↧
بنگلہ دیش میں سخت گیر مسلمان کیوں مقبول ہو رہے ہیں؟
↧
میرے پاس پیسے نہیں، میں ساری سکیورٹی ہٹا رہا ہوں : الطاف حسین
پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین تنظیمی بحران کے بعد مالی بحران کا بھی شکار ہو گئے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ خطاب میں انہوں نے کارکنوں اور ہمدردوں سے شکوہ کیا ہے کہ عطیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن سے کچھ عرصے قبل کراچی سے فرار ہو کر لندن پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ الطاف حسین کے جانے کے بعد ایم کیو ایم کو تنظیمی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن میں سے ایک کا دفتر لندن میں ایجوئر روڈ پر واقع ہے جسے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا دفتر کراچی میں عزیز آباد میں واقع ہے جو نائن زیرو کے نام سے مشہور ہے۔
الطاف حسین نے لندن میں مقیم کارکنوں اور ہمدردوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ برطانیہ والوں میرے دفتر کا خرچہ تو تم نکال سکتے ہو۔ 'میں پوری دنیا کے ساتھیوں کو بتا رہا ہوں آپ نے سیکیورٹی کے جو انتظامات کیے ہیں میرے پاس پیسے نہیں۔ میں ساری سیکیورٹی ہٹا رہا ہوں، اگر میں مار دیا جاؤں تو بس دعا خیر کرنا۔ یہاں سیکیورٹی مفت میں نہیں ہوتی یہ پاکستان نہیں ہے۔' برطانوی حکام نے ماضی میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کی تھی لیکن 2016 میں یہ تحقیقات ختم کر دی گئی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ تمام ثبوتوں کی تحقیقات کے بعد سکاٹ لینڈ یارڈ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس بات کے ناکافی شواہد ہیں کہ 2012 اور 2014 کے درمیان ملنے والی پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم جرائم کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور یا اس رقم کو غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
الطاف حسین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ چندے اور عطیات کی فراہمی صرف برطانیہ والوں کی ذمہ داری نہیں، امریکہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے دس ہزار پاؤنڈ جمع کر لیے تھے وہ بینک والوں نے واپس کر دیئے۔ 'بھائی پانچ پانچ ہزار کسی بھی امریکی ریاست کے ایئرپورٹ پر لے جاؤ کوئی مہاجر نظر آئے اسے لفافہ اور پتہ دے دیں۔ انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے کوئی آئیگا لفافہ لے جائیگا۔ امریکہ والوں کئی طریقے ہیں بھیجنے کے لیے لیکن تم بھیجنا چاہتے ہی نہیں ہو۔' ایم کیو ایم کے بانی کی سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی جانے والی اس تقریر میں انھوں نے بیرون ملک کارکنوں سے بھی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'کینیڈا والوں تم بھیجنا ہی نہیں چاہتے پھر بینک کے بہانے بناتے ہو، جنوبی افریقہ والے تو قسم کھا کھا کر پروگرام تو اچھے کر لیتے ہیں جذبات بھی اچھے ہیں لیکن مال کے معاملے میں بالکل سوئے ہیں۔ جرمنی، آسٹریلیا اور بیلجیئم سے جو فنڈز آیا کرتے تھے بلکل بند ہو گئے ہیں اسی طرح مڈل ایسٹ سے سلسلہ بالکل ختم ہو گیا ہے۔'
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی اگست 2016 میں متنازعہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے لندن کی قیادت سے لاتعقلی کا اظہار کر دیا تھا، جبکہ ایم کیو ایم کے کراچی میں تمام دفاتر کو سیل کر دیا گیا۔ عدالتی حکم کے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ کی تقریر و تصویر کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی عرصے میں ایم کیو ایم میں مزید انتشار آیا اور ڈاکٹر فاروق ستار الگ ہو گئے جبکہ لندن میں پارٹی کے رہنما ندیم نصرت اور واسع جلیل نے راہیں جدا کر لیں۔ ایم کیو ایم لندن کے کنوینر ڈاکٹر ندیم احسان نے الطاف حسین کی مالی مشکلات کے بارے میں تقریر کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2016 سے قبل کراچی سے منتخب نمائندے، کارکن اور ہمدرد چندہ بھیجتے تھے جس سے تنظیمی معاملات چلائے جاتے تھے لیکن یہ سلسلہ اب رک گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی چندہ دینے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس حراست میں لے لیا جاتا ہے کیونکہ الطاف حسین آج بھی مقبول رہنما ہیں۔
ندیم احسان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی تقریر کا مثبت رد عمل سامنے آیا ہے اور کافی کارکنوں اور ہمدروں نے رابطہ کیا ہے اور تنظیمی طور پر بھی ان کی اس شکایت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ لندن سیکریٹریٹ کے ماہانہ اخراجات کتنے ہیں، اس سوال پر انہوں نے تفصیلات بیان کرنے سے معذرت کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ بینک کے ذریعے منتقلی سے ڈیوٹی کے نفاذ سے رقم کا حجم کم ہو جاتا ہے اس لیے الطاف حسین نے اپنے ساتھیوں کو دستی رقم بھیجنے کا مشورہ دیا ہے۔ واضح رہے کہ الطاف حسین پر پاکستان میں ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ بھی دائر ہے، جنھیں ستمبر 2010 میں لندن میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت الطاف حسین کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم جاری کر چکی ہے۔
ریاض سہیل
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
↧
↧
کیا شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہے؟
چند رو قبل امریکی کانگريس مين بريڈ شرمن نے کہا تھا کہ وہ شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات کر سکتے ہیں۔ کیا یہ ایک سیاسی بیان تھا اور کیا قانونی لحاظ سے ایسا ممکن بھی ہے؟ کانگريس مين بريڈ شرمن کا اپنے خطاب ميں کہنا تھا، ’’ڈاکٹر آفريدی امريکی کانگريس کے ليے انتہائی اہم ہيں۔ ہم اس بات کو نظر انداز نہيں کر سکتے کہ جس پاکستانی نے اس اسامہ بن لادن کو پکڑنے ميں ہماری مدد کی، وہ آج سلاخوں کے پيچھے ہے۔‘‘ یہ بات انہوں نے ’ساؤتھ ايشين اگينسٹ ٹيرريزم اينڈ فار ہيومن رائٹس‘ (ساتھ) کانفرنس ميں پاکستان اور امريکا کے باہمی تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کہی۔
کیا شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں امریکی اسٹيٹ ڈیپارٹمنٹ میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’اسٹيٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس دوسرے کئی خارجی مسائل ہيں، جو کہ زیادہ اہم ہيں، مگر کانگريس عام لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے اور وہ ڈاکٹر آفريدی کی مدد کو بھلا نہيں سکتی۔ اس سلسلے ميں ہم سے جو ہو سکے گا، وہ ہم کريں گے۔‘‘ کانگريس مين بريڈ شرمن کا اپنی بات پر زور ديتے ہوئے کہنا تھا، ’’ڈاکٹر آفريدی کو امريکا لانے کے ليے ميں بہت سنجيدہ ہوں اور اس بارے ميں ميں ڈاکٹر عافيہ اور ڈاکٹر آفريدی کے تبادلے پر بات کرنے کے ليے بھی تيار ہوں۔‘‘
ڈی ڈبليو نے اس حوالے سے امریکا میں مقیم ماہر قانون برائے شہری حقوق شايان الٰہی سے بات کی کہ کيا ايسا ممکن ہے؟ انہوں نے اس بارے ميں اپنی قانونی رائے ديتے ہوے کہا، ’’ویسے تو يہ ممکن ہے کہ ايسے معاملات ميں امريکی صدر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسے ممکن بنا ديں مگر سياسی اعتبار سے یہ ہوتا نظر نہيں آ رہا۔ کیوں کہ ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ جيوری نے، جس شخص کو امريکی فوجيوں کے قتل کی کوشش ميں مجرم قرار ديا ہو، اسے رہا کر دیا جائے۔ بریڈ شرمن کانگريس، وائٹ ہاؤس اور اسٹيٹ ڈیپارٹمنٹ ميں اس مسئلے کے حوالے سے لابی تو ضرور کر سکتے ہيں مگر عين ممکن ہے کے یہ صرف ان کا ايک سياسی بيان ہو۔‘‘
پاکستان نے بھی شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کی خبروں کی تردید کی تھی۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے سے متعلق انہیں کوئی تحریری درخواست موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی اندرونی یا بیرونی دباؤ قبول کیا جائے گا۔ گزشتہ ماہ پاکستانی عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ امریکا پاکستان سے ’کچھ چیزیں‘ چاہتا ہے اور ان کے عوض وہ عافیہ صدیقی کو پاکستان لوٹانے کے لیے تیار ہے۔ اس بیان کے بعد پاکستان میں یہ افواہیں زور پکڑ گئی تھیں کہ پاکستان نے شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم اُس وقت پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی پیش کش نہیں کی گئی۔
