Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

آئس لینڈ : یورپ کا سب سے کم گنجان آباد ملک

$
0
0

آئس لینڈ ایک جزیرہ اور شمال مغربی یورپ کا ملک ہے۔ اس کا دارالحکومت ریکیاویک ہے۔ آئس لینڈ میں آتش فشاں بہت متحرک رہتے ہیں۔ یہاں میدان، پہاڑ اور گلیشیر سب پائے جاتے ہیں۔ اس کا رقبہ ایک لاکھ 30 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی ساڑھے تین لاکھ ہے۔ یہ یورپ کا سب سے کم گنجان آباد ملک ہے۔ ایک قدیم دستاویز ’’لینڈنامابوک‘‘ کے مطابق یہاں انسان 874ء میں آباد ہونا شروع ہوئے اور ناروے کے ایک سردار انگولفر آرنارسن آئس لینڈ کا پہلا مستقل رہائشی بنا۔ بیسویں صدی سے قبل تک آئس لینڈ کی آبادی کا انحصار ماہی گیری اور زراعت پر تھا اور یہ یورپ کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والے مارشل پلان کے نتیجے میں یہاں صنعت کاری ہوئی اور خوش حالی آئی۔ بالآخر آئس لینڈ کا شمار دنیا کے امیر ترین اور سب سے ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگا۔

آئس لینڈ میں صحت اور تعلیم کی سہولیات ریاست فراہم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انڈیکس برائے انسانی ترقی 2018ء کے مطابق آئس لینڈ دنیا کا چھٹا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ بہت پُرامن ملک ہے اور عالمی امن انڈیکس کے مطابق اس کی پوزیشن پہلی ہے۔ آئس لینڈ کا مکمل انحصار ماحول دوست قابل تجدید توانائی  پر ہے۔ دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ریکیاوک سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے آئس لینڈ یورپ اور جنوبی امریکا، دونوں براعظموں کا حصہ ہے۔ ثقافتی، معاشی اور لسانی اعتبار سے یہ ملک سکینڈی نیویا کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا اٹھارہواں اور یورپ کا دوسرا بڑا جزیرہ ہے۔ آئس لینڈ کا تقریباً 11 فیصد حصہ گلیشیرز سے گھرا ہوا ہے۔ آئس لینڈ کے بلند علاقے انتہائی سرد ہونے کی وجہ سے ناقابل رہائش ہیں۔ 

انسانی آبادکاری سے قبل یہاں جنگلات موجود تھے جو کل آئس لینڈ کا 25 سے 40 فیصد حصہ تھے۔ یہاں آباد ہونے والوں نے جنگلات کو کاٹا تاکہ زراعت کے لیے اور گھاس کے میدانوں کے لیے زمین میسر آ سکے جس سے جنگلات کا رقبہ کم ہوتا گیا۔ بیسویں صدی کے شروع تک یہ جنگلات تقریباً ناپید ہو گئے۔ اس کے بعد شجر کاری کے ذریعے جنگلات میں دوبارہ اضافہ کیا گیا۔ یہاں گرم پانی کے بہت سے چشمے ہیں۔ جیو تھرمل پاور کی کثرت اور بہت سے دریاؤں اور آبشاروں کی موجودگی کے سبب یہاں شہریوں کو گرم اور ٹھنڈا پانی بہت سستے داموں گھر کی دہلیز پر میسر ہوتا ہے۔ یہاں متعدد جھیلیں ہیں۔ آئس لینڈ میں آئس لینڈی زبان بولی اور لکھی جاتی ہے۔ چند یہاں دوسری زبانیں بھی بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہیں۔  

معروف آزاد


بریگزٹ ڈیل پر برطانوی حکومت کو پارلیمنٹ میں تاریخی شکست

$
0
0

برطانوی پارلیمان نے اکثریت رائے سے وزیر اعظم تھریسا مے کے یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے ’بریگزٹ ڈیل‘ کو مسترد کیا، جس کے بعد شکوک پیدا ہوگئے ہیں آیا مارچ 29 کی تاریخ سے براعظم کے 28 ملکی بلاک سے الگ ہونے کی مجوزہ حکومتی حکمت عملی پر کیسے عمل درآمد ہو گا۔ ہاؤس آف کامنز کے ارکان نے ڈیل کے حق میں 202، جب کہ 432 نے مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے مے کے مطالبے کو مسترد کیا، جب کہ بقول اُن کے، ڈھائی سال قبل یورپی یونین چھوڑنے کے ریفرنڈم میں ووٹروں نے ’’جمہوری فیصلہ‘‘ کیا تھا۔

حزب مخالف کی لیبر پارٹی کے قائد، جیری کوربن نے کہا ہے کہ مے کی کنزرویٹو پارٹی کی حکمرانی کو ملنے والی یہ ایک ’’تباہ کُن شکست ہے‘‘، اور مطالبہ کیا کہ بدھ کے روز اعتماد کا ووٹ لیا جائے، جس کو اُنھوں نے ’’اُن (مے) کی حکومت کی کھلی نالائقی‘‘ قرار دیا۔ اسی قسم کے نتائج کی ہی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن، اب یہ واضح نہیں آیا بریگڑٹ کا کیا بنے گا۔ ووٹ سے پہلے، مے نے پارلیمان کے ارکان کو متنبہ کیا تھا کہ یورپی یونین کوئی ’’متبادل ڈیل ‘‘پیش نہیں کرے گا۔ مے نے کہا کہ ’’اس وقت ہم سب پر ایک بڑی ذمہ داری ہے، چونکہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس پر ہمارے ملک کی کئی نسلوں کے مستقبل کا دارومدار ہے‘‘۔

 

امریکا 821191؍ ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود غیر محفوظ کیوں ہے ؟

$
0
0

دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ نے اسے 17؍ سال بعد مزید غیر محفوظ کر دیا ہے، امریکا کی 20 سالہ حکمت عملی نے اتنے دہشت گرد ختم نہیں کیے جتنے پیدا کر دیے ہیں۔ آج امریکی فوج 80 ممالک میں دہشت گردی کے خلاف جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے اور 2001 کے بعد امریکا نے 821191؍ ارب روپے (5 عشاریہ 9 ٹریلین ڈالر) اس جنگ پر خرچ کر ڈالے۔ امریکی جریدہ لکھتا ہے کہ امریکی قانون سازوں کو علم ہی نہیں کہ دنیا میں کہا ں اور کن مقاصد کے کیلئے ان کی فوج کو استعمال کیا جا رہا ہے، دنیا کے چالیس فی صد ممالک کے ساتھ امریکا اس جنگ میں شامل ہے، خود امریکی عوام اور سابق عسکری حکام کہتے ہیں کہ بیس سال کی حکمت عملی نے انہیں ماضی کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ کر دیا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مالی اور انسانی اخراجات قابل غور ہیں۔ تھنک ٹینک اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز کا کہنا ہے کہ 2001 کے بعد سے القاعدہ، داعش اور اس طرح کے جنگجووں گروپوں کی تعداد میں 270 فیصد اضافہ ہوا۔ 2018 میں67 عسکری گروپ آپریٹ کر رہے تھے جو 2001 کے مقابلے میں 180 فی صد زیادہ ہیں۔ دنیا بھر میں دو لاکھ 80 ہزار سے زائد جنگجو ہیں جو گزشتہ چالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی دو ماہ قبل کی تحقیق بھی پریشان کن تھی جن کے اعدادو شمار کے مطابق واشنگٹن نے اس جنگ پر 2001 سے 2019 تک 5 اعشاریہ 9 ٹریلین ڈالر خرچ کر ڈالے۔ ان میں سے بیرونی دنیا میں امریکی جنگوں پر دو ٹریلین ڈالر، ملکی سیکورٹی اخراجات پر 924 ارب ڈالر اور بیرون ممالک جنگی زونز میں تعینات امریکی فوج کی طبی اور معذوروں کی دیکھ بھال پر 353 ارب ڈالر خرچ کیے۔

اگر اس کے ساتھ قرض لی گئی رقم پر سود کو بھی ڈال دیا جائے تو امریکی عوام کئی دہائیوں تک قرض کی ادائیگی میں لگے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ میں امریکا کی مسلح افواج نے اپنے طورپر بہت کام کیا۔ اس وقت امریکی فوج دنیا کے 40 فیصد ممالک کے ساتھ کام کر رہی ہے، کولمبیا کے جنگلوں سے تھائی لینڈ کے جنگلوں تک 65 الگ الگ سیکورٹی تربیتی پروگرام چلا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق کہ 43 فیصد امریکی شہری اور 41 فیصد سابق فوجیوں کو یقین ہے کہ پچھلے بیس سالوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی نے امریکا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

یہ حقیقت بھی پریشان کن ہے کہ سب سے زیادہ جنگجو عراق، افغانستان اور لیبیا میں ہیں جہاں گزشتہ سترہ برس میں امریکا نے سب سے زیادہ بمباری اور کارروائیاں کیں ہیں۔ امریکا کی حکمت عملی نے اتنے دہشت ہلاک نہیں کیے جتنے پیدا کیے۔ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکا نے برطانیہ، کینیڈا، فرانس ، جرمن اور آسٹریلیا کی فوجوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا، آج سترہ برس بعد دہشت گردی کی جنگ حقیقت میں عالمی جنگ بن چکی ہے اور یوں امریکا چھ براعظموں میں 80 ممالک میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔

رفیق مانگٹ 

بشکریہ روزنامہ جنگ 

 

 

امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگیں اور صدر ٹرمپ

$
0
0

'ہم جانتے ہیں کہ جب کہیں سے امریکی فوجی نکلتی ہے تو وہاں افراتفری پھیلتی ہے'۔ یہ استدلال امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے قاہرہ میں اپنی تقریر کے دوران اختیار کیا۔ لیکن مائیک پومپیو کے ان کلمات سے خطے میں موجود واشنگٹن کے اتحادیوں میں پائی جانے والی تشویش میں کمی نہیں ہو سکی۔ کیا شام سے امریکی فوج نکل رہی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کب تک ؟ اور اگر نکل رہی ہے تو کب؟ امریکی وزیر خارجہ کی یہ تقریر خطے میں امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ تھی اور اس ضمن میں دیے جانے والے بیانات سے پیدا ہونے والے ابہام کو بڑی حد تک ختم کرنا تھا۔

لیکن وائٹ ہاؤس میں موجود اپنے باس کی تقلید کرتے ہوئے پومپیو نے بھی اپنا زیادہ تر وقت خطے میں اوباما کی پالیسی پر تنقید کرنے میں صرف کیا اور موجودہ صدر کے دور میں ہونے والی پیش رفت سے اس کا موازنہ کرتے رہے۔
لیکن پومپیو کے کلمات میں کچھ اہم چیزیں شامل نہیں تھیں۔ یمن کے بحران کا صرف ضمناً تذکرہ کیا گیا، خلیج ممالک کے درمیان اختلافات سے کترا کر آگے نکل لیے اور صدر ٹرمپ کے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے امن منصوبے کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا۔ زور صرف اس بات پر رہا کہ خطے میں واشنگٹن کے دوستوں اور اتحادی ملکوں کو 'ڈو مور'کی ضرورت ہے۔ 

امریکہ بظاہر پس پردہ رہتے ہوئے، بقول پومپیو کے شام میں موجود ایرانیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے سفارت کاری کا استعمال کرے گا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کرتا رہے گا۔ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا امریکی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے لیکن اقتصادی پابندیوں کے علاوہ اس بارے میں ان کے پاس مزید کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ شام میں دو ہزآر امریکی فوجیوں کی موجودگی یا ان کے انخلا کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوجیوں کی موجودگی یا ان کا انخلا کس طرح وسیع تر مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کی پوری کہانی صدر ٹرمپ کی خطے میں پالیسی اور ان کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس پوری داستان سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کا طرز حکومت کیا ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کی بعد از خرابی بسیار یہ کوشش کے انخلا کے اس اعلان کو مشروط کیا جائے، اعلان ہونے سے پہلے کی جانی چاہیے تھی بلکہ حتمی اعلان کرنے سے پہلے اس مشورے پر غور کیا جانا چاہیے تھا۔ واشنگٹن میں موجودہ بین الاقوامی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی طرف سے سامنے آنے والا سخت رد عمل غیر متوقع نہیں تھا۔ اس بارے میں جو رائے دی گئی یا بلاگ لکھے گئے ان میں اسے واشنگٹن کی طرف سے کرد اتحادیوں کو دھوکہ دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ خطے میں روس کا اثر بڑھے گا اور ایک خلا پیدا ہو گا جس کا فائدہ براہ راست ایران کو ہو گا۔ یہ سب کچھ کسی حد تک درست ہے۔ لیکن یہاں ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے اور اس کا تعلق صدر ٹرمپ کے خیالات اور ان کی سمندر پار فوجی کارروائیوں کی طرف مخالفانہ ذہینیت سے ہے۔

کوئی واضح حکمت عملی نہیں
کچھ مبصرین نے صدر ٹرمپ کے اہم پالیسی معاملات میں رویے اور سٹریٹجک سوچ کی مذمت کی لیکن اس سب کے باوجود اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ ان کے استدلال کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ دو ہزار فوجی شام میں آخر کیا حاصل کر سکتے تھے۔ صدر گو اپنے بہت سے مشیروں کے رویے سے انتہائی بیزار ہیں لیکن وہ اسلامی شدت پسندوں کے خلاف لامتناہی جنگ کو اگر ختم نہیں کر رہے تو کم از کم اس کو کم ضرور کر رہے ہیں۔ یہ جنگ نیو یارک پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی دہشت گردی کے بعد افغانستان پر حملے سے شروع ہوئی تھی۔ افغانستان سے شروع ہو کر یہ عراق پہنچ گئی۔ جس طرح جنگ کا دائر کار وسیع ہوتا چلا گیا امریکہ کو اپنے ماضی کے پالیسی فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ 

مثال کے طور پر عراق میں صدام حسین کو ہٹائے جانے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کا خطے میں اثر بڑھنے لگا۔ گو کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر سب کی توجہ ہے لیکن صدر ٹرمپ نے افغانستان سے بھی فوجیوں کو نکالنے کی بات کی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ افغانستان سے سات ہزار یعنی آدھے امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ یہاں بھی مبصرین اور تھنک ٹینک کے درمیان ان ہی خطوط پر اختلافات ہیں کچھ امریکی افواج کی تعیناتی پر سول اٹھا رہے ہیں اور یہ پوچھ رہے ہیں کہ ایسی جنگ میں شامل رہنا جس میں کسی کی جیت ممکن نہیں کا کیا مطلب ہے۔ '

صدر ٹرمپ کے طرز عمل سے اس کے اپنے یورپی اتحادی نالاں ہیں
صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکی کبھی ختم نہ ہونے والی جنگوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ صدر ٹرمپ بین الاقوامی تعلقات کو سودے بازی کی نظر سے دیکھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نیٹو میں اپنے اتحادی ناقدین کے بجائے آمرانہ حکمرانوں سے تعلقات رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب روس اور چین کی بڑھتی طاقت۔ روس اور چین طاقتور ہو رہے ہیں عالمی معاہدے الٹ دیے گئے اور صدر 'پہلے امریکہ'کے اپنے نعرے کو سچ ثابت نہیں کر سکے۔

جانتن مارکس
بی بی سی کے سفارتی امور کے نامہ نگار
 

شارک کے بارے میں دلچسپ حقائق

$
0
0

٭ شارک کی جلد ہاتھ پھیرنے پر ریگ مال (sandpaper) کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اس کی جلد پر چھوٹے چھوٹے دانت ہوتے ہیں۔ ان کا رخ دم کی طرف ہوتا ہے اور ان کی مدد سے دوران سفر پانی کم مزاحم ہوتا ہے۔ 

٭ اگر شارک کو الٹا دیا جائے تو وہ نیم بے ہوشی یا سکتے کی حالت میں آ جاتی ہیں۔ سائنس دان بعض اوقات شارک کو اس حالت میں لا کر تحقیق کرتے ہیں کیونکہ وہ حملہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ 

٭ قدیم آثار کی بنیاد پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شارک سمندر میں ساڑھے 45 کروڑ برس قبل نمودار ہوئی۔ 

٭ وہیل شارک سمندر میں پائی جانے والی سب سے بڑی مچھلی ہے۔ ان کی لمبائی 12.2 میٹر تک ہو سکتی ہے اور وزن 40 ٹن تک۔ اس کے بعد سب سے بڑی مچھلی باسکنگ شارک ہے جو 32 فٹ لمبی ہو سکتی ہے۔ وہیل شارک کے جسم پر نشانات ہوتے ہیں اور انسان کے فنگر پرنٹس کی طرح کسی ایک کے نشان دوسری سے نہیں ملتے۔ 

٭ دنیا کے ہر سمندر میں شارک پائی جاتی ہیں۔ 

٭ شارک کے سات قطاروں میں اوسطاً 40-45 دانت ہوتے ہیں۔ شارک کے دانت باقاعدگی سے گرتے رہتے ہیں اور پوری زندگی میں شارک کے 30 ہزار تک دانت گر سکتے ہیں۔ 

٭ سب سے چھوٹی شارک ’’ڈوارف لینٹرن‘‘ ہے، جس کی لمبائی چھ انچ ہوتی ہے۔ 


٭ زیادہ تر شارک زندگی بھر نہیں سوتیں، کیونکہ سانس لینے کے لیے انہیں جاگنا پڑتا ہے۔ 

٭ شارک میں سننے کی شاندار صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ شکار کو تین ہزار فٹ کے فاصلے سے سن سکتی ہیں۔ ان کے کان سر کے اندر ہوتے ہیں۔ 

٭ شارک کی جلد جانوروں میں سب سے موٹی ہوتی ہے۔ کچھ کی جلد چھ انچ موٹی ہوتی ہے۔ 

رضوان عطا




 

