Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

خشک سالی کے مارے 35 لاکھ افغانوں کو خوراک کی اشد ضرورت

$
0
0

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں ایسے شہریوں کی تعداد بڑھ کر پینتیس لاکھ ہو چکی ہے، جنہیں فوری طور پر امدادی اشیائے خوراک کی ضرورت ہے۔ ہندو کش کی اس ریاست کے وسیع تر علاقوں کو کافی عرصے سے شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کی ذیلی تنظیم ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے بتایا کہ عشروں سے خانہ جنگی کے شکار افغانستان میں ایسے انسانوں کی تعداد مزید اضافے کے بعد اب 3.5 ملین ہو چکی ہے، جنہیں زندہ رہنے کے لیے امداد کی صورت میں اشیائے خوراک کی فوری ترسیل کی ضرورت ہے۔

عالمی خوراک پروگرام کے ترجمان ہَیروے وَیرہُوسیل نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان کے کُل 34 میں سے 20 صوبے، خاص کر ملک کے شمال مغرب میں وسیع تر علاقے ایسے ہیں، جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس خشک سالی کے باعث دو لاکھ سے زائد افغان باشندے اپنے گھروں سے فرار ہو کر ملک کے مقابلتاﹰ کم متاثرہ دیگر خطوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ موسم سرما میں بہت کم بارشوں اور بہت تھوڑی برف باری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث بہت سے افغان کسانوں نے اپنے کھیتوں میں یا تو گندم کی کاشت میں مجبوراﹰ تاخیر کر دی تھی یا گندم اگانے کے لیے استعمال کیا جانے والا زرعی رقبہ بہت کم کر دیا گیا تھا۔

قبل ازیں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے رابطہ دفتر نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ افغانستان میں بھیڑ بکریوں تک کے لیے بھی اپنے لیے چارہ تلاش کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کے کئی ملین ضرورت مند شہریوں کی مدد کے لیے امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جاپان بھی جزوی طور پر اس ادارے کو مالی وسائل فراہم کرتے تو رہے ہیں تاہم اب ڈبلیو ایف پی کے لیے صورت حال مشکل تر ہو چکی ہے۔

ہَیروے وَیرہُوسیل نے کہا، ’’ورلڈ فوڈ پروگرام کو اگلے ماہ دسمبر سے لے کر اگلے سال مئی تک کے عرصے کے لیے 83.6 ملین ڈالر کی ضروت ہے تاکہ ان 35 لاکھ ضرورت مند افغانوں کی مدد کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’خصوصی طور پر افغان حکومت کے لیے بہت زیادہ مشکلات کے موجودہ دور میں اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام جیسے اداروں اور ان کی معاون تنظیموں کو اضافی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ افغانستان ہی سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس اس ماہ کی 27 اور 28 تاریخ کو جنیوا میں منعقد ہو رہی ہے اور کانفرنس کے مرکزی موضوعات میں سے ایک اس جنگ زدہ ملک میں خوراک کی دستیابی کی غیر یقینی صورت حال بھی ہو گی۔

بشکریہ DW اردو 


نایاب گلابی ہیرا ریکارڈ 7 ارب روپے میں نیلام

$
0
0

جنیوا میں ایک نیلامی کے دوران دنیا میں اپنی رنگت اور بناوٹ کے لحاظ سے نایاب گلابی ہیرا پچاس ملین ڈالر کے عوض خرید لیا گیا ہے۔ فی قیراط قیمت کے لحاظ ہے یہ دنیا میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ’دا پِنک لےگیسی‘ نامی یہ ہیرا کسی زمانے میں ’اوپن ہائمر خاندان‘ کی ملکیت ہوتا تھا۔ یہ خاندان ہیرے تلاش کرنے والی ایک کمپنی کا مالک تھا۔ اب یہ ہیرا امریکی لگژری برینڈ ہیری وِنسٹن کے پاس چلا گیا ہے، جو سوئٹرز لینڈ کے مشہور ادارے ’سوئس سواچ گروپ‘ کا حصہ ہے۔ یورپ کے مشہور نیلام گھر کرسٹیز کے سربراہ فرانکوئس کوریل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’فی قیراط دو اعشاریہ چھ ملین ڈالر ادا کیے گئے ہیں۔ گلابی ہیروں کی دنیا میں فی قیراط قیمت کے حوالے سے یہ ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔‘‘ اس میں فیس اور کمیشن بھی شامل ہیں۔

کوریل کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’یہ پتھر میرے لیے ہیروں کا لیونارڈو داوینچی ہے۔‘‘ تقریبا انیس قیراط کا یہ قیمتی ہیرا ایک صدی پہلے جنوبی افریقہ کی ایک کان سے ملا تھا، جسے سن انیس سو بیس کی دہائی میں تراشا گیا تھا اور اس کے بعد سے اسے تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس نایاب ہیرے کی خریداری کے فورا بعد ہی اسے ’ونسٹن پِنک لےگیسی‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ کرسٹیز انٹرنیشنل کے جیولری ہیڈ راہول کاڈاکیا کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’یہ دنیا کے سب سے بہترین ہیروں میں سے ایک ہے۔‘‘ درجہ بندی کے لحاظ سے یہ نایاب ہیرا ’فینسی وِیوِڈ‘ درجے کا حامل ہے۔ یہ درجہ رنگ کی شدت اور ہیرے کے اعلیٰ ترین معیار کو دیکھتے ہوئے ہی دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ہیرے کی کانوں سے جتنے بھی ہیرے نکلتے ہیں، ان میں سے محض ایک فیصد قیمتی پتھر ہی گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور زیادہ تر گلابی ہیروں کا وزن ایک قیراط سے کم ہی ہوتا ہے۔

 

Neelum Valley Is A Heaven On The Face Of This Earth

$
0
0

Neelam Valley or Neelum Valley – Located in Azad Kashmir, Pakistan. Neelam Valley has a total area of 144 km long bow-shaped intensely forested region in Azad Kashmir. Neelum Valley is situated at the North & North-East of Muzaffarabad, in a row parallel to Kaghan Valley. Outstanding scenic beauty, panoramic views, soaring hills on both sides of the noisy Neelum River, lush green forests, charming streams and attractive surrounds make the valley a dream come true.


Athmuqam, Sharda & Kel are the most famous locations here. Athmuqam is an eye-catching place famous for its variety of fruit. Sharda – a breath-taking green spot at a height of 1981m. Shardi and Nardi are two mountain peaks around the neelam valley, apparently named after legendary princess Sharda. It has a charming landscape with many springs and hill-sides enclosed with trees. Kel is also a small valley located at a altitude of 2097m. This is another attractive place in the Neelum Valley.











