Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

آمو دریا : وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے

$
0
0

آمو دریا وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہ تقریباً 16 ہزار فٹ کی بلندی سے بہنا شروع کرتا ہے۔ یہ ’’جیجون‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ دریا دو دریاؤں وخش اور پنچ کے ملاپ سے بنتا ہے۔ یہ تاجکستان اور افغانستان کے درمیان حد بندی کا کام کرتا ہے۔ بلندیوں کو پار کرنے کے بعد آمو دریا شمال مغرب کی طرف مڑ جاتا ہے اور ترکمانستان کے پست ریگستانی علاقہ کو پار کر کے ڈیلٹا بناتا ہوا بحیرہ ارل میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس دریا کی لمبائی تقریباً 26 ہزارکلومیٹر ہے جس کا نصف پہاڑیوں ہی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سے آب پاشی کا سلسلہ قدیم زمانہ سے جاری ہے۔ اس دریا کا ذکر سنسکرت اور اوستائی زبان کی قدیم تحریروں میں ملتا ہے۔

محمد شاہد


 


روس اور یوکرائن تنازعہ : پوٹن اور ٹرمپ ملاقات منسوخ ہو سکتی ہے ؟

$
0
0

امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں روسی صدر کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر سکتے ہیں۔ امریکی و روسی صدور کے درمیان یہ ملاقات جی ٹوئنٹی سمٹ کے حاشیے میں ہونے والی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان پیدا ہونے والے سمندری تنازعے کے تناظر میں بیونس آئرس میں وہ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ملاقات ترقی یافتہ اور ابھرتی اقتصادیات کے حامل بیس ممالک کے سالانہ سربراہ اجلاس کے حاشیے میں طے ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے روسی صدر سے ملاقات کی منسوخی کو اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اس ملاقات کا انحصار اُن کے قومی سلامتی کے مشیران کی رپورٹ پر ہے کہ وہ یوکرائنی بحری جہازوں پر روسی قبضے کو کس انداز میں لیتے ہیں۔

روس اور یوکرائن کے درمیان بحیرہ آزوف میں سمندری تنازعہ پیدا ہونے کے بعد روس نے یوکرائن کو مکمل جنگ کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس تناظر میں یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے کہا ہے کہ اگر تنازعے کی کیفیت جوں کی توں رہی تو یہ علاقے میں انتہائی ڈرامائی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بننے کے علاوہ قریبی ریاستوں میں مزید تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یوکرائنی سرحد پر روسی فوج کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح زمینی فوجی دستوں کے ساتھ ٹینکوں کی تعداد بھی تین گنا کر دی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار یوکرائن کے صدر نے اپنے خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے تناظر میں بتائے ہیں۔

روسی حکام نے بتایا ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرائنی حکومت کی جانب سے سرحدی علاقوں میں مارشل لا لگانے کے فیصلے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ٹیلیفون پر گفتگو بھی کی ہے۔ جرمن چانسلر کے ساتھ بات چیت کے دوران پوٹن نے یہ بھی کہا کہ جرمنی یوکرائن کو مزید ایسے سخت اقدامات سے گریز کرنے کی تلقین کرے۔ یوکرائنی حکومت نے مارشل لا کے نفاذ کے فیصلے کے علاوہ اپنی فوج کو چوکس رہنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اُدھر جرمن وزیر دفاع ارُوزلا فان ڈیئر لائن نے روس سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر یوکرائنی نیوی کے سیلرز کو رہا کرے۔ جرمن وزیر دفاع نے روس اور یوکرائن سے کہا ہے کہ وہ کشیدہ صورت حال میں کمی لانے کے لیے مثبت اقدامات کریں۔ روسی بحریہ نے ان سیلرز کو گزشتہ ویک اینڈ پر حراست میں لیا تھا اور کریمیا کی ایک عدالت نے انہیں دو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

یورپی ممالک میں سیاہ فام افراد تعصب کا شکار

$
0
0

ایک یورپی ادارے نے کہا ہے کہ بعض یورپی افراد سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس ادارے کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ کچھ سیاہ فام افراد پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔ یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق (FRA) نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ یورپی اقوام میں سیاہ فام افراد کو وسیع پیمانے پر نسلی تعصب اور امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔ یہ خصوصی سروے رپورٹ براعظم یورپ کے بارہ ممالک میں تقریباً چھ ہزار افراد کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ جن ملکوں میں سروے مکمل کیا گیا، ان میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا سرنامہ ’ یورپی یونین میں سیاہ فام ہونا ‘ (Being Black in the EU) تجویز کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایجنسی کے صدر دفتر کے مقام ویانا میں جاری کی گئی۔

اس یورپی ادارے کے سربراہ مائیکل او فلاہرٹی نے اس رپورٹ کے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ نسلی تعصب اور رنگت کی بنیاد پر امتیازی رویے یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے بعض علاقوں کے شہریوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے سیاہ فام افراد کو بعض مقامات پر ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔ اس خصوصی سروے میں بتایا گیا کہ تیس فیصد سیاہ فام افراد نے کسی نہ کسی سطح کی نسلی تعصب کا سامنا کیا ہے جبکہ پانچ فیصد سیاہ فام افراد کو پرتشدد حملوں تک کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والے پانچ فیصد میں سے بیشتر کے مطابق انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے تشدد کا سامنا رہا تھا۔

اس رپورٹ میں سیاہ فام افراد سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اُن کو روکنے کے بعد پولیس کا رویہ اُن کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ متاثرین نے یہ بھی کہا کہ وہ بسا اوقات پولیس کو ایسے واقعات کی رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ اس سے خاطر خواہ نتیجے یا کارروائی کا امکان نہیں۔ اس خصوصی رپورٹ میں ریسرچرز نے تعلیمی اداروں، روزگار کے حصول اور کرائے پر مکان لینے میں بھی امتیازی سلوک کا نوٹس لیا ہے۔ اس مناسبت سے تقریباً چھ ہزار افراد میں سے ایک چوتھائی نے تصدیق کی کہ انہیں غیر مساوی سلوک کا سامنا رہا۔ کرائے پر مکان حاصل کرنے کے حوالے سے چودہ فیصد افراد کو مالکِ مکان کے نسلی تعصب کو برداشت کرنا پڑا تھا۔
یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق نے مختلف حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے اور متاثرین کے ازالے کے لیے تادیبی اقدامات کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ایجنسی کے مطابق سیاہ فام نوجوانوں کو غیرمعمولی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

