Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے امریکی فوجی میکسیکو کے ساتھ سرحد روانہ

$
0
0

امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کو روکنے کے لیے میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجی اہلکار تعینات کر رہی ہے۔ مزید فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب لاطینی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن پر مشتمل ایک بڑا قافلہ میکسیکو سے امریکہ کی سرحد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت ان غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔امریکی فوج کی شمالی کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹیرنس او شاگنیسی نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر کے حکم پر 800 فوجی اہلکار ریاست ٹیکساس کے ساتھ واقع میکسیکو کی سرحد کے لیے روانہ ہو چکے ہیں جب کہ مزید فوجی دستے کیلی فورنیا اور ایریزونا کے ساتھ واقع میکسیکن سرحدوں پر تعیناتی کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔

امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکی سرحدوں کا تحفظ قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے اور فوج ان کی ہدایت پر اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ بعض فوجی اہلکاروں کے پاس اسلحہ بھی ہو گا لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ انہیں اس اسلحے کی ضرورت کیوں پڑے گی۔ امریکی حکام واضح کر چکے ہیں کہ سرحد پر تعینات فوجی اہلکار تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے مجاز نہیں ہوں گے بلکہ ان کا زیادہ تر کام سرحد پر تعینات سول حکام کی معاونت اور انہیں لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی سے متعلق ہو گا۔ لیکن فوجیوں کی سرحد پر تعیناتی کے اعلان کے بعد ایک ٹوئٹر پیغام میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ فوجی دستے سرحد پر قافلے کے منتظر ہوں گے۔ اس پیغام سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ شاید فوجی دستے براہِ راست تارکینِ وطن سے نبٹیں گے۔

ایک امریکی اہلکار کے مطابق میکسیکو میں موجود قافلے میں شامل تارکینِ وطن کی تعداد 3500 کے لگ بھگ ہے جو مختلف بنیادوں پر پناہ کے حصول کی امید پر امریکہ میں داخلہ چاہتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تین ہزار تارکینِ وطن پر مشتمل ایک دوسرا قافلہ اس وقت گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد پر موجود ہے اور اس کی منزل بھی امریکہ ہے۔ سرحدوں پر فوج کی تعیناتی امریکہ میں ایک غیر روایتی اقدام ہے۔ روایتی طور پر امریکہ میں سرحدوں کی نگرانی اور سرحدوں کے آر پار نقل و حرکت منظم کرنے کا کام سول حکام اور سول سکیورٹی ادارے انجام دیتے ہیں۔

وسط مدتی انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل پانچ ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کی سرحد پر تعیناتی کئی حلقوں کے لیے غیر متوقع ہے جب کہ صدر کے ناقدین اسے انتخابی مہم کا حصہ اور سخت گیر اور امیگریشن مخالف سفید فام ووٹرز کے دل جیتنے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے خود امریکی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے لیے 800 سے ایک ہزار فوجی اہلکار میکسیکو کے ساتھ سرحد پر تعینات کرنے پر غور کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کے سخت مخالف ہیں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی میں تارکینِ وطن کے خلاف ان کے سخت موقف کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔

صدر ٹرمپ نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کے جلسوں میں تواتر سے لاطینی امریکی تارکینِ وطن پر مشتمل قافلے کا ذکر کیا اور ان افراد کو جرائم پیشہ قرار دیتے ہوئے ہر صورت روکنے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ صدر اعلان کر چکے ہیں کہ ان غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ میں داخلے پر عارضی پناہ گزینوں کی طرح خیموں میں رکھا جائے گا اور ماضی کے برعکس انہیں عدالتوں سے ان کی پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک معاشرے میں گھلنے ملنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکی صدر کا موقف ہے کہ اس حکمتِ عملی سے پناہ کے متلاشی مزید تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کی حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیکس فراڈ سے کئی ملین ڈالر بنائے، نیو یارک ٹائمز

$
0
0

اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے ماضی میں غیر قانونی ٹیکس اسکیموں کے ذریعے سینکڑوں ملین ڈالر حاصل کیے۔ دھوکہ دہی کی ایسی زیادہ تر کارروائیاں انیس سو نوے کی دہائی میں کی گئی تھیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی یہ تازہ تحقیقاتی رپورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی بھی نفی کرتی ہے، جس کے مطابق انہوں نے اپنے بزنس مین والد فریڈ ٹرمپ سے ایک چھوٹا سا قرض لیتے ہوئے کئی ارب ڈالر کی ریئل اسٹیٹ سلطنت کھڑی کی ہے۔ 

نیو یارک کے اس اخبار کی تحقیقاتی رپورٹ میں مندرجہ ذیل دعوے کیے گئے ہیں:

بچین میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے والد کی ریئل اسٹیٹ املاک میں سے 413 ملین ڈالر دیے گئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک یہ کہتے آئے ہیں کہ انہیں اپنے والد کی طرف سے کاروبار کے آغاز کے لیے صرف ایک ملین ڈالر کا قرض دیا گیا تھا۔
ٹرمپ اور ان کے بھائیوں نے قابل اعتراض ٹیکس اسکیموں کا آغاز کرتے ہوئے ٹیکس فراڈ کرنے میں اپنے والد کی مدد کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق کئی نئی کارپوریشنیں قائم کرتے ہوئے غلط قسم کی ٹیکس رعایتیں حاصل کی گئیں جبکہ امریکی ٹیکس حکام کے سامنے ریئل اسٹیٹ ہولڈنگز کی قیمتیں بھی کم بتائی گئی تھیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے والدین نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کو ایک ارب ڈالر منتقل کیے تھے۔ ان منتقلیوں پر 550 ملین ڈالر ٹیکس کی ادائیگی بنتی تھی لیکن ٹرمپ خاندان نے ہیرا پھیری کرتے ہوئے اس کا دس فیصد سے بھی کم یعنی 52.2 ملین ڈالر ٹیکس ادا کیا تھا۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ فریڈ ٹرمپ کے کاروبار سے متعلق ایک لاکھ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ٹیکس سے متعلق دستاویزات اور خفیہ ریکارڈز کے ساتھ ساتھ سابق ملازمین اور مشیروں کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز نے واضح کیا ہے کہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی صدر کی ذاتی دولت اور ٹیکس سے متعلق دستاویزات شامل نہیں ہیں تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی دولت کا ان کے والد کی دولت کے ساتھ ’گہرا تعلق اور انحصار‘ ہے۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ صدر ٹرمپ کے ان دعووں کے بھی برعکس ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اتنی بڑی کاروباری شخصیت بنے ہیں۔ اس رپورٹ سے امریکی ٹیکس حکام ٹرمپ خاندان کی دولت اور ٹیکس کے حوالے سے وسیع تر تحقیقات کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دھوکا دہی ثابت ہونے کی صورت میں ٹیکس فراڈ کے باعث سول جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
دریں اثناء وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا ہے۔ بیان میں نیو یارک ٹائمز اور میڈیا کے دیگر ادراوں کو صدر اور ان کے اہل خانہ پر مبینہ ’مسلسل حملے‘ کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

چین کا ایک اور دنگ کردینے والا منصوبہ : سمندر پر بنایا جانے والا دنیا کا طویل ترین پل

$
0
0

 ہانگ کانگ-جوخائے-مکاؤ پل پرل ریور یعنی نہرالولو کے ڈیلٹا پر تعمیر ہونے والا دنیا کا طویل ترین پل ہے۔ اس کی لمبائی 55 کلو میٹر سے زیادہ ہے جو اپنے آپ میں بے مثال انجینیئرنگ کا نمونہ ہے۔

ایک سرے سے دوسرے سرے تک بشمول دو لنک سڑکوں کے اس پل کی لمبائی سین فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج کی تقریبا 20 گنا ہے۔

