Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

کیا صدر ٹرمپ نے دنیا کو مایوس کیا ؟

$
0
0

امریکہ میں حزب اقتدار رپبلکن پارٹی کے سابق صدراتی امیدوار اور یوٹا ریاست سے سینیٹر مٹی رومنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ دنیا بھر میں مایوسی پھیلانے کا باعث بنے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں مٹ رومنی نے کہا ہے کہ ٹرمپ صدارت کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے اہلیت ثابت نہیں کر پائے ہیں۔ مٹ رومنی صدر ٹرمپ کے ہمیشہ سے شدید ناقد رہے ہیں لیکن پھر بھی صدر ٹرمپ نے ریاست یوٹاہ سے ان کے سنییٹر منتخب ہونے کی حمایت کی تھی۔ مٹ رومنی کی طرف سے انتہائی سخت مضمون پر تاحال امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ماضی میں صدر ٹرمپ رومنی کے خلاف بیان دے چکے ہیں اور ایک مرتبہ انھوں نے رومنی کو ناکام امیدوار قرار دیا تھا جبکہ سنہ بیس ہزار بیس کی صدارتی مہم کے مینیجر مٹ رومنی کو جلن اور حسد کا مارا کہہ چکے ہیں۔ مٹ رومنی کے سینیٹ میں حلف سے دو دن قبل اس مضمون کی اشاعت نے بہت سے لوگوں کی طرف سے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ مٹ رومنی آئندہ صدارتی انتخابات میں رپبلکن جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس مضمون میں کیا کہا گیا ہے؟
اس مضمون میں مٹ رومنی نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹیکس اصلاحات اور قدامت پسند ججوں کے عدلیہ میں تقرر جیسی پالیسی کی تعریف بھی کی ہے جس کے لیے رپبلکن جماعت ایک عرصے سے کوشاں رہی ہے۔ لیکن مٹ رومنی نے اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا ہے کہ جب قوم منقسم، ناراض اور غصے سے بھری بیٹھی ہے ایسے میں ایک انتہائی باصلاحیت شخص ہونا ضروری تھا۔ اور اس موقع پر موجودہ صدر کی نااہلی بہت واضح ہے۔ پالیسی فیصلے اور تقرریاں کرنا صدارتی ذمہداریوں کو صرف معمولی سا حصہ ہوتے ہیں لیکن صدر کو قوم میں ہم آہنگی، یگانگت، امید پیدا کرنا ہوتی ہے اور اہم حساس قومی اداروں کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات نے دنیا بھر میں مایوسی پھیلائی ہے۔ مٹ رومنی نے کہا کہ وہ صدر کےان تمام اقدامات اور پالیسی فیصلوں کی حمایت کریں گے جو ان کی ریاست یوٹاہ اور امریکہ کے مفاد میں ہوں گے لیکن ان تمام اقدامات کی مخالفت کریں گے جو تقسیم، نسلی اور جنسی تعصب، بد دیانتی، تباہی کا باعث ہوں گے اور جو غیر جمہوری اور امیگریشن کے مخالف ہو گے۔

اس پر رد عمل کیا ہے؟
مٹ رومنی کے اس مضمون کا امریکی ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں میں بڑا ذکر ہو رہا ہے۔ بہت سے ذرائع ابلاغ نے یہ قیاس آرائی کی ہے کہ مٹ رومنی امریکی کانگرس میں صدر کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آنے کی کوشش میں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ مضمون کے بڑے حصے سے یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کے متبادل کے طور پر ایک امیدوار ابھر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے مٹ رومنی کی تعریف کی ہے لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ انھیں اس سے آگے بھی کچھ کہنا چاہیے تھا۔ قدامت پسند مبصر اور ٹرمپ کے حامی لکھاریوں نے رومنی پر موقع پرستی اور دوغلے پن کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ان دونوں شخصیات کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
ان دونوں شخصیات کے درمیان تعلقات بہت پیچیدہ ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں رومنی نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا تھا کہ نہ ہی ٹرمپ میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی ان میں اتنا صبر اور استقامت ہے کہ وہ صدر بن سکیں۔ ٹرمپ نے رومنی کو ایک ناکام اداکار اور سنہ دو ہزار بارہ میں صدارت کے لیے ان کی کوشش کو بدترین قرار دیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو



 


ناروے میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کا نیا عالمی ریکارڈ

$
0
0

شمالی یورپی ملک ناروے میں گزشتہ برس فروخت کی گئی نئی گاڑیوں کی کل تعداد میں سے قریب ایک تہائی الیکٹرک کاریں تھیں۔ اس طرح اسکینڈے نیویا کی اس ماحول دوست بادشاہت نے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس شعبے کی ملکی تنظیم نارویجیئن روڈ فیڈریشن نے بتایا کہ دو روز قبل ختم ہونے والے سال میں اس ملک میں جتنی بھی نئی گاڑیاں فروخت کی گئیں، ان میں سے اکتیس فیصد سے زائد مکمل طور پر الیکٹرک کاریں تھیں۔ اسکینڈے نیویا کا یہ ملک تہیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ اپنے ہاں 2025ء تک روایتی طور پر پٹرول یا ڈیزل جیسے معدنی ایندھن سے چلنے والی تمام گاڑیوں کی فروخت بند کر دے گا۔

اس سلسلے میں نارویجیئن کار انڈسٹری اور ملکی صارفین کی ترجیحات سے متعلق گزشتہ برس کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ یورپی ریاست اپنے آج سے چھ سال بعد تک کے ہدف کی طرف مسلسل لیکن کامیابی سے گامزن ہے۔ یہ بات عالمی سطح پر بھی ایک نیا ریکارڈ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی ایک سال کے دوران فروخت کی گئی گاڑیوں کی کل تعداد میں سے قریب ایک تہائی ایسی الیکٹرک کاریں تھیں، جو ماحول کو بالکل نہ ہونے کے برابر نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس سے قبل 2017ء میں ناروے میں ایسی نئی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کی سالانہ شرح 20.8 فیصد اور اس سے بھی چار برس قبل 2013ء میں محض 5.5 فیصد رہی تھی۔

اس رجحان کا ایک دوسرا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اسکینڈے نیویا کے اس ملک میں روایتی پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کی سالانہ فروخت پچھلے چند برسوں سے مسلسل کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ناروے میں عوامی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کو زیادہ پسند کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت ملک میں ذرائع آمد و رفت کی وجہ سے فضا میں خارج ہونے والی سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں بہت زیادہ کمی کرنا چاہتی ہے اور نئی گاڑیاں خریدنے والے شہریوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ الیکٹرک کاریں ہی خریدیں۔ اس کے لیے حکومت نے نئی الیکٹرک کاریں خریدنے والے شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں بہت زیادہ چھوٹ کا پروگرام بھی متعارف کرا رکھا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان اور ترکی ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں ؟