بشکریہ DW اردو
↧
روہنگیا بحران کبھی حل ہو گا ؟
میانمار میں جبر سے بچنے کے لئے ترک وطن کر کے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بحرانی صورت اختیار کر گیا ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 750,000 پناہ گزیں اس وقت بنگلہ دیش کے کاکسس بازار میں کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں انھیں روزمرہ کی بنیادی سہولتوں تک سے محرومی کا سامنا ہے۔ پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں بہجت جیلانی سے بات کرتے ہوئے فلاحی تنظیم ’ فرینڈز فار ہیومینٹی‘ کے احتشام ارشد نظامی کا کہنا تھا کہ اگر چہ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں فعال ہیں جن کا تعلق امریکہ، پاکستان اور یورپ سے ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹروں کے گروپ خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن جو کام اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہو رہا۔ ان کی تنظیم ’فرینڈز فار ہیومینٹی‘ نے وہاں سولر لایٹس فراہم کی ہیں کیونکہ روشنی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں اور اب وہ حفظان صحت کی سہولتوں والے پیکج فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
احتشام نظامی کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس شہریت بھی نہیں ہے اور بنگلہ دیش کی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ ان کے شہروں میں بسی آبادی کے ساتھ شامل ہوں۔ بنگلہ دیش متعدد مسائل کے پیش نظر ان لوگوں کی میانمار واپسی کا خواہاں ہے جس کے لئے اس نے میانمار کی حکومت سے معاہدہ بھی کیا تھا تاہم اقوام متحدہ کو ان کے خلاف جبر وستم کی وجہ سے مخصوص تحفظات ہیں۔ ’پبلک انٹر نیشنل لا اینڈ پالیسی گروپ واشنگٹن‘ کی طرف سے کریمینل ٹریبیونل بنانے پر زور دیا گیا ہے تاکہ ظلم وستم کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بیرسٹر امجد ملک سے ہمارا سوال یہ تھا کہ کیا اس نوعیت کا ٹریبیونل قائم کیا جا سکتا ہے جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنگی جرائم کے زمرے میں ایسا کرنا ممکن ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حل تلاش کرنے کی بات بھی انھیں سے کی جارہی ہے جو اس ساری صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ بیرسٹر ملک کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہئے کہ وہ میانمار کی حکومت پر پابندیاں لاگو کرتے ہوئے دباؤ بڑھائے تاکہ وہ ان کو شہریت دیتے ہوئے ان کی بحفاظت بحالی کو ممکن بنائے۔ ’ پاکستان ہاوس‘ کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید کہتے ہیں کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے حوالے سے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو اس کام کی ذمہ داری لینا چاہئے اور بین الاقوامی برادری کو ان لوگوں کے لئے کام کرنا چاہئے جن سے غیر انسانی رویہ اپنایا گیا ہے۔
بہجت جیلانی
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
امریکہ طالبان مذاکرات : کیا عبوری حکومت پر اتفاق ہو سکتا ہے؟
متحدہ عرب امارات میں پاکستان اور سعودی مندوبین کی موجودگی میں امریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہوئے۔ کیا یہ مذاکرات 17 برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے راستہ فراہم کر سکتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر واشنگٹن اور کابل میں حکومتیں افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کو موخر کرتے ہوئے پہلے طالبان کے ساتھ شراکت والی عبوری حکومت کے قیام اور شورش زدہ ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا پر اتفاق کریں تو بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کی حکمت عملی میں بظاہر تبدیلی کے پس منظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی فوجوں کے انخلا کے ساتھ امن عمل کو یقینی بنانے کے لیے سب کو بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مومند کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا افغان طالبان کا اولین مطالبہ ہے اور وہ اب بھی اسی مطالبے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہوں گے۔ ’’ طالبان امریکہ کی ایما پر پاکستان کے اس موقف کو قبول نہیں کریں گے کہ طالبان جنگ بندی کریں اور ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی میز پر آئیں اس سے ان کی تحریک ختم ہو جائے گی۔ سابق سفیر کے بقول مذاکرات کو تبھی کامیاب سمجھا جائے گا اگر فریق افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہو جائیں۔ ’’ افغانستان میں انتخابات کو ملتوی کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام، غیرملکی فوجوں کے انخلا پر رضامندی افغانستان میں امن کی راستہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ (رستم شاہ مومند کے بقول) کابل حکومت ہے۔ موجودہ حکمران نہیں چاہتے کہ اقتدار میں طالبان شراکت دار بنییں۔ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان سے کہا جائے کہ وہ انتخابات جیت کر آئیں۔ اگر طالبان نے یہ بات ماننا ہوتی تو دس سال پہلے کوئی معاہدہ ہو جاتا۔‘‘
کابل میں موجود افغان صحافی اسداللہ داودزئی کہتے ہیں یہ بات درست ہے کہ صدر اشرف غنی اور اتحادی حکومت، عبوری حکومت یا طالبان کے اقتدار میں براہ راست شرکت کے منصوبے کی حامی نہیں ہے مگر سابق صدر حامد کرزئی اور ان کے حامی عبوری حکومت بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم وہ یہ نہیں سمجھتے کہ کابل حکومت امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
کیا عبوری حکومت پر اتفاق ہو سکتا ہے؟
یو اے ای میں امریکن یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر حیدر مہدی کہتے ہیں کہ گیند امریکہ کے کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ سب کو چونکا سکتے ہیں
’’ صدر ٹرمپ ڈیل کے ماہر ہیں۔ بحیثیت بزنس مین بھی وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لے کچھ دے کی حکمت عملی ہی کارگر رہتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ پہلی بار یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی خواہش ہے۔ لہٰذا اب گیند امریکہ کے کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ امریکی فوجوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ سب کو حیران کر سکتے ہیں اس طرح عبوری حکومت کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا‘‘
رستم شاہ مومند بھی یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی سوچ میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ اگر عبوری حکومت بنا دی جائے تو جنگ اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے۔ ان کے بقول اسلامی ممالک کی تنظیم کی چھتری تلے غیرجانبدار مسلم فوجوں کی نگرانی بھی بندوبست کا حصہ ہو سکتی ہے۔ رستم شاہ مومند کا کہنا تھا کہ طالبان کو پاکستان پر بھروسا نہیں البتہ سعودی عرب کی موجودگی امریکہ کے ساتھ ڈیل میں بین الاقوامی گارنٹی بن سکتی ہے۔
اسد حسن
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
نواز شریف کے خلاف فیصلہ ’تاریخی یا انتقامی‘ کارروائی ؟