افغان مفاہمتی عمل، پریشان کون ہے ؟

$
0
0

افغان صدر اشرف غنی کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو آنے والی ٹیلی فون کال میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے اپنی ملاقات پر اعتماد میں لینے کے ساتھ مفاہمتی عمل میں پاکستان کے کردار پر اطمینان کا اظہار کیا گیا جسے افغانستان میں جاری امن کوششوں کے حوالے سے مثبت اور اہم قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ ماضی میں ایسی کاوشیں نہ ہو سکیں اور افغانستان دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا اب چونکہ یہ سارا عمل خود امریکی انتظامیہ کی تحریک پر شروع ہوا۔ مفاہمتی عمل میں طالبان کو مذاکرات پر لانے کا کردار پاکستان کو سونپا گیا اور اس سہولت کاری کے نتیجہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل شروع ہو چکا ہے۔

امریکہ مسئلہ کا حل نکالنے کے ساتھ اپنی افغانستان سے رخصتی میں بھی سنجیدہ ہے جبکہ مفاہمتی عمل کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان خود افغان انتظامیہ اور پاکستان ہے۔ پاکستان ہر قیمت پر مذاکراتی عمل کو یہاں ایک مضبوط حکومت کے قیام تک مؤخر رکھنا چاہتا ہے تا کہ ایسا نہ ہو کہ امریکی افواج یہاں سے رخصت ہوں اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں جنگ و جدل شروع ہو اور پھر ماضی کی طرح مہاجرین کا دباؤ پاکستان پر آ جائے۔ دوسری جانب طالبان سے امریکہ کے مفاہمتی عمل کے بعد خود اشرف غنی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں اور ان کی رہی سہی رٹ بھی متاثر ہو چکی ہے۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مفاہمتی عمل کے نتیجہ میں امریکی افواج یہاں سے رخصت ہوتی ہے تو انہیں کن کے سہارے یہاں چھوڑ جائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ افغان انتظامیہ کی بھرپور کوشش ہے کہ افغان انتظامیہ کو مفاہمتی عمل کا حصہ بنایا جائے تا کہ اس کی افغانستان میں اہمیت و حیثیت قائم رہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور خود امریکہ کی طرح افغان حکومت کو بھی طالبان سے مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی درخواست کی۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان امن عمل میں کوئی بڑا بریک تھرو ہو سکے گا۔ طالبان افغان انتظامیہ کو مفاہمتی عمل کی کوششوں میں شریک کرنے کیلئے تیار ہوں گے ؟ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے کتنے امکانات ہیں؟۔

افغان امن عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کے بنیادی کردار کے باعث امریکہ اور طالبان سر جوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور امریکہ اور دیگر بین الاقوامی قوتوں میں یہ احساس مضبوط ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان اہم سیاسی قوت ہیں اور انہیں نظر انداز کر کے اب یہاں امن و استحکام نا ممکن ہے اور افغان طالبان سے براہ راست امریکہ کے مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں طالبان کا افغانستان میں مستقل کردار کو تسلیم کر لیا گیا ہے جہاں تک یہاں اشرف غنی انتظامیہ کے کردار کا تعلق ہے تو یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ امریکی افواج اور ان کی مدد کے بغیر کھڑی رہ سکتی ہے نہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کا حالات سے نمٹنا ممکن ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی بات نے افغان حکومت کو بری متاثر کیا ہے اور اب وہ ادھر اُدھر دیکھنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹس سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ اب افغانستان کیلئے 46 ارب ڈالرز کا سالانہ بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں اور نہ ہی اب وہ امریکی افواج یہاں رکھنے کا متحمل ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغان امور کے ماہرین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ افغانستان میں اپنے تسلط کیلئے پہلے امریکہ کو آنے کی جلدی تھی اور اب یہاں ذلت و رسوائی اٹھانے کے بعد جانے کی جلدی ہے اس کے دونوں اقدام دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے دیکھے جائیں تو دنیا کی سپر پاور کو جنگ لڑنے کی بھی جلدی ہوتی ہے اور جب اس کے مقاصد پورے ہو جائیں یا اسے اس میں مکمل ناکامی نظر آ رہی ہے تو پھر یہ صورتحال کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے یکطرفہ فیصلے کر ڈالتا ہے۔ 

خواہ وہ جنگ لڑنے کا ہو یا میدان جنگ سے پسپائی کا ہو۔ افغانستان کے معاملہ میں امریکہ پہلی دفعہ نہیں دوسری دفعہ مستحکم سیاسی پیش رفت سے پہلے یکطرفہ طور پر فوجوں کا انخلا چاہ رہا ہے۔ 1989ء جنیوا معاہدے کے تحت امریکہ خطے کو اس کی حالت پر چھوڑ چلا گیا تھا اور اب بھی اس کا یہی پلان لگتا ہے کہ علاقائی فورسز بیشک دست و گریباں رہیں مگر امریکہ اب اپنا دامن چھڑاکر یہاں سے نکل جائے۔

 سلمان غنی  

بشکریہ دنیا نیوز اردو
 

صحارا : اس صحرا میں 30 فیصد ریت اور 70 فیصد کنکر ہیں

$
0
0

٭ صحارا گرم صحراؤں میں سب سے بڑا ہے۔ انٹارکٹیکا اور آرکٹیک سرد صحرا ہیں۔ صحارا مجموعی طور پر دنیا کا تیسرا بڑا صحرا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 94 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ 

٭ دریائے نیل کے علاوہ صحارا کے تمام دریا اور ندیاں موسمی اور بے قاعدہ ہیں۔

٭ صحارا میں دن کے وقت درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے اور رات کے وقت صفر سینٹی گریڈ سے نیچے گر سکتا ہے۔ 

٭ اس صحرا کے بعض پہاڑوں کی چوٹیوں پر سردیوں میں برف جمی رہتی ہے۔ ان میں سے ایک کوہ اطلس ہے۔ 

٭ صحارا میں زیر زمین دریا بہتے ہیں۔ اس میں زیر زمین ایک بڑی اور قدیم جھیل بھی ہے ۔ 

٭ اس میں پودوں کی قریب 12 سو اقسام پائی جاتی ہیں۔ صحار میں ایک ایسا پودا بھی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پانی کے بغیر 100 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اسے ’’ریزوریکشن پلانٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

٭ صحارا، صحرا سے سرسبز علاقے اور پھر صحرا میں تبدیل ہوتا آ رہا ہے۔ ایسا 41 ہزار برس بعد ہوتا ہے۔ اس حساب سے صحارا 15 ہزار برس بعد دوبارہ سرسبز ہو گا۔ اس کی وجہ شمالی افریقہ کے مون سون نظام میں تبدیلی ہے۔ ایک نظریے کے مطابق یہ ردوبدل زمین کے مدار میں بدلاؤ کے باعث ہوتا ہے۔ 

٭ براعظم افریقہ کے 31 فیصد رقبے پر یہ صحرا ہے۔ 

٭ اس صحرا میں 30 فیصد ریت اور 70 فیصد کنکر ہیں۔

محمد ریاض


 

چیونٹیاں : معاشرت پسند ہیں

$
0
0

چیونٹی معاشرت پسند ہے۔ اگر ہم چیونٹیوں کا بل کھود کر دیکھیں تو بے شمار چیونٹیوں کی بھاگ دوڑ نظر آئے گی۔ کچھ چیونٹیوں کے منہ میں گول گول لمبوترے خول سے نظر آئیں گے۔ بل کے وسط میں ہمیں ایک اور چیونٹی نظر آئے گی، جو تن و توش میں دوسری چیونٹیوں سے کافی بڑی ہو گی۔ یہ ان کی ملکہ ہے۔ سب میں یہی ایک مادہ چیونٹی ہے اور اس کا کام صرف انڈے دینا ہے۔ باقی چیونٹیوں میں غالب اکثریت کام کرنے والوں کی ہے۔ 

یہ چیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں، ’’گھر‘‘ کی صفائی کا اہتمام کرتی ہیں، انڈوں پر پہرہ دیتی ہیں اور جب انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں تو ان کی نگہداشت کرتی ہیں اور انہیں کھانا کھلاتی ہیں، حتیٰ کہ وہ جوان ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کی ایک صورت کو ’’پیوپا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بیلن نما روپ والے وہی ہوتے ہیں جنہیں چیونٹیاں منہ میں بڑی حفاظت سے رکھتی ہیں اور خطرے کے وقت ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتی نظر آتی ہیں۔ گرمی کے مہینوں میں بل کے اندر کچھ پَردار نکھٹو بھی نظر آتے ہیں۔ یہ نر ہوتے ہیں۔

محمد قاسم


نریندر مودی کی حکومت اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے

$
0
0

بھارتی شہر کولکٹہ میں اپوزیشن نے وزیراعظم مودی کے خلاف ایک بڑی ریلی کا انتظام کیا ہے۔ اس ریلی کو رواں برس کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن کی تیاری سے جوڑا گیا ہے۔ مشرقی شہر کولکٹہ میں بھارت کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے متحدہ مظاہرے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ پولیس نے شرکاء کی تعداد نصف ملین یا پانچ لاکھ کے قریب بتائی جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کی ریلی کے منتظمین کا خیال ہے کہ شرکاء پولیس کی بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ تھے۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ کاروں نے اس ریلی کو ایک بڑے مظاہرے سے تعبیر کیا۔ اپوزیشن کی ریلی کو ’متحد بھارت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ 