یوکرین کی فوج روسی سرحد پر حالت جنگ میں

$
0
0

روسی فوج کی جانب سے یوکرین کے جنگی جہازوں کو قبضے میں لے کر عملے کو گرفتار کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر جبکہ یوکرین نے سرحدی علاقوں پر مارشل لا بھی نافذ کر دیا ہے۔ یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے فوجی مراکز کا دورہ کیا اور تیاریوں کا جائزہ لیا۔ یوکرین کی فوج نے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے اکثریتی علاقوں پر پوزیشن سنبھال رکھی ہے۔ یوکرین میں طلبا اور مذہبی رہنماؤں سمیت شہریوں نے جہازوں کو قبضے میں لینے اور سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج کیا اور طلبا نے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کی مہم بھی چلائی۔










سانپ کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

$
0
0

٭ سانپ کا کٹا ہوا سر بھی ڈس سکتا ہے۔ کبھی کبھار یہ گھنٹوں بعد بھی ڈسنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس میں سے بہت زیادہ زہر نکلتا ہے۔ 

٭ سب سے مہلک سانپ کا تعین کرتے وقت یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں صحت کا نظام اور سانپ کے زہر کے بچاؤ کا انتظام کیسا ہے۔ اس معیار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مہلک سانپ افعی (Saw-scaled viper) ہے، جو کسی بھی دوسرے سانپ کی نسبت سب سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرتا ہے۔ 

٭ دنیا کے ہر علاقے میں سانپ پائے جاتے ہیں سوائے آئرلینڈ، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ اور قطب شمالی و جنوبی کے۔ 

٭ دنیا میں زہر سے ہلاک کرنے والے سانپوں کی کل تقریباً 725 انواع میں سے 250 ایسی ہیں جو پہلی بار ڈسنے پر مار ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 

٭ سانپ چار پاؤں رکھنے والے جانوروں سے ارتقا کے نتیجے میں تقریباً 10 کروڑ برس قبل وجود میں آئے۔ سانپوں کی بعض انواع جیسا کہ پیتھون اور باؤس میں ابھی تک ٹانگوں کی علامات ملتی ہیں۔ 

٭ دنیا میں سب سے زیادہ پائے جانے والے بے جا خوفوں (فوبیاز) میں سے ایک سانپوں کا بے جا خوف ہے۔ تقریباً ایک تہائی بالغ انسان اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 

٭ دنیا میں سب سے زہریلے پانچ سانپوں میں ’’اِن لینڈ تائی پین، ایسٹرن براؤن سنیک، کوسٹل تائی پین، ٹائیگر سنیک اور بلیک ٹائیگر سنیک‘‘ شامل ہیں۔ 

٭ کچھ جانوروں مثلاً مونگوس پر سانپوں کا زہر اثر نہیں کرتا۔ 

٭ بچنے کے لیے بعض سانپ فضلہ خارج کر کے خود کو اتنا گندا اور بدبودار کر لیتے ہیں کہ حملہ آور کچھ کیے بغیر واپس چلا جاتا ہے۔ 

٭ دنیا کا سب سے وزنی سانپ ایناکونڈا ہے۔ اس کا وزن 270 کلوگرام سے زائد ہوتا ہے اور اس کی لمبائی 30 فٹ سے زائد ہو سکتی ہے۔ 

٭ سانپوں کی نوع سیاہ مامبا میں زہر انڈیلنے کا نظام سب سے ترقی یافتہ ہے۔ یہ ایک ہی رو میں 12 مرتبہ ڈس سکتا ہے۔ 

٭ اِن لینڈ تائی پین سب سے زہریلا سانپ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں زہریلا ترین مادہ ہوتا ہے اور ڈستے وقت یہ اپنا زیادہ تر زہر منتقل کر دیتا ہے۔ اس کے اندر جمع زہر 80 تک افراد کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ 

٭ اگرچہ سانپوں کے بیرونی کان یا کان کے پردے نہیں ہوتے لیکن آواز کی تھرتھراہٹ ان کی جلد، عضلات اور ہڈیوں سے ان کے اندرونی کان تک پہنچتی ہے۔

یسرا خان


 

افغانستان، امریکی فوجیوں کیلئے قبرستان بن گیا

$
0
0

امریکی سیاسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی اور اس کے نتیجے میں جنگ زدہ ملک امریکی فوجیوں کا ہی ’قبرستان‘ بن گیا۔ لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے سابق اسٹاف ممبر روڈنے مارٹن نے کہا کہ ’افغانستان پہلے برطانوی فوجیوں، اس کے بعد سویت یونین اور اب امریکی فوجیوں کا قبرستان بن چکا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے برطانیہ اور سویت یونین کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔  افغانستان کو کئی دہائیوں سے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ کہلایا جاتا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں برطانیہ اور سویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی لیکن مکمل اور پائیدار کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

گزشتہ سال طالبان نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان کو ’امریکی سلطنت کے لیے 21 ویں صدی کا قبرستان‘ میں بدل دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے برطانیہ اور سویت یونین کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق عالمی ویب سائٹ کے مطابق 2 ہزار 414 امریکی فوجیوں سمیت 3 ہزار 555 دیگر امریکی اتحادی فوجیوں کی ہلاکت ہو چکی ہیں۔ رواں برس جنوری سے ستمبر کے درمیانے عرصے میں تقریباً 8 ہزار لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔

افغانستان پر امریکی حملے کا تاریخی پس منظر
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا۔ امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کی تھی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس جنگ کے آغاز کے بعد سے ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہو گئے۔ 

امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن'کو جنم دیا اور افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چند ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کر دیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔

 

