↧
ہر سال دنیا میں 26 کھرب ڈالر کرپشن کی نذر ہوتے ہیں
↧
بریگزٹ : کیا برطانیہ تاریخی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟
یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے لیے بریگزٹ معاہدے پر کسی قسم کا واضح فیصلہ نہ کیے جانے کی وجہ سے اس وقت برطانیہ جدید تاریخ کے بدترین بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کی قیمت بہت زیادہ گر گئی ہے۔ ہرمیس انویسٹمنٹ مینجمنٹ کے سلویا ڈال اینجیلو نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد نچلی ترین سطح تک گر گیا ہے۔ برطانوی چیمبر آف کامرس کے رہنما ڈاکٹر ایڈم مارشل نے برے حالات کا انتباہ کیا ہے۔ ’حالات کو قابو میں لانے کے لیے کوششوں کو دوگنا کر دینا چاہیے اور ساتھ ہی برطانوی کاروباری حلقوں کو کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کے اقدامات بڑھا دینے چاہئیں۔ ‘ اس دوران برطانوی وزیرِ اعظم ٹیریسا مے نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے معاہدے پر پارلیمنٹ میں یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے معاہدے پر ووٹنگ رکوالی ہے۔
برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ معاہدے کی برطانوی پارلیمنٹ سے توثیق کے لیے ووٹنگ ہونا تھی۔ لیکن وزیرِ اعظم نے تاحال ووٹنگ کے لیے کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مسز مے نے کہا ہے کہ اگرچہ کئی ارکانِ پارلیمان ان کے اس معاہدے کے حامی ہیں لیکن شمالی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ کے درمیان کھلی سرحد کے ایک اور معاہدے کے بارے میں کئی حلقوں میں تشویش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں وہ ارکانِ پارلیمان میں پائی جانے والی اس تشویش کو دور کرنے کی کوشش کریں گی۔ دوسری طرف شمالی آئرلینڈ کی فرسٹ منسٹر نے ری پبلک آف آئرلینڈ سے تعلقات میں تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اس طرح ٹیریسا مے کے اس اعلان کے بعد برطانیہ میں بے یقینی کی حالت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ بریگزٹ کے معاہدے پر رائے شماری کے بعد بے یقینی کم ہو جائے گی۔ تاہم ووٹنگ کے ملتوی کیے جانے سے حکومت بریگزٹ معاہدے کی شکست سے تو بچ گئی لیکن یہ التوا برطانوی پاؤنڈ کی قیمت کو گرنے سے نہ روک سکا۔ اس وقت پاؤنڈ کی قدر ایک ڈالر اور چھبیس سینٹ گر چکی ہے جو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں سب سے کم قیمت ہے۔ حکمران جماعت کے درجنوں ارکان بریگزٹ معاہدے کی مخالفت کا اعلان کر چکے تھے۔ اگر ایسی صورت میں اس پر پارلیمان میں ووٹنگ ہوتی تو لیبر، سکاٹش نیشنل پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کامیاب ہو جاتے۔ لیبر پارٹی نے پہلے ہی سے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر بریگزٹ معاہدے پر ٹیریسا مے کو شکست ہوئی تو وہ دارالعوام میں ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک لائیں گے۔
اگرچہ ٹوری پارٹی میں بغاوت کی وجہ سے کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ ووٹنگ ملتوی کر دی جائے لیکن پیر کی صبح تک وزیرِ اعظم مے اور ان کے ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ ہر حال میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کرائیں گے ۔ جب یورپین کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا کہ برطانیہ بریگزٹ کے عمل کو یورپی یونین کے دیگر ارکان کی اجازت کے بغیر منسوخ کر سکتا ہے، تو اس سے حکمران جماعت کے اندر بریگزٹ معاہدے کے مخالفین کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان تمام حالات میں اب یہ نوشتہ دیوار پڑھا جانے لگا کہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کر دی جائے گی۔ لندن کے کئی آن لائن اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے اپنے ذرائع سے اس سلسلے میں خبریں بھی دینی شروع کر دی تھیں۔ ووٹنگ کے التوا کا اعلان وزیر اعظم ٹیریسا مے نے پارلیمان سے خطاب کے دوارن اپنی تقریر میں خود کیا۔
بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کے التوا کے باوجود برطانیہ میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی وجہ سے استحکام پیدا ہوا ہے۔ اب تک کے حالات کے مطابق اگلے برس 29 مارچ تک بریگزٹ کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ لیکن یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کے بعد اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اگر برطانیہ بریگزٹ کے عمل کو منسوخ کرنا چاہے تو یورپی یونین کے دیگر ارکان بریگزٹ برطانیہ پر مسلط نہیں کر سکتے۔ مگر پھر بھی یورپی یونین کے صدر ینکر کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ طے پا چکا ہے اس لیے یور پین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اسی طرح برطانیہ کی حکمران جماعت کے ارکان عدالت کے اس فیصلے کو بریگزٹ کے عمل کی توثیق کہہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق عدالت نے ریفرنڈم کو قانونی تسلیم کیا ہے اس لیے اس پر عملدرآمد نہ کرنا برطانوی عوام کی رائے سے انحراف کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس وقت بریگزٹ معاہدے کا کیا مستقبل ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم ماہرین چھ امکانات کی نشاندہی کر رہے ہیں، کوئی معاہدہ نہ طے پائے، معاہدے پر ایک اور رائے شماری ہو، نئے سرے سے مذاکرات کا سلسہ شروع ہو، پارلیمان ٹوٹ جائے اور نئے انتخابات، وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، بریگزٹ پر ایک نیا ریفرنڈم ہو۔
بشکریہ دنیا نیوز اردو
↧
↧
گوگل پر احمق لکھنے سے امریکی صدر ٹرمپ کی تصویر کیوں کھلتی ہے؟
گوگل کے سی ای او نے بالآخر اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ گوگل پر احمق یعنی ’idiot‘ کے لفظ کو سرچ کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر کیوں سامنے آتی ہیں۔ غیر ملکی رپورٹ کے مطابق گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے امریکی کانگریس کی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر سرچ انجن کے ٹیکنیکل طریقہ کار کے بارے میں بتایا ۔ امریکی کانگریس کی جانب سے گوگل پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس کا سرچ انجن متعصب ہے جو احمق لکھنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر دکھاتا ہے۔
گوگل دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے جس پر روزانہ کروڑوں الفاظ سرچ کیے جاتے ہیں مگر اس بار امریکی کانگریس نے گوگل کے سی ای او سندر پچائی کو طلب کر کے وضاحت مانگی ۔ ناصرف امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ بلکہ دنیا بھر کے سیاست دان کے ساتھ یہی معاملہ ہے، گوگل پر’بھکاری‘ لکھنے سے وزیراعظم عمران خان، چور لکھنے سے نواز شریف اور شریف خاندان کی تصاویر سامنے آتی ہیں۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو گوگل دنیا کا احمق ترین وزیر اعظم بتاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا پر صارفین کا ان حکمرانوں کو ان کے نت نئے ناموں کے ذریعے مخاطب کرنے سے ہوتا ہے۔
↧
افغانستان میں امن کا خواب کیسے پورا ہو گا ؟
