↧
پاکستان کو سعودی عرب سے 4 ارب ڈالر مل جائینگے؟
↧
بین الاقوامی فوج داری عدالت نے روہنگیا معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں
بین الاقوامی فوج داری عدالت نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی عبوری تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے میانمار کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ہالینڈ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن، ملک بدری اور اس سے متعلق امور کی بابت شواہد اور ثبوت جمع کیے جائیں گے، جب کہ اس کے بعد اس معاملے کی مکمل تفتیش شروع کر دی جائے گی۔ گزشتہ برس اگست میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد قریب سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے سرحد عبور کر کے بنگہ دیش میں پناہ لی تھی اور یہ لاکھوں افراد اب بھی بنگلہ دیش کے مخلف مقامات پر قائم کچی بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عالمی فوج داری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ ان رپورٹوں کا جائزہ لے رہی ہیں، جن کے مطابق ’’ایسے مشتبہ واقعات پیش آئے ہیں، ممکنہ طور پر جن کی وجہ سے روہنگیا افراد کو گھربار چھوڑنا پڑا۔ اس طرح روہنگیا افراد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی جب کہ ان کے قتل، جنسی زیادتی، تشدد، جبری گم شدگی، مکانات کی تباہی اور لوٹ مار جیسے اقدامات کے الزامات کی تفتیش کی جانا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ میانمار کی فوج پر الزام ہے کہ اس کے انتہائی سفاک کریک ڈاؤن کی وجہ سے سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس معاملے کی عبوری تفتیش کا آغاز ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے، جب فقط دو ہفتے قبل اس عالمی عدالت کے ججوں نے پراسیکیوٹر کو بنسودا کو اجازت دی تھی کہ وہ میانمار کے معاملے کی تفتیش کرے۔ یہ بات اہم ہے کہ میانمار ’معاہدہ روم‘ کا دستخط کنندہ نہیں ہے، جس کے تحت اس عالمی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ عالمی عدالت کا تاہم کہنا تھا کہ چوں کہ اس معاملے میں سرحد عبور کر کے روہنگیا افراد اس ملک میں داخل ہوئے، جو عالمی عدالت کا حصہ ہے، اس لیے اس معاملے کی تفتیش کی جا سکتی ہے۔
↧
↧
مثالیں ریاست مدینہ کی اور نظام سودی
وزیر اعظم عمران خان بار بار دہراتے ہیں کہ ریاست مدینہ اُن کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور اُن کی کوشش ہو گی کہ اسی رول ماڈل کی مثال کو سامنے رکھ کر وہ پاکستان میں تبدیلیاں لائیں ۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران کہا اُن کے اور تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے حضرت محمد ﷺ کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے۔ اپنی حکومت کا سپلیمنٹری بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان ستائیس رمضان المبارک کو قائم ہوا جو اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ ملک ان شاء اللہ قائم بھی رہے گا اور روشن اور مضبوط بھی ہو گا۔
اپنے انتخابی منشور میں بھی تحریک انصاف نے ریاست مدینہ کو اپنا رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ گویا اگر تحریک انصاف کے منشورپر نظر ڈالی جائے یا اس کی حکومت کے اعلیٰ ترین ذمہ داروں کی باتوں کو سنا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ہی اس حکومت کی تمام پالیسیوں کی بنیاد ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے اپنے سپلیمنٹری بجٹ کی تجاویز کو پیش کرتے وقت سود کے معاملے کو ویسے ہی چھوڑ دیا جیسے وہ پہلے سے چلتا آ رہا ہے۔ چند روز قبل خان صاحب نے کہا کہ ملک چلانے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں جبکہ روزانہ چھ ارب روپے سود کی ادائیگی کے صورت میں حکومت کو دینے پڑتے ہیں۔ بجٹ پیش کرتے وقت اسد عمر نے بھی یہی بات کی کہ ہم ایک ایسی حالت کو پہنچ چکے ہیں جہاں قرضہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ سود کی ادائیگی ہو سکے۔
یعنی اس بات کا سب کو احساس ہے کہ سود نے ریاست پاکستان کی مالی حیثیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ مجھے اس بات کا بھی یقