Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

صارفین کی نجی معلومات, فیس بک کو تاریخی جرمانہ ؟

$
0
0

فیس بک کے بارے میں شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس نے صارفین کی نجی معلومات کو شعوری طور پر دوسروں کو پہنچایا یا بیچا۔ اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ امریکی اخبارات کے مطابق ملک کے وفاقی تجارتی کمیشن اور فیس بک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جن میں اربوں ڈالر کا جرمانہ زیربحث ہے۔ یہ جرمانہ کمیشن کی تحقیق کے بعد لگائے جانے کا امکان ہے۔ اس نے سوشل میڈیا کی اس معروف کمپنی کی مشکوک سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد بہت بڑا جرمانہ تجویز کیا ہے۔ کمیشن نے ایک سال قبل ’’کیمبرج انالیٹیکا‘‘ سیکنڈل کی چھان بین شروع کی۔ ’’کیمبرج انالیٹیکا‘‘ ایک برطانوی کمپنی ہے جو ڈیٹا کی چھان بین کرتی ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ اس نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم میں بلااجازت لاکھوں فیس بک صارفین کا ڈیٹا لے کر اسے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا۔ کمیشن نے الزام لگایا ہے کہ فیس بک کا ڈیٹا شیئر کرنے کا نظام شفاف نہیں۔ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ جرمانہ کتنا ہو گا لیکن یہ بہت بڑا ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ کمیشن کی جانب سے عائد کردہ سب سے بڑا جرمانہ ہو۔ ٹیکنالوجی کمپنی پر پہلے بھی بڑے بڑے جرمانے عائد ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں گوگل پر یورپی یونین نے پانچ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا کیونکہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ فیس بک کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو وہ ایگری منٹ کرتے ہوئے اپنے قواعد و ضوابط بدل لے ۔ دوسرا راستہ کمیشن کے ساتھ عدالتی جنگ کا ہے۔  

محمد اقبال


بھارت میں الیکشن کے دنوں میں ہی جنگی ماحول کیوں؟

$
0
0

بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت پاکستان کیخلاف صرف ایسے وقت پر کوئی کارروائی کرنا چاہتی ہے جب ملک میں عام انتخابات کا مرحلہ قریب آچکا ہو، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس یہ ثبوت موجود ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے 8 فروری کو مرکزی حکومت کو یہ خفیہ اطلاع دے دی تھی کہ ملک میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہو سکتا ہے۔ ممتا بنرجی نے کہا میں حیران ہوں کہ آخر بھارت کی مرکزی حکومت گزشتہ 5 برس کے دوران پاکستان کو بھارت کے اندر دہشت گردی کروانے سے کیوں نہ روک سکی ؟ ٹی وی چینل نیوز 18 کے مطابق ممتا بنرجی نے بی جے پی کی مرکزی حکومت کو مخاطب کر کے مزید کہا کہ آخر کیا بات ہے کہ جب بھی عام انتخابات کا وقت قریب آجاتا ہے تو آپ (پاکستان کیخلاف) جنگ کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔

اے این آئی کے مطابق ممتا بنرجی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس ایسی دستاویزات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے 8 فروری کو مرکزی حکومت کو مطلع کر دیا تھا کہ لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے دہشت گردی ہو سکتی ہے، خود کش بمبار کے حملے کا بھی خطرہ ہے۔ کولکتہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ممتا بنرجی جو ترینامول کانگریس کی سربراہ بھی ہیں نے کہا مرکزی حکومت کو بتانا ہو گا کہ اس نے دہشت گردی کو روکنے کیلئے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ اسے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے خبردار کیا جا چکا تھا ؟ 

انہوں نے کہا مرکزی حکومت کو بتانا ہو گا کہ ان مخدوش حالات کے باوجود 78 جوانوں کو قافلے میں اکٹھے سفر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میرے فون کو مستقل ٹیپ کیا جا رہا ہے، مرکزی حکومت کو اس سوال کا جواب بھی دینا ہو گا کہ پلوامہ میں حملے کے بعد زخمی جوانوں کو علاج کیلئے بذریعہ طیارہ کیوں نہیں لے جایا گیا ؟ آپ اپنی پبلسٹی پر تو کثیر اخراجات کرتے ہیں، کیا آپ ان زخمی جوانوں کو طیارے یا کم از کم ٹرین کے ذریعے علاج کیلئے نہیں لے جا سکتے تھے؟ 

بشکریہ دنیا نیوز اردو


امریکی ریاستوں کا صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ

$
0
0

امریکہ میں 16 ریاستوں کے اتحاد نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ پر ہر جانے کا دعوی کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈ حاصل کرنے کی غرض سے یہ ہنگامی حالت نافذ کی ہے۔ یہ قانونی مقدمہ کیلیفورنیا کے شمالی ضلعے کی ایک عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے یہ اقدام سرحدی دیوار کے فنڈز کے حصول کے لیے کانگرس کے سامنے پیش ہونے کے بجائے اپنے اختیارات بڑھانے کے لیے اٹھایا۔ کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل زیویئر بیکیرا کا کہنا تھا وہ صدر ٹرمپ کو عدالت لے کر جائی گے تاکہ ان کی جانب سے صدارتی اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم صدر ٹرمپ کو ٹیکس دہندگان کی رقوم پر ڈاکہ ڈالنے سے روکیں گے جو وہ کانگرس کو بائی پاس کر کے کر رہے ہیں۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنگامی حالت کا اعلان اس وقت کیا جب کانگرس نے سرحدی دیوار کے لیے رقوم کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ پبلک سٹیزن نامی ایک گروہ نے قدرتی وسائل اور تین زمین مالکان کی جانب سے یہ مقدمہ دائر کیا جن کی حدود سے یہ دیوار گزرنی تھی۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے امریکی صدر کے فیصلہ کب ’سیاسی تھیٹر‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جبکہ نیویارک کے اٹارنی جنرل لٹیٹیا جیمز نے بھی اس فیصلہ کے خلاف قانونی جنگ کا اعلان کیا تھا۔

ڈینگ ژیاؤ پنگ : ان کے دور میں چین معاشی قوت بن کر ابھرا

$
0
0

معروف چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ نے چین میں آزاد انہ معاشی پالیسی متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1970ء کی دہائی سے 19 فروری 1997ء کواپنی موت تک وہ چین کی انتہائی طاقت ورشخصیت رہے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے اور فرانس میں زیرِ تعلیم رہے۔ اسی دوران وہ کمیونسٹ تحریک میں سرگرم ہو گئے۔ چین واپس آنے کے بعد ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ جماعت کے اہم علاقائی سیاسی و عسکری رہنما بن کر ابھرے۔ 1934ء میں مخالف قوم پرست چیانگ کائی شیک کی فوجوں نے ان کی جماعت کو ان کے ٹھکانوں سے نکال دیا۔ اس کے بعد ڈینگ نے لانگ مارچ میں شرکت کی تاکہ چین کے شمالی مغربی شان ژی صوبے میں جماعت کا ٹھکانہ بنایا جا سکے۔ 1947-49ء کی خانہ جنگی میں انہوں نے اپنی جماعت کی فوج کے ایک حصے کی قیادت کی۔