$
0
0

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ترکی پہنچے ہیں جہاں ان کی ترکی کے صدر طیب رجب اردگان سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ عمران خان کا ترکی کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان سعودی عرب اور متحدہ امارات کے دورے کر چکے ہیں جہاں ان کا اہم مقصد پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا اور دوست ممالک سے امداد حاصل کرنا تھا۔ پہل سعودی عرب نے کی۔ سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک سال میں تین ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا اور اس پر عمل بھی شروع ہو گیا۔ اس کے علاوہ اس نے تین سال تک مؤخر ادائیگیوں پر تقریباً نو ارب ڈالر مالیت کا تیل دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی جو کہ ایک عمران کی معاشی طور پر کمزور نوزائیدہ حکومت کے لیے ایک خوش آئند بات تھی۔

پاکستان ترکی سے کیا چاہتا ہے؟
لیکن پاکستانی وزیرِ اعظم ترکی سے امداد کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترکی پاکستان میں سرمایہ کرے اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا قحط اب ختم ہو جس نے پاکستانی معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے ترکی بزنس کمیونٹی کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آئیں اور پاکستان میں کنسٹرکشن، سے لے کر سیاحت، اور قدرتی وسائل کی دریافت تک کے پراجیکٹس میں حصہ لیں۔ انھوں نے ترک تاجروں کو یہ بھی تسلی دی کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات دے رہی ہے اور اس سلسلے میں سرخ فیتے یا ریڈ ٹیپ ازم کو بالکل ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اور ترکی کیا چاہتا ہے؟
بی بی سی کی ترک سروس کی ارم کوکر کے مطابق 'دونوں ممالک میں تجارت کے فروغ کے لیے روایتی میمورینڈم آف انڈرسٹینڈنگ یا یادداشت کے دستاویز پر تو دستخط ہوں گے ہی لیکن ترکی کی زیادہ دلچسپی اس بات میں ہے کہ پاکستان امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والی فتح اللہ گولن کی تحریک اور تنظیم کے خلاف کیا کچھ کر رہا ہے۔' پاکستان پہلے ہی گولن تحریک کے تحت پاکستان میں چلنے والے سکول ترکی کی معارف فاؤنڈیشن کے سپرد کر چکا ہے۔
یاد رہے کہ ترکی نے 2016 کے ناکام انقلاب کے بعد، جس میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، معارف فاؤنڈیشن کا قیام کیا تھا جس کا مقصد ان تمام سکولوں کا انتظام سنبھالنا تھا جو ملک کے اندر اور باہر گولن نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ ترکی کا الزام ہے کہ انقلاب کے پیچھے گولن نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔ گذشتہ ماہ پاکستان کے سپریم کورٹ نے گولن کے نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دینے کی ایک درخواست تسلیم کی تھی۔

پاکستان سپریم کورٹ کے جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی تنظیم کو اس کا اپنا ملک ہی دہشت گرد قرار دیتا ہے تو پاکستان بھی اسے اس طرح ہی تسلیم کرے گا۔ ارم کہتی ہیں کہ 'اس طرح ترکی کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جس نے گولن نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد نیٹ ورک تسلیم کیا ہے اور ترکی اپنے دوست ملک کے اس فیصلے کو خوش آمدید کہتا ہے۔' دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا اس وقت ہوا جب پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ترکی کے کونسٹیٹیوشنل کورٹ کے صدر کی دعوت پر ترکی جا رہے تھے۔ اور یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی اسی شہر یعنی کونیا گئے جہاں چیف جسٹس گئے تھے اور دونوں نے مولانا رومی کے مزار پر حاضری دی۔

پاک ترک ممالک کے تعلقات
پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو اس کے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ تجارت سے لے کر فوجی تربیت اور فوجی معاہدوں تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ترک میڈیا میں چھپنے والا اطلاعات کے مطابق گذشتہ سال پاکستان اور ترکی کے درمیان تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالیت کا فوجی معاہدہ ہوا تھا۔ اسی طرح ترک فوجی پاکستان میں آ کر تربیت لیتے ہیں اور پاکستانی فوجی ترکی جا کر۔ بلکہ پاکستان کے سابق فوجی آمر اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے تو اپنی ترکی میں ایک لمبے عرصے تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ترک جمہوریہ کے بانی کمال اتا ترک تو ان کے آئیڈیل تھے۔ اسی طری موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی کمال اتا ترک کے ترکی ماڈل کا ذکر کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ پاکستان میں کئی شاہراہیں کمال اتا ترک کے نام پر ہیں جبکہ ترکی کی اہم مصروف شاہراہ جناح جادیسی پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام پر ہے۔

لیکن کیا ہمیشہ ہی تعلقات بہتر رہے
ویسے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ ان میں دراڑ افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران اس وقت آئی جب پاکستان طالبان کی جبکہ ترکی شمالی اتحاد کی حمایت کر رہا تھا۔ شمالی اتحاد میں زیادہ تر ازبک اور ترک نژاد افغان تھے جبکہ طالبان میں اکثریت پختون کی تھی جن کی پاکستان حمایت اور مدد کر رہا تھا۔ اور دونوں گروہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔ اس کے علاوہ ترکی چین میں مسلم اویغوروں کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان اپنے ہمسائے اور درینہ دوست چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور ای ٹی آئی ایم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے اپنی سرحد کے اندر ایسے کئی اویغروں کو ہلاک کیا ہے جن پر شبہ تھا کہ وہ چین میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث تھے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

امریکی خواتین سینیٹرز کا قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف

$
0
0

امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب ہونے والی مسلم خواتین سینیٹرز نے تقریب حلف برادری میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا کر نئی تاریخ رقم کر دی ۔  فلسطینی اور صومالی نژاد امریکی کانگریس کی مسلم خواتین ارکان راشدہ طلیب اور الہان عمر نے 116ویں کانگریس کا حصہ بنتے ہوئے 435 ممبران کے درمیان پہلی مسلم خواتین سینیٹرز کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ حلف برداری کی تقریب میں راشدہ طالب نے فلسطین کا روایتی لباس تھوب زیب تن کیا۔ فلسطینی نژاد سینیٹر 42 سالہ راشدہ کے والدین فلسطینی شہر بیت المقدس میں پیدا ہوئے، تاہم بعد ازاں ان کا خاندان امریکی ریاست مشی گن آکر آباد ہوا، جہاں راشدہ پیدا ہوئیں، وہ 14 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔

انہوں نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 2008ء میں مشی گن کی ریاستی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ دوسری جانب 37 سالہ الہان عمر پہلی خاتون ہیں جنہوں نے حجاب پہن کر حلف اٹھایا، ان کے آباؤ اجداد کا تعلق افریقی ملک صومالیہ سے تھا۔ انہوں نے جہاں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا، وہیں انہوں نے حجاب پہن کر ایک نئی تاریخ رقم کی، امریکی کانگریس کے چیمبر میں حجاب پہن کر حلف اٹھانے پر گزشتہ 181 سال سے پابندی عائد تھی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ والد نور محمد بھی موجود تھے۔
 

