Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

امریکہ کا وسیع علاقہ شدید ترین سردی کی زد میں

$
0
0

امریکہ کا وسیع علاقہ شدید ترین سردی کی لپیٹ میں ہے، اتنی شدید کہ آندھی کا جھونکا ’’منٹوں میں فروسٹ بائیٹ‘‘ کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زائد امریکی متاثر ہیں، جب کہ علاقائی ریل سروس، دفاتر اور اسکولوں کے شڈول منسوخ کر دیے گئے ہیں، یہاں تک کہ ٹیلی ویژن اور اسٹیج شوز کی پراڈکشن بند کر دی گئی ہے۔ ’نیشنل ویدر سروس‘ نے بتایا ہے کہ دو کروڑ 50 لاکھ سے زائد امریکی متاثر ہوئے ہیں۔ امریکہ کا شمال مشرقی علاقہ جسے ’نیو انگلینڈ‘ کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی وسط مغرب کا علاقہ، جس میں وسکانسن، منی سوٹا، الی نوائے اور مشی گن کی ریاستیں آجاتی ہیں، وہاں ’فروسٹ بائیٹ‘ کا خطرہ لاحق ہے۔ لوگ گھروں تک محدود ہو گئے ہیں۔

ماہرین موسمیات نے بتایا ہے کہ شدید سردی کا نظام نیویارک سے فلاڈیلفیا میں داخل ہو چکا ہے، جس سے وسیع مشرقی ساحلی علاقہ متاثر ہو گا۔ شکاگو میں ’ایم ٹریک‘ ریل سروس منسوخ کر دی گئی ہے، یہاں تک کہ متعدد علاقوں میں وفاقی پوسٹ کے نظام کی تقسیم بند ہو گئی ہے، جس ادارے کا نعرہ یہی ہے کہ ڈاک کی تقسیم کسی بھی موسم میں نہیں رکتی۔ کچھ شہروں میں بس سروس منسوخ کر دی گئی ہے، چونکہ سردی کے نتیجے میں تکنیکی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ الی نوائے، مشی گن اور وسکونسن کے گورنروں نے ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا ہے۔ 

آندھی کے اثر کے بعد  نارتھ ڈکوٹا اور منی سوٹا میں درجہ حرارت منفی 32 اور منفی 52  ڈگری سیلشئس پر تھا۔ منی پولس میں درجہ حرارت 25 منفی ڈگری سیلشئس تھا۔ شکاگو شہر، جو شدید ترین موسم سرما کے لیے مشہور ہے، پیش گوئی کے مطابق درجہ حرارت ریکارڈ 32.8 منفی سیلشئس تک پہنچ جائے گا ۔  وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق، شکاگو کے میئر راہم امانوئیل نے شدید موسم کو ’’انسانی زندگی کے لیے خطرناک‘‘ قرار دیا ہے۔ بے گھر لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر گرم شیلٹر فراہم کرنے کے لیے نرسوں کو ٹرانزٹ بسوں میں شہر کے مختلف حصوں کی جانب روانہ کیا گیا ہے۔ 

اب تک کم از کم چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 منٹ غیر محفوظ رہنے سے’ فروسٹ بائیٹ‘ ہو سکتا ہے۔ سرد ہوا وسط مغرب سے مشرقی ساحل کی جانب پھیل چکی ہے، جو جنوب میں فلوریڈا کے کچھ حصوں تک پہنچ جائے گی۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ’پولر ورٹیکس‘ کے موسمیاتی بگاڑ کے نتیجے میں قطب شمالی کے اوپر موجود سرد درجہ حرارت کے اثرات جنوب کی جانب رخ کرتے ہوئے شمالی امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لارہے ہیں، جس کا ایک سبب شمالی افریقہ کے ریگستان کے گرم بخارات ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


کون سا ملک کتنا بدعنوان ہے؟

$
0
0

بدعنوانی سے متعلق نئی سالانہ عالمی رپورٹ کے مطابق ہنگری اور ترکی جیسے ممالک میں کرپشن بڑھی ہے جبکہ امریکا بھی دنیا کے بیس ’شفاف ترین‘ ممالک کی فہرست سے خارج ہو گیا ہے۔ پاکستان کی پوزیشن میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں دنیا کے دو تہائی ممالک نے ایک سو میں سے پچاس سے بھی کم پوائنٹس حاصل کیے ہیں۔ ایک سو نمبر حاصل کرنے والے ملک کو ’شفاف ترین‘ اور صفر نمبر حاصل کرنے والے ملک کو ’بدعنوان ترین‘ ملک کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کرپشن سے متعلق جاری کی گئی اس تازہ رپورٹ میں امریکا کو 71 پوائنٹس ملے ہیں اور یہ چار درجے مزید نیچے چلا گیا ہے۔ سن دو ہزار گیارہ کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکا کرپشن سے صاف پہلے بیس ممالک کی فہرست سے بھی خارج ہو گیا ہے۔

کرپشن کے حوالے سے ڈنمارک کو دنیا کا شفاف ترین ملک قرار دیا گیا ہے اور اس کا مجموعی اسکور 88 ہے۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ، فن لینڈ، سنگاپور، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ کے نمبر آتے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے شفاف ممالک کے ٹاپ گروپ میں ناروے، ہالینڈ، کینیڈا، لکسمبرگ، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
دنیا کا بدعنوان ترین ملک صومالیہ کو قرار دیا گیا ہے اور اس کا مجموعی اسکور 10 ہے۔ اس کے بعد بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شام، جنوبی سوڈان، یمن، شمالی کوریا، سوڈان، گنی بساؤ، افغانستان اور لیبیا کے نام آتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی کے حوالے سے کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے۔ 

اس تازہ فہرست میں پاکستان کو ایک سو میں سے 33 پوائنٹس ملے ہیں۔ گزشتہ برس پاکستان کو 32 پوائنٹس حاصل ہوئے تھے۔ ایک سو اسی ممالک کے اس فہرست پر اگر تفصیلی نگاہ ڈالی جائے تو پاکستان کی پوزیشن میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ اس رپورٹ کے مطابق مضبوط جمہوریت اور بدعنوانی میں کمی کا براہ راست تعلق موجود ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت مضبوط ہے، ان ممالک کو اوسطاﹰ 75 پوائنٹ ملے ہیں۔ اسی طرح کمزور جمہوری ممالک میں کرپشن زیادہ ہے اور ایسے ممالک کا اوسطاﹰ اسکور 49 ہے۔ اس تنظیم نے آمرانہ حکومتوں کو اوسطاﹰ 30 پوائنٹس دیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں ہنگری آٹھ اور ترکی نو پوائنٹس نیچے گرا ہے۔ یورپی ملک ہنگری کو 46 جبکہ ترکی کو 41 پوائنٹ حاصل ہوئے ہیں۔

بشکریہ DW اردو

 

کیا طالبان کو ٹرمپ کی سنجیدگی کا یقین ہے ؟

$
0
0

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلا میں سنجیدہ ہیں، طالبان افغانستان کے مختلف سیاسی حلقوں کیساتھ بات چیت کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرینگے۔ واٹس ایپ کے ذریعے نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات پر امریکی صدر کی فوجی انخلا کی خواہش نمایاں دکھائی دی، اصولی فریم ورک پر اتفاق ہو چکا ہے، اس پر عملدرآمد میں اگر امریکہ نے دیانتدارانہ اقدامات کئے تو امید ہے کہ افغانستان پر امریکی قبضہ ختم ہو جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا اولین ہدف غیر ملکی فوج کا انخلا ہے ، دوسرا ہدف اسلامی نظام کا نفاذ ہے ، تاہم اس ہدف کو تمام سیاسی حلقوں کیساتھ مذاکرات کے ذریعے حاصل کیا جائیگا، ان میں حملہ آوروں کا ساتھ دینے والے بھی شامل ہیں۔

ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اگر کابل کی جمہوری حکومت راستے میں حائل نہ ہوئی تو جنگ اور محاذ آرائی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اقتدار پر اپنی اجارہ داری کے خواہاں نہیں، تمام سیاسی حلقے افغان حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ان کا نظام، شوریٰ کے اصول کی بنیاد پر ہو گا، جس میں فیصلے مذہبی سکالر جبکہ عوام کے نمائندے اور ماہرین ان کی معاونت کرینگے۔ انہیں اس نظام کے نفاذ کی 100 فیصد امید ہے۔ امریکہ کیساتھ مذاکرات کا اگلا راؤنڈ دوحہ میں ہو گا۔ ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے، تاہم تاریخ کی توثیق نہیں کی۔
 

Why and when Google plans to shut down its Google Plus service

$
0
0

Google is reportedly shutting down its Google Plus Service in April 2019. Citing The Mercury News, The Hill reported that the service is being shut down on April 2 due to  security concerns.  It said the closure of Google Plus comes six months after the Internet giant said it would expedite the shut down process. The Hill said it approached Google for comments and it has yet to receive an answer. The report further said the service was scheduled to be closed in August, but Google announced that a vulnerability affecting millions of users forced it to expedite the process. “No third party compromised our systems, and we have no evidence that the app developers that inadvertently had this access for six days were aware of it or misused it in any way,” Google’s vice president of product management David Thacker was reported by The Hill to have written on the software bug last year,".

دو ہزار برس میں تعمیر ہونے والی دیوارَ چین

$
0
0

عظیم دیوارِ چین کی تعمیر دو ہزار سال میں ہوئی۔ اس دیوار کے اولین حصے آٹھویں اور پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیان تعمیر ہوئے۔ دیوار کے یہ حصے تلواروں اور نیزوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی مزاحمت کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ 221 قبل مسیح میں جب چنگ سلسلۂ شاہی کے بادشاہ چنگ شی ہوانگ نے متحدہ چین کی بنیاد رکھی تو دیوار کے کچھ حصوں کو گرا دیا گیا۔ پھر دیوار کو شمالی سرحد کی جانب موڑا گیا تاکہ شمال سے حملہ کرنے والوں کو روکا جا سکے۔ دیوار کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے مواد کو لانے میں دشواری کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ مقامی وسائل پر انحصار کیا گیا۔ اس لیے پہاڑوں میں دیوار پتھروں سے بنائی گئی جبکہ میدانوں میں مٹی کو استعمال کیا گیا۔ بعد ازاں آنے والے شاہی سلسلوں نے اس کی مرمت وغیرہ کا کام جاری رکھا۔ 

مینگ سلسلۂ شاہی (1368-1644ئ) میں اس عظیم دیوار پر دوبارہ بھرپور توجہ دی گئی اور اس میں بہتری لائی گئی۔ دیوار پر اندازاً 25 ہزار پہروں کی برجیاں قائم کی گئیں۔ دیوار چین دیواروں کا ایک سلسلہ ہے، یہ ایک مسلسل دیوار نہیں۔ اس دیوار میں جہاں پتھر، اینٹیں اور لکڑی استعمال ہوئی وہیں حیران کن طور پر چاولوں کا آٹا بھی برتا گیا۔ دیوارِ چین انسانوں کا تعمیر کردہ سب سے طویل ڈھانچہ ہے۔ چین کے سرکاری ادارے کے مطابق عظیم دیوار چین کی لمبائی 13170 میل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی آنکھ دور خلا سے دیوار چین کو دیکھ سکتی ہے۔ یہ سچ نہیں۔ یہ بات دو صدیاں قبل عام ہوئی اور اس وقت تک انسان نے خلا میں قدم نہیں رکھا تھا۔

اس کا ذکر سب سے پہلے ولیم سٹوکیلے کی 1754ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’فیملی میمائرز‘‘ میں ہوا۔ اس کے بعد دوسروں نے اس کی نقالی کی۔ چاند پر قدم رکھنے والے کسی خلاباز نے یہ نہیں کہا کہ اس نے چاند سے دیوار چین کو دیکھا تاہم کم بلندی سے کچھ خلابازوں نے اسے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دیوار کو سب سے بڑا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف چنگ سلسلۂ شاہی کے دوران اسے تعمیر کرتے ہوئے دس لاکھ افراد کی جان گئی۔ ماہرآثاریات کو دیوار کے کچھ حصوں سے انسانی ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ چونکہ یہ کام بہت خطرناک تھا اس لیے مجرموں کو بڑی تعداد میں یہاں بھیجا جاتا تھا۔ اتنی طویل اور مضبوط دیوار تعمیر کرنے کے باوجود متعدد مواقع پر حملہ آور اسے عبور کر نے میں کامیاب ہوئے۔

محمد ریاض


امریکہ کا روس سے ایٹمی ہتھیاروں کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان

$
0
0

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکا نے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورس ٹریٹی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے روس کو کافی وقت دیا تاہم روس کئی سالوں سے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے روس کو معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے لیے 180 دن کی مہلت دی گئی ہے، عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں امریکا روس کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ختم کر دے گا۔ 

روس اور امریکا کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کیلئے 1987ء میں معاہدہ ہوا تھا۔ امریکا اور سابق سویت یونین نے درمیانی فاصلے سے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں میں کمی کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی معاہدوں سے امریکا کو باہر نکالنے کی پالیسی کے تحت روس پر آئی این ایف معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور روس دونوں کو یورپ میں درمیانی فاصلے سے مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تنصیب سے منع کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک اہم بیان میں کہا تھا کہ انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورس ٹریٹی (آئی این ایف) معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کی صورت میں ان کا ملک اپنے دفاع کے لئے پوری طرح آمادہ ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن آئی این ایف معاہدے سے نکل گیا تو ماسکو اپنی سلامتی کے دفاع کیلئے لازمی اقدامات عمل میں لائے گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ آئندہ سال کے دوران ملک کی جوہری طاقت میں اضافہ کرنا روسی افواج کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔

امریکہ نے فلسطینیوں کی تمام امداد روک دی

$
0
0

امریکہ نے مقبوضہ غزہ اورغرب اردن میں فلسطینیوں کی تمام تر امداد روکنے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ اقدام انسداد دہشت گردی کے نئے قانون سے منسلک ہے۔
فلسطینی سکیورٹی سروسز کے لیے دیا جانے والا سالانہ چھ کروڑ ڈالرز کا فنڈ اب ختم کر دیا گیا ہے۔ جہاں اسرائیل پہلے ہی فلسطینیوں کے لیے کچھ امریکی امداد روکے جانے پر اس کی حمایت کر چکا ہے، وہیں بعض حکام نے اس نئے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں غرب اردن میں فلسطینیوں کا اسرائیلی فورسز کے ساتھ تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس تعاون سے غرب اردن میں امن قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اینٹی ٹیررازم کلیریفیکیشن ایکٹ (اے ٹی سی اے) گذشتہ سال کانگریس کی جانب سے منظور کیا گیا اور پھر اسے صدر ٹرمپ کے دستخط سے قانون بنا دیا گیا تھا، اب اسے لاگو کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے امریکی شہری ان عناصر کے خلاف امریکی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو امریکی امداد بھی لیتے ہیں اور ان پر ’جنگی امور‘ میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔
فلسطینی اہلکار صائب اراکات نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) نے عدالتی کاروائی کے ڈر سے امریکی محکمہ خارجہ کو خط لکھ کر یہ گزارش کی ہے کہ کے وہ اپنی امداد بند کر دیں۔ 

پی اے نے عسکریت پسندوں کو حملے کرنے پر اشتعال دلانے کے اسرائیلی الزام کو مکمل طور پر مسترد کیا۔ ایراکات نے کہا: ’ہم کسی چیز کی تلاش میں نہیں ہیں، امریکہ نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے لیکن ہم خطے میں دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت فلسطینی حدود میں کام کرنے والے تین بینکوں کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں بھی فلسطینی حملوں میں متاثر ہونے والے امریکیوں نے متعدد بار پی اے اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا تاہم یہ کوششیں قانونی دائرہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے مطابق امریکی امداد رکنے سے ان کے سیکیورٹی اداروں کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ غزہ اورغرب اردن میں یو ایس ایڈ کی تمام امداد بند ہو چکی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کے یہ بندش کب تک جاری رہے گی۔
تاہم ایک فلسطینی اہلکار نے یہ بتایا کہ اس وقت فلسطینی حدود میں یو ایس ایڈ مشن کو بند کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے جا رہے اور مستقبل میں یوروشلم میں امریکی سفارت خانے میں تعیناتیوں سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ۔  گزشتہ سال امریکہ نے کروڑوں ڈالر کی فلسطینی امداد روک دی تھی۔ اس میں یو ایس ایڈ کی معاونت میں دی جانے والی صحت، تعلیم اور تعمیراتی پراجیکٹس کی امداد بھی شامل تھی۔

رائے عامہ کے مطابق ان اقدامات کا مقصد فلسطین کو اسرائیل کے ساتھ امن مزاکرات اور امریکہ کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنے پر دباؤ دینے کا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین کی امداد کے لیے بنائی گئی خصوصی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے ( UNRWA) کی امریکی فنڈنگ بھی بند کر دی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ اس کا سب سے بڑا ڈونر تھا۔ سال 2017 میں امریکہ نے یو این آر ڈبلیو اے کو 3 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر سے زیادہ امداد دی تھی۔
حال ہی میں فلسطینی طالب علموں کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے وظیفے بھی معطل کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے کئی فلسطینی اور غیر امریکی ملازم بے روزگار ہو چکے ہیں۔

رواں ہفتے برطرف ہونے والے ایک فلسطینی جو کہ یو ایس ایڈ کی معاونت سے چلنے والے امن و امان کے پروجیکٹ میں کام کرتے تھے نے یہ کہا کہ: ’ہمارا کام بہت اہم تھا اور ہم نے گہرا اثر چوڑا لیکن اب ہم بہت سارے پروجیکٹس ادھورے چھوڑ رہے ہیں۔ ’ہم فلسطینی پولیس اور پروسیکیوٹرز کی صلاحیت بڑھانے میں بہت مدد کر رہے تھے۔ ہم ان کی روزمرہ کے کاموں اور تحقیقات میں مدد کر رہے تھے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے۔‘ 1933 کے اوسلو امن معاہدے کے بعد جب پی اے بنی تھی تب سے امریکہ پیشہ ورانہ فلسطینی سکیورٹی سروسز بنانے کی حمایت کر رہا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

جب امریکا میں منفی 50 ڈگری کی سردی محسوس ہونے لگی

$
0
0

امریکا کی شمالی اور مشرقی ریاستوں میں سردی کی شدید لہر جاری ہے اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے منفی 50 ڈگری کی سردی محسوس ہو رہی ہے۔ امریکا کی 32 ریاستیں ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں جہاں رواں ہفتے کے آغاز سے لے کر اب تک 5 ہزار سے زائد پروازیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔


واشنگٹن میں تاہم یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے درجہ حرارت منفی 50 ڈگری محسوس کیا جارہا ہے۔ برفباری اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے متاثرہ ریاستوں میں تعلیمی ادارے بند ہیں، جبکہ پوسٹل سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ شکاگو میں ٹرینوں کی آمدورفت بحال رکھنے کے لیے پٹریوں پر آگ لگائی گئی جبکہ شدید برفباری کے باعث اب تک 2 سو سے زائد ٹریفک حادثات پیش آچکے ہیں۔ حکام نے مزید برفباری اور درجہ حرارت میں مزید کمی سے خبردار کرتے ہوئے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔









وینزویلا میں امریکی فوجیں بھیجنے پر غور ہو رہا ہے، صدر ٹرمپ

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا میں جاری بحران سے نمٹنے کیلئے فوجی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ امریکہ اور متعدد مغربی ممالک وینزویلا کے سوشلسٹ صدر نکولس مڈورو سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم وینزویلا کے اتحادی ملک روس نے خبردار کیا ہے کہ وینزویلا کے داخلی معاملات میں مداخلت کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ امریکہ، کینڈا اور متعدد لاطینی امریکہ کے ملکوں نے گزشتہ سال وینزویلا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں نکولس مڈورو کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں حذب اختلاف کے لیڈر اور وینزویلا کی پارلیمان کے سربراہ ہوئین گوائیڈو کی حمایت کا اعلان کیا تھا جنہوں نے صدارتی انتخاب کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے خود عبوری صدر ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے نیوز چینل ’’سی بی ایس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وینزویلا میں فوجی کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مڈورو نے کئی ماہ قبل اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم اُنہوں نے ملاقات کے امکان کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ وینزویلا میں جاری بحران کے حوالے سے اُن کی پالیسی اور امریکہ کے مؤقف میں وسیع اختلاف موجود ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے تیل سے مالا مال اس ملک کی سرکاری آئل کمپنی PDVSA پر اقتصادی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جو ملک کیلئے آمدنی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ویزویلا ان دنوں ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے۔

مڈورو کے دور میں وینزویلا معاشی بحران سے دوچار رہا ہے اور ہزاروں شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ تاہم مڈورو کو روس، چین اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی فوج بھی اُن کا مکمل ساتھ دے رہی ہے۔ روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ وینزویلا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دیگر ملکوں کو اندرونی معاملات میں مداخلت کے بجائے ویزویلا کی مدد کرنی چاہئیے تاکہ وہ بحران سے باہر نکل سکے۔ اُدھر فرانس اور آسٹریا نے بھی کہا ہے کہ اگر مڈورو یورپین یونین کی طرف سے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے انعقاد کے سلسلے میں یورپین یونین کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیتے تو وہ حذب اختلاف کے لیڈر ہوئین گوائیڈو کی حمایت پر مجبور ہو جائیں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے 320 ملازمین کینسر میں مبتلا

$
0
0

جنوبی فلسطین کے جزیرہ نما النقب میں قائم اسرائیل کے دیمونا ایٹمی پلانٹ میں کام کرنے والے 320 سائنسدان اور ملازم کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دیمونا ایٹمی پلانٹ میں کام کرنے والے ملازمین اور سائنسدان کینسر کا شکار ہونے کے بعد اپنے حقوق اور علاج کے لیے عدالتوں میں جا پہنچے ہیں۔ عدالتوں میں ابھی تک ایسے صرف 20 کیسز پر بحث کی گئی ہے۔
ستمبر 2017 کو اسرائیلی حکومت نے زوھار نامی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ذمہ ایٹمی پروگرام سے وابستہ صہیونیوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کی تحقیقات کرنا اور ان کی شکایات کا ازالہ کرنا تھا۔

ریڈیو رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 40 سال سے ایٹمی پروگرام سے منسلک ایسے درجنوں مرد اور خواتین کو کینسر لاحق ہو چکا ہے تاہم ان کے علاج معالجے کے لئے صرف 20 کیسوں کیلئے علاج کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
ایٹمی تابکاری سے دیگر متاثرہ یہودیوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے لا پرواہی برتنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے امریکی سائنسی، تکنیکی اور معاشی امداد ملنے پر ایٹمی صلاحیت حاصل کر رکھی ہے اور غیر اعلانیہ طور پر ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دن بھر کیا کرتے ہیں ؟

$
0
0

امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص قرار دیا جاتا ہے اور یہ عہدہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے تو وہ پورا دن کس طرح گزارتے ہیں ؟۔ ایک سپر پاور کے سربراہ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ اس کی زندگی بہت زیادہ مصروف ہوتی ہو گی اور سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی ہو گی مگر یہاں بات ڈونلڈ ٹرمپ کی ہو رہی ہے ۔ اور ان کے لیک ہونے والے روزانہ کے شیڈول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دن کا اکثر وقت ’ایگزیکٹو ٹائم‘ میں گزارتے ہیں اور اس دوران ان کی مصروفیات ٹیلی ویژن، ٹوئٹ کرنا اور لوگوں سے فون پر گپیں لڑانا ہے۔

امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک کمپنی ایکسیوس کی جانب سے لیک کردہ دستاویزات سے امریکی صدر کی گزشتہ 3 ماہ نومبر سے جنوری تک کی مصروفیات کا انکشاف کیا ہے۔ امریکی صدر اپنے وقت کا بڑا حصہ مجموعی طور پر 60 فیصد بہت نجی ’ایگزیکٹو ٹائم‘ کے طور پر گزارتے ہیں اور اس دوران ان کی مصروفیات کا احوال تو اوپر درج ہو چکا ہے۔ 6 نومبر سے یکم فروری تک امریکی صدر نے 502 گھنٹوں میں سے 297 گھنٹے 15 منٹ اپنی من پسند سرگرمیوں میں گزارے۔



مودی کی مضحکہ خیز حرکت پر سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا

$
0
0

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر کے دورے پر منہ کی کھانا پڑی ان کی حرکت پر سوشل میڈیا میں مذاق بن گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی کے دورے کے موقع پر کشمیریوں نے یوم احتجاج منایا، مودی سری نگر کی ڈل جھیل کی سیر کو نکلے تو وہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات، مودی خالی پہاڑوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔  بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس مضحکہ خیز حرکت پر سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا اور ان پر خوب تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے کہا کہ مودی نے برف پوش پہاڑوں اور آبی حیات کو ہی شاید اپنا مداح سمجھ لیا،جنہیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔  کسی نے لکھا کہ مودی جی کے استقبال کو کوئی نہیں آیا، مودی جی شرمندگی مٹانے کے لیے ہاتھ ہلاتے رہے۔

گولڈن گیٹ بریج : خودکشی کا پل

$
0
0

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں واقع مشہور پل ’’گولڈن گیٹ بریج‘‘ کو دنیا کا سب سے لمبا پل ہونے کے ساتھ ساتھ خودکشی کا سب سے مقبول مقام ہونے کا ’’ اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے۔ دنیا کے کسی مقام پر بھی سالانہ اتنے زیادہ لوگ خودکشی نہیں کرتے، جتنا کہ اس پل سے سمندر میں چھلانگ لگا کر امریکی باشندے زندگی سے جان چھڑاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ 40 سے زائد افراد اس 746 فٹ اونچے پل سے سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ اس لیے اب اسے ’’خودکشی کا پل‘‘ اور ’’موت کا پل‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے۔ 

پہلے دنیا میں خودکشی کے لئے ’’مشہور‘‘ مقامات میں سرفہرست چین میں واقع پل (Nanjing Yangtze River Bridge) تھا۔ جبکہ گولڈن گیٹ کو دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتا تھا۔ تا ہم اب یہ سرفہرست آ گیا ہے، جہاں ایک برس میں 46 افراد نے خودکشی کی، جبکہ 118 افراد کو چھلانگ لگانے کے بعد بھی بچا لیا گیا۔ خود کشی کی غرض سے آنے والے وہ افراد اس کے علاوہ ہیں جنہیں پولیس نے بروقت کارروائی کر کے چھلانگ لگانے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا۔ گولڈن گیٹ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کی خلیج کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے، جو سان فرانسسکو کو سوسالیٹو سے ملاتا ہے۔ 

یہ دنیا کا لمبا ترین پل بھی ہے۔ اس کی تعمیر 5 جنوری 1933ء میں شروع ہو کر 19 اپریل 1937ء کو مکمل ہوئی تھی۔ پل کی لمبائی 8981 فٹ ( 2737 میٹر) ہے جبکہ بلندی 746 فٹ ( 227 میٹر) ہے۔ اس پل پر سرخ اور نارنجی رنگ استعمال کیا گیا، اس لیے اسے ’’گولڈن بریج‘‘ کہا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جب سے گولڈن گیٹ بریج تعمیر ہوا ہے، اس وقت سے زندگی سے تنگ امریکیوں نے خودکشی کے لیے اسے ’’بہترین مقام‘‘ کے طور پر پسند کر لیا ہے تا ہم ابتدا میں یہاں سے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والوں کے باقاعدہ اعداد و شمار جمع نہیں کی جاتے تھے۔ اب یہ کام ہونے لگا ہے۔ سب سے پہلے اس پل سے خودکشی کا خیال ووبر ہارولڈ نامی ایک 47 سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم کے دل میں آیا تھا، اس نے افتتاح کے صرف 3 ماہ بعد یہاں سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔ 

اس کے بعد اس پل سے چھلانگ لگانا خودکشی کا آسان ترین طریقہ سمجھا جانے لگا۔ 1995ء سے حکام اس پل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والوں کا باقاعدہ اعدادو شمار کرتے ہیں۔ سرکاری طور پر جمع کردہ اعداد و شمار کے اخبارات میں شائع ہونے سے یہاں خودکشی کرنے والوں کا ہر وقت رش رہنے لگا۔ دور دراز سے خودکشی کے خواہشمند افراد اس پل کا رخ کرنے لگے تو حکام نے 1997ء میں دو سال تک خودکشیوں کے اعداد و شمار جمع کرنے اور انہیں اخبارات میں شائع کرنے سے منع کر دیا۔ تا ہم حکام کی جانب سے چھپانے کے باوجود امریکا بھر میں اس پل کو خودکشی کے لیے مقبول ترین مقام ہونے کی شہرت حاصل ہو چکی ہے اور سمندر میں چھلانگ لگانے کا سلسلہ ہر گزرتے برس کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔  

طاہر رشید
 

انسانی خون کے بارے میں دلچسب حقائق

$
0
0

اگر انسانی خون کے ایک قطرے کو خردبین سے دیکھا جائے تو اس میں بے شمار چپٹے جسیمے یا خلیے ہلکے پیلے سیال مادہ میں، جسے پلازما کہتے ہیں، تیرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ 55 فیصد خون پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلازما زیادہ تر پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں انزائمز، معدنی نمکیات اور دیگر اجزا ہوتے ہیں۔ پلازما میں سرخ اور سفید خون کے خلیے اور پلیٹلٹس ہوتے ہیں۔ سرخ خلیے انسانوں میں گول، پرندوں میں بیضوی اور حیوانوں میں مخروطی شکل کے ہوتے ہیں۔ ہاتھوں اور ٹانگوں کی لمبی ہڈیوں کے گودے میں سرخ خلیے بنتے ہیں۔ ایک صحت مند انسان کے ایک مربع انچ خون میں 55 لاکھ سرخ خلیے ہوتے ہیں۔ سرخ خلیوں میں ایک رنگ دار مادہ ہوتا ہے جو ہیموگلوبن کہلاتا ہے۔ اس رنگ دار مادے کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ آکسیجن کو فوراً جذب اور خارج کرتا ہے۔ 

اسی وجہ سے سرخ خلیے پھیپھڑوں کی ہوا میں سے آکسیجن لے کر جسم کے تمام حصوں کو پہنچاتے ہیں۔ ایک ہزار سرخ خلیوں کے مقابلے میں ایک سفید خلیہ ہوتا ہے۔ مگر سفید خلیے جسامت کے اعتبار سے سرخ خلیوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی شکل تبدیل کر سکتے ہیں اور امیبا کی طرح ایک سے دو اور دو سے چار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بیماریوں کے جراثیم اور دیگر زہریلے مادوں کو اپنے اندر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جب کسی بیماری کے جراثیم خون میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خون میں بیماری کے جراثیم داخل ہونے پر خون میں سفید خلیوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ 

خون کی شریانوں کی دیواروں میں لچکدار بافتیں ہوتی ہیں۔ یہ شریانیں دوران خون میں بڑا کام کرتی ہیں۔ شریانوں میں ہر وقت خون بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے شریانوں کی دیواروں پر دباؤ پڑتا رہتا ہے۔ یہ دباؤ خون کا دباؤ کہلاتا ہے۔ جب دل سکڑتا ہے تو اس حالت کو systole کہتے ہیں اور جب دل پھیلتا ہے تو یہ حالت Diastole کہلاتی ہے۔ خون کا دباؤ ان دونوں حالتوں میں مختلف ہوتا ہے۔ نارمل بالغ آدمی کے خون کا دباؤ دل کے پھیلنے کی حالت میں 120 ملی میٹر اور سکڑنے کی حالت میں 80 ملی میٹر ہوتا ہے۔