اپنی جماعت کی کامیابی کے بعد وہ جنوب مغربی چین میں ایک رہنما بن کر سامنے آئے۔ 1952ء میں وہ نائب وزیراعظم بنے۔ دو سال بعد وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل اوربعدازاں انتہائی طاقتور ادارے ’’پولیٹیکل بیورو‘‘ کے رکن بن گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے ہی انہوں نے مادی ترغیبات اور تکنیکی و انتظامی ہنرمند افرادی قوت کے ذریعے معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے خارجہ اور داخلہ امور میں بڑے فیصلے کرنا شروع کر دئیے تھے ۔ اس معاملے پر ان کا ماؤزے تنگ سے اختلاف بھی ہوا جو مادی ترغیبات کے بجائے معاشی ترقی کیلئے انقلابی جذبے اور مساویانہ پالیسیاں اپنانے کے خواہاں تھے۔ ڈینگ انفرادی مفاد پر توجہ دینے کے حق میں تھے ۔ 1966-76ء کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ میں ان پر حملہ بھی ہوا ، جس کے بعد ان سے عہدے واپس لے لیے گئے۔

سابق وزیرِ اعظم چو این لائی کے دور میں وہ نائب وزیراعظم بنا دیئے گئے۔ 1975ء میں وہ جماعت کی مرکزی کمیٹی کے نائب چیئرمین، پولیٹیکل بیورو کے ممبر اور چیف آف جنرل سٹاف بنا دئیے گئے۔ چواین لائی کی موت کے بعد سربراہی ڈینگ ژیاؤ پنگ کو ملنے کی توقع تھی لیکن ماؤ کے حامیوں نے یہ نہ ہونے دیا۔ ماؤ کی وفات کے بعد وہ ’’ریاستی کونسل‘‘ کے نائب صدر بنے جو چین میں اعلیٰ ترین انتظامی ادارہ ہے۔ اس کے بعد انہیں مرکزی کمیٹی کا نائب چیئرمین، ملٹری کمیشن کا نائب چیئرمین اور پیپلز لبریشن آرمی کا چیف آف جنرل سٹاف مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق چین میں سماجی اور معاشی اصلاحات کا آغاز کیا۔ انہوں نے ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ کو نافذ کیا ۔ انہوں نے چینی کسانوں کو ملکیت اور منافع کا حق دے دیا جس کی وجہ سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ انہوں نے مغربی دنیا سے تعلقات کو استوار کیا اور غیر ملکی کمپنیوں کو بھی سرمایہ کاری کی اجازت دی۔ ان کے دور میں چین معاشی قوت بن کر ابھرا۔ انہوں نے 92 برس کی عمر پائی۔

معروف آزاد



نیشنل ڈائٹ بلڈنگ : جہاں جاپانی حکومت کے دونوں ایوان بیٹھتے ہیں

$
0
0

نیشنل ڈائٹ بلڈنگ میں جاپانی حکومت کے دونوں ایوان بیٹھتے ہیں۔ ایوان نمائندگان کا اجلاس عمارت کے بائیں جانب والے حصے میں اور ایوان بالا (کونسلرز) کا اجلاس عمارت کے دائیں جانب والے حصے میں منعقد ہوتا ہے۔ موجودہ ڈائٹ بلڈنگ 1936ء میں مکمل ہوئی اور اس کی تعمیر میں صرف جاپانی مٹیریل استعمال ہوا ہے۔ صرف رنگین موٹی تہہ والا شیشہ اور دروازوں کے تالے باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ 1910ء میں نیشنل ڈائٹ بلڈنگ کی تعمیر کا کام وزارتِ داخلہ سے وزارت خزانہ نے لے لیا۔ 

کمیشن نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق عمارت بنانے کی تجویز دی۔ جس کے خلاف زبردست رد عمل آیا۔ لہٰذا اسے رد کر دیا گیا۔ اپنے اجلاس میں کابینہ نے ڈائٹ کے ڈیزائن کے لیے ایک عوامی مقابلہ کروانے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ مقررہ تاریخ تک 118 ڈیزائن آئے۔ جن میں سے مشرقی رنگ نمایاں رکھنے والے واتن بے فوکوزو کے ڈیزائن کو چن لیا گیا۔ یہ عمارت 673 فٹ چوڑی ہے اور اس کے مرکزی گنبد کی بلندی 214 فٹ ہے۔ اسی کے مطابق نیشنل ڈائٹ بلڈنگ کی تعمیر 1920 میں شروع ہو کر 1936ء میں مکمل ہوئی۔  

فقیراللہ خان

سلامتی کونسل کی جانب سے پلوامہ حملے کی مذمت، پاکستان کا کوئی ذکر نہیں

$
0
0

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی ہے اور حملے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے یہ بیان  حملے کے پورے ایک ہفتے بعد جاری کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں۔ گزشتہ ہفتے بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے اس حملے میں بھارت کی وفاقی پولیس کے لگ بھگ 50 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرایا ہے اور اس کےخلاف تجارت کی معطلی سمیت کئی اقدامات کیے ہیں۔ تاہم پاکستان حملے میں ملوث ہونے کا الزام رد کر چکا ہے۔
 

سلامتی کونسل نے پلوامہ حملے سے متعلق یہ بیان کونسل کے ارکان کے مابین تفصیلی صلاح مشورے کے بعد جاری کیا ہے۔ اخبار کے مطابق بیان کے متن پر چین کو تحفظات تھے اور وہ اس کے اجرا سے قبل اس پر مزید غور و خوض چاہتا تھا جس کی وجہ سے بیان تاخیر کا شکار ہوا۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ وہ پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے معاملے پر بھارت اور دیگر فریقین سے مسلسل رابطے میں ہے۔ بھارت ماضی میں بار مسعود اظہر کو سلامتی کونسل سے دہشت گرد قرار دلانے کی کوشش کر چکا ہے لیکن چین نے بھارت کی یہ کوشش ویٹو کر دی تھی۔

امریکی میزائل نصب ہوئے تو یورپ اور امریکا روس کے نشانے پر ہوں گے

$
0
0

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے اپنے اتحادی یورپی ممالک میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے کوئی جوہری میزائل نصب کیے تو ان یورپی ممالک کے علاوہ خود امریکا بھی جواباﹰ روسی میزائلوں کے نشانے پر ہو گا۔ روسی دارالحکومت ماسکو سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن نے یہ باتملکی پارلیمان سے اپنے سالانہ خطاب میں کہی۔ صدر پوٹن نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو کسی بھی یورپی ریاست میں اپنے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں کی نئے سرے سے تنصیب سے باز رہنا چاہیے۔

ساتھ ہی صدر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ روس کسی کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا اور اسی لیے اپنے جوہری میزائلوں کی نئے سرے سے تنصیب میں بھی پہل نہیں کرے گا۔ ولادیمیر پوٹن نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ امریکا نے ابھی حال ہی میں سرد جنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین (موجودہ روس کی پیش رو ریاست) کے ساتھ طے پانے والے ایسے جوہری ہتھیاروں سے متعلق دوطرفہ معاہدے سے اپنے اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ معاہدہ انٹر میڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) ٹریٹی کہلاتا ہے اور صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکا کے اس معاہدے سے آئندہ چھ مہینوں کے دوران مکمل اخراج کے حالیہ اعلان کے بعد ماسکو بھی اپنے طور پر اس معاہدے اور اس پر عمل درآمد کو معطل کر چکا ہے۔ 