ٹرمپ کا یوٹرن ، پاکستانی سفارت کاری کی فتح

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی پوری دنیا پر عیاں ہے۔ افغانستان میں آ کر نئی افغان پا لیسی کا اعلان کرنے، پاکستان کے بارے میں تمام اخلاقی و سفارتی حدود پامال کرنے اور پھر ٹویٹ پر ٹویٹ کا منہ توڑ جواب ملنے اور طالبان سے امن مذاکرات میں پیشرفت کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلد پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے منتظر ہیں، انہوں نے بھارتی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا بھارت افغانستان میں طالبان سے کیوں نہیں لڑتا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا لیکن وہاں لڑتے لڑتے خود تحلیل ہو کر روس بن گیا۔ افغان جنگ امریکہ کو اربوں ڈالر میں پڑی، اب ہم افغانستان میں وہ کرنے جا رہے ہیں جو درست ہے۔ 

پاکستانی دفتر خارجہ نے ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیادت کی سطح پر امریکہ سے مثبت مذاکرات کے خواہاں ہیں، البتہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوائے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کیساتھ اور نہ ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بنیاد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے دوران رکھی گئی تاہم ان میں مضبوطی، سائوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) اور بغداد پیکٹ (سینٹو) جیسے دفاعی منصوبوں کے بعد آئی۔ 1961 میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے طیارے کی سیڑھیاں چڑھ کر انکا استقبال کیا اور پوری امریکی انتظامیہ ایئر پورٹ پر موجود تھی.

سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں امریکی صدر نکسن نے یحییٰ خان سے چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے تعاون طلب کیا اور پاکستان نے ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر چین بھجوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے یورینیم افزودگی پر امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے جو سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد بحال ہوئے تاہم اس جنگ میں سوویت یونین کی شکست و تحلیل کے بعد امریکہ بے نیاز ہو گیا بلکہ پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان کی امداد بھی بند کر دی، اسی دوران امریکہ کا زیادہ میلان بھارت کی طرف ہو گیا جس سے اس نے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کیا اور اسلحہ بھی فراہم کیا کہ وہ چین کا ہم پلہ ہو سکے۔ پاکستان کیلئے یہ امر قابل برداشت نہ تھا چنانچہ سرد مہری بڑھتی چلی گئی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن گیا اور بے پناہ نقصان اٹھایا۔

اس دوران ٹرمپ امریکی صدر بن گئے اور دنیا ایک بار پھر تبدیلیوں کی زد میں آ گئی۔ ٹرمپ نے ہرممکن کوشش کی بلکہ ’’گاجر اور چھڑی‘‘ پالیسی بھی اپنائی کہ پاکستان افغان طالبان سے اس کی گلوخلاصی کرائے لیکن ان کی دریدہ دہنی سے پاکستانی قوم میں غم و غصہ پیدا ہوا اور یہ بیانیہ سامنے آیا کہ ’’پاکستان اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیگا‘‘۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹرمپ کے ہر بیان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا، جس سے امریکی صدر کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ پاکستانی قوم اپنے بیانیے پر قائم ہی نہیں یکجا و یکسو بھی ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے متمنی بھارت پر بھی برس پڑے اور کہا کہ امریکہ ہی کیوں؟ 

پاکستان، بھارت اور روس بھی افغان طالبان کیخلاف لڑیں۔ پاکستان کا اس ضمن میں بیانیہ چونکہ ان کے سامنے ہے چنانچہ انہوں نے نئی پاکستانی قیادت سے ملاقات کی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے یہ بے بنیاد جواز بھی پیش کر دیا کہ اس ملاقات میں پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات پر بھی بات ہو گی۔ ٹرمپ کا حالیہ بیان ان کی شکست خوردگی کا عکاس ہے اور پاکستان کی سفارتی کامیابی۔ امریکہ اب افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو نہ صرف معروضی حالات بلکہ عواقب کے بارے میں بھی مکمل سوچ بچار کے بعد کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ امریکہ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ خرابی بسیار کا باعث ہی بنے گا۔

اداریہ روزنامہ جنگ

سکندریہ : مصر کا ایک تاریخی شہر

$
0
0

سکندریہ مصر کا ایک تاریخی شہر ہے جس کی بنیاد سکندراعظم نے 332 قبل مسیح کے لگ بھگ رکھی۔ بحیرۂ روم کے نہایت اہم تجارتی راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بہت جلد انتہائی اہم شہر اور بندرگاہ بن گیا۔ یہ قدیم یونانی اور یہودی تہذیب کا بہت بڑا مرکز رہا۔ پرانے زمانے میں یہ شہر روشن مینار کی وجہ سے مشہور تھا جو سات عجائبات عالم میں شامل ہے۔ یہاں کا کتب خانہ بھی زمانہ قدیم میں مشہور تھا اور اپنے وقت کا سب سے بڑا کتب خانہ شمار کیا جاتا تھا۔ 

سکندریہ مسیحیوں کا بھی مرکز رہا۔ روم اور قسطنطنیہ کے بعد یہ مسیحی دنیا کا تیسرا اہم شہر شمار ہوتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد صیہونیت کے خلاف پیدا ہونے والے ردعمل کے بعد یہاں کی یہودی آبادی تیزی سے کم ہوئی۔ 1950ء اور 60ء کی دہائی میں زیادہ تر یہودی اسرائیل، فرانس، برازیل اور دیگر ممالک چلے گئے۔ 

سکندریہ اب قاہرہ کے بعد مصر کا دوسرا بڑا شہر اور معاشی مرکز ہے۔ یہ طویل عرصہ پطیموسی، رومی اور بازنطینی سلطنت کے مصری حصے کا دارالحکومت رہا۔ 641ء میں مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔ انہوں نے فسطاط کو دارالحکومت بنایا جو بعدازاں قاہرہ میں ضم ہو گیا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے سکندریہ بین الاقوامی شپنگ انڈسٹری کا مرکز اور دنیا کا انتہائی اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ 

سکندریہ کی سب سے معروف مسجد جامع ابو عباس مرسی ہے جس کا نام تیرہویں صدی کے ایک صوفی بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ سکندریہ میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے بہت سی چیزیں ہیں۔ ان میں بیچز، آثار قدیمہ اور عجائب گھر شامل ہیں۔  

معروف آزاد


 

