↧
بطخ کے بارے میں دلچسپ حقائق
↧
ترکی نے چین سے ’ ایغور مسلمانوں کے حراستی مراکز‘ بند کرنے کا مطالبہ کر دیا
ترکی نے چین کی جانب سے اقلیتی مسلم برادری ایغور سے روا رکھے جانے والے سلوک کو ’انسانیت کے لیے شرم ناک‘ قرار دیتے ہوئے ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ حامی اکسوی نے کہا کہ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ چین نے حراستی مرکز میں 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی چین میں ایغور مسلم آبادی کو دباؤ کا سامنا ہے اور اس نے اپنے تحفظات سے چین کو ہر سطح پر آگاہ کر دیا ہے۔ ترک حکام نے چین سے حراستی مراکز بند کر کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ترک وزیر نے کہا کہ ہمیں ایغور کے مشہور موسیقار اور شاعر عبدالرحیم حیات کی قید میں موت کا علم ہوا، جنہیں اپنے ایک گانے کی وجہ سے 8 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
حامی اکسوی نے کہا کہ اس سانحے سے سنکیانگ کے خطے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے حوالے سے ترک عوام کے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چینی حکام اس جائز ردعمل پر ضرور توجہ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی مسلمان اور ترک شناخت کا دفاع کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے عبدالرحیم سمیت تمام افراد کو خراج تحسین پیش کیا۔ عبدالرحیم ایران اور وسط ایشیا میں پائے جانے والے 2 تاروں پر مشتمل میوزک کا ایک آلہ بجاتے تھے اور ان کی حراست ایغور کی علیحدہ زبان اور شناخت کے لیے جدوجہد کرنے والے تعلیمی اور ثقافتی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دی جا رہی تھی۔
ابھی تک عبدالرحیم حیات کی موت کی تصدیق نہیں کی گئی جبکہ چین نے ترک وزیر کے بیان پر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سنکیانگ میں 2009 میں ہونے والے خونی فسادات کے بعد چین نے وہاں کی مسلم برادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا اور انہیں حکومت کے حراستی کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کریک ڈاؤن کے دوران بڑی تعداد میں ایغور مسلمان سفر کر کے ترکی پہنچے جہاں کی زبان اور ثقافت بالکل سنکیانگ جیسی ہے۔ چین کی جانب سے کئی ماہ تک حراستی مراکز کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن عالمی دباؤ کے بعد چین نے ان حراستی مراکز کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عارضی ٹریننگ سینٹر قرار دیا تھا۔
ابھی تک چین کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان حراستی مراکز میں کتنے لوگ موجود ہیں اور انہیں کب تک وہاں رکھا جائے گا۔
ماضی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان چین پر ’نسل کشی‘ کا الزام لگا چکے ہیں لیکن ان دنوں چین اور ترکی کے درمیان اچھے معاشی اور سفارتی تعلقات ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک'قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چین نے اس رپورٹ کے رد عمل میں کہا تھا کہ ایغور مسلمانوں سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔
ایغور کون ہیں؟
چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'ایغور'آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔ سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خود مختار علاقہ کہلاتا ہے۔ گزشتہ کئی عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کر لیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کر رہی ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
↧
↧
نیرو : روم کا بدنامِ زمانہ شہنشاہ
نیرو نہایت ظالم، عیاش اور فضول خرچ شہنشاہ تھا۔ اس کے ظلم کا بڑا نشانہ عیسائی تھے۔ اس نے ان پر روم کو جلانے کا الزام لگا کر ایسے ایسے جسمانی عذاب دیے کہ ان میں سے اکثر تاب نہ لا کر مر گئے۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ آگ نیرو نے خود لگائی تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ آگ لگنے کا تماشا دیکھے۔ چنانچہ وہ گاتا اور بانسری بجاتا رہا، یہاں تک کہ شہر کا دوتہائی حصہ جل کر راکھ ہو گیا۔ نیرو چھٹے رومی شہنشاہ کی حیثیت سے تخت پر بیٹھا کیونکہ شہنشاہ کلاڈیس نے اس کو گود لیا تھا۔ وہ 15 دسمبر 37ء کو پیدا ہوا۔ اس کی ماں نے شہنشاہ کلاڈیس سے نکاح ثانی کر لیا تھا۔ نیرو کی ماں نے کلاڈیس کو زہر دے کر ہلاک کر ڈالا جس کے بعد نیرو شہنشاہ بن گیا۔ پہلے پہل تو وہ اچھا بادشاہ ثابت ہوا۔ وہ ہوشمندی سے حکومت کرتا رہا لیکن بعد میں بگڑ گیا جس کی ذمہ داری اُس کی ماں ایگری پینا پر عائد ہوتی ہے۔
آخر نیرو نے اپنی ایک دوست پوپیا سا بینا کو خوش کرنے کے لیے میں اپنی ماں کو قتل کر دیا۔ اسی عورت کے کہنے پر اپنی بیوی کو بھی قتل کر کے اس سے شادی کر لی۔ لیکن ایک دن نیرو نے پوپیا کو بھی قتل کر دیا۔ روم کے جلنے کے بعد نیرو نے اسے دوبارہ عظیم الشان پیمانے پر تعمیر کرنا شروع کر دیا۔ اس نے پیلاٹین کی پہاڑی پر اپنے لیے شاندار محل بنوایا۔ محل کی تعمیر کے فنڈز اکھٹے کرنے کے لئے نیرو نے اپنی قلمرو کو لوٹا اور بیشمار لوگوں کو اپنا دشمن بنا لیا جو آخر اس کے زوال کا باعث بنے۔ اس کے خلاف ایک سازش ہوئی۔ مگر نیرو کو اس کے سرغنوں کا پتہ چل گیا۔ چنانچہ اس نے ان کو گرفتار کر کے مار ڈالا۔ لوکن شاعر کے ساتھ پائسو، فینئس روفس، سنیکا اور بہت سے دوسرے آدمی بھی مارے گئے۔ فرانس اور ہسپانیہ کے رومن دستوں اور روم کی پرٹیورین گارد نے بغاوت کر کے گالبا کو شہنشاہ بنا دیا۔ نیرو نے راہِ فرار اختیار کی ۔ مخالف فوج جب اس کے قریب پہنچی تو اس نے خود کشی کر لی۔