وزیراعظم نیتن یاہو پر کرپشنز الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے، اسرائیلی پولیس

$
0
0

اسرائیلی پولیس نے ملک کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، ان کی اہلیہ سارہ کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ شاؤل ایلویچھ اور ان کی اہلیہ ایرس کے نام رشوت اور بدعنوانی سے متعلق کیس کی چارج شیٹ میں شامل کرنے کی تجویز دے دی۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق یہ تیسرا کیس ہے جس میں پولیس اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف بد عنوانی کی تحقیقات کر رہی ہے۔ خیال رہے اسرائیلی وزیراعظم کو چارج شیٹ میں شامل کرنے کے حوالے سے پولیس کا بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب 3 سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد پولیس کمشنر رونی الشیچ مستعفی ہو گئے تھے۔

مذکورہ بیان میں پولیس کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو پر مبینہ طور پر شاؤل ایلویچھ کو حمایت فراہم کرنے اور ذاتی مفاد کے لیے رشوت لینے کا الزام ہے۔ یاد رہے کہ شاؤل ایلویچھ، اسرائیل کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیشن فرم 'بیزک'اور نیوز ویب سائٹ 'والا'کے سربراہ ہیں، جو ملک کی سب سے بڑی 2 ویب سائٹس میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔ ادھر ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق تفیش کاروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس قدر ثبوت موجود ہیں، جس سے نیتن یاہو کو ٹرائل کے لیے چارج شیٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے، مذکورہ کیس رشوت، فراڈ، بد اعتمادی اور غلط طریقے سے فائدے حاصل کرنے سے متعلق ہے۔

اسرائیلی پولیس نے ملک کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے بد عنوانی کے الزامات کے تحت 12 وں مرتبہ تفتیش کی تھی۔ اسرائیلی پولیس نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف رشوت اور بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ رواں سال اگست میں بھی نیتن یاہو سے اسرائیلی ٹیلی کام میں بد عنوانی میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفتیش کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم متعدد مرتبہ ان پر لگائے جانے والے بد عنوانی کے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔ اس سے قبل 14 فروری 2018 کو اسرائیلی پولیس نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف رشوت اور بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ نیتن یاہو نے دومختلف شخصیات سے 3 لاکھ ڈالر رشوت وصول کی تاہم اسرائیلی وزیراعظم نے اس موقع پر بھی الزامات کو قطعی مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ ‘وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے’۔ جولائی 2016 میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل ایوچائی منڈل بلٹ نے کہا تھا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے منسوب ایک اہم معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ تاہم اس موقع پر مذکورہ معاملے کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھی جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے کسی بھی قسم کے غیر قانونی معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی جاتی رہی۔ یاد رہے کہ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے فرانس کے بزنس ٹائیکون ارنود ممران سے رقم وصول کی تھی جن کو 283 ملین یورو کے ایک اسکینڈل میں 8 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔
 

انڈیا کے کسان : قرضوں کے باعث تین لاکھ خودکشیاں، کوئی اور ملک ہوتا تو ہل گیا ہوتا

$
0
0

انڈیا کی مختلف ریاستوں کے ہزاروں کسانوں نے ملک کے ارکان پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بدحالی سے نکالنے کے لیے ان کے تمام قرضے معاف کرنے اور ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دینے کے قوانین کو وہ پارلیمنٹ میں منظوری دیں۔ ہزاروں کسانوں نے دارالحکومت دلی میں پارلیمنٹ تک مارچ کیا۔ الگ الگ رنگ کے پرچم لیے ہوئے، اپنی اپنی زبانوں میں نعرے لگاتے ہوئے ان کسانوں نے رام لیلا میدان سے پارلیمنٹ تک مارچ کیا۔ ان سبھی کے مسائل مشترک تھے۔ یہ سبھی بدحالی سے گزر رہے ہیں۔ اترا کھنڈ سے آنے والے ایک کاشت کار بلجیت سنگھ نے کہا 'مودی جی جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سبھی کے قرضے معاف کریں گے۔ 

کسی کے پندرہ روپے معاف کیے گئے کسی کے بیس روپے معاف کیے تو کسی کا وہ بھی نہیں کیا۔ جب تک ہمیں ہماری پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت نہیں دی جاتی تب تک ہم اسی طرح قرض میں ڈوبے رہیں گے۔'کسانوں کے مارچ کا اہتمام آل انڈیا کسان سنگھرش کمیٹی نے کیا تھا۔ اس میں دو سو سے زیادہ کسانوں کی تنظیمیں شامل ہیں۔ یوگیندر یادو کسانوں کی تحریک سے ایک طویل عرصے سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کے دو اہم مطالبات ہیں۔ پورے ملک میں کسانوں کے سبھی قرضے معاف کرنے اور دوسرے زرعی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دینے کے دو بل پارلیمنٹ میں زیر غور ہیں انہیں منظور کیا جائے۔ 

یوگیندر کا کہنا ہے کہ کاشتکار گذشتہ حکومتوں میں بھی بدحال تھے لیکن اس حکومت میں وہ بدترین حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ 'بیس برس میں تین لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی ہے کوئی اور جگہ ہوتی تو ملک ہل گیا ہوتا لیکن یہ انڈیا ہے یہاں حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔'حکومت نے کسانوں کی آمدنی تین برس میں دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وہیں کی وہیں ہے جبکہ پیداوار کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ سوکھے کی مار، ڈیزل، بیج، کھاد اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے کاشت کاری ایک نقصان کا سودا بن گئی ہے۔