کیا چین، ایپل اور ٹرمپ عالمی معیشت کو بدل کر رکھ دیں گے ؟

$
0
0

چین، ایپل، ٹرمپ اور چار ایسے عناصر ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ عالمی معیشت کو بدل کر رکھ دیں گے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی یلغار، چین کی ترقی، بڑے بڑے شہروں کا دور، قرض میں اضافہ، تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی، تجارتی رکاوٹیں اور سبز انقلاب وہ عوامل ہیں جو عالمی معیشت کو بدل کر رکھ دینے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔برطانوی میڈیا کے مطابق جیف دیجاردنز کے خیال میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں انٹرنیٹ کی آمد وہ اہم موڑ تھا جس نے عالمی معیشت اور لوگوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ دیجاردنز نے اس کتاب کی ادارت کی ہے جس میں دنیا میں وسیع پیمانے پر آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

دیجاردنز نے انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا موازنہ نوکولس کاپرنیکس کی طرف سے پندرہویں صدی میں پیش کیے جانے والے اس نظریے سے کی ہے جس میں انھوں نے اس خیال کو چیلنج کیا تھا کہ ہماری دنیا اس کائنات کا مرکز ہے۔ انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بھی اس نوعیت کی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کا موجب بنا ہے۔ ٹیکنالوجی کے تغیر کو انسانی زندگی میں تبدیلی کا ایک اہم ترین ذریعہ تصور کیا جاتا ہے لیکن تبدیلی کے بہت سے دوسرے عوامل بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ لوگ، تجارتی طریقے، صارفین کی سوچ اور رویوں میں بدلاؤ اور عالمی اور علاقائی سیاست بھی۔  

بیجنگ کا اولمپک سٹیڈیم : سیاحوں کا نہایت پسندیدہ مقام

$
0
0

بیجنگ چین کا ایک ایسا شہر ہے جہاں لا تعداد قابل دید مقامات موجود ہیں۔ یہاں پر بہت زیادہ مشہورو معروف اور دلچسپ جگہیں ہیں۔ بیجنگ کا اولمپک سٹیڈیم ان میں سے ایک ہے۔ یہ سٹیڈیم سیاحوں کا نہایت پسندیدہ مقام ہے۔ یہ سٹیڈیم دراصل 2008ء کے اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے لیے بنایا گیا تھا۔ اولمپک کھیلوں کے بعد بھی اس کی مقبولیت اور کشش میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی۔ اس سٹیڈیم کا ڈیزائن جو کہ پرندوں کے گھونسلے سے مشابہہ ہے۔ یہ ڈیزائن دنیا کے دوسرے سٹیڈیمز سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ دور سے ایک گھونسلے کی طرح دکھائی دیتا ہے اور یہی چیز اس میں کشش کا باعث ہے۔

اولمپک کھیلوں کا آغاز 8 اگست 2008ء (08-08-2008) کو ہوا تھا۔ آٹھ کا ہندسہ چینیوں کے خیال کے مطابق بڑا مبارک سمجھا جاتا ہے۔ اس خیا ل کے پیش نظر اس ہندسے کا انتخاب کیا گیا۔ یہ کھیل 24 اگست تک جاری رہے۔ اولمپک کھیلوں کی افتتاحی اور اختتامی تقاریب اسی سٹیڈیم میں منعقد ہوئیں۔ بیضوی ڈیزائن کا یہ گھونسلہ نما سٹیڈیم جنوب سے شمال 1093 فٹ لمبا اور مشر ق سے مغرب تک 972 فٹ چوڑا ہے۔ اس کی اونچائی 226 فٹ ہے۔ بیٹھنے کے لیے سیٹوں کی تعداد ایک لاکھ رکھی گئی تھی۔ جن میں 200 سیٹیں وہیل چیئر پر بیٹھے معذورشائقین کے لیے تھیں۔ اولمپک کھیلوں کے اختتام پر 9000 سیٹیں ہٹا دی گئیں لیکن اب بھی سیٹوں کی تعداد 91000 ہے۔ اس سٹیڈیم کی تعمیر کا آغاز 24 دسمبر 2003 ء کو ہوا اور 28 جون 2008ء کو یہ سٹیڈیم مکمل ہو گیا۔ اس کی تعمیر پر 42 کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالر صرف ہوے۔ اس کی چھت بوقت ضرورت سکیڑی جا سکتی ہے۔

فقیر اللہ خان


بیجنگ سب وے : کل سٹیشنوں کی تعداد 218 ہے

$
0
0

بیجنگ شہر میں سب وے سسٹم چین کے بیسویں یوم انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر یکم اکتوبر 1969ء کو متعارف کروایا گیا۔ اس وسیع سسٹم کا نظم و نسق شہری انتظامیہ کے زیر کنٹرول ہے۔ موجودہ سب وے سسٹم کی سہولت شہری اور مضافاتی علا قوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ کل سٹیشنوں کی تعداد 218 ہے۔ بیجنگ سب وے میں روزانہ سفر کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جبکہ سالانہ دو ارب اٹھارہ کروڑ مسافر اس جدید سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے پورے ٹریک کی لمبائی 372 کلومیٹر ہے۔ اس وسیع انتظام کے باوجود یہ سہولت شہریوں کے لیے ناکافی ہے۔ شہر کی انتظامیہ اس سسٹم کو مزید وسعت دینے کے لیے پہلے ہی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ 

یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد ٹریک کی لمبائی 708 کلومیٹر ہو جائے گی اور لائنوں کی تعداد پندرہ سے بڑھ کر 19 ہو جائے گی۔ اس کو مزید وسیع کر نے کے لیے 2020ء تک سب وے کے ٹریک کی کل لمبائی 1050 کلومیٹر ہو جائے گی۔ دنیا میں سب وے کی لمبائی کے لحاظ سے بیجنگ کا سب وے رینکنگ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ شنگھائی، لندن کے سب ویز کی لمبائی بیجنگ کی سب وے سے زیادہ طویل ہے۔ مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے بھی بیجنگ سب وے رینکنگ میں چوتھے نمبر پر ہے، جبکہ ٹوکیو، سیئول اور ماسکو کے مسافروں کی تعداد بیجنگ کے مسافروں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ بیجنگ سب وے کی سہولت صبح پانچ بجے سے رات بارہ بجے تک انیس گھنٹوں تک مسافروں کے لیے کھلی رہتی ہے۔ 

فقیر اللہ خان


بریگزٹ : لاکھوں برطانوی شہریوں کی آئرش شہریت کے لیے درخواستیں

$
0
0

گزشتہ برس قریب دو لاکھ برطانوی باشندوں نے آئرلینڈ کی شہریت کے لیے درخواستیں دیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ برطانیہ اس سال مارچ کے اواخر میں یورپی یونین سے نکل جائے گا جب کہ جمہوریہ آئرلینڈ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ برطانیہ کے ہمسایہ ملک جمہوریہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کا عمل طے شدہ پروگرام کے مطابق مارچ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور ایسے برطانوی باشندوں کی تعداد کئی ملین ہے، جو اس وقت ذہنی طور پر اس لیے پریشان ہیں کہ بریگزٹ کے بعد وہ کئی ایسے فوائد اور مراعات سے محروم ہو جائیں گے، جو انہیں یونین کے شہریوں کے طور پر عشروں سے حاصل رہے ہیں۔