نواز شریف کے خلاف فیصلے کو کئی سیاست دانوں نے ’افسوس ناک قرار‘ دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مزید سیاست دانوں کو بھی احتساب کا نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے اسے ’کرپشن کے خلاف تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو انسدادِ بد عنوانی کی ایک عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال کی قید اور ایک ارب روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم جاری کیا گیا ہے، جب کہ عدالت نے ان کے بیٹوں کے دائمی وارنٹِ گرفتاری بھی جاری کیے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عدالت میں فیصلہ سنتے ہی لیگی رہنما آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے اس فیصلے کو ’انصاف کے منافی‘ قرار دیا۔ عدالت کے باہر نون لیگ کے کارکنوں نے نواز شریف کے حق میں اور فیصلے کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی۔ نواز شریف نے درخواست دی ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل کی جگہ کوٹ لکھپت جیل لاہور بھیجا جائے۔
پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد کہا تھا کہ وہ ملک میں جاری کرپشن خلاف جنگ کریں گے اور ملک کی طاقتور شخصیات کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم کی بیٹی مریم نواز نے اپنی ٹوئیٹس میں اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ’’فیصلے انشاء اللہ ختم ہو جائیں گے، جو باقی رہے گی وہ نواز شریف کی سچائی اور مخالفین پر ظلم کا بوجھ، جس کو وہ ڈھوتے رہیں گے۔ کیونکہ حکومت، طاقت اور اختیارات ہوتے ہی ختم ہونے کے لئے ہیں۔ وقت بدلتے اور حالات الٹتے دیر نہیں لگتی۔ یاد رکھیں ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔‘‘
مریم کے علاوہ بھی ٹویٹر صارفین اس سزا کے خلاف اور حق میں بھرپور تبصرے کر رہے ہیں جب کہ فیس بک اور واٹس اپ پر بھی یہ سزا موضوعِ بحث ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر بھی یہ فیصلہ چھایا ہوا ہے۔ کئی سیاست دانوں کے خیال میں اس فیصلے سے ’جمہوریت کمزور‘ ہو گی۔ سابق وزیرِاعلٰی بلوچستان ڈاکڑ عبدالمالک کا کہنا ہے کہ سیاست دان اس فیصلے کے بعد ’جمہوریت کو بچانے‘ کے لئے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ متوقع فیصلہ تھا۔ ہمارے خیال میں یہ بہت افسوس ناک فیصلہ ہے۔ ہم اس کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں صرف سیاست دانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اب پی پی پی کی بھی باری آئے گی۔ سیاست دانوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں سے ملک اور جمہوریت کمزور ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کو پکڑا جا رہا ہے جب کہ پی ٹی آئی کے عہدیداروں اور کئی فوجی افسران کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن کے الزامات صرف نون لیگ یا پی پی پی پر ہی نہیں بلکہ سابق جرنیلوں ، بیورکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ نواز سیاست دانوں کے خلاف بھی ہیں۔ ملک کے کئی حلقوں میں خیال ہے کہ احتساب صرف ’مخصوص سیاست دانوں‘ کا ہو رہا ہے۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم ماونڈی والا کا اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے کہ صرف سیاست دان کرپٹ ہیں۔ احتساب تمام افراد کا بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ انصاف کے تقاضے تمام پورے کئے جانے چاہیئں۔ ہمیں بھی نیب کی کارروائیوں پر تحفظات ہیں اور ہم نے نیب سے کہا ہے کہ کسی رکنِ پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پارلیمنٹ کو مطلع کیا جائے۔ ہم نے ارکان سے کہہ دیا ہے کہ جب تک وہ پارلیمنٹ کو مطلع نہ کریں، وہ نیب کی کسی بھی تفتیش میں نہ جائیں۔
تاہم پی ٹی آئی سیاسی انتقام کے اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی سینیٹر فیصل جاوید خان نے اس فیصلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’انتقامی کارروائیوں کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ سارے مقدمات خود نواز شریف کے دور میں بنائے گئے تھے اور میاں صاحب نے خود ہی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا لیکن جب سزا ہوتی ہے تو پھر نون لیگ والے کہتے ہیں کہ سیاسی انتقام ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ کمزوروں کو سزا دی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ طاقتور کو سزا دی گئی ہے۔ اس سے کرپٹ لوگوں کو سخت پیغام جائے گا اور وہ مستقبل میں ملک کی دولت کو لوٹنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔‘‘
لیکن کئی حلقوں کا خیال ہے ن لیگ مظلوم بننا چاہتی ہے اور یہ کہ نواز شریف کو آسانی سے ضمانت مل جائے گی کیونکہ سزا صرف سات سال کی ہے۔ معروف قانون دان اے کے ڈوگر کے خیال میں نواز شریف کو آسانی سے ضمانت مل جائے گی، ’’قانون کے مطابق اگر سزا دس سال سے کم کی ہو تو آسانی سے ضمانت ہو جاتی ہے۔ پہلے نواز شریف کو ضمانت ملنے میں دیر اس لئے ہوئی کہ سزا دس برس کی تھی لیکن اب تو صرف سات برس کی ہے، تو انہیں ایک ہفتے کے اندر اندر ضمانت مل جائے گی۔‘‘ کئی ماہرین کے خیال میں فلیگ شپ ریفرنس میں بریت سے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے دیے گئے نا اہلی کے فیصلے پر بھی سوالات کھڑے ہوں گے۔
بشکریہ DW اردو
↧
نواز لیگ کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا ؟
نائن الیون نے دنیا بدل دی تھی اور پاکستان میں احتساب عدالت کے فیصلے نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست بدل دی ہے۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی دیوار سے لگ گئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ان کی مزاحمت میں ایسی جارحیت نہیں ہے کہ وہ ملک گیر سطح کی کوئی احتجاجی تحریک چلا کر سیاسی دباؤ ڈال سکیں۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کو سیاسی طور پر فری ہینڈ ملے گا اور وہ اپنے راستے میں موجود سیاسی رکاوٹوں کو ہٹائے گی۔ تاہم نواز شریف اور شہباز شریف کے جیل جانے کے بعد عمران خان پر اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔ پہلے وہ ہر چیز میں ماضی کی کرپشن اور بیڈ گورنس کا ذکر کر کے آگے بڑھ جاتے تھے، لیکن اب اپوزیشن رہنماؤں کی جیل میں موجودگی انھیں ماضی سے حال میں آنے اور کچھ کرنے پر مجبور کرے گی۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی بالعموم اور مریم نواز کی بالخصوص پراسرار خاموشی بھی نواز شریف کی گرفتاری کے بعد ٹوٹ گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کم از کم اپنے بیانات اور موقف میں وہی پرانا جارحانہ انداز لائے گی اور تحریک انصاف پر پارلیمان کے اندر اور دباؤ بڑھائے گی۔ نون کا شہری ووٹ بینک زیادہ تر تاجر پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ احتجاجی سیاست کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی سے وابستگی ووٹ ڈالنے اور زیادہ سے زیادہ پارٹی فنڈز دینے تک محدود ہے۔ وہ پولیس کے ڈنڈے کھانے یا احتجاج کے لیے اپنا بزنس بند کرنے کے قائل نہیں ہیں۔
مسلم لیگ نون کا تضاد یہی ہے کہ اس کی قیادت جب اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف لیتی ہے تو اس کے ووٹ بینک کو یہ سوٹ نہیں کرتا۔ تاجر چاہتے ہیں کہ نون لیگ اور ایسٹبلشمنٹ میں بنی رہے۔ تاجر طبقہ فوج تو کجا، پولیس حتیٰ کہ محکمہ ایکسائز سے بھی بنا کر رکھتا ہے کہ ان کے بزنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔ ن لیگ نے اپنی تین دہائیوں کی سیاست میں کامیاب ہڑتال یا احتجاج اسی وقت کروایا ہے جب تاجروں پر ٹیکس لگائے گئے۔ اب بھی نون احتجاج یا ہڑتال کی کال تبھی دے گی جب تاجروں پر ٹیکس لگے گا یا وہ تحریک انصاف کی تاجر مخالف پالیسیوں سے نالاں ہونگیں۔ میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے کی اگر بڑی تصویر کو دیکھا جائے تو قوم نے جو مینڈیٹ دیا تھا اس میں عمران خان کو حکومت اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کا کردار ملا تھا۔
اگر حکومت نے اپوزیشن لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈال دیا تو جمہوریت کی گاڑی چار پہیوں پر نہیں دو پہیوں پر چلانی پڑے گی اور یہ گاڑی کئی میل آگے تو چلی جائے گی مگر زیادہ دور نہیں جا سکے گی۔ تازہ سزاؤں سے سنہ 2018 میں بنائے گئے نظام میں گہرا خلاء اور شگاف پڑ گیا ہے۔ سیاست میں خلا اور شگاف زیادہ دیر نہیں رہتا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کو جسٹس ملک قیوم نے سزا سنائی تو نواز شریف کو ایک طرف فری ہینڈ مل گیا تھا، لیکن ساتھ ہی توازن ٹوٹنے سے ان کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف اکیلے بڑے اور طاقتور ہونے کے باوجود 1999 میں رخصت ہو کر رہے۔