کیا افغانستان میں امن کے قیام کا خواب پورا ہو گا یا ابھی یہ محض ایک سراب ہی رہے گا۔ اس بارے میں حتمی طور پر تو ظاہر ہے کہ کسی کے لئے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ماہرین اس بارے میں اپنے تجزئے ضرور دیتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے افغان امور کے ماہر عقیل یوسفزیئ اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے چودھری نعمان ظفر سے اس بارے میں گفتگو کی۔ عقیل یوسف زئی کا کہنا تھا اب امریکہ سمیت زیادہ تر جگہوں پر اس بات کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے جسکے مطابق 2015 سے 2018 کی درمیانی مدت میں 23 ہزار سے زیادہ افغان فوجی اور پولیس اہلکار حملوں میں مارے گئے ہیں اور امریکہ اب تک افغانستان میں جتنا وقت اور سرمایہ لگا چکا ہے اسکے مطابق نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ لیکن اب ایک بار پھر پوری شدت سے امن کے لئے کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد چند ہفتوں میں خطے کے کئ دورے کر چکے ہیں۔ طالبان کا قطر آفس پھر سے سرگرم ہو گیا ہے لیکن ساتھ افغانستان کے اندر طالبان کے حملوں اور افغان افواج اور امریکہ اور نیٹو کی افواج کی جوابی کارروایئوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دوسری جانب مفاہمتی اور مذاکراتی عمل بھی چل رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغانستان میں انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد مفاہمت کی کوئی صورت نکل سکے گی۔ انہوں نے کہا انہیں تو افغان حکومت یا انتظامیہ اس عمل سے باہر نظر آتے ہیں کیونکہ طالبان ان سے بات کرنے کے لئے بلکل تیار نہیں ہیں تاہم انہوں کہا کہ اشارے مل رہے ہیں کہ کچھ نئے فارمولوں یا آیئڈیاز پر کام ہو رہا ہے اور خطے کی کئی اہم ریاستیں بہ یک وقت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جیسے پاکستان کا ایک بڑا اور اہم رول سامنے آیا ہے اور سب کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر چین، روس اور افغانستان کے درمیان بہت جلد ایک میٹنگ ہونے والی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے پاس کوئی ایسا فریم ورک، فارمولا یا روڈ میپ ہے جسکی طالبان کو پیشکش کی جائے تو وہ سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بننے پر تیار ہو جایئں تو اطلاعات یہ ہی ہیں کہ ایسا روڈ میپ موجود ہے لیکن ابھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی ہے۔
قمرعباس جعفری
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
کشمیر : بچپن جو چھروں کی نذر ہوئے
انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں پیلیٹ گنز یعنی چھروں کی شکاری بندوق سے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہزاروں نوجوان اور کم سن بچے بینائی سے جزوی یا مکمل طور محروم ہو چکے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق انڈین سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلیٹ گنز کے بے دریغ استعمال سے پچھلے کچھ برسوں میں کم سے کم 3000 افراد کی آنکھیں زخمی ہو چکی ہیں۔ مقامی لوگ اسے مردہ آنکھوں کی وبا کہنے لگے ہیں۔ عوامی غصے کے باوجود انڈین سکیورٹی فورسز نے چھروں کے استعمال میں کمی کرنے کی بجائِے اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ حال ہی میں ان چھروں کا نشانہ بننے والی سب سے کم عمر بچی حبا کی آنکھ کا دوسرا آپریشن ہوا۔ اپنی ماں سے لپٹ کر بیٹھی، ننھی سی حبا نثار کشمیر میں چھروں کی سب سے کم عمر شکار تو ہیں، مگر وہ اکیلی نہیں۔
حبا کے چہرے پر اُس وقت چھرے لگے جب وہ اپنے گھر میں کھیل رہی تھیں۔ دو سال سے بھی کم عمر کی حبا آہنی چھروں کی سب سے کم سن شکار بن گئی ہیں۔ گزشتہ ماہ شوپیان میں مسلح تصادم کے دوران چھ عسکریت پسند مارے گئے جس کے بعد لوگوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کے دوران فورسز نے چھروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ حبا کے چہرے پر اُس وقت چھرے لگے جب وہ اپنے گھر میں کھیل رہی تھیں۔ گزشتہ روز سرینگر کے ہسپتال میں ان کا آپریش کیا گیا جس کے دوران ان کی آنکھ سے چھرا نکالا گیا، ڈاکٹروں نے امید ظاہر کی ہے کہ حبا کی آنکھ بچ جائے گی۔
شب روزہ کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے اور دوسری آنکھ میں مکمل بینائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔ دو سال قبل پلوامہ میں انڈیا کے سکیورٹی فورسز مظاہرین کا تعاقب کر رہے تھے اور جب فورسز نے مظاہرین پر چھروں کی بارش کر دی تو شب روزہ میر کے چہرے پر چھرے لگے جس کی وجہ سے وہ معذور ہو گئی ہیں۔
جب یہ واردات ہوئی تو شب روزہ کی عمر سولہ سال تھی اور وہ دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھیں۔ جس دن پہلا پرچہ تھا اُس دن ان کا پہلا آپریشن کیا گیا۔ ان کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے اور ڈاکٹروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان کی دوسری آنکھ میں مکمل بینائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔ انہیں چلنے پھرنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ شب روزہ کو امتحان میں نہ بیٹھ پانے کا سخت افسوس ہے۔
2016 میں شدت پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جب کشمیر میں ہر طرف مظاہرے ہو رہے تھے، تو افرا شکور آٹھویں جماعت کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں۔ اُس وقت افرا کی عمر چودہ برس تھی۔ ان کا بھائی گھر سے باہر نکلا تھا، حالات کشیدہ تھے اور افرا بھائی کو دیکھنے گھر سے نکلیں۔ جونہی دروازہ کھولا اُن کے چہرے پر چھروں کی بارش ہو گئی۔ اس کے بعد افرا کو کچھ یاد نہیں۔ کئی آپریشنز کے باوجود ان کی بینائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔ افرا کے والد دس سال قبل کراس فائرنگ میں مارے گئے تھے۔ دو کمروں کے کچے مکان میں رہنے والی افرا اب نفسیاتی تناو کا بھی شکار ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
عراق کے بارے میں دلچسپ حقائق : ملک کے 20 فیصد رقبے پر پہاڑ ہیں
٭ عربی نام العراق چھٹی صدی عیسوی سے رائج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس لفظ کا ماخذ سمیری ہے۔ اس کے معنی ’’گہری جڑوں والا، سیراب، زرخیز‘‘ ہیں۔
٭ عراق نے تین اکتوبر 1932ء کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
٭ 1991ء میں عراقی پرچم پر ’’اللہ اکبر‘‘ لکھا گیا۔
٭ عراق نے 1948ء میں اولمپکس گیمز میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔
٭ ملک کے 20 فیصد رقبے پر پہاڑ ہیں۔
٭ خلیج فارس پر عراقی ساحل صرف 58 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
٭ دجلہ اور فرات عراق کے مشہور اور دو بڑے دریا ہیں۔ ان دریاؤں کا درمیانی علاقہ قدیم انسانی تہذیب کی آماج گاہ رہا۔
٭ دنیا میں تیل کے ذخائر کے لحاظ سے عراق کا نمبر پانچواں ہے۔
↧
آرمی پبلک اسکول پر حملے کی رپورٹ منظر عام پر آئے گی ؟
سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کا سقوطِ ڈھاکہ ہو کہ 16 دسمبر دو ہزار چودہ کا آرمی پبلک سکول قتلِ عام، دونوں پر تحقیقاتی کمیشن بنے۔ ایک کی رپورٹ 47 برس ہو چکے مگر باضابطہ طور پر ریاست پاکستان کی طرف سے منظرِ عام پر نہیں آئی۔ دوسرے سانحے کی رپورٹ سنا ہے مرتب ہو رہی ہے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے بارے میں بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے اور آئندہ ایسا سانحہ رونما نہ ہو۔ آرمی پبلک سکول قتلِ عام کے بارے میں بھی وفاق اور صوبے کی سطح پر تحقیقات کی نوید سنائی گئی۔ تحقیقات اگر ہوئیں بھی تو مرنے والے بچوں اور اساتذہ کے لواحقین ان کے نتائج سے اب تک بے خبر ہیں۔
ان بچوں کے والدین پر پچھلے چار برس سے دوہرا بوجھ ہے۔ اپنے بچوں کا سوگ اور سانحے کے ذمہ داروں کے تعین اور غفلت کے اسباب کی کھوج لگانے کے لیے دھرنے، ریلیاں اور یہاں وہاں عرض داشتیں پیش کرنا۔ بہرحال ریاست نے بادلِ نخواستہ جو تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے جب تک واقعی اس کی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی تب تک کسی کی کسی بھی یقین دہانی پر یقین ممکن نہیں۔ یہ محاورہ کہ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، اہلِ پاکستان پر صادق نہیں آتا۔ یہ لوگ دودھ کے نہیں چاچھ کے جلے ہیں۔ یہاں کمیشن لینے کا چلن تو ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا زیادہ رواج نہیں۔ بھلے وہ ایبٹ آباد کمیشن ہو کہ جبری گمشدگیوں کے اسباب و ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کمیشن۔
ان حالات میں یہ توقع نری عیاشی ہے کہ کسی کمیشن کی رپورٹ اگر شائع ہو بھی جائے تو اس کی سفارشات پر من و عن نہ سہی جزوی عمل درآمد ہی ہو سکے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کمیشن نے سانحہ کوئٹہ میں پچاس سے زیادہ وکلا کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد غفلتوں اور ذمہ داروں کا کھل کر تذکرہ کیا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پوری توانائی خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں لگا دی۔
ایئرمارشل ذوالفقار علی خان کمیشن نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے دائرہ کار اور مینڈیٹ کے تعین کے لیے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی فرمائش پر مفصل رپورٹ مرتب کی۔ اب تک تو اسے دیمک چار بار چٹ کر گئی ہو گی۔
سانحہ اوجھڑی کیمپ کے بارے میں اندازے ہیں کہ لگ بھگ سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو نے اس سانحے کے لیے فوری تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اس کمیٹی نے کچھ ہی عرصے میں رپورٹ مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دی۔ اس سے پہلے کہ رپورٹ شائع ہوتی جونیجو حکومت ہی اڑا دی گئی۔ اوجھڑی کیمپ رپورٹ کہاں ہے؟ کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں۔
ضیا الحق کے طیارے کے حادثے کے بارے میں رپورٹ کہاں ہے؟ کسی سے بھی پوچھ لیں۔ جواب میں اچکتے کندھے ہی ملیں گے۔
بات یہ ہے کہ چھ چھ ہزار صفحات کی رپورٹیں تیار کرنے سے کیا حاصل جب ان کی سمری تک سورج کی روشنی نہیں دیکھ پاتی۔ کاغذ درخت کے گودے سے بنتا ہے۔ اگر ایسی لاحاصل رپورٹیں نہ بنیں تو کاغذ کی بچت ہو گی۔ کاغذ کی بچت ہو گی تو درخت کم کٹیں گے، درخت کم کٹیں گے تو درجہِ حرارت میں کمی ہو گی۔ لہذا ماحولیات پر رحم کھاتے ہوئے آئندہ ایسا کوئی کمیشن نہ بنایا جائے کہ جس کی رپورٹ شائع کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ ویسے بھی پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آئے دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
اسرائیلی وزیر اعظم کے بیٹے کا فیس بک بند کیوں ہوا ؟
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بڑے بیٹے یائر نیتن یاہو کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر مسلم مخالف پوسٹ کرنے کی پاداش میں فیس بک پیج 24 گھنٹے کے لیے معطل کر دیا۔ ذرائع کے مطابق یائر نیتن نے اپنے فیس بک پیج پر کہا تھا کہ مشرق وسطی میں اسی وقت امن آ سکتا ہے جب مسلمان یہاں سے چلے جائیں ۔
اس پوسٹ کے بعد کمپنی نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیٹے کی آمریت پسندانہ سوچ قرار دیتے ہوئے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی تھی۔
↧
انڈونیشیا، دلچسپ حقائق : انڈونیشیا 18 ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل ہے
٭ دنیا کا سب سے بڑا پھول رافلیشیا اَرنولڈی انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں پایا جاتا ہے۔ اس کا وزن سات کلوگرام تک ہو سکتا ہے۔ اس کی پتیاں 1.6 فٹ لمبی ہوتی ہیں۔
٭ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان انڈونیشیا میں رہتے ہیں۔
٭ انڈونیشیا 18 ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل ہے۔
٭ آتش فشانی سے وجود میں آنے والی دنیا کی سب سے بڑی جھیل ’’ٹوبا‘‘ انڈونیشیا میں ہے۔ یہ عمل 70 ہزار برس قبل ہوا۔
٭ بدھ مت کا سب سے بڑا ٹمپل مرکزی جاوا میں ہے۔ اس کا نام بوروبڈور ہے۔ اس میں گوتم بدھ کے سیکڑوں مجسمے ہیں۔
٭ فیفا ورلڈ کپ میں ایشیا کی پہلی ٹیم انڈونیشیا کی تھی جو ڈچ ایسٹ انڈیز کے نام سے شامل ہوئی۔ اس نے 1938ء میں کوالیفائی کیا لیکن ہنگری سے 6-0 سے ہار گئی۔
↧
↧
Inside Congo's Ebola zone : Worst in Congo's history
The current outbreak in Congo is now the second biggest in history and has so far infected at least 450 people and killed at least 270 of them, according to WHO and Congo health officials. Responding to the Ebola virus disease (EVD) outbreak in north-eastern parts of the Democratic Republic of the Congo continues to be a multifaceted challenge. By utilising proven public health measures (contact tracing, engaging communities) as well as new tools at hand (vaccine and therapeutics), WHO remains confident the outbreak can be contained and brought to an end.
During the reporting period (28 November – 4 December 2018), 35 new cases were reported from nine health zones in North Kivu and Ituri provinces: Beni (8), Komanda (eight), Katwa (eight), Vuhovi (three), Kalunguta (two), Butembo (two), Mabalako (two), Masereka (one), and Mutwanga (one). Recent cases in Komanda and Mabalako health zones follow an extended period (exceeding two incubation periods) without detection of new cases; highlighting the risk of reintroduction of the virus, and the need to maintain enhanced surveillance. Cases in the Komanda originated from an infection of a mother and her children in Beni. While insecurity in Komanda will challenge the response activities, control measures including contact tracing and vaccination were initiated soon after the detection of cases.
Public and private health centres with inadequate infection prevention and control (IPC) practices continue to be major source of amplification of the outbreak. During the reporting period, two new infections were reported in health workers, and at least one new case likely acquired EVD from an infected health worker during a routine visit. Altogether, 44 health workers (41 nurses and three doctors) have been infected to date, of which 59% (26) were female. As of the reporting period, 21 additional survivors were discharged from Ebola treatment centres (ETCs) in Beni (12) and Butembo (nine) and reintegrated into their communities. A total of 142 patients have recovered to date.