اس روسی امریکی معاہدے کے بارے میں واشنگٹن اور ماسکو کے مابین اختلافات اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ ان دونوں ممالک نے ہی ایک دوسرے پر اس سمجھوتے کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔ اس تناظر میں روسی صدر نے ملکی پارلیمان کے ارکان سے اپنے سالانہ خطاب میں یہ بھی کہا کہ ماسکو اور واشنگٹن کے مابین درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں امریکی پالیسی ساز اداروں اور ان کے ماہرین کو کوئی غلطی نہیں کرنا چاہیے۔ ولادیمیر پوٹن کے الفاظ میں، ’’امریکی پالیسی ساز حکام کو کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے اس بات کا درست اندازہ بھی لگانا چاہیے کہ ایسے کسی اقدام کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کیسے اور کتنے شدید ہوں گے۔ اس لیے کہ یورپ میں جوہری ہتھیاروں کی ایسی کسی نئی امریکی تنصیب پر روسی ردعمل بہت واضح اور غیر متزلزل ہو گا۔‘‘

روسی صدر کا ملکی پارلیمان سے یہ خطاب ان کا ’اسٹیٹ آف دا یونین‘ خطاب تھا، جس میں انہوں نے روس کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات اور عسکری نوعیت کے اہم موضوعات پر اظہار رائے کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اہم داخلی سماجی موضوعات پر بھی کھل کر بات کی۔ صدر پوٹن نے یہ وعدہ بھی کہا کہ ماسکو حکومت عوام کے لیے سماجی فلاحی شعبے میں مالی امداد میں اضافہ کرے گی، ملکی تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے گا، صحت کے شعبے پر بھی مزید توجہ دی جائے گی اور اندرون ملک غربت کے خلاف جنگ کو بھی مزید مؤثر بنایا جائے گا۔
روس کی مجموعی آبادی اس وقت قریب 147 ملین ہے، جس میں سے 19 ملین شہری سرکاری سطح پر طے کردہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ روس میں ہر اس شہری کو غربت کا شکار سمجھا جاتا ہے، جس کی انفرادی ماہانہ اوسط آمدنی تقریباﹰ 160 امریکی ڈالر سے کم کے برابر ہو۔

بشکریہ DW اردو

سعودی عرب : اب یہ ملک ہمارے لیے سمٹ رہا ہے

$
0
0

سعودی عرب کا شمار بیرونِ ملک نوکریوں کے متلاشی پاکستانیوں کے پسندیدہ ممالک میں ہوتا رہا ہے۔ اس وقت بھی لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں تاہم اب ’سعودآئزیشن‘ کی وجہ سے اس تعداد میں کمی آ رہی ہے اور وہاں مقیم پاکستانی مشکلات کا شکار ہیں۔ 

پڑھیے ایسے ہی ایک پاکستانی کی ڈائری جو بی بی سی اردو کی حمیرا کنول سے ان کی گفتگو کی بنیاد پر لکھی گئی ہے۔ پاکستان سے دور یہاں سعودی عرب میں اپنے دفتر میں بیٹھا میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ویزہ فیس کم کی، قیدیوں کی رہائی کی بات کی۔ بہت مسکراہٹوں، بہت سے وعدوں اور اربوں ڈالرز کے منصوبوں کے معاہدوں کے ساتھ رخصت ہوئے لیکن اس سب میں ہماری پاکستانی حکومت کی ترجیحات کیا تھیں۔ کیا یہ زیادہ تر پس پردہ اور کچھ حد تک سامنے نظر آنے والے بس سکیورٹی تعلقات ہی ہیں۔ میرا اس سرزمین سے سات سال کا تعلق ہے، جب میں 2013 میں یہاں آیا تو یہ سچ ہے کہ اسی عرصے میں سعودی بادشاہ نے خزانے کا منہ اپنے ملک کے انفراسٹرکچر اور ترقی کے لیے کھول دیا تھا۔ لیبر کی مانگ نے ہم جیسے ملکوں کے مزدور طبقے کو یہاں مزید جگہ دی لیکن آج حالات یکسر مختلف ہو چکے ہیں اور بدقسمتی سے اس کا ادراک ہماری حکومت کو نہیں ہو سکا۔ 

میرا مختصر مشاہدہ اور مستقبل کے حوالے سے ادراک کچھ اتنا خوش کن نہیں ہے۔ اس ملک میں زندگی پاکستان کی طرح آزاد نہیں۔ یہاں آپ کو خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے فی کس گیارہ ہزار ریال فیس کی صورت میں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ یہاں سیون سیٹر گاڑی کے لیے ایک مضحکہ خیز شرط یہ ہے کہ آپ کے پانچ بچے ہونے چاہییں۔ یہاں آپ واقعی عجمی ہیں اور زیادہ تر مکین آپ کو فقط اپنی خدمت کے لیے آیا ہوا تصور کرتے ہیں، یہاں آپ ہفتے میں کام تو 60 گھنٹے کرتے ہیں لیکن وہ کتاب میں 48 گھنٹے شمار ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے ملک میں نوکری اور تنخواہوں کے مشکل حالات مزدوروں اور تعلیم یافتہ طبقے کو یہاں کھینچ لاتی تھی، لیکن اب یہ ملک ہمارے لیے سمٹ رہا ہے۔ اس کی ایک مثال میں خود آپ کے سامنے ہوں۔ میں ایک انجینئیر ہوں۔ جب یہاں آیا تھا تو میری فیلڈ میں 650 تک انجینئرز تھے اور اب یہ تعداد 150 بھی نہیں رہی۔ مجھے اور ان دیگر ساتھیوں کو اب تک ہر چھ مہینے بعد مزید چھ ماہ کی توسیع ملتی آ رہی ہے لیکن یہ تلوار چھ ماہ تک ہماری گردن سے ہٹتی نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

یہاں مزدوری کرنے والے زیادہ تر پاکستانی ہیں۔ بنگالی شہری صفائی کے شعبے میں کام کر رہے ہیں اور انڈین آپ کو سیلز، ریٹیل اور اکاؤنٹس کے شعبوں میں کام کرتے ملیں گے۔ پہلے لوگ اوپن ویزا پر آتے تھے، کفالت سسٹم میں کام کرتے تھے اور اپنے کفیل کو سال بھر کی فیس دیتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ پرمٹ پر جو لکھا ہوا ہے آپ صرف وہی کام کر سکتے ہیں اور جس نے آپ کو ملازمت پہ رکھا ہے صرف اسی کے ساتھ کام کریں گے۔ سعودآئزیشن پر گذشتہ تین سال سے تیزی سے عملدرآمد ہو رہا ہے اور 70 سے زیادہ فیصد دکانیں اور کاروبار سعودیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اب موبائل کی دکانوں، فرنیچر کے کاروبار، مالز میں دکانوں، گاڑیوں کی ورکشاپس اور کراکری وغیرہ کی دکانوں سے غیر ملکی ہٹ رہے ہیں۔ اب آپ کو کہیں یہ 15 فیصد دکھائی دیں گے مگر یہ منتقلی کا عمل ہے تیز تر ہے۔