اگر بے نظیر نا اہل نہ ہوتیں تو شاید سنہ 1999 کا مارشل لاء بھی نہ لگتا اور شاید ٹوٹا پھوٹا نظام بھی چلتا رہتا۔ اب بھی عمران خان بظاہر اپنے سیاسی مخالفوں کو جیل بھیج کر مضبوط ہونگے مگر سیاسی توازن ٹوٹنے کے بعد سیاست اور فیصلوں کا سارا بوجھ ان پر ہو گا۔ 70 سالہ پاکستانی سیاست میں جب بھی ایسا موقع آیا ہے حکمران کا عروج پر جانے کے بعد زوال کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی جماعت دیوار سے لگ جاتی ہے تو وہ معمول سے ہٹ کر اور قانون و آئین سے بالاتر کوئی حل سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مشرف دور میں نواز شریف کو سزائیں ہو گئی تو سعودی اور لبنانی اثر و رسوخ سے وہ سزاؤں کے باجود بیرون ملک روانہ ہو گئے۔
اس بار شاید شریف خاندان کو بلاد عرب سے مدد نہ آئے مگر طیب اردوغان اور ترکی سے ان کی دوستی کام آسکتی ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ در پردہ پیغامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دیکھیئے اس سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ تاہم کسی ڈیل یا این آر او کی صورت میں عمران خان کو نا قابل تلافی سیاسی نقصان ہو گا۔ قومی مفاد کے نام پر پہلے بھی سیاسی مفاد قربان ہوتے رہے ہیں اب بھی اس کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف اگر ہم اس مفروضے پر غور کریں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے پرانے فلسفے Decriminilisation of Politics (مجرمانہ سیاست کے خاتمے) پر عمل پیرا ہے اور اس اعتبار سے وہ 'نکل'فارمولے کے ذریعے نواب شاہ، کراچی، لاہور کی سیاست میں موجود زرداری آف نواب شاہ، متحدہ آف کراچی اور شریف آف لاہور کو سیاست سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے چہرے لانا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سنہ 1985 کی سیاست کے چہرے اب نہیں چل سکتے، اب نئے نوجوان اقتدار سنبھالیں گے اور اگر اسی پیرائے میں جنرل آصف غفور کے اگلے چھ ماہ تک نظام کے استحکام کی بات پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک خاص ٹائم ٹیبل کے تحت ہو رہا ہے۔ اگلے چھ، آٹھ ماہ میں پرانے چہرے رخصت کر دئیے جائیں گے اور نئے چہروں کو لایا جائے گا نواز شریف اور زرداری کے سیاسی خلا ء کو پر کرنے کے لیے شاید کوئی نئی سیاسی جماعت یا نیا سیاسی گروپ بھی بنایا جائے گا۔ تاریخ کو دیکھا جائے تو صاف نظر آرہا ہے عسکری پلاننگ سے فیصلے تو ہو سکتے ہیں مگرضروری نہیں کہ پاکستانی سیاست اور عوام میں انھیں پزیرائی بھی حاصل ہو۔
ماضی میں بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف مقدمات بھی چلے سب کے سب جیلوں میں بھی رہے مارشل لاء لگے مگر اس کے باوجود نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا۔ آج پیپلزپارٹی کمزور ہے تو اس میں بھی اس کی زرداری گیلانی دور کی کارکردگی کا ہاتھ ہے، اسی دور کے بعد پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک کم ہوا ہے وگرنہ برے سے برے حالات میں بھی پیپلزپارٹی 18 فیصد ووٹ ہر صورت میں لیا کرتی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ان فیصلوں کے بعد نواز شریف مصلحتوں کا شکار رہے، مریم کا ٹوئٹر پھر خاموش رہا، شہباز شریف درمیانی لائن لیتے رہے تو نون لیگ کی سیاست کو دھچکا لگے گا اور پنجاب سے کوئی نیا سیاسی گروپ جو جارحانہ سیاست کرے گا وہ ان کی جگہ لے سکتا ہے۔
لیکن اگر مریم اور حمزہ نے جارحانہ سیاست کی تو ان کی سیاست زندہ رہے گی اور عمران خان حکومت کی کمزوریاں اسے مزید تقویت دیں گی۔ اندازے یہ کہتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں یہ طے ہو گا کہ اگلی سیاست میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بڑے کردار رہیں گے یا کوئی نیا کردار سامنے آئے گا۔ انھی چھ ماہ میں عمران کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور یہ بھی طے ہو جائے کہ وہ اگلے ''دس سال'حکومت کریں گے یا سنہ 2019 جولائی سے ان کا زوال شروع ہو جائے گا ؟
سہیل ورائچ
صحافی اور تجزیہ کار
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
بنگلہ دیش انتخابات : بیگمات کی جنگ میں کون آگے ہے ؟
تازہ ترین سروے کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ کامیابی حاصل کر سکتی ہیں جب کہ ان کے مخالفین کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی ’جنگ لڑتی ہوئی بیگمات‘ گزشتہ تین دہائیوں سے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ اس سال 71 سالہ شیخ حسینہ کو اپنی روایتی حریف 73 سالہ خالدہ ضیاء پر برتری حاصل ہے۔ خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کے سابق فوجی آمر کی اہلیہ ہیں تو حسینہ کے والد بنگلہ دیش کے بانی کہلائے جاتے ہیں۔ ان خواتین نے 1990ء میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کا تختہ الٹنے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہاتھ ملائے تھے لیکن یہ بیگمات 1991ء میں ضیاء کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے ایک دوسرے کی سیاسی حریف بن گئیں۔
اس مرتبہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی قیادت چوتھی مرتبہ سنبھالیں گی۔ دوسری جانب خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی جیل میں مالی بدعنوانی کے الزمات پر سترہ سالہ سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی ( بی این پی) ان الزمات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ضیاء کے خلاف کیسز سیاسی نوعیت کے ہیں۔ جیل میں قید کا مطلب یہ بھی ہے کہ خالدہ ضیاء انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ بی این پی نے پہلے ہی ان انتخابات کے منصفانہ ہونے پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس جماعت کے مطابق حالیہ کچھ ماہ میں ہزاروں سیاسی کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 73 سالہ ضیاء ذیابیطس اور جوڑوں کے درد کی مریضہ ہیں، وہ اپنا ایک گھٹنہ تبدیل کرا چکی ہیں اور اپنے ایک ہاتھ کو ہلانے سے بھی قاصر ہیں۔ مغربی سفارت کاروں کے مطابق ضیاء کا سیاسی سفر اب اختتام پذیر ہو گیا ہے۔
ڈھاکہ میں تعینات ایک مغربی ملک کے سفیر کا کہنا ہے،’’ضیاء سیاسی طور پر اب ختم ہو گئی ہیں، جیل سے فرار کا واحد راستہ یہی ہے کہ انہیں طبی بنیادوں پر ملک سے باہر بھجوا دیا جائے۔‘‘ ضیاء کے جیل میں ہونے کا گہرا اثر ان کے خاندان پر بھی پڑا ہے۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے بینکاک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے دوران ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے سب سے بڑے بیٹے طارق رحمان 2008ء سے لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سال اکتوبر میں طارق رحمان کو 2004ء میں شیخ حسینہ کی ریلی پر گرینیڈ حملہ کرنے کے الزام میں بنگلہ دیش کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اس حملے میں قریب بیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ضیاء جیل میں ہونے کے باوجود انتخابی عمل پر گہرا اثر رکھ سکتی ہیں۔ ایلینائے اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض کے مطابق،’’خالدہ ضیاء اگر چہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں لیکن ان کا نام اور ان کا اثر و رسوخ اب بھی باقی ہے۔‘‘
ضیاء کے سیاسی زوال کا آغاز 2014ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے سے ہوا۔ اس فیصلے کے بعد ہنگاموں میں 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور شیخ حسینہ کو وقت سے پہلے انتخابات کروانے پڑے تھے۔ بہت سے افراد کی رائے میں اس وقت شیخ حسینہ نے بی این پی کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کروایا تھا۔ اس صورتحال میں شیخ حسینہ ایک فاتح کے طور پر ابھری تھیں۔ تاہم اب بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ضیاء خاندان بی این پی پر ایک بھاری گرفت رکھتا ہے اور ان کا اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ اوسلو یونیورسٹی کے لیکچرار مبشر حسن کا کہنا ہے،’’ ایسے اشارے واضح ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ضیاء خاندان اپنی سیاسی جماعت میں کافی مظبوط پوزیشن پر ہے۔‘‘
بشکریہ DW اردو
↧
فوربز میگزین : پاکستان سیاحت کیلئے 10 بہترین مقامات میں شامل
پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ بن گیا، فوربز میگزین نے سیاحتی مقامات کے حوالے سے دس بہترین تفریحی مقامات میں پاکستان کا نام بھی شامل کر لیا۔
فوربز کی اس فہرست میں پاکستان کو آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس فہرست میں پُرتگال سب سے پہلے نمبر پر ہے، پُرتگال میں موجود آزورز آئی لینڈ اپنی مثال آپ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ سیاحوں کی توجہ بآسانی اپنی جانب مبذول کروا سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پر مشرقی بھوٹان ہے۔ پہلے پہل متعدد سیاح ہر سال مغربی بھوٹان اور وسطی بھوٹان کی سیر کے لیے جاتے تھے لیکن اب بھوٹان کے مشرقی علاقہ جات نے بھی سیاحوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔
اس فہرست میں تیسرے نمبر پر میکسیکو ہے، چوتھے نمبر پر کولمبیا، پانچویں نمبر پر ایتھوپیا، چھٹے نمبر پر مداگاسکر، ساتویں پر منگولیا، آٹھویں نمبر پر پاکستان، نویں نمبر پر روانڈا اور دسویں نمبر پر دی ٹرکش ریویرا شامل ہیں۔
آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان میں ہنزہ، شگار اور کھالپو کی سیر کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ سیاحوں کے مطابق قراقرم ہائی وے سے گزارتے ہوئے ان علاقوں کا دورہ اپنے آپ میں ایک خوبصورت تجربہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں برس پرانی تہذیبیں اور برف پوش پہاڑ پاکستان کو سیاحوں کے لیے مزید پر کشش بناتے ہیں، رپورٹ میں پاکستان کے لوگوں کی مہمان نوازی کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا فوربز میگزین کی فہرست میں شامل ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں امن و امان اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد سیاحت کو کافی فروغ ملا.
حال ہی میں پرتگال نے محفوظ اور اُبھرتے ہوئے پاکستان کا اعتراف کیا تھا اور پرتگالی شہریوں کے لیے نئی ایڈوائزی جاری کی۔ یورپی ملک پرتگال نے اپنے سیاحوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی۔ ٹریولر ایڈوائزر میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر بھی اعتماد کا اظہار کیا گیا جسے سفارتی سطح پر پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔
↧
↧
اوکی گاہارا، خودکشی کا جاپانی جنگل : جہاں سب سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں
بہت کم لوگوں کو پتا ہو گا کہ جاپان کے خودکشی کے جنگل کا اصل نام کیا ہے۔ خودکشی کرنے والوں کو بھلا نام سے کیا غرض، جب کسی کا خودکشی کرنے کو دل چاہتا ہے تو وہ اس جنگل کا رخ کرتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ 7 صنعتی ملکوں میں جاپان کو یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ وہاں سب سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں۔
خودکشی کا جنگل جاپان میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ بلکہ اس کی تاریخ بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ ذکر ہے سن 864 کا جب اس علاقے میں واقع آتش فشاں پہاڑ فیوجی اچانک پھٹ پڑا اور لاوا اگلنے لگا۔ ماؤنٹ فیوجی کا لاوا تقریباً 30 کلومیٹر رقبے میں پھیل گیا۔
جب لاوا آہستہ آہستہ سرد ہوا تو وہاں پودے سر نکالنے لگے اور پھر آنے والے برسوں میں وہاں ایک اتنا گھنا جنگل کھڑا ہو گیا جہاں سورج کی روشی کے لیے بھی زمین تک پہنچنا محال ہو گیا اور وہ ایک ایسا جنگل بن گیا جہاں دن کے وقت بھی رات جیسا منظر ہوتا ہے۔ لاوے نے زمین کی سطح کو بھربھرا اور مسام دار بنا دیا ہے، جو آوازوں کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس تاریک جنگل کے زیادہ تر حصوں میں موت جیسی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ اس جنگل کو جاپانی زبان میں’ اوکی گاہارا‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے درختوں کا سمندر۔ یہ نام کب پڑا، کوئی نہیں جانتا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ پچھلی صدی کے وسط تک اس جنگل میں خودکشی کی کبھی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک اوکی گاہارا کو ایک مقدس جنگل کی حیثیت حاصل تھی اور کئی جاپانی اس کی پوجا کرتے تھے۔ 1970 کے عشرے میں جنگل سے کئی ایسے مہم جوؤں کا گزر ہوا جنہیں لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ پھر کیا تھا آنے والے دنوں اوکی گاہارا پر کئی ایسے ناول لکھے گئے۔ پھر فلمیں اور ٹیلی وژن سیریز بننے لگیں۔ اور اچانک کسی مصنف کی قوت تخیلہ نے اس جنگل کو خودکشی کے لیے ایک مثالی مقام بنا کر پیش کیا۔ آنے والے برسوں میں کئی فلموں اور ڈراموں میں اس جنگل میں خودکشی کے مناظر فلمائے گئے۔
بس پھر کیا تھا، جاپانی جو دنیا کے ددسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں، اوکی گاہارا کا رخ کرنے لگے اور اونچے گھنے درختوں کی تاریک چھاؤں میں انسانی نعشیں ملنے کے واقعات بڑھنے لگے۔
جنگل میں خودکشی کے زیادہ تر واقعات مارچ کے دوران ہوتے ہیں جو جاپان کے مالی سال کا آخری مہینہ ہے۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اکثر خودکشیوں کا سبب مالی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ جنگل میں نعشیں تلاش کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خودکشیاں درخت سے پھندا لگا کر لٹکنے اور بھاری مقدار میں منشیات کھا کر کی جاتی ہیں۔ جاپان میں ہر سال 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔ تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے جاتے کہ خودکشی کا جنگل ان میں سے کتنے لوگوں کا آخری ٹھکانہ بنتا ہے۔ اعداد و شمار جاری نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خودکشی کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔
جاپان کے مختلف حصوں میں خودکشی کی شرح مختلف ہے۔ لیکن یاماناشی کے علاقے میں، جہاں یہ جنگل واقع ہے، خودکشی کی شرح پورے جاپان میں سب سے زیادہ ہے۔ مقامی آبادی کو شکایت ہے کہ میڈیا نے ایک مقدس جنگل کو خودکشی کا جنگل بنا کر پیش کیا اور خودکشی کرنے والوں کو یہ ترغیب دی کہ وہ اس جنگل میں آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کریں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اوکی گاہارا سے ملنے والی زیادہ تر نعشیں اجنبیوں کی ہوتی ہیں۔ ایک مقامی باشندے واتان ابے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس جنگل کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی۔ اب تو بیرونی ملکوں سے بھی لوگ خودکشی کے لیے اوکی گاہارا کا رخ کرنے لگے ہیں۔
دوسری جانب غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہ دیکھنے کے لیے بھی اس جنگل میں آتی ہے کہ مسام دار زمین پر قدم رکھ کر، گھنے درختوں کے تاریک سائے سے گزرتے ہوئے، جہاں اپنی آواز بھی گہرا سکوت توڑنے میں ناکام رہتی ہے، کیا محسوس ہوتا ہے۔ جنگل کے داخلی دروازے پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ زندگی آپ کے والدین کی جانب سے آپ کو دیا جانے والا ایک قیمتی تحفہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں سکون سے بیٹھ کر اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں اس نمبر پر فون کریں۔
ایک رضا کار نے بتایا کہ فون کرنے کے بعد خودکشی کی نیت سے آنے والے کئی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ایک اور رضاکار کوچی جنگل کے داخلی دروازے پر گٹار بجا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ موت کا سکوت توڑنے کے لیے زندگی کا راگ بجا رہا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک روز خودکشی کا جنگل ایک روز پھر سے مقدس جنگل بن جائے گا اور لوگ یہاں عبادت کے لیے آیا کریں گے۔