منشیات کی دنیا کے 'گاڈ فادر'ایل چاپو گوزمین کون ہیں ؟

$
0
0

منشیات کے کاروبار کے 'گاڈ فادر'ایل چاپو گوزمین کبھی جیل سے فرار اور اربوں ڈالرز کے اثاثوں کے لیے خبروں میں رہتے تھے لیکن ان دنوں نیویارک میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان میں بڑے بڑے سیاست دانوں کے نام بھی سامنے آ رہے ہیں۔ میکسیکو میں منشیات کے سرغنہ خواکین 'ال چاپو'گوزمین کے وکیل نے نیویارک میں ان کے خلاف جاری سماعت میں کہا ہے کہ انھیں 'قربانی کا بکرا'بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سینالاؤ کارٹیل کے اصل سربراہ 'ال مے یو زیمبادا'ہیں جو کھلے عام میکسیکو میں گھوم رہے ہیں اور انھوں نے ملک کے سیاست دانوں کو رشوت دے رکھی ہے۔

صدر اینریکے پینا نیٹو اور ان کے پیش رو فیلپ کالڈرن نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے۔ 61 سالہ گوزمین کے خلاف 17 الزامات ہیں اور اگر وہ ان کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو انھیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
انھیں جنوری سنہ 2016 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اس سے پانچ ماہ قبل وہ ایک سرنگ کے ذریعے جیل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ سینالوا امریکہ میں منشیات پہنچانے کا سب سے بڑا کارٹیل ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان کے بعض ساتھی جن میں ان کے سابق لیفٹینینٹ شامل ہیں وہ گوزمین کے خلاف شہادت دیں گے۔ عدالت میں انتہائی سخت سکیورٹی کے درمیان سماعت شروع ہوئی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ چار ماہ تک جاری رہے گی۔ ان کے وکیل جیفری لکٹمین نے کہا کہ ان کے مؤکل پر سربراہ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے جبکہ اصل سربراہ کھلے عام میکسیکو میں رہ رہے ہیں۔

'ایل چاپو'گوزمین کون ہیں؟
خواکین گوزمین 'ایل چاپو'ایک کسان خاندان میں سنہ 1957 میں پیدا ہوئے۔ وہ پوست اور گانجے کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اور یہیں سے انھوں نے منشیات کی سمگلنگ کا ہنر سیکھا۔ اس کے بعد وہ 'دی گاڈ فادر'کے نام سے مشہور اور طاقتور گواڈا لازارا کارٹیل کے سربراہ میگیل اینجل فیلکس کی شاگردی میں آئے اور ان سے اس کی باریکیاں سیکھیں۔ پانچ فٹ چھ انچ قامت کے گوزمین کو 'شارٹی'بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سنہ 1980 کی دہائی میں شمال مغربی میکسیکو میں بااثر سینالوا کارٹیل کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ گئے۔ اور یہ امریکہ میں منشیات کی سمگلنگ کرنے والا سب سے بڑا گروہ بن گیا۔

جبکہ سنہ 2009 میں فوربز میگزین نے دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں 701 نمبر پر گوزمین کو شامل کیا۔ اس وقت ان کی مجموعی دولت تقریباً ایک ارب ڈالر تھی۔ سنہ 1993 میں ایک حریف گروہ نے ان پر حملہ کیا جس میں وہ بال بال بچ گئے تاہم اسی سال ایک بڑی مہم کے بعد انھیں گوئٹے مالا سے گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران وہ انتہائی سکیورٹی والی جیل میں رہے۔ سنہ 2001 میں وہ ایک سکیورٹی گارڈ کی مدد سے جیل سے فرار ہو گئے۔ انھیں دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے بیک وقت کئی ممالک میں مہم چلائی گئی لیکن وہ سنہ 2014 کے اوائل تک کسی کی پکڑ میں نہیں آئے اور پھر انھیں فروری سنہ 2014 میں گرفتار کر لیا گیا۔
وہ ایک بار پھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن جنوری 2016 میں دوبارہ گرفتار کر لیے گئے اور انھیں امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ انھیں 'ایل ریپیڈو'، شارٹی'، 'ایل سینور'، 'ایل یےفے'، 'نانا'، 'آپا'، 'پاپا'اور 'انگے'کے عرفی ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

سینالوا کارٹیل کیا ہے؟
سینالوا میکسیکو کا شمال مغربی علاقہ ہے اور اسی نسبت سے ان کے گروہ کا سینالوا کارٹیل نام پڑا۔ گوسمین کے حکم پر اس کارٹیل نے کئی حریف گروہوں کا خاتمہ کیا اور منشیات امریکہ بھیجنے والا سب سے بڑا نیٹ ورک بن گیا۔ جولائی سنہ 2018 میں امریکی کانگریس میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ کارٹیل سالانہ تین ارب ڈالر کی کمائی کرتا ہے۔ امریکہ میں جاری مقدمے کے مطابق یہ کارٹیل منشیات کی سمگلنگ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا گروپ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس گروہ کا جال کم از کم 50 ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس کارٹیل کے کئی حریف گروہ ابھرے ہیں اور سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا اب کارٹیل کا اثر کم ہو رہا ہے۔

گوزمین پر الزامات کیا ہیں؟
ال چاپو گوزمین پر 17 مقدمات درج ہیں۔ ان پر امریکہ میں سینکڑوں ٹن کوکین سمگل کرنے کا الزام بھی ہے۔ مقدمے کے مطابق گوزمین اور ان کے ساتھیوں نے 84 بار منشیات کی شپمنٹ امریکہ بھیجی۔ 18 مارچ، 2007 کو ان پر 19،000 کلو کوکین بھیجنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان پر ہیروئن، میتھافیٹیمین، گانجہ اور دیگر منشیات بنانے اور فروخت کرنے کا بھی الزام ہے۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے کرائے کے قاتلوں سے سینکڑوں قتل، اغوا اور اپنے مخالفین پر حملے کروائے ہیں۔ امریکی اہلکار منشیات کی تجارت سے حاصل کردہ ان کے 14 ارب ڈالر ضبط کرنا چاہتے ہیں لیکن ان میں ان کی کامیابی کے آثار کم ہیں۔

جب آٹھ جنوری سنہ 2016 کو بڑے پیمانے پر مہم کے بعد گوزمین کو گرفتار کیا گیا تو میکسیکو کے صدر اینریک نیٹو نے ٹویٹ کیا کہ 'مہم ختم ہو گئی ہے۔' انھیں میکسیکو کے شمال مغربی ساحلی شہر لاس موچس سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے چند دنوں بعد یہ پتہ چلا تھا کہ ہالی وڈ اداکار شان پین نے گرفتاری سے قبل جنگل میں ان کا انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کو رولنگ سٹون نے شائع کیا جس پر کافی تنقید بھی ہوئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق پولیس شان پین کا تعاقب کرتے ہوئے ہی گوزمین تک پہنچی تھی۔ آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

وہ کس طرح فرار ہوئے؟
مقدمے کے دوران سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ اس سے قبل دو بار انتہائی محفوظ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ سنہ 2001 میں، وہ پوئنٹے گرینڈ جیل سے کپڑا لے جانے والی ٹرالی میں چھپ کر فرار ہو گئے تھے۔ جیل کے محافظوں کو رشوت دے کر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ سنہ 2014 میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ پھر سنہ 2015 میں وہ اپنے جیل کے کمرے سے ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ کھود کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سرنگ میں ہوا کے لیے روشن دان تھے اور اس کا دوسرا سرا ایک تعمیراتی سائٹ میں پوشیدہ رکھا گیا تھا۔امریکی پراسیکیوٹرز نے کئی دہائیوں سے جمع کیے جانے والے شواہد کو یکجا کیا ہے۔ انھوں نے اس کے لیے میکسیکو اور کولمبیا کے حکام سے مدد بھی حاصل کی ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان کی بنیاد پر انھیں عدالت میں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

قربانیاں پھر فراموش، پاکستان نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا، صدر ٹرمپ

$
0
0

 امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کی امداد روکنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکا کے لیے کچھ نہیں کرتا اسی لیے ہم نے اس کی 1.3 ارب ڈالر کی امداد روک دی، پاکستان ہمارے لئے کچھ نہیں کرتا، پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا جس کا پاکستان میں سب کو علم تھا ۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہمارے لئے کچھ نہیں کرتا ۔صدر ٹرمپ نے امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا : ʼپاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ (اسامہ بن لادن) ایبٹ آباد میں اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں۔ اور ہم انھیں 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہے ہیں۔ ہم اب یہ امداد نہیں دے رہے۔ میں نے یہ بند کر دی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے۔

ارجنٹائن کی لاپتہ آبدوز تلاش کر لی گئی

$
0
0

ارجنٹائن کی بحری فوج کی گم شدہ آبدوز کو بحراوقیانوس کی تہہ سے تلاش کر لیا گیا ہے۔ جہاں سے آبدوز ملی ہے، وہ پاٹاگونین ساحل کے سامنے کا کھلا سمندر ہے۔ ارجنٹائن کی بحریہ کی تلاش کرنے والی ٹیم نے ٹویٹ کیا کہ آبدوز کو بحراوقیانوس میں تقریباً آٹھ سو میٹر (2,625 فیٹ) کی گہرائی میں ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اس آبدوز کا سرکاری نام اے آر اے سان خوان ہے۔ لاپتہ آبدوز کی تلاش شمالی امریکی سمندری سروے کرنے والے بین الاقوامی ادارے اوشن انفینیٹی کی ریموٹ کنٹرول سے زیر آب نقل و حرکت جاری رکھنے والی کشتی کی ذریعے کی گئی۔ سان خوان نامی ارجنٹائنی نیوی کی آبدوز پندرہ نومبر سن 2017 کو نیول بیس مارپیل پلاٹا لوٹ رہی تھی کہ اُس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے کٹ کر رہ گیا اور پھر یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ آبدوز کدھر گئی۔

رابطہ منقطع ہوتے وقت آبدوز پر عملے کے چوالیس اراکین بھی سوار تھے۔ اس آبدوز کی تلاش کے لیے ابتدائی بین الاقوامی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔ آہستہ آہستہ انٹرنیشنل ٹیمیں بتدریج تلاش کے عمل سے پیچھے ہٹتی چلی گئیں۔ انجام کار اوشن انفینیٹی نے اس آبدوز کو تلاش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اُس کے بحری جہاز نے ریموٹ کنٹرول سے انتہائی گہرائی میں ایک ایسی کشتی کو روانہ کیا، جس پر کیمرے نصب تھے اور اوپر بحری جہاز میں بیٹھی ماہرین کی ٹیمیں تہہ سمندر میں نظر آنے والی اشیاء کا بغور مطالعہ کرنے لگیں۔ اوشن انفینیٹی کی کوششیں رنگ لائیں اور اس نے تہہ آب سے آبدوز کی ملنے والی تصاویر آرجنٹائنی نیوی کو فراہم کیں۔ 

تصدیقی بیان دیتے ہوئے نیوی کے ترجمان روڈالفو رامایو کا کہنا ہے کہ گم شدہ آبدوز کی تلاش کے بعد اب اُس کی ریکوری کے مشکل مرحلے کا دروازہ کھل گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ آبدوز کو نیچے سے اوپر کیسے لایا جائے گا۔ اس آبدوز کی تلاش کے اس مرحلے کے بعد چوالیس عملے کے اراکین کے خاندانوں سے گفتگو کرتے ہوئے ارجنٹائنی صدر ماریسیو ماتری نے کہا کہ وہ اس صورت حال میں تنہا اور اکیلے نہیں ہیں بلکہ پوری حکومت کے علاوہ ملک بھی اُن کے ساتھ ہے۔ صدر ماتری نے یہ بھی کہا کہ آبدوز کے ڈوبنے اور عملے کے افراد کی زندگیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس کی مناسبت سے سچ ڈھونڈنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سان خوان نام آبدوز جرمن بندرگاہ ایمڈین پر سن 1983 میں تیار کی گئی تھی اور پھر بعد میں اسے ارجنٹائن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

 

عمران خان کا امریکی صدر کو ریکارڈ درست کرنے کا مشورہ

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریکارڈ درست کرنے کا مشورہ دے دیا۔ امریکی صدر کے پاکستان کے حوالے سے سامنے آنے والے بیان پر وزیراعظم عمران خان کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان متعلق ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ٹرمپ افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ 14 ہزار نیٹو اور 2 لاکھ 50 ہزار افغان فوجیوں کی جانوں اور 1 ٹریلین ڈالر کے جنگی اخراجات کے باوجود آج امریکا کے مقابل طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط کیوں ہیں؟ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا،لیکن اس کے باوجود ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں ساتھ دیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 75 ہزار پاکستانیوں نے جانیں قربان کیں۔ عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کو 123 ارب ڈالرزسے زائد کا نقصان ہوا جبکہ امریکا نے صرف 20 ارب ڈالرز امداد دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا سے تعاون کرنے کی وجہ سے قبائلی عوام کے گھر تباہ ہوئے، انہیں ہجرت کرنا پڑی، اس جنگ نے عام پاکستانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان نے زمینی اور ہوائی راستے مفت فراہم کئے، کیا ٹرمپ یا ان کے اتحادیوں میں سے کسی نے اس نوعیت کی قربانیاں دی ہیں ؟ گزشتہ روز امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کےلئے کچھ نہیں کیا اس لئے امداد بند کی۔
 

ٹرمپ اور عمران خان ٹوئٹر پر آمنے سامنے

$
0
0

عمران خان نے کہا تھا کہ ’امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوجیوں اور ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں کیوں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس پر عمران خان نے ٹویٹ کیا ہے کہ ٹرمپ کے جھوٹے دعوے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جس نے جانوں کی قربانی دی، خود کو غیر مستحکم کیا اور معاشی نقصان برداشت کئے۔ اُنہیں تاریخی حقائق یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان امریکی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اُٹھا چکا ہے۔ اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے مفادات کیلئے بہترین ہو گا۔


اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ "ہم اب پاکستان کو اربوں ڈالر نہیں دے رہے کیونکہ وہ ہم سے پیسہ لے رہے تھے اور کر کچھ نہیں رہے تھے۔ اس کی پہلی مثال اسامہ بن لادن اور دوسری افغانستان ہیں۔"انہوں نے لکھا کہ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے اور انہوں نے ہمیں نہیں بتایا کہ اسامہ بن لادن وہاں (پاکستان) میں رہ رہا تھا۔ ​امریکی صدر کے ٹوئٹ سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ افغانستان میں ناکامی کا الزام پاکستان پر ڈالنے کے بجائے امریکہ خود اس کا جائزہ لے۔ وزیراعظم عمران خان کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب اتوار کو امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو اتنی امداد دینے کے باوجود اُس نے امریکہ کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری مختصر پیغام میں کہا کہ ’امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوجیوں اور ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں کیوں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘ عمران خان نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف بیان بازی کے بعد اب ریکارڈ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نمبر ایک، پاکستان نائن الیون میں شامل نہیں تھا لیکن پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ نمبر دو، پاکستان نے اس جنگ میں 75 ہزار افراد کی جانیں گنوائیں اور معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اس کے بدلے امریکہ سے ملنے والی امداد محض 20 ارب ڈالر ہے۔ صدر ٹرمپ نے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے عوام جانتے تھے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد پاکستان میں فوجی اکیڈمی کے بالکل قریب رہتا تھا۔