دوسری جانب سنہ 2012 اور سنہ 2014 سے اب تک جو منصوبے چل رہے ہیں، لگتا ہے وہ اگلے برس تک مکمل ہو جائیں گے اور ابھی تک نئے منصوبوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ سعودی ولی عہد کے حالیہ دورے میں کیا ہماری حکومت نے یہ بات کرنا گوارا سمجھا کہ وہ ان سے اس مسئلے پر بات کریں کہ ہمارے مزدوروں کا مستقبل کیا ہو گا ؟ اگر صورتحال یہی رہی تو سنہ 2020 یعنی اگلے برس سے آپ کو جہاز بھر بھر کر پاکستانیوں کو ویلکم کرنا پڑے گا، جبکہ دوسری جانب آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ہاں بے روزگاری بہت ہے۔ اگلے برس یہ ہو گا کہ ہماری نوکریاں بھی سعودیوں کے پاس چلی جائیں گی تو ایسے میں بہت سے پاکستانی جو یہاں اشیائے خوردونوش کے کاروبار سے منسلک ہیں، انھیں وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔ تو کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟

یہ جو وزٹ ویزا فیس آج کم ہوئی ہے جسے ایک بہت بڑا معرکہ سمجھا جا رہا ہے، یہ تو انڈیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے لیے گذشتہ برس ہی کم ہو چکی تھی۔
سعودی عرب میں پہلے بھی آہستہ آہستہ تبدیلیاں آتی رہی تھیں لیکن حالیہ تبدیلیاں یک دم آئی ہیں۔ شاہ عبداللہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اب سعودیوں کو بھی کام کرنا ہے۔ سعودآئزیشن کوئی بری بات نہیں۔ ان کا ملک ہے، وہ کام کریں یہ ان کا حق ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے تبدیلیوں کو بین الاقوامی تناظر میں تو دیکھا لیکن ملک میں کام کرنے والے اس سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں، اسے وہ دیکھ نہیں پائے اور نہ ہی ہماری حکومت اس پر توجہ دے سکی ہے۔ جب یہاں کے سکول میں یمن جنگ کے بعد بہت سے پاکستانی بچوں کو آوٹ آف سیزن ایڈمیشن مل سکتا ہے تو کیا پاکستانی حکومت اپنے کارکنوں کی سہولت کے لیے کوئی اقدامات کرنے کے لیے نہیں سوچ سکتی؟ 

بشکریہ بی بی سی اردو 


انڈیا کو ’تنہا‘ کرنے کا فیصلہ

$
0
0

انڈیا کی جانب سے دو پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزے جاری نہ کرنے پر انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے انڈیا کی کھیلوں کے مختلف مقابلوں کی میزبانی کی تمام درخواستیں منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دو کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی شوٹرز کی ٹیم نے انڈیا میں شوٹنگ ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں 25 میٹر پسٹل مقابلے میں شرکت کرنا تھی۔ انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے انٹرنیشنل سپورٹس فیڈریشن پر بھی زور دیا ہے کہ وہ کسی بھی مقابلے کا انعقاد انڈیا میں نہ کرائے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ ہفتے ہونے والے حملے میں انڈیا کی پیرا ملٹری فورس کے 40 اہلکار ہو گئے تھے جس کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیا ہے تاہم پاکستان کے جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کا کہنا ہے کہ میزبان ملک کی جانب سے سیاسی مداخلت اور امتیاز کی بنا پر ویزے جاری نہ کرنا اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ آئی او سی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’مسئلے سے آگاہی، آخری وقت پر کی جانے والی کوششوں اور انڈین حکومت سے بات چیت کے باوجود بھی کوئی حل تلاش نہیں کیا سکا جس کی بدولت پاکستانی وفد کو مقابلے میں شرکت کے لیے انڈیا داخل ہونے کی اجازت دی جا سکے۔‘ بیان کے مطابق ’آئی او سی کے ایگزیکٹو بورڈ نے انڈیا کی نیشنل اولمپک کمیٹی اور حکومت سے اولمپکس اور کھیلوں کی تقریبات انڈیا میں منعقد کرانے کی درخواستوں پر جاری تمام بات چیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ایگزیکٹو باڈی نے سپورٹس فیڈریشن پر بھی زور دیا ہے کہ جب تک انڈیا تمام کھلاڑیوں کی رسائی کی ’واضح تحریری ضمانت‘ نہیں دے دیتا تب تک انڈیا میں کھیلوں کا کوئی مقابلہ کرایا جائے اور نہ ہی انڈیا کو کوئی گرانٹ دی جائے۔ بھارتی اولمپکس ایسوسی ایشن (آئی او اے) نے گزشتہ سال 2026 میں یوتھ اولمپکس کی میزبانی، 2030 میں ایشین گیمز اور 2032 میں سمر اولمپکس کا روڈ میپ تیار کیا تھا۔ آئی او اے کے سیکرٹری جنرل راجیو میہتا نے رائٹرز کو بتایا کہ ’یہ ملک میں کھیلوں کو بہت بڑا دھچکا ہے۔‘ ’ہم حکومت سے مسلسل رابطے میں تھے اور ان کو سمجھانے اور پاکستنانی شوٹرز کو ویزے دینے کے لیے رضامند کر رہے تھے۔ یہ واقعی بد قسمتی ہے۔‘ گزشتہ برس کوسوو کی ایک باکسر کو نیو دِلی میں وویمن ورلڈ چیمپئین شپ میں شرکت کے لیے ویزا جاری نہیں کیا گیا تھا کیونکہ انڈیا کوسوو کو خود مختار ریاست تسلیم نہیں کرتا ہے۔

راجیو میہتا نے کہا ہے کہ ’بدقسمتی سے دوبارہ ایسا ہو رہا ہے۔‘ ’میں نے گزشتہ رات آئی او سی حکام سے بات کی ہے اور مجھے ایسا تاثر ملا ہے کہ ابھی ہمارے لیے مزید مشکل ہو گی۔ آئی او اے میں ہم اس مسئلے پر حکومت سے بات کریں گے اور کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔‘ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر سید عارف حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے اس فیصلے کا خیر مقدمم کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے ویزے کی تمام شرائط اور کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے باوجود ویزا جاری نہ کرنا انتہائی قابل افسوس ہے۔ عارف حسن نے مزید کہا کہ ہم کھیلوں کے ذریعے فاصلے کم کرنے اور امن قائم کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ کھیلوں میں دوسری چیزوں کی مداخلت نہیں ہونی چائیے۔ یاد رہے کہ دو کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی شوٹرز کی ٹیم نے انڈیا میں شوٹنگ ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں 25 میٹر پسٹل مقابلے میں شرکت کرنا تھی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

