وقت دنیا کے معروف ترین اور جدید ترین جہازوں میں سے ایک ہے جسے دنیا بھر کی ائیرلائنز استعمال کرتی ہیں لیکن اس طیارے میں تکنیکی خرابی اور گذشتہ 5 ماہ کے دوران دو جہازوں کے کریش ہونے کی وجہ سے کئی ائیرلائنز محتاط ہو گئی ہیں اور اس جہاز کو گراؤنڈ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اس جہاز کو کم قیمت پروازوں کے لیے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بوئنگ 737 میکس 8 جہاز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ایک جدید ترین نوعیت کا جہاز بنایا گیا تھا لیکن اس میں پیدا ہونے والی تکنیکی خرابی کی وجہ سے اس جہاز کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلائی دبئی اور پاکستان آنے والی متعدد ائیر لائنز بھی اسی طیارے کا استعمال کرتی ہیں جس کے بعد طیارے کو گراؤنڈ کرنے کا مطالبہ مزید زور پکڑ گیا ہے۔ گزشتہ پانچ مہینوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے کہ 737 میکس 8 ماڈل کا طیارہ کسی حادثے کا شکار ہوا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں گرنے والا طیارہ انڈونیشیا کی لائن ایئر کا تھا اور دونوں حادثوں میں ملوث طیاروں کے درمیان موازنہ کیا جا رہا ہے۔ لائن ایئر کا طیارہ اڑان بھرنے کے فوراً بعد آسمان سے گرنا شروع ہو گیا تھا۔ 737 میکس 8 طیارہ بالکل نیا اور جدید طیارہ ہے اور سال 2017 سے اس کا کمرشل استعمال شروع ہوا ہے۔ 

حادثے کی تحقیقات:
لائن ایئر کے حادثے کی تحقیقات کرنے والوں نے کہا تھا کہ پائلٹس کو طیارے کے ایک خود کار سسٹم کے ساتھ مشکل پیش آ رہی تھی۔ یہ خود کار سسٹم طیارے کی ایک نئی خصوصیت تھی اور اس کا مقصد طیارے کے انجن کو بند یا سٹال ہونے سے روکنا تھا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس سسٹم کی وجہ سے طیارہ بار بار منھ کے بل نیچے جاتا تھا اور پائلٹس کئی کوششوں کے باوجود وہ اسے قابو میں نہ لا سکے۔ اس بارے میں نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی سابق انسپکٹر جنرل میری سکیاوہ کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی مشکوک بات ہے ۔ ہمارے پاس ایک بالکل نیا طیارہ ہے اور وہ ایک سال میں دو دفعہ گر چکا ہے۔ اس سے ہوا بازی کی صنعت میں خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہیے، کیوں کہ ایسا عموماً نہیں ہوتا۔ 

اس طیارے کو استعمال کرنے والی متعدد جنوبی امریکہ کی ائیرلائنز نے کہا ہے کہ وہ مانیٹرنگ اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ ساؤتھ ویسٹ ایئر لائنز کے پاس 31 ایسے طیارے ہیں جبکہ امیریکن ایئر لائنز اور ایئر کینیڈا دونوں کے پاس 24 طیارے ہیں۔ چینی کے ہوابازی کے نگراں ادارے نے بھی مقامی ہوائی کمپنیوں کو بوئنگ 737 میکس 8 کے استعمال سے روک دیا ہے۔ چین میں ان طیاروں کی تعداد 90 سے زیادہ ہے، اس پابندی کی وجہ سے ایئر چائنہ، چائنہ ایسٹرن ایئر لائنز اور چائنہ سدرن ایئر لایئز سمیت متعدد ہوائی کمپنیاں متاثر ہوں گی۔ طیارے کو تیار کرنے والی کمپنی بوئنگ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’کمپنی اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔‘

بشکریہ دنیا نیوز

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>