بشکریہ دنیا نیوز
↧
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 10 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے متوقع
سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 10 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی تین مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط متوقع ہیں۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف نے پیر کو ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حکومتوں کے درمیان تین بڑی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے اور ان کی مالیت 10ارب ڈالر سے زائد ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آئل ریفائننگ، لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) اور معدنی ترقی کے شعبوں میں تین مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ ولی عہد اپنے پہلے دو روزہ دورے پر پاکستان آئیں گے اور وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر ان کی آمد متوقع ہے۔ مفاہمتی یادداشتوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کے درمیان متعدد دیگر تجارتی معاہدے بھی متوقع ہیں۔
بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سربراہ سعودی ولی عہد کے ہمراہ 40 سعودی کاروباری شخصیات بھی آ رہی ہیں۔ یہ کاروباری شخصیات مقامی کاروباری شخصیات سے بالمشافہ ملاقات کریں گے جس سے دورے کے دوران نجی سطح پر بھی کچھ معاہدوں کا امکان ہے۔ آئل ریفائنری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون شریف نے کہا کہ سعودی عرب گوادر میں 8 ارب ڈالر کی لاگت سے ریفائنری تعمیر کرے گا جو غیرملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ساحلی شہر کے مقامی افراد کو نوکریوں کے مواقع بھی فراہم کرے گی۔ اگر وہ آئل ریفائنری کے ساتھ پیٹروکیمیکل کمپلیکس بھی تعمیر کرتے ہیں تو اس کے لیے الگ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی۔
بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت گوادر میں آئل ریفائنری لگانے میں بہت دلچسپی رکھتی ہے اور اس سلسلے میں فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گوادر میں سعودی سرمایہ کاری پر چین کے ردعمل کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب آئل ریفائرنگ کی تعمیر پر چین کو کوئی اعتراض نہیں۔ حقیقتاً سعودی کو جہاں آئل ریفائرنری بنانی ہے اس کا تعین فزیبلیٹی اسٹڈی کے بعد کیا جائے گا البتہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مقام یہ پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے سے بہت دور ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
↧
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کون ہیں ؟
تینتیس سالہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جنھیں پیار سے ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اور ان کی تیسری بیوی فہد بنت فلاح بن سلطان کے سب سے بڑے بیٹے ہیں، 14 دسمبر2017 کی الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شہزادی فہد ہ بنت فلاح بن سلطان بن ہتلین کا تعلق عجمان قبیلے سے ہے، شہزادی کے دادا رکان بن ہتلین اس قبیلے کا سردار تھے، 2008 میں بن سلمان نے شہزادی سارہ بنت مشہور بن عبدالعزیز السعود سے شادی کر لی اور ان کے 3 بچے ہیں، سعودی ولی عہد نے اپنی ابتدائی تعلیم دارالحکومت ریاض سے حاصل کی اور ملک کے 10 بہترین طلبا میں اپنا نام شامل کیا.
گریجوایشن کے بعد بن سلمان نے حکومتی کاموں میں مصروف ہونے سے پہلے کئی فرمیں قائم کیں، انہوں نے ریاض کی مسابقتی کونسل کے سیکرٹری جنرل ، شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے مشیر خاص، البر سوسائٹی فار ڈیویلپمنٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن رہ چکے ہیں، فلاحی کاموں کے اعتبار سے بن سلمان نے ایم آئی ایس کے فاؤنڈیشن قائم کی، ایک ایسی نان پرافٹ آرگنائزیشن جو سعودی نواجونوں کو مختلف کاروباری پرگراموں کے ذریعے روشن مستقبل اور اپنے ملک کی خدمت کا موقع دیتی ہے۔ 22 اکتوبر 2018 کی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایم آئی ایس کے فاؤنڈیشن کے چیئرمین بن سلمان کو ان کی خدمات پر فوربز میگزین مڈل ایسٹ نے انہیں پرسنیلٹی آف ایئر قرار دیا.
شہزادہ محمد بن سلمان نے 24 سال کی عمر سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی، جب 24 دسمبر 2009 میں انہیں ان کے والد کا مشیر خاص مقرر کیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان اس وقت صوبہ ریاض کے گورنر تھے، جب 21 جون 2017 کو ان کے والد شاہ سلما ن نے اپنے بھتیجے محمد بن نائف کومعزول کر کے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کر لیا، امریکی صدر ٹرمپ نے شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کر کے ان کی تقری پر مبارکباد دی، دنیا کے سب سے کم عمر وزیردفاع اور اپنے ملک کے ڈپٹی وزیر اعظم ملک کے داخلی معاملات میں نہایت حساس اور ایران کے بارے میں جارحانہ بیانات کیلئے مشہور ہیں، امریکی میڈیا کے مطابق شاہ سلمان کی دولت کا تحمینہ 17 بلین امریکی ڈالر یا 2380 بلین پاکستانی روپے لگایا گیا ہے، جس میں سے بڑا حصہ ان کے خاندان کی ملکیت میڈیا گروپ جس میں پین عرب، ڈیلی اشراق، الاصوات، اور العقصادہ شامل ہیں.
نومبر 2017 میں شہزادے نے کرپشن کیخلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا، جس کے دوران تقریباً 106 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ رقم سیٹلمنٹ کے تحت ریکور کرلی۔ ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے، سعودی عرب میں موسیقی کے کانسرٹ کی اجازت دینے، سعودی عرب میں پہلا سنیما قائم کرنے اور 2030 تک سعودی عرب میں 2 ہزار سے زائد سنیما گھر تعمیر کرنے، سعودی خواتین کوکفیل کے بغیر کام کرنے کی اجازت دینے، اور ریاض کے جنوب مغرب میں دنیا کا سب سے بڑاکلچرل ، سپورٹس اینڈ انٹرٹینمنٹ شہر بسانے کے اعلان سمیت ملک میں بہت اصلاحات متعارف کرانے کیلئے شہزادہ محمد بن سلمان اکثر خبروں میں رہتے ہیں.
فروی 2017 کو سعودی عرب میں پہلے بار ایک خاتون کو سعودی سٹاک ایکسچین کا سربراہ مقر ر کیا گیا، میڈیا رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے قومی آئل کمپنی ارامکو کے 5 فیصد شیئرز فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، آئی پی او میں 100 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن سرمایہ کا رحیران ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے اعلان کے مطابق آرامکو کی ویلو 2 بلین امریکی ڈالر کے قریب پہنچ سکتی ہے، شہزادہ محمد بن سلمان نے اردن اور مصر کی سرحدوں سے متصل نیوم کے نام سے 500 بلین امریکی ڈالر سے بزنس اینڈ انڈسٹریل زون بنانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
صابر شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
منشیات کی دنیا کا گاڈ فادر ’ال چاپو‘ مجرم قرار
نیویارک کی عدالت نے منشیات کی دنیا کے گاڈ فادر ال چاپو کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ منشیات اسمگلنگ کے مقدمے میں ال چاپو پر عائد تمام 10 الزامات میں اسے قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔ 61 سالہ ال چاپو پر منشیات کی فروخت، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
گواہوں کے مطابق میکسیکن منشیات فروش نے سالانہ 25 سے 30 ٹن ہیروئن اسمگل کی ہے، ابھی اسے سزا سنائی جانی باقی ہے اور ممکنہ طور پر یہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ال چاپو 2001ء اور 2014ء میں دو مرتبہ جیل سے فرار بھی ہو چکا ہے، ال چاپو پر الزام ہے کہ وہ میکسیکو میں منشیات فروشی کے سب سے بڑے اور طاقتور گروہ سینالوا کارٹیل کی پشت پناہی کرتا تھا۔
↧
طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات پاکستان میں ہوں گے
طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہو گا۔ افغانستان میں 17 سال سے جاری امریکی اتحادی افواج اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی ختم کرنے اور امن کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 18 فروری کو اسلام آباد میں ہو گا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جاری کردہ بیان میں اس کی تصدیق کی ہے، اس سے قبل قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں مذاکرات کے بعد دوبارہ دونوں فریقین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مزید بات چیت کریں گے۔ جاری بیان کے مطابق طالبان کا وفد وزیرِ اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کرے گا، اس طرح سال 2001 کے بعد طالبان وفد کی کسی پاکستانی وزیرِ اعظم سے یہ پہلی ملاقات بھی ہو گی۔
↧
پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ رحمت یا زحمت ؟
وزیر اعظم عمران خان نے دبئی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں عمران خان نے انہیں پاکستان میں معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر بریفنگ دی اور کرسٹین لیگارڈ نے پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کی بھرپور یقین دہانی کرائی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے آخر کار اس بات کی تصدیق کر دی کہ فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ اس عرصے میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے موقف اور اعتراض کو سمجھ لیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی شرائط کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شرائط صرف دینے والے اور اوپر والے ہاتھ کی ہوتی ہیں نیچے والا ہاتھ تو حالات سے مجبور ہوتا ہے اور مجبور ی کی کوئی شرط نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو اس کی پرکاہ برابر اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کھینچا تانی میں شرائط تو آئی ایم یف ہی کی تھیں اور حکومت ان شرائط کو نرم کرانے کے لیے کوشاں رہی۔ حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس قدر کڑی تھیں جن پر عمل کرنے سے حکومت کی عوامی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچ سکتا تھا۔
پاکستان کی ماضی میں ریت رسم تو یہ تھی کہ قرض کی ایک اور قسط سے ماضی کے قرض کی قسطیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس طرح ملک قرض در قرض کے گھن چکر کا شکار تھا۔ حد تو یہ کہ اب ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا تھا۔ گویا معصوم نسلوں کو بھی ناکردہ جرم کی سزا مل رہی تھی۔ قرض کے پیسوں سے بڑے بڑے منصوبے لگ رہے تھے، عیاشیاں اور اللے تللے جار ی تھے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کے نام پر جاری عیاشیاں اسی قرض سے چل رہی تھیں۔ آئی ایم ایف بھی ہماری ان حرکتوں سے تنگ آچکا تھا۔ رہی سہی کسر سی پیک نے پوری کر دی تھی۔
مغربی ممالک کی آنکھوں میں یہ منصوبہ خار کی طرح کھٹک رہا ہے اور اس منصوبے کی وجہ سے مغربی ملکوں کا رویہ سخت سے سخت تر ہو رہا تھا چوں کہ عالمی مالیاتی ادارے مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے زیر اثر ہیں اس لیے یہ ادارے کچھ اور ناز نخرے دکھانے لگے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس معاملے پر یہ کہہ کر مداخلت ضروری سمجھی تھی کہ آئی ایم ایف چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو قرض نہ دے۔ رخصت ہونے والی حکومت کو اس معاشی مشکل کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی لیے جب بیتے کل کی حکومت اپوزیشن بنی تو اسے یقین تھا کہ عمران خان کی حکومت چند ہی ماہ میں اس معاشی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گی اور یوں اس کے متبادل آپشنز پر غور شروع ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ابتدا ہی میں ڈولتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچنے اور اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے دوست ملکوں سے قرض لینے کی حکمت عملی اختیار کی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین سمیت دوست ملکوں نے اس مشکل سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت منی بجٹ اور اس سے پہلے مہنگائی کا ایک بم عوام کے سر پر پھوڑ چکی ہے۔ اپوزیشن بھی الزام عائد کررہی ہے حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر چکی ہے اب معاہدہ محض رسمی کارروائی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کی اس قسط کا تعلق اگلے مالی سال 2019,20 سے ہے۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت منی بجٹ پیش کر چکی ہے اور اسی طرح آئی ایم کی شرائط کے فوائد اور نقصانات کی جھلک میں اگلے مالی سال کے بجٹ میں کھائی دے گی۔
گویا مہنگائی کا ایک اور جن مئی جون میں عوام کو دبوچنے کو تیار بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کی اس قسط سے قومی معیشت کو ایک اور نشہ آور انجکشن لگ جائے گا۔ وقتی طور پر جاں بہ لب مریض کو اس سے قرار بھی آجائے گا مگر مرض اپنی جگہ موجود رہے گا۔ حکومت تیقن کے ساتھ باربار اسے آخری بیل آؤٹ پیکیج قرار دے رہی ہے مگر اس دعوے اور عملی حقیقت میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ برآمدات بڑھائے اور درآمدات کم کیے بغیر اور ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کیے بغیر یہ دعویٰ عملی شکل میں ڈھلتا نظر نہیں آتا۔ جن لوگوں کو ٹیکس چوری کرنے کی لت پڑ چکی ہے ایسا کون سا انقلاب آگیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے؟۔ اس لیے بہت سے دعوؤں کی طرح اس قسط کو آخری قرار دینے میں حکومت جلدی کر رہی ہے۔
وسائل دستیاب ہونے کے بعد حکومت کس طرح منصوبہ بندی کر کے معاشی بحران کو کم کرتی ہے یہ اصل سوال ہے۔ قرض کی متوقع قسط کے بعد حکومت کا اصل امتحان شروع ہونے جا رہا ہے۔ ماضی کے طور طریقے چھوڑ کر سادگی اور کفایت شعاری اپناتے ہوئے حکومت کچھ مختلف کر سکتی ہے۔ حکومت جو بھی کرے اسے عوام کی مہنگائی سے جھکی ہوئی کمر کو مزید جھکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کسی حکومت کی معاشی پالیسی کی کامیابی اور ناکامی کا میعار یہی ہے کہ اس کے اثرات عوام پر مثبت یا منفی کس انداز سے مرتب ہوتے ہیں۔
عارف بہار
بشکریہ روزنامہ جسارت
↧
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ؟
چند روز پہلے گومگو کی کیفیت کے بعد طویل مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے نرم شرائط کے تحت 6 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج ملنے کی خوشخبری سنائی گئی تاہم یہ تان اس وقت ٹوٹ گئی جب گزشتہ روز اس پیکیج کی روشنی میں مطلوبہ کڑی شرائط میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آئیں۔ ان میں بجلی کے ٹیرف میں مزید 30 فیصد، حالیہ خسارے کے بجٹ کو فاضل بجٹ میں تبدیل کرنے کیلئے ویلیو ایڈڈ اور جی ایس ٹی میں اضافے سمیت بہت سے دیگر مطالبات سامنے آئے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورت حال ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی کا گراف تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جو معاشی مسائل کے شکار عوام کیلئے مزید کرب کا باعث بنے گا.
لہٰذا ضروری ہےکہ آئندہ ماہ ہونے والے سمجھوتے سے پہلے متذکرہ شرائط تبدیل کرانے کیلئے مزید گفت و شنید کی جائے آئی ایم ایف سے پاکستان کی وابستگی 60 سالہ پرانی ہے اور ان برسوں میں ہونے والے کل 21 معاہدوں میں سوائے 1960 کی دہائی کے، باقی عرصہ کے دوران ملنے والے قرضوں سے قابل ذکر فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ موجودہ حالات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور قطر سے ملنے والے قرضوں کے باوجود آئی ایم ایف اب بھی حکومت کو اپنی ضرورت دکھائی دے رہا ہے۔ یہ صورت حال اس لحاظ سے قومی معیشت اور عوام الناس کیلئے اس لئے مزید مشکل کا باعث ہے.
ایک طرف قرضوں کے بوجھ میں اضافہ اور دوسری طرف مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی سانس بھی نہیں لینے دے رہی۔ ادھر بجلی و گیس چوری، بدعنوانی کے باعث معیشت کا پہیہ جاری رکھنے کیلئے اور توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک سے قرضے لینے پر پابندی کی بھی شرط عائد کی ہے جس سے آنے والے گرمی کے موسم میں لوڈ شیڈنگ کے سر اٹھانے کا احتمال ہے۔ یہ ایک اچھا منظر دکھائی نہیں دے رہا، اس صورت حال کے پیش نظر حکومت کو اپنی حکمت عملی پر دو بارہ غور کرنا چاہئے اور قرضوں کیلئے قومی مفادات کے خلاف کوئی شرط قبول نہیں کرنی چاہیے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
سب سے بڑے مسافر بردار طیارے اے 380 کی پروڈکشن ختم کرنے کا فیصلہ