اس کا ڈیزائن زلزلوں، علاقے کو تہ و بالا کر دینے والے موسمی سمندری طوفانوں اور حادثاتی طور پر جہازوں کی ٹکر کو برداشت کرنے کی صلاحت کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔

جہازوں کو سمندر کے مدوجزر سے گزرنے کے لیے یہ پل دو مصنوعی جزائر سے ہوتے ہوئے 7۔6 کلو میٹر تک زیر آب ہے۔

یہ پل ہانگ کانگ کے بین الاقومی ایئرپورٹ سے بھی گزرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انجینیئروں کے پیش نظر پل کی بلندی کی بھی حد رہی ہوگی۔

اس پل کی تعمیر کا کام سنہ 2009 میں شروع ہوا تھا اور یہ حفاظتی خدشات کے پیش نظر تاخیر کا شکار رہا۔ اس کی تعمیر میں بجٹ سے زیادہ رقم خرچ ہوئی اور بالآخر اس میں 20 ارب ڈالر کا خرچ آیا۔

اس کے افتتاح کی تاریخ پہلے سنہ 2016 طے کی گئی تھی لیکن رواں ماہ بھی اس کے افتتاح کی تارخ اس وقت تک طے نہیں تھی جب تک کہ اس کا واقعی افتتاح نہ ہوا۔



برلن کا سقوط

$
0
0

مئی کی پہلی تاریخ (1945ئ) کو روسی ریڈ گارڈز کو حکم دیا گیا کہ امپیریل چانسلری (جرمن چانسلر کا دفتر) پر شدید گولہ باری کی جائے۔ ویسے برلن کے ہر گلی کوچے میں جنگ ہو رہی تھی اور نازیوں نے تقریباً تمام عمارتوں کو مورچہ بنا رکھا تھا۔ شہر کی مضافاتی بستیوں سے لے کر خود برلن تک میں ہر طرف عمارتوں کے ملبے اور فوجیوں کی لاشیں پھیلی ہوئی تھیں۔ بے شمار زخمی علیحدہ تڑپ رہے تھے مگر لڑائی کا اب پورا زور ہٹلر کی امپریل چانسلری کی طرف تھا۔ آٹھویں ریڈ گارڈ آرمی نے حکم ملتے ہی یک دم چانسلری پر قیامت کی گولہ باری شروع کر دی جس سے آس پاس کی سرکاری عمارتیں اور خود چانسلری ہل اٹھی۔ مگر چانسلری اور اس کے نواح سے بھی روسیوں پر جوابی آگ برسائی جانے لگی۔ 

اب ٹینکوں کی جنگ نہ رہی تھی کیونکہ یہ شہر کا معاملہ تھا۔ اب تو چھوٹی بڑی توپیں گرج رہی تھیں اور رائفلز استعمال کی جا رہی تھیں جو انسانی خون کی ندیاں بہا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک جنرل نے خوشخبری سنائی کہ چانسلری کے قریب ایک اہم مقام پر قبضہ کر لیا گیا اور اب ایک بلاک کے پاس لڑائی ہو رہی تھی۔ یہ بلاک گسٹاپو کا مرکز تھا۔ یہاں روسی اور نازی جان توڑ کر لڑے۔ کبھی روسی آگے بڑھ جاتے کبھی نازی انہیں پیچھے دھکیل دیتے۔ چونکہ نازی تقریباً محصور ہو گئے تھے، اس لیے ان کا گولہ بارود کم ہوتا جا رہا تھا اور وہ کفایت کے ساتھ اسے استعمال کر رہے تھے۔

اس کے برخلاف روسیوں کے پاس گولہ بارود کی فراوانی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خونریزی کے بعد اس بلاک پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا اور یہاں قائم گسٹاپو اڈا ختم ہو گیا جس کے بعد نازیوں کی زہر افشانی بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی، کیونکہ یہیں سے ذرا ذرا سے شبہ پر حکم صادر ہوتا کہ فلاں فرد یا جماعت کو گولی سے اڑا دیا جائے یا فلاں کو زہر دے دیا جائے، یہیں پر بسمارک اعظم اور مولٹکے کے مجسمے تھے جن کے سامنے روسی تاریخ میں تیسری مرتبہ برلن میں داخل ہو رہے تھے۔ غرض اب تیزی سے خبریں آ رہی تھیں کہ ریڈ گارڈز نے چڑیا گھر پر قبضہ کر لیا، ریس کلب کی دیواروں تک جا پہنچے۔

تمام دن بندوقیں اور توپیں چلتی رہیں، جن کے دھماکوں سے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ آخر رات آگئی اور لڑائی کا زور بھی گھٹ گیا۔ رات کو نازی افسر دفاع کی تیاری میں سرگرم رہے، دوسری طرف روسی بھی اپنی مزید پیش قدمی کے پلان بنانے میں مصروف تھے۔ دونوں طرف سخت بے اطمینانی اور اضطراب کا عالم تھا اور شہریوں کی تو یہ حالت تھی کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جنگ کی ہولناک راتوں میں کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ بچے رات کے وقت دن کی تباہ کاریوں سے گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ 

بچے تو آخر بچے ہی ہوتے ہیں، کسی رات کو قدرے سکون ہوتا تو گھروں سے نکل بھاگتے اور کھیلنے کے لیے تفریحی میدانوں کی طرف لپک پڑتے، والدین کو جو خبر ہوتی کہ بچے باہر نکل گئے تو کلیجہ تھامے ان کے پیچھے دوڑتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک طرف تو والدین گولیوں کا نشانہ بنتے، دوسری طرف معصوم بچوں کے ننھے جسم گولیوں سے چھلنی ہو جاتے۔ آخر دو مئی کو جرمن ریڈیو نے روسی افسروں کے نام ایک پیغام نشر کیا کہ لڑائی بند کر دی جائے، بعض ذمے دار نازی افسر روسی کمان سے کچھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

چنانچہ روسیوں نے لڑائی بند کر دی۔ کہنا چاہیے کہ فائرنگ روک دی گئی تھی اور نازیوں کو مطلع کر دیا گیا کہ فلاں مقام پر وہ اپنے نمائندے بھیج سکتے ہیں لیکن انہیں یہ بتا دیا گیا کہ غیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کسی موضوع پر بات چیت نہیں ہو گی۔ یہ ملاقات تو شاید بعد میں ہوئی ہو گی، اس سے قبل ہی نازیوں کی جانب سے اعلان کر دیا کہ ایک پورے فوجی ڈویژن کے سربراہ کی منشا کے مطابق مزید مزاحمت روک دیں گے اور ہتھیار ڈال دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے روسیوں کو آگاہ کیا کہ یہ کارروائی رات کے وقت ہونی چاہیے کیونکہ گیوبل (وزیر برائے پراپیگنڈہ) کا حکم ہے کہ اگر جرمنی کا کوئی آدمی روسیوں کی طرف جاتا نظر آئے گا تو اسے گولی سے اڑا دیا جائے گا۔ اس کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا۔

پانچ بجے روسی کمانڈر کو اطلاع ملی کی گیوبل کا ایک وفد آیا ہے۔ اس میں تین آدمی تھے اور تینوں سویلین لباس میں تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سفید جھنڈا تھا۔ ایک باوردی اور مسلح سپاہی بھی ان کے ہمراہ تھا جسے کمرے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ نازیوں کے ایک اعلیٰ افسر نے روسی کمانڈر کو ایک خط دیا جس میں تحریر تھا کہ جنرل کریبز، جو آپ سے پہلے مل چکے ہیں اب نہیں آ سکتے اور ڈاکٹر گیوبل نے خودکشی کر لی ہے لہٰذا میں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ آپ برلن کو اپنی پناہ میں لے لیں۔ نیچے ڈاکٹر فِرش کے دستخط تھے جو پروپیگنڈا منسٹری کا ہیڈ تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر گیوبل ایک روز قبل خودکشی کر چکا ہے، وہ نازی پارٹی کی ناک کا بال تھا۔ اس نے بھی ہٹلر کی طرح وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو پٹرول کے ذریعہ جلا دیا جائے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نازیوں کے سمجھ دار اور قابل جنرل کریبز نے بھی خودکشی کر لی۔ 

بہر حال دو مئی کو ڈویژن نے ہتھیار ڈال دیے اور مع سازو سامان کے خود کو روسیوں کے حوالے کر دیا۔ ادھر روسی ہائی کمان نے احکام جاری کر دیے کہ برلن چونکہ فتح کر لیا گیا ہے لہٰذا اب جنگ و جدال بند کر دی جائے۔ روسیوں کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہٹلر اور گیوبل نے خودکشی کر لی ہے لیکن جب انہیں جنرل کریبز جیسے آدمی نے یقین دلایا کہ ہٹلر نے تیس اپریل کو چانسلری میں خودکشی کی اور ایک اور دو مئی کے درمیان ڈاکٹر گیوبل نے اپنے آپ کو ہلاک کیا تھا تب انہیں کچھ یقین ہوا۔ البتہ یورپ اور اس کے باہر اس کے بعد بھی لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ ہٹلر زندہ ہے اور حلیہ بدل کر دنیا کے کسی گوشہ میں روپوش ہو گیا ہے۔

قیسی رامپوری


 

Aasia Bibi acquittal : Country Wide Protests In Pakistan

$
0
0

People continue to protest against Pakistani Supreme Court's decision to acquit Christian woman Aasia Bibi of blasphemy against Islam and Prophet Muhammad (PBUH) as demonstrations reach the third day at the D-Chowk region in Islamabad, Pakistan. Aasia Bibi, was sentenced to death by a district court in 2010 for blaspheming the Prophet Muhammad (PBUH) before Supreme Court's acquittal. Police removed containers with cranes on protesters' demand to march towards the constitutional court.










آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری

$
0
0

سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج ہو رہا ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں کاروباری مراکز بند رہے۔

پنجاب حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تاکہ وہ پرامن انداز میں منتشر ہو جائیں۔





ایران پر مزید امریکی پابندیوں کا اطلاق

$
0
0

ایران پر دوسرے مرحلے میں امریکی پابندیوں کا اطلاق ہو گا۔ ایران کے تیل، شپنگ، شپ بلڈنگ اور مالیاتی شعبے پر پابندیاں نافذالعمل ہوں گی۔ اس سے قبل ایران کی امریکی ڈالر تک رسائی محدود، ایرانی سونے، قیمتی دھات، کارپٹ، خوردنی اشیاء کی برآمد اور آٹو سیکٹر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق پابندیوں کے اطلاق کے بعد ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی 700 سے زائد شخصیات، کمپنیاں، ہوائی و بحری جہاز، بڑے بینک، تیل ایکسپوٹرز اور شپنگ کمپنیاں پابندی کی فہرست میں شامل کی جائیں گی۔ برسلز کی عالمی ادائیگیوں کے سوئفٹ نیٹ ورک ایرانی کمپنیوں سے رابطہ منقطع کر سکتا ہے جس سے ایرانی کمپنیاں عالمی مالیاتی نظام سے مکمل کٹ جائیں گی، اس سے قبل پہلے مرحلے میں 7 اگست کو پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 8 ممالک کو عارضی طور پر ایران سے تیل خریدنے کی اجازت ہو گی، خبر ایجنسی کے مطابق استثنیٰ حاصل کرنے والے ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، ترکی اور اٹلی شامل ہیں۔
مائیک پومپیو نے پابندیاں ختم کرنے کے لیے 7 شرائط رکھی ہیں جن میں عسکریت پسندوں کی حمایت اور بیلسٹک میزائل کی تیاری مکمل بند کرنا شامل ہیں۔ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ایران نے جوہری پروگرام بند کر دیا تھا اور بدلے میں ایران پر عائد پابندی ختم کردی گئیں تھیں۔ رواں سال مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری ڈیل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

 

 

ٹرمپ اور اوباما کے درمیان لفظی جنگ عروج پر

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق صدر بارک اوباما کے درمیان لفظی جنگ عروج پر پہنچ گئی۔ امریکی صدر نے ایک بیان میں کہا کہ مڈٹرم انتخابات میں ڈیموکریٹس کو منتخب کرنے کا مطلب جرائم کی لہر کو دعوت دینا ہو گا ۔ جواباً سابق امریکی صدر نے کہا کہ ری پبلکنز ایک بار پھر قوم کو خوف زدہ کرنے کی مہم پر نکلے ہیں جو کامیاب نہیں ہو گی ۔ ٹوئٹر نےامریکی وسط مدتی انتخابات پر اثر انداز ہونے والے 10 ہزار خود کار اکاونٹ بند کر دیے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوئٹر کی طرف سے بند کردہ اکاونٹس سے ووٹنگ کی حوصلہ شکنی کی جارہی تھی۔
 


سینٹ پیٹرز برگ : مشرقی اور مغربی دُنیا کی ثقافت کا ایک حسین امتزاج

$
0
0

سینٹ پیٹرز برگ دُنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر مشہور دریائے نیوا، جو بحیرۂ بالٹک میں گرتا ہے، کے کنارے پر آباد ہے۔ انقلاب روس کے بعد 1924 ء میں اس شہر کا نام اشتراکی حکومت نے لینن گراڈ رکھ دیا تھا، جو 1991 ء میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد دوبارہ سینٹ پیٹرز برگ کر دیا گیا۔ یہ عظیم شہر دو سو سال تک روس کا دارالحکومت رہا۔ انقلاب روس کے بعد 1917 ء میں ماسکو کو روس کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ یہ ماسکو کے بعد روس کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے اور پورے یورپ میں استنبول، لندن اور ماسکو کے بعد چوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1440 مربع کلو میٹر ہے۔

اس شہر میں مشرقی اور مغربی دُنیا کی ثقافت کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یہ بحیرۂ بالٹک پر روس کی بہت بڑی بندرگاہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے اس شہر پر قبضہ کیے رکھا جواڑھائی سال تک جاری رہا۔ اس بنا پر جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اس شہر کو HERO CITY کے منفرد اعزاز سے نوازا گیا۔ قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے وسط مئی سے لے کر وسط جولائی تک تمام رات شفق نظر آتی رہتی ہے۔ اسی لیے اس کو سفید راتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ اس کا ٹمپریچر پورے سال میں 35C - اور گرمیوں کے موسم میں +34C کے درمیان رہتا ہے۔ جب کہ دریائے نیوا کا پانی سردیوں کے موسم میں نومبر دسمبر سے اپریل تک منجمد رہتا ہے۔




ڈالر کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت

$
0
0

پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے کاروبار سے ڈالر کو نکالنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ دونوں ممالک میں یہ بات طے پا گئی ہے کہ آئندہ لین دین اپنی اپنی کرنسی میں ہو گا یعنی یوآن اورپاکستانی روپے میں۔ اس سے پہلے دو ممالک آپس میں ڈالر میں کاروبار کرتے تھے ۔ چین کے صدر اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے پہلے ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے لئے ترک صدر رجب طیب اردوغان نے یہ کوشش شروع کی تھی انہوں نے قرقزستان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئیے ہم اپنی قومی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیں۔ ڈالر سے ہمیں ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے بھی اس سلسلے میں ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔


چین ، روس اور ترکی ڈالر کی اجارہ داری کے خلاف کافی عرصہ سے کام رہے تھے۔ اب اس کوشش میں پاکستان بھی شامل ہو گیا ہے۔ یورپ بھی ڈالر کی حاکمیت ختم کرنا چاہتا ہے فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ ڈالر کی اجارہ داری جلد ختم ہو جائے گی۔ یورپ کے خلیجی ممالک کے ساتھ اس موضوع پر معاملات کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ یورپ ڈالر کی جگہ یورو کی حاکمیت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، دوسری طرف خلیجی ممالک بھی اپنی مشترکہ کرنسی پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ عمران خان کے دورہء چین کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ پاکستان اور چین نےایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت کے معاہدے پرفوری عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت نیچے کی سمت لانے کی اہم ترین کڑی ہے ۔

امکان ہے کہ اس معاہدہ کے بعد ڈالر کے بہی خواہ عمران خان کی حکومت کے خلاف اپنی کارروائی تیز کر دیں گے۔ کیونکہ اس معاہدہ سے امریکا کو چین اور پاکستان کی مارکیٹ میں فوری طوری پر اربوں ڈالر کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
اب کسی بھی پاکستانی تاجر کو چین کے ساتھ کاروبار کرنے کے لئے ڈالر کی ضرورت نہیں ہو گی اور نہ کسی چینی سرمایہ کار کو پاکستان میں کاروبار کے لئے ڈالر خریدنے پڑیں گے۔ چین اور پاکستان میں ہونے والی تجارتی سرگرمیوں سے ڈالر کا نکال دیا جانا ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور یہ اقتصادی جنگ میں ایٹم بم کے دھماکے سے کم نہیں۔ اسی سال ستمبر میں روس کے شہر ولادی ووسٹوک میں چینی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر حال میں امریکی ڈالر کا استعمال کم کرنا ہے اور اپنی اپنی قومی کرنسی کا استعمال بڑھانا ہے۔ ‘‘ یقینا دو طرفہ تجارت میں روس اور چین کی جانب سے اپنی اپنی کرنسی میں لین دین ان کی بنکاری مستحکم کرے گا ۔

منصور آفاق

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

لجزائر : تاریخ اور آزادی

$
0
0

سن 1842ء میں فرانسیسی قبضہ سے پہلے الجزائر کی کوئی مخصوص پہچان نہیں تھی۔ پورا علاقہ قبیلوں میں بٹا ہوا تھا جو آپس میں برسر پیکار رہتے تھے۔ 146 قبل مسیح کے لگ بھگ رومن سلطنت نے یہاں کے بعض پہاڑی علاقوں اور سطح مرتفع پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے گیہوں اور دوسری پیداوار روم منتقل کرنے لگے۔ شہروں میں لاطینی تہذیب بڑی حد تک مسلط کر دی۔ لیکن دیہات اور خاص طور پر دور دراز کے پہاڑی علاقے بربر رہے۔ روم پر جب عیسائی مذہب حاوی ہو گیا تو اس وقت الجزائر کا پورا ساحلی علاقہ رومن سلطنت کا جزو بن چکا تھا۔ بربروں کے مسلسل حملوں اور رومن مقبوضات کے خود اندرونی خلفشار کی وجہ سے یہ سماج آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ 

بعدازاں بازنطینی سلطنت نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہ پورا علاقہ عربوں کے قبضہ میں آ گیا اور یہاں کی آبادی نے آہستہ آہستہ اسلام قبول کر لیا۔ انتہائی دور دراز علاقوں کے علاوہ یہاں کی تمام آبادی نے عربی زبان اختیار کر لی اور عرب فاتحین کے ساتھ گھل مل گئی۔ ’’المرود‘‘ اور ’’الموحد‘‘ کے دور حکمرانی میں یہ علاقے سپین اور مراکش کی عظیم سلطنتوں کا جزو بن گئے۔ البتہ مرکزی حکومتیں کمزور ہو جاتیں تو مقامی حکمران پیدا ہو جاتے۔ سولہویں صدی کے اوائل میں عثمانی ترکوں نے حملہ کر کے اس علاقہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، لیکن ترکوں کا اقتدار ساحلی علاقوں تک محدود رہا۔

بحری لٹیروں نے ساحل کے کئی علاقوں میں اپنے اڈے قائم کر لیے اور وہ بحیرۂ روم میں آنے والے جہازوں کو لوٹا کرتے تھے۔ 1800ء تک تقریباً پورے علاقہ نے آزادی حاصل کر لی۔ فرانس نے 1830ء میں الجزائر کا ساحلی علاقہ ہتھیا لیا۔ عبدالقادر کی سرکردگی میں پہاڑی علاقوں میں مزاحمت جاری رہی لیکن دھیرے دھیرے ختم ہو گئی ۔ دوسرے مقبوضات کی طرح الجزائر کے استحصال کا بھی فرانسیسی سامراج نے پورا پورا بندوبست کر لیا۔ تمباکو اور انگور کی کاشت کا علاقہ وسیع کیا، کئی بندرگاہیں قائم کیں، ریلوے لائنیں بچھائیں اور سڑکیں تعمیر کیں۔ 1950ء میں صحارا میں تیل نکل آیا جس سے فرانس کی دولت میں مزید اضافہ ہوا۔ بہت سے فرانسیسی یہاں آ کر بسنے لگے۔

آزادی کے وقت تک کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد فرانسیسی تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانہ میں جب اتحادیوں نے یورپ کو نازیوں سے آزاد کروانے کے لیے حملہ کی تیاری شروع کی تو الجزائر میں اتحادیوں نے اپنی فوجی کمان قائم کی۔ چارلس ڈی گال کی عارضی حکومت کا بھی یہ صدر مقام تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب تمام محکوم ملکوں میں آزادی کی لہر پھوٹ پڑی تو الجزائر اس سے نہ بچ سکتا تھا۔ شروع میں یہاں کے باشندوں نے سفید فاموں کے برابر شہری اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کیا تو انہیں سختی سے کچل دیا گیا۔ چنانچہ نومبر 1954ء میں قومی محاذ آزادی (ایف ایل این) قائم ہوا اور اس نے پورے ملک میں زبردست مسلح جنگ شروع کر دی۔ 

الجزائر میں سفید فاموں کے ایک فوجی گروہ نے چند برس بعد اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آزادی بلکہ خود مختاری تک کی مخالفت شروع کی۔ یہاں کے انقلابیوں نے عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ سرحد پر تیونس میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کر دیا اور سوویت یونین ، سوشلسٹ ملکوں ، آزاد افریقی اور ایشیائی ملکوں کی مدد سے باقاعدہ فوج تیار کی۔ آزادی کی یہ لڑائی بڑی خونیں تھی اور بڑے پیمانے پر لڑی گئی۔ تقریباً 10 لاکھ الجزائری باشندوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ سفید فام فوجیوں نے ظلم و تشدد کی انتہا کی۔ آخر کار فرانس کو آزادی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

معروف آزاد


 

نئی دہلی کی آلودہ فضا، سزائے موت کے برابر

$
0
0

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی فضاء اس قدر آلودہ ہو گئی ہے کہ ماہرین صحت نے اسے ’سزائے موت کے مساوی‘ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق آلودگی کی یہ سطح عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کسی ہنگامی صورت تحال کے لئے مقرر کردہ محفوظ حد سے بھی 35 گنا بڑھ چکی ہے ۔ دنیا بھر کے تمام دارالحکومتوں کے مقابلے میں یہ سب سے زیادہ آلودہ فضاء ہے۔ یہاں ہرسال اسموگ کے باعث ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ شہر کی صورتحال ہر نومبر میں اس وقت مزید جان لیوا ہو جاتی ہے جبکہ اس مہینے دیوالی کا جشن پوری آب و تاب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ 

دیوالی پر نہایت وسیع پیمانے پر ملک بھر میں آتش بازی کی جاتی ہے ۔ آتش بازی کا دھواں وپٹاخوں میں استعمال ہونے والا بارود اور اس کی بو پورے ماحول اور فضا ء کو زہریلا بنا دیتی ہے۔ یہی آلودگی یا زہر پوری فضاء کو زہریلا بنا دیتا ہے جس سے انسانوں کی بڑے پیمانے پر اموات ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر کے آغاز ہی سے 2 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے شہر نئی دہلی کے اسپتالوں میں دم گھٹنے سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔عرف عام میں اسے سال کا بدترین وقت بھی کہا جا سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سر گنگا رام اسپتال نئی دہلی کے امراض سینہ کے ماہر سرجن سری نواس گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ’ نئی دہلی کی فضاءان کے لئے سزائے موت کی طرح ہے۔ فضاء میں موجود آلودگی کے ذرات آسانی سے پھیپھڑوں اور خون کی نالیوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔ نئی دہلی کے ہی ایک اور ڈاکٹر اور پھیپھڑوں کے معروف ماہر اروند کمار کے بقول نئی دہلی میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انتہائی آلودہ فضاءمیں سانس لیتا ہے جو اس کی زندگی کے پہلے دن ہی 20 سے 25 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔

آلودگی کے باوجودآتش بازی پر پابندی میں نرمی
بھارتی سپریم کورٹ نے نئی دہلی اور دیگر شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھنے کے باوجود سب سے بڑے تہوار دیوالی کے دوران آتش بازی پر عائد پابندی میں نرمی کر دی ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس دیوالی کے موقع پر آتش بازی پرپابندی عائد کی تھی لیکن اس سال اس فیصلے کے خلاف ہونے والی نئی اپیل مسترد کر دی۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے مئی میں دہلی سمیت 14 بھارتی شہروں کو دنیا کے 15 آلودہ ترین فضا کے حامل شہروں میں شامل کیا تھا۔

7 نومبر کو دیوالی سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کم دھویں والے ’’گرین فائرکریکرز‘‘ فروخت کیے جا سکتے ہیں اور وہ بھی لائسنس یافتہ تاجروں کے ذریعے، آتش بازی کے سامان کی آن لائن فروخت نہیں کی جا سکے گی۔ عدالت نے آتش بازی کا دورانیہ مقرر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رات آٹھ بجے سے دس بجے تک دو گھنٹے آتش بازی کی اجازت ہو گی۔ آتش بازی سے شہر کا مجموعی درجہ حرارت تو بڑھے گا ہی حالیہ ہفتوں کے دوران شہر میں اچانک بڑھ جانے والا اسموگ بھی قابو سے باہر ہو گیا ہے یہاں تک کہ شہریوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک پہننا لازمی ہو گیا ہے ۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

امریکہ الیکشن میں صدر ٹرمپ کی پارٹی کو دھچکا

$
0
0

اب تک کی گنتی کے مطابق ڈیموکریٹس نے اب سے کچھ دیر پہلے تک 182 جبکہ ری پبلیکنز نے 169 نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ڈیموکریٹس، ری پبلیکنز سے ان کی 23 نشستیں چھین لیں اور ڈیموکریٹس ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکی ایوان نمائندگان 435 ارکان پر مشتمل ہے اور ایوان کا کنٹرول حاصل کرنے لیے 218 نشستیں درکار ہیں۔ ڈیموکریٹس نے آج سب سے پہلی اہم کامیابی ورجینیا کے مضافاتی علاقے میں حاصل کی جہاں سے جینیفر ویکسٹن سینیٹر منتخب ہو گئی ہیں۔ سینیٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ڈیموکریٹس کو 51 سیٹوں کی ضرورت تھی تاہم ری پبلکن پارٹی نے سینیٹ کا کنٹرول حاصل کر لیا اور 51 نشستیں جیت لیں جب کہ ڈیموکریٹس نے 42 سیٹں حاصل کیں۔ 

ڈیموکریٹس کے پاس پہلے سے 23 نشسیں موجود تھیں۔ دوسری جانب ری پبلیکنز کے پاس پہلے سے 42 نشستیں موجود تھیں اور انہیں بالادستی کے لیے محض 9 ارکان کی ضرورت تھی۔ ری پبلیکنز کے دو سینیٹر کامیاب ہو ئے ہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غالب امکان یہ ہے کہ سینیٹ بدستور ری پبلیکنز کے کنٹرول میں رہے گی اور ممکنہ طور پر ان کے سینیٹرز کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کا کنٹرول ڈیموکریٹ کے لیے بہت مشکل ہے البتہ ان کے پاس ایوان نمائندگان جیتنے کا امکان موجود ہے، کیونکہ کئی ایسے حلقوں میں جنہیں ری پبلیکنز کے حلقے سمجھا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گنتی میں سبقت کے پیش نظر یہ امکان موجود ہے کہ ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان کی 235 کے لگ بھگ نشستیں جیت سکتے ہیں۔ 

وسط مدتی انتخابات میں ایوان نمائندگان کے لیے 237 خواتین امیدوار بھی میدان میں ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ جب کہ سینیٹ کے لیے 23 خواتین مقابلہ کر رہی ہیں۔ ان میں 185 کا تعلق ڈیموکریٹس اور 52 کا ری پبلیکنز سے ہے۔ خواتین کی کامیابی سے کانگریس میں ان کی نمائندگی پہلی بار 20 فی صد سے بڑھ سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کے انتخابی اکھاڑے میں اترنے کی وجہ’ می ٹو‘تحریک، خواتین کی جانب صدر ٹرمپ کا رویہ، جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعات اور اسقاط حمل کے حق سے متعلق ری پبلیکنز پارٹی کی پالیسیاں ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز پر پابندی لگائی جائے، ترک ادارے کا ٹوئٹر سے مطالبہ

$
0
0

ترک اسلامی ثقافتی فیڈریشن نے ٹوئٹر کو باقاعدہ درخواست ارسال کر دی ہے کہ سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز کو نفرت انگیزی سے روکا جائے۔ ولڈرز اسلام اور مہاجرت مخالف بیانات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہالینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی (پی وی وی) کے رہنما گیئرٹ ولڈرز ایک متنازعہ شخصیت ہیں، جو نہ صرف اسلام مخالف ہیں بلکہ مہاجرین کے بارے میں ’ہتک آمیز‘ بیانات بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو ڈچ حکومت بھی ولڈرز کے متنازعہ بیانات اور اعمال پر ان سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔

ترک اسلامی ثقافتی فیڈریشن (ٹی آئی سی ایف) نے ٹوئٹر سے کہا ہے کہ گیئرٹ ولڈرز اپنے ٹوئٹر پیغامات سے کئی ممالک میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے لیے بنائے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ اس تنظیم نے مزید کہا کہ ان متنازعہ بیانات کی وجہ سے پاکستان، تیونس، مراکش اور انڈونیشیا کے علاوہ متعدد ممالک کے قوانین کے خلاف ورزی کی گئی۔ ٹی آئی سی ایف ہالینڈ میں 144 مساجد کی نمائندگی کرتی ہے۔ ٹی آئی سی ایف کے ترجمان ایجدور کوسے نے کہا، ’’ٹوئٹر نے ولڈرز کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، جس کی مدد سے وہ دنیا بھر میں نفرت انگیزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘ 

انہوں نے اس تناظر میں کہا کہ نہ صرف ولڈرز بلکہ ٹوئٹر بھی ان ممالک میں قابل سزا ہو چکے ہیں۔ کوسے نے کہا، ’’دنیا ہالینڈ سے کہیں بڑی ہے۔‘‘ ٹی آئی سی ایف کے ترجمان نے کہا کہ اگر ٹوئٹر نے تین ہفتوں کے اندر اندر اس کی درخواست کا جواب نہ دیا تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا۔ تاہم کوسے کے مطابق عدالتی دروازہ کھٹکھٹانا آخری قدم ہو گا۔ 

ع ب / ش ح / اے ایف پی

بشکریہ DW اردو
 

اسرائیل نامنظور کیوں؟

$
0
0

قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان سے قبل عین اس وقت کہ جب دوسری طرف سرزمین فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کو قیام بخشنے کی برطانوی سازش تکمیل کو پہنچ رہی تھی، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ، ’’برصغیر کے مسلمان ہر گز یہ قبول نہیں کریں گے کہ فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ برطانوی سامراج اتنی بڑی خیانت کرے جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ارض مقدس فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود بخشنا ہم کسی طور قبول نہیں کریں گے۔ برصغیر کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کریں گے، اور ہر ممکنہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے وہ نظریات و افکار ہیں کہ جن کا ذکر انہوں نے مفتی اعظم فلسطین کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کیا اور برطانوی سامراج کو متنبہ کرتے ہوئے لکھے گئے خطوط میں بھی بارہا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قائداعظم کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصول طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیں گے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد اعظم نے فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا، اور تا حال پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ دنیا بھر میں کارآمد ہے، جبکہ اسرائیل کے لیے نہیں۔ حالیہ دنوں جہاں امریکہ نے ایک طرف فلسطین کا سودا کرنے کے لیے عرب ممالک پر دباؤ بڑھا دیا ہے، وہیں اسرائیل نے بھی چالاکی سے عرب دنیا کے ممالک بالخصوص عرب بادشاہتوں کی نئی نسل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں تا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے قبر میں دفن کر دیا جائے، اور آئندہ آنے والی نسلوں کو فلسطین کا نام تلک یاد نہ رہے۔

امریکی سامراج اور اسرائیل کی اس مشترکہ مہم کا نتیجہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ پاکستان کو بھی اس سازش میں لپیٹنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کی ایک ویڈیو کلپ منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں انہوں نے فلسطین کے مسئلہ کو صرف علمائے کرام تک محدود بتاتے ہوئے تضحیک آمیز لہجے میں تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ فلسطین علمائے دین کا کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں تعینات اسرائیلی سفیر سے ملاقات کی، وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا حرج ہے؟ جبکہ اسرائیل پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور ٹیکنالوجی وغیرہ بھی دے سکتا ہے۔ اسی طرح موصوف نے یہ تاثر دیا کہ شاید مسئلہ فلسطین کی حمایت کرنے والے افراد کی یہودیوں سے دشمنی ہے، اور وہ یہودی دشمنی میں اسرائیل کے مخالف ہیں؟
اپنی گفتگو کے نکات میں کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو مسئلہ فلسطین حل کروانے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ان عرب ممالک کی مثال بھی دی کہ عرب ممالک نے تعلقات قائم کر لیے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟

آئیے اب جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کی خدمت میں انتہائی مودبانہ انداز میں تمام باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات جو انہوں نے کی کہ مسئلہ فلسطین دینی یا علمائے دین کا مسئلہ ہے تو یہ دراصل انہوں نے نہ صرف قائد اعظم کے افکار کی دھجیاں اڑائیں، بلکہ پاکستان کے عوام کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ایک سو ایک برس سے فلسطین کا دفاع کرنے والے فلسطینی شہداء کے لہو کی بھی توہین کی ہے۔ دراصل فلسطین کا مسئلہ مذہب و لسان سے بالاتر ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے۔ یہاں شاید موصوف امجد شعیب صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ فلسطینی عرب مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں جو فلسطین کے دفاع کی ایک طویل لڑائی اور جدوجہد انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔

دوسری بات جو جنرل (ر) امجد شعیب صاحب نے بیان کی ہے کہ شاید مسلمانوں کو یہودیوں سے کوئی تکلیف ہے، اس لیے اسرائیل سے تعلقات نہیں چاہتے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حامی تحریکیں کبھی بھی یہودیوں کی دشمن نہیں، بلکہ شاید جنر ل صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودیوں کی ایک تنظیم موجود ہے جو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور فلسطین کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو واضح ہو کہ مسلمان یہودیوں کے دشمن نہیں، بلکہ اس ظلم اور بربریت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو غاصب اسرائیل اور صہیونزم فلسطین سمیت خطے میں انجام دے رہی ہے۔ اور تحریک آزادی فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور یہودی فلسطینیوں کا خون بھی شامل ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں اسرائیلی سفیر کے ساتھ جو ملاقات کی اس کا احوال تو خود بیان کر دیا، لیکن شاید ایسی کئی اور ملاقاتوں کا ذکر آئندہ کبھی وہ بیان کرنا پسند کریں گے۔ بہر حال اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اسرائیل کے دوست ہو چکے ہیں تو ہم کیوں نہ ہوں؟ یہ ایک اور بڑی غلطی اور پاکستان کے عوام کو اندھے کنویوں میں دھکیلنے کے مترادف ہے کہ اگر عرب ممالک اور ان کی بادشاہتیں اسرائیل کی غلامی اختیار کر چکی ہیں تو ایسا کس کتاب میں آیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام بھی اسرائیل کے غلام بن جائیں؟ اگر اسرائیل کی دوستی اتنی ہی ناگزیر تھی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بارے میں سخت موقف کیوں اپنایا تھا؟ یا یہ کہ اب یہ موصوف قائداعظم اور علامہ اقبال سے زیادہ تجربہ کار اور عقلمند ہیں؟

چوتھی بات میں موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے کیوں نہ ٹیکنالوجی لے اور اس طرح کے شعبوں میں تعاون لے۔ پھر اسی طرح موصوف ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو فلسطینیوں کا ستر سالہ مسئلہ بھی حل کروا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک طرف اسرائیل سے امداد لے اور دوسری طرف مسئلہ فلسطین حل کروانے کی قوت بھی؟ کیا دنیا اس بات کی شاہد نہیں ہے کہ جس جس ملک نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائے یا کوشش کی، اس کے بعد ان ممالک کا کیا حشر ہوا اور    وہ کس حد تک اپنی عزت و آبرو بھی کھو بیٹھے؟ کیا مصر اور دیگر عرب ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں؟ کیا امریکہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی دوست سعودی عرب کو توہین آمیز الفاظ میں دھمکی نہیں دی؟ کیا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے نتیجہ میں فلسطینی عوام کا خون بہنا بند ہو چکا ہے؟ یا یہ کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں آباد کر دیا گیا ہے؟

نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہوا، بلکہ الٹ ہوا ہے۔ اور فلسطینیوں کی مصیبتوں اور مشکلات میں دن بہ دن اضافہ کے ساتھ اسرائیل نے مزید زمینوں کو اپنے قبضہ میں لیا ہے۔ کیا ان حقائق سے ہمارے محترم تجزیہ نگار امجد شعیب آگاہ نہیں ہیں؟
معروف تجزیہ نگار صاحب نے شاید ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یعنی اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے اور تعلقات استوار کرتا ہے تو پھر آج تک جو کچھ بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہوا، پاکستان اس میں برابر کا شریک ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف کشمیر کا مسئلہ بھی سبکدوشی کی طرف چلا جائے گا، جبکہ پاکستان اسرائیل اور ہندوستان تعلقات ہوں گے تو پھر نہ کشمیر کی بات کی جائے گی اور نہ ہی فلسطین کی۔ دراصل امجد شعیب صاحب نے فلسطین و کشمیر کے مسائل کو نمٹانے کا آسان حل پیش کیا ہے، اور وہ حل یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے۔