برطانیہ کے ہمسایہ ملک جمہوریہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کا عمل طے شدہ پروگرام کے مطابق مارچ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور ایسے برطانوی باشندوں کی تعداد کئی ملین ہے، جو اس وقت ذہنی طور پر اس لیے پریشان ہیں کہ بریگزٹ کے بعد وہ کئی ایسے فوائد اور مراعات سے محروم ہو جائیں گے، جو انہیں یونین کے شہریوں کے طور پر عشروں سے حاصل رہے ہیں۔ ایسی درخواستیں دینے والے سبھی برطانوی شہری ایسے باشندے ہیں، جن کا پہلے ہی کسی نہ کسی صورت میں شمالی آئر لینڈ یا جمہوریہ آئرلینڈ سے تعلق موجود ہے۔ ان افراد کو آئرش پاسپورٹوں کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرانے کی تحریک آئرلینڈ کے ایک قانون نے دی۔ اس قانون کے مطابق ہر وہ برطانوی شہری جو شمالی آئر لینڈ یا جمہوریہ آئرلینڈ میں پیدا ہوا ہو، یا جس کے والدین یا ان کے بھی والدین کا تعلق آئرلینڈ سے رہا ہو، وہ اپنے لیے آئرش شہریت کی درخواست دے سکتا ہے۔

بریگزٹ سے جڑے خدشات
برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اپنے ملک کے اخراج کا فیصلہ 2016ء میں ہونے والے ایک بریگزٹ ریفرنڈم میں معمولی اکثریت سے کیا تھا۔ اب جو برطانوی باشندے آئرلینڈ یا دیگر یورپی ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے اس اقدام کا سبب یہ بھی ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ 29 مارچ کو، جب برطانیہ کے اخراج کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد 27 رہ جائے گی، ان کے یورپی یونین میں رہائش اختیار کرنے یا کام کرنے کے حقوق محدود ہو جائیں گے۔ اس بارے میں آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن کووینی نے ڈبلن میں کہا کہ 2018ء میں آئرش شہریت اختیار کرنے والے برطانوی باشندوں کی تعداد میں اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 22 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ساتھ ہی کووینی نے یہ بھی کہا، ’’آئرش پاسپورٹ ایک بہت قیمتی دستاویز ہے۔‘‘

جرمنی میں بھی برطانوی شہریوں کی ریکارڈ درخواستیں
آئرلینڈ ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک میں بھی، جہاں کے سماجی اور اقتصادی حالات بہت اچھے ہیں، بڑی تعداد میں وہاں مقیم برٹش شہری مقامی شہریت کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی مثال جرمنی کی ہے، جو یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت اور اس بلاک کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی ہے۔ 2016ء کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد سے جرمنی میں مقیم برطانوی شہریوں کی طرف سے جرمن شہریت کے لیے دی گئی درخواستوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں جرمنی میں قریب ساڑھے سات ہزار برطانوی شہریوں نے جرمن شہریت کے لیے درخواستیں دیں۔

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان اور سعودی عرب کے بغیر طالبان اور امریکا کے مذاکرات

$
0
0

افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ سعودی عرب کے بغیر یہ دو روزہ مذاکرات خلیجی عرب ریاست قطر کے دارالحکومت میں ہوں گے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان  قطری دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا ایک نیا دور ہو گا۔ اس دو روزہ میٹنگ میں امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد طالبان نمائندوں کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے امکانات پر توجہ مرکوز کریں گے۔ یہ اس نوعیت کا چوتھا مذاکراتی راؤنڈ ہے۔ طالبان کے ایک نمائندے نے شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بعد اُن کی قیادت نے دوحہ مقیم اپنے نمائندوں کی امریکی سفیر کے ساتھ خلیجی ریاست کے دارالحکومت میں ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

طالبان کی جانب سے یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ دوحہ مذاکراتی راؤنڈ میں کسی اور ملک کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہو گا۔ گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے امریکا اور طالبان مذاکرات میں سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ طالبان کے اسی لیڈر نے واضح کیا کہ بات چیت کے اگلے راؤنڈ میں وہ امریکی اہلکاروں کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیڈر کے مطابق مذاکراتی عمل میں امریکی فوج کی واپسی، قیدیوں کے تبادلے اور طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کا خاتمہ اہم موضوعات ہیں۔

ایک سینیئر طالبان اہلکار کے مطابق دوحہ بات چیت میں کابل حکومت کا کوئی وفد شریک نہیں ہو گا۔ افغان طالبان نے ماضی میں کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کئی پیشکشوں کو مسترد کر دیا تھا۔ طالبان کا موقف ہے کہ کابل حکومت بااختیار نہیں بلکہ امریکا کی ایک کٹھ پتلی ہے۔ طالبان قیادت امریکا کو براہ راست اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات و مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کریں۔ اس حوالے سے ابھی تک طالبان لیڈر شپ نے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

اویغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں تفصیل سے علم نہیں

$
0
0

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کی مخدوش ترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے چین کی مدد 'تازہ ہوا کا جھونکا'ثابت ہوئی ہے۔
انھوں نے یہ بات ترک نیوز چینل ٹی آر ٹی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔
اسی انٹرویو میں چین میں مبینہ ریاستی جبر کا شکار اویغور مسلمانوں کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں تفصیل سے علم نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ چین نے پاکستان کا مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے ۔  عمران خان نے کہا کہ 'انھوں نے ہمارے لیے کئی مختلف شعبوں میں مدد کی ہے لیکن ان کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہے کہ میں آپ کو ان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ان کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔'
 

اسوان ڈیم، جس نے مصر کی معیشت پر خاصے اثرات مرتب کیے

$
0
0

نو جنوری 1960ء کو مصر کے اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر نے جدید یا بالائی اسوان ڈیم کی تعمیر کا افتتاح کیا تھا۔ دریائے نیل پر بنائے جانے والے اس ڈیم کی وجہ سے زیریں اسوان ڈیم کی اہمیت ماند پڑ گئی۔ زیریں اسوان ڈیم کو 1902ء میں بنایا گیا تھا۔ 1952ء میں مصری’’ انقلاب‘‘ کے بعد جدید یا بالائی اسوان ڈیم کی تعمیر حکومتی ترجیحات میں شامل تھی۔ اس کا مقصد سیلاب کنٹرول کرنا، آب پاشی کے لیے پانی کے ذخائر میں اضافہ اور بجلی پیدا کرنا تھا۔ حکومت کو امید تھی کہ اس سے مصر میں صنعت کاری کا عمل تیز کیا جا سکے گا۔ اس ڈیم نے مصر کی معیشت پر خاصے اثرات مرتب کیے۔ ڈیم 1970ء میں مکمل ہوا۔ اس ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے بہت سے قدیم مجسموں اور عمارتوں کو منتقل کیا گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ اسوان کے مقام پر پہلا ڈیم بنانے کی کوشش عرب انجینئر حسن بن الہیثم نے گیارہویں صدی میں کی۔