یورپی طیارہ ساز کمپنی نے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے اے 380 کی تیاری روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ اس کی خریداروں میں کمی اور ایک بلین ڈالر کا نقصان بتایا گیا ہے۔ ہوائی جہاز بنانے والے یورپی ادارے ایئر بس نے اعلان کیا ہے کہ وہ سب سے بڑے مسافر بردار طیارے اے 380 مزید تیار نہیں کرے گی۔ اس کی مزید فروخت اور فراہمی سن 2021 سے بند کر دی جائے گی۔ اس طیارے کو متعارف کراتے وقت ایئر بس کا کہنا تھا کہ یہ اکیسویں صدی میں ہوائی سفر میں انقلاب کا باعث ہو گا۔ ایئربس کے مطابق اس طیارے کی تیاری میں اب تک ایک بلین امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایئر بس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال اس طیارے کے خریداروں میں کوئی اضافہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایئر بس کا یہ سپر جمبو طیارہ بوئنگ 747 کی مارکیٹ کو محدود کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
آخری اے 380 ہوائی جہاز دبئی کی ہوائی کمپنی ایمریٹس کو فراہم کیے جائیں گے۔ اس بڑے طیارے کی سب سے بڑی خریدار بھی ایمریٹس ہے۔ ایئر بس نے رواں برس جنوری میں واضح کیا تھا کہ اگر اُسے اے 380 کی فراہمی کے مزید آرڈرز نہ ملے تو وہ اس کی پروڈکشن کو روک دے گی۔ دبئی میں قائم بین الاقوامی ہوائی کمپنی ایمریٹس کے چیئرمین شیخ احمد بن سعید المکتوم کا کہنا ہے کہ اُن کا ادارہ اس طیارے کی پروڈکشن کا زوردار حامی رہا ہے اور اب اس کی مزید تیاری کو بند کیا جا رہا ہے اور یہ افسوس کی بات ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی کا احساس کرتے ہوئے ایئر بس نے اس کی پروڈکشن میں تسلسل نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایمریٹس اس کمپنی نے اپنا اے 380 کا دستہ 162 سے کم کر کے 123 کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت یہ طیارہ کئی ہوائی کمپنیوں کے زیراستعمال ہے۔ ان میں ایمریٹس کے علاوہ آسٹریلوی کمرشل ہوائی کمپنی قنطاس اور سنگا پور ایئر لائن بھی نمایاں ہے۔
بشکریہ DW اردو
↧
امريکا ميں ہنگامی حالت کا نفاذ
امريکی صدر نے اپنے ايک اور متنازعہ اقدام ميں ملک ميں ايمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر ديا ہے۔ کانگريس کے ارکان نے اس فيصلے کی مخالفت کی ہے اور اسے قانونی سطح پر چيلنج کرنے کا عنديہ بھی ديا ہے۔ ميکسيکو کی سرحد پر ديوار کی تعمير کے ليے مطلوبہ بجٹ کے حصول ميں ناکامی کے تناظر ميں امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک ميں ايمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ ٹرمپ نے اس بارے ميں اعلان کيا۔ صدر کے مطابق ميکسيکو کی سرحد سے جرائم پيشہ افراد، گروہ و منشيات امريکا منتقل ہوتے ہيں جو امريکا کی قومی سلامتی کے ليے ايک خطرہ ہے۔ ٹرمپ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا يہ فيصلہ کانگريس کی توثيق کے بغير کيا ہے۔
يہی وجہ ہے کہ ڈيموکريٹس نے اس قدم کو ’آئين کی خلاف ورزی‘ قرار ديتے ہوئے اسے قانونی سطح پر چيلنج کرنے کا کہا ہے۔ 2016ء ميں منعقدہ امريکی صدارتی اليکشن سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کيا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد ميکسيکو کی سرحد پر ديوار تعمير کرائيں گے تاکہ وسطی و جنوبی امريکی ملکوں کے شہريوں کی اس راستے سے امريکا کی جانب غير قانونی ہجرت کو روکا جا سکے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد البتہ ان کی اس سلسلے ميں بيشتر کوششيں قانونی رکاوٹوں کے سبب بے اثر ثابت ہوئيں۔ اسی تناظر ميں پچھلے دنوں امريکا کی تاريخ کا طويل ترين ’شٹ ڈاؤن‘ يا حکومتی سرگرميوں کی جزوی بندش بھی ديکھنے ميں آئی۔
ٹرمپ نے ديوار کی تعمير کے ليے 5.7 بلين ڈالر کا مطالبہ کر رکھا تھا ليکن کانگريس کی جانب سے صرف 1.4 بلين ڈالر کی فراہمی کے بعد فرق پورا کرنے کے ليے امريکی صدر نے يہ قدم اٹھايا ہے۔ يوں ايمرجنسی کی صورتحال ميں ٹرمپ ديگر کئی منصوبوں کے ليے مختص رقوم کو ديوار کی تعمير پر صرف کر سکيں گے۔ صدر ٹرمپ نے ايمرجنسی نافذ کرنے کے بارے ميں اعلان پچاس منٹ طويل اپنے خطاب کے دوران کيا۔ اس دوران انہوں نے ان قانونی رکاوٹوں کا تذکرہ بھی کيا، جن کا اب اس قدم کو چيلنج کيے جانے کی صورت ميں انہيں سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم امريکی صدر پر اعتماد دکھائی ديے کہ وہ سرخرو ہو جائيں گے۔
امريکی کانگريس کی اسپيکر نينسی پيلوسی نے سينيٹ کے ايک اور رکن چارلز شومر کے ہم راہ ايک مشترکہ بيان ميں کہا کہ صدر کے اقدامات آئين کے خلاف ورزی کے مترادف ہيں۔ ٹرمپ کی جانب سے ايمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کے خلاف کانگريس ميں ايک قرارداد جمع کرائے جانے کے قوی امکانات ہيں۔ بعد ازاں اس پر رائے دہی بھی ہو گی تاہم فی الحال يہ واضح نہيں کہ ايسا کب تک ہو گا۔
دريں اثناء ڈيموکريٹس نے مطالبہ کيا ہے کہ اس فيصلے ميں شامل محکمہ انصاف اور انتظاميہ کے ديگر ارکان کو سوال جواب کے ليے پيش کيا جائے۔ علاوہ ازيں ہنگامی حالت کے نفاذ کی بنياد بننے والے حقائق اور دستاويزات کو بھی آئندہ جمعے تک جمع کرانے کا مطالبہ کيا گيا ہے۔
بشکریہ DW اردو
↧
مڈغاسکر : یہاں انسانوں کے آثار دس ہزار سال قدیم ہیں
مڈغاسکر بحر ہند میں افریقہ کے مشرقی طرف واقع جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے۔ ان میں سب سے اہم اور بڑا جزیرہ مڈغاسکر ہی کہلاتا ہے جو دنیا کا چوتھا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ طویل عرصہ باقی دنیا سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے جاندار ارتقائی عمل کے نتیجے میں خاصے الگ تھلگ ہیں۔ یہاں کے جنگلوں میں پائی جانے والی حیات کا 90 فیصد کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ تاہم ماحولیات کو ہونے والا نقصانات اور انسانی آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے ان جانداروں کی بہت سی انواع خطرات سے دوچار ہیں۔ ملک کا دارالحکومت اینٹانا ناریو ہے۔ ملک کی سرکاری زبان فرانسیسی اور مالاغاسی ہے۔