As of 4 December, 458 EVD cases (410 confirmed and 48 probable), including 271 deaths, have been reported in 11 health zones in North Kivu Province and three health zones in Ituri Province (Figure 1). The epidemiological curve (Figure 2) of the outbreak shows two distinct phases. The first phase was centred in Mangina and was largely brought under control within a month. The second wave, dispersed across many areas, has continued for over two months with approximately five new cases per day. Given the expected delays in case detection and reporting in the recent weeks, overall trends in weekly case incidence must be interpreted cautiously.
The risk of the outbreak spreading to other provinces in the Democratic Republic of the Congo, as well as to neighbouring countries, remains very high. Over the course of the past week, alerts have been reported from several provinces within the Democratic Republic of the Congo, South Sudan and Uganda; EVD has been ruled out for all alerts to date. Ebola virus disease in women and children
Concerns have been raised regarding the disproportionate number of women and children infected during this outbreak (Figure 3). To date, females accounted for 62% (280/450) of overall cases where sex was reported. Of all female cases, 83% (230/277) were aged ≥15 years. Of these women, at least 18 were pregnant, and an additional seven were breastfeeding or recently delivered at the time of infection. There have been 27 cases among infants less than one year of age, with 70% (19) of these being boys, and 21 fatalities (age-specific case fatality of 78%). There were also nine cases in infants aged less than one month. Children less than 15 years of age accounted for 24% (106/447) of cases.
There are likely a multitude of factors contributing towards this disproportionate disease burden observed in women and children. These include: exposure within formal and informal health facilities, involvement in traditional burial practices, transmission within family groups (including transmission between mothers caring for children), differences in health seeking behaviour, as well as the impact of ongoing conflict on the underlying population structure in affected areas. Among those with available information, commonly identified risk factors reported by cases include: having contact to a known case (224/320, 70%), having attended funerals (121/299, 40%) and having visited/admitted to a health facility before onset of EVD (46/139, 33%). Of note, 46% of female cases (84/181) reported having attended funerals, in contrast to 31% of male cases (37/118).
A concurrent increase in cases of malaria and the inadequate accompanying IPC in health settings are also likely to be contributory to the high rates of EVD among children. The recent conclusion of a four-day malaria control campaign in Beni on 2 December aimed at preventing further malaria deaths, as well as lessen the burden on health centres in order to address this potential source of transmission. The MoH, WHO, are actively working with UNICEF and other partners to address the increased risks observed in women (including pregnant or breastfeeding women) and young children, and further strengthen measures to prevent and manage infections in these groups.
↧
ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلسل جھوٹ بول کر ایف بی آئی کو تباہ کیا، سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر
سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایف بی آئی سے متعلق مسلسل جھوٹ بول کر اس کی ساکھ کو تباہ کیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایف بی آئی سے متعلق مسلسل جھوٹ بول کر اس کی ساکھ کو تباہ کر دیا اور قانون کی حکمرانی کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ جیمز کومی کا کہنا تھا کہ اچھے لوگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سوجھ بوجھ سے عاری قرار دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ریبلکن اراکین سچ کا ساتھ دینے میں کمزور واقع ہوئے ہیں اور آج کہاں ہیں وہ ریپبلکنز جو قانون کی بالادستی اور سچ کا ساتھ دینے والے تھے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جیمز کومی کو گزشتہ سال عہدے سے برطرف کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اخلاقی طور پر نااہل قرار دیا تھا۔
↧
ترکی کی بڑی فتح، امریکا فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے پر تیار
ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ترکی کے ہم منصب رجب طیب اردوان کو بتایا ہے کہ واشنگٹن، امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی پر غور کر رہا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولو چاش اوگلو نے دو ہفتے قبل ہونے والے جی 20 اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ارجنٹینا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے رجب طیب اردوان کو کہا کہ وہ فتح اللہ گولن اور دیگر افراد کی حوالگی پر کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ ترک حکومت ایک طویل عرصے سے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا منصوبہ بنانے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے، جو تقریبا 2 دہائیوں سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر کے امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
ترک انتظامیہ کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ رجب طیب اردوان کے سابق اتحادی فتح اللہ گولن نے اس وقت ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کی جب باغی فوجیوں نے ٹینکس اور ہیلی کاپٹرز کو استعمال کیا اور پارلیمنٹ اور غیر مسلح افراد پر حملہ کیا، تاہم فتح اللہ گولن اس ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام مسترد کر چکے ہیں۔ اس معاملے پر جب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن کی حوالگی کی درخواست پر ٹھوس اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں، ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی نے امریکا میں مقیم 80 سے زائد فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی حوالگی کی بھی درخواست کی تھی۔ میولو چالش اوگلو کا کہنا تھا کہ ہماری توقعات بہت واضح ہیں، ہمارے درمیان دو طرفہ معاہدہ ہے اور وہاں بین الاقوامی قوانین موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی میں 15 جولائی 2016 کی رات فوج کے ایک باغی گروپ کی جانب سے ملک میں بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی تھی، اس ناکام کوشش کے دوران جھڑپوں میں 246 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
↧
افغان طالبان اور امریکہ امن مذاکرات میں آمنے سامنے
طالبان نے کہا ہے کہ سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے عہدے داروں نے بھی افغانستان میں 17 برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے سے متعلق مذاکرات میں حصہ لیا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ ان کا افغان حکومت کے نمائندوں سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ افغان طالبان کے نمائندوں نے امریکی عہدے داروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد افغانستان کی 17 برسوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت پر زور دینا تھا۔ ان مذاکرات کا اہتمام پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کیا تھا۔ تاہم جن عہدے داروں نے بات چیت میں حصہ لیا، ان میں سے کوئی بھی فوری طور تفصیلات بتانے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
طالبان اور پاکستانی عہدے داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان مفاہمت کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کی، جب کہ مذاکرات کی میز پر پاکستان، افغانستان، سعودی عرب اور میزبان ملک متحدہ عرب امارات کے وفود بھی موجود تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کے نمائندوں نے صرف امریکی ٹیم سے بات چیت کی اور ان کا افغانستان کی یونٹی حکومت کے کسی رکن سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ مہینوں میں پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے جس میں لاکھوں ڈالر کی امداد کی معطلی بھی شامل ہے جس کے متعلق عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اسلام آباد کی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں بے دلی ہے۔
پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی بات چیت میں ایک عرصے سے یہ زور دیتا آیا ہے کہ أفغانستان میں اس کے حریف ملک بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اس کے لیے تشویش کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی عہدے دار بھارتی انٹیلی جینس کے کارکنوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ أفغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی میں عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہیں۔ کابل اور نئی دہلی دونوں ہی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ دبئی میں ہونے والے یہ مذاكرات پچھلے مہینے ماسکو میں ہونے والی امن بات چیت کے بعد ہوئے ہیں۔ ان مذاكرات میں أفغان حکومت کے نمائندے شامل نہیں تھے۔
پاکستان کے ایک سینیر عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ تین سال کے عرصے میں دبئی مذاكرات وہ پہلے مذاكرات ہیں جس میں أفغان حکومت کے عہدے دار اور أفغان حکومت کے نمائندے دونوں ہی امن بات چیت میں شریک ہیں۔ طالبان کی جانب سے أفغان حکومت کے عہدے داروں سے بات چیت سے انکار کے بیان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی عہدے دار کا کہنا تھا کہ دبئی میں ہونے والے اجلاس کا کبھی بھی یہ مقصد نہیں تھا کہ اس مرحلے پر کابل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔ ان دونوں کی ایک دوسرے کے سامنے موجودگی اعتماد بڑھانے کی جانب ایک قدم ہے۔
امریکہ کا پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم
محکمہ خارجہ کی ترجمان نے وائس آف امریکہ کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تنازع کے خاتمے کی جانب بڑھنے کے لیے افغان مذاكرات کی حوصلہ افزائی امریکی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی حکومت کی طرف سے جنوبی ایشیا کی سلامتی اور استحكام کی جانب بڑھنے کے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں طالبان، افغانستان کی حکومت اور دوسرے افغانوں کے درمیان بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے ایک حالیہ خط میں اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی معاونت پاکستان اور امریکہ کی پائیدار شراکت داری میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
کیا بات چیت آگے بڑھ رہی ہے؟
امریکہ کی بفلو یونیورسٹی کے تجزیہ کار پروفیسر فیضان حق کا کہنا ہے کہ بات چیت یقیناً آگے بڑھ رہی ہے، کیونکہ امریکہ اس بات سے واقف ہے کہ کابل کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی پالیسی کو نافذ کر سکے یا اس پر مذاکرات کر سکے۔ ان کا دائرہ کار محدود ہے۔ اور وہ امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں یا کچھ لوگ انڈیا کا نام لیتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے جو اپنی مضبوط پوزیشن حاصل کی ہے، وہ اس سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، اور وہ اسے کھونا نہیں چاہیں گے۔ تو ان کے نزدیک وہ ان سے بات نہیں کریں گے جو امریکہ کے لئے کام کرتے ہیں بلکہ امریکہ ہی سے بات کریں گے۔ تا کہ اس کا کوئی حل نکل سکے۔
پروفیسر حق کا کہنا تھا کہ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ طالبان بالآخر افغانستان کی حکومت سے بھی بات کریں گے، اور ایک حل نکلے گا، جس میں دونوں طرف کے لوگ شامل ہوں گے، کیونکہ بحرحال کابل کی حکومت چند شعبوں میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ ان کے پاس انفراسٹرکچر بھی اور ان کے پاس سیکیورٹی فورسز بھی ہیں۔ تو میرا نہیں خیال کہ طالبان ان کو انڈر ایسٹی میٹ کریں۔
امریکی دفترِ خارجہ کا پاکستان کے متعلق مثبت بیان کیا معنی رکھتا ہے؟
پروفیسر فیضاں حق نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے، اور وہ بہتری اسی وجہ سے آئی ہے کہ دونوں جانب کچھ معاملات سمجھے جا چکے ہیں کہ ہمارا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ ایک پرانا مشورہ تھا کہ طالبان کو ساتھ بٹھایا جائے۔ حقیقت پسندی پر مبنی امریکہ کے پالیسی سازوں نے بھی یہ بات ہمیشہ کہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک خوش آئندہ بات ہے۔ لیکن بیس سال بعد اس مقام پر پہنچنا، اور وہیں سے چلنا شروع کرنا جہاں سے ہمیں بہت پہلے چلنا چاہئیے تھا، وہ ایک مشکل مقام ہو گا، لیکن میرا خیال ہے کہ آنے والے حالات میں ہم دیکھیں گے کہ پاکستان اور امریکہ کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اتنی سرد مہری کے باوجود ایک مثبت بیان آئے، اور اس میں امریکہ پاکستان کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا اس پر سنجیدگی سے کام کرنا بہت ضروری ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ کئی دفعہ پاکستان کی طرف سے وہ سنجیدگی نہیں دکھائی گئی یا بات کو نہیں سمجھا گیا کہ امریکہ اس بارے میں کتنا سنجیدہ ہے کہ افغانستان کے حالات بہتر ہوں۔ اس سے قبل خبروں میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت متحدہ عرب امارات میں ہورہی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے ٹوئٹر پر ایک مختصر بیان میں اس بات چیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برداری اور دیگر فریقین کے ساتھ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان فیصل نے کہا کہ یہ مذاکرات متحدہ عرب امارت میں ہو رہے ہیں اور پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ ان مذاکرات سے افغانستان میں قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا اور خطے میں امن آئے گا۔ دوسری طرف خبررساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس نے طالبان کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دبئی میں ہونے والی ملاقات میں طالبان کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے نمائندے بھی شریک ہوں گے تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔
افغانستان کے سرکاری خبررساں ادارے کے ڈائریکٹر نے بھی اس اجلاس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے اپنے ْٹوئٹر پر کہا ہے کہ ’پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان‘ کے مذکرات سے پہلے امریکہ، افغانستان ، پاکستان، اور متحدہ عرب امارات کے عہدیدار وں نے ملاقات کی ہے۔ افغانستان کی وزارت خارجہ نے اطلاعات کے مطابق کہا ہے کہ متحدہ عرب میں ہونے والے مذاکرات پاکستان کی طرف سے افغان امن و مصالحت کی کوششوں کی سلسلے میں پہلا ٹھوس عملی اقدام ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی افغان طالبان سے بات کروا دی ہے اور پاکستان کے تعاون سے‘‘ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت ہو گی.
افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تشکیل دی گئی ہائی پیس کونسل کے رکن عبدالحکیم مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کے نمائندوں سے بات چیت اعتماد سازی کے لیے اہم ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے قبل ازیں ہونے والے بات چیت کی نا تو تصدیق کی ہے نا ہی ان کا انکار کیا ہے تاہم امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان تنازع کے حل کے لیے مختلف فریقوں سے بات چیت کی تھی۔ خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے ساتھ دو بار ملاقا ت کر چکے ہیں جو اطلاعات کے مطابق ابتدائی بات چیت تھی جن کے بارے میں واشنگٹن اس توقع کا اظہار کر چکا ہے کہ یہ رابطے افغانستان میں قیام امن کے روڈ میپ کے لیے ٹھوس بات چیت کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
رواں ماہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کےنام لکھے گئے خط میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد خلیل زاد نے اسلام آباد دورہ کیا اور وزیراعظم عمران خان اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہور ہے ہیں جب چین، پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں سرگرم ہے اسی سلسلے میں ہفتے کو کابل میں افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا ایک سہ فریقی اجلاس کابل میں ہوا جس دوران چین نے اسلام آباد اور کابل کےمابین اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کے عزم اظہار کیا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی کوششوں کی حمایت کا طریقہ کار وضح کرنے کے بار ے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
جزیرہ بالی : جنت کا ایک نمونہ
بالی جزیرہ معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے انڈونیشیا کا انتہائی اہم جزیرہ ہے۔ دنیا میں یہ ننھا منا جزیرہ جاوا کے مشرقی کنارے پر جنت کا ایک نمونہ لگتا ہے ۔ اس کی زرخیز زمین اور چمکیلے سبز جنگلات نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی تہذیب و تمدن، ثقافت و آداب ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ 2230 مربع میل رقبے پر مشتمل جزیرہ بالی اپنے صحت مندانہ حسن اور اعلیٰ ثقافت، جس میں موسیقی، ناچ گانا، ڈرامہ اور تعمیر کا فن شامل ہے، خاص شہرت رکھتا ہے۔ یہاں بہت سے آتش فشاں پہاڑ بھی ہیں۔ آتش فشاں پہاڑ کی وادی جو جزیرے کے جنوب میں ہے، بڑی زرخیز ہے۔ مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں بالی میں ہندومت کو تحفظ حاصل ہے۔
تقریباً ساتویں صدی عیسویں میں یہاں آنے والے ہندومت لائے جبکہ بقیہ سارے انڈونیشیا پر سولہویں صدی عیسوی تک اسلام کا غلبہ ہو چکا تھا۔ دسویں اور پندرہویں صدی تک بالی پر جاوا کے حکمران قابض رہے۔ سترہویں صدی کے اوائل میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس جزیرہ کے ساتھ تجارت شروع کی۔ چند سال انگریز بھی اس پر قابض رہے۔ تقریباً ایک سو سال سے زائد عرصے تک پرتگالیوں کا عمل دخل رہا۔ 1950ء میں یہ علاقہ آزاد ہوا اور اب انڈونیشیا کا ایک صوبہ ہے۔ بالی کے لوگ جس ہندومت کے پیروکار ہیں اس پر زیادہ اثر بدھ مت کا ہے۔ یہاں مصوری، موسیقی اور رقص، روز مرہ زندگی اور مذہبی رسومات سے وابستہ ہیں۔ بالی کو ہزار مندروں کا جزیرہ بھی کہا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہاں کئی ہزار مندر ہیں۔
آتش فشاں پہاڑ اگانگ تقریباً 10 ہزار فٹ اونچا ہے اور بالی کا بلند ترین مقام بھی یہی ہے۔ بالی کے باشندوں کے نزدیک یہ پہاڑ دنیا کا مرکز ہے۔ اس جگہ بالی کا سب سے مقدس مندر ہے جو تین حصوں میں منقسم ہے۔ بالی کے لوگ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی بدولت بھی بہت مشہور ہیں ان میں اچھے مصور، لکڑی پر نقش و نگار بنانے والے، پتھر اور ہاتھی دانت کا کام کرنے والے اور جواہرات جڑنے والے موجود ہیں۔ انہی خوبیوں کی بنا پر ہر سال ہزاروں سیاح بالی کے قدرتی حسن کو دیکھنے یہاں آتے ہیں۔
عبدالوحید
↧
امریکا کس نے دریافت کیا ؟
کیا امریکا وایکنگز نے دریافت کیا ؟ اس سوال کی تہیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’دریافت‘‘ کے یورپی تناظر میں گڑبڑ ہے۔ اس میں مقامی لوگوں کے بجائے بحری جہازوں پر سوار لوگوں کے نقطۂ نظر سے ’’نئی دنیا‘‘ کو دیکھا جاتا ہے، جبکہ مقامی لوگوں کے لیے تو وہ ان کا گھر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے تو امریکا کو ایشیا کے شکاری باشندوں نے دریافت کیا تھا۔ ان کے بارے میں تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ وہ سائبیریا کے راستے پیدل الاسکا سے ہوتے ہوئے امریکا میں پھیل گئے۔ یہ سفر انہوں نے روس اور امریکا کے درمیان ’’آبنائے بیرنگ‘‘ سے ماضی میں آنے والے برفانی دور میں طے کیا۔ دورِ حاضر میں سمندر میں ڈوبے اس راستے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت یہاں سے پیدل گزرا جا سکتا تھا۔
ایک اور خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ کشتیوں پر آئے اور جنوب کی جانب ساحل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ جو بھی ہوا، یہ لوگ 13 سے 35 ہزار برس قبل پہنچے، اتنا عرصہ قبل کہ ان کی اولادیں مقامی امریکی کہلاتی ہیں۔ سوال کو ایک اور طرح سے پیش کرتے ہیں۔ کیا وایکنگز، جو سکینڈے نیویا کے باشندے تھے، پہلے غیر مقامی تھے جو امریکا پہنچے؟ جواب کا تعلق اس امر سے ہے کہ ہم امریکا کسے کہتے ہیں۔ اگر اس کے معنی وسیع تر ہیں، یعنی اس میں شمالی اور جنوبی امریکا دونوں شامل ہیں، تو امکان یہ ہے کہ پولینیشیائی یہاں سب سے پہلے پہنچے۔ امریکا کے مقامی پودے شکر قندی کے جینیاتی تجزیے سے سائنس دانوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پولینیشیائی کھوجیوں کا سب سے پہلے جنوبی امریکا سے تعلق قائم ہوا اور وہ اپنے ساتھ شکرقندی جنوب مشرقی ایشیا اور جزائرِ بحرالکاہل لائے۔
سکالرز کا خیال ہے ایسا کرسٹوفر کولمبس کے دور سے قبل ہوا، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آیا یہ وایکنگز کے شمالی امریکا کے دورے سے پہلے ہوا یا نہیں۔ کیا وایکنگز سب سے پہلے یورپی تھے جو امریکا پہنچے، اس سوال نے وایکنگز بمقابلہ کولمبس بحث کا آغاز کیا۔ لیکن پہلے سینٹ برینڈان کے طلسماتی سفر کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ایک رزمیہ نظم ’’وایج آف سینٹ برینڈان دی ایبٹ‘‘ کے مطابق ساتویں صدی میں گھومنے پھرنے والے ایک آئرش راہب اور اس کے بھائی بندوں نے پیالے کی شکل کی ایک کشتی (جسے curragh کہا جاتا ہے) میں بحراوقیانوس پار کیا اور دوسری جانب وقت گزارا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شمالی امریکا پہنچے۔ دورِ حاضر کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے curragh پر بحرِ اوقیانوس کے پار جانا ممکن ہے، لیکن اس سفر کا کوئی آثاریاتی ثبوت نہیں ملتا۔
اس لیے معاملہ کولمبس اور وایکنگز کے درمیان ہی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1492ء میں اطالوی جہاز راں کرسٹوفر کولمبس کی سربراہی میں اور ہسپانیہ کی معاونت سے، تین بحری جہازوں کا فلوٹیلا ایشیا کے مختصر راستے کی تلاش میں امریکا جا پہنچا۔ وہ غالباً جزیرہ گواناہانی پہنچا۔ ایک اور اطالوی جہاز ران جان کیبٹ برطانیہ سے روانہ ہوا اور کینیڈا جا پہنچا، لیکن یہ 1497ء سے قبل کا واقعہ نہیں، یعنی کولمبس کے بعد۔ کولمبس کے پہنچنے کے نتیجے میں چار سو یہ اعلان کر دیا گیا کہ امریکا ’’دریافت‘‘ ہو چکا ہے۔ اس دعوے کی مخالفت میں وایکنگز کے وین لینڈ نامی مقام پر سفروں کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر عہد وسطیٰ کی رزمیہ داستانوں میں ملتا ہے۔ ’’گرین لینڈز کی رزمیہ داستان‘‘ کے مطابق بارنی ہرگولفسن پہلا یورپی تھا جس نے شمالی امریکا کے خطے کو دیکھا۔
گرین لینڈ آنے والا یہ جہاز 985ء کے لگ بھگ ہواؤں کی وجہ سے مغربی جانب مڑ گیا۔ مزید برآں 1000ء کے لگ بھگ لیف ایرکسن، جو ایرک دی ریڈ کا بیٹا تھا، اس سرزمین کو تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا جسے بارنی نے دیکھا تھا۔ اسے ایک برفانی بے آباد جگہ ملی جسے اس نے ’’ہیلولینڈ‘‘ کا نام دیا، جس کے معنی تھے کہ سیدھی چٹان والی سرزمین۔ اس کے بعد اس نے جنوب کی طرف سفر کیا جہاں اسے ’’وین لینڈ‘‘ (وائن کی سرزمین) ملی۔ پھر لیف کے بھائیوں کے بعد تاجر تھورفین کارل سیفنی کی سربراہی میں ایک مہم ’’وین لینڈ‘‘ پہنچی جہاں یہ لوگ تین سال رہے۔ ’’ایرک دی ریڈ ساگا‘‘ میں لیف کے حادثاتی طور پر وین لینڈ کو دریافت کرنے کے ذکر کے ساتھ تھور فین اور اس کی بیوی گوڈریڈ کو دیگر مہمات کا کریڈٹ دیا گیا ہے۔
دریافتوں کی یہ داستانیں امریکا میں ’’مین‘‘ ، جزیرہ روڈ یا بحراوقیانوسی کینیڈا کی جانب اشارہ کرتی تھیں۔ تاہم انہیں محض کہانیاں ہی سمجھا گیا۔ 1960ء میں اس وقت یہ خیال بدل گیا جب ایک کھوجی Helge Ingstad اور اس کی ماہر آثاریات بیوی Anne Stine Ingstad نے مقامی افراد کی مدد سے جزیرہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے شمالی حصے کا دورہ کیا اور انہیں وہاں وایکنگز کے رہنے کے آثار نظر آئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وایکنگز نہ صرف کولمبس سے پانچ سو سال قبل یہاں پہنچے بلکہ انہوں نے آگے جنوب کی طرف بھی سفر کیا جہاں انگور ہوتے تھے۔ دراصل وایکنگز نے شمالی امریکا کا دورہ کیا تھا لیکن حقیقی معنوں میں انہوں نے اسے ’’دریافت‘‘ نہیں کیا۔
ترجمہ: رضوان عطا
↧
کِم ڈے ژونگ : دو مرتبہ جلا وطن اور متعدد مرتبہ نظر بند ہوئے
کم ڈے ژونگ جنوبی کوریا کے صدر تھے۔ وہ جنوری 1924ء کو پیدا ہوئے اور 2000ء میں انہیں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ زندگی کے ابتدائی دور میں کلرک رہے 1954 ء میں سیاست میں قدم رکھا۔ 1961ء میں پہلی مرتبہ اسمبلی کے رکن بنے۔ملک کی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ اس دوران ان پر متعدد مرتبہ حملے ہوئے۔ وہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں میں محفوظ رہے۔ جنوبی کوریا میں فوجی آمریت کے دوران انہیں خطرناک انتہا پسند قرار دیا گیا اور ان کو موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ وہ دو مرتبہ جلا وطن اور متعدد مرتبہ نظر بند ہوئے۔ وہ 1997ء میں صدر منتخب ہوئے۔ دوران صدارت 2000ء میں شمالی کوریا کے قائد کم جونگ ال کے ساتھ اجلاس ان کے مطابق ان کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ یہ اجلاس جنوبی اور شمالی کوریا کو قریب لانے کا سبب بنا جس کی وجہ سے ان کو نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال 18 اگست، 2009ء کو ہوا۔
معروف آزاد
↧
آنگ سان سوچی کا عروج و زوال ؟
ایک وقت تھا کہ ہر طرف اُنہی کا شہرہ تھا۔ اور وہ ایک عالمی ہیرو کے رتبے پر فائز تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج اُن کی ساکھ کو چاند گرہن لگ چکی ہے؟ ایسا کیونکر ہوا؟ اُنھیں ’نابیل پرائز‘ دیا گیا تھا، چونکہ وہ میانمار کی فوجی جنتا کے سامنے ایک پختہ چٹان کی طرح کھڑی تھیں۔ اُن کی شخصیت دیو مالائی داستان کی سی تھی۔ کئی سالوں کی نظربندی کے بعد اُنھیں 2010ء میں رہائی ملی تھی۔ دنیا معترف تھی کہ سوچی ایک پُرعزم اور ناقابلِ شکست سیاست دان ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، سال 2015ء کے انتخابات میں وہ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئیں اور اقتدار میں آئیں۔
توقعات تھیں کہ وہ اپنے ملک کی آزادی اور استحکام کا باعث بنیں گی۔ لیکن، ایسا نہیں ہوا۔ تین برس بعد، آج آنگ سان سوچی تنہا ہیں اور ناقدین اُن سے ناخوش ہی نہیں سخت خفہ ہیں۔ اقوام متحدہ نے میانمار کی فوج پر الزام دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’’نسلی کشی‘‘ کی کارروائی میں ملوث ہے؛ جب کہ سوچی کی حکومت نے اس سنگدلی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ اخلاقی بلندی کے جس مقام پر فائز تھیں، اُس مرتبے سے گر چکی ہیں، چونکہ مظلوموں کا ساتھ دینے میں ناکامی پر اُن کی مذمت کی جا رہی ہے۔
اس بات کا پتا لگانے کے لیے کہ عظمت کے عالمی مقام سے نیچے گرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، ’رائٹرز‘ کی ایک ٹیم نے سوچی کے احباب، مشیروں، سفارت کاروں اور طویل مدت کے شناسا ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ اُنھوں نے بحیثت ایک سیاستدان اُن کے طرز عمل پر روشنی ڈالی کہ وہ بااصول اور جان نثار شخصیت کی مالک رہی ہیں؛ جن کی ذات کے جھول ابھر کر سامنے آگئے ہیں اور وہ تنہا ہو چکی ہیں۔ ساتھ ہی، اُن کے اختیارات محدود ہیں جب کہ اُن سے متعلق توقعات دم توڑ چکی ہیں۔ چند ناقدین اب بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ نسلی اقلیتوں کی حامی رہی ہیں، تاہم اُنھوں نے روہنگیاؤں کے خلاف جاری مظالم کی سطح کا کھوج لگانے میں سستی برتی ہے، یا پھر اِس کے بارے میں اُنھیں دانستہ طور پر بے خبر رکھا گیا۔
دیگر کا کہنا ہے وہ فوج کے جرائم کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ بین الاقوامی برادری کی نگاہوں میں گر چکی ہیں۔ حالانکہ یہی وقت تھا جب ایک مؤثر رہنما کے طور پر دنیا کو اُن کی جانب دیکھ رہی تھی۔ ساتھ ہی، ’رائٹرز‘ کی ٹیم نے واضح کیا کہ سوچی سے متعلق ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا، جس کا اُن کے ترجمان نے جواب دینا پسند نہیں کیا۔ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ سوچی نے اپنی ایک دوست، این پاسترنک سلیٹر سے پوچھا: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ نفرت کرنے لگے ہیں؟‘‘۔ این نے سوچی سے نومبر، 2017ء میں ملاقات کی تھی۔ اُس وقت این کے ذہن میں یہی آیا تھا کہ سوچی روہنگیا کے خلاف جاری تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔
لیکن، بعدازاں، این پر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ دراصل سوچی اپنے ہی بارے میں پوچھ رہی تھیں کہ ’’آخر سب لوگ میرے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟‘‘
آپ تاریخی منظرنامے سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، جس میں ’رائٹرز‘ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سوچی اور مسائل کی شکار اُن کی قوم کس دوراہے پر کھڑی ہے۔ آنگ سان سوچی 1945ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ میانمار کی جنگ آزادی کے ہیرو اور جدید فوج کے بانی، جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں۔ اُن کے والد کو اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ محض دو برس کی تھیں۔ سوچی نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی؛ جہاں اُن کی برطانوی دانشور، مائیکل ایریس سے شادی ہوئی۔ اُن کے دو بیٹے ہیں۔
وہ سال 1988 میں برما واپس آتی ہیں، اور اپنی بیمار ماں کی تیمار داری کو ترجیح دیتی ہیں۔ سال 1988میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ تب فوجی جنتا نے اُنھیں نظربند کیا، جنھیں کسی سے ملنے کیا اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔ اُن کے مضامین اور خطوط کی بنیاد پر سال 1991ء میں سوچی کو امن کا ’نابیل پرائز‘ دیا گیا؛ جس کے بعد عالمی سطح پر اُن کا قد کاٹھ نیلسن منڈیلا اور دلائی لاما کی طرح بلند ہوا۔ اپنے مداحوں کی نظر میں، سوچی ہی میانمار کی آمریت کو ختم کر سکتی تھیں۔ سال 2000 میں اُنھیں پھر گرفتار کیا گیا اور 19 ماہ تک نظر بند رہیں۔ 2003 میں اُنھیں رہا کیا گیا۔ آنگ سان سوچی جس مکان میں رہتی تھیں وہ خستہ حال تھا۔ گھر کی ٹپکتی چھت کو 2010ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ تب تک وہ جمہوری تحریک کی علامت بن چکی تھیں۔ 2010ء میں وہ منتخب ہو کر پارلیمان میں پہنچیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
↧
امریکا کا شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ
امریکا نے جنگ زدہ ملک شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کو شکست دے دی ہے۔ امریکی فیصلے کے بعد داعش کے خلاف امریکی عسکری تعاون سے لڑنے والے ’کردش ملیشیا‘ کی قسمت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر نے ٹوئٹ کیا کہ ’شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا واحد مقصد داعش کے جنگجوؤں کی شکست تھی‘۔ امریکی صدر کے فیصلے سے متعلق واشنگٹن حکام نے بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجیوں کی واپسی کا فیصلہ گزشتہ روز ہی کر لیا تھا‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’شام سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جائے گا‘۔ واضح رہے کہ شام میں تقریباً 2 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو کردش ملیشیا کو ٹریننگ اینڈ ایڈویز کے فرائض انجام دے رہے تھے تاکہ مقامی ملیشیا داعش کا مقابلہ کر سکیں۔ امریکی حکام کی جانب سے فوجیوں کی واپسی کے لیے اوقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ پینٹاگون نے محدود تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ ’فوجیوں کا تحفظ یقینی طور پر اولین ترجیح ہے تاہم واپسی کا عمل جلد از جلد ہو گا‘۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا کہ شام میں داعش کی شکست کے بعد بھی گلوبل کولیشن کا عمل جاری رہے گا‘۔
↧
Conditions of Confinement in American Prisons
Research on the consequences of incarceration for inmates and ex-inmates, their families, and their communities has proliferated in just the last 20 years. Yet little of this research has documented variation across facilities in conditions of confinement or how these variations in conditions of confinement shape the consequences of incarceration for inmates and ex-inmates, their families, and their communities. Also, the conditions of confinement that have to this point been considered represent a very incomplete portrait of the range of conditions of confinement inmates could face. In this review, we fill this gap in four ways. First, we provide a partial overview of possible variations in conditions of confinement. Second, we use data from multiple years of the Survey of Inmates in Local Jails and the Survey of Inmates in State and Federal Correctional Facilities to provide an assessment of how much conditions of confinement vary across American jails, state prisons, and federal prisons, with an emphasis on variation within as well as between facility types. Third, we briefly review research on conditions of confinement in the United States and, as appropriate, other developed democracies. Finally, we conclude by providing a road map for future research to further enliven this research area.
↧
شام کے بعد افغانستان سے بھی آدھی امریکی فوج واپس بلانے کا فیصلہ
شام کے بعد افغانستان سے بھی آدھی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا اور امریکی فوجوں کے دو ممالک سے انخلا کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں ، ادھر نیٹو نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شام سے امریکی فوج کے انخلاکے باوجود داعش کیخلاف اتحادی ممالک کے تعاون سے کاروائی جا ری رکھے گا۔ روسی صدر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی ʼغیر قانونی ، امن کے حصول میں رکاوٹ تھی، امریکہ وہاں اقوام متحدہ کی حمایت کے بغیر موجود ہے، نہ ہی اُنھیں حکومت شام نے دعوت دی ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ وہ داعش کو شکست کے معاملے پر ٹرمپ سے اتفاق کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ درست کہہ رہے ہیں، میں (اس بارے میں) اُن سے اتفاق کرتا ہوں، روئٹرز کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کیلئے زبانی احکامات دے دیے گئے ہیں۔
ادھر افغان قومی سلامتی کے ترجمان کے مطابق امریکی فوجیوں کے نکلنے سے افغان فوج کے حوصلے پر اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی میڈیاکے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے افغان پالیسی میں واضح تبدیلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے کہ جب 17 برس میں پہلی بار اس نے افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کی ہے جس کے بارے میں افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی فوج کے انخلا پر بات ہوئی ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے محکمۂ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں تقریباً سات ہزار کے قریب فوجیوں کو نکال لیں۔ تاہم روئٹرز کے مطابق افغانستان میں اس وقت موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے پانچ ہزار کو واپس بلایا جا رہا ہے۔صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان 17 سالہ افغان جنگ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان پہلی بار براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں تاکہ تنازعے کا پرامن حل نکالا جا سکے۔روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کے لیے زبانی احکامات دے دیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ کتنی مدت میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی اس حوالے سے ٹائم لائن پر غور کیا جا رہا ہے لیکن یہ عمل ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں باقی بچ جانے والے امریکی فوجی کس طرح سے اس وقت جاری مختلف مشنز کو جاری رکھ پائیں گے جس میں افغان فوج کی تربیت، زمینی کارروائی میں معاونت اور طالبان سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شامل ہیں۔ امریکی صدر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کے زیادہ حامی نہیں رہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے غیر متوقع فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان میں تین ہزار اضافی فوجی بھیجے کے اعلان کیا تھا۔ تاہم روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹرمپ نجی طور پر افغانستان میں امریکی فوجی کی موجودگی پر شکوہ کرتے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک اتحادی سے کہا تھا کہ’ ہم وہاں اتنے برسوں سے ہیں، ہم کر کیا رہے ہیں۔‘
امریکہ میں 2001 میں نائن الیون کے شدت پسند حملوں کے بعد اس نے اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی تاکہ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن دلان کے خلاف کارروائیاں کی جا سکیں اور افغانستان کو پرامن ملک بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں یہاں سے مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی نہ کی جا سکے۔17 برس تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 24 سو امریکی فوجی مارے جانے کے باوجود امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقے میں قابل ذکر تک اضافہ ہوا ہے اور کئی محاذوں پر افغان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر افغانستان اور شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ، تفصیلات کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کو وجہ قرار دیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جم میٹس وائٹ ہاؤس گئے اور امریکی صدر کو شام میں فوجیں رکھنے پر قائل کرنے کی کوشش کی جس میں ناکامی پر انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