رضوان عطا

مینڈک : دنیا کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے

$
0
0

مینڈک دنیا کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے۔ اس کا تعلق دوسرے جل تھلیل (Amphibians) سے ہے۔ دنیا کے تقریباً 88 فیصد مینڈک اسی قسم کے ہیں۔ بارشوں کے مہینوں میں پاکستان بھر میں مینڈک نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں مینڈکوں کی کوئی 300 اقسام پائی جاتی ہیں۔ کئی مینڈک زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ ان کے زہر کو انسانوں نے صدیوں تیروں پر لگا کر جنگوں میں استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1980 سے آج تک مینڈکوں کی 30 اقسام ناپید ہو چکی ہیں۔ یہ سب جسامت، رنگ اور شکل و صورت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ 

شمالی ممالک میں موسم سرما کے آغاز پر کچھ اقسام کے مینڈک تالابوں کی تہہ میں گارے اور کیچڑ میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ تمام موسم سرما یہ وہاں سوئے رہتے ہیں۔ اس عمل کو سہ ماہی نیند کہتے ہیں۔ شدید سردی میں بھی تالابوں اور جوہڑوں کا پانی مکمل طور پر نہیں جمتا بلکہ سطح کے نیچے اپنی اصل حالت میں ہی رہتا ہے۔ اس وجہ سے مینڈکوں کو بھی سردی میں جم جانے کا خدشہ نہیں ہوتا۔ مینڈکوں کی آنکھیں اس کے سر کے بالکل اوپر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پانی میں چھپے رہنے کے باوجود سطح سے اوپر دیکھ سکتے ہیں، اسی خصوصیت کی بنا پر مینڈک اپنے شکاریوں کے خطرے سے آگاہ رہتے ہیں۔ 

مینڈک کی ہی ایک قسم ڈارٹ مینڈک دنیا کا سب سے زہریلا مینڈک کہلاتا ہے اس کی جلد سے نیوروٹاکسن زہر خارج ہوتا ہے جس کی ایک خوراک 10 سے 20 افراد کو صرف تین منٹ میں ہارٹ اٹیک سے ہلاک کر دینے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ انڈیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مطابق مینڈک کے زہر میں کینسر سے لڑنے اور درد کو دور کرنے والے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ اس کے لیے براہِ راست زہر کو استعمال کیا جائے تاہم اتنی امید ضرور ہے کہ اس سے مؤثر دوائیں بنائی جا سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2 انچ کے اس چھوٹے سے مینڈک کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے کیونکہ قدرتی مسکن، زرعی کیمیکلز اور انسانی سرگرمیوں سے یہ ختم ہوتے جارہے ہیں جب کہ کولمبیا میں اس مینڈک سے زہریلے تیر بنا کر بڑے جانوروں کا شکار کیا جاتا رہا ہے۔

یہ مینڈک اب کولمبیا کے بارانی جنگلات میں عام پایا جاتا ہے اس کا رنگ پیلا، شوخ پیلا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جتنا پیلا مینڈک ہو گا اتنا ہی وہ زہریلا ہو گا۔ اگر کسی دستانے کے بغیر اس مینڈک کو چند سیکنڈ بھی ہاتھوں میں رکھا جائے تو یہ جلد سے زہر خارج کرتا ہے جو انسانی کھال میں جذب ہو جاتا ہے اور اعصاب کو منجمد کر کے دل کی دھڑکن روک دیتا ہے یعنی صرف چھونے سے یہ انسانوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ڈارٹ مینڈنک کے زہر کا ایک قطرہ لے کر رکھا جائے تو وہ دو سال بعد بھی اتنا ہی ہلاکت خیز ہو سکتا ہے۔  

شہیر جنید


سترہ برسوں میں طالبان مضبوط ہوئے ہیں یا کمزور؟

$
0
0

افغان جنگ کو سترہ سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ نائن الیون کے حملے کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج جب افغانستان داخل ہوئیں تو کابل پر سخت گیر طالبان کی حکومت تھی۔ جدید اسلحے اور بھاری عددی قوت نے طالبان کو کابل سے فرار پر مجبور کر دیا لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک آج وہ بظاہر ایک مسلمہ سیاسی اکائی کے طور پر امریکہ سے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں۔ چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت جیسے خطے کے اہم ملک بھی طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھے ہیں۔ اس اعتبار سے انہوں نے سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذوں پر مضبوطی حاصل کی ہے۔

تاہم تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان نے انتہائی سخت گیر روش ترک کر دی ہے۔ وہ خواتین کی تعلیم کی اب مخالفت نہیں کرتے۔ انگریزی پڑھنے سے بھی ان کو مسئلہ نہیں اور جدید ٹیکنالوجی بشمول میڈیا ٹیکنالوجی میں ان کے لوگ مہارتیں حاصل کر رہے ہیں۔ ان سترہ برسوں میں افغان طالبان کمزور ہوئے ہیں یا مضبوط ؟ معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ امریکی حملے کے فورا بعد منتشر ہو جانے والے طالبان 2019 میں پہلے سے زیادہ منظم ہیں۔ ’’2001 میں طالبان کے عسکریت پسند مکمل طور پر منتشر ہو گئے تھے۔ ان کے لیڈر جو بھاگ کر پاکستان آئے وہ ہم نے پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے بشمول اسلام آباد میں افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے۔ لیکن آج اتنا وقت گزرنے کے بعد ان کی حکمت عملی درست ہو چکی، وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں‘‘.

میر ویس افغان، افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جو لندن میں مقیم ہیں اور ایک خبررساں ادارہ چلا رہے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے کئی کمانڈرز کئی لیڈرز پکڑے یا مارے گئے یا طبعی موت کے سبب دنیا میں نہیں رہے لیکن آج بھی نیا خون ان کی صفوں میں شامل ہو رہا ہے۔ وہ عسکری طور پر مضبوط ہیں۔ ’’ طالبان پہلے صرف مقامی مخالفین سے لڑ رہے تھے، جیسے شمالی اتحاد کے خلاف اور دیگر مخالفین کے خلاف لیکن اس وقت پوری دنیا کی اتحادی فوج سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ انہیں پڑوسی ملکوں ایران اور پاکستان سے مدد بھی پہنچ جاتی ہے۔ ان کے پاس وسائل بھی پہلے سے زیادہ ہیں‘‘۔