مڈغاسکر میں زیادہ تر دو موسم پائے جاتے ہیں: خشک اور نسبتاً سرد موسم مئی سے اکتوبر تک ہوتا ہے جبکہ نومبر سے اپریل تک گرم اور برساتی موسم رہتا ہے۔ یہاں انسانوں کے آثار دس ہزار سال قدیم ہیں۔ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ آ کر آباد ہوتے رہے۔ یہاں مختلف ریاستیں بھی قائم رہیں۔عرب تاجر ساتویں صدی سے یہاں پہنچنا شروع ہوئے۔ انہوں نے یہاں تجارتی بندرگاہیں قائم کیں اور انہیں کی مدد سے یہاں اسلام پھیلا۔ یورپی یہاں 1500ء کے لگ بھگ پہنچے۔ یہاں مختلف سلطنتیں قائم رہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں فرانسیسیوں نے مڈغاسکر کو نوآبادی بنا لیا۔ ملک نے 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔
معروف آزاد
↧
سی پیک میں سعودیہ کی شمولیت پر اعتراض نہیں، چین
پاکستان میں چین کےسفارتخانے کےڈپٹی چیف آف مشن چاؤلیجیان کا کہنا ہے کہ چین کو سی پیک میں سعودی عرب سمیت کسی بھی تیسرے ملک کی شمولیت پر اعتراض نہیں، یہ پاکستان پر منحصر ہےکہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو کیسے گوادر میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا ہے۔ چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن چاؤ لیجیان نے پروگرام ’جیو پارلیمنٹ ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے سی پیک اب نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، پہلے پانچ سال جلد مکمل ہونے والے منصوبے تھے، اب نئے مرحلے میں اسے توسیع دی جا رہی ہے جس میں ترجیح خصوصی اقتصادی زونز کا قیام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے ذریعے پاکستان کی صنعتی ترقی کو فروغ ملے گا، ان کے ذریعے پاکستان چین کے علاوہ دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کر سکے گا۔ چاؤ لیجیان نےکہا کہ تیسرے فریق کی شمولیت کے بارے میں سی پیک اوپن پروگرام ہے، امید ہے سی پیک میں مذید ممالک شامل ہوں گے، تیسرے ممالک کی پہلے بھی شمولیت موجود ہے، مثال کے طور پر کروٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن میں 15 فیصد فنانسنگ آئی ایف سی اور عالمی بنک کی ہے، پورٹ قاسم پاور پلانٹ بھی چین اور قطر کا جوائنٹ وینچر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوادر میں ترقی کے بہت مواقع موجود ہیں، یہ پاکستان پہ منحصر ہے کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کیسے ترغیب دیتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
جنگ زدہ علاقوں میں روزانہ تین سو بچے مرتے ہیں، سیو دی چلڈرن
بچوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں روزانہ تین سو بچوں کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس تنظیم نے اس صورت حال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔ بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن نے جنگ زدہ اور مسلح تنازعات کے حامل علاقوں میں ہونے والی بچوں کی اموات پر خصوصی رپورٹ جاری کی ہے۔ ان علاقوں میں تقریباً چار سو بیس ملین بچے بستے ہیں اور رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک بچے کی موت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں تاسف کے ساتھ بیان کیا گیا کہ اکیسویں صدی میں حالات کی بہتری کا پہیہ بظاہر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب گھوم رہا ہے اور اس باعث اخلاقی معیارات میں گراوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی ضوابط کا احترام کرتے ہوئے جنگ زدہ علاقوں کے متحارب فریق بچوں اور عام غیر مسلح شہریوں کو آسان ہدف بنانے سے ہر ممکن طریقے سے گریز کریں۔ سیو دی چلڈرن نے امیر ممالک اور بڑے امدادی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس افسوسناک صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے بچوں کی اموات میں کمی کی کوششیں کریں۔ بچوں کی ہلاکتوں والے ملکوں میں افغانستان، یمن، جنوبی سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ اور شام خاص طور پر نمایاں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان بچوں کو بھوک اور علاج کی ناکافی سہولیات کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کی اموات کا یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ سیو دی چلڈرن نے یہ خصوصی رپورٹ جرمن شہر میونخ میں پندرہ سے سترہ فروری تک منعقد کی جانے والی سالانہ انٹرنیشنل سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جاری کی ہے۔ توقع کی گئی ہے کہ کانفرنس کے شرکاء رپورٹ کے مندرجات پرتوجہ مبذول کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ رپورٹ سیو دی چلڈرن انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو ہیلے تھورننگ شمٹ نے جاری کی ہے۔ ہیلے تھورننگ شمٹ یورپی ملک ڈنمارک کی سن 2011 سے 2015 تک وزیراعظم بھی رہ چکی ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے بھی معاونت کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کا بھی سہارا لیا گیا۔
بشکریہ DW اردو
↧
پاکستان اور سعودی عرب تعلقات اعداد وشمار کے آئینے میں
پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تزویراتی تعلقات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ان ملکوں کی تاریخ ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا حالیہ تاریخی دورہ بھی دونوں ملکوں کے انہی تعلقات کی کڑی ہے۔ سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں بالخصوص پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں دونوں ملکوں کے باہمی تاریخی تعلقات کے اعداد وشمار پر روشنی ڈالی ہے۔