یوگیندر کہتے ہیں کہ 'کھیتی واحد ایسا کاروبار ہے جو گھاٹے کا بزنس ہے۔ میں پورے ملک میں کاشتکاروں سے ملا ہوں مجھے ایک بھی کاشتکار نہیں ملا جو اپنے بیٹے کو کاشتکاری کے پیشے میں ڈالنا چاہتا ہو۔ زرعی شعبہ ایک بحران سے گزر رہا ہے۔‘ زیر زمین پانی کی سطح کافی نیچے جا چکی ہے ۔ مٹی کی زرخیزی میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا براہ راست اثر کسانوں پر پڑ رہا ہے۔ اگر فصل اچھی ہوتی ہے تو قیمتیں گر جاتی ہیں۔ کسان ایک دائمی بدحالی کی گرفت میں ہیں۔ ہریانہ کے کسان رہنما ماسٹر شیر سنگھ کہتے ہیں کہ ’جب الیکشن آتا ہے تو جماعتیں کسانوں کے پاس آتی ہیں اور جب اقتدار میں آجاتی ہیں تو وہ کارپوریٹ کی سنتی ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ جب تک کسانوں کی پیداوارکی منافع بخش قیمت کی ضمانت نہیں دی جاتی اور اس کے لیے قانون نہیں بنایا جاتا تب تک کسانوں کی بدحالی دور نہیں ہو سکتی۔ حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کے کسانوں کی دو سو سے زیادہ تنظیمیں ایک ساتھ آئیں اور کسانوں کی آواز موثر طریقے سے پارلیمنٹ تک پہنچائی گئی۔ کسانوں کی بہتری کے لیے حکومتیں وقتاً فوقتاً کچھ اقدامات کرتی رہی ہیں لیکن اس سے ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کی بدحالی دور کرنے کے لیے وقتی نہیں ایک مستقل حل کی ضرورت ہے۔

شکیل اختر

بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

 


فرانس کی سڑکوں پر جنگ کا سماں, اتنے بڑے احتجاج کی وجہ کیا بنی؟

$
0
0

گزشتہ ہفتے فرانس کے دارالحکومت پیرس سمیت دیگر شہروں میں ’پیلی ویسٹ‘ پہنے مظاہرین کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد فرانسیسی صدر میخواں کو جی 20 سربراہی اجلاس چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔ لیکن اتنے بڑے احتجاج کی وجہ کیا بنی؟

ڈیزل فرانسیسی گاڑیوں میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور گذشتہ 12 ماہ میں ڈیزل کی قیمت تقریباً 23 فیصد بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2000 سے اب تک ایک لیٹر کی قیمت میں اوسطً 1.51 یورو کا اضافہ ہوا ہے جو ڈیزل کی اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔

ایندھن پر لگائے جانے والے ٹیکس اور اخراجاتِ زندگی میں اضافے کی وجہ سے برپا احتجاج میں 100 سے زیادہ افراد صرف پیرس میں زخمی ہو چکے ہیں۔

دارالحکومت میں ہونے والی جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز کے 23 ارکان بھی زخمی ہوئے تھے اور تقریباً 400 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق دو ہفتے سے جاری ان مظاہروں میں تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ فرانس کے وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً 136000 لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔







قطر کا ’اوپیک‘ کو چھوڑنے کا اعلان

$
0
0

قطر کے وزیر برائے توانائی سعد شریدہ الکعبی نے اعلان کیا ہے کہ قطر جنوری 2019 میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ( اوپیک) کا حصہ نہیں رہے گا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تیل پیدا کرنے والے 15 ممالک کی تنظیم کو چھوڑنے کے فیصلے کی تصدیق قطر کی سرکاری آئل کمپنی قطر پیٹرولیم کی جانب سے کی گئی تھی۔ دوحہ میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سعد شریدہ الکعبی کا کہنا تھا کہ ’اوپیک سے دستبردار ہونے کے فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ قطر آئندہ سالوں میں قدرتی گیس کی پیداوار کو 77 ملین ٹن سالانہ سے 110 ملین ٹن سالانہ بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے‘۔

خیال رہے کہ قطر پہلا خلیجی ملک ہے جو تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم کو چھوڑ رہا ہے۔ الجزیرہ کی صحافی کارلوٹ بیلس کا کہنا تھا کہ قطر نے یہ فیصلہ 6 دسمبر کو اوپیک اجلاس کے آغاز سے چند دن پہلے لیا۔ کارلوٹ بیلس نے سعودی عرب، امریکا، متحدہ عرب امارات ( یو اے ای) ، مصر اور بحرین کی جانب سے قطر پر سفارتی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اوپیک سے نکلنے کے فیصلے کا قطر پر پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں اور اس حوالے سے کئی مہینوں سے سوچ رہے ہیں‘۔ کارلوٹ بیلس نے بتایا کہ ’ قطری وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوپیک سے نکلنے کا کام 6 دسمبر کو اوپیک اجلاس سے قبل ابھی اور شفاف طریقے سے ہو جائے‘۔

واضح رہے کہ 2013 سے اب تک قطر کی تیل کی پیداوار میں تیزی سے کمی آئی ہے، 2013 میں قطر میں تیل کی پیداوار 7 لاکھ 28 ہزار بیرل یومیہ سے 2017 میں 6 لاکھ 7 ہزار بیرل یومیہ تک جا پہنچی تھی جو کہ اوپیک کی مجموعی پیداوار کا 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم اسی عرصے میں اوپیک کی مجموعی پیداوار میں 30.7 ملین بیرل یومیہ سے 32.4 ملین بیرل یومیہ اضافہ ہوا تھا۔ قطر دنیا میں لیکویفائیڈ نیچرل گیس ( ایل این جی) کی سب سے زیادہ شرح 30 فیصد پیدا کرتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اوپیک چھوڑنے کا فیصلہ ایک کاروباری فیصلہ ہے۔

سعد شریدہ الکعبی کا کہنا تھا کہ ’ اوپیک میں ہمارا کردار بہت کم ہے، میں ایک کاروباری شخص ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ہماری قوت نہیں ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہماری قوت قدرتی گیس ہےاور اس لیے ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے‘۔ خیال رہے کہ قطر نے اوپیک کی تشکیل کے ایک سال بعد 1961 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ چند روز قبل اوپیک اور روس نے آئندہ مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں زیادہ کمی نہ لانے کی کوششوں پر اتفاق کیا تھا۔ یاد رہے کہ رواں برس اکتوبر میں تیل کی قیمت 4 برس کی بلند ترین سطح 86 ڈالر تک جا پہنچی تھی لیکن اس کے بعد تیل کی قیمت دوبارہ 60 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھی۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