افغانستان کی جنگ میں شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں

$
0
0

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری لڑائی کے دوران صرف سال 2018 میں ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنگ زدہ ملک میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے تباہی پھیلائی اور شہریوں کی ہلاکت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 2017 میں 11 فیصد تک اضافہ ہوا اور 3 ہزار 8 سو 4 افراد ہلاک اور 7 ہزار ایک سو 89 زخمی ہوئے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک روز بعد تنازع ختم کرنے سے متعلق امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور ہونے جارہا ہے، جہاں امن کے لیے اُمید کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی انخلا، ملک میں خانہ جنگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات افغانستان میں برسوں سے جاری تشدد کے خاتمے کے لیے ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق جب تنظیم نے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کئے تو پہلی دہائی میں 32 ہزار شہری ہلاک ہوئے جبکہ 60 ہزار زخمی ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں تشدد میں اضافہ ہوا اور ’شہریوں کو جان بوجھ کر ہدف‘ بنانے کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی واضح اضافہ ہوا۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر خود کش حملے طالبان یا داعش سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے۔ دوسری جانب افغانستان میں امریکی مشن کے سربراہ تدامچی یاماموتو کا کہنا تھا کہ ’یہ وقت ہے کہ اس انسانی مصائب اور سانحے کو ختم کیا جائے، شہریوں کے قتل اور انہیں معذور ہونے سے بچانے کا بہترین طریقہ لڑائی کو روکنا ہے‘۔ واضح رہے کہ 2018 میں افغانستان میں کم از کم 65 خود کش حملے ریکارڈ ہوئے، جس میں زیادہ تک کابل میں ہوئے جبکہ پورے ملک میں 22 سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2018 میں امریکا اور افغانستان کی فورسز کی جانب سے فضائی حملوں میں اضافہ بھی شہریوں کی جان لینے کی ایک بڑی وجہ رہی اور ’ریکارڈ پر ہے کہ پہلی مرتبہ فضائی آپریشنز‘ سے 500 سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ امریکا کی جانب سے طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف اپنی فضائی مہم کو تیز کیا گیا کیونکہ واشنگٹن عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھانا چاہتا تھا۔ تدامچی یاماموتو کا کہنا تھا کہ شہریوں کی ہلاکت ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے لہٰذا تمام فریقین سے مطالبہ ہے وہ ’شہریوں کی زندگیاں تباہ کرنے اور اموات کی تعداد میں اضافے کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر اضافی ٹھوس اقدام کریں‘۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

بھارت اپنا پانی بند کرے گا یا پاکستان کا ؟

$
0
0

کرکٹ ٹیم، شاعر اور ٹماٹر پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد اب بھارت نے اعلان کیا ہے کہ تین دریاؤں کو بھی پاکستان جانے سے روک دیا جائے گا۔ اس اعلان کو پلوامہ حملے کے بعد بھارتی ردعمل کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ بھارت کے مرکزی وزیر برائے آبی وسائل نتن گڈکری نے ایک بیان میں کہا کہ راوی، ستلج اور بیاس کا پانی پاکستان جانے سے روکنے کے لیے تین منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔ ان دریاؤں کا پانی روک کر دریائے جمنا کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ ​1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کا تین تین دریاؤں کے پانی پر حق تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے تحت بھارت راوی، ستلج اور بیاس کا سارا پانی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اب تک ایسا نہیں کیا جا رہا تھا اور تینوں دریاؤں کا پانی پاکستان آتا ہے۔

نتن گڈکری نے کئی ٹوئیٹس میں بتایا کہ تینوں منصوبوں کو ’’قومی‘‘ قرار دیا گیا ہے اور دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی کے مقام پر ڈیم کی تعمیر شروع کی جا چکی ہے۔ پاکستان کے سابق انڈس کمشنر مرزا اسد بیگ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھارت جس قدر پانی روک سکتا ہے، وہ مادھو پور پر روک لیتا ہے۔ فی الحال اس کا انفراسٹرکچر ایسا نہیں کہ مزید پانی روک سکے۔ نئے منصوبے مکمل ہونے میں وقت لگے گا۔ اس وقت تک بھارت کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہوتا۔ مرزا اسد بیگ نے کہا کہ تینوں دریاؤں پر بھارت کا حق ہے۔ پاکستان صرف اتنے پانی کا تقاضا کر سکتا ہے جس سے ماحول متاثر نہ ہو۔

ماضی قریب میں کئی بھارتی رہنما سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے اور تمام دریاؤں کا پانی پاکستان جانے سے روکنے کے مطالبے کر چکے ہیں۔ ورلڈ بینک اس معاہدے کا نگراں ہے اور پاکستان کئی بار بھارت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ورلڈ بینک سے شکایت کر چکا ہے۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف’’نئے‘‘ فیصلے پر بریکنگ نیوز نشر کی ہے لیکن سوشل میڈیا پر مضحکہ اڑایا جا رہا ہے۔ ایک شہری جے سری کانت نے طنزیہ لکھا، شاندار فیصلہ، صرف ووٹ بینک کی خاطر۔ این ڈی ٹی وی ہندی کہہ رہا ہے، پاکستان کو پانی روکنے کی دھمکی، کیا واقعی؟ این ڈی ٹی وی کے اپنے پولیٹیکل ایڈیٹر اکلیش شرما نے ٹوئیٹر پر کہا، دوستو ذرا صبر، یہ نیا فیصلہ نہیں ہے اور پانی آج رات سے نہیں روکا جا رہا۔ دلی ہائی کورٹ کے وکیل سڈ نے لکھا، پہلے بی جے پی نے پرانے منصوبوں کو نیا کہہ کر پیش کیا اور اب پرانی خبروں کو نیا کہہ کر نشر کیا جا رہا ہے۔

مبشر علی زیدی

بشکریہ وائس آف امریکہ

کریملن : ماسکو کا حفاظتی قلعہ

$
0
0

کریملن ماسکو کے اندر واقع ہے۔ اس کے نام کا مطلب ہے ’’شہر کی حفاظت کرنے والا قلعہ‘‘… یہ نام ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جبکہ شہروں کو ڈیزائن کرتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف دفاع کو مدنظر رکھنا ایک اہم نظریہ تصور کیا جاتا تھا۔ 14 ویں صدی میں جیسے ہی ماسکو کی اہمیت میں اضافہ ہوا ویسے ہی کریملن کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کی شاندار تعمیرات کا بیشتر حصہ 15 ویں صدی کے اختتام پر منظر عام پر آیا جب تعمیر نو کا کام وسیع پیمانے پر شروع ہوا۔ آج کا کریملن متوازی دیواروں کے اندر واقع ہے جن کی حفاظت میناروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔

اس میں متاثر کن تعداد میں محلات اور گرجا گھر واقع ہیں۔ اونچا ترین مینار 73.15 میٹر (240 فٹ) اونچائی کا حامل ہے۔ ٹرائے ٹسکایا وہ مقام ہے جہاں سے 1812ء میں نپولین روس فتح کرنے کے اپنے احمقانہ ارادے کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ اگلا مقام سو با کینا ہے 54.86 میٹر (180فٹ) اونچائی کا حامل اور 3.65 میٹر (12 فٹ) موٹی دیواروں کا حامل۔ دیگر مقامات میں بورووٹسکی اور سپاسکی گیٹ شامل ہیں۔ کریملن کی عمارات میں زیادہ متاثر کن عمارت گرینڈ کریملن پیلس ہے جس کی تعمیر نو 1838-39ء میں سر انجام دی گئی تھی کیونکہ 1812ء کی آتشزدگی کے دوران یہ جل گیا تھا اور یہ وہ آتشزدگی تھی جس کی بنا پر اہل روس فرانسیسی حملہ آوروں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ محلات کے ہال دربار کی شان و شوکت کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔

سینٹ جارج ہال میں روس کے عظیم ہیروز کے نام پتھر کی میزوں پر کندہ ہیں۔ ان میں کو توزوف کا نام بھی شامل ہے جو نپولین کے ساتھ برسر پیکار ہوا تھا۔ اس ہال کا فرش بیس مختلف اقسام کی لکڑیوں سے بنا ہوا ہے۔ ولادی میر ہال جس کی بنیادیں 1487ء میں رکھی گئی تھیں اور اس فرنیچر سے آراستہ ہیں جو شاہی خاندان کے زیر استعمال تھا۔ کریملن کی قابل ذکر عمارات میں گرجے بھی شامل ہیں۔ عظیم بیل ٹاور، مشہور بورس گودونوف نے اس میں گنبد کا اضافہ کیا تھا وہ ہشت پہلو ہے 81.1 میٹر (263 فٹ) کا مینار 1505-8ء میں تعمیر ہوا تھا۔ اس میں گھنٹیاں نصب ہیں ان گھنٹیوں کو خطرے کے موقع یا خوشی کے موقع پر بجایا جاتا تھا۔ ان گھنٹیوں کی کل تعداد 21 ہے۔

ان میں سب سے بڑی گھنٹی کا وزن 70 ٹن ہے۔ آج کل کریملن میں کئی ایک نئی عمارتوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ان عمارتوں میں کونسل چیمبرز اور حکومتی دفاتر قائم ہیں لیکن پُرانے محلات کو بحال رکھا گیا ہے اور طلباء کو ان محلات کو دکھایا جاتا ہے۔ یہ محلات دنیا کی طاقت ور ترین اقوام میں سے ایک قوم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کریملن کی دیواروں سے باہر ایک اور عمارت موجود ہے جو دنیا میں کسی بھی گرجے سے بڑھ کر حیران کن اور عجوبہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ سینٹ باسل کا گرجا ہے۔ یہ ایک قابل ذکر گرجا ہے جو گیارہ علیحدہ گرجا گھروں پر مشتمل ہے۔ ہر ایک گرجے کو بہتر طور پر سجایا گیا ہے۔ 

شاہدہ لطیف 




امریکہ میں مبینہ روسی مداخلت سے متعلق مولر رپورٹ کا بے چینی سے انتظار

$
0
0

امریکی محکمہ انصاف کے خصوصی تفتیشی افسر یا سپیشل کاؤنسل رابرٹ مولر اس ہفتے روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کرنے والے ہیں۔ اس خبر سے واشنگٹن میں اس وقت سرکاری سطح پر خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ تقریبا دو سال چلنے والی ان تحقیقات میں کئى فرد جرم عائد ہوئىں اور صدر ٹرمپ کے کئى ساتھیوں اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں کو مجرم بھی ٹھرایا گیا۔ خدشہ ہے کہ 2016 کے امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت کے حوالے سے مرتب کی جانے والی مولر رپورٹ کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ملک پر بھی بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ وہ لوگ جو روس کی مداخلت کے حوالے سے ان تحقیقات کی زد میں ہیں ان میں قومی سلامتی کے سابقہ مشیر مائیکل فلن، صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق چئیرمین پال مینا فورٹ اور صدر ٹرمپ کے سابق ذاتی وکیل مائیکل کوہن شامل ہیں۔

لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے ان تحقیقات کو مسلسل عناد پر مبنی سازش کہ کر مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس میں کسی قسم کی کوئى سازش نہیں تھی اور وہ اپنی انتخابی مہم میں روس سے کبھی بھی مدد لے سکتے۔ ایک بارجب سپیشل کاؤنسل رابرٹ مولر اپنی تحقیقات مکمل کر لیں گے تو وہ اسکی رپورٹ نئے اٹارنی جنرل ویلیم بار کو پیش کریں گے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ اٹارنی جنرل کریں گے کہ رپورٹ کے کونسے حصے امریکی کانگرس اور عوام کے سامنے پیش کیے جائىں۔ اس بارے میں صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر نئے اٹارنی جنرل پر منحصر ہو گا۔ وہ ایک زبردست انسان ہیں جو اس ملک اور نظام انصاف کی عزت کرتے ہیں۔

کانگریس سے اپنی توثیق کے لیے ہونے والی سماعت میں ولیم بار کو ڈیموکریٹ رہنماؤں کی جانب سے مولر کی رپورٹ پر سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ مولر کی رپورٹ سامنے لانے کا وعدہ کرتے ہیں تو اُنہوں نے اپنے سابقہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مولر رپورٹ کی وہ تمام معلومات منظر عام پر لائیں گے جو قواعد و ضوابط کے تحت لائی جا سکتی ہیں۔ روسی مداخلت کی تحقیقات کے نتیجے میں اب تک جتنی بھی فرد جرم عائد کی گئىں یا جتنے بھی اقبال جرم ہوئے ان کے باوجود اب بھی لوگ مولر رپورٹ سے کچھ اہم بنیادی سوالوں کے جواب چاہیں گے ۔

یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ کے ڈگلس سپینسر کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں دو سوال اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کی صدارتی مہم اور روس کا آپس میں کوئى تعلق تھا اور دوسرا سوال یہ ہے صدر ٹرمپ کا اس سے ذاتی طور پر کوئی تعلق تھا یا نہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا صدر ٹرمپ نے روسی مداخلت کی تحقیقات میں کوئى رکاوٹ ڈالی ؟ اس بارے میں بروکنگز انسٹی ٹیوت کے تجزیہ کار ایلین کمارک کہتے ہیں کہ تحقیقات کا دائرہ صدر کے انتہائی نزدیک پہنچ چکا ہے اور یہ سوال ہر کسی کے ذہن پر ہے کہ کیا صدر اس سے واقعی متاثر ہونگے؟ ایک اور تجزیہ کار جون فارٹیر کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے امریکی صدر کے لیے قانونی اور سیاسی اثرات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں ۔ تجزیہ کار ایک بات پر متفق ہیں کہ طویل عرصے سے چلنے والی ان تحقیقات کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے آنے پر عوام یقیناً سکون کا سانس لیں گے ۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

ٹرمپ سے ملاقات کے لیے کم جونگ ان ویتنام روانہ

$
0
0

شمالی کوریا میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے رہنما کم جانگ ان چین سے ویتنام کے لئے بذریعہ ٹرین روانہ ہو گئے ہیں۔ ان کو ویتنام پہنچنے میں دو دن درکار ہوں گے۔ صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں ملاقات ہو گی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسری ملاقات ہو گی۔ کم جانگ ان کے ساتھ اُن کے انتہائی قریبی ساتھی کم یونگ چول بھی ہمراہ ہیں۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں نے گزشتہ سال جون میں سنگاپور میں ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 