امریکی صدر نے کہا کہ اس سب کے باوجود امریکہ پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر دیتا رہا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے امداد بند کر دی ہے کیونکہ پاکستان ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا ہے۔‘ عمران خان سے قبل پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کا دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا تھا۔ شریں مزاری نے ٹوئٹ کی تھی کہ امریکہ کے ساتھ مفاہمت اور معاملات کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ شیریں مزاری نے ٹوئٹ کی کہ ڈرون حملوں میں لوگوں کی غیر قانونی ہلاکت اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے افسوس کے ساتھ ایک بار پھر تاریخ ہم پر یہ واضح کرتی ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے کی پالیسی سے کام نہیں چلتا ہے۔‘ شیریں مزاری نے امریکی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین ہو یا ایران امریکہ کی کسی ملک کو محدود کرنے اور الگ کرنے کی پالیسی پاکستان کے اسٹریٹجک مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف سخت بیانات اور ان کا یہ دعویٰ کہ پاکستان نے امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا یہ پاکستان کے ان رہنماؤں کے لیے سبق ہے جو نائن الیون کے بعد امریکہ کو خوش کرتے رہے۔ (لوگوں کو ) امریکہ کے حوالے کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستانیوں کا جانی نقصان ہوا اور ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی اہلکار پاکستان میں آزادانہ گھومتے پھرتے رہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدگی کا شکار ہیں اور امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو پہلی بار تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے اس سے قبل سال کی ابتدا میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں اور پاکستان نے امریکہ کو صرف بے وقوف بنایا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ 


 


مہاتیر محمد نے 100 دن میں کیا کیا ؟

$
0
0

ملائیشیا کے 14ویں الیکشن میں کامیابی سمیٹنے کے لیے مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتوں نے 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ 100 دن کا یہ 10 نکاتی ایجنڈا اگرچہ بظاہر ناممکن تھا، لیکن تھا پاپولر، لہٰذا اسی کی بنیاد پر انتخابات لڑے گئے اور عوام کو مسلسل یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ مہاتیر محمد کی قیادت میں یہ ہدف باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہ 10 نکاتی ایجنڈا کیا تھا، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1: حکومت جنرل سیلز ٹیکس ختم کرے گی۔

2: پیٹرول کی قیمت میں توازن لائے گی اور پیٹرول پر سبسڈی دے گی۔

3: فیڈرل لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سیٹلرز (FELDA Settlers) پر غیر ضروری قرض ختم کیے جائیں گے۔

4: گھریلو خواتین کے لیے ای پی ایف کنٹریبیوشن (Employees' Provident Fund Contribution) شروع کیا جائے گا۔

5: قومی سطح پر کم از کم اجرت کو برابر کیا جائے گا اور کم از کم اجرت کو بڑھانے کے لیے اقدامات شروع کیے جائیں گے۔

6: جن گریجویٹس کی تنخواہ 4 ہزار ملائیشین رنگٹ سے کم ہے ان کی تعلیم کی خاطر لیے گئے قرضوں کی ادائیگیوں کو فوراً التوا میں ڈالا جائے گا اور بلیک لسٹ کرنے کی پالیسی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔

7: ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے والے تمام اسکینڈلز کی تحقیقات اور ان اداروں کے نظام میں اصلاحات لانے کے لیے شاہی کمیشنر بنائے جائیں گے۔

8: ملائیشیا ایگریمنٹ 1963ء کو اس کی اصل حالت میں لاگو کرنے کے لیے اسپیشل کیبینٹ کمیٹی بنائی جائے گی۔

9: صحت سے متعلق پالیسی کو جانچا جائے گا اور کم آمدن والے افراد کے علاج سے متعلق بہت پالیسی کو نافذ کیا جائے گا۔

10: ملائیشیا کے تمام بڑے منصوبوں کی تعمیر سے متعلق بیرون ملک دیے گئے ٹھیکوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

عوام میں یہ 10 نکاتی ایجنڈا مقبول ہوا، مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتیں 9 مئی 2018ء کو الیکشن جیت گئیں اور مہاتیر محمد ملائیشیا کے 7ویں اور دنیا کے ظعیف العمر وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ الیکشن جیتنے کے بعد حکومت کے سامنے سب سے بڑا پہاڑ 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا تھا۔ حکومت نے محنت شروع کی اور تمام تر کوششوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے 100 دن میں صرف 2 وعدے مکمل کیے، 3 وعدوں پر کام شروع کیا اور باقی 5 نکات پر سرے سے کوئی کام شروع ہی نہیں ہوا۔ 

میاں عمران احمد

بشکریہ ڈان نیوز اردو
 

کیا آئی فون کا عہد ختم ہونے کے قریب ہے ؟

$
0
0

ایپل کے اسمارٹ فونز کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے اور ان کی فروخت ریکارڈ توڑ ثابت ہوتی ہے تاہم ایک دہائی بعد لگتا ہے کہ اس کمپنی خاص طور پر دنیا کے مقبول ترین موبائل فون کے زوال کا سفر تیز ہو گیا ہے۔ جی ہاں 2007 میں آئی فون پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا مگر اس سال پیش کیے جانے والے تینوں آئی فونز لگتا ہے کہ صارفین کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکے، جس کی وجہ سے کمپنی نے ان کی پروڈکشن کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی فون ایکس ایس، آئی فون ایکس ایس میکس اور آئی فون ایکس آر کو ایپل نے رواں سال ستمبر میں متعارف کرایا تھا مگر صارفین میں ان کی مانگ توقعات سے کافی زیادہ کم رہی ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق ایپل کے نئے آئی فونز کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے جس سے کمپنی کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔

ایپل میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کو اس سے جھٹکا لگا تھا جب کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ کرسمس کے موقع پر ڈیوائسز کی فروخت توقعات سے کم رہے گی۔ ایپل کو سب سے زیادہ مشکل کا سامنا سستے آئی فون ایکس آر کی فروخت میں ہوا ہے جس کے بارے میں سپلائرز کو کمپنی نے پروڈکشن ایک تہائی کم کرنے کا کہا تھا اور گزشتہ ہفتے اس میں مزید کٹوتی کا عندیہ دیا۔ آئی فون ایکس ایس اور ایکس میکس کی فروخت ستمبر جبکہ ایکس آر کو اکتوبر میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ ایپل نے فی الحال اس رپورٹ پر اپنا کوئی ردعمل پیش نہیں کیا ہے۔ خیال رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں ایپل نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ آئی فونز کی فروخت کے اعدادو شمار ظاہر نہیں کرے گی اور اس پر متعدد حلقوں نے خیال کیا تھا کہ آئی فون ایکس ایس، آئی فون ایکس ایس میکس اور آئی فون ایکس آر کی فروخت میں کمپنی کو مشکل کا سامنا ہے۔
 

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان پر بیان سوچا سمجھا تھا یا جوش خطابت ؟

$
0
0

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کے ساتھ انٹرویو کے دوران پاکستان پر سخت تنقید کی اور کہا کہ 15 برسوں میں 33 ارب ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستان نے امریکہ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بن لادن کو کئی برس تک، ان کے بقول پناہ دی گئی۔
انٹرویو کے بعد صدر کے ٹوئیٹر اکاؤنٹس سے اسی انٹرویو سے کچھ جملے ٹویٹ کیے گئے تو پاکستان سے وزیراعظم عمران خان، کابینہ کے وزرا حتی کہ حزب اختلاف کے راہنماؤں نے بھی جواباً سخت پیغامات جاری کیے اور کہا گیا کہ امریکہ افغانستان کے اندر اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے اور یہ کہ امریکہ کو خوش رکھنے کی حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے متعلق جو کچھ کہا وہ سوچا سمجھا تھا؟ یا وہ برسبیل تذکرہ بہت کچھ کہہ گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے نقاد سابق نیوی سیل ایڈمرل میک ریون پر اپنی تنقید سے متعلق سخت سوالات سے گریز کرتے ہوئے محض موضوع بدل رہے تھے؟ اگر موضوع بدلنا مقصود تھا تو پھر انٹرویو سے پاکستان سے متعلق ریمارکس کیونکر ٹویٹ کیے گئے؟ صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاونٹ کون چلاتا ہے اور وائٹ ہاؤس کا ٹویٹس کی ساخت، مواد، موضوعات اور الفاظ کے چناؤ میں کیا کردار ہوتا ہے؟ یہ سوالات کیے گئے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں صدر ٹرمپ کے لیے مسلم فار ٹرمپ نامی مہم کے بانی پاکستانی امریکن سرگرم شخصیت ساجد تارڑ اور تجزیہ کار کامران بخاری سے۔

کامران بخاری کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ تو ایسے ٹویٹس بھی کر جاتے ہیں جس میں املا کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے فاکس نیوز کے ساتھ مسٹر ٹرمپ کا انٹرویو غور سے دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں اظہار خیال موضوع کا حصہ نہیں تھا۔ میزبان نے جب بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن میں شامل ایڈمرل میک ریون پر صدر ٹرمپ کو ان کی تنقید پر چیلنج کیا تو کامران بخاری کے بقول، ٹرمپ بظاہر موضوع سے گریز کرتے ہوئے پاکستان پر ’’جمپ ‘‘ کر گئے۔ لیکن اگر پاکستان موضوع نہیں تھا تو پھر صدر کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے پاکستان کے بارے میں ہی ان کے جملے کیوں ٹویٹ کیے گئے؟ 

کیا میڈیا اداروں کی ڈیجیٹل ٹیموں کی طرح جیسے وہ اپنے گھنٹے بھر کے پروگرام سے ایک آدھ چٹخارے دار جملے کو کاٹ پیٹ کر سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں، کیا حکومتیں اور قیادتیں بھی اپنے جملوں کو وائرل ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں؟ کامران بخاری کے بقول بالکل ایسا ہی ہے۔ پبلک ریلیشن مشینیں ہر وقت مصروف عمل ہیں۔ لگتا ہے صدر ٹرمپ کو خیال آیا ہو گا کہ ان کا پاکستان کے بارے میں کہا گیا جملہ اہم ہے تو انہوں نے خود ٹویٹ کر دیا ہو گا یا اپنی میڈیا ٹیم سے کہا ہو گا کہ اس کو ٹویٹ کریں۔ عام طور پر باقاعدہ سوچ بچار کے بعد ٹویٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ 

کئی بار تو پہلے ڈرافٹ لکھے جاتے ہیں اور اسی لیے کئی بار غلطیاں بھی رہ جاتی ہیں۔ ساجد تارڈ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایک خیال کی رو میں بہت کچھ کہہ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ میرے خیال میں صدر ٹرمپ جوش خطابت میں پاکستان پر بات کر گئے۔ ان کا اصل ہدف ایڈمرل میک ریون تھے جو ممکنہ طور پر (ان کے بقول) آئندہ صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں اور اکثر ٹرمپ پر تنقید کرتے رہتے ہیں‘‘۔ ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان پر سوچی سمجھی تنقید نہیں تھی، کیونکہ آج کل، ان کے بقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اچھے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جو کہنا چاہتے ہیں، بلا جھجھک کہہ جاتے ہیں اور وہ اپنا ٹوئیٹر اکاؤنٹ زیادہ تر خود دیکھتے ہیں حالانکہ وائٹ ہاؤس میں ایک میڈیا ڈائریکٹر بھی ہے مگر صدر ٹرمپ کی یہی بے ساختگی ان کے حامیوں کو بہت پسند ہے۔ کامران بخاری، ساجد تارڈ اور سابق وفاقی وزیر اور امریکہ کے لیے پاکستان کی سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو صدر کے اس بیان اور ٹویٹ کو اس قدر سنجیدہ لینے کے بجائے نظر انداز کرنا چاہیے تھا۔

اسد حسن

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

گوئٹے مالا میں فیوگو آتش فشاں پھر پھٹ پڑا

$
0
0

لاطینی امریکہ کے ملک گوئٹے مالا میں فیوگو آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد اس کے ارد گرد کے علاقوں سے تقریباً چار ہزار افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ہے۔

 جنوب مغربی شہر انٹیگا میں واقع یہ آتش فشاں اتوار کو ابل پڑا تھا، اور اس کے دہانے سے راکھ اور لاوا نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ فائر فائٹرز نے آتش فشاں کے ڈھلوانی علاقوں میں رہائش پذیر افراد کے انخلا میں مدد کی۔ بہت سے افراد نے کھیلوں کے میدان میں پناہ لی ہوئی جہاں انتظامیہ نے خیمے لگائے ہوئے ہیں۔

 پانچ ماہ قبل جون میں جب یہ آتش فشاں بری طرح پھٹ پڑا تھا تو تقریباً 200 افراد آتش فشاں کی راکھ اور مٹی تلے دفن ہو گئے تھے۔


آتش فشاں کے پھٹنے سے گرم گیس اور آتش فشانی مواد تیزی سے ڈھلوانوں کی جانب بہنے لگا تھا جس سے ال روڈیو اور سین میگوئل لوس لوٹس کے کئی علاقے متاثر ہوئے تھے۔



شمالی کوریا کا میزائل پروگرام جاری ہے، رپورٹ

$
0
0

ایک امریکی ریسرچ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ اس نے شمالی کوریا کے میزائلوں سے متعلق ایسے 13 مقامات کا پتا لگایا ہے جن کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی تازہ ترین علامت ہے کہ شمالی کوریا کو اس کے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار کرانے کی امریکی کوشش تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ جون میں شمالی کوریا کے سربراہ کم یانگ ان کے ساتھ اپنے سربراہی اجلاس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ کم یانگ ان فوری طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اپنے وطن پہنچیں گے جو تھوڑی ہی دیر بعد ہو گا، تو میرا خیال ہے کہ وہ یہ عمل فوراً ہی شروع کر دیں گے۔

پانچ ماہ بعد کم یانگ نہ صرف یہ کہ اس عمل کو فوری طور پر شروع کرنے میں ناکام رہے، بلکہ یہ شواہد بڑھ رہے ہیں کہ وہ مسلسل مزید ہتھیار بنا رہے ہیں۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے کہا کہ اس نے شمالی کوریا کے میزائلوں سے متعلق کم از کم 13 غیر اعلان شدہ مقامات کا پتا چلا لیا ہے۔ جس میں ایک ایسا مقام بھی شامل ہے جو غیر فوجی علاقے کے قریب واقع ہے۔ وائس آف امریکہ کی کورین سروس کو اسکائپ پر انٹرویو دیتے ہوئے ادارے کے برمودز نے کہا کہ شمالی کوریا نے اپنی بیلسٹک میزائل فورس پر، جسے ایک اسٹریٹیجک فورس کہا گیا ہے، بہت وقت، سرمایہ اور وسائل وقف کئے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ یہ غالباً جنوبی کوریا یا امریکہ کی جانب سے مستقبل کے کسی حملے کو روکنے کے لئے بہترین مزاحمتي راستہ ہے۔