محمد قاسم

بھارت میں خاکروبوں کی نوکریاں، متعدد انجینیئرز اور گریجویٹس امیدوار

$
0
0

بھارت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صفائی کی ملازمت کا اشتہار شائع ہوتے ہی انجینئرنگ سمیت بہت سے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نے اس کیلئے درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں خاکروبوں کی 14 آسامیوں کے لئے اشتہار شائع دیا گیا تو اس کے جواب میں 4600 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ درخواست دینے والوں میں بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کی ہے جن میں انجینئرنگ گریجویٹس، ایم بی اے، کامرس، آرٹس اور سائنس میں ڈگری اور ڈپلوما رکھنے والے کی ہے۔

تاہم دھیان رہے کہ خاکروب کے اس عہدہ کے لئے لازمی صلاحیت امیدوار کا صرف صحت مند ہونا ہے اور کسی تعلیمی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے۔ اںڈیا میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب خاکروب کی نوکری کے خواہشمندوں میں اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل پچھلے دنوں اترپردیش میں چپڑاسی کے 62 عہدوں کے لئے 93 ہزار اور مہاراشٹر اسمبلی کی سکریٹریٹ کی کینٹین میں 13 ویٹرز کے لئے 7 ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ اِن میں ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے بھی شامل تھے۔



امریکہ جانے والے بین الاقوامی طلبہ میں کمی، 42 ارب ڈالر کا نقصان

$
0
0

امریکہ میں حال ہی میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبا اور طالبات کے اندارج میں سات فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غیر ملکی طلباء اور طالبات کے داخلوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس وجہ سے گزشتہ سال امریکی معیشت کو مجموعی طور پر بیالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اوکسفورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبہ کے رجحانات کے ماہر پروفیسر سمسن مارگنسن نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمی کا تعلق ٹرمپ انتظامیہ سے ہے۔

سیاسی ماحول
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن جو اس بارے میں ہر سال اعداد و شمار اکھٹا کرتے ہیں انھوں نے بیرونی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند افراد سے امریکہ میں داخلوں کے لیے درخواستیں نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو ان کی طرف سیاسی ماحول، عملی مشکلات اور اخراجات جیسی کئی وجوہات بیان کی گئیں۔ ویزا درخواستوں میں دشواریاں امریکہ میں داخلے نہ لینے کی سب سے بڑی وجہ بیان کی گئی لیکن اکثر لوگوں نے امریکہ میں سماجی اور سیاسی ماحول کے بارے پائی جانے والی تشویش کو بھی بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
تعلیمی اخراجات کا بھی اس ضمن میں ذکر کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ میں غیر موافق ماحول کے علاوہ جان کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا بھی لوگوں نے برملا اظہار کیا۔

جن ملکوں سے امریکہ جانے والے طلباء اور طالبات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ان میں انڈیا، جنوبی کوریا، میکسیکو اور سعودی عرب شامل ہیں۔ لیکن یہ رجحان مغربی ملکوں کے طلبہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امریکہ کے اتحادی ملک بھی شامل ہیں۔
جو عنصر اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ واضح ہے وہ گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا بھر سے امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اب گرنے لگا ہے۔

سافٹ پاور
دنیا بھر سے اعلی تعیلم حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کو اپنی طرف راغب کرنے میں امریکہ اب تک سب سے زیادہ کامیاب ملک رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد صرف پچاس ہزار تھی۔ اس کے بعد سے اس تعداد میں سال با سال اضافہ ہوتا رہا اور سنہ 2000 تک اس میں دس گنا اضافہ ہو گیا اور یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ سنہ 2015 میں امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس سے امریکہ کو قابل قدر مالی فائدہ بھی حاصل ہو رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو دنیا بھر میں اپنا ایک روشن چہرا پیش کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں بھی بڑی حد تک مدد حاصل ہو رہی تھی۔ امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد اس وجہ سے بھی مسلسل بڑھ رہی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد غیر ملکی طلبہ کو تین برس تک امریکہ میں رہ کر پیشہ وارانہ تجربہ اور ماہرات حاصل کرنے کا موقع بھی ایک خصوصی سکیم کے تحت میسر تھا۔

چین پر انحصار
غیر ملکی طلبہ کے اندراج میں گزشتہ دو برس میں دس فیصد کی قابل تشویش کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں تک امریکہ کی کشش اب ماند پڑ رہی ہے۔
اگر چین سے آنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہوتا تو یہ کمی اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔ اس وقت امریکہ میں چینی طلبہ کی تعداد باقی تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ سنہ 2000 سے سنہ 2018 کے درمیان چین سے امریکہ پڑھنے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے بڑھ کر تین لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی اور جن مضامین میں چینی طلبہ سب سے زیادہ داخلے لے رہے ہیں ان میں سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی اور بزنس شامل ہیں۔ ان کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر امریکہ کی معیشت میں شامل ہو رہے ہیں۔

سینٹر فار گلوبل ہائر ایجوکیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر مارگینسن نے کہا کہ اگر سفارتی اور تجارتی تنازعات حل نہیں کیے جاتے اور ان کی وجہ سے چین سے امریکہ آنے والے طلبہ کا سلسلہ رک جاتا ہے تو اس کے امریکی اعلی تعلیمی اداروں پر بڑے تباہ کن اور دو رس اثرات مرتبہ ہونے کا خدشہ ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کو داخلے دینے کے بارے میں امریکی تعلیمی اداروں کا مغربی ملکوں کی بجائے مشرقی ملکوں پر کس قدر زیادہ انحصار ہے۔ چین اور انڈیا دو ایسے ملک ہیں جن کی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور میں امریکہ میں پڑھنے والوں برطانیوں کے مقابلے میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یورپ کے تمام ملکوں کی بنسبت برطانیہ سے سب سے زیادہ نوجوانوں پڑھنے کے لیے امریکہ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ میں غیر ملکی طلبہ میں برطانوی طلبہ کی شرح ایک فیصد ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

رواں صدی کے آخر تک ہمالیہ کے دو تہائی گلیشیئرز پگھل جائیں گے

$
0
0

رواں صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے پگھل جانے کا خطرہ ہے۔ یہ بات سائنسدانوں نے اپنی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی ہے۔ نیپال میں، جہاں دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں، ملکی دارالحکومت کھٹمنڈو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے لیکن بہت طویل سائنسی مطالعے کے مطابق ہمالیہ کے وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے سن اکیس سو تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔ ساتھ ہی اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے سے متعلق پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے اہداف حاصل کر بھی لیے گئے، تو بھی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ایک تہائی گلیشیئرز ناپید ہو جائیں گے۔

پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ صرف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کو ہدف بنایا گیا ہے۔ یہ رپورٹ کھٹمنڈو میں قائم اس بین الاقوامی مرکز نے جاری کی، جو پہاڑی خطوں کی ترقی اور حفاظت کے لیے سرگرم ہے اور مختصراﹰ ICIMOD کہلاتا ہے۔ نیپال دنیا کے ان آٹھ ممالک میں سے صف اول کا ملک ہے، جسے اپنے ہاں گلیشیئرز‍ کے پگھل جانے سے شدید ترین خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نئی رپورٹ ہندوکش ہمالیہ (HKH) کے پہاڑی علاقے کے بارے میں تیار کی گئی ہے، جہاں مجموعی طور پر گلیشیئرز اتنے زیادہ اور بڑے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس خطے کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا ’تیسرا قطب‘ یا ’تھرڈ پول‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والا پانی قریبی پہاڑی علاقوں میں آباد 25 کروڑ (250 ملین) انسانوں اور مختلف ممالک میں ان پانیوں سے بننے والے دریاؤں کی وادیوں میں بسنے والے ایک ارب 65 کروڑ (1.65 بلین) انسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہی گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کے دس انتہائی اہم دریائی نظاموں کو پانی ملتا ہے، جن میں دریائے گنگا، دریائے سندھ، دریائے زرد اور دریائے میکانگ جیسے بہت طویل دریائی نظام شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریائی نظام اتنے اہم ہیں کہ مجموعی طور پر اربوں انسان اپنے لیے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدنی کی خاطر براہ راست یا بالواسطہ طور پر انہی دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس خطے میں موجود دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو بھی شامل ہیں اور ہندو کش ہمالیہ کے ان گلیشیئرز کے پگھل جانے سے اربوں انسانوں کی زندگی پر انتہائی تکلیف دہ ماحولیاتی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ رپورٹ 350 سے زائد ماہرین اور محققین نے، 185 تنظیموں اور 210 مصنفین کی مدد سے پانچ سال کے عرصے میں تیار کی، جس کا اس رپورٹ کے حتمی نتائج جاری کیے جانے سے قبل 125 غیر جانبدار مبصرین نے آزادانہ جائزہ بھی لیا.

بشکریہ DW اردو

چین کے کیمپوں میں 10 لاکھ مسلمانوں پر ترکِ مذہب کا دباؤ ہے : ہیومن رائٹس گروپ

$
0
0

انسانی حقوق کی 16 بڑی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ چین نے تقریباً 10 لاکھ ایغور نسل اور سنکیانگ کے دوسرے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر جس طرح حراستی کیمپوں میں رکھا ہے، اس کی بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئیے۔ ان تنظیموں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ ایک قرار داد منظور کرے جس کے تحت سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال معلوم کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی مشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کونسل اپنا اجلاس بعد میں اس مہینے شروع کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا۔

انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس نامی گروپ سے منسلک سارہ بروکس نے اِسے ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔ سارہ بروکس کا کہنا تھا کہ ایک ایسا مرحلہ آیا تھا، جب حیرت انگیز طور پر چینی حکومت اور جنیوا بھیجے جانے والے اس کے وفد کو، کمیٹی کے ماہرین کے سامنے حقیقی معنوں میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں سخت سوالوں کے جوابات دینے پڑے۔ چین اب یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے یغور اور دوسرے ترک نژاد مسلمانوں کو سیاسی اور پیشہ وارانہ تعلیم کے کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کین راتھ کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کا دعویٰ ہے وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے توڑ کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ اس کا یہ دعویٰ غلط ہے۔

کین راتھ کہتے ہیں کہ حراست میں رکھے جانے کی اس کاروائی کا مقصد، ترک نژاد مسلمانوں کی نسلی اور مذہبی شناختوں کو مٹانا ہے، تا کہ صرف چینی حکومت، کمیونسٹ پارٹی اور تا حیات لیڈر ژی جن پنگ کے ساتھ ان کی وفاداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں بند لوگوں کو زبردستی مخصوص سیاسی نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے یا ان پر اپنے عقائد ترک کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے، اور ان سے بار بار بدسلوکی کی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں ایذا رسانی بھی کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حراست میں لئے گئے لوگوں کو اپنے خاندانوں سے رابطہ نہیں کرنے دیا جاتا اور انہیں وکلا تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ ان کی حراست کا سلسلہ کب ختم ہو گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کوُمی نائیدو نے سکنیانگ کو ایک بیرونی قید خانے سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اعلی طرز کا مقام ہے جسے مخصوص انداز کی سیاسی اور نظریاتی تعلیم، زبردستی ثقافتی انضمام، بلا روک ٹوک گرفتاریوں اور لوگوں کو لاپتا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسلی اقلیتوں کو خود ان کی اپنی سرزمین پر اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ نائیڈو کا کہنا تھا کہ حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کو اُن بچوں کے لئے یتیم خانے کھولنے پڑے ہیں، جن کے والدین کو نظریاتی تعلیم دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود چین غیر جانبدار مبصرین کو ان علاقے تک رسائی نہیں دے رہا۔ نائیدو کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ چین کو اس کی جابرانہ کاروائیوں کے لئے جوابدہ بنایا جائے۔

ہیومن رائیٹس واچ کے کین راتھ کہتے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب بعض مسلمان ممالک کے لئے سفری پابندیوں کا اعلان کیا، تو دنیا بھر میں، برہمی کا اظہار کیا گیا، لیکن جب چین نے نامعلوم مدت کے لئے حراست کے زور پر 10 لاکھ مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کیا، تو رد عمل میں بیشتر خاموش رہے۔
کین راتھ کا کہنا ہے کہ سچ کو سامنے لانے کے لئے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک مشن کو سنکیانگ بھیجا جائے۔ انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ چین میں سنکیانگ علاقے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، جہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ یغور رہتے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

