Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

Afghanistan faces worst drought in decades

$
0
0

Internally displaced Afghan children and families who are the victims of the worst drought the country has seen in years, have been struggling in makeshift refugee camps on the outskirts of the Herat province for months. Between a sandy cliff and cracked riverbed on the edge of this small provincial capital, 380 families are camped in a cluster of hand-sewn, sun-bleached tents, waiting for rain and peace to let them return to their ancestral villages. But across drought-stricken, war-torn Badghis province in far-western Afghanistan, the wait will not end soon.


One of the camp occupants is Reza Gul, a widow in her early 30s with four young children. Three months ago, with little food left and Taliban fighters harassing security posts near their village, she abandoned her only valuable possessions — a pair of donkeys — and fled in a rented truck. Now the family shares a tiny tent, where Gul shells pistachios all day with a small hammer, a chore for which local merchants pay about 50 cents a day. “It is hard here, but it is harder at home. I can’t go back,” said Gul, who supported her family by harvesting wheat and melons after her husband died of cancer. “When the river dried up, we used wells, but now they are dried up, too. The fighting goes on and on, and we are caught in the middle. Winter is coming soon, and this is the only shelter we have.”



Gul is among 120,000 people in Badghis who have sought refuge here in the past several months, according to a new report from the U.N. humanitarian agency for Afghanistan, nearly doubling the number of drought-displaced people in the far-western part of the country to some 250,000. Chronic drought, the result of a severe lack of rain and snowfall in many recent years, has now spread to 20 of the country’s 34 provinces, where nearly 15 million people depend on agriculture. This year, aid officials said, nearly 45 percent of Afghans are facing food shortages due to drought and other factors, a sharp increase from 33 percent last year. Close to a half-million have been receiving emergency food aid since July, and officials plan to assist at least 1.4 million as winter approaches. The worst-hit areas are five northwestern provinces, where more than 300,000 people received extra food aid last month, and conditions in Badghis are especially desperate.


“This is the epicenter of food insecurity and drought,” Zlatan Milisic, country director for the World Food Program, said during a recent visit to the camps outside Qaleh-ye Now, where the agency is providing wheat flour, cooking oil and other food staples. He noted that poor farmers in this desolate region of low brown hills depend almost exclusively on rain to irrigate their crops. Last winter, aid officials reported, precipitation was so low in Badghis that the wheat harvest this spring fell by 60 percent.  Aid officials hope to persuade some of the displaced families to return to their villages by offering to send extra aid there. They worry that the newcomers will overwhelm towns with no facilities for them and become too dependent on donations at a time of dwindling foreign support.


“Morally, we can’t stop aiding them” in the urban camps, Milisic said. But he stressed that with similar help at home, they have a much better chance of recovering. In one of several tent colonies perched on the hillside fringes of Qaleh-ye Now, conditions last week seemed precarious indeed. Tents made of torn blankets and canvas were tied to poles and weighted down with rocks. They were tightly packed on the hard ground, some just inches apart, with nothing inside but sleeping mats and cooking utensils. There were no sanitation facilities except a few latrines. Camp leaders said between 1,500 and 2,000 displaced people were living there. Children swarmed everywhere, with little to do but carry plastic jugs from a visiting water tank truck. New mothers swung infants in flour-sack cradles. Food and medical aid seemed adequate, and no one complained of hunger or pain. People who spoke with a visiting reporter said they missed their villages but no longer felt they would be safe or able to survive there.







کیلی فورنیا کی تاریخ کی بدترین آگ تاحال قابو سے باہر

$
0
0

 اس آگ کو ’وولسی‘ کا نام دیا گیا ہے اور اب تک وہ 70 ہزار ایکڑ پر پھیل چکی ہے۔ جن شہروں اور قصبوں کو خالی کرنے کے لیے کہا گیا ہے ان میں تھاؤزینڈ اوکس بھی ہے جہاں بدھ کو ایک مسلح شخص نے گولی مار کر 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔   

محکمۂ موسمیات کے حکام نے کہا ہے کہ یہ خطرناک صورت حال اگلے ہفتے تک قائم رہے گی لیکن آگ بجھانے والے عملوں کا کہنا ہے وہ ہوا کی تیزی میں جز وقتی طور پر آنے والی کمی کا فائدہ اٹھا کر آگ پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ خیال رہے کہ ہوا کی وجہ سے شعلے بھڑک رہے ہیں۔

سیکرامینٹو کے شمال میں پلوماز نیشنل فارسٹ میں کیمپ فائر بھڑک اٹھی۔ یہ 20 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی آگ ہے اور اس نے پیراڈائز قصبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ رہائیشیوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا اور تقریباً سات ہزار گھر اور کاروباری مقامات اس آگ میں تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے اس آگ کو ریاست کی تاریخ کی سبب سے تباہ کن آگ کہا جا رہا ہے۔ آگ کے شعلے اور لپٹیں اس قدر تیزی سے پھیل رہی تھیں کہ بعض لوگ اپنی کاروں کو چھوڑ کر پیدل ہی جان بچانے کے لیے بھاگ پڑے۔ بوٹے کاؤنٹی کے سپروائزر ڈگ ٹیٹر نے بتایا کہ امدادی کارکنوں نے سڑک پر چھوڑی ہوئی کاروں کو بلڈوزر سے ہٹایا تاکہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جا سکے۔








اردن میں ایک مرتبہ پھر خطرناک سیلاب سے تباہی

$
0
0

اردن میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران دوسری مرتبہ بارشوں اور خطرناک سیلاب سے درجنوں افراد جاں بحق اور کئی لاپتہ ہوگئے جبکہ سیاحوں کی بڑی تعداد بھی متاثر ہو گئی ہے۔ اردن کے جنوب مغربی علاقوں کے علاوہ بڑے شہروں معان، البترا، وادی موسیٰ اور دارالحکومت عمان کے قریبی علاقوں میں سیلاب سے تباہی پھیل گئی ہے۔ سیاحوں کی جنت سمجھے جانے والے تاریخی شہر البترا میں 4 ہزار سیاح پھنس گئے تھے تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ تمام سیاحوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے اور اب وہ محفوظ ہیں۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ آنے والے سیلاب سے درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی جس کے بعد وزیر تعلیم اور وزیر سیاحت نے اپنے عہدوں سے بھی استعفیٰ دیا تھا۔ 









حکومت بے لگام سوشل میڈیا سے خوفزدہ کیوں؟

$
0
0

سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت، کرہ ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنا دے گا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ریئل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے کالعدم کر دیا ہے، اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔ کوئی میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی، وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر سکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے منفی استعمال بھی سامنے آئے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار سے مسائل نے جنم لیا، کئی خواتین مردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر زندگیاں گنوا بیٹھیں۔ حال ہی میں سابق ڈی آئی جی گلگت بلتستان کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سابقہ بیوی کی تصاویر فیس بک پر ڈالی ہیں۔ اسی طرح متعدد واقعات ہیں جو معاشرے کے لیے ناسور بنے۔ ایف آئی اے کی رپورٹس کے مطابق سائبر کرائم سیل میں سب سے زیادہ شکایات جنسی ہراسانی کی موصول ہوئی ہیں۔ رواں سال اس ادارے کو 2,295 شکایات موصول ہوئیں، 255 مقدمات درج کیے گئے اور 209 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ توہین مذہب اور نفرت انگیز مواد پھیلانے پر سزائیں بھی سنائی گئیں۔ رواں سال سائبر کرائم کی شرح ماضی سے زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اسے بین کر رکھا ہے تو امریکا میں مڈٹرم الیکشن کے دوران فیس بک کے 30 اور انسٹاگرام کے 85 اکاؤنٹس بند کر دیئے گئے، ان اکاؤنٹس پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ یہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو رہے تھے جبکہ یہ روسی اور فرانسیسی زبانوں میں تھے۔ حال ہی میں پاکستان میں چلنے والی احتجاجی لہر کے پیچھے بھی سوشل کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق اشتعال انگیزی پھیلانے والے زیادہ اکاؤنٹس بھارت اور افغانستان سے آپریٹ ہوتے رہے ہیں۔ کسی حد تک حکومت کا الزام بھی درست ہے کیونکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات تو حکومت کے کنٹرول میں تھے جنہوں نے اس آسیہ مسیح کیس کی سماعت سے فیصلہ آنے تک سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کوئی خبر نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر زیادہ شور تب مچا جب وزیراعظم نے خود ٹی وی پر اپنے خطاب میں دھمکی آمیز لہجے میں مظاہرین کو چھوٹا طبقہ کہا۔ انہوں نے مظاہرین کی طرف سے کی گئی تقاریر کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کر دیا وگرنہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کس نے کیا کہا۔