 

مائیکل کوہن کے اعتراف جرم نے امریکی صدر ٹرمپ کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے

$
0
0

امریکی صدر کے وکیل مائیکل کوہن نے خود پر لگے الزامات قبول کر لئے ہیں جس کے بعد امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جاری تحقیقات نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن کی جانب سے خود پر عائد الزامات کو قبول کرنے کے بعد، روسی مداخلت سے متعلق خصوصی کونسل رابرٹ ملر کی قیادت میں جاری تحقیقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ اب قانونی ماہرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا یہ تحقیقات اختتام کی جانب جا رہی ہیں، اور اگر ایسا ہے تو پھر صدر ٹرمپ اور ملک کے لئے اس کے کیا نتائج کیا ہوں گے۔ اپنے ٹویٹر پیغامات کے ایک سلسلے میں، صدر ٹرمپ نے خصوصی کونسل رابرٹ ملر اور اپنے ذاتی وکیل مائیکل پر تنقید کی۔

گزشتہ ہفتے نیو یارک میں، مائیکل کوہن نے یہ اقرار کیا کہ انہوں نے روس میں ایک تعمیراتی پروجیکٹ میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی کے حوالے سے کانگریس سے جھوٹ بولا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ اپنی صدارتی مہم چلا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں اس چیز کی کوئی پراوہ نہیں کہ کوہن تفتیش کاروں کو مزید کیا بتائیں گے۔ ریاست ورجینیا سے ڈیموکریٹ جماعت کے سینیٹر، مارک وارنر کہتے ہیں کہ کوہن کے اعتراف کے بعد، روس سے متعلق تحقیقات، اس وقت کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے درمیان تعلقات کے قریب تر ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اور مثال ہے کہ صدر کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک نے روس اور روسیوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جھوٹ بولا۔

ریاست نارتھ کیرولائینا سے ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رچرڈ سن 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق تحقیقات کرنے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ سینیٹر رچرڈ بر کا کہنا تھا کہ ہمارا مینڈیٹ یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہے ہم ایک واضح سچ کے قریب پہنچ جائیں۔ اور  یہ کام ہم قیاس آرائیوں کی بنیاد پر نہیں کر سکتے، یہ ہمیں حقائق کی بنیاد پر کرنا ہے۔ اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ قانونی ماہر، رِک سمنز کہتے ہیں کہ حالیہ پیش رفتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس سے متعلق تحقیقات اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران، کسی قسم کے نتائج سامنے آئیں گے۔ 

ملر صاحب کے پاس کوئی ٹائم لائن نہیں ہے، اور قانون انہیں اس کا پابند بھی نہیں بناتا، اس لئے ان پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ہمیں بتائیں کہ وہ کہاں تک پہنچے ہیں، اس لیے یقین سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ کوہن کی جانب سے الزام قبول کرنے اور ماضی میں دیگر افراد کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کے بعد، روس سے متعلق تحقیقات کے مصدقہ ہونے میں اضافہ ہوا ہے، گو کہ صدر ٹرمپ اسے مسلسل یہ کہتے ہوئے مسترد کرتے آ رہے ہیں کہ یہ محض وقت کا زیاں ہے۔ اس بارے میں قانونی ماہر ڈگ سپینسر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں، یہ چیز تحقیقات کو مزید جواز فراہم کرتا ہے، اور درحقیقت اس معاملے میں بہت کچھ غیر واضح ہے، اس لئے تحقیقات کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اس سے ان دعوؤں کی صداقت میں کمی ہوتی ہےکہ یہ محض چاند ماری ہے۔

قانونی تجزیہ کار، رِک سمنز کہتے ہیں کہ یہ تحقیقات کہاں جا رہی ہیں، اس بارے میں ملر نے چپ سادھی ہوئی ہے، لیکن سن 2019 ایک اہم سال ثابت ہو سکتا ہے۔
سمنز کہتے ہیں کہ انہوں نے ان دیگر گواہان کے ساتھ بہت سا کام کیا ہے جنہوں نے جھوٹ بولا، اور انہوں نے مہینوں ان پر کام کیا۔ اس لئے مجھے توقع ہے کہ وہ آئندہ چند مہینوں میں اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکالیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کر لی ہے اور صدر ٹرمپ، سن 2020 میں اپنے دوبارہ انتخابات کے لئے تیاری کر رہے ہیں، تو یہ تحقیقات اپنے عروج اور اختتام کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

شامی بچے سے اسکول میں بدسلوکی نے برطانویی وزیر داخلہ کو بھی رُلا دیا

$
0
0

برطانیہ کے پاکستانی نژاد وزیر داخلہ ساجد جاوید نے ایک شامی بچے کے ساتھ اسکول میں نسل پرستانہ بدسلوکی پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے نے انہیں اپنے بچپن میں ایسے ہی نسل پرستانہ واقعات یاد دلا دیے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک شامی پناہ گزین بچے جمال پر اسکول میں موجود دوسرے بچوں کی طرف سے تشدد کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ساجد جاوید نے سخت برہمی اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی بچی اسکول میں مقامی طلباء کے ہاتھوں مار پیٹ کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ خیال رہے کہ سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ایک فوٹیج میں اسکول میں ایک شامی بچے کو اس سے عمر اور حجم میں بڑے طالب علم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کو دکھایا گیا تھا۔

اخبار "ڈیلی میل"کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح شامی بچے کو اسکول میں نسل پرستانہ بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس طرح کےحالات کا سامنا ایک شامی بچے کو کرنا پڑا اسی طرح کا وہ بھی اپنے بچن میں سامنا کر چکے ہیں۔ انہیں‌ بھی ایک مقامی برطانوی لڑکے نے اسےطرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ساجد جاوید نے کہا کہ اسکول میں بچے ان کے خلاف اس لیے ہوئے تھے کہ میں ایک ایشیائی تھا اور وہ یورپی گورے تھے۔ خیال رہے کہ 25 اکتوبر کر برطانیہ کے ایک اسکول میں ایک شامی بچے کو مقامی لڑکوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک پندرہ سالہ شامی بچے کو دوسرے لڑکے نے زمین پر پٹخ کر اس کی گردن دبانے کی کوشش کی اور اس کے چہرے اور جسم پر پانی پھینکا۔ یہ واقعہ ھاڈرسفیلڈ شہر کے ایک اسکول میں‌ پیش آیا تھا۔ 