اس ریلی میں ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کا کہنا تھا کہ لوگوں کی شرکت سے دکھائی دیتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اپنی اختتامی مدت کے قریب پہنچنے والی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ممتا بینرجی کی ریاستی حکومت نے ہی اس بڑی ریلی کا انتظام کیا تھا۔ ریلی کے انتظام سے قبل منتظمین کا خیال تھا کہ ریلی میں چار ملین افراد شریک ہو سکیں گے لیکن ریلی کے بعد کولکٹہ پولیس کے چیف راجیو کمار نے شرکا کی تعداد کو پانچ لاکھ بیان کیا۔ اس تعداد اور دعوے کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک بڑی ریلی تھی لیکن اتنی بڑی نہیں کہ اس میں شریک لوگوں کی تعداد سے نریندر مودی کی حکومت کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی ریاست گجرات کے دورے پر ہیں اور وہ وہاں فوجی سامان کے معائنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ گجرات میں کولکٹہ ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ یہ اپوزیشن کا اتحاد اُن کے خلاف نہیں بلکہ بھارت کے خلاف ہے۔ ان کے بیان کو معتبر اخبار ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے۔ کولکٹہ ریلی کو رواں برس اپریل سے مئی کے دوران مختلف اوقات میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن کی تیاری کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ رواں برس کے انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کامیاب ہونے کا امکان ہے لیکن امکاناً وہ اتنی نشستیں حاصل نہ کر سکے گی جتنی اُسے سن 2014 میں حاصل ہوئی تھیں۔ قوم پرست ہندو جماعت کو حالیہ چند مہینوں میں تین مختلف ریاستوں میں شکست کا سامنا رہا۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں شکست کو نریندر مودی حکومت کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا گیا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا

$
0
0

امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعد عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے  سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ، میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔ اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ 

لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرے کی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئے شدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرو رسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔ لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبر ہوں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

تیرہ سالہ اریبہ کو 6 گولیاں مارنے والے قاتل

$
0
0

پنجاب کی انسدادِ دہشت گردی فورس (سی ٹی ڈی) نے گزشتہ روز ساہیوال میں ایک نام نہاد آپریشن کیا، جس میں تیرہ سالہ بچی اریبہ کو چھ گولیاں ماریں، اُس کی والدہ نبیلہ بی بی کو چار، والد خلیل کو تیرہ گولیاں اور ڈرائیور ذیشان کو دس گولیاں ماریں۔ انسدادِ دہشت گردی فورس کے اس نام نہاد آپریشن کے فوری بعد جو کہانی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی اُس کے مطابق سی ٹی ڈی نے ایک ’’کامیاب آپریشن‘‘ کے بعد داعش سے تعلق رکھنے والے چار ’’انتہائی خطرناک ‘‘’’دہشت گردوں‘‘ کو’ ’ہلاک‘‘ کر دیا اور اُن کے قبضے سے تین اغوا شدہ بچوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔ 

بعد میں جب میڈیا نے یہ انکشاف کیا کہ ’’بازیاب‘‘ کروائے گئے بچے تو مرنے والوں کو اپنے والدین کہہ رہے ہیں اور یہ کہ ان بچوں کی بڑی بہن تیرہ سالہ اریبہ بھی مرنے والوں میں شامل ہے تو اس پر سی ٹی ڈی کا نیا موقف سامنے آ گیا کہ ایجنسی کے اطلاع پر گاڑی کا پیچھا کیا گیا اور یہ کہ گاڑی میں موجود ’’دہشت گردوں‘‘ کی سی ٹی ڈی پر فائرنگ کے نتیجے میں جوابی فائر کیے گئے اور ’’دہشت گردوں‘‘ کو مار دیا گیا۔ بعد میں جب میڈیا نے یہ تفصیلات دینا شروع کر دیں کہ خلیل اور اُس کے بیوی بچے تو اپنے قریبی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ سی ٹی ڈی نے اُن کو بہیمانہ طریقے سے ماوارئے عدالت قتل کر دیا تو اس پر سی ٹی ڈی نے کہنا شروع کر دیا کہ گاڑی کا ڈرائیور ذیشان ’’دہشت گرد‘‘ تھا اور یہ گاڑی بھی دہشت گردی میں استعمال ہو چکی تھی۔

یہ بھی کہا گیا کہ ذیشان اور گاڑی کے ساتھ چلنے والی ایک موٹر سائیکل‘ جس پر دو یا تین دہشت گرد سوار تھے، نے سی ٹی ڈی فورس پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں گاڑی میں موجود چار افراد مارے گئے جبکہ موٹر سائیکل سوار ’’دہشت گرد‘‘ وہاں سے فرار ہو گئے، جن کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ لیکن سی ٹی ڈی کی یہ کہانی بھی جھوٹی نکلی کیونکہ میڈیا نے اس واقعہ کی ایک وڈیو چلانا شروع کر دی، جس میں دیکھا گیا کہ تین بچوں کو گاڑی سے نکالنے کے بعد سی ٹی ڈی فورس کے اہلکاروں نے گاڑی کے اندر موجود چاروں افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی اور بعدازاں وہاں سے روانہ ہو گئے۔ 

موقع پر موجود کسی ایک شخص نے بھی سی ٹی ڈی کی کہانی کے حق میں گواہی نہیں دی۔ ابھی تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ گاڑی میں موجود ذیشان یا کسی موٹر سائیکل سوار شخص کی طرف سے سی ٹی ڈی پر ایک بھی فائر کیا گیا ہو۔ سی ٹی ڈی نے تو یہ بھی دعویٰ کیا کہ گاڑی میں سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ وغیرہ بھی برآمد ہوا لیکن اس کی بھی کوئی گواہی نہیں ملی، نہ ہی وہاں موجود کسی فرد نے اس بات کی تصدیق کی۔ وڈیو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ماورائے قانون قتل کی کارروائی تھی۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ گاڑی کا ڈرائیور ذیشان کا مبینہ طور پر کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق تھا، تو کوئی پوچھے کہ یہ کیسی کارروائی تھی کہ چھوٹے بچوں کو گاڑی سے نکال کر باقی سب کو گولیوں سے بھون دیا گیا ؟ وردی پہنے ان قاتلوں کو تیرہ سالہ اریبہ اور اُس کی ماں بھی نظر نہ آئی؟ اگر اطلاع تھی کہ گاڑی میں دہشت گرد موجود ہیں تو پھر اُنہیں زندہ کیوں نہ پکڑا گیا۔ گزشتہ سال نقیب اللہ محسود اور اس کے دو ساتھیوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر کراچی پولیس کے رائو انوار نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اُس وقت بھی کہانی یہی بُنی گئی کہ خطرناک دہشت گردوں کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا لیکن وہ سب بھی مکمل جھوٹ تھا۔ افسوس کہ ساہیوال سانحہ پر حکومت کے وزراء دوغلی باتیں کر رہے ہیں۔ 

ایک طرف مارے جانے والے معصوم افراد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف سی ٹی ڈی کی کئی بار تبدیل ہونے والی کہانی کو بھی اگر مگر کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔ جس بربریت اور ظلم کے ساتھ گاڑی میں موجود چاروں افراد کو سی ٹی ڈی فورس کو مارتے وڈیو میں دکھایا گیا اُس کوبیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ موجود نہیں۔ وردی پہنے ان قاتلوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ احساس نہ ہوا کہ تین کم سن بچوں کے سامنے اُن کے ماں، باپ اور بڑی بہن کو کس درندگی کے ساتھ مارا جا رہا ہے؟ کس نے فیصلہ کیا کہ گاڑی میں موجود چاروں افراد کو اب جینے کا کوئی حق نہیں، اس لیے انہیں بغیر کسی تحقیق اور عدالتی فیصلہ کے مار دیا جائے؟ مرنے والوں کو تو دفاع کا موقع بھی نہ ملا۔

بچ جانے والے بچے کے مطابق اُس کے والد خلیل سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو دہائیاں دیتا رہا کہ ہم سے پیسے لے لو مگر ہمیں نہ مارو لیکن نہ خلیل کو بخشا گیا، نہ ہی اس کی بیوی اور تیرہ سالہ بیٹی کو۔ نجانے کتنے لوگوں کو اس بربریت اور ظالمانہ انداز میں مارا گیا اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر میڈیا کو جھوٹی کہانیاں بیچی جاتی رہیں۔ دیکھتے ہیں کہ نئے پاکستان اور ریاستِ مدینہ کی بات کرنے والے کیا کرتے ہیں۔

انصار عباسی

امیرترین 26 افراد کا پیسہ دُنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی

$
0
0

عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیرترین 26 افراد کی دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی ہے۔ رواں سال امیروں کی دولت میں 12 فی صد اضافہ جبکہ غریبوں کی دولت میں11فی صد کمی ہوئی ہے۔ آکسفام، ویلتھ ایکس ، جیسے تھنک ٹینکس کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں امیروں کی دولت میں 12 فی صد روزانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ ڈھائی ارب ڈالر بنتے ہیں، یوں دنیا میں اس وقت 2208 ارب پتی ہیں۔ ایک عشرہ قبل معاشی بحران کے بعد سے امیرترین افراد کی تعداد دگنا ہو گئی جبکہ دنیا کی نصف غریب آبادی کی دولت میں 11 فی صد کمی ہو گئی۔

عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین 26 افراد کی دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی ہے۔ رواں سال امیروں کی دولت میں 12 فی صد اضافہ جبکہ غریبوں کی دولت میں 11 فی صد کمی ہوئی ہے۔ آکسفام، ویلتھ ایکس ، جیسے تھنک ٹینکس کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں امیروں کی دولت میں 12 فی صد روزانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ ڈھائی ارب ڈالر بنتے ہیں، یوں دنیا میں اس وقت 2208 ارب پتی ہیں۔ ایک عشرہ قبل معاشی بحران کے بعد سے امیرترین افراد کی تعداد دگنا ہو گئی جبکہ دنیا کی نصف غریب آبادی کی دولت میں 11 فی صد کمی ہو گئی ۔

دنیا کے 26 افراد کے پاس ایک عشاریہ 4 ٹریلین ڈالر ہیں یہ دولت 3 ارب 80 کروڑ افراد کی دولت کے مساوی ہے۔ 2017 میں 43 افراد کے پاس دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی تھی جبکہ 2016 میں 61 افراد کی دولت نصف آبادی کی دولت کے برابر تھی۔ یوں دنیا میں امیر ترین افراد کی دولت میں آضافہ ہوا۔ 2017 اور 2018 کے درمیان ہر 2 دن بعد ایک ارب پتی کا اضافہ ہوا۔ عالمی غیر مساوی رپورٹ 2018 کے مطابق 1980 سے 2016 کے درمیان دنیا کی غریب ترین نصف آبادی کو عالمی آمدنی کے ہر ڈالر میں 12 سینٹ ملے جبکہ امیر ترین افراد کی ایک فی صد آبادی کو فی ڈالر 27 سینٹ ملے۔

ویلتھ ایکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 5 لاکھ چالیس ہزار فراد کی دولت ایک ملین ڈالر سے 30 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ دوسری جانب بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے پہلے 10 امیر ترین افراد میں سے 7 کا تعلق امریکا سے ہے، جن میں سے 6 آئی ٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ Credit Suisse کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر کی مجموعی دولت 317 ٹریلین ڈالر ہے، اور دنیا کی مجموعی آبادی 7 ارب 20 کروڑ سے زائد ہے اگر اس دولت کو مساوی تقسیم کر دیا جائے تو دنیا کا ہر شخص 44028 ڈالر کا مالک ہو گا۔

گزشتہ برس بھارت کی ایک فی صد آبادی کی دولت میں یومیہ 43 ارب 31 کروڑ روپے (2200 کروڑ بھارتی روپے) کا اضافہ ہوا۔ بھارت کے 119 ارب پتی افراد کی دولت میں 39 فیصد جبکہ نصف غریب آبادی کی دولت میں صرف 3 فی صد اضافہ ہوا۔ 13 کروڑ 60 بھارتی جو ملک کے دس فیصد غریب ترین آبادی شمار ہوتے ہیں وہ گزشتہ 15 برس سے قرض تلے دبے ہیں۔ بھارت کی 10 فی صد امیر ترین آبادی کے پاس مجموعی ملکی دولت کا 77عشاریہ 4 فی صد ہے جبکہ ایک فی صد امیر افراد کے پاس ملکی دولت کا 51 عشاریہ 53 فی صد حصہ ہے یوں 9 ارب پتیوں کے پاس کی دولت ملک کی آدھی آبادی کے مساوی ہے۔ 60 فی صد آبادی کے پاس صرف 4 عشاریہ 8 فی صد دولت ہے۔

محمد رفیق مانگٹ

بشکریہ روزنامہ جنگ اردو

کیا طالبان کو ناراض کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے؟

$
0
0

افغانستان میں بحالی امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کے کردار کی تعریف کی جا رہی ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان امریکا کو خوش کرنے کے لیے افغان طالبان کے خلاف طاقت یا دباؤ کے استعمال سے اجتناب کرے۔ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ چارہ روزہ دورے کے دوران پاکستان میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں ہیں جب کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ اور صدر ٹرمپ کے قریبی رفیق سینیٹر لنڈسی گراہم نے بھی پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں، جن کا محور افغانستان میں امن کی کوششیں تھا۔ ماضی میں امریکا اور افغانستان پاکستان پر ’دوہرے کھیل‘ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں لیکن اب اسلام آباد کے ناقدین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ طلعت اے وزارت کے خیال میں امریکا پاکستان کو افغانستان کے مسئلے پر مشکل میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف طاقت استعمال کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو افغان طالبان آگ بگولہ ہو جائیں گے اور جس دہشت گردی کو ہم نے بڑی مشکل سے کچلا ہے، وہ ایک بار پھر سر اٹھا لے گی۔ لہذا ہمیں بہت محتاط ہونا چاہیے اور طالبان کو آزادانہ طور پر امریکا سے بات چیت کرانے کی کوشش کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں طالبان کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا، جنہیں کچھ برس پہلے رہا کیا گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان بہت ’اکڑ مزاج‘ ہیں اور وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں کسی بھی قسم کا دباؤ پاکستان کی لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ یوسف زئی کے بقول، ’’طالبان کے پاس اب دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ اگر ہم نے ان کے رہنماؤں یا ان کے گھرانے کے افراد کو حراست میں لیا تو وہ ایران یا قطر چلے جائیں گے لیکن اس کے بعد ہمارے طالبان سے تعلقات بہت خراب ہو جائیں گے۔

 ہم نے ماضی میں ان کے چالیس سے زائد رہنماؤں کو حراست میں لیا لیکن نہ ہی طالبان نے اور نہ ان کے ان رہنماؤں نے اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا کی۔ ‘‘  پاکستان اس مشکل سے کیسے نکل سکتا ہے؟ دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک کے ذریعے طالبان کو منانے کی کوشش کرنے چاہیے۔ اعجاز اعوان کی رائے میں، ’’ہمیں کسی کے بھی کہنے پر ان کے خلاف طاقت یا دباؤ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

افغانستان میں جاری کھیل کا آخری مرحلہ : فیصلہ کس کے حق میں آئے گا ؟

$
0
0

افغانستان میں کھیل اب آخری مرحلے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں امریکا کی طویل المدت فوجی مہم کے خاتمے کی توقعات نے چند ایسے منظرناموں کو جنم دیا ہے جو ملکی مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ موجودہ سفارت کاری سے یا تو ایک ایسے سیاسی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جس سے افغانستان اور خطے کے اندر ظاہری حیثیت میں امن قائم ہو سکتا ہے یا پھر یکطرفہ یا امریکا نیٹو کے نظم و ضبط سے عاری انخلا کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جو افغانستان کی 40 سالہ خانہ جنگی کے باب کو ایک بار پھر دہرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم دیگر منظر ناموں کا بھی امکان ہے، کیونکہ کئی قوتیں کھیل کے آخری مرحلے میں ٹکراتی ہیں یا پھر اتحاد کرتی ہیں۔

سب سے نمایاں قوت ہے افغان طالبان کی شورش کا زور۔ یہ اب ملک کے 60 فیصد حصے پر غالب ہے اور یہ حوصلہ پست افغان سیکیورٹی اہلکاروں پر بھی زبردست دباؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔ خود اعتمادی سے سرشار طالبان نے مشکل میں گھری اشرف غنی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور غیرملکی افواج کے انخلا کے ٹائم ٹیبل، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پر عائد سفر اور دیگر پابندیاں ہٹائے جانے کے حوالے سے وہ صرف امریکا سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، طالبان توقع کر رہے ہیں کہ نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ دیگر افغان جماعتوں پر سیاسی حل آسانی سے تھوپ سکیں گے۔

طالبان کی قوت میں ابھار اور عزم کا عکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مایوسی اور بے صبری میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے ہل چل مچا دی ہے کہ نصف یعنی (14 ہزار) امریکی فوجی اہلکاروں کا افغانستان سے انخلا جلد ہی کیا جائے گا۔ اس بیان نے نہ صرف کابل حکومت کو کنارے سے لگا دیا بلکہ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں گرفت کو بھی ختم کر دیا۔ نتیجتاً، خطے کی طاقتوں کا کردار اور اثر نمایاں طور پر وسیع ہو گیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب طاقتوں میں سے پاکستان کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ ہے ابھرتی قوت بنے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ بظاہر تعلقات۔ اسلام آباد نے حالیہ ابوظہبی مذاکرات میں اہم طالبان نمائندگان کی شرکت کو ممکن بنا کر اپنے اثر و رسوخ کو ثابت بھی کیا۔

تاہم، ایران کا اثر و رسوخ حالیہ وقتوں میں کافی حد تک بڑھا ہے۔ ایران نے بڑی احتیاط کے ساتھ سابق شمالی اتحاد کے عناصر کے ساتھ اپنے روایتی روابط کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور معاونت بھی کی۔ تہران افغانستان سے امریکی انخلا کو آسان نہیں ہونے دے گا۔ جبکہ روس نے طالبان کے ساتھ تعاون کی راہیں کھولنے اور افغان داخلی مذاکرات کی ابتدا کی کوشش کرتے ہوئے خود کو اس کھیل میں شامل کیا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں افغان سیاسی حل سے طالبان حکومت بحال نہ ہوجائے۔ لہٰذا اب بھارت افغانستان میں موجود اپنے‘ اثاثوں‘ کو ایران اور روس کی اچھے تعلقات کے ذریعے محفوظ بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے مرحلے کی میزبانی کے ذریعے اس امن عمل کا حصہ بنے۔ تاہم ان کے اثر و رسوخ کا اندازہ طالبان کی جانب سے ریاض میں مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت سے انکار سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب کا اصرار تھا کہ وہ کابل انتظامیہ سے بات چیت کریں۔ طالبان کی جانب سے افغان داخلی مذاکرات کی مزاحمت سے قطر، جسے سعودیوں نے کنارے سے لگا دیا ہے، کافی مطمئن نظر آتا ہے۔