اس سے پہلے ایک ریاستی ادارے کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹس کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جنہیں مختلف حوالوں سے تنقید کرنے پر واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ یہ اس بے لگام گھوڑے کو’’ریگولیشن‘‘ کے کھونٹے سے باندھنا چاہتی ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ اس کے ہر سیاہ و سفید کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کے پیرائے میں دیکھا جائے، ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، پتھر کو گْہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما دکھایا جائے، بے حال عوام کو خوشحال لکھا جائے، ویران گلیوں، سنسان راستوں، اجڑے چمن میں ہریالی ہی ہریالی پیش کی جائے۔ حکومت سوشل میڈیا کو ضرور واچ کرے۔ توہین آمیز، نفرت انگیز مواد کو ضرور روکے مگر تنقید سننے اور برداشت کرنے کا جگرا بھی پیدا کرے کیونکہ دھونس اور دھوکے سے دبائی گئی آوازیں ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔

اظہر تھراج

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو
 

100 years since World War One

$
0
0

World War I (often abbreviated as WWI or WW1), also known as the First World War or the Great War, was a global war originating in Europe that lasted from 28 July 1914 to 11 November 1918. Contemporaneously described as the "war to end all wars", it led to the mobilisation of more than 70 million military personnel, including 60 million Europeans, making it one of the largest wars in history. An estimated nine million combatants and seven million civilians died as a direct result of the war, while it is also considered a contributory factor in a number of genocides and the 1918 influenza epidemic, which caused between 50 and 100 million deaths worldwide. Military losses were exacerbated by new technological and industrial developments and the tactical stalemate caused by gruelling trench warfare. It was one of the deadliest conflicts in history and precipitated major political changes, including the Revolutions of 1917–1923, in many of the nations involved. Unresolved rivalries at the end of the conflict contributed to the start of the Second World War about twenty years later.


On 28 June 1914, Gavrilo Princip, a Bosnian Serb Yugoslav nationalist, assassinated the Austro-Hungarian heir Archduke Franz Ferdinand in Sarajevo, leading to the July Crisis. In response, on 23 July Austria-Hungary issued an ultimatum to Serbia. Serbia's reply failed to satisfy the Austrians, and the two moved to a war footing. A network of interlocking alliances enlarged the Crisis from a bilateral issue in the Balkans to one involving most of Europe. By 1914, the great powers of Europe were divided into two coalitions: the Triple Entente—consisting of France, Russia and Britain—and the Triple Alliance of Germany, Austria-Hungary and Italy (the Triple Alliance was primarily defensive in nature, allowing Italy to stay out of the war in 1914). Russia felt it necessary to back Serbia, on 25 July issuing orders for the 'period preparatory to war', and after Austria-Hungary shelled the Serbian capital of Belgrade on the 28th, partial mobilisation was approved of the military districts nearest to Austria. General Russian mobilisation was announced on the evening of 30 July; on the 31st, Austria-Hungary and Germany did the same, while Germany demanded Russia demobilise within 12 hours. When Russia failed to comply, Germany declared war on 1 August in support of Austria-Hungary, with Austria-Hungary following suit on 6th; France ordered full mobilisation in support of Russia on 2 August


German strategy for a war on two fronts against France and Russia was to concentrate the bulk of its army in the West to defeat France within four weeks, then shift forces to the East before Russia could fully mobilise; this was later known as the Schlieffen Plan.  On 2 August, Germany demanded free passage through Belgium, an essential element in achieving a quick victory over France. When this was refused, German forces entered Belgium early on the morning of 3 August and declared war with France the same day; the Belgian government invoked the 1839 Treaty of London and in compliance with its obligations under this, Britain declared war on Germany on 4 August. On 12 August, Britain and France also declared war on Austria-Hungary; on the 23rd, Japan sided with the Entente, seizing the opportunity to expand its sphere of influence by capturing German possessions in China and the Pacific. The war was fought in and drew upon each powers' colonial empires as well, spreading the conflict across the globe. The Entente and its allies would eventually become known as the Allied Powers, while the grouping of Austria-Hungary and Germany would become known as the Central Powers.


The German advance into France was halted at the Battle of the Marne and by the end of 1914, the Western Front settled into a battle of attrition, marked by a long series of trench lines that changed little until 1917. The Eastern Front was marked by much greater exchanges of territory, but though Serbia was defeated in 1915, and Romania joined the Allied Powers in 1916 only to be defeated in 1917, none of the great powers were knocked out of the war until 1918. In November 1914, the Ottoman Empire joined the Central Powers, opening fronts in the Caucasus, Mesopotamia and the Sinai Peninsula. In 1915, Italy joined the Allied Powers and Bulgaria joined the Central Powers. After the sinking of seven US merchant ships by German submarines, and the revelation that the Germans were trying to incite Mexico to make war on the United States, the US declared war on Germany on 6 April 1917.


The 1917 February Revolution in Russia replaced the Tsarist autocracy with the Provisional Government, but continuing discontent at the cost of the war led to the October Revolution, the creation of the Soviet Socialist Republic, and the signing of the Treaty of Brest-Litovsk by the new government, ending Russia's involvement in the war. This allowed the transfer of large numbers of German troops from the East to the Western Front, resulting in the German March 1918 Offensive. The offensive was initially successful, but the Allies rallied and drove the Germans back in the Hundred Days Offensive; on 28 September, German military leaders asked for an armistice. On 4 November 1918, the Austro-Hungarian empire agreed the Armistice of Villa Giusti; with Revolution at home, and the military no longer willing to fight, Kaiser Wilhelm abdicated on 9 November and Germany also signed an Armistice on 11 November 1918.


As a result of the war, the Russian, German, Austro-Hungarian and Ottoman empires were replaced by new states, based on nationalities. The Four Powers of Britain, France, the US and Italy, imposed their terms in a series of treaties agreed at the 1919 Paris Peace Conference. The formation of the League of Nations was intended to prevent another world war, but for various reasons failed to do so. The central role of the Nazi Party in World War II led to a focus on how the Treaty of Versailles affected Germany, but the peace also transformed large parts of Europe and the Middle East, in ways that remain relevant today.





پاکستان نے فلسطین کے لیے امدادی رقم میں اضافہ کر دیا

$
0
0

پاکستانی نے فلسطینی مہاجرین کی بہبود پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے کے لیے اپنے معاونت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں تعینات پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے اس امدادی ادارے کے لیے اضافی پاکستانی معاونت پیش کی۔ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں تعینات مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجرین سے متعلق ادارے UNWRA کے لیے اضافہ شدہ پاکستانی حصہ اس ادارے کے حوالے کیا۔ اس موقع پر لودھی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت نے کیا ہے۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام بھی فلسطینیوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اس عالمی ادارے کے لیے اضافی معاونت کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے، جب اس عالمی ادارے کے لیے امریکا نے اپنی امداد روکنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس موقع پر مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اس عالمی ادارے کے لیے اپنی اپنی جانب سے دیے جانے والے سرمایے میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ اس کےعلاوہ متعدد دیگر ممالک نے بھی UNRWA کے لیے اپنے سرمایے میں اضافہ کیا ہے۔ اس عالمی ادارے کی جانب سے بھی سرمایے میں اضافے پر ڈونر ممالک کا شکریہ ادا کیا ہے۔ 

ادارے کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے، ’’رواں برس کی مالیاتی معاونت کے ذریعے UNRWA پانچ لاکھ تیس ہزار فلسطینی مہاجروں کے لیے تعلیم جاری رکھ سکے گا۔ اس کے علاوہ ان مہاجرین کے لیے طبی مراکز اور نگہداشت کی دیگر سہولیات بھی جاری رکھی جا سکیں گی۔‘‘ اس ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مختلف ممالک کی جانب سے امداد میں اضافے کے ذریعے فلسطینی مہاجرین کو یہ پیغام بھی ملا ہے کہ عالمی برادری انہیں بھولی نہیں ہے۔
 

چمگادڑ کے بارے دلچسپ معلومات، حیران کن حقائق

$
0
0

سیکڑوں انواع : چمگادڑوں کو عموماً دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول، میگا کیروپٹرا جو بڑی ہوتی ہیں، دوم، مائیکرو کیروپٹرا جو چھوٹی ہوتی ہیں۔ بعض اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ پَروں کا پھیلاؤ پانچ فٹ تک ہو سکتا ہے اور بعض اتنی چھوٹی کہ یہ صرف چھ انچ ہوتا ہے۔ چمگادڑوں کی تین انواع خون پیتی ہیں۔ ان کی کل 12 سو انواع ہیں۔ واحد ممالیہ: تمام دوسرے ممالیہ کی طرح چمگادڑ کے بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں۔ لیکن یہ واحد ممالیہ ہے جو اڑ سکتا ہے۔ بعض گلہریاں اور ان سے ملتے جلتے ممالیہ بڑی چھلانگیں لگا سکتے ہیں جو اڑان معلوم ہوتی ہیں لیکن اسے صحیح معنوں میں اڑنا نہیں کہا جا سکتا۔ اڑنے کو ممکن بنانے کے لیے چمگادڑیں اپنی خوراک بہت تیزی سے ہضم کرتی ہیں۔ 

بعض اوقات وہ 30 سے 60 منٹ میں خوراک مکمل ہضم کر لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا وزن کم رہتا ہے۔ فضلے سے بارود: چمگادڑوں سے خارج ہونے والے فضلے میں پوٹاشیم نائٹریٹ (قلمی شورہ) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور اسے بطور کھاد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں سے قلمی شورہ نکال کر بارود اور دھماکا خیز مواد تیار کیا جاتا ہے۔ امریکی خانہ جنگی میں چمگادڑوں کے فضلے کو اس مقصد کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ لٹکنا: چمگادڑوں کی تقریباً تمام انواع الٹی لٹکتی ہیں۔ ان کے پاؤں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ الٹی حالت میں آرام محسوس کرتی ہیں۔

انسانوں کے لیے ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ جب وہ اڑنے کے لیے تیار ہوتی ہیں تو خود کو نیچے پھینکتی ہیں اور گرنے سے پیدا ہونے والی رفتار انہیں اڑان بھرنے میں مدد دیتی ہے۔ عام پرندوں کی ٹانگیں چمگادڑوں کے برعکس لمبی اور مضبوط ہوتی ہیں، اس لیے وہ دوڑ کر اڑان بھر سکتے ہیں۔ تاہم چمگادڑوں کی چھ انواع ایسی ہیں جو الٹا نہیں لٹکتیں۔ اندھی نہیں: عام تاثر کے برخلاف چمگادڑوں کی صرف چھوٹی انواع صوتی لہروں سے مقام اور رخ کا تعین کرتی ہیں کیونکہ وہ دیکھ نہیں سکتیں۔ بڑی چمگادڑوں کی نظر انسانوں سے بھی بہتر ہوتی ہے۔  

ترجمہ: رضوان عطا


 

علی بابا : 4. 85 سیکنڈ میں ایک ارب ڈالر کی سیل

$
0
0

دنیا کے اس سب سے بڑے شاپنگ ایونٹ کو ’سنگلز ڈے‘ کہا جاتا ہے اور یہ ہر سال 11 نومبر کو منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال کی کمائی 30 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔ علی بابا نے گذشتہ برس سنگلز ڈے کے موقعے پر 24 گھنٹوں کے اندر 25 ارب ڈالر کمائے تھے، لیکن اس بار کمپنی نے یہ سنگ میل 16 گھنٹوں میں عبور کر لیا۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی میں ویلنٹائنز ڈے کے رد میں شروع ہوا تھا اور اس کا مقصد اکیلے رہنے والے افراد کو اپنا دن منانے کا موقع دینا تھا۔ 11 نومبر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ اس دن چار ایک آتے ہیں، یعنی 11/11۔ 2009 میں علی بابا نے اس دن کو اپنی سالانہ سیل کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ذیل میں اس میگا ایونٹ کے بارے میں چند دلچسپ حقائق پیش ہیں:

1. یہ بلیک فرائیڈے اور بلیک منڈے سے کہیں بڑی سیل ہے
علی بابا کے مطابق چینی صارفین نے 11 نومبر 2017 کو 25.3 ارب ڈالر کمائے تھے، جب کہ اس سال یہ رقم 30 ارب 80 کروڑ ڈالر رہی۔ یہ اعداد و شمار صرف علی بابا کی سائٹس Tmall اور Taobao سے متعلق ہیں۔ اس کے مقابلے پر پچھلے سال امریکی صارفین نے بلیک فرائیڈے پر پانچ ارب اور سائبر منڈے پر 6.6 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ آن لائن اور سٹوروں کے اندر کی جانے والی سیل کو ملا کر امریکیوں نے 2017 میں تھینکس گِونگ اور سائبر منڈے کے دوران پانچ دنوں میں 19.6 ارب ڈالر خرچ کیے جو سنگلز ڈے سے 11.2 ارب ڈالر کم ہیں۔

2. دسواں ایڈیشن، نئے ریکارڈ
علی بابا نے کہا تھا کہ اس سال کا ایونٹ سب سے بڑا ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ نے اس موقعے پر پانچ لاکھ اشیا سیل پر رکھیں اور دنیا بھر کے ایک لاکھ 80 ہزار برانڈ پیش کیے۔

3. چین سے باہر بھی
علی بابا نے 2017 میں 25 ارب ڈالر کی جو مصنوعات فروخت کیں ان میں سے 40 فیصد کا تعلق بیرونِ ملک سے تھا۔ اس سال علی بابا نے سنگلز ڈے پر بیرونِ چین صارفین پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی ہے۔ علی بابا سے منسلک سنگاپور میں قائم لازدا سٹور چھ ملکوں سنگاپور، ملائشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن اور ویت نام میں بھی خدمات پیش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ نیدر لینڈز، برطانیہ، جرمنی اور بیلجیئم میں بھی لوگوں کو رعایتی نرخوں پر اشیا فروخت کی گئیں۔

4. 85 سیکنڈ میں ایک ارب ڈالر
اس سال علی بابا نے سیل شروع ہونے کے صرف 85 سیکنڈ کے اندر اندر ایک ارب ڈالر کما لیے، جب کہ پہلے گھنٹے میں اس کی بِکری دس ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی۔ مجموعی طور پر صارفین نے اس دن کل 30.8 ارب ڈالر خرچ کیے، جو گذشتہ برس سے 27 فیصد زیادہ ہے۔ اس سال کل ملا کر کمپنی کو 230 ملکوں سے ایک ارب سے زیادہ آرڈر موصول ہوئے جب کہ 237 برانڈ ایسے تھے جن کی سیل دس کروڑ آر ایم بی سے زیادہ تھی۔

5. ماحول پر اثر
اس ایونٹ کا ماحولیاتی اثر اس قدر شدید ہے کہ گرین پیس نے اسے ’ماحول کے لیے تباہ کن‘ قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق 2016 میں سنگلز ڈے کی وجہ سے 52 ہزار ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوئی۔ اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کے لیے سوا پانچ لاکھ درخت درکار ہیں جو ساری زندگی ایسا کرتے رہیں۔ گرین پیس کے مطابق اتنی بڑی مقدار میں مصنوعات کی تیاری، پیکنگ اور ترسیل کا ماحول پر بےحد برا اثر پڑتا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’ایک کلک سے خریدے جانے والا ڈسپوزبل فیشن مسقبل میں شاپنگ کا پائیدار ماڈل پیش نہیں کرتا۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو
 


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آنگ سان سوچی سے ’ضمیر کی سفیر کا ایوارڈ‘ واپس لے لیا

$
0
0

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آنگ سان سوچی امید، حوصلے اور انسانی حقوق کی علمبردار نہیں رہیں،ان کی موجودہ حیثیت میں ’ضمیر کی سفیر‘ کے اعزاز کا جواز پیش نہیں کر سکتے، اس لیے دکھ  کے ساتھ یہ ایوارڈ واپس لیا جا رہا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ میانمار کے صوبے رخائن میں ہزاروں روہنگیا باشندے قتل کیے گئے، تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے، حکومت نے فوجی اقدام کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لازمی قرار دیا۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تسلیم کرتے ہیں کہ سوچی کو فوج پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ جرائم کے ساتھ کھڑی رہیں اور عالمی تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کیں، ان کی حکومت کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔  واضح رہے کہ 2009 میں نظربندی کے دوران آنگ سان سوچی کو ’ضمیرکی سفیرکاایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔
 

دنیا کی بہترین موبائل فون کمپنیاں کونسی ہیں ؟

$
0
0

دنیا کی بہترین موبائل فون کمپنیوں کی سال 2018 کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں دنیا کی پانچ بڑی اور بہترین اسمارٹ موبائل فون بنانے والی کمپنیوں کے نام منظر عام پر آئے ہیں۔ ریسرچ کمپنی ’آئی ڈی سی‘ کی جانب سے دنیا کے بہترین اسمارٹ فون کمپنیوں کے نام جاری کیے گئے ہیں، انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس سال پوری دنیا میں تقریباً 2. 355 ملین موبائل فونز فروخت ہوئے ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے موبائل فونز اور ان کی کمپنیوں کے نام مندجہ ذیل ہیں.