لیکن اس ہدف کے حصول کی جانب پیش رفت کی تفصیلات سات ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال طے نہیں پا سکی ہیں اور اس معاملے پر دونوں ممالک کے مذاکرات بار بار ڈیڈلاک کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق شمالی کوریا کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی اسٹیفن بیگن بھی سربراہی ملاقات کی تیاریوں کے سلسلے میں ہنوئی پہنچ رہے ہیں۔ ویتنام کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ کم جانگ ویتنام کے صدر نگوین پھو ٹرونگ کی دعوت پر تشریف لا رہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ خیرسگالی کا ہے۔ گزشتہ سال شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے مزید ایٹمی اور میزائلوں کے تجربات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ہمیں مزید ایٹمی تجربات کی ضرورت نہیں جبکہ بین البراعظمی راکٹ ٹیسٹ کی بھی ضرورت نہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

پاک بھارت جوہری جنگ دو کروڑ سے زائد جانیں لے سکتی ہے

$
0
0

پاکستان اور بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ آج کل دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ اب کشیدگی کے بڑھنے سے جنگ کے سائے دونوں ممالک کی ایک ارب پچاس کروڑ کی آبادی کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس ایک سو تیس کے قریب جوہری ہتھیار ہیں جب کہ پاکستان تقریباً ایک پچاس تباہ کن ہتھیار رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس طویل فاصلے کے میزائل بھی ہیں، جس کی بدولت بھارت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت کئی پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جب کہ پاکستانی میزائل نئی دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں تک پہنچے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو خدشہ ہے کہ یہ جوہری تصادم کی شکل اختیار کر جائے گی، جس کے نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں بھی اثرات ہوں گے۔ امریکی محققین کی دو ہزار سات کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اس میں پندرہ کلو ٹن کے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں، تو ان کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دھماکوں کے اثرات سے ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، جس سے دو ارب کے قریب انسان فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں پلوامہ حملے کے بعد سے لیکر اب تک کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بھارت کو کشمیر میں علیحدگی پسندی کا سامنا ہے، جہاں انیس اڑتالیس سے لے کر اب تک چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں جب کہ اس کے علاوہ دو جوہری قوتوں کے درمیان کئی چھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

بشکریہ DW اردو


کِم جونگ اُن کی ٹرمپ سے ملاقات معاہدے کے بغیر ہی ختم ہو گئی

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن کے درمیان دو روزہ ملاقات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسری ملاقات ویتنام کے دارالحکومت ہنوئے میں ہوئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن چاہتے ہیں کہ جوہری پروگرام کے خاتمے کے عوض اس کمیونسٹ ملک پر عائد تمام تر پابندیاں ختم کی جائیں۔ سربراہی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’’یہ سب پابندیوں سے متعلق تھا۔ اصل میں وہ چاہتے تھے کہ ان پر عائد تمام تر پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، مگر یہ ہم نہیں کر سکتے۔‘‘

قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے معاملے پر جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتے۔ ویتنام کے دارالحکومت ہنوئے میں ہونے والی اس سربراہی ملاقات کے موقع پر ٹرمپ نے کہا ہے کہ معاہدے میں جلد بازی کی بجائے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ درست معاہدہ کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ ملاقات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئی ہے تاہم دونوں رہنماؤں کی ٹیمیں مستقبل میں اس معاملے پر بات چیت جاری رکھیں گی۔

اس سربراہی ملاقات کے بعد ہنوئے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار یا کسی میزائل کا مزید کوئی تجربہ نہیں کریں گے۔ ٹرمپ کے مطابق وہ کِم جونگ اُن کے ساتھ اپنا تعلق بحال رکھنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے دوسرے روز آج ٹرمپ اور کِم جونگ اُن ملاقات کے مقام سے طے شدہ وقت سے قبل ہی اپنے اپنے ہوٹل روانہ ہو گئے اور انہوں نے پہلے سے طے شدہ ظہرانے میں اکٹھے شرکت بھی نہیں کی۔

ٹرمپ کے مطابق، ’’بعض اوقات آپ کو بس جانا پڑتا ہے اور یہ انہی میں سے ایک تھا۔ مگر یہ ایک دوستانہ عمل تھا۔‘‘ امید کی جا رہی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس دوسری ملاقات کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا جائے گا جس میں کوریائی خطے میں 1950 سے 1953 تک جاری رہنے والی جنگ کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان بھی شامل ہو گا۔ اس وقت یہ جنگ روک تو دی گئی تھی مگر کوئی جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوا تھا جس کی وجہ سے تکنیکی طور پر یہ خطہ ابھی تک حالت جنگ ہی میں ہے۔

بشکریہ DW اردو

اسرائیل ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب ہوا، اقوام متحدہ

$
0
0

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مظاہروں کی چھان بین کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ 2018ء کے دوران غزہ میں مظاہروں کے دوران اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک تحقیقاتی کمیشن کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی نشانہ بازوں نے جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جن کی شناخت بچوں، طبی ارکان یا صحافیوں کے طور پر واضح تھی۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں مظاہروں کے دوران فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ سانتیاگو کینٹون کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اور ان میں ایسی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی زُمرے میں آتی ہیں۔

یہ انکوائری اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے کرائی گئی جو 30 مارچ 2018ء کو شروع ہونے والے مظاہروں کے سلسلے کے دوران 31 دسمبر تک اس سلسلے میں ہونے والی ممکنہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے تھیں۔ اس انکوائری رپورٹ کے مطابق، ’’ہر ہفتے منعقد ہونے والے مظاہروں کے دوران چھ ہزار سے زائد مظاہرین کو فوجی نشانہ بازوں نے نشانہ بنایا۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’کمیشن کے پاس یہ یقین کرنے کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی نشانہ بازوں نے صحافیوں، طبی کارکنوں، بچوں اور معذوری کے شکار افراد کو جانتے بوجھتے نشانہ بنایا کیونکہ ان کی شناخت واضح تھی۔‘‘ تحقیقات کرنے والوں کے مطابق یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے ایسے فلسطینیوں کو ہلاک یا زخمی کیا جو ’نہ تو براہ راست کسی اشتعال انگیزی میں ملوث تھے اور نہ ہی وہ کوئی واضح خطرہ تھے۔‘‘

اقوام متحدہ کی ٹیم نے اسرائیل کے ان دعووں کو بھی مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے ان مظاہروں کا مقصد دہشت گردی کے اقدامات کو چھپانا تھا۔ بیان کے مطابق، ’’یہ مظاہرے سویلین نوعیت کے تھے، جن میں سیاسی عزائم بالکل واضح تھے۔‘‘ اس کمیشن کے مطابق انہوں نے اپنی تحقیقات کے دوران 325 متاثرہ افراد، عینی شاہدین اور دیگر ذرائع سے انٹرویوز کیے جبکہ آٹھ ہزار مختلف دستاویزات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کمیشن کے مطابق تفتیش کاروں نے ڈرون سے بنائی گئی فوٹیج اور دیگر صوتی و بصری مواد کا بھی جائزہ لیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’اسرائیلی حکام نے کمیشن کی طرف سے معلومات اور اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں تک رسائی کی مسلسل درخواستوں کے باوجود ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘

بشکریہ DW اردو

بدعنوانی کے الزام پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف فرد جرم عائد ہو گی

$
0
0

الزامات کے بارے میں تفصیل فوری طور پر دستیاب نہیں کی گئی۔ لیکن، مندلت نے کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے کی گئی سفارش پر نیتن یاہو کے خلاف رشوت، خیانت اور دھوکہ دہی کے جرم پر الزام عائد کیا جائے گا. اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے الزام پر فرد جرم عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو معاملہ نیتن یاہو کے سیاسی کیرئر کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل اویچائی مندلت نے یہ بات دو برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی چھان بین کے بعد کہی ہے۔ فوری طور پر اس کی تفصیل دستیاب نہیں ہو پائی۔ لیکن، مندلت نے کہا کہ وہ پولیس کی جانب سے کی گئی سفارش کو تسلیم کرنے والے ہیں.

نیتن یاہو کے خلاف رشوت، خیانت اور دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔ نیتن یاہو پر الزام درج کرنے کا مندلت کا فیصلہ اسرائیلی تاریخ کا پہلا واقع ہو گا جس میں عہدے پر فائز کسی وزیر اعظم پر باضابطہ الزام لگایا گیا ہو۔ نیتن یاہو، جو 9 اپریل کے انتخابات میں اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم چلا رہے ہیں، کسی غلط عمل میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کیا ہے۔ نیتن یاہو کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ’لیکوڈ پارٹی‘ نے الزامات کو ’’سیاسی الزام تراشی‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ متوقع طور پر وزیر اعظم ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کریں گے جس میں اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے گا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ


شام کی دوتہائی آبادی کو فاقہ کشی کا سامنا

$
0
0

اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ اندازاً 62 لاکھ شامی اندرونی طور پر بے دخل ہو چکے ہیں۔ انسانی امور کے رابطہ کار ادارے کے ترجمان، ژان لارکے کا کہنا ہے کہ آٹھ برس کی جنگ و جدل نے شام کو دنیا کے سنگین بحران سے ہمکنار کر دیا ہے
اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شام کی ایک کروڑ 17 لاکھ کی آبادی یا ملک کی دوتہائی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے بین الاقوامی اعانت کی فوری ضرورت ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عالمی ادارے نے خود ساختہ منصوبہ تیار کیا ہے جس میں برسلز میں شام پر بین الاقوامی کانفرنس سے قبل غذائی ضروریات کی تفصیل درج ہے۔ یہ اجلاس 12 سے 14 مارچ تک منعقد ہو گا۔

اقوام متحدہ نے اب تک شام کے انسانی ہمدردی کے منصوبے پر ڈالر میں خرچ سے متعلق تفصیل نہیں پیش کی۔ لیکن گزشتہ سال ادارے نے 3.36 ارب ڈالر رقوم دینے کی اپیل کی تھی، جب کہ 2019ء میں پریشان حال شہری آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ارزاں معاملہ نہیں ہو گا۔ حکومت شام نے اپنے روسی حامیوں کی مدد سے بڑی سطح کی فوجی اور علاقائی برتری حاصل کی ہے۔ اس کے باوجود، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لڑائی یا انسانی بحران جس نے شہری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ابھی ختم نہیں ہوا۔ اپنی رپورٹوں میں اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ اندازاً 62 لاکھ شامی اندرونی طور پر بے دخل ہو چکے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ 80 فی صد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، جس میں محرومی کے شکار دائمی سطح کے معاملات شامل ہیں۔
انسانی امور کے رابطے کار ادارے کے ترجمان، ژان لارکے کا کہنا ہے کہ آٹھ برس کی جنگ و جدل نے شام کو دنیا کے سب سے بڑے بحران سے ہمکنار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے پیکیج میں غذا، پناہ، صحت کی دیکھ بھال، پانی اور صفائی ستھرائی کی تفصیل درج ہے۔ اس میں ملک میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جہاں 20 لاکھ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں اسکول نہیں جا پا رہے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

مزید روہنگیا مہاجرین قبول نہیں کر سکتے : بنگلہ دیش

$
0
0

بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’سازگار ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے، کسی ایک بھی روہنگیا نے رخائن واپس جانے کا ادارہ ظاہر نہیں کیا‘‘. بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ وہ مزید روہنگیا مہاجرین قبول نہیں کر سکتا۔ وزیر خارجہ شاہدالحق نے ایک گروپ کو بتایا کہ ’’مجھے کونسل کو یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ بنگلہ دیش میانمار سے مزید لوگ لینے کی استعداد نہیں رکھتا‘‘۔ اُنھوں نے الزام لگایا کہ روہنگیاؤں کی واپسی کے حوالے سے میانمار نے’’کھوکھلے وعدے اور رکاؤٹیں ڈالنے کا انداز‘‘ اپنا رکھا ہے۔ 

حق نے سوال کیا ’’آیا بنگلہ دیش اس بات کی قیمت ادا کر رہا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار اور احساس کرنے والا ملک ہے جو ہمسایہ ملکوں کی پریشان حال اقلیتی آبادی کو اپنے ملک میں جگہ دیتا ہے؟‘‘ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’سازگار ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے، کسی ایک بھی روہنگیا نے رخائن واپس جانے کا ادارہ ظاہر نہیں کیا‘‘۔ میانمار کے سفیر، ہاؤ دو سوان نے کہا کہ روہنگیا آبادی کی وطن واپسی کی کوششوں کے سلسلے میں اُن کے ملک کو مزید وقت درکار ہے۔ اُنھوں نے سلامتی کونسل سے کہا کہ روہنگیاؤں کی واپسی کے عمل میں حائل جسمانی اور نفسیاتی رکاؤٹوں کو مد نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ بقول اُن کے، ’’اس کام میں وقت اور بھروسے کے ساتھ ساتھ حوصلہ درکار ہوتا ہے، تاکہ رخائن کی مختلف برادریوں کے درمیان اعتماد پیدا کیا جا سکے۔

برطانوی سفیر کیرن پیئرس نے کہا کہ ’’ہمیں مایوسی ہوئی ہے کہ مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے کوئی زیادہ پیش رفت حاصل نہیں ہوئی‘‘۔ سلامتی کونسل کے مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے برعکس، روس اور چین یہ خیال کرتے ہیں کہ میانمار اور بنگلہ دیش ہی روہنگیاؤں کی وطن واپسی کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ میانمار میں تشدد کی کارروائیوں اور مظالم سے بچنے کے لیے اگست 2017ء سے 720000 سے زائد روہنگیا مہاجرین نے بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس سے قبل نمودار ہونے والے میانمار کے مہاجرین کے بحران کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مہاجرین کی مجموعی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہو چکی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>