جمیل اختر
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
طیب اردوغان کا سیاسی سفر
اکسٹھ سالہ طیب اردوغان اے کے پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد سنہ 2002 میں اقتدار میں آئے۔ وہ 11 سال تک ترکی کے وزیر اعظم رہے اور پھر سنہ 2014 میں ملک کے پہلے براہ راست صدر منتخب ہوئے۔ رواں سال جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ طیب اردوغان کی جماعت ’اے کے پارٹی‘ کو پارلیمان میں واضح برتری حاصل ہوئی جس کے بعد طیب اردوغان دوسری مدت کیلئے ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔ طیب رجب اردوغان سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں اسلامی حلقوں میں سرگرم نجم الدین اربکان کی ویلفیئر پارٹی کے رکن رہے۔ سنہ 1994 سے 1998 تک فوج کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے تک وہ استنبول کے میئر رہے۔ سنہ 1998 میں ویلفيئر پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔اگست سنہ 2001 میں عبداللہ گل کے اتحاد میں ’اے کے پی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ سنہ 2003-2002 میں اے کے پی نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور اردوغان کو وزیر اعظم بنایا گيا۔
اردوغان سنہ 2014 میں براہ راست انتخابات کے ذریعے ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اے کے پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل فوج چار مرتبہ سیاست میں براہ راست دخل اندازی کر چکی تھی۔ سنہ 2013 میں رجب طیب اردوغان نے اعلیٰ فوجی حکام پر اس وقت کامیابی حاصل کی جب 17 افسران کو اے کے پی کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ سینکڑوں فوجیوں، صحافیوں اور سیکولر سیاست دانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2011 میں جب 200 سے زیادہ افسروں کو حراست میں لیا گيا تو فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں نے احتجاجاً استعفے دے دیے۔ ان کے ناقدین جہاں ان کی مخالفت کرتے ہیں وہیں ان کے حامی ان کی تعریف کرتے ہیں۔
طیب اردوغان کی قبولیت کی وجوہات
اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر رجب طیب اردوغان کو پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔علاوہ ازیں جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن جامعہ، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے بھی نوازا گیا ہے۔ فروری 2004ء میں جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول اور فروری 2009ء میں ایران کے دار الحکومت تہران نے رجب اردوغان کو اعزازی شہریت سے بھی نوازا۔ سن 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوغان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔
ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترک رجب طیب اردوغان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کی جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردوغان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنا دیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو سرپرست کا نہایت شاندار استقبال کیا۔
اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010 ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار طیب اردوغان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردوغان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔ اور وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ 15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا لیکن بغاوت کی اس سازش کو تر ک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے۔
بشکریہ دنیا نیوز اردو
↧
ممبئی کا ’زہریلا دوزخ‘ جہاں لوگ رہنے پر مجبور ہیں
اڑتیس برس کی انیتا ڈھولے کو ممبئی میں اپنی بستی میں کچے مکان سے نکالا گیا، بلدیہ کے حکام نے ان کی بستی کو 'غیر قانونی کچی آبادی'کہہ کر مسمار کر دیا۔ انھیں ایک عارضی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ انیتا ممبئی کے وسط میں مہول نامی ایک صنعتی علاقے میں رہتی ہیں، یہاں بسنے والے دسیوں ہزار لوگ اس علاقے سے زہریلی آب و ہوا کی وجہ سے یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ بی بی سی مراٹھی کی مئیروش کونر اور جہانوی مول اس علاقے میں گئے جہاں کے مکین یہاں سے نکلنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انیتا کہتی ہیں کہ علاقے کی زہریلی ہوا کی وجہ سے انھیں نہ صرف سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے بلکہ ان کے بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوا ہے، یہی نہیں ان کی نظر بھی کمزور ہو رہی ہے۔
اس علاقے میں ایسے تقریباً 30 سے 50 ہزار خاندان رہتے ہیں۔ انیتا ڈھولے کا شمار ان پانچ ہزار خاندانوں میں ہوتا ہے جن کے گھر مسمار کر کے انھیں عارضی رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا گیا۔ لیکن ان کے عارضی ٹھکانے مہول میں ہی ہیں جہاں سے یہ لوگ نکلنا چاہتے ہیں۔ ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ انھیں ممبئی کے مضافات میں منتقل کیا جائے گا، تاہم ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مہول کی آب و ہوا اتنی زہریلی ہے کہ یہ علاقہ عارضی طور پر رہنے کے لیے بھی خطرناک ہے۔ یہ علاقہ پہلے مچھیروں کا گاؤں تھا،اب کیمیکل کی فیکٹریوں، پٹرول صاف کرنے کے کارخانے اور فرٹلائزر پلانٹ سے بھرا پڑا ہے۔ 2013 میں کنگ ایڈورڈ میموریل ہسپتال کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مہول میں رہنے والی آبادی میں سے 67 فیصد لوگوں نے ایک ماہ کے اندر متعدد بار سانس لینے میں جبکہ آبادی کے 84 فیصد لوگوں نے آنکھ میں تکلیف کی شکایت کی۔ 2015 میں انڈیا کی ماحولیات کی عدالت 'نیشنل گرین ٹریبیونل'نے کہا کہ 'مہول کے رہائشیوں کی صحت کو خطرہ'ہے۔ عدالت کے مطابق اس کی وجہ علاقے میں ہوا کے معیار کا دن بہ دن بدتر ہونا ہے۔
لیکن ممبئی کے مقامی بلدیاتی حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں آلودگی پر قابو پانے والے ادارے مہاراشٹر پولیوشن کنٹرول بورڈ کے تین مختلف سرویز سے پتہ چلا ہے کہ 'مہول میں آلودگی کی سطح ممبئی کے دوسرے علاقوں سے مختلف نہیں ہے۔' لیکن رہائشی سانس لینے میں دشواری کے ساتھ ساتھ دمے، جلد کی بیماریوں اور ٹی بی کا ذمہ دار علاقے کے ناقص حالات کو ٹھہراتے ہیں۔ انیتا ڈھولے کہتی ہیں کہ مہول میں ان کے والدین اتنے بیمار ہو گئے کہ وہ جلد ہی اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔ ایک سال پہلے مہول متقل ہونے والے شام داس سالوے کہتے ہیں کہ ان کے دو سال کے بیٹے کو پانچ ماہ سے مسلسل جلد کا انفیکشن ہو رہا ہے۔ ’وہ ساری ساری رات سو نہیں پاتا اور اپنی جلد کو کھجاتا رہتا ہے۔ میں اس کو جلد کے متعدد ڈاکٹروں کے پاس لے کر گیا ہوں جنھوں نے اسے مختلف دوائیوں دیں لیکن پھر بھی آرام نہیں آیا۔ وہ روتا رہتا ہے اور کھجاتا رہتا ہے، اب اس چہرے پر بھی نشان پڑ گئے ہیں۔‘
لیکن شام داس سالوے بیماریوں سے لڑنے والے اکیلے رہائشی نہیں۔ ان کے پڑوسی بھی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ 17 ماہ کی انشل تسمباد اور دس برس کے ساحل کو ٹی بی ہے۔ جبکہ 55 سالہ مایا کوسوامی کو دمہ اور 18 برس کی کویتا سبرامانیم کو سانس کی تکلیف ہے۔ اس آبادی کے مکین کہتے ہیں کہ ہوا میں آلودگی ہی واحد مسئلہ نہیں، ان کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں اور نکاسی کی سہولیات بھی نہیں ہیں، جبکہ بجلی بھی باقاعدگی سے جاتی ہے۔ سڑکوں کی کمی کی وجہ سے اس علاقے کی ممبئی کے دوسرے علاقوں تک رسائی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے کی خواتین اپنی نوکریاں چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ انیتا ڈھولے کو جس عارضی رہائش گاہ میں منتقل کیا گیا ہے وہ اصل میں فلیٹوں کا ایک بلاک ہے جس کا سرکاری نام ایورسمیل لے آوٹ ہے۔
یہاں ایسی درجنوں عمارتیں ہیں جن میں ایک کمرے کے تین سو چھوٹے چھوٹے فلیٹ ہیں۔ ہم جب یہاں گئے تو دیکھا کہ علاقہ گندا ہے اور سیوریج پائپ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں اور بجلی کی تاریں ننگی لٹک رہی ہیں۔ یہاں کی ہوا آلودہ ہے اور ہر جگہ مچھر اور چوہے ہیں۔ یہ فلیٹ ان لوگوں کے لیے مختص ہیں جن کے گھر غیر قانونی آبادیوں میں ہونے کے سبب مسمار کر دیے گئے ہیں۔ ہر سال انڈیا کے دیہی علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی کا رخ کرتے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ ایسی غیر قانونی بستیوں میں پھنس جاتے ہیں جو کہ یا تو سڑکوں کے کنارے بنی ہوتی ہیں یا دوسرے شہری منصوبوں کی جگہوں پر موجود ہوتی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
امریکی مہم جو نے تنِ تنہا انٹارکٹیکا عبور کر لیا
ایک امریکی کھلاڑی اور مہم جو کولِن او بریڈی نے انتہائی سرد خطے انٹارکٹیکا کو عبور کر کے ایک نیا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق اپنے پورے سفر میں کولِن نے 932 کلومیٹر کا انتہائی دشوار گزار فاصلہ 54 دنوں میں طے کیا اور ساتھ ہی ایک سلیج سے بندھے 170 کلو گرام سامان کو بھی کھینچا۔ اس کاوش پر دنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہو رہی ہے اور لوگ اس کی سخت ہمت کے قائل ہو گئے ہیں۔ آخری مرتبہ کولِن نے سوئے بغیر مسلسل 32 گھنٹے تک سفر کیا اور کل 125 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور اسے انٹارکٹک کی میراتھن ریس قرار دیا۔ اس کے بعد کولن نے روتے ہوئے اپنے اہلِ خانہ کو پیغام دیا کہ وہ یہ کام کر چکے ہیں۔ اپنے سفر کے مطابق انہوں نے بتایا کہ وہ ایک کمرے میں بند ہو کر اس مہم جوئی پر سوچتے رہے اور اس کام کو کر گزرنے کی ٹھان لی۔
کھلاڑی نے بھوک، تنہائی، سردی، برفانی طوفان اور دیگر تکالیف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کئی دفعہ راہ بھٹک گیا تاہم وہ سامان کھینچتے ہوئے 1500 کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ کولِن او بریڈی کی عمر 33 برس ہے۔ اس نے 2016ء میں یہ راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا لیکن ایک مہم جو برٹن ہینری صرف اپنی منزل سے 30 میل دور تھا کہ وہ لقمہ اجل بن گیا۔ اس کے بعد ایک اور مہم جو نے یہ راستہ ترک کرنے میں ہی عافیت جانی۔ کولِن کے ساتھ ایک اور کھلاڑی لوئی رُڈ نے بھی یہ سفر شروع کیا تھا تاہم جب کولِن کرسمس کے روز اپنی منزل پر پہنچا تو لوئی اپنی منزل سے 80 کلومیٹر دور تھا۔ اپنے سفر میں اس نے خاص طور پر تیار کردہ انرجی بارز کھائیں جس سے وہ پورا دن 10 ہزار کیلوریز کی ضروریات پوری کرتا تھا۔
↧
↧
نتائج نہیں مانتے، بنگلہ دیشی اپوزیشن اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا
بنگلہ دیشی اپوزیشن اتحاد نے کہا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپوزیشن اتحاد نے حکومتی اتحاد پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکمران جماعت عوامی لیگ نے عام انتخابات کے ابتدائی نتائج میں اپوزیشن کے مقابلے میں بڑی برتری حاصل کر لی ہے۔ خیال رہے کہ پولنگ کے دوران ملک بھر میں ہونے والے مختلف پر تشدد واقعات میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے۔اپوزیشن کے جاتیا اوکیا فرنٹ نامی اتحاد کے سربراہ کمال حسین نے ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد حکمران جماعت پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ملکی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ آج ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کرائے جائیں۔
جاتیا اوکیا فرنٹ میں سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بھی شامل ہے۔ خالدہ ضیاء کو ایک عدالت نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت پانچ برس جیل کی سزا سنائی تھی جس کی وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار پائیں۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کمال حسین کا کہنا تھا، ’’ہم نتائج کو رد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک غیر جانبدار حکومت کی نگرانی میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔‘‘ کمال حسین کا کہنا تھا کہ حکومتی جماعت کی دھاندلی کے سبب اپوزیشن کے 100 سے زائد امیدوار انتخابی عمل سے الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ بنگلہ دیش کے ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن ’چینل 24‘ نے غیر سرکاری نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اپوزیشن اتحاد کو محض ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ حالانکہ امید کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن اتحاد کُل 299 نشستوں میں سے کم از کم 93 پر یقینی کامیابی حاصل کرے گا۔
بشکریہ DW اردو
↧
امریکا میں سائبر حملوں سے اخبارات کی اشاعت کا نظام ٹھپ ہو گیا
امریکا میں سائبر حملوں نے اخبارات کی اشاعت اور اُن کی تقسیم کے نظام کو ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق سائبر حملے کے نتیجے میں امریکا کے معروف اخبارات لاس اینجلس ٹائمز، شگاگو ٹریبیون، بالٹی مور سن اور دیگر جریدوں کی چھپائی، اشاعت اور تقسیم کے نظام کو کافی نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں وال اسٹریٹ جرنل اور نیویارک ٹائمز کے لاس اینجلس کی اشاعت میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ سائبر حملہ ایک وائرس کے ذریعے کیا گیا جس نے ان اداروں کے اشاعتی اور تقسیم کار کے سافٹ ویئر کو ناکارہ بنا دیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سائبر حملہ کسی اورملک سے کیا گیا، کمپیوٹرز کے سرور کو ہدف بنایا گیا تاکہ اشاعت و تقسیم کے انفرا اسٹریکچر کو نقصان پہنچا کر اہم معلومات چوری کی جا سکیں۔ محمکہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اخبارات کے نظام پر سائبر حملے سے آگاہ ہیں، حکومت اور صنعتی شراکت دار اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کر رہے ہیں۔
↧
صحرا کا شیر : عمر المختار
عمر المختار لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1862ء میں ’’جنزور ‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ غلامی کے دور میں عمر المختار ہی ایک واحد شخص تھے، جس نے اٹلی کی طاقتور ، ظالم فوج کے آگے گٹھنے ٹیکنے سے انکا کر دیا اور ایک عظیم تحریک ’’تحریک ِمزاحمت ‘‘ شروع کی۔ ہوشمندی، دانائی اور بہادری، عمرالمختار کی صفات میں شامل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک لمبے عرصے (20 سال) تک اس تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ عمر المختار ایک عظیم، بے باک اور نڈر مجاہد تھے۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کو اپنی تحویل میں لینے کے ارادے سے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارا فیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔
حالانکہ لیبیائی باشندوں نے بغیر کسی مزاحمت کے شہر خالی کر دیا ۔ لیکن اٹیلین جہاز تو آئے ہی حملے کے ارادے سے تھے۔ چنانچہ انہوں نے انتہائی بے رحمی سے تین دن تک بمباری کی اورشہر پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر المختار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عمرالمختار صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہو جاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتیں اور رسد اور مواصلات کی گزرگاہوں کو کاٹتیں۔
عمرالمختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کر دیا، مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار افراد قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہو گئے، باوجود اس کے عمرالمختار کی تحریک رکی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔ عمر المختار نے اس جنگ میں جی توڑ محنت کی اور اس تحریک سے اطالوی فوجوں کا جینا حرام کر دیا اور آخر کار 20 سالہ جدوجہد کے بعد قیادتِ عمر المختار اختتام پذیر ہوئی۔ جب وہ جنگ میں زخمی ہو کر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔
اگر اس وقت ان کی عمر 70 سال نہ ہوتی تو عمرالمختار اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوتے اور تاب ناک تشدد اور سزاؤں سے بچ جاتے۔ ظالم اطالویوں نے اس ضعیف کے بڑھاپے کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا اور بھاری زنجیروں اور بیڑیوں سے انہیں باندھے رکھا۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔ ان پر اٹلی کی قائم کردہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنا دی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا۔ لیبیا کی اس عظیم ہستی کو 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر فلم The Lion of Desert یعنی ’’صحرا کا شیر‘‘بنائی۔ فلم کا نام ’’صحرا کا شیر‘‘ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں صحرا کے شیر تھے۔ جنہوں نے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ مل کر لیبیا کی آزادی کی مزاحمتی تحریک جاری رکھی اور دشمن کو ناکوں چنے چبواتے رہے۔
نوید انجم
↧
بنگلہ دیش کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات
بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کو دھاندلی زدہ اور مضحکہ خیز قرار دیا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن ہلال الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ کی 300 میں سے 288 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے حصے میں محض 6 نشستیں ہی آسکیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد حسینہ واجد ریکارڈ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو چکی ہیں تاہم اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث حزبِ اختلاف نے نتائج تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔
↧
↧
کیا آصف زرداری کو گرفتار کیا جا سکتا ہے ؟
پاکستان کی سپریم کورٹ ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ وزیر اطلاعات کے مطابق زرداری کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت کی جانب سے پہلے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق زرداری اور ان کے چند ساتھیوں نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کئی لاکھ ڈالر کی منی لانڈرنگ کرتے ہوئے اس پیسے کو بیرون ملک بھیجا تھا۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر زرداری 2008ء سے 2013ء تک پاکستان کے صدر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی حکومت نے آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر دیا تھا۔ اگر آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا تو وہ بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرح جیل بھیج دیے جائیں گے۔ اس ماہ کے آغاز میں نواز شریف کو مالی بدعنوانی کے کیس میں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ شریف اور زرداری دونوں ہی پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد ہیں۔ یہ دونوں رہنما اپنے اوپر لگائے گئے الزمات کی تردید کرتے ہیں۔
↧
امریکہ اور اسرائیل یونیسکو سے الگ ہو گئے
امریکہ اور اسرائیل نے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق ادارے کو باضابطہ طور پر چھوڑ دیا ہے جس سے ایک سال سے زیادہ عرصہ پہلے شروع ہونے والا وہ عمل مکمل ہو گیا ہے جس کی ابتدا ان تحفظات سے ہوئی تھی کہ یہ عالمی ادارہ اسرائیل مخالف تعصب کو فروغ دے رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کا یونیسکو سے نکلنے کا عمل ضابطوں کے تحت ہوا ہے لیکن یہ اس عالمی ادارے کے لیے ایک دھچکا ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امن کی ترویج کے لیے قیام کیا گیا تھا۔ یونیسکو چھوڑنے کا نوٹس ٹرمپ انتظامیہ نے اکتوبر 2017 میں دیا تھا جس کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے بھی ایک ایسا ہی نوٹس دیا۔
پیرس میں قائم اس تنظیم کی جانب سے اسرائیل پر نکتہ چینی کو اسرائیل مخالف تعصب کہہ کر مذمت کی جاتی رہی ہے۔ یونیسکو نے مشرقی یروشلم میں قدیم یہودی مقامات کو فلسطینیوں کا ثقافتی ورثہ قرار دے کر 2011 میں اسے مکمل رکنیت دے دی تھی۔ امریکہ نے یونیسکو میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ادارہ اپنے عالمی ثقافتی پروگرام، ثقافتی مقامات اور روایات کے تحفظ کی بنا پر شہرت رکھتا ہے۔ یونیسکو لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ، ہولوکاسٹ کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے اخراج سے یونیسکو پر کوئی بڑا مالیاتی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ دونوں ملکوں نے 2011 میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر رکنیت دیے جانے کے بعد اس ادارے کی فنڈنگ روک دی تھی۔
امریکہ اس ادارے کے بجٹ کا تقریباً 22 فی صد ادا کرتا تھا۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا کیونکہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے حکومتی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل ہیں۔ تاہم اس سے قبل امریکہ نے یونیسکو کے عہدے داروں سے کہا تھا کہ وہ غیر رکن ملک کی حیثیت سے ادارے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل بھی امریکہ یونیسکو سے نکل چکا ہے۔ صدر ریگن کے عہد میں 1984 میں امریکی انتظامیہ یہ کہتے ہوئے یونیسکو سے الگ ہو گئی تھی کہ اس ادارے میں بدانتظامی اور بدعنوانی ہے اور اسے روسی مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں امریکہ 2003 میں یونیسکو میں دوبارہ شامل ہو گیا تھا۔
↧
بھوک کا شکار یمنی، اور امدادی سامان کی چوری
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ یمن میں بھوک اور افلاس کے شکار افراد تک پہنچائی جانے والی بین الاقوامی امداد چوری کر لی جاتی ہے یا چھین لی جاتی ہے۔ نبیل الحکمی شہر تعز میں انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل سے متعلق امور کے افسر ہیں۔ تعز یمن کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ یمن میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے تناظر میں وہاں اربوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد کی ترسیل جاری ہے، تاہم اب بھی لاکھوں افراد قحط سالی کا شکار ہیں۔ نبیل الحکیمی کے مطابق رواں برس موسم بہار اور موسم گرما میں یمن پہنچنے والی امداد میں سے خوراک کی بہت سی بوریاں غائب تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ تعز شہر کے گردونواح کے لیے دی جانے والی امداد میں سے چاولوں کی پانچ سو بوریوں کا کوئی ریکارڈ نہ ملا، جب کہ خوراک کے سات سو سے زائد باسکٹ ایک امدادی ادارے کی ذخیرہ گاہ سے لوٹ لیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے شمالی حصے میں اجناس کی 110 بوریاں امدادی ٹرکوں سے چھینی گئیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یمن میں بھوک کے مارے لوگوں کے لیے دی جانے والی امداد چھینی جا رہی ہے۔ اے پی نے مختلف دستاویزات اور الحکیمی سمیت دیگر امدادی کارکنان کے انٹرویوز کے تناظر میں کہا ہے کہ تعز میں ایسے ہزاروں خاندان، جنہیں امداد مہیا کی جانا تھی، اب بھی اس امداد کے منتظر ہیں کیوں کہ بہت سے مواقع پر مسلح افراد امدادی سامان لوٹ لیتے ہیں.
الحکیمی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے کہا، ’’فوج کو اس امداد کو چھین لیے جانے سے بچانا چاہیے۔‘‘ اے پی کے مطابق مسلح گروپ، جن کا تعلق یمنی تنازعے کے دونوں فریقین سے ہے، کئی مقامات پر امدادی سامان کی ترسیل میں خلل ڈالتے ہیں، جب کہ لوٹا گیا امدادی سامان یا تو اپنے حامی گروہوں کو بھاری معاوضے کے عوض بیچا جاتا ہے یا بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ رپورٹ یمن میں خفیہ دستاویزات، پبلک ریکارڈ اور 70 سے زائد امدادی کارکنوں، حکومتی عہدیداروں اور یمن کے چھ صوبوں میں مقیم عام شہریوں سے انٹرویوز کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔
بشکریہ DW اردو
↧