’آئی ڈی سی‘ کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق دنیا کی پہلی بہترین اسمارٹ فون کمپنی ’سام سنگ‘ (samsung) ہے جس کے 2018 کے آغاز سے اب تک 2. 72 ملین فونز فروخت ہو چکے ہیں، ان میں زیادہ تعداد ’Galaxy Note 9‘ اور ’Galaxy A-series‘ فونز کی ہے۔

دوسری نمبر پردنیا کی بہترین اسمارٹ فون کمپنی ’ہواوے‘ (Huawei) ہے جس کے اب تک 52 ملین اسمارٹ فونز فروخت ہو چکے ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد پی سیریز (P series) اور میٹ سیریز (Mate series) فونز کی ہے۔ ہواوے چین کی موبائل فونز بنانے والی کمپنی ہے۔

ایپل (Apple) نے اس فہرست میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے، دنیا بھر میں آئی فون کو بےحد پسند کیے جانے کے باوجود اس کا تیسراے نمبر پر ہونا حیران کن بات ہے۔ اس سال ایپل نے اپنے 3 نئے موبائل فانز بھی معتارف کرائے ہیں جن میں آئی فون XS، آئی فون XS Max اور آئی فون XR شامل ہیں۔ پوری دنیا میں ایپل کے اب تک 9. 46 ملین موبائل فونز فروخت ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد آئی فون XS اور آئی فون XS Max کی ہے۔

دنیا کی چوتھی بہترین اسمارٹ فون کمپنی Xiaomi ہے جس کے 2. 32 ملین موبائل فونز اب تک فروخت کیے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد Redmi 5A, Redmi 5 Plus, Redmi Note 5, Redmi 6, Redmi 6A Redmi 6 Pro کی ہے۔ اس کے علاوہ فہرست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت، انڈونیشیا اور اسپین کے صارفین نے اس کمپنی کے موبائل فونز کو زیادہ پسند کیا ہے۔

پانچویں بہترین اسمارٹ فون کمپنی ’اپپو‘ (Oppo) ہے جس کے فروخت ہونے والے موبائل فونز کی تعداد9. 29 ملین ہے اور ان میں زیادہ تعداد Find X, R17 فونز کی ہے۔
 

Awesome Facts About Frogs

$
0
0

A frog is any member of a diverse and largely carnivorous group of short-bodied, tailless amphibians composing the order Anura (Ancient Greek ἀν-, without + οὐρά, tail). The oldest fossil "proto-frog" appeared in the early Triassic of Madagascar, but molecular clock dating suggests their origins may extend further back to the Permian, 265 million years ago. Frogs are widely distributed, ranging from the tropics to subarctic regions, but the greatest concentration of species diversity is in tropical rainforests. There are approximately 4,800 recorded species, accounting for over 85% of extant amphibian species. They are also one of the five most diverse vertebrate orders. Warty frog species tend to be called toads, but the distinction between frogs and toads is informal, not from taxonomy or evolutionary history.


An adult frog has a stout body, protruding eyes, cleft tongue, limbs folded underneath, and no tail. Frogs have glandular skin, with secretions ranging from distasteful to toxic. Their skins varies in colour from well-camouflaged dappled brown, grey and green to vivid patterns of bright red or yellow and black to show toxicity and ward off predators. Adult frogs live in fresh water and on dry land; some species are adapted for living underground or in trees.


Frogs typically lay their eggs in water. The eggs hatch into aquatic larvae called tadpoles that have tails and internal gills. They have highly specialized rasping mouth parts suitable for herbivorous, omnivorous or planktivorous diets. The life cycle is completed when they metamorphose into adults. A few species deposit eggs on land or bypass the tadpole stage. Adult frogs generally have a carnivorous diet consisting of small invertebrates, but omnivorous species exist and a few feed on fruit. Frogs are extremely efficient at converting what they eat into body mass. They are an important food source for predators and part of the food web dynamics of many of the world's ecosystems. The skin is semi-permeable, making them susceptible to dehydration, so they either live in moist places or have special adaptations to deal with dry habitats. Frogs produce a wide range of vocalizations, particularly in their breeding season, and exhibit many different kinds of complex behaviours to attract mates, to fend off predators and to generally survive.


Frogs are valued as food by humans and also have many cultural roles in literature, symbolism and religion. Frog populations have declined significantly since the 1950s. More than one third of species are considered to be threatened with extinction and over 120 are believed to have become extinct since the 1980s. The number of malformations among frogs is on the rise and an emerging fungal disease, chytridiomycosis, has spread around the world. Conservation biologists are working to understand the causes of these problems and to resolve them.


The name frog derives from Old English frogga, abbreviated to frox, forsc, and frosc, probably deriving from Proto-Indo-European preu = "to jump". About 88% of amphibian species are classified in the order Anura. These include around 4,810 species in 33 families, of which the Leptodactylidae (1,100 spp.), Hylidae (800 spp.) and Ranidae (750 spp.) are the richest in species. The use of the common names "frog" and "toad" has no taxonomic justification. From a classification perspective, all members of the order Anura are frogs, but only members of the family Bufonidae are considered "true toads". The use of the term "frog" in common names usually refers to species that are aquatic or semi-aquatic and have smooth, moist skins; the term "toad" generally refers to species that are terrestrial with dry, warty skins. There are numerous exceptions to this rule. The European fire-bellied toad (Bombina bombina) has a slightly warty skin and prefers a watery habitat whereas the Panamanian golden frog (Atelopus zeteki) is in the toad family Bufonidae and has a smooth skin.


The origins and evolutionary relationships between the three main groups of amphibians are hotly debated. A molecular phylogeny based on rDNA analysis dating from 2005 suggests that salamanders and caecilians are more closely related to each other than they are to frogs and the divergence of the three groups took place in the Paleozoic or early Mesozoic before the breakup of the supercontinent Pangaea and soon after their divergence from the lobe-finned fishes. This would help account for the relative scarcity of amphibian fossils from the period before the groups split. Another molecular phylogenetic analysis conducted about the same time concluded that lissamphibians first appeared about 330 million years ago and that the temnospondyl-origin hypothesis is more credible than other theories. The neobatrachians seemed to have originated in Africa/India, the salamanders in East Asia and the caecilians in tropical Pangaea. Other researchers, while agreeing with the main thrust of this study, questioned the choice of calibration points used to synchronise the data. They proposed that the date of lissamphibian diversification should be placed in the Permian, rather less than 300 million years ago, a date in better agreement with the palaeontological data. A further study in 2011 using both extinct and living taxa sampled for morphological, as well as molecular data, came to the conclusion that Lissamphibia is monophyletic and that it should be nested within Lepospondyli rather than within Temnospondyli. The study postulated that Lissamphibia originated no earlier than the late Carboniferous, some 290 to 305 million years ago. The split between Anura and Caudata was estimated as taking place 292 million years ago, rather later than most molecular studies suggest, with the caecilians splitting off 239 million years ago.


Frogs have no tail, except as larvae, and most have long hind legs, elongated ankle bones, webbed toes, no claws, large eyes, and a smooth or warty skin. They have short vertebral columns, with no more than 10 free vertebrae and fused tailbones (urostyle or coccyx). Like other amphibians, oxygen can pass through their highly permeable skins. This unique feature allows them to remain in places without access to the air, respiring through their skins. The ribs are poorly developed, so the lungs are filled by buccal pumping and a frog deprived of its lungs can maintain its body functions without them. For the skin to serve as a respiratory organ, it must remain moist. This makes frogs susceptible to various substances they may encounter in the environment, some of which may be toxic and can dissolve in the water film and be passed into their bloodstream. This may be one of the causes of the worldwide decline in frog populations.