امریکا اور طالبان مذاکرات کو آگے بڑھانے میں پاکستان کا پس پردہ اہم کردار

$
0
0

امریکی حکام اور طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پس پردہ رہتے ہوئے امریکا کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے، جس میں مذاکرات کے لیے سفری معاونت بھی شامل ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستانی تعاون کی تفصیلات اس طرح پہلے واضح نہیں ہوئیں، جس میں عسکریت پسندوں کے اہل خانہ کے افراد کو حراست میں لینا بھی شامل تھا اور ان طالبان رہنماؤں پر دباؤ ڈالنا بھی تھا جو تعاون کرنے میں ناکام رہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار نازک ہے، اسلام آباد طالبان پر وسیع اثر و رسوخ کی نمائش سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ واشنگٹن ایک طویل عرصے سے اس بات کا الزام لگاتا آرہا ہے اور اسی تناظر میں یہ خبردار کیا گیا ہے کہ یہ مدد عارضی ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب طالبان بھی اسلام آباد کو نظر انداز کرنے کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے امریکا کہ اس الزام کو مسترد کرتا آیا ہے کہ افغانستان میں اثر رسوخ برقرار رکھنے کے لیے باغیوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے طویل ترین تنازع سے نکلنے کا مسلسل عندیہ دے چکے ہیں جبکہ رواں ہفتے اسٹیٹ آف دی یونین سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’عظیم قومیں نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں لڑتیں‘۔ اس تمام صورتحال پر ایک سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے بارے میں کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یہ ان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا، انہوں نے دوحہ میں مذاکرات کے لیے کچھ تحریک اور سفر کی معاونت فراہم کی‘۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب افغانستان میں سیاسی حل کے لیے مذاکرات کو تیز کیا جا رہا اور گزشہ ماہ دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ 6 روزہ مذاکرات کا دور کیا، جو شاید اب تک کا سب سے کامیاب دور تھا، اس کے علاوہ ان کی طالبان نمائندوں سے ملاقات متوقع ہے۔ طالبان ذرائع کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا کردار اہم تھا، مثال کے طور پر اسلام آباد نے مذہبی رہنماؤں کے ذریعے عسکریت پسندوں کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ امریکا سے بات کریں۔ ایک طالبان رہنما نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انہوں نے دباؤ ڈالنے کے طریقے کے طور پر طالبان اراکین کے اہل خانہ کو قید کر لیا۔

طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس سے پہلے پاکستان کو اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا‘۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بات کرنے والے طالبان رہنما کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ کئی ماہ میں عسکریت پسندوں اور ان کے قریبی رشتے داروں پر ’بے مثال دباؤ‘ برقرار رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ہم (طالبان) پر واضح کیا کہ ہمیں امریکا اور افغان حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے‘۔ خیال رہے کہ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کو چلانے والے امریکی جنرل جوزف ووٹل نے بھی رواں ہفتے امریکی سینیٹ کے اجلاس میں پاکستانی معاونت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد نے ’بہت زیادہ مددگار کردار ادا کیا‘۔

پاکستان کے ذرائع کہتے ہیں کہ اس مذاکرات کے لیے ان کے ملک کی حمایت کے پیچھے مقصد امریکی امداد نہیں بلکہ علاقائی اقتصادی صورتحال پر بڑھتے ہوئے خدشات ہیں جو افغانستان سے امریکی واپسی سے یکدم ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ تحفظات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اچانک فیصلے کو مزید تقویت دیتے ہیں جو انہوں نے دسمبر میں پینٹاگون کے اعتراضات کے باوجود لیا تھا اور شام سے مکمل طور پر امریکی فوجی انخلاف کا کہا تھا۔ اگرچہ اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی افغانستان کے لیے امریکی امداد کو مسلسل گراوٹ کو یقینی بنا رہی ہے۔

ادھر اسلام آباد کو غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کا سامنا ہے اور وہ 1980 سے 13 ویں مرتبہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بات چیت کررہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں بدامنی دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اپنی معیشت بڑھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر رہا ہے۔ اس بارے میں سرحد پار تعلقات کو دیکھنے والے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’تمام معاملات میں یہ سب سے اہم ہے اور ہمارے پاس پہلے ہی بہت معاشی مسائل ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے‘۔ واضح رہے کہ مذاکرات میں مدد کے لیے پاکستانی خواہش کی سب سے قابل توجہ نشانی یہ تھی کہ انہوں نے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کو رہا کیا اور اب مذاکرات کے نومنتخب سربراہ ملا برادر کا دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے اگلے دور میں شرکت کا امکان ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

برسلز میں روس اور چین کے سینکڑوں جاسوس سرگرم، رپورٹ

$
0
0

ایک رپورٹ کے مطابق بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں روسی اور چینی جاسوسوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ برسلز ہی میں یورپی یونین اور نیٹو کے صدر دفاتر بھی قائم ہیں۔ برسلز کو ایک طرح سے یورپی یونین کا عملی دارالحکومت خیال کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں سینکڑوں روسی اور چینی جاسوسوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس تناظر میں سفارت کاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ یورپی ہیڈ کوارٹرز میں واقع مختلف مشہور ریستورانوں میں طعام و قیام سے گریز کریں۔ یہ رپورٹ ایک جرمن اخبار ’وَیلٹ اَم زونٹاگ‘ نے شائع کی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ سروس نے روسی اور چینی خفیہ ایجنٹوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ برسلز میں اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیں۔ 

یورپی خارجہ ایکشن سروس (EEAS) کا خیال ہے کہ اس وقت چین کے تقریباً ڈھائی سو اور روس کے دو سو کے قریب جاسوس برسلز میں اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان جاسوسوں کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے سفارتکاروں اور فوجی اہلکاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ برسلز شہر کے مختلف حصوں میں واقع بعض معروف اور پسندیدہ ریستورانوں، اسٹیک ہاؤسز اور کیفوں کا رخ کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ یہ ایجنٹ ان کی گفتگو سننے یا ان سے رابطے استوار کرنے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس (EEAS) کی سربراہ بھی یورپی یونین کے خارجہ امور کی خاتون نگران فیدیریکا موگرینی ہی ہیں۔

موگرینی کے مطابق یہ جاسوس مختلف مکانات میں قیام کے علاوہ اپنے اپنے ملکوں کے سفارت خانوں اور تجارتی مشنوں میں مقیم ہوتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا سلسلہ براہ راست یا رابطوں کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا تاثر بھی ہے کہ چینی اور روسی خفیہ ایجنٹوں کے علاوہ مراکشی اور امریکی ایجنٹ بھی برسلز میں اپنے نیٹ ورک قائم کیے ہوئے ہیں۔ برسلز میں جاسوسی کرنے والے ایجنٹوں کی موجودگی اب ایک کھلے راز کی طرح ہے۔ اسی شہر میں یورپی یونین کے ساتھ ساتھ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے صدر دفاتر بھی ہیں۔ اسی شہر میں سن 2003 میں یورپی کونسل کے دفاتر والی عمارت ’جسٹس لِپسیئس بلڈنگ‘ میں جاسوسی کے آلات نصب کرنے کا ایک اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا۔ اس عمارت میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اسپین کے مختلف سفارتکاروں کے دفاتر موجود ہیں۔

بشکریہ DW اردو

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>