اس طرح کے بیانات ایسے حالات میں سامنے آ رہے ہیں کہ جب چند روز قبل ہی ایک طیارہ جو اسرائیل سے پروز کرتا ہوا عمان اور پھر اسلام آباد پہنچا، اور دس گھنٹے قیام کے بعد روانہ ہو گیا، یقیناً اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس طیارے میں موجود اسرائیلی لوگوں کی آمد کے کیا مقاصد تھے۔ کیونکہ عین اسی وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو مسقط کا دورہ کر رہے تھے اور قوی امکان ہے کہ نیتن یاہو کے قریبی افراد نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا ہو اور پاکستان میں موجود میر جعفر اور میر صادق سے ملاقاتیں کی ہوں، اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کا ٹاسک دیا ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے وجود کو قبول کرنا یا پاکستان کے لیے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات کرنا دراصل حریت پسند فلسطینی شہداء اور عوام کے ساتھ خیانت ہو گی، اور کشمیر پر بھارتی تسلط اور ناجائز قبضے کو بھی فلسطین کی طرح امر واقعی سمجھ کر قبول کرنا ہو گا۔ اس مائنڈ سیٹ کے حق فروش افراد و طبقات یہ سب انسانیت کی جبین پر بدنما داغ ہیں اور عظیم ترین انسانی اقدار کا سودا مادی مفادات سے کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ایسے تمام صہیونی آلہ کاروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے پاکستان کی بنیادوں سے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور افکار کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے عوام کی فلسطینی و کشمیری بھائیوں کے ساتھ دلی ہمدردی کسی مذہبی یا لسانی تعلق کی محتاج نہیں بلکہ یہ حقیقی انسانی ہمدردی ہے کہ جس کا درس بانیان پاکستان نے قوم کی رگوں میں اتارا تھا۔ ایک اور اہم بات واضح ہو کہ اسرائیل کو قبول نہ کرنے والوں کو ان کا یہودی ہونے پر اعتراض ہرگز نہیں بلکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے کہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں یا کسی اور دین سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمیں اسرائیل کو اس کے غاصب، تجاوز و تسلط اور قاتل ہونے پر اعتراض ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کا وجود فلسطین کی مقدس سرزمین پرقائم کیا گیا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی نا انصافی ہے۔ اور اس کام کے لیے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا بلکہ ستر سال سے تاحال قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل نا منظور۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، صہیونی آلہ کار مردہ باد۔

صابر ابو مریم
 


پاکستانی بینک اور ان کے صارفین ’بڑے سائبر حملے‘ کی زد میں ؟

$
0
0

پاکستانی بینک اور ان کے صارفین ان دنوں ملکی تاریخ کے ’سب سے بڑے سائبر حملے‘ کی زد میں ہیں اور مجموعی طور پر دو درجن کے قریب بینکوں کا ڈیٹا چوری ہو جانے کی خبروں نے ملک کے اقتصادی حلقوں میں ایک طوفان بپا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف حکومت خاموش ہے مگر ملک کے مرکزی بینک نے کئی دن بعد ان خبروں کی جزوی تردید کرتے ہوئے صرف یہ اعتراف کیا ہے کہ محض ایک بینک کا ڈیٹا چوری ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہیکرز نے 22 بینکوں کے جاری کردہ 19 ہزار سے زائد ڈ یبٹ اور کریڈٹ کارڈز کا ڈیٹا چوری کیا ہے، جو ڈارک ویب کی ایک سائٹ پر فروخت کے لیے موجود ہے۔

باخبر ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی بینکوں کے ایسے صارفین کے ویزا کارڈز اور ماسٹر کارڈز سو سے لے کر 160 ڈالر تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔
26 اکتوبر 2018 کو ڈارک ویب پر 9 ہزار ڈیبٹ کارڈز کا ڈیٹا ڈالا گیا تھا، جن میں سے اکثر کارڈز پاکستانی بینکوں کے جاری کردہ تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر صرف بینک اسلامی کا نام ہی سامنے آیا، مگر اس ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا میں پاکستان کے آٹھ دیگر بینکوں کے ہزاروں صارفین کے بینک کارڈز کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ ان ذرائع کا دعوٰی ہے کہ بظاہر ہیکرز نے ڈیٹا اے ٹی ایم مشینوں اور مختلف دکانوں پر لگی مشینوں میں گڑ بڑ کر کے حاصل کیا ہے۔ یہ شبہ بھی ہے کہ یہ کام گزشتہ برس اسی وقت کیا گیا تھا، جب چینی باشندے اے ٹی ایم مشینوں میں جعلسازی کر کے رقوم نکالتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

ذرائع کے مطابق یہ ہیکرز کارڈز کے ڈیٹا فارمیٹ کی کاپی بنا کر اسے کسی بھی اسٹور، کیشن مشین یا شاپنگ کارڈز کی صورت میں استعمال کر سکتے ہیں۔
پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں نے اسٹیٹ بینک کے سائبر سکیورٹی نظام کی قلعی بھی کھول دی ہے اور موجودہ صورت حال اسٹیٹ بینک کی تکنیکی کارکردگی سے متعلق متعدد سوالات کی وجہ بھی بن رہی ہے۔ اس کے برعکس اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے مرکزی بینک نے ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں کا نوٹس لیا ہے اور عابد قمر پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ’’اسٹیٹ بینک کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود ہیں۔ نہ ہی کسی بینک یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جانب سے ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ 27 اکتوبر کو ہیکرز نے بینک اسلامی کے آئی ٹی سیکورٹی نیٹ ورک کو ہیک کیا تھا لیکن اس کے بعد ایسا کوئی اور واقعہ پیش نہیں آیا۔‘‘ ماہرین کے مطابق ایک جانب تو اسٹیٹ بینک ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں کی تردید کر رہا ہے لیکن دوسری جانب صارفین کو ڈیٹا چوری ہونے کی صورت میں فوری طور پر اپنے اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈز کے پن کوڈ تبدیل کرنے کی تجاویز بھی دی جا رہی ہیں۔
ذرائع کے بقول صارفین سے یہ اپیل بھی کی جا رہی ہے کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ حفاظتی تدابیر پر عمل کیا جائے اور ڈیٹا چوری ہونے کے علاوہ بھی ان ہدایات پر عمل کر تے ہوئے عام صارفین اپنے بینک اکاؤنٹس کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں کاروبار کرنے والے مختلف بینکوں کی جانب سے بھی سائبر حملے کے خطرے کے پیش نظر مختلف حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کچھ بینک اپنے اپنے آئی ٹی سسٹم کی سکیورٹی کے حوالے سے پر اعتماد ہیں اور وہ حسب معمول بذریعہ کارڈ لین دین کی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم کچھ بینکوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بین الاقوامی ادائیگیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی بینکوں کے آئی ٹی سسٹم اسٹیٹ بینک کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں اور موجودہ صورت حال میں واضح ہو گیا ہے کہ اس مرکزی مالیاتی ادارے کا مانیٹرنگ سسٹم پرانا اور کمزور ہو چکا ہے۔

ان حالات میں ایک اور فریق ایف آئی اے بھی ہے، جس کا سائبر کرائمز سرکل اس حوالے سے اپنی تحقیقات شروع کر چکا ہے۔ تاہم ایف آئی اے پہلے ہی منی لانڈرنگ کے لیے نجی بینکوں میں جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش میں مصروف ہے اور ملک بھر میں کئی ایسے بینک اکاؤنٹس سامنے آ چکے ہیں، جن میں معمولی نوعیت کی ملازمتیں یا کاروبار کرنے والے افراد کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی رقوم منتقل کی گئی تھیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان بہت بڑی ٹرانزیکشنز کی خود اکاؤنٹ ہولڈرز کو کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) شعیب احمد نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہیکرز بینکوں کا ڈیٹا چوری کرنے کے لیے مسلسل حملے کر رہے ہیں اور اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کو تحریری طور پر آگاہ بھی کیا گیا ہے تاہم ابھی تک اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بشکریہ DW اردو

 

عافیہ صدیقی کا عمران خان کے نام خط

$
0
0

پاکستان نے عافیہ صدیقی کے حوالے سے تحفظات پر امریکا کو آگاہ کر دیا ہے، سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کا موقف ہے کہ عافیہ صدیقی سے متعلق تمام تر بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھا جائے۔ وزیرخارجہ آئندہ ہفتے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملاقات کریں گے، پاکستان نے ایلس ویلز کے دورے میں عافیہ صدیقی کا معاملہ سامنے رکھا۔ واضح رہے کہ امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے وزیراعظم عمران خان سے رہائی میں مدد کی اپیل کی تھی۔

سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط لکھا ہے جو انہوں نے ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل کو جیل میں ملاقات کے دوران دیا۔ عافیہ صدیقی نے خط میں لکھا کہ 'عمران خان نے ماضی میں میری بہت حمایت کی لہٰذا عمران خان میری رہائی میں مدد کریں، میں قید سے باہر نکلنا چاہتی ہوں، امریکا میں میری سزا غیر قانونی ہے کیوں کہ مجھے اغواء کر کے امریکا لایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'عمران خان ہمیشہ سے میرے ہیرو رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک سائنسدان ہیں، جن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
 

صدر ڈونلڈ ٹرمپ صحافی کے سوال پر آپے سے باہر ہو گئے

$
0
0

امریکی مڈٹرم انتخابات کے نتائج پر وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سی این این کے رپورٹر پر چڑھ دوڑے۔ امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت سے متعلق سوال پر ڈونلڈ ٹرمپ آپے سے باہر ہو گئے، رپورٹر کو بُرا بھلا کہا اور عملے کو رپورٹر کا مائیک چھین لینے کا حکم دے دیا۔
روسی مداخلت سے متعلق سوال پر خفا ٹرمپ نے صحافی کو چُپ ہونے کا کہا، بولے وہ کسی روسی مداخلت کو نہیں مانتے، یہ سب افواہ ہے، بیٹھ جاؤ، بہت ہو گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سی این این کے رپورٹر کو مزید کہا کہ امریکی چینل کے لیے شرمناک ہے کہ تم جیسے رپورٹر رکھے ہوئے ہیں، تم غلط خبریں دیتے ہو، چینل چلاتا ہے، تم لوگوں کے دشمن ہو۔ انہوں نے ایک اور صحافی کو بھی ’نسل پرستانہ سوال نہیں کرو‘ کہہ کر چُپ کرا دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کامیاب مہم کے نتیجے میں ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ مڈٹرم الیکشن میں حکمران جماعت نے سینیٹ میں زیادہ نشستیں جیتی ہوں، ایوان نمائندگان نے میرے خلاف تحقیقات کیں تو کوئی اشتراک نہیں ہو گا۔

 

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پانچ لاکھ افراد کو نگل چکی ہے

$
0
0

گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے دوران عراق، افغانستان اور پاکستان میں تقریباً نصف ملین یعنی پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی براؤن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات اور عوامی امور کے شعبے کی جانب سے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق انسداد دہشت گردی کی امریکی جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ اسی ہزار سے لے کر پانچ لاکھ سات ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔ تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس جائزہ رپورٹ کو نیٹا کرافورڈ نے مرتب کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکی اور مقامی فوج ہلاک ہونے والوں کو اکثر شدت پسند قرار دے دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عام شہری ہوتے ہیں، ’’ہمیں شاید کبھی بھی اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہو سکے گا۔

مثال کے طور پر عراق میں موصل اور دیگر شہروں کو داعش کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کی لڑائی میں ہو سکتا ہے کہ ہزاروں عام شہری مارے گئے ہوں، لیکن ان کی لاشیں برآمد نہیں ہو سکیں‘‘۔ اگست 2016ء میں براؤن یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ایک جائزہ شائع کیا تھا، تاہم آٹھ نومبر کو جاری کیے جانے والے اس تازہ جائزے میں مرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ جائزے کے مقابلے میں ایک لاکھ دس ہزار کا اضافہ دیکھا گیا ہے، ’’امریکی عوام، ذرائع ابلاغ اور قانون دانوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن ہلاکتوں میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ختم ہونے کی بجائے اس جنگ میں شدت بدستور موجود ہے۔‘‘

اس جائزے کے مطابق ان سترہ برسوں میں ہلاک ہونے والوں میں شدت پسند، مقامی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے علاوہ امریکی و اتحادی افواج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عراق میں ایک لاکھ اسی ہزار سے دو لاکھ چار ہزار کے درمیان عام شہری ہلاک ہوئے، افغانستان میں یہ تعداد اڑتیس ہزار کے لگ بھگ رہی جبکہ پاکستان میں تیئس ہزار سے زائد عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ عراق اور افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد سات ہزار کے قریب رہی۔ ان اعداد و شمار میں مارے جانے والے ان تمام افراد کو شامل نہیں کیا گیا، جو بالواسطہ طور پر اس جنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے، مثال کے طور پر بنیادی ڈھانچے کے تباہ ہونے یا وبائی امراض پھیلنے سے۔

بشکریہ DW اردو

 

یورپی فوج کی تجویز پر ٹرمپ اور میکخواں کی ’جھڑپ‘

$
0
0

فرانس کےصدر ایمنیوئل میکخواں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین یورپی فوج کی تجویز پر جاری تنازعے کے بعد دونوں رہمناؤں نے ملاقات کی ہے جس میں یورپ کو اپنے دفاع کے لیے زیادہ اخراجات کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں فرانسیسی صدر کی جانب سے 'امریکی، چینی اور روسی'خطرے سے نمٹنے کے لیے یورپی فوج بنانے کی تجویز کو 'ہتک آمیز'قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کی تقریب کی سنچری مکمل ہونے کی تقریب میں شرکت کے لیے پیرس میں موجود ہیں۔ پہلی جنگ عظم کے خاتمے کی تقریب میں 70 ممالک کے نمائندے شریک ہو رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ جب سے صدارت کے منصب پر بیٹھے ہیں وہ یورپی رہمناؤں سے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ یورپ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہت رقم خرچ کر رہا ہے اور یورپ اپنے حصہ اس میں نہیں ڈال رہا۔ پیرس میں ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ اور صدر میخواں نے تسلیم کیا کہ یورپ کو نیٹو کو مضبوط بنانے کے لیے زیادہ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ صدر میخواں نے کہا کہ اگرامریکہ اپنی کسی ریاست کا دفاع کرتا ہے تو اس کے لیے وہ فرانس یا جرمنی کی مدد نہیں مانگتا۔ اسی طرح یورپ کو بھی اپنے دفاع کے لیے نیٹو کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر میخواں نے کچھ روز پہلے کہا تھا کہ ایسے وقت جب امریکہ روس کے ساتھ طے پانے والے تخفیف اسلحہ کے معاہدے سے منہ موڑ رہا ہے، یورپ کو اپنے دفاع کے لیے ایک مشترکہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔

صدر میخواں نے کہا : „ میں روس کے ساتھ سکیورٹی ڈائیلاگ شروع کرنا چاہتا ہوں، روس ایک یورپی ملک ہے، میں اس بہت عزت کرتا ہوں لیکن ہمیں ایسے یورپ کی ضرورت ہے جو امریکہ پر انحصار کیے بغیر اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
صدر میخواں نے ریڈیو یورپ ون کے ساتھ ایک انٹرویوں میں کہا کہ یورپ کی سرحد پر ایسی مطلق العنان حکومتوں کا ظہور ہو رہا ہے جو بہت مسلح ہیں جو سائئبرحملوں کے ذریعے ہماری جمہوری زندگیوں میں مداخلت کر رہی ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو چین، روس اور امریکہ سے بھی بچانا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کی یورپی فوج بنانے کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی صدر کہتے ہیں کہ یورپ کو امریکہ، چین اور روس سے بچانے کے لیے اپنی فوج بنانا چاہیے۔ بہت ہی ہتک آمیز ہے لیکن یورپ کو شاید پہلے نیٹو میں اپنا منصفانہ حصہ ڈالنا چاہیے، جو امریکی امداد سے قائم ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو


 

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live