The structure of the feet and legs varies greatly among frog species, depending in part on whether they live primarily on the ground, in water, in trees or in burrows. Frogs must be able to move quickly through their environment to catch prey and escape predators, and numerous adaptations help them to do so. Most frogs are either proficient at jumping or are descended from ancestors that were, with much of the musculoskeletal morphology modified for this purpose. The tibia, fibula, and tarsals have been fused into a single, strong bone, as have the radius and ulna in the fore limbs (which must absorb the impact on landing). The metatarsals have become elongated to add to the leg length and allow frogs to push against the ground for a longer period on take-off. The illium has elongated and formed a mobile joint with the sacrum which, in specialist jumpers such as ranids and hylids, functions as an additional limb joint to further power the leaps. The tail vertebrae have fused into a urostyle which is retracted inside the pelvis. This enables the force to be transferred from the legs to the body during a leap.


A frog's skin is protective, has a respiratory function, can absorb water and helps control body temperature. It has many glands, particularly on the head and back, which often exude distasteful and toxic substances (granular glands). The secretion is often sticky and helps keep the skin moist, protects against the entry of moulds and bacteria, and make the animal slippery and more able to escape from predators.  The skin is shed every few weeks. It usually splits down the middle of the back and across the belly, and the frog pulls its arms and legs free. The sloughed skin is then worked towards the head where it is quickly eaten.


The skin of a frog is permeable to oxygen and carbon dioxide, as well as to water. There are blood vessels near the surface of the skin and when a frog is underwater, oxygen diffuses directly into the blood. When not submerged, a frog breathes by a process known as buccal pumping. Its lungs are similar to those of humans, but the chest muscles are not involved in respiration, and no ribs or diaphragm exist to help move air in and out. Instead, it puffs out its throat and draws air in through the nostrils, which in many species can then be closed by valves. When the floor of the mouth is compressed, air is forced into the lungs. The fully aquatic Bornean flat-headed frog (Barbourula kalimantanensis) is the first frog known to lack lungs entirely.


Frogs have maxillary teeth along their upper jaw which are used to hold food before it is swallowed. These teeth are very weak, and cannot be used to chew or catch and harm agile prey. Instead, the frog uses its sticky, cleft tongue to catch flies and other small moving prey. The tongue normally lies coiled in the mouth, free at the back and attached to the mandible at the front. It can be shot out and retracted at great speed. Some frogs have no tongue and just stuff food into their mouths with their hands. The eyes assist in the swallowing of food as they can be retracted through holes in the skull and help push food down the throat. The food then moves through the oesophagus into the stomach where digestive enzymes are added and it is churned up. It then proceeds to the small intestine (duodenum and ileum) where most digestion occurs. Pancreatic juice from the pancreas, and bile, produced by the liver and stored in the gallbladder, are secreted into the small intestine, where the fluids digest the food and the nutrients are absorbed. The food residue passes into the large intestine where excess water is removed and the wastes are passed out through the cloaca.

غزہ کا المیہ، انسانی زندگی بے شمار مسائل سے دوچار ہے

$
0
0

غزہ میں زندگی

غزہ کی آبادی انیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اکتالیس کلومیٹر لمبی اور دس کلومیٹر چوڑی اس پٹی کی سرحدیں بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے ملتی ہیں۔ اس علاقے پر تاریخی طور پر مصر کا قبضہ رہا ہے، جو کہ ابھی تک غزہ کی شمالی سرحد کو کنٹرول کرتا ہے۔ 1967 میں ہونے والی مشرقِ وسطی کی جنگ میں غزہ پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا لیکن 2005 میں اس نے اپنے فوجیوں کو اور سات ہزار اسرائیلی آباد کاروں کو واپس بلایا۔ اب یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے جبکہ 2007 اور 2014 کے درمیان اس پر حماس کی حکومت تھی۔ انھوں نے 2006 میں ہونے والے فلسطینی انتخابات میں فتح حاصل کی تھی تاہم کچھ عرصے بعد حریف جماعت فتع کے ساتھ ہونے والا امن معاہدہ ٹوٹ گیا۔ جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا تو سب سے پہلے اس نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔ انھوں نے لوگوں اور اشیائے خرد و نوش کے آنے جانے پر بھی بہت حد تک پابندی لگا دی۔ دوسری طرف مصر نے غزہ کی شمالی سرحد کو بلاک کر دیا۔

معیشیت
غزہ 1990 کے مقابلے میں اب بہت غریب ہے۔ 1994 میں غزہ کی فی کس ماہانہ آمدنی 2659 ڈالر تھی جبکہ 2018 میں یہ 1826 ڈالر ہو گئی۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2017 میں غزہ کی پٹی میں بے روزگاری کی شرح چوالیس فیصد تھی جو کہ غرب ِ اردن سے دو گنا اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں سب زیادہ بے روزگار ہونے والے نوجوان ہیں، جن میں یہ شرح 60 فیصد تک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسی فیصد عوام کسی نہ کسی قسم کی معاشی امداد پر انحصار کرتی ہے۔

تعلیم
غزہ میں سکولوں کا نظام دباؤ کا شکار ہے۔ فلسطین کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی امدادی ایجینسی یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق چورانوے فیصد سکول 'ڈبل شفٹ'میں کام کرتے ہیں۔ یعنی کہ سکول دو بار الگ الگ بچوں کے گروہوں کو پڑھاتا ہے۔ پہلا سکول صبح میں جبکہ دوسرا دوپہر میں لگتا ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے غزہ میں 250 سکول چلاتا ہے۔ اس سے علاقے میں شرح خواندگی ستانوے فیصد تک ہو گئی ہے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی امداد کے بغیر چلنے والے سکولوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ 2014 میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ میں 547 سکول، نرسریاں اور کالج تباہ ہو گئے، ان میں سے زیادہ تر عمارتوں کی مرمت یا تعمیرِ نو ابھی تک نہیں ہو پائی۔ اسی وجہ سے اب غزہ کے سکولوں میں ایک کلاس میں اوسطًا چالیس بچے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں 2015 میں طالب علموں کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کر 2030 تک بارہ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ یہاں 900 مزید سکول اور تئیس ہزار مزید اساتزہ کی ضرورت پڑے گی۔

آبادی
غزہ کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں آبادی کی شرح فی مربع کلومیٹر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں اوسطً مربع کلومیٹر میں 5479 لوگ آباد ہیں۔ دو ہزار بیس تک یہ تعداد 6179 ہو جائے گی۔ غزہ کی آبادی اس دہائی کے اختتام تک 22 لاکھ اور 2030 تک 31 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ 2014 میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد کے ملحقہ علاقوں کو 'بفر زون'یعنی حفاظتی علاقہ قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہاں کسی کا بھی رہنا یا کھیتی باڑی کرنا ممنوع تھا۔ اسرائیل کے اس عمل کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے رہنے اور کام کرنے کے لیے زمین کم پڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی آبادی میں اضافے اور 2014 کی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے علاقے میں ایک لاکھ بیس ہزار گھروں کی ضرورت ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جنگ کے ختم ہونے کے بعد اب تک لگ بھگ 29 ہزار لوگ بے گھر ہیں۔ غزہ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کی آبادی کا چالیس فیصد حصہ پندرہ سال سے کم عمر ہے۔

صحت
سرحدی پابندیوں کی وجہ سے صحت عامہ کی سہولتوں تک لوگوں کی رسائی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ رفاہ کی سرحدی چوکی کے بند کیے جانے کے بعد مصر جانےوالے مریضوں کی تعداد میں کمی آ چکی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ 2014 سے پہلے اوسطاً ہر ماہ چار ہزار افراد صرف علاج کی غرض سے مصر جاتے تھے۔ اسرائیل کے راستے جانے والوں کی تعداد میں بھی حالیہ برسوں میں کمی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی پابندیوں کی وجہ سے ادویات، گردوں کے علاج میں استعمال ہونے والی مشینوں اور دل کے مانیٹرز سمیت تمام طبی آلات کی ترسیل بھی رکی ہوئی ہے۔ 

تعلیم کی طرح اقوام متحدہ صحت کے شعبے میں بھی مدد فراہم کر رہی ہے اور اس وقت یہاں بائیس طبی مراکز کو چلا رہی ہے۔ لیکن بہت سارے کلینک اور ہسپتال اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں تباہ ہو چکے ہیں۔ سنہ 2000 سے اب تک مقامی آبادی میں دگنا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے میں بنیادی صحت کے مراکز کی تعاد 56 سے کم ہو کر 49 ہو چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں جنریٹروں کو چلانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایندھن کی کمی کی وجہ سے بھی صحت کی سہولتیوں متاثر ہوئی ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے وہ تین ہسپتالوں اور دس طبی مراکز میں ضروری سہولیات معطل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