ٹرمپ اور کم کے درمیان سربراہی اجلاس کے بعد سے کوئی جوہری پیش رفت نہیں ہوئی ہے اگرچہ کچھ بکھری ہوئی کامیابیاں ہوئی ہیں۔ شمالی کوریا نے میزائلوں کے تجربے کی ایک تنصب کے اہم حصوں کو منہدم کرنے کا ایک وعدہ ضرور پورا کیا۔ اور شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات بتدریج بہتر ہوئے ہیں۔ لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں ہے کہ شمالی کوریا اپنے بیلسٹک میزائلوں سے دستبردار نہیں ہوا ہے۔ سابق امریکی سفارت کار منٹارو اوبا کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں ہمیں بہت کچھ پہلے ہی پتا تھا۔ ہمیں پہلے ہی علم تھا کہ شمالی کوریا اپنے میزائل پروگرام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان اس کے خاتمے کے لیے کوئی حقیقی وعدہ نہیں ہوا تھا۔

اس پیش رفت کے باوجود صدر ٹرمپ بدستور اعلانیہ طور پر مثبت توقعات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ معاملہ جس طرح جاری ہے اس پر ہم بہت خوش ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ ٹھیک ہے، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ کم کے ساتھ ایک دوسرا سر براہی اجلاس کریں گے۔ لیکن گزشتہ ہفتے یہ منصوبہ اس وقت پیچیدہ صورت حال کا شکار ہو گیا جب پومپیو اور شمالی کوریا کے ایک سینیر لیڈر کے درمیان ایک میٹنگ بغیر وجہ بتائے آخری منٹ میں منسوخ ہو گئی۔
 

ملازمین کو کینسر ہونے پر معروف کمپنی سام سنگ نے معافی مانگ لی

$
0
0

معروف کمپنی سام سنگ الیکٹرونکس نے اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والے کچھ ملازمین کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد معافی مانگ لی جس سے ایک دہائی سے جاری تنازع بالآخر اختتام پزیر ہو گیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمپنی کے سابق ملازمین کی موجودگی میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر جانے والے ایک 22 سالہ ملازم کے والد اور کمپنی کے شریک صدر کم کی نیم نے باضابطہ طور پر ایک سمجھوتے پر دستخط کر دیے۔ اس موقع پر کم کی نیم کا کہنا تھا کہ ہم دل سے ان تمام ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ سے معافی مانگتے ہیں جنہیں بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم اپنی سیمی کنڈکٹر اور ایل سی ڈی فیکٹریز میں صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کرنے میں ناکام ہو گئے۔ 

واضح رہے کہ سام سنگ الیکٹرونکس دنیا کی سب سے بڑی موبائل فون اور چِپ ساز کمپنی ہے اور معروف سام سنگ گروپ کی ذیلی کمپنی ہے جو جنوبی کوریا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمپنی کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا کہنا تھا کہ سام سنگ سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے فیکٹری میں کام کرنے والے 2 سو 40 افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ مہلک بیماری کا شکار ہونے والوں میں 80 افراد ہلاک ہو گئے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ رواں ماہ اس حوالے سے ہونے والے ایک سمجھوتے میں اعلان کیا گیا تھا کہ سام سنگ الیکٹرونکس متاثرہ ملازمین کو معاوضہ ادا کرے گی اور ایک ملازم کو پاکستانی رقم 17 لاکھ 80 ہزار سے زائد ادا کیے جائیں گے۔ 

متاثرہ افراد میں 16 اقسام کے کینسر، کچھ غیر معمولی بیماریاں، اسقاطِ حمل اور ملازمین کے بچوں میں ہونے والی پیدائشی بیماریاں شامل ہیں، ان میں کچھ ایسے دعویدار بھی شامل ہیں جنہوں نے 1984 میں فیکٹریوں میں کام کیا تھا۔ خیال رہے کہ معاملہ 2007 میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے فیکٹریوں کے سابق ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ ملازمین مختلف اقسام کے کینسر میں مبتلا ہوئے جن میں سے کچھ انتقال کر گئے۔ سیول کی حکومتی لیبر ایجنسی اور ایک ثالثی کمیٹی نے ا س کیس کو ایک دہائی تک جاری رکھا جس کے بعد بالآخر معافی کا اعلان سامنے آگیا۔ اس مقدمے میں اہم بات یہ تھی کہ سام سنگ نے مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوص کیمیکل کے بارے میں بتانے سے انکار کردیا تھا جو ان بیماریوں کا سبب بن رہا ہے اور اسے ایک ’تجارتی راز‘ قرار دیا تھا۔

 

’بلیک فرائیڈے‘ پر ایمازون ملازمین کا احتجاج

$
0
0

دنیا کے سب سے بڑے آن لائن اسٹور کا درجہ رکھنے والے امریکی آن لائن اسٹور ’ایمازون’ کے ملازمین نے بلیک فرائیڈے کے موقع پر احتجاج کر کے انتظامیہ کو پریشان کر دیا۔ ایمازون کا شمار جہاں دنیا کے سب سے بڑے آن لائن اسٹور میں ہوتا ہے، وہیں اس کے دنیا کے کئی ممالک میں اسٹورز بھی موجود ہیں، جو بلیک فرائیڈے کے موقع پر رعایتی داموں پر چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ جہاں بلیک فرائیڈے کے موقع پر یہ اسٹور رعایتی داموں پر چیزیں فروخت کرتا ہے، وہیں یہ اسٹور بلیک فرائیڈے پر مسلسل 24 گھنٹوں سے زائد وقت کے لیے کھلا رہتا ہے۔
مسلسل 24 گھنٹوں تک اسٹور کے کھلے رہنے پر جہاں اسٹور کو اربوں ڈالر کی کمائی ہوتی ہے، وہیں یہ اسٹور اپنے ملازمین کو بھی اضافی کام کرنے کے اضافی پیسے بھی فراہم کرتا ہے۔

تاہم اس کے باوجود یورپ کے کئی ممالک میں موجود ایمازون اسٹور کے ملازمین نے بلیک فرائیڈے پر مسلسل 24 گھنٹے تک کام کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔
بزنس انسائیڈر کے مطابق بلیک فرائیڈے کے موقع پر برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی اور اسپین میں موجود ایمازون کے ملازمین نے اسٹورز کے باہر مظاہرہ کیا۔
خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں دیگر نشریاتی اداروں کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یورپی ممالک میں موجود ایمازون کے ملازمین نے بلیک فرائیڈے کے موقع پر مسلسل 24 گھنٹے تک کام کرنے کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔

رپورٹ کے مطابق مظاہرہ کرنے والے ملازمین کا کہنا تھا کہ وہ انسان ہیں، روبوٹ نہیں ہیں کہ وہ مسلسل 24 گھنٹوں تک کام کریں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ بھر میں ایمازون کے کم سے کم 3 ہزار کے قریب ملازمین نے لگاتار 24 گھنٹے تک کام کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا، جب کہ اس مظاہرے میں عام افراد بھی شامل ہوئے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بلیک فرائیڈے پر 24 گھنٹوں تک کام کروانے کے خلاف جرمنی میں ایمازون کے 620 جب کہ اسپین میں 1600 سے زائد ملازمین نے احتجاج میں حصہ لیا۔ اسی طرح برطانیہ اور فرانس میں بھی ایمازون کے ملازمین نے احتجاج کیا، جس وجہ سے انتظامیہ پریشان ہو گئی اور انہوں نے مقامی پولیس سے مدد بھی طلب کی، تاہم پولیس نے ایمازون کی مدد کرنے سے معزرت کر لی۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ ملازمین کی جانب سے مظاہرہ ایمازون کا اندرونی مسئلہ ہے، جب کہ انتطامیہ نے مظاہرہ کرنے والے ملازمین کے تمام مطالبے ماننے کی یقین دہانی بھی کروائی، تاہم ان کا مظاہرہ جاری رہا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بلیک فرائیڈے کے موقع پر ایمازون کے یورپ بھر کے ملازمین نے بیک وقت مظاہرہ کیا۔ ایمازون بلیک فرائیڈے کے موقع پر ملازمین کو اضافی وقت تک کام کرنے کے اضافی پیسے بھی فراہم کرتا ہے، تاہم اس بار ملازمین نے 24 گھنٹوں تک کام کروائے جانے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ایمازون کا ہیڈ آفس امریکا میں موجود ہے، تاہم یورپ اور ایشیا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اس کے اسٹورز موجود ہیں۔
 


بریگزٹ معاہدے کی توثیق یورپی یونین کے لیے افسوس ناک لمحہ

$
0
0

برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر ستائیس ارکان نے بریگزٹ معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ یورپی یونین کے لیے یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں کیونکہ اب اس یورپی اتحاد میں باقاعدہ پہلی دراڑ پڑ چکی ہے۔ یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کے باقی رہ جانےوالے ستائیس ارکان نے برطانیہ کے اس اتحاد سے انخلاء کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے، ’’27 رکنی بلاک نے یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کے معاہدے اور مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے سیاسی اعلامیے کو منظور کر لیا ہے۔‘‘ اس معاہدے کے تحت اگلے برس انتیس مارچ کو برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا جبکہ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے ایک فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے۔ تاہم اب برطانوی پارلیمان اس معاہدے کو منظور کرے گی۔

اس موقع پر یورپی یونین نے برطانیہ کو اقتصادی اور سیاسی شعبے میں ایک پر عزم شراکت داری کی پیشکش بھی کی ہے۔ اس سے قبل یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے کہا تھا کہ بریگزٹ ان کے لیے ایک افسوس ناک لمحہ ہے۔ انہوں نے تاہم اس امید کا اظہار کیا کہ برطانوی پارلیمان بریگزٹ ڈیل کے مسودے کو منظور کر لے گی۔ ینکر نے اسے ایک بہترین ممکنہ معاہدہ قرار دیا۔ انخلاء کے اس معاہدے کے تحت عبوری عرصے یعنی 2020ء کے آخر تک برطانیہ یورپی یونین کی داخلہ منڈی اور کسٹم یونین کا حصہ رہے گا۔ عبوری مدت کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی، جو کہ حتمی معاہدے کی نگرانی کرے گی اور باہمی رضامندی سے اسی معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مزید فیصلے کیے جا سکیں گے۔

اس کے علاوہ اس معاہدے کی رو سے یورپی یونین کے رکن ممالک اور برطانیہ کے شہریوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے گا، مالیاتی مسائل کو حل کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی درمیان سرحد سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینا بھی اس معاہدہ کا حصہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا کہ یہ معاہدہ قومی مفاد میں ہےاور اس کے ساتھ ساتھ یہ یورپی یونین سے انخلاء کے حق اور مخالفین کے تحفظات کو بھی دور کرتا ہے، ’’ یہ روشن مستقبل کے لیے ایک معاہدہ ہے، جو ہمارے لیے یہ ممکن بناتا ہے کہ ہم مواقعوں استعمال کر سکیں۔‘‘ اس موقع پر انہوں نےخ تمام برطانوی شہریوں سے اس معاہدے کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

Egypt opens sarcophagus of 3000-year-old mummy

$
0
0

Egyptian authorities unveiled a well-preserved mummy of a woman inside a previously unopened coffin in Luxor in southern Egypt, dating back to more than 3000 years. The sarcophagus was one of two found this month by a French-led mission in the northern area of El-Asasef, a necropolis on the western bank of the Nile. The first one had been opened earlier and examined by Egyptian antiquities officials. "One sarcophagus was rishi-style, which dates back to the 17th dynasty, while the other sarcophagus was from the 18th dynasty," Minister of Antiquities Khaled Al Anani said. "The two tombs were present with their mummies inside."

The 18th dynasty dates back to the 13th century BC, a period noted for some of the best-known pharaohs, including Tutankhamun and Ramses II. It was the first known time that authorities had opened a previously unopened sarcophagus before international media. Earlier in the day, authorities also revealed in the same area the tomb of the overseer of the mummification shrine, who was identified as Thaw-Irkhet-if. The tomb contained five coloured masks and about 1000 Shabti statuettes - the miniature figurines of servants to serve the dead in the afterlife.


The tomb, which also contains mummies, skeletons and skulls, dates back to the middle-kingdom almost 4000 years ago, but was reused during the late period.  Ancient Egyptians mummified humans to preserve their bodies for the afterlife, while animal mummies were used as religious offerings. The tomb was found by an archaeological mission affiliated with the University of Strasbourg. Once the ancient capital of Egypt, Luxor contains the largest and best-preserved temples from the time of the pharaohs. The nearby Valley of the Kings is famous as the site of the tomb of Tutankhamun, discovered in 1922. The country hopes these discoveries will brighten its image abroad and revive interest among travellers who once flocked to its iconic pharaonic temples and pyramids but who have shunned the country since its 2011 political uprising.

Reuters

کراکاٹوا آتش فشاں کے پھٹنے سے بلند ترین آواز جو 3000 میل دور تک سنائی دی

$
0
0

سن 1883ء میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے اتنی آواز بلند ہوئی کہ 40 میل تک لوگوں کے کان کے پردے پھٹ گئے یا ان میں رخنہ پڑ گیا۔ اس آواز کو تین ہزار میل تک سنا گیا۔ کراکاٹوا میں پھٹنے والے اس آتش فشاں سے پیدا ہونے والی آواز کو ریکارڈ میں آنے والی دنیا کی سب سے اونچی آواز تصور کیا جاتا ہے۔کراکاٹوا انڈونیشیا کا ایک جزیرہ ہے۔ آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل کراکاٹوا اور اس کے گردو نواح میں زلزلے محسوس کیے گئے۔ 

آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد طویل عرصہ دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس دوران سب سے اونچی آواز والا دھماکہ ہوا۔ مئی میں شروع ہونے والا یہ عمل اگست میں ختم ہوا۔ اس کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی آئی۔ اس کے براہِ راست اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سونامی نے کم از کم 36417 افراد کی جان لی۔ اس کے اثرات دنیا کے بڑے حصے پر محسوس کیے گئے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے شمالی نصف کُرے کا اوسط درجہ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ کم ہو گیا۔ درجہ حرارت کو نارمل ہونے میں کئی سال لگے۔ اس سے ایک بڑے خطے کا موسمیاتی نظام درہم برہم ہوا۔