شامی بچے کو تشدد کا نشانہ بنانے والے لڑکے نے دھمکی دی کہ اگر اس نے شکایت کی تو اسے اسی طرح پانی میں ڈبو دے گا۔ ساجد جاوید نے متاثرہ شامی بچے اور ان کے والدین کو چائے کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مہاجرین کی دوسری نسل سے تھے اور پاکستان سے ھجرت کر کے برطانیہ آ گئے تھے۔ ان کے بارے میں برطانوی رائے عامہ ایسے ہی نسل پرستانہ تھی جس طرح آج شامی بچے کے خلاف دیکھی گئی ہے۔ یہ واقعہ برطانویوں کی حقیقت کا عکاس ہے۔ خیال رہے کہ شامی بچہ جمال اپنے خاندان کے ہمراہ چھ سال قبل لبنان اور سنہ 2016ء کو برطانیہ منتقل ہو گیا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اس نے بتایا کہ وہ اس کی 13 سالہ ہمشیرہ کو الگ الگ مواقع پر نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ

دبئی ۔ حسام عبد ربہ


 

طیب اردوان کی اہلیہ کے ہاتھوں مودی کی بے عزتی

$
0
0

ارجنٹائن میں جی 20 اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان کی اہلیہ ایمن اردوان کی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو نظر انداز کرنے اور ان کی بے عزتی کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ ارجنٹائن میں دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کی تنظیم جی 20 اجلاس ہوا، اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت 20 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ ترک صدر اپنی اہلیہ ایمن اردوان کے ہمراہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ دوران اجلاس فوٹو سیشن کے دوران ترک خاتون اول اور بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ 

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اجلاس کے دوران فوٹو سیشن کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور ترک خاتون اول ایمن اردوان ساتھ کھڑے ہیں تاہم جیسے ہی بھارتی وزیر اعظم نے ایمن اردگان کی طرف دیکھا ترک خاتون اول نے فوراً اپنا رخ دوسری طرف موڑ کر مودی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ ترک خاتون اول کی جانب سے اپنی بے عزتی کیے جانے پر مودی کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ ایمن اردگان نے تو مودی کو نظر انداز کر دیا لیکن یہ منظر کیمرے کی آنکھ سے نہ چھپ سکا اور ترک خاتون اول کی بھارتی وزیر اعظم کو نظر انداز کرنے اوران کی بے عزتی کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

 

ضروری نہیں کہ دنیا کے لیے جو اچھا ہو وہ فیس بک کے لیے بہتر ہو

$
0
0

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ایک بار اپنے نجی حلقوں میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ضروری نہیں کہ دنیا کے لیے جو اچھا ہو وہ فیس بک کے لیے بھی بہتر ہو۔ یہ انکشاف برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے فیس بک کی خفیہ ای میلز جاری کرنے پر سامنے آیا ہے۔ یہ ای میلز فیس بک سے قانونی جنگ میں مصروف ایک ایپ ڈویلپر نے اپنے قبضے میں کی تھی اور کیلیفورنیا کی عدالت نے ان کے شائع کرنے پر پابندی عائد کی تھی تاہم برطانوی پارلیمنٹ نے اپنا خصوصی استحقاق استعمال کر کے اسے جاری کر دیا۔ ان ای میلز سے فیس بک کی ایگزیکٹو کے اندرونی حلقوں کے بارے میں خفیہ معلومات سامنے آتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخالفین کے خلاف کتنی سخت سوچ رکھتے ہیں۔ 19 نومبر 2012 کو بھیجی گئی ایک ای میل میں مارک زکربرگ نے تھرڈ پارٹی ایپس کو پلیٹ فارم میں صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے بات کی۔

انہوں نے لکھا 'جو دنیا کے لیے اچھا ہو سکتا ہے وہ ضروری نہیں کہ ہمارے لیے بھی اچھا ہو ماسوائے اس صورت میں جب لوگ فیس بک پر واپس شیئر کریں اور یہ مواد ہمارے نیٹ ورک کی قدر بڑھائے، تو میرے خیال میں پلیٹ فارم کا مقصد فیس بک پر شیئرنگ بڑھانا ہے'۔ اسی طرح 2016 میں فیس بک ایگزیکٹو اینڈریو بوس ورتھ نے اپنے ساتھیوں کے لیے تحریر ای میل میں فیس بک کی ترقی اور لوگوں کو ہر قیمت پر جوڑنے کا دفاع کیا، چاہے لوگ انتقال کر جائیں۔
مارک زکربرگ نے 2012 میں جیسے رویے کا اظہار کیا وہ ان تک ہی محدود نہیں، ایک ای میل میں فیس بک کی سی او او شیرل سینڈبرگ نے اپنے باس سے اتفاق کیا۔

جنوری 2013 کی ایک ای میل میں فیس بک کے ایک انجنیئر نے مارک زکربرگ سے رابطہ کر کے کہا کہ مخالف کمپنی ٹوئٹر نے اپنی وائن ویڈیو شیئرنگ ٹول کو متعارف کرایا ہے تاکہ صارفین کو فیس بک سے رابطہ کر سکے اور وہاں دوستوں کو تلاش کر سکے، اس انجنیئر نے وائن تک رسائی کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ، جس کی اجازت مارک زکربرگ نے دی۔ یہ دستاویزات برطانوی پارلیمنٹ کی فیس بک کے حوالے سے قائم کمیٹی نے جاری کی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ فیس بک کو ڈیٹا رسائی کا معاملہ ختم کرنا ہو گا۔ فیس بک نے فی الحال ان ای میلز کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