بجلی
غزہ میں بجلی کا نہ ہونا یا چلے جانا روز کا معمول ہے۔ مقامی لوگوں کو اوسطًا صرف چھ گھنٹے بجلی ملتی ہے۔غزہ کی پٹی کو زیادہ تر بجلی اسرائیل اور غزہ کا واحد پاور پلانٹ مہیا کرتا ہے، اس میں ان کی کچھ مدد مصر بھی کر دیتا ہے۔ غزہ پاور پلانٹ اور لوگوں کے پاس گھروں میں موجود جنریٹرز کا انحصار ڈیزل کی دستیابی پر ہے جو کہ نہ صرف بہت مہنگا ہے بلکہ باآسانی میسر بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاس ہی ایک گیس فیلڈ ہے جسے اگر تیار کیا جائے تو یہ علاقے کی بجلی کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غزہ پاور پلانٹ صرف قدرتی گیس پر چل سکتا ہے، تاہم ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اگر اسے دوسری اقسام کی طرح گیس پر چلانے کے لیے تیار کیا جائے تو اس سے لاکھوں ڈالر کی بچت ہو گی اور علاقے میں بجلی کی ضرورت کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔

پانی اور صفائی کا نظام
غزہ میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے علاقے کے زیر زمین پانی جمع کرنے کے ذخائر خالی پڑِے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے یہ ذخائر بہت چھوٹے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر یہ بھرے ہوئے بھی ہوں تب بھی یہ غزہ کی آبادی کی پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ غزہ میں سیوریج کا نظام بھی مسائل کا شکار ہے۔ ویسے تو تقریباً اسی فیصد گھروں میں سرکاری سیوریج نظام موجود ہے تاہم گند کی نکاسی کے یہ پلانٹ ضرورت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ان میں روزانہ جانے والا نوے لاکھ لیٹر کوڑا پوری طرح سے صاف نہیں کیا جاتا اور اسے بحیرہ روم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ شہر میں موجود پچانوے فیصد زمین سے نکلنے والا پانی آلودہ ہے اور یہ خطرہ بھی ہے کہ کوڑا اور فضلہ سڑکوں پر آسکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

سی این این کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انتظامیہ پر مقدمہ

$
0
0

امریکی نیوز چینل سی این این نے اپنے صحافی جم اکاوسٹا کا وائٹ ہاؤس کا اجازت نامہ معطل کرنے پر صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ پر مقدمہ کر دیا ہے۔ مڈٹرم انتخابات کے نتائج پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سی این این صحافی جم اکاوسٹا کے امیگریشن پالیسیوں اور امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر برہم ہوئے تھے، کڑے سوالات پر صحافی کو کھری کھری سنا کر مائیک چھین لینے کا حکم دیا اور جم اکاوسٹا کا وائٹ ہاؤس کا اجازت نامہ بھی معطل کروا دیا۔ اپنے صحافی کے خلاف اقدامات پر سی این این نے ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ کر دیا ہے، سی این این کا موقف ہے صحافی کی دستاویزات معطل کرنا آزادی صحافت کے قانون کی خلاف ورزی ہے، عدالت جم اکاوسٹا کا وائٹ ہاؤس کا اجازت نامہ بحال کرائے۔ سی این این کے مقدمہ کرنے پر وائٹ ہاؤس بھی میدان میں آگیا ہے، وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مقدمہ کرنا سی این این کا ایک اور تماشا ہے، پُر زور دفاع کریں گے۔
 

ذیابیطس (شوگر) کیا ہے اور آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

$
0
0

ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد اس کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں چار گنا ہے۔

صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کا شکار فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔

ذیابیطس کی وجہ کیا ہے؟
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سائنسدان یہ تو نہیں جانتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔ 

ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔ ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہے۔ اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انھیں ذیابیطس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

ذیابیطس کی علامات کیا ہیں؟

عمومی علامات
بہت زیادہ پیاس لگنا
معمول سے زیادہ پیشاب آنا، خصوصاً رات کے وقت
تھکاوٹ محسوس کرنا
وزن کا کم ہونا
دھندلی نظر
زخموں کا نہ بھرنا

برٹش نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کا شکار افراد 40 سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں (جنوبی ایشائی افراد 25 سال کی عمر تک)۔ ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے، ان کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیائی مالک کے لوگوں کی، چینی باشندوں کی، جزائر عرب الہند اور سیاہ فام افریقیوں کی ہے۔

کیا میں ذیابیطس سے بچ سکتا ہوں؟
ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔ پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔ ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، سفید روٹی، سفید چاول، سفید پاستا، بیکری کی اشیا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل۔

صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ اس میں صحت مند تیل، میوے اور اومیگا تھری والے مچھلی کے تیل بھی شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔ جسمانی ورزش بھی خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برطانیہ میں این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنے ایروبکس کرنا یا تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔ جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہی تو اسے آہستہ آہستہ کریں یعنی آدھا یا ایک کلو ایک ہفتے میں۔ یہ بھی اہم ہے کہ آپ تمباکو نوشی نہ کریں اور اپنے کولیسٹرول لیول کو کم رکھیں تاکہ دل کے عارضے کا خطرہ کم ہو۔

ذیابیطس میں پیچیدگیاں کیا ہیں؟
خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابیطس ہی ہے۔
سنہ 2016 میں ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ افراد براہ راست ذیابیطس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

کتنے لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں؟
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 1980 میں ذیابیطس کا شکار افراد کی تعداد دس کروڑ 80 لاکھ تھی جو 2014 میں بڑھ کر 42 کروڑ 22 لاکھ ہو گئی۔ 1980 میں دنیا بھر کے 18 سال سے زاید عمر کے بالغ افراد کا پانچ فیصد ذیابیطس کا شکار تھا جبکہ سنہ 2014 میں یہ تعداد 8.5 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ذیابیطس کی بین الاقوامی فاؤنڈیشن کے اندازوں کے مطابق اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بالغ افراد درمیانی عمر کے ہیں، ان کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے اور جہاں کھانے پینے کی عادادت تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا ذمہ دار غربت اور سستے پروسیسڈ کھانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانا مشکل ہو گیا

$
0
0

خطرناک آگ سے عام افراد کے ہزاروں گھر متاثر ہوئے ہیں اور متعدد افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔ ریاستی انتظامیہ نے گھروں میں موجود افراد کو جلد سے جلد نقل مکانی کی بھی ہدایات کر دی ہیں۔ جنگلات میں لگی آگ نے لاس اینجلس کاؤنٹی کے نواحی علاقوں کا بھی رخ کر لیا ہے جس سے ہولی وڈ کے کئی اسٹارز کے گھروں تک آگ پہنچ گئی۔ 










امریکا اور عالمی طاقتیں طالبان کی شرائط ماننے پر مجبور؟

$
0
0

ماسکو میں گوناگوں افغان گروہوں اور علاقائی ممالک کے سربراہان کی گزشتہ ہفتے ملاقات علاقائی زمینی سیاست کی بدلتی ہوئی ہوا کا اشارہ ہے۔ 'ماسکو فارمیٹ'قرار دیے جانے والے اس روسی اقدام کو حد سے زیادہ طویل ہو چکی افغان جنگ کا ایک علاقائی حل ڈھونڈنے کے لیے اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک سابقہ حملہ آور قوت کو اپنے پرانے دشمنوں کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھنا واقعتاً متاثر کن تھا۔ اس فارمیٹ پر کابل اور واشنگٹن کے سخت تحفظات کے باوجود 11 ممالک کی مذاکرات میں نمائندگی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ افغان طالبان کو بھی کسی بین الاقوامی فورم پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنگجو افغان وفد کے ساتھ اسی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔

بھلے ہی کابل حکومت نے باضابطہ طور پر ان مذاکرات میں شرکت نہیں کی مگر امن کوششوں کی سربراہی کرنے والی اعلیٰ امن کونسل کے ارکان اور انفرادی افغان رہنماؤں کی موجودگی نہایت نمایاں تھی۔ امریکا نے بھی چند مبصرین بھیجے تھے۔ کانفرنس نے شاید جمود کو نہ توڑا ہو مگر کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ یہ واقعی افغان طالبان کے لیے ایک سفارتی فتح تھی۔ یہ بات درست ہے کہ 'ماسکو فارمیٹ'کو ایک متوازی امن کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس فارمیٹ کا بنیادی مقصد اس مسئلے پر وسیع تر علاقائی فہم پیدا کرنا ہے۔ یہ اقدام روسی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ بھی ہے کہ وہ اب افغانستان اور خطے میں صرف ردِ عمل کی قوت بنے رہنے کے بجائے عملی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان پر روس کی پالیسی میں دوسرے کھلاڑیوں کو بھی شامل کرنے کی وجہ درحقیقت خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی ہے۔