چین کے ہاتھ میں اس کھیل کے اہم ’نہ کھیلے گئے‘ پتے ہیں۔ یہ اپنے مالی اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے خطے کے تمام کھلاڑیوں، پاکستان، ایران، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین ان پتوں کو امریکا اور چین کے درمیان تناؤ سے بھرپور بدلتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں کھیلے گا۔ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں امریکا، تھیوری کے اعتبار سے طالبان کی زیادہ تر شرائط پوری کر سکتا ہے، جن میں انخلا کا ٹائم ٹیبل، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پر عائد سفری و دیگر پابندیوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم 2 ایسے معاملات ہیں جو امریکا اور طالبان کے درمیان جاری اس عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ پہلا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے کسی حل پر اتفاق کے بعد امریکی انسدادِ دہشتگردی اہلکاروں کی موجودگی اور دوسرا ہے افغان داخلی مذاکرات۔

امریکا افغانستان میں اپنے پیچھے ایک چھوٹی انسدادِ دہشتگردی فورس چھوڑ جانا چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، طالبان نے امریکا کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کے دوران اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اگر ایران اور روس اس قسم کی مسلسل امریکی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں تو طالبان کا مؤقف تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی انسدادِ دہشتگردی پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ طالبان کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر غیر آمادگی ایک سب سے اہم رکاوٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت جائز تھی جسے 2001ء میں طاقت کے زور پر ختم کیا گیا۔ انہیں یہ بھی ڈر ہو سکتا ہے کہ داخلی افغان مذاکرات اور جنگ بندی سے شورش کا زور متاثر ہو سکتا ہے اور ان کی جھگڑالو مہم تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے۔

تاہم ممکن ہے کہ طالبان اپنی طاقت کے بھرم کا شکار ہوں۔ ٹرمپ کو ایک طرف رکھیے، امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں اپنی ذلت قبول نہیں کرے گی۔ امریکی جارحانہ رویہ شاید کابل میں خلیل زاد کی مذاکرات یا لڑائی کے جذباتی بیان تک ہی محدود نہ ہو۔ نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کے لیے اگر کوئی فیس سوینگ یا اپنا وقار برقرار رکھنے کا کوئی فارمولہ نہ ہو تو امریکا مزید جارحانہ آپشنز کی طرف جا سکتا ہے، جیسے جنگ کی نجکاری۔ ایسی تجویز سابق بلیک واٹر کے ایرک پرنس نے دی تھی کہ کابل میں حنیف اتمر جیسا کوئی سخت شخص بٹھا دیا جائے جو لڑائی جاری رکھے اور طالبان کے خلاف خراسان گروپ میں جنگجو دولت اسلامیہ کے عناصر کی معاونت کرے اور طالبان رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں کی مہم شروع کرے۔ (لیکن روس اور ایران کے مطابق تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہو رہا ہے)۔

دوسری طرف، طالبان کو خطے کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کی جانب سے کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے انکار پر ایران ان کی حوصلہ افزائی تو کرتا ہے لیکن ان کے وزیرِ خارجہ نے نئی دہلی میں یہ اعلان کیا تھا کہ تہران مستقبل کی حکومت میں طالبان کی غالب طاقت نہیں چاہتا۔ روس بھی ایک متوازن نتیجہ چاہتا ہے جبکہ چین پاکستان کی طرح طالبان حکومت کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو قبول کر سکتا ہے، مگر یہ ایک تھوپے گئے حل کے بجائے ایک مذاکراتی حل کو فوقیت دے گا۔ طالبان نے اب تک اچھا کھیل کھیلا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کھیل میں اب تک جو جیتا ہے صرف اس کے ساتھ ہی خوش رہیں۔ طالبان کی جنگی فتح کو امریکا اور خطے کی طاقتوں دونوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے دیرپا سیاسی حل ہی بہترین ثابت ہو گا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مذکورہ دونوں مسائل کے سفارتی حل نکالنے کے لیے اسلام آباد بہتر پوزیشن میں ہے۔ ایک بین الاقوامی یا اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشتگردی فورس اقوام متحدہ اور/یا تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے ذریعے بنائی جا سکتی ہے۔ کابل میں عبوری یا غیرجانبدار حکومت کے قیام، انتخابات کو التوا میں ڈالنے اور اس کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے لیے جنگ بندی سے طاقت کی تقسیم کے فارمولے پر افغان داخلی مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کے نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کا موقع فراہم ہو سکتا ہے۔

افغان پارٹیوں کو حل قبول ہو، اس کے لیے ان کے ساتھ امریکا، یورپ، چین اور گلف کوپریشن کونسل (جی سی سی) کی جانب سے مستقبل میں مالی معاونت کے وعدوں سمیت انہیں مناسب مراعات کی پیش کش بھی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے مربوط اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کے مفادات میں بہتر سفارتی کردار کو ذاتی مفادات کے لیے بھی استعمال کرنا ہو گا، مثلاً، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو نارمل سطح پر لانا، افغانستان کی زمین سے ہونے والی بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کی دہشتگردی کا خاتمہ، افغان مہاجرین کی واپسی اور سی پیک کا پھیلاؤ اور اس پر بلا تعطل عمل، امریکا کی جانب سے اعتراض کا خاتمہ اور اس منصوبے میں جی سی سی کی شراکت داری۔

منیر اکرم
یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 جنوری 2019 کو شائع ہوا۔
 

دنیا میں دولت کی غیرمساوی تقسیم ؟

$
0
0

دنیا بھر کے انسانوں کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل وجہ عدم مساوات پر مبنی وہ نظام ہے، جس نے دنیا کی آبادی کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسرے کی غربت میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں آکسفام ویلتھ المعروف ایکس تھنک ٹیکس کی رواں سال کی سالانہ رپورٹ جس کو ’’ پبلک گڈ اور پرائیویٹ ویلتھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی عوامی مفاد یا ذاتی دولت خصوصی توجہ کی حامل ہے۔ اس کے مطابق 2016 میں امیروں کی دولت میں 12 فیصد یومیہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ ڈھائی ارب ڈالر بنتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل معاشی بحران کے بعد سے امیر ترین افراد کی تعداد دگنا ہو گئی ہے جبکہ دنیا کی نصف آبادی کی دولت میں گیارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ 

دنیا کے 26 افراد کے پاس 1.4 ٹریلین ڈالر ہیں، جو 3 ارب 8 کروڑ افراد کی دولت کے مساوی ہیں۔ 2017 میں 43 افراد کے پاس دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی تھی جبکہ 2016 میں 61 افراد کے پاس دولت دنیا بھر کی نصف آبادی کی دولت کے برابر تھی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں امیر ترین افراد کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ ویلتھ ایکس کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں 5 لاکھ چالیس ہزار افراد کی دولت ایک ملین ڈالر سے 30 ملین ڈالر
کے درمیان ہے، دنیا بھر کی مجموعی دولت 317 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ مجموعی آبادی سات ارب بیس کروڑ سے زائد ہے۔ 

اگر اس دولت کو مساوی طور پر تقسیم کر دیا جائے تو دنیا کا ہرفرد 44028 ڈالر کا مالک بن جائے گا۔ یہ رپورٹ دنیا میں پائی جانے والی عدم مساوات کی ہی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ ان اقوام کیلئے باعث شرم ہونی چاہئے، جو باشعور ہونے اور دنیا کو عدم مساوات سے پاک نظام فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ضروری ہے کہ عالمی سطح پر لوگوں کو مفت تعلیم، صحت اور سوشل سیکورٹی کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور انتہائی امیر لوگوں اور اداروں پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے ، ٹیکس وصولی کا منظّم نظام وضع کیا جائے اور ٹیکس سے حاصل شدہ رقم غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کی جائے۔

اداریہ روزنامہ جنگ


لاٹھی گولی کی سرکار ہے تو پھر عدالتوں کو تالے لگوا دیں

$
0
0

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے سے متعلق بار بار بدلتے ہوئے حکومتی موقف نے اس حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ایک پولیس افسر کی سربراہی میں بنائی جانے والی پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور منظرعام پر آنے والی ویڈیوز نے بھی محکمہ برائے انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔ 