سعودی عرب کو پاکستانی شہریوں کا دوسرا وطن سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مملکت میں 19 لاکھ پاکستانی تارکین وطن مقیم ہیں۔ یہ سب مختلف شعبوں اور مدارج میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ملک کو سالانہ 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کا زر مبادلہ فراہم کرتے ہیں جب کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی 400 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب ریال سے زیادہ ہے۔ سنہ 2015ء میں پاکستان کو جب معاشی بحران اور بلوچستان میں زلزلے کی آفت کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے پاکستان کو ایک کروڑ ڈالر کی نقد امداد فراہم کی۔ 2010ء اور 2011ء سیلاب کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 10 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ سنہ 2014ء کو سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض بھی دیا۔
بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ
↧
سعودی ولی عہد کا 2 ہزار سے زائد پاکستانی قیدیوں کو فوری رہا کرنے کا حکم
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں قید 2 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی فوری رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سعودی ولی عہد کے احکامات سے آگاہ کیا۔ فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں قید 2107 پاکستانیوں کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے احکامات پر ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے پاکستانی قوم کی طرف ولی عہد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز عشایئے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد سے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی رہائی میں کردار ادا کرنے اور وہاں موجود لیبر کو اپنا سمجھنے کی درخواست کی تھی۔ وزیراعظم کی درخواست پر شہزادہ محمد سلمان نے کہا تھا کہ پاکستان انہیں سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سمجھے اور وہ پاکستان کو انکار نہیں کر سکتے، جو ہو سکا وہ ضرور کریں گے۔
↧
ایفل ٹاور : انجینئرنگ کا ایک عظیم شاہکار
انیسویں ویں صدی میں جب بنی نوع انسان کے علم میں یہ بات آئی کہ لوہے کے بڑے بڑے ڈھانچوں کو جوڑ کر ایک عمارت کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے تو یورپ میں لوہے کے بڑے ڈھانچوں کی حامل عمارات مکمل ہوئیں ۔ ایک ایسے فولادی ٹاور کی تعمیر کا خیال جس کی اونچائی 304.8 میٹر (1000 فٹ) ہو پہلے پہل کارنس مین رچرڈ ٹریوی تھک کے ذہن میں سمایا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ مظاہرہ بھی کر کے دکھایا تھا کہ بار برداری کا کام لینے کے لئے بھاپ کے انجن کو کس طرح ریل کی پٹریوں پر چلایا جا سکتا ہے ۔ اس ٹاور کے خیال کو اس وقت تک تقویت حاصل نہ ہو سکی جب تک انجینئر الیگزینڈر گسٹاوو ایفل منظر عام پر نہ آیا۔
ایفل دنیا کا ایک مشہور و معروف ماہر تعمیرات تھا ، کئی فولادی تعمیرات کی وجہ سے وہ اس شعبے میں کافی مشہور تھا۔ 1889ء میں جب پیرس میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا اس وقت ایفل کو عظیم الشان نظارہ پیش کرنے والی تعمیر سر انجام دینے کا مشورہ دیا گیا۔ لہٰذا اس نے ایک ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔ 1886ء میں اس ٹاور کی تعمیر کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس کی بنیادیں پتھروں پر رکھی گئی تھیں۔ 40 ڈرافٹسمین اس ٹاور کے مختلف حصوں کی تفصیلی ڈرائینگ تیار کرنے میں مصروف تھے اور ایک فیکٹری ان فولادی حصوں کی تیاری کے لئے روبہ عمل ہو چکی تھی۔ وہ مئی 1889ء میں افتتاح کا وقت قریب آنے پر ٹاور کی تعمیر کا کام زیادہ جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ سر انجام دینے لگا ۔
سردی اپنے جوبن پر تھی ،اس کے باوجود سینکڑوں کاریگر لوہے کے گارڈروں کو آپس میں جوڑنے میں مصروف تھے ۔ اس کام کو مکمل کرنے کیلئے ڈیوٹی کے اوقات کار سے زائد اوقات تک کام سر انجام دے رہے تھے۔ پہلے دیو قامت فولادی بنیاد نصب کی گئی ۔ 579 میٹر (190 فٹ) کی بلندی پر ایک پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس پلیٹ فارم پر 115.8 میٹر (380 فٹ) کی بلندی پر ٹاور کا دوسرا اور 272.7 میٹر (895 فٹ) کی بلندی پر تیسرا پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس کے اوپر ٹاور کا گنبد اور مینار میں لفٹیں نصب کی گئیں ۔ مارچ 1889ء میں ایفل نے اس پر فرانسیسی جھنڈا لہرایا۔ اس طرح دنیا کے مشہور ترین فولادی ٹاور کی تعمیر کا کام اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب تک لاکھوں لوگ اس ٹاور کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ ٹاور فرانس کی عظمت کی علامت بن چکا ہے۔ ایفل ٹاور کے بغیر پیرس بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیرس کے بغیر فرانس۔
شاہدہ لطیف
↧
↧
روس کی ٹرانس سائبرین ریلوے : دنیا کا طویل ترین ٹرین کا سفر
دنیا میں پرتعیش ٹرینوں کی کمی نہیں جو انتہائی خوبصورت مقامات سے گزرتے ہیں مگر پاکستان میں اسے سفر کا رومانوی انداز نہیں سمجھا جا سکتا۔ اب ٹرینوں کی تاخیر کا مسئلہ تو زیادہ نہیں مگر یہاں باہر دیکھنے والے مناظر بہت زیادہ مسحور کن نہیں ہوتے یا جو ہوتے ہیں وہاں وہ تیزی سے گزر جاتی ہے۔ مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں کسی مسافر ٹرین کا طویل ترین سفر کس ملک میں کیا جاتا ہے جس میں اپنے روانگی کے مقام سے آمد کے مقام تک کے لیے ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے؟ روس کی ٹرانس سائبرین ریلوے ایسی سنگل ٹرین لائن ہے جو لگ بھگ پورے روس سے گزرتی ہے یعنی ماسکو سے ولادی وستوک تک۔