بھلے ہی ماسکو نے پہلی مرتبہ افغان طالبان کو باضابطہ طور پر مدعو کیا تھا مگر طرفین پہلے ہی رابطہ قائم کر چکے تھے۔ روس کی جانب سے افغان جنگجوؤں کو مالی اور مادی سہولیات فراہم کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں۔ اس سے کابل اور واشنگٹن میں شدید تحفظات نے جنم لیا ہے۔ ویسے تو یہ میٹنگ اگست میں ہونی تھی مگر اسے کابل حکومت کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ گزشتہ چند سالوں میں روس افغان امور میں پہلے سے زیادہ سرگرمی سے ملوث ہو گیا ہے۔ ماسکو نے علاقائی ممالک مثلاً چین، پاکستان، ایران اور ہندوستان سے بھی پے در پے مشاورت کی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلی 2 ملاقاتوں میں افغانستان کو باہر رکھا گیا جس کی وجہ سے اس پورے مرحلے کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔ آخری مرتبہ یہ ملاقات 2017 میں ہوئی تھی۔

اس اقدام کی بنیادی وجہ اس حوالے سے بڑھتی ہوئی تشویش تھی کہ کہیں افغان تنازع خطے بھر میں نہ پھیل جائے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام امریکا کی جانب سے افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکامی پر بڑھتی ہوئی بے چینی کے ماحول میں روس کی جانب سے اپنی سفارتی طاقت کے اظہار کا ذریعہ بھی تھا۔ پریشانی کی ایک اور وجہ جنگ زدہ ملک کے اندر عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ گروہ کے پھیلنے کا خطرہ بھی ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک علاقائی اتحاد بنانے کی روسی کوششیں بدلتے ہوئے زمینی سیاسی منظرنامے میں طاقتوں کی ایک نئی ہم آہنگی کی علامت بھی ہیں۔

مگر اس تنازعے کے مرکزی فریق کی عدم موجودگی میں وہ کانفرنسیں کچھ زیادہ پیش رفت نہیں کر پائیں۔ مگر تازہ ترین 'ماسکو فارمیٹ'افغان طالبان اور کچھ اہم افغان رہنماؤں کی شرکت کی وجہ سے زیادہ اثر انگیز محسوس ہو رہا ہے۔ پاکستان بھی ماسکو جیسے تحفظات رکھتا ہے اور نئے علاقائی فارمیٹ میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے قابل ہونے میں کچھ امید دیکھتا ہے۔ مگر مسئلے کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ ماسکو میٹنگ میں شرکت سے افغان طالبان کی پوزیشن صرف مضبوط ہی ہوئی ہے اور انہیں پہلے سے کہیں زیادہ بین الاقوامی شناخت ملی ہے۔ چونکہ طالبان نے حالیہ سالوں میں میدانِ جنگ میں کافی بالادستی حاصل کی ہے اس لیے ان کی پوزیشن میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی۔ اپنے ایک بیان میں جنگجو گروہ نے کہا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی میٹنگ 'کسی بھی فریق'کے ساتھ مذاکرات نہیں تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی اقدام اس وقت آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ یہ امریکا کے اس طویل عرصے سے قائم مؤقف میں تبدیلی ہے کہ کسی بھی امن مذاکرات کی سربراہی کابل حکومت کو کرنی چاہیے۔ سینیئر امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے 2 راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ مگر ایسی کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی جو باضابطہ امن مذاکرات کی راہ ہموار کر سکے۔ ویسے تو افغان صدر اشرف غنی نے اصولی طور پر امریکا اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی حمایت کی تھی مگر اطلاعات ہیں کہ انہیں تازہ ترین میٹنگ کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے افغان حکومت کے اہلکاروں میں غصہ پھیل گیا تھا۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کو 3 ماہ قبل افغانستان میں امریکا کے خصوصی نمائندے کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور ان کا مینڈیٹ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا۔ افغانستان میں سابق سفیر کے طور پر انہیں لگتا ہے کہ وہ اس کام کے لیے اہل ہیں، اور اس کی بڑی وجہ ان کے نزدیک ان کی قومیت ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے گزشتہ ماہ دوحہ میں ہونے والی گفت و شنید کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مگر طالبان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ میٹنگ کا مرکزی نکتہ قبضے کا خاتمہ اور افغان تنازعے کا ایک پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش تھا۔
جنگجو گروہ نے کابل حکومت سے بات نہ کرنے کے اپنے سخت گیر مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے طالبان رہنماؤں، بشمول گوانتانامو سے 2014 میں رہا ہونے والے 5 افراد پر عائد اقوامِ متحدہ کی سفری پابندیوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ میدانِ جنگ میں کامیابیوں کی وجہ سے طالبان کی پوزیشن مزید سخت ہو چکی ہے۔

اس دوران یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ قندھار کے ہیبت ناک پولیس چیف جنرل عبدالرازق اور دیگر دو اعلیٰ افسران کے قتل سے امریکا اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے اگلے راؤنڈ پر منڈلاتے سائے گہرے ہو سکتے ہیں۔ سیکیورٹی کانفرنس، جس میں امریکا کے اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی موجود تھے، پر حملہ خلیل زاد کی دوحہ میں سینیئر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے چند ہی دن بعد ہوا۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر اس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں کہ جنرل رازق کے قتل سے امریکی انتظامیہ کی طالبان سے مذاکرات کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ جہاں ماسکو میٹنگ نے طالبان نمائندوں، افغان رہنماؤں اور علاقائی ممالک کو ساتھ بٹھا کر کچھ مثبت نتائج فراہم کیے ہیں، وہیں افغان تنازعے کا کوئی بھی سیاسی حل امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ براہِ راست گفتگو کا فیصلہ بلاشبہ آگے کی جانب قدم ہے مگر ابھی بھی ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے جو کہ باضابطہ مذاکرات تک لے جا سکے۔

زاہد حسین 
یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔



 

انتہا پسند اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین غزہ جنگ بندی کے خلاف احتجاجاً مستعفی

$
0
0

اسرائیل کے وزیر دفاع ایوگڈار لیبرمین نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے ساتھ فائربندی قبول کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی حکومت کے پاس ایوان میں صرف ایک نشست کی برتری رہ گئی ہے اور قبل از وقت انتخابات کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ لیبرمین نے اپنے اس فیصلے پر نیوز کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے عہدے سے اپنے استعفی کا اعلان کر رہے ہیں۔ لیبرمین کا کہنا تھا کہ حماس کے ساتھ معاہدہ اور سیز فائر خوف اور دہشت کا دباؤ قبول کرنے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو کسی اور طرح سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس معاہدے کا حوالہ دے رہے تھے جس کے تحت غزہ میں حماس کے ساتھ فائر بندی ہوئی۔ معاہدے سے قبل حماس نے اسرائیل پر 400 سے زیادہ راکٹ داغے تھے اور جواباً اسرائیل نے غزہ پر ایک سو سے زیادہ فضائی حملے کیے تھے۔ نتن یاہو نے کہا تھا کہ فائربندی کرنا غزہ میں جنگ کرنے سے زیادہ بہتر ہے، لیکن اس بارے میں اسرائیل میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو حماس پر سخت دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

لیبر مین کے اس اقدام کے نتیجے میں 120 رکنی ایوان میں نتن یاہو کی حکومت کے پاس صرف ایک نشست کی برتری رہ گئی ہے۔ لیبر مین کے سب سے بڑے حریف وزیر تعلیم نفتالی بینٹ نے کہا ہے کہ اگر انہیں وزیر دفاع مقرر نہ کیا گیا تو ان کی جماعت حکومت سے الگ ہو جائے گی۔ ہیبرو یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر اورہام ڈسکن نے کہا ہے کہ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ نتن یاہو بینٹ کو یہ عہدہ دینے پر رضامند ہو جائیں گے۔ اسرائیل میں سیاسی افراتفری نتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے متعدد الزامات سامنے آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جو انہیں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نتن یاہو کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور بھی ہونا پڑے تو بھی ان کے بائیں بازو کی جماعت لیکڈ پارٹی اگلا الیکشن جیت جائے گی۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