بشکریہ روزنامہ ڈآن اردو
 

ہواوے کی کینیڈا میں گرفتار چیف فنانشل افسر پر امریکا سے دھوکے کا الزام

$
0
0

اسمارٹ فونز تیار کرنے والی دنیا کی تیسری بڑی چینی کمپنی ’ہواوے‘ کی کینیڈا میں گرفتار کی گئی چیف فنانشل افسر (سی ایف او) مینگ وانژو پر امریکا سے دھوکے کرنے کا الزم عائد کر دیا گیا۔ مینگ وانژو کو رواں ماہ کے آغاز میں کینیڈین پولیس نے امریکی درخواست پر حراست میں لیا تھا، تاہم ان کی گرفتار 6 دسمبر کو ظاہر کی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے بتایا تھا کہ امریکی حکام کو شبہ ہے کہ مینگ وانژو نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔ ابھی یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ مینگ وانژو نے کس طرح خلاف ورزی کی، تاہم 7 دسمبر کو انہیں کینیڈا کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف امریکا کے ساتھ دھوکے کے الزام کے تحت سماعت کی گئی۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپنی خبر میں بتایا کہ مینگ وانژو کے خلاف لگائے گئے الزامات پر کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کی سپریم کورٹ نے 5 گھنٹے تک طویل سماعت کی، تاہم عدالتی کارروائی کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ مینگ وانژو کو اسی عدالت میں اگلی سماعت پر پیش کیا جائے گا اور اگر ان پر امریکا کے ساتھ دھوکے اور ایران کو فائدہ دینے کا الزام ثابت ہو گیا تو انہیں کم سے کم 30 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عدالت میں پہلی سماعت کے دوران عدالت نے بتایا کہ مینگ وانژو نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورژی کی اور انہوں نے 2009 سے 2014 کے درمیان ایک فرضی کمپنی بنا کر ایران کے ساتھ معاملات طے کیے۔

عدالت کے مطابق مینگ وانژو نے اسکائے کام نامی کمپنی بنا کر ہواوے کو فائدہ دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسکائے نام ایک الگ ادارہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران سماعت مینگ وانژو کو ہتھکڑیوں کے بغیر ہی پیش کیا گیا اور انہوں نے سبز رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ مین وانژو پرامریکی قوانین کی خلاف ورزیوں اور مالی بدعنوانیوں کا الزام ہے۔ مینگ وانژو کی گرفتار کے بعد امریکا اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تجارتی تعلقات میں مزیدہ کشیدگی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مینگ وانژو ہواوے کمپنی کے بانی کی بیٹی ہیں اور وہ کینیڈا میں خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو
 


بلغراد : سربیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر

$
0
0

بلغراد سربیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ سرب زبان میں اس کا معنی ہے ’’سفید شہر‘‘۔ یہ دریائے ساوا اور ڈینیوب کے سنگم پر واقع ہے۔ بلغراد شہر کی آبادی 12 لاکھ سے زائد ہے۔ یورپ میں زمانہ قبل از تاریخ کی سب سے اہم ثقافت جسے ’’وینکا کلچر‘‘ کہتے ہیں، اس شہر کے اردگرد چھٹی صدی قبل مسیح میں ارتقا پذیر ہوئی۔ عہد عتیق میں یہاں ڈیسینز لوگ آباد ہوئے اور 279 قبل مسیح کے بعد کلٹیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ آگسٹس کے دور میں رومیوں نے اسے فتح کیا۔ سلاوی قوم یہاں 520ء کے لگ بھگ آئی۔ 

یہ وقتاً فوقتاً بازنطینی ، فرینک، بلغاریہ اور ہنگری سلطنت کا ساتھ دیتی رہی۔ اس کے بعد یہ سرب بادشاہ سٹیفن ڈراگوٹن کا دارالحکومت قرار پایا۔ 1521ء میں یہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ یورپی طاقتوں اور عثمانی سلطنت کے درمیان جنگوں سے یہ زیادہ تر تباہ ہو گیا۔ 1841ء میں یہ سربوں کا دوبارہ دارالحکومت قرار پایا۔ یہ ایک ایسے مقام پر تھا جس کی بہت تزویراتی اہمیت تھی، اس لیے یہاں بے تحاشہ جنگیں ہوئیں اور یہ کئی مرتبہ تباہ ہوا۔ 1918ء میں یوگوسلاویہ کے قیام سے 2006ء میں اس کے خاتمے تک یہ اس کا دارالحکومت رہا۔

وردہ بلوچ


 

جھیل البرٹ : افریقہ کی عظیم جھیل

$
0
0

جھیل البرٹ افریقی ممالک یوگنڈا اور جمہوریہ کانگو کی سرحد پر واقع ہے۔ اسے البرٹ نیانزا اور جھیل موبوٹو سیسی سیکو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ افریقہ کی عظیم جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ بر اعظم افریقہ کی ساتویں بڑی جھیل ہے۔ اس کا رقبہ 2160 مربع میل ہے۔ لمبائی ایک سو میل اور اوسط چوڑائی 22 میل ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 190 فٹ ہے۔ جھیل البرٹ یوگنڈا کے سب سے نچلے اور گرم ترین حصے میں واقع ہے۔ یہاں کا اوسط درجہ حرارت 26 سینٹی گریڈ ہے اوربارش کی اوسط 864-1016 ملی میٹر ہے۔ زیادہ تبخیر کی وجہ سے اس کا پانی قدرے نمکین ہے۔ یہاں ہاتھی، بھینسیں، دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور چکارا بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جھیل کے اردگرد موجود مختصر آبادی یہاں ماہی گیری کرتی ہے۔