ماسکو سے ولادی وستوک تک مجموعی طور پر یہ ٹرین 6 ہزار 152 میل کا سفر کرتی ہے جبکہ یہ مزید آگے یورپ اور ایشیا کے کچھ مقامات سے بھی گزرتی ہے۔
دنیا کا طویل ترین فضائی سفر تو گزشتہ سال متعارف کرایا گیا تھا مگر ٹرانس سائبرین ریلوے 1916 سے کام کر رہی ہے۔ جو شخص بھی اس پر سفر کرتا ہے یا اس کا حصہ بنتا ہے تو جان لیں یہ ٹرین کافی سست روی سے سفر کرتی ہے مگر جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہ مقامات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہاں چونکہ یہ جگہ جگہ روکتی بھی ہے تو روس کے دیہی مقامات کو کھنگالنا کافی آسان ہوتا ہے جہاں سے خریداری بھی کی جا سکتی ہے۔
اور اگر آپ پورا سفر کرتے ہیں تو اس کے لیے 144 گھنٹے یا پورے 6 دن لگتے ہیں اور یہ صرف روس سے ولادی وستوک تک کا وقت ہے، اس سے زیادہ طویل سفر ولادی وستوک تک کا ہے جبکہ یہ ٹرین بیجنگ تک بھی جاتی ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی دنیا میں مال برداری کے لیے طویل ترین ریلوے سروسز موجود ہیں مگر مسافروں کے لیے یہ دنیا کی طویل ترین ٹرین کا سفر ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
↧
چین کا ناقابل یقین اور دنگ کر دینے والا منصوبہ
چین ایک ایسے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے منصوبے ناقابل یقین ہوتے جا رہے ہیں لیکن وہ انہیں حقیقت کا روپ دینے میں کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اور چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سورج کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ بالائی خلا میں پاور اسٹیشن تعمیر کرنے جارہا ہے۔ یہ بجلی گھر یا پاور اسٹیشن زمین کے مدار میں ہوگا اور سورج کی شعاعوں کو بجلی میں بدل کر یہ توانائی واپس زمین پر بیم کی شکل منتقل کرے گا۔ چین کو توقع ہے کہ اگر چینی اسپیس ایجنسی اس کے لیے درکار ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس منصوبے کو 2030 تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی بدولت ہر وقت بجلی کی سپلائی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
اس ٹیکنالوجی کی آزمائش 2021 سے 2025 کے درمیان کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد ایک میگاواٹ سولر پاور اسٹیشن 2030 تک خلا میں بھیجے جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت مستقبل میں زیادہ بڑے اور موثر پاور اسٹیشنز کو بھی خلا میں منتقل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے تجرباتی بیس کو چین کے شہر چونگ چنگ میں تیار کر لیا گیا ہے۔ چین کا یہ مجوزہ پاور اسٹیشن 36 ہزار کلومیٹر بلندی پر زمین کی مدار میں موجود ہو گا، جس سے پہلے چینی سائنسدان چھوٹے پاور اسٹیشن تعمیر کر کے خلا میں بھیجیں گے۔ چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے 99 فیصد تک بجلی کی فراہمی وقت پر ہو گی جبکہ یہ ماحول دوست بھی ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت سولر انرجی کو خلا میں پہلے بجلی میں منتقل کیا جائے گا جس کے بعد مائیکرو ویو یا لیزر کی شکل میں زمین پر بیم کیا جائے گا جہاں گرڈ اسٹیشن اسے موصول کرے گا۔
سائنس فکشن ناول جیسا یہ منصوبہ نیا نہیں، جاپان اس بارے میں ایک دہائی قبل بات کر چکا ہے جبکہ امریکا میں بھی گزشتہ سال اس طرح کے منصوبے پر بات کی گئی۔ چین اس وقت خلائی منصوبوں پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے والا ملک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 8 ارب ڈالرز سالانہ بجٹ مختص کیا ہوا ہے تاکہ اس معاملے میں روس اور امریکا کو پیچھے چھوڑا جا سکے۔ چین دنیا کا پہلا ملک بننا چاہتا ہے جو چاند پر ایک بیس قائم کرنے میں کامیاب ہو گا اور اس کے لیے وہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد لے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
↧
دہشت گردی کا کوئی ملک نہیں ہوتا
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے علاقے میں انڈیا سیکیورٹی فورسز پر حملے کے بارے میں انڈیا کے صوبہ پنجاب کے سیاستدان اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے بیان پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا اور اس کی پاداش میں ایک ٹی وی چینل نے انھیں ایک کامیڈی شو سے بھی علیحدہ کر دیا ہے۔
پلوامہ کے علاقے میں ہونے والے شدت پسند حملے کے بعد سدھو نے کہا کہ کیا مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے کسی ملک کو یا کسی ایک شخص کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس حملے کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کے لیے ذمہ دار لوگوں کو سزا ملنی چاہیے، گالیاں دینے سے کچھ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی کا کوئی ملک نہیں ہوتا، شدت پسندوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی ذات نہیں ہوتی۔‘ سدھو کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ یعنی لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ لوگ ان کے بیان کی مخالفت کرنے کے علاوہ ٹی وی چینل سونی سے سدھو کو ان کے شو سے نکالے جانے کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں سے نوجوت سنگھ سدھو ٹی وی شو کامیڈی نائٹز ود کپل میں بطور مہمان شامل ہوتے ہیں۔ ٹوئٹر پر میورک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سونی ٹی وی سدھو کو اپنے شو سے ہٹاؤ ورنہ ہم تمہیں بلاک کر دیں گے۔‘ گیریش ایس نے ٹوئیٹ کیا کہ ’نوجوت سنگھ سدھو کو شو سے ہٹائے جانے تک کسی کو کپل شرما کا شو نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
↧