ملائیشیا : ترقی کے سفر پر گامزن

$
0
0

ملائیشیا ہمارے جنوب مشرق میں ہے۔ اگر بذریعہ ہوائی جہاز کراچی سے جنوب مشرق کی طرف روانہ ہوں تو تقریباً ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور پہنچ جائیں گے۔ ملائیشیا ہم خشکی کے راستے بھی جا سکتے ہیں۔ کراچی سے اگر مشرق کی طرف چلنا شروع کریں تو کوئی ایک ہزار میل کے بعد کلکتہ پہنچ جائیں گے۔ کلکتہ سے اور آگے مشرق کی طرف جائیں گے تو بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکا آئے گا اور اس کے آگے میانمار (برما) کا شہر رنگون (ینگون) آ جائے گا۔ ا س کے بعد ہمیں جنوب کی طرف رخ کرنا پڑے گا۔ میانمار ختم ہونے کے بعد تھائی لینڈ شروع ہو جاتا ہے۔


تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے قریب سے ہوتے ہوئے تھائی لینڈ کے آخری شہر ہات یائی جا پہنچیں گے، جسے ہادیائی یا ہانیائی بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد ملائیشیا شروع ہو جاتا ہے۔ پرلس اور کیداح ملائیشیا کی شمالی ریاستیں ہیں جن سے ہوتے ہوئے پینانگ، پیراق اور پھر سلنگور ریاست میں جا سکتے ہیں جہاں ملائیشیا کا دارالحکومت کوالالمپور ہے۔ مزید جنوب میں جانے پر ملاکا ریاست آتی ہے جہاں ملائیشیا کی نیول اکیڈمی ہے۔ ملاکا کے بعد جوہور ریاست ہے جس کا مشہور شہر جوہور بارو ہے، جو اس کا آخری شہر ہے، اس کے بعد سمندر اور سنگاپور کا جزیرہ ہے۔ 

سنگاپور جوہورو بارو سے پل کے ذریعے ملا ہوا ہے جسے کاز وے کہتے ہیں، جس پر کاریں، بسیں اور ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ ریل گاڑی سنگاپور سے شروع ہوتی ہوئی پورا ملائیشیا پار کر کے تھائی لینڈ پہنچتی ہے۔ آپ چاہیں تو بنکاک سے بذریعہ ٹرین سنگاپور پہنچ سکتے ہیں۔ اسی طرح بسیں، ٹیکسیاں اور کاریں بھی ان تین ملکوں سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ بھارت، برما تنازعہ نہ ہو تو ہم یہاں کراچی سے یا ٹنڈوجام یا ٹنڈو قیصر جیسے گاؤں سے اپنی کار میں بیٹھ کر چھ سات دن میں کوالالمپور یا سنگاپور آرام سے پہنچ سکتے ہیں۔ ملائیشیا اور پاکستان کے معیاری وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہے۔ 

ملائیشیا میں، پاکستان کے مشرق میں ہونے کی وجہ سے سورج پہلے طلوع ہوتا ہے۔ اس کے تین گھنٹے بعد سورج پاکستان میں طلوع ہوتا ہے یعنی پاکستان میں جس وقت صبح کے سات بج رہے ہوتے ہیں تو ملائیشیا میں دن کے دس بج رہے ہوتے ہیں۔ انگلینڈ اور پاکستان میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ ملائیشیا خط استوا کے بہت قریب ہے۔ خط استوا دنیا کے گولے پر وہ خیالی لکیر ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں سردیوں میں سورج کی کرنیں ترچھی پڑتی ہیں، کرنیں ترچھی پڑنے کی وجہ سے سردی ہوتی ہے لیکن وہ ملک جو خط استوا کے قریب ہیں، وہاں پورا سال سورج کی کرنیں سیدھی پڑتی ہیں اور سارا سال گرمی رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان ملکوں میں سارا سال دن اور رات برابر ہوتے ہیں۔ 

ہم جیسوں کے لیے ملائیشیا کے ابتدائی ایام عجیب سے لگتے ہیں۔ پورا سال ایک جیسا لگتا ہے نہ بہار نہ خزاں، ایسی صورت حال میں شاعر کیسے شاعری کرتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں کے لوگ ’’لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے‘‘ جیسے شعر نہیں سمجھ سکتے۔ دن اور رات برابر ہونے کی وجہ سے پورا سال نماز کے اوقات اور رمضان المبارک میں سحر اور افطار کے اوقات بھی یکساں رہتے ہیں۔ ملائیشیا میں سردی نہ ہونے کی وجہ سے کوٹ یا سویٹر پہننے کی نوبت نہیں آتی ہے۔ کبھی کبھار سال میں ایک یا دو دفعہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں پُر تکلف دعوت ہوتی تھی تو کوٹ ہاتھ میں لے جاتے اور ہوٹل میں اندر جا کر پہنتے تھے۔ 

ملائیشیا میں آپ کو کئی ایسے لوگ ملیں گے جو 70، 80 سال کے ہوں گے لیکن زندگی میں کبھی کوٹ نہیں پہنا ہو گا۔ ملائیشیا میں پورا سال سردی نہ ہونے کی وجہ سے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کوٹ، سویٹر، لحاف، کمبل جیسی چیزوں سے الماریاں خالی رہتی ہیں بلکہ ان چیزوں کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں الماریاں ہی کم ہوتی ہیں۔ سفر میں بھی آسانی رہتی ہے۔ شمال میں چاہے ملائیشیا کی آخری ریاست پرلس یا کیداح یا تھائی لینڈ چلے جائیں یا جنوب میں سنگاپور تک، کوٹ تو کیا سویٹر کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ دو پینٹ اور شرٹس ہی کافی ہیں۔ ایک آدھ نیکر بھی رکھ لی جائے تو بہت کام آتی ہے، کیونکہ بارش کی وجہ سے شام کو یا چھٹی کے دن چینی اور ملئی لوگ اکثر نیکر اور ہوائی چپل میں نظر آتے ہیں۔ جبکہ انڈین جن میں تامل زیادہ ہیں، لنگوٹی باندھ کر پھرتے ہیں۔ بارش ہونے پر اسے تہہ کر کے گھٹنوں سے اوپر کر لیتے ہیں اور چپل اتار لیتے ہیں۔

الطاف شیخ


 

برطانوی کابینہ نے یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کی منظوری دیدی

$
0
0

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کابینہ کے 5 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد بریگزٹ ڈیل کا اعلان کر دیا، جس میں برطانوی کابینہ کے 9 سے زائد ارکان نے بریگزٹ ڈیل کے مسودے کی مخالف کر دی جن میں سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری خارجہ بھی شامل تھے جب کہ باقی ارکان نے یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کی منظوری دیدی۔ وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ ڈیل کا مسودہ آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جب کہ بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں مشکل ہو سکتی ہے۔ 

علاوہ ازیں رکن یورپی پارلیمنٹ ورہو فسٹاڈ نے کہا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کا قریبی رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا اور تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔ ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 585 صفحات پر مبنی مجوزہ معاہدہ شائع کر دیا گیا ہے جس میں برطانیہ اور یورپی یونین کے مستقبل میں روابط کے حوالے سے تفصیلات موجود ہیں۔ واضح رہے کہ 2 سال قبل برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں جب کہ 48 فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیئے تھے۔

 

امریکی عدلیہ ٹرمپ کے خلاف صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی

$
0
0

امریکی عدلیہ آزادی صحافت کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی عدالت نے سی این این کے رپورٹر کا وائٹ ہاؤس کا پاس بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ وائٹ ہاؤس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بریفنگ کے دوران بحث کرنے پر رپورٹر جم اکوسٹا کا پاس منسوخ کر دیا تھا۔ امریکا میں جج ٹموتھی کیلی کی جم اکوسٹا کے حق میں سامنے آنے والی رولنگ صدر ٹرمپ کے خلاف سی این این کی ایک ابتدائی کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔

سی این این نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ جم اکوسٹا کا پریس پاس معطل کر کے امریکی آئین کے تحت سی این این اور جم اکوسٹا کو حاصل حقوق پامال کیے گئے ہیں۔ درخواست پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے لیکن جج نے عبوری فیصلہ دیتے ہوئے وائٹ ہاوس کو حکم دیا ہے کہ وہ جم اکوسٹا کا پریس پاس بحال کر دے۔ کچھ روز پہلے امریکی صدر ٹرمپ اپنی پریس بریفنگ کے دوران جم اکوسٹا پر برس پڑے تھے، جس کے بعد صحافی کا پاس معطل کر دیا گیا تھا۔
 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>