اس جھیل میں پانی کا اہم ذریعہ نیل ابیض ہے جو دریائے نیل کا معاون دریا ہے۔ دریائے سِملیکی بھی اسے سیراب کرتا ہے۔ نوآبادیاتی دور سے قبل جھیل البرٹ کو یہاں بسنے والے Mwitanzige کہتے تھے۔ اس جھیل کو 1864ء میں سیموئل بیکر نے ’’دریافت‘‘ کیا جو دریائے نیل کے ماخذ کی کھوج میں تھا۔ اس نے اس کا نام اس دور میں فوت ہونے والے ملکہ وکٹوریہ کے شریک حیات البرٹ کے نام پر رکھا اور اپنے تجربات کو اپنی کتاب ’’البرٹ نیانزا‘‘ میں قلم بند کیا۔ یورپی نو آبادکاروں نے اس پر بحری نقل و حمل شروع کر دی۔ برطانویوں نے مصر، مشرقی و جنوبی افریقہ میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے جہاں ریلوے کا نیٹ ورک قائم کیا وہیں دریاؤں اور جھیلوں پر سٹیمر چلائے۔ مارچ 2014ء میں کانگو کے تارکین وطن کو لے کر جانے والی ایک کشتی یہاں الٹ گئی جس کے نتیجے میں 250 افراد ہلاک ہو گئے۔

معروف آزاد


 

چین کے بارے میں دلچسپ حقائق

$
0
0

٭ قدیم چین میں سپاہیوں کے لباس بعض اوقات کاغذ کے بنے ہوتے تھے۔ 

٭ لفظ چین ’’چن‘‘ شاہی سلسلے سے لیا گیا ہے۔ اس سلسلے کے پہلے بادشاہ کا نام چن شی ہوانگ (260-210 قبل مسیح) تھا۔ 

٭ تاریخ میں چین کے دارالحکومت کا نام بدلتا رہا۔ اس کا نام ڈاڈو، یان جِنگ، بی پنگ، پیکنگ یا بیجنگ رہا۔ 

٭ چینی تہذیب کو قدیم ترین تصور کیا جاتا ہے۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق اس کی ابتدا چھ ہزار قبل مسیح میں ہوئی۔ 

٭ چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کا رقبہ کم و بیش برابر ہے لیکن چین کی آبادی امریکا سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ 

٭ چین کی تقریباً 59 فیصد سے زائد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ 

٭ 2003ء میں چین کسی انسان کو خلا میں بھیجنے والا تیسرا ملک بن گیا۔ 

٭ بہت سے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ فٹ بال کا آغاز ایک ہزار قبل مسیح میں چین سے ہوا۔

آئی فون کی چین میں فروخت پر پابندی عائد

$
0
0

امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں 'کوال کوم'اور 'ایپل'کے درمیاب پیٹنٹ کے تنازع پر چین کی عدالت نے ’آئی فون‘ کی چین میں فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے ۔  عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ فوژو انٹرمیڈیٹ پیپلز پارٹ کوال کوم کی درخواست پر فوری طور پر آئی فون 6 ایس، آئی فون 6 ایس پلس، آئی فون 7، آئی فون 7 پلس، آئی فون 8، آئی فون 8 پلس اور آئی فون ایکس کی فروخت روکنے کا حکم دیتی ہے۔ عدالت نے آئی فون کو کوال کوم کے سافٹ ویئرز کے دو پیٹنٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔

واضح رہے کہ امریکا کی دو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کوال کوم اور ایپل کے درمیان ایک عرصے سے پیٹنٹ اور رائلٹی کے معاملے پر عدالتی جنگ جاری ہے۔
کوال کوم کے وکیل ڈون روزن برگ نے اپنے بیان میں کہا کہ اپیل ہماری انٹلیکچوئل پراپرٹی سے فائدہ اٹھا رہا تھا، جبکہ ہمیں ہرجانہ ادا کرنے سے بھی منع کر دیا۔ سافٹ ویئر کے پیٹنٹ کے حوالے سے مسائل کے بعد ایپل مزید مسائل سے بچنے کے لیے اپنا سافٹ ویئر تیار کرے گی، تاکہ وہ اپنے فون بیچ سکے۔
کوال کوم نے امریکی حکام سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیٹنٹ کے مسائل کے سبب آئی فون پر پابندی عائد کرے، لیکن وہ اس حوالے سے اب تک انکار کرتے رہے ہیں۔
 

دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے 47 امریکی ہیں

$
0
0

دنیا بھر میں اسلحہ اور اس سے متعلق ساز و سامان کی نصف تعداد امریکی کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر میں اسلحے کے فروغ اور اسلحہ سازی کی صنعت کے حوالے سے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) نے 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے نام کے ساتھ تازہ رپورٹ جاری کی ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں، اسلحہ سازی، تنازعات اور دفاعی ساز و سامان سے متعلق ریسرچ کرنے والے ادارے (SIPRI) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 2017ء میں 2.5 فیصد اضافے کے ساتھ اسلحے کی 398.2 بلین ڈالر کی خرید و فروخت ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں 47 امریکی ہیں جو دنیا بھر میں اسلحے کی نصف تعداد تیار کر رہی ہیں جب کہ دنیا کی 10 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں 5 امریکی ہیں۔ امریکی کمپنی لاک ہِیڈ مارٹن اول نمبر پر براجمان ہے جس نے 44 بلین ڈالرز کا کاروبار کیا۔ دفاعی ساز و سامان کی تیاری میں روس نے برطانیہ سے اعزاز چھین کر دوسرے نمبر پر قدم جما لیے، تیزی سے ترقی کے منازل طے کرنے والی روسی کمپنی ’الماز آنتے‘ پہلی بار 10 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں شامل ہوئی۔ برطانیہ بدستور مغربی یورپی ممالک کو اسلحہ فراہم کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اسپری (SIPRI) نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ چینی کمپنیاں بھی بڑی مقدار میں اسلحہ فروخت کر رہی ہیں تاہم ان کے بارے میں بہت کم اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ اس لیے چین کو کس فہرست میں رکھا جائے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے جب کہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک کی دوڑ میں اسرائیل نے بھی اپنی پوزیشن بہتر کر لی ہے۔ مسلمان ممالک میں ترکی کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے حیران کن نتائج دے کر خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ترکی نے اسلحے کی فروخت کو 2016ء کے مقابلے میں 2017ء میں 27 فیصد کے اضافے پر پہنچا دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی دفاعی ساز و سامان کی صنعت میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ بھی کما کر معیشت میں بہتری کا خواہاں ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں بھارت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>