سفارتی اور سیاسی اعتبار سے طالبان 2001 کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟ میر ویس افغان کہتے ہیں کہ آج پاکستان، ایران، روس چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر کئی ملکوں کے ساتھ طالبان کے سفارتی رابطے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں تو مذاکرات کا مقام سعودی عرب سے قطر تبدیل کرا دیتے ہیں‘‘۔
چوہدری نعمان ظفر واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ افغان طالبان 17 برس پہلے کی نسبت آج زیادہ مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ مذاکرات کی میز پر ان کے ساتھ امریکہ سمیت بڑے ملکوں کا موجود ہونا ان کی حربی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ داعش کی خطے میں موجودگی سے خطرات کے پیش نظر ایران اور چین جیسے ملک ان کو کھل کر فوجی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ’’2001 میں تو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طالبان کو تسلیم کرتے تھے۔ 

آج چین، روس، ایران سمیت کئی ملک ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ بارہ بارہ ملکوں کے اجلاس میں وہ شرکت کرتے ہیں‘‘۔ میر ویس افغان بھی کہتے ہیں کہ افغان طالبان صرف خطے کے ملکوں سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ ان 17 برسوں نے طالبان کو تبدیل بھی کیا ہے۔ آج وہ پہلے جیسے سخت گیر نہیں رہے۔ خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کرتے اور اپنے لوگوں کو انگریزی زبان اور جدید ٹیکنالوجی سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ’’طالبان اب خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں، وہ سخت گیر سزائیں بھی کھلے عام دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ سزاوں کی وڈیوز بھی جاری نہیں کرتے۔ لوگ بنا داڑھی کے ان کی صفوں میں شامل ہیں۔ وہ اب انگریز ی بھی پڑھتے ہیں تاکہ باہر کی دنیا سے بات چیت کر سکیں۔ وہ ٹیکنالوجی کو بھی قبول کر رہے ہیں۔ اس طرح سخت گیری کے اعتبار سے طالبان جہاں کھڑے تھے، آج وہاں سے کافی مختلف جگہ پر کھڑے ہیں‘‘۔

جرنل امجد شعیب کہتے ہیں کہ دنیا میں پچھلی دو دہائیوں میں آنے والی بڑی تبدیلیوں پر طالبان نے خوب نظر رکھی ہے اور اپنے مفادات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ جوڑا ہے۔ ’’صرف نائن الیون سے ہی دنیا تبدیل نہیں ہوئی، یوکرائن کے حالات (روسی مداخلت) مشرق وسطی میں داعش کا ابھرنا، شام کا مسئلہ، ایسے عوامل نے دنیا کے ملکوں کی صف بندیوں میں تبدیلیاں بپا کی ہیں اور طالبان نے خود کو ان بدلتے ہوئے حالات سے دور نہیں رکھا بلکہ کئی ملکوں کے مفادات سے خود کو جوڑا ہے‘‘۔ نعمان ظفر بھی اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فقہی اختلافات کے باوجود ایران کھل کر طالبان کی مدد کر رہا ہے اور گزشتہ ہفتے طالبان کے وفد نے ایران کا دورہ بھی کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا بہرحال یہ بھی کہنا ہے کہ سفارتی، سیاسی اور حربی میدانوں میں کامیابی کے باوجود طالبان کابل پر قبضے کے قوت نہیں رکھتے۔ فضائی قوت کا فقدان ان پر بھی واضح کر چکا ہے کہ انہیں دنیا کے ساتھ مل کر ہی چلنا ہو گا۔ وہ افغانستان کے سیاسی حل کی کوششوں میں شامل ہوئے بغیر اقتدار کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اسد حسن

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


امريکی حکومت کا طويل ترين شٹ ڈاؤن

$
0
0

حکومتی سرگرميوں کی جزوی بندش، جسے ’شٹ ڈاؤن‘ کی اصطلاح دی گئی ہے، کی يہ امريکی تاريخ ميں طويل ترين مدت ہے۔ نتيجتاً تقريبا آٹھ لاکھ سرکاری ملازمين کو ان کی تنخواہيں نہ مل سکيں۔ ميکسيکو کے راستے مہاجرين کے امريکا ميں داخلے کو روکنے کے ليے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرحد پر ديوار کھڑی کرنا چاہتے ہيں۔ اس ديوار کی تعمير کے ليے 5.7 بلين ڈالر درکار ہيں، تاہم ڈيموکريٹس منظوری دينے کو تيار نہيں کيونکہ ان کی نظر ميں يہ کوئی ہنگامی صورتحال نہيں۔ اس کے رد عمل ميں صدر ٹرمپ نے متعدد بجٹوں اور سرکاری محکموں کو رقوم کی ادائيگی کے دستاويزات پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا ہے۔ واشنگٹن حکومت کا جزوی ’شٹ ڈاؤن‘ اب بائيسويں دن ميں داخل ہو چکا ہے، جو ايک نيا ريکارڈ ہے۔ قبل ازيں سن 1995 اور سن 1996 ميں سابق صدر بل کلنٹن کے دور ميں بھی ايسا ہی ’شٹ ڈاؤن‘ عمل ميں آيا تھا، جس کا دورانيہ مجموعی طور پر اکيس ايام تھا۔

صدر ٹرمپ نے ايک روز قبل يہ عنديہ بھی ديا تھا کہ وہ ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے کانگريس کی توثيق کے بغير ہی ميکسيکو کی سرحد پر ديوار کے ليے فنڈنگ وصول کر سکتے ہيں۔ تاہم گزشتہ شب اس بارے ميں ان کے رويے ميں نرمی ديکھی گئی۔ وائٹ ہاؤس کے ايک اجلاس ميں انہوں نے کہا، ’’ميں ايسا اتنی جلدی نہيں کروں گا۔‘‘ صدر ٹرمپ کے بقول کانگريس کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مطلوبہ فنڈنگ کی منظوری دے دينی چاہيے۔ يہ امر اہم ہے کہ سن 2016 کے صدارتی اليکشن کی انتخابی مہم کے دوران ميکسيکو کے راستے مہاجرين کی امريکا آمد روکنے کے ليے سرحد پر ديوار کی تعمير ٹرمپ کا ايک کليدی نعرہ تھا۔ ان کا دعوی ہے کہ ميکسيکو کے راستے آنے والے مہاجرين جرائم ميں اضافے کا سبب بنتے ہيں گو کہ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ غير قانونی تارکين وطن، امريکا ميں پيدا ہونے والے افراد کے مقابلے ميں کم جرائم ميں ملوث پائے جاتے ہيں۔

بشکریہ DW اردو

 

سعودی عرب کا پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کا اعلان

$
0
0

سعودی وزیر پیٹرولیم شہزادہ خالد بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ سعودیہ عرب پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کرے گا، پاکستان اور سعودی عرب خطے کے لیے اہمیت کے حامل ممالک ہیں۔ ایکسپریس کے مطابق سعودی وزیر پٹرولیم و توانائی خالد بن عبدالعزیز نے وفد کے ہمراہ گوادر کا دورہ کیا جہاں گوادر ایئرپورٹ پر وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور اور وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ سعودی وزیر پٹرولیم شہزادہ خالد بن عبدالعزیز نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔

دریں اثنا گوادر میں چائنہ بزنس کمپلکس میں اجلاس منعقد ہوا جس میں جی پی اے کے چیئرمین دوستین خان جمالدینی اورجی ڈی اے کے ڈی جی ڈاکٹرسجاد بلوچ نے وفد کو گوادر پورٹ اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ شہزادہ خالد بن عبدالعزیز نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب خطے کے امن اور استحکام کے لیے اہمیت کے حامل ممالک ہیں۔ وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ سعودی عرب کو پاکستان میں ایگریکلچر میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں، پاکستان اور سعودیہ گوادر میں آئل سٹی کے قیام کے لیے اگلے ماہ معاہدے پر دستخط کریں گے۔

ضیغم نقوی
 

سمندری درجہ حرارت زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے

$
0
0

عالمی سمندروں کا درجہ حرارت اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ماہرین نے اس صورتحال کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں سائنسدانوں نے گزشتہ تحقیق میں سمندری درجہ حرارت معلوم کرنے کے عمل میں کئی غلطیاں نوٹ کی ہیں۔ اس رپورٹ میں اس ڈیٹا کا دوبارہ تجزیہ کیا گیا ہے جس کے تحت چار آزادانہ طریقوں سے 1971ء سے 2010ء کے درمیان سمندر میں گرمی کو نوٹ کیا گیا تھا اور ماہرین نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ 1991ء کے بعد سے عالمی سمندروں کا درجہ حرارت قدرے تیزی سے بڑھا ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کے جمع ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس کی حرارت سمندروں کے اندر بھی اثر کر رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سال 2017ء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس طرح سمندروں کے درجہ حرارت بڑھنے کا معاملہ قدرے گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ ماہرین نے رپورٹ میں کہا ہے کہ 2013ء میں اقوامِ متحدہ کی ایک کانفرنس میں جو اندازے پیش کئے گئے تھے، سمندر اس سے بھی 40 فیصد تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ اس سے بارشوں، بے ہنگم موسم، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، مرجانی چٹانوں کی تباہی اور سمندروں میں آکسیجن کی کمی جیسے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے سمندری طوفان اور سیلاب بڑھ رہے ہیں۔
 

کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کیلئے کام کرتے رہے؟

$
0
0

امریکی اخبار کے مطابق ڈائریکٹر ایف بی آئی جیمز کومے کی برطرفی معاملے پر نئے انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔ ایف بی آئی نے صدر ٹرمپ کے امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے اور روسی ایجنٹ ہونے کے خدشات پر تحقیقات کیں۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ایف بی آئی پر کڑی تنقید کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے تو کام نہیں کر رہے تھے؟ ایف بی آئی کی نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ 

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا نیا دعویٰ سامنے آ گیا
اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ نے مئی 2017ء میں ایف بی آئی سربراہ جیمز کومے کو برطرف کیا جس پر امریکی صدر پر شکوک بڑھ گئے اور ایف بی آئی نے ان کیخلاف تحقیقات شروع کر دیں کہ کہیں ٹرمپ امریکی مفادات کے خلاف روس کے لیے تو کام نہیں کر رہے؟ صدر ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کے دعوے کو سراسر جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جیمز کومے کو برطرف کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
 

جب پینٹاگان کو ایران پر حملے کا منصوبہ تیار کرنے کو کہا گیا

$
0
0

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے خبر دی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتیکی ٹیم نے پچھلے سال ستمبر میں پینٹاگان سے کہا تھا کہ وہ ایران پر حملے کا منصوبہ تیار کرے۔ ایسا اس وقت ہوا تھا جب ایران سے وابستہ شدت پسندوں نے بغداد کے اس علاقے پر راکٹ فائر کیے تھے جہاں امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کو یہ ہدایت نیشنل سکیورٹی کونسل نے دی تھی جس کے سربراہ جان بولٹن ہیں۔ اخبار نے حالیہ اور سابقہ ملازمین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس سے پینٹاگان اور امریکی محکمۂ خارجہ کے حکام میں سخت تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ پینٹاگان نے اس حکم پر عمل کر کے مطلوبہ منصوبہ پیش کر دیا تھا، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ایران پر فضائی حملے کے مختلف منصوبوں کی تفصیل وائٹ ہاؤس کو پیش کی گئی تھی یا نہیں اور آیا صدر ٹرمپ اس بارے میں جانتے تھے۔ 

وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس ہدایت سے کچھ ہی دن پہلے چھ ستمبر کو بغداد کے سفارتی زون میں تین مورٹر پھینکے جانے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ مورٹر ایک خالی جگہ پر گرے تھے اور ان سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس کے دو دن بعد نامعلوم جنگجوؤں نے عراقی شہر بصرہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب تین راکٹ داغے، تاہم اس سے بھی کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے اس خبر پر کوئی تبصرہ کیا، البتہ اس کا کہنا ہے کہ پینٹاگان صدر کو مختلف قسم کے خطرات سے نمٹنے کے منصوبے پیش کرتا رہتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان گیرٹ مارکیز نے کہا کہ ان کا ادارہ حملوں کے بعد ہر قسم کے ردِ عمل کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ منصوبہ صدر ٹرمپ کو بھی پیش کیا گیا تھا، یا یہ کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی ٹھوس منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ جان بولٹن اس سے قبل صدر جارج بش کی انتظامیہ میں بھی کام کر چکے ہیں اور وہ اس وقت عراق پر حملے کے بڑے حامی تھے۔ وہ ایران کے بھی سخت ناقد ہیں اور کھلے عام وہاں حکومت تبدیل کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ 70 سالہ بولٹن کے علاوہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایران کے کئی اہم ناقد موجود ہیں۔ وزیرِ خارجہ مائئک پومپیو نے گذشتہ ہفتے قاہرہ کی یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک یہ بات سمجھتے ہیں کہ ہم آیت اللہ جیسے لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں نہ کہ ان کے نخرے اٹھاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جنوری ہی میں انھوں ایران کو خبردار کیا تھا کہ خلائی جہاز نہ لانچ کرے اور الزام لگایا تھا کہ یہ دراصل میزائل ٹیکنالوجی کا تجربہ کرنے کا بہانہ ہے۔  مائیک پومپیو سابق فوجی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ دورے کے دوران انھوں نے کئی بار ایران کا مقابلہ کرنے کی بات کی ہے، تاہم فوجی کارروائی کا ذکر نہیں کیا۔ بولٹن سے پہلے نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ ایچ آر میک ماسٹر تھے، جنھوں نے ایران کے خلاف جنگ کا نیا منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس میں اس منصوبے میں اس قسم کی مخصوص فضائی کارروائی جیسی کوئی چیز شامل نہیں تھی جس طرح کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی ہدایت جان بولٹن نے پینٹاگان کو دی تھی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>