اگر سی ٹی ڈی کا یہ موقف بھی مان لیا جائے کہ کہ گاڑی میں دہشت گرد سوار تھے تو بھی 13 سالہ بچے اور اس کی ماں کو اتنے نزدیک سے گولیاں مارنے کا کیا جواز تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق گاڑی میں سوار افراد کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا کیوں کہ عینی شاہدین کے بقول گاڑی میں سوار افراد غیر مسلح تھے۔ انسانی حقوق کمیشن کے چئیرمین کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی زیادہ تر خلاف ورزیاں حکومتی ادارے کرتے ہیں جن میں پولیس سر فہرست ہے۔ ان کے بقول اس واقعے نے ان تمام کیسز کے بارے میں بھی سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں جن میں افراد کو دہشت گرد قرار دے کر اٹھا لیا جاتا ہے۔

پاکستان کے سینئیر تجزیہ کار سید طلعت حسین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے، سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں سفر کرنے والی فیملی بے گناہ ہے جبکہ ڈرائیور کا تعلق دہشت گردوں سے تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کا موقف مان لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انسانوں کی آڑ میں سفر کرنے والے مطلوب افراد کے بارے میں آئندہ کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جو پہلے ہی بڑے دباو میں کام کر رہی تھی اس واقعے کے بعد تو بالکل ہی "ڈیفینسیو"ہو کر رہ گئی ہے، ’’سوشل میڈیا پر لوگ عمران خان کی تقریروں کے وہ کلپس شئیر کر رہے ہیں جن میں وہ پولیس ایکشنز کی ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر ذمہ داری کا تعین اوپر کی طرف کرتے ہوئے شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ 

اب لوگ اسی معیار پر عثمان بزدار اور عمران خان کا استعفی مانگ رہے ہیں۔‘‘ ان کے بقول جے آئی ٹی بنانے کا مقصد عوامی غصے کو کم کر کے حکومت پر آئے ہوئے دباو میں کمی لانا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما محمود الرشید نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے پر حکومتی وزرا کے مستعفی ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔  وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کر ابھی تک صدمے کی حالت میں ہیں۔ ان کے بقول اگرچہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف نمایاں خدمات سرانجام دیں لیکن قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں۔ ان کے بقول جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اس ضمن میں فوری کارروائی کی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، غیر سنجیدگی عروج پر ہے۔ حکومتی اہلکار خون میں لت پت ماں کو اغوا کار اور کبھی دہشت گرد کہتے ہیں، ’’بہری حکومت سے کہتا ہوں بربریت کے ذمہ داروں کو سرعام پھانسی دی جائے۔‘‘ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ قوم حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کو شہریوں کے قتل عام کا کس نے لائسنس دیا ہے۔ اگر لاٹھی گولی کی سرکار کا اقتدار ہے تو پھر عدالتوں کو تالے لگوا دیں۔

بشکریہ DW اردو

 

امریکا طالبان مذاکرات: کیا ملا برادر کی تعیناتی پاکستان کی فتح ہے؟

$
0
0

طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر کی بطور سیاسی دفتر کے انچارج تعیناتی کو کئی حلقے اسلام آباد حکومت کی فتح قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ سیاسی مبصرین دوحہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر کو طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کا دستِ راست سمجھا جاتا تھا۔ وہ کئی برس پاکستان کی قید میں رہے اور ان کو طالبان کے مطالبے پر پاکستان کی قید سے رہائی دی گئی۔ ماہرین کے خیال میں عام طور پر اگر کسی مسلح جدوجہد کرنے والے گروپ میں کوئی رہنما کسی ملک یا فریق کی قید میں وقت گزارتا ہے تو اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے کوئی بھی اہم عہدہ دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ برادرکو یہ عہدہ اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے قریب ہیں اور وہ مذاکرات میں پاکستان کے مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھیں گے۔ تاہم کئی سیاسی مبصرین ان مذاکرات کے کامیاب ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کو تنہا ہی ان مذاکرات کے لئے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک جیسا کہ ایران اور روس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے، ’’ملا برادر پاکستان اور طالبان دونوں کے ہی قریب ہیں۔ بھارت اور افغان حکومت شاید اس بات کا برا منائیں لیکن پورے مذاکرات کے عمل کو ہی پاکستان آگے بڑھا رہا ہے۔ میرے خیال میں خطے کے ممالک کو داعش کی موجودگی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں، جن پر ان مذاکرات کے دوران کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ تو میر ے خیال میں اسلام آباد کو خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر ان مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے ورنہ ان کے کامیابی کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔‘‘ لیکن کئی ناقدین کے خیال میں افغان حکومت کو مذاکرات سے باہر کر کے دوحہ بات چیت کی کامیابی کے امکانات کو پہلے ہی کم کر دیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں کابل حکومت اس مسئلے کی سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اس کے بغیر مذاکرات کی کامیابی نا ممکن ہے۔

افغانستان اور پختون تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کے خیال میں مذاکرات کی کامیابی کا راستہ کابل سے ہو کر جاتا ہے،’’اگر طالبان پاکستان، ایران اور دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان ممالک کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر وہ اپنی ہی حکومت سے بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ افغانستان کے امن کے لئے کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے جب تک افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا انکاری رہا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے لیکن اب ملا برادر کی تعیناتی سے نہ صرف کابل و نئی دہلی بلکہ پوری دنیا کہے گی کہ آپ طالبان کے پیچھے ہیں۔ تاہم کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں، جنہوں نے افغانستان کے پچاس فیصد سے زیادہ حصے پر اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے۔ 

کئی بین الاقوامی رپورٹیں بھی اس بات کا دعویٰ کر چکی ہیں کہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہی موجود ہے اور وہیں تربیت حاصل کرتی ہے۔ لہذا طالبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ ملا برادر کی تعیناتی پاکستان کی فتح کے طور پر مانی جائے گی،’’بھارت اور افغانستان اس تعیناتی پر اعتراضات اٹھائیں گے اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کریں گے۔ لیکن طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور پاکستان کے ان سے مراسم بھی ہیں۔ لیکن صرف پاکستان ہی طالبان سے رابطے نہیں کر رہا۔ روس، ایران اور چین سب طالبان کو ایک سیاسی حقیقت سمجھتے ہیں اور اب امریکا کا مذاکرات کرنے کا فیصلہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انہیں سیاسی حقیقت مانتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت طاقت ور نہیں ہے،’’میرے خیال میں مذاکرات کامیاب ہوں گے اور کابل حکومت وہی کچھ مانے گی جو امریکا کہے گا۔ امریکا ان مذاکرات کا حصہ ہے اور جب ایک مرتبہ واشنگٹن فیصلہ کر لے گا تو افغان حکومت کے پاس اسے ماننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہو گا۔‘‘

بشکریہ DW اردو

 

کیا امریکا افغانستان سے جانے پر تیار ہو گیا ؟

$
0
0

امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں 6 روز سے جاری مذاکرات کے بعد امن معاہدے کے مجوزہ مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے بعد 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی، مذاکرات میں 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر اتفاق کر لیا گیا، امریکا افغانستان سے جانے کیلئے تیار ہو گیا، طالبان ذرائع نے کہا کہ امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی، قیدیوں کا تبادلہ ہو گا جبکہ طالبان رہنمائوں کو بلیک لسٹ سے نکال کر ان پر عائد سفری پابندیاں ختم کر دی جائیں گی،عبوری حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات ہوں گے، ذرائع کے مطابق معاہدے کے تحت فوجی انخلا کے عوض طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش یا القاعدہ سمیت کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو مستقبل میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے.

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ملاقاتوں میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے جنگ بندی اور افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کی تردید کی ہے، ایک اعلامیہ میں ان کا کہنا تھا کہ ایشوز حساس نوعیت کے ہیں جنھیں حل کرنے کیلئے جامع مذاکرات کی ضرورت ہے اسی لئے حل طلب ایشوز کے لئے مستقبل میں اسی طرح کے مذاکرات کئے جائیں گے، ذرائع کے مطابق یہ ممکن ہے کہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے حتمی معاہدے کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کریں جو امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جلد ہونے کا امکان ہے، دوسری جانب امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ہم نے افغان امن عمل سے متعلق اہم معاملات پر خاطر خواہ پیشرفت حاصل کر لی ہے لیکن تمام امور پر اتفاق رائے تک کچھ حتمی نہیں ہو گا، طالبان کے ایک سینئر کمانڈر نے مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہت سارے مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں اور فریقین کئی اہم نکات پر متفق ہو گئے ہیں تاہم کئی معاملات اب بھی زیر بحث ہیں.

اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر طالبان کمانڈر نے بتایا کہ باقی ماندہ متنازع ایشوز کو حل کرنے کیلئے راستہ تلاش کیا جارہا ہے، افغان حکومت کا مسئلہ انہی میں سے ایک ہے، طالبان ذرائع کے مطابق غیر ملکی فوجی انخلاء ، طالبان قیادت پرپابندیوں کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات کئے جائیں گے جس میں طالبان اپنے لوگوں کی سفارش کرے گی ، یہ عبوری حکومت تین سال کیلئے ہو گی ، ذرائع کے مطابق جنگ بندی کا شیڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائے گا جبکہ طالبان جنگ بندی کے بعد افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر میں جاری مذاکرات میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان کے نمائندے بھی موجود تھے، مذاکرات میں شریک امریکی وفد کی قیادت امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کی جبکہ طالبان کی نمائندگی سینئر کمانڈر ملا عبدالغنی برادر نے کی.