محمد ریاض


 

چاند پر امریکی لینڈنگ سچ یا جھوٹ ؟

$
0
0

روسی اسپیس ایجنسی کے سربراہ کے مطابق وہ چاند پر ایک مشن روانہ کریں گے تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ 1969ء میں چاند پر پہلا قدم رکھنے کا امریکی دعویٰ سچ تھا یا جھوٹ۔ متعدد حلقے امریکی دعوے پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک تجویز کردہ روسی مشن میں ان حقائق کی بھی تصدیق کی جائے گی کہ آیا امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے خلا نوردوں نے بیس جولائی سن 1969 کے روز نظام شمسی کے سیارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر لینڈنگ کی تھی۔ روسی اسپیس ایجنسی کے سربراہ دیمیتری روگوزین نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اس مقصد کے لیے ہم ایک پرواز بھیجیں گے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ وہ وہاں گئے تھے یا نہیں۔‘‘

روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ نے یہ بات ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق بظاہر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے یہ بات مذاق میں کہی ہے لیکن ان کی اس بات کو سنجیدہ لیا جا رہا ہے کیوں کہ ناسا کے اس مشن کے حوالے سے روس میں پہلے ہی سازشی نظریے بہت مشہور ہیں۔ روس چاند پر پہلی مرتبہ اپنے خلانورد سن دو ہزار تیس کے اوائل میں بھیجنا چاہتا ہے۔ سوویت یونین نے چاند پر جانے کے لیے اپنا لونر پروگرام ستر کی دہائی میں ختم کر دیا تھا کیوں کہ اس کوشش میں ان کے چار تجرباتی راکٹ تباہ ہو گئے تھے۔ اپنے نئے مشن میں روس اپنے خلا نوردوں کو تقریبا چودہ دن کے لیے چاند پر بھیجنا چاہتا ہے۔

روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ایک ملک کے لیے چاند پر جانے کا پروگرام تنہا جاری رکھنا مشکل ہے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے امریکا، یورپ اور چین کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔ اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر پہلا قدم رکھا تھا۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ کا تاریخی جملہ آج بھی انسانی ذہنوں میں موجود ہے۔ چاند پر قدم رکھنے کے بعد آرمسٹرانگ کا کہنا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

بشکریہ DW اردو

 

انڈومان : امریکی سیاح کی تلاش روکی جائے، جزیرے میں جراثیم پہنچ سکتے ہیں

$
0
0

انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بھارتی پولیس پر زور دیا ہے کہ وہ چند روز پہلے خلیج بنگال میں واقع ایک جزیرے پر جانے والے امریکی مہم جو کی تلاش ترک کر دے جس کے متعلق خیال ہے کہ اسے جزیرے پر آباد قدیم قبائلیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ باہر کی دنیا کے انسانوں کے جزیرے پر جانے سے بیماریوں کے جراثیم اور وائرس اس الگ تھلگ جزیرے شمالی سنٹینل میں پہنچ کر قبائلیوں کی نسل کے لیے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔ 26 سالہ امریکی مہم جو جان ایلن چاؤ، جس کے متعلق خیال ہے کہ وہ خلیج بنگال کے جزائر انڈومان اور نیکوبار میں واقع شمالی سنٹینل میں عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتا تھا، جزیرے پر اپنے پاؤں اتارنے کے بعد واپس نہیں آیا۔

اسے وہاں تک پہنچانے والے کشتی رانوں نے بتایا ہے کہ جیسے ہی چاؤ نے اپنے قدم جزیرے پر رکھے قدیم قبائلیوں نے اس پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی اور جب وہ زخمی ہو کر گر پڑا تو وہ اس کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹ کر اپنے ساتھ جزیرے کے اندر لے گئے۔ شمالی سینٹنل میں لگ بھگ ڈیڑھ سو قبائلی رہتے ہیں جن کے متعلق خیال ہے کہ وہ آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے ان کی شناخت اور انفرادیت قائم رکھنے کے لیے وہاں جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ چاؤ نے کشتی رانوں کو بھاری معاوضہ دے کر اسے جزیرے کے قریب اتارنے پر رضامند کیا تھا۔

شمالی سنٹینل جزیرے میں آباد قبیلے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق پتھر کے دور سے ہے۔ اور وہ آج بھی اسی انداز میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بھارتی پولیس، بشریات اور نفسيات کے ماہرین کے ساتھ مل کر چاؤ کی نعش قبائلیوں سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے ایک گروپ ’ سروائیول انٹرنیشنل‘نے کہا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش بھارتی عہدے داروں اور سینٹنل جزیرے کے قبائلیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکی ہے، کیونکہ وہاں جانے والے اپنے ساتھ بیرونی دنیا کی بیماریوں کے جراثیم لے جائیں گے جب کہ واپسی پر جزیرے کی بیماریوں کے جراثیم ان کے ساتھ آئیں گے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ جراثیم یا وائرس دونوں کے لیے اجنبی ہوں گے اس لیے ممکن ہے کہ دونوں ہی کے پاس اس کا علاج نہ ہو۔ تنظیم نے کہا ہے کہ چاؤ کی نعش واپس لانے کی مہم قبائلیوں کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ دنیا کے چند قدیم ترین قبائل میں شامل میں، جس کا تعلق پتھر کے زمانے سے ہے اور وہ آج بھی اسی طریقے سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کسی بیماری کے جراثیم مثلاً فلو، خسرہ، ہیضہ وغیرہ کے وہاں پہنچنے سے ان کی نسل ختم ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ وبائیں وہاں موجود نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کا گروپ’ سروائیول انٹرنیشنل‘ قدیم قبائلیوں کی بقا کے لیے کام کرتا ہے۔

خبررساں ادارے روئیٹرز کی ایک رپورٹ میں جزائر انڈومان اور نیکوبار کے ڈائریکٹر جنرل پولیس دپندر پاتھک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پولیس مسلسل ماہرین بشریات اور نفسیات سے رابطے میں ہے اور قبائلیوں کو پریشان کیے بغیر ان سے رابطے کی حکمت عملی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اعلیٰ پولیس عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہمارا قبائلیوں سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ماہرین بشريات، صحافیوں اور سرگرم کارکنوں کے ایک گروپ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اگر چاؤ کی نعش حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں تو اس کے نتیجے میں مزید تشدد بھڑک سکتا ہے جس سے انسانی جانوں کا غیر ضروری نقصان ہو گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سنٹینل قبیلے کے لوگوں کے حقوق اور خواہشات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اور تنازع اور کشیدگی بڑھا کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جو زیادہ نقصان کا سبب بنے۔ چاؤ نے سوشل میڈیا پر خود کو ایک مہم جو، اور نئی دنیائیں تلاش کرنے والے کے طور پر پیش کیا تھا اور اس نے اپنی ایک چھوٹی سی کشتی میں 15 نومبر کو شمالی سنٹینل جزیرے کے کئی چکر لگائے تھا۔ پولیس نے ان سات افراد کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے چاؤ کے جزیرے کے قریب پہنچانے میں مدد دی تھی۔ جزائر انڈومان اور نیکوبار کے حکام نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ شمالی سنٹینل جزیرے میں غیر ملکیوں اور بھارتیوں کے جانے پر پابندی بدستور عائد ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live