ذرائع کے مطابق کہ اگر کوئی غیر متوقع صورتِ حال پیدا نہ ہوئی تو فریقین افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلا پر اتفاقِ رائے کا باضابطہ اعلان ہفتے اور پیر کے درمیان کسی وقت کر دیں گے، زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ʼدوحہ میں طالبان سے چھ روزہ مذاکرات کے بعد میں مشاورت کے لیے افغانستان جارہا ہوں، یہاں پر ملاقاتیں ماضی کی نسبت زیادہ سود مند رہیں اور ہم نے اہم معاملات پر خاطر خواہ پیشرفت کی ہے، انہوں نے کہا کہ ʼہم نے مثبت پیش قدمی کرتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کیا تاہم اب بھی کئی معاملات پر کام کرنا باقی ہے، تمام امور پر اتفاق رائے ہونا لازمی ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا کچھ حتمی نہیں ہو گا، جبکہ تمام امور میں افغان فریقین کے درمیان مذاکرات اور مکمل جنگ بندی شامل ہے، زلمے خلیل زاد نے طالبان سے مذاکرات کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے پر قطر کی حکومت اور اس کی اعلیٰ قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا، خبر رساں ادارے رائٹر نے افغان طالبان کے ذرائع سے خبر دی ہے کہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد اب امن کے اس مسودے کے بارے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بریفنگ دیں گے جس کے لیے وہ کابل روانہ ہو گئے ہیں، ذرائع کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے معاہدہ کے بارے میں مزید تفصیلات کچھ روز میں ایک مشترکہ بیان میں جاری کی جائیں گی.

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

کیا امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہو گئے ہیں ؟

$
0
0

افغان امن عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان حکام افغانستان سے دہشت گردوں کو باہر نکالنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر راضی ہو گئے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابل میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس فریم ورک کا ایک مسودہ ہے جو معاہدے سے قبل وضع کیا جائے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے اطمینان کے لیے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان کو کبھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں یا افراد کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے جو ضروری ہے وہ کیا جائے‘۔

علاوہ ازیں گزشتہ ہفتے دوحہ قطر میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کرنے والے زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی کو دوحہ میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’گزشتہ شب ہماری پیش رفت پر صدر اشرف غنی کو بریفنگ دی گئی، افغانستان میں امن امریکا کی اولین ترجیح ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کو تمام افغانوں سے شیئر کرنا چاہیے‘۔ دوسری جانب افغان صدارتی دفتر نے زلمے خلیل زاد کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ کے دعوے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی۔

افغان حکام کے بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی اور ان کی کابینہ کو دوحہ مذاکرات پر بریفنگ دی لیکن ساتھ ہی بتایا کہ انہیں نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ان کے انٹرویو کے کچھ نکات سے اختلاف کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے طالبان کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کی لیکن ’اس معاملے پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی‘۔
افغان حکام کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس معاملے پر بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

تاہم زلمے خلیل زاد نے نیو یارک ٹائمز کو کہا کہ امریکا اور طالبان کے نمائندوں نے یہ اعتماد محسوس کیا کہ مذاکرات صحیح سمت میں جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کافی اعتماد محسوس کیا کہ ہمیں اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے اور تفصیلات پر کام کرنا بھی ضروری ہے۔ سینئر امریکی حکام نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ طالبان کے وفد نے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے امریکی اصرار اور کسی حتمی معاہدے کے حصے کے طور پر جنگ بندی پر رضا مند ہونے سے متعلق اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے طالبان کو واضح کیا کہ تمام زیر بحث آنے والے معاملات ایک ’پیکج ڈیل‘ کے حصے کے طور پر ’منسلک‘ ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

 

ہواوے نے امریکی الزامات مسترد کر دیے

$
0
0

چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے نے امریکی حکام کی جانب سے عائد کیے گئے مجرمانہ نوعیت کے الزامات مسترد کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ یہ الزامات ’مایوسن کن‘ ہیں۔ ہواوے نے کمپنی کی چیف فنانشل افسر منگ وانزو پر عائد کیے گئے الزامات کو بھی رد کیا ہے۔ منگ کو گذشتہ ماہ کینیڈا میں امریکی حکام کی درخواست پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دنیا میں ’سمارٹ فون‘ بنانے والی دوسری سب سے بڑی کمپنی کے خلاف امریکہ میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں بینک فراڈ، انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور ٹیکنالوجی کی چوری بھی شامل ہیں۔ یہ مقدمے چین اور امریکہ کے تعلقات میں مزید تناؤ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

ہواوے نے الزامات مسترد کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ادارے کو ’کمپنی کے خلاف الزامات سن کر ماہوسی ہوئی‘۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجارتی راز چرانے سے متعلق الزامات ایک دیوانی مقدمے سے متعلق ہیں جس میں جیوری نے نہ ہی ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی اسے اس معاملے میں بدنیتی کا کوئی عنصر نظر آیا‘۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کمپنی کو منگ کی طرف سے کی گئی کسی قسم کی خلاف ورزی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ امریکہ کے وزیرِ تجارت ولبر راس کا کہنا ہے کہ ’برسوں سے چینی کمپنیاں ہمارے برآمدی قوانین توڑ رہی ہیں اور عائد شدہ پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور بیشتر اوقات ہمارا مالیاتی نظام غیر قانونی سر گرمیوں میں انھیں سہولت دیتا رہا ہے۔ یہ اب نہیں ہو گا‘۔

الزامات کیا ہیں؟
ہواوے پہ الزام ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی دو ذیلی کمپنیوں ’ہواوے ڈیوائس یو ایس اے‘ اور ’سکائی کوم‘ کمپنیوں سے اپنے تعلق کے بارے میں امریکہ اور ایک بین الاقوامی بینک کو اندھیرے میں رکھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ایران پر ان پابندیوں کو دوبارہ نافذ کر دیا تھا جو 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ختم کر دی گئی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ نے حال ہی میں ایران پر مزید سخت پابندیاں بھی عائد کی ہیں جن کا نشانہ تیل کی درآمد، بینکاری اور جہاز رانی کی صنعت ہیں۔

دوسرا کیس ہواوے پر یہ ہے کہ اس نے موبائل فونوں کی پائیداری کا تجزیہ کرنے والی ٹی موبائل نامی کمپنی کی ایک ٹیکنولوجی چوری کی۔ اس کے ساتھ کمپنی پر انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور رقم کی منتقلی کے فراڈ کا الزام بھی ہے۔
امریکی حکام نے مجموعی طور پر کمپنی کے خلاف 23 الزامات عائد کیے ہیں۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رئے نے کہا ’اس فرد جرم نے ہمارے ملک کے قانون اور عالمی کاوباری طور طریقوں کے بارے میں ہواوے کے انکاری رویے کو برہنہ کر کے رکھ دیا ہے‘۔ رئے نے کہا ہواوے جیسی کمپنیاں ’ہماری معیشت اور ہماری قومی سلامتی کے لیے دوہرا خطرہ ہیں‘۔

اس معاملے کا سیاق و سباق کیا ہے؟
ہواوے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کا سامان اور سہولیات مہیا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ حال ہی میں اس نے ایپل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سام سنگ کے بعد دنیا میں سمارٹ فون بنانے والی دوسری بڑی کمپنی کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ لیکن امریکہ اور بیشتر مغربی ممالک کو یہ تشویش ہے کہ چینی حکومت ہواوے کو اپنی جاسوسی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے جبکہ کمپنی کا یہ کہنا ہے کہ اس پر حکومت کا کوئی ’کنٹرول‘ نہیں۔ ہواوے کے بانی کی بیٹی منگ کی گرفتاری نے بھی چین کو بھڑکا دیا ہے۔ انھیں امریکہ کی درخواست پہ کینیڈا کے مغربی شہر وینکوور سے یکم دسمبر کو گرفتار کیا گیا۔

انھیں بعد میں مقامی عدالت سے ایک کروڑ کینیڈین ڈالر کے عوض ضمانت ملی لیکن ان کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہے اور ان کے ٹخنے پر برقی نگرانی کا آلہ بھی لگا دیا گیا ہے۔ یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب رواں ہفتے امریکا اور چین کے درمیان واشنگٹن میں اعلیٰ سطح کی تجارتی بات چیت ہونے والی ہے۔ البتہ الزامات کا زیادہ زور امریکی ٹیکنولوجی کی چوری پر ہے جو کہ ہمیشہ سے تجارتی مزاکرات میں مشکل مدعا ہوتا ہے۔ امریکی صدر نے چینی مصنوعات پر 250 ارب ڈالر کا ٹیرف لگایا جس کے جواب میں چین نے بھی اپنے ٹیرف متعارف کروائے۔ دونوں ممالک میں گذشتہ مہینے میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ 90 دن کے لیے نئے ٹیرف معطل کر دیے جائیں تاکہ مذاکرات ہو سکیں۔ امریکا کے سیکریٹری تجارت ولبر راس نے کہا ہے کہ ہواوے پر مقدمہ اور چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات دو ’بالکل الگ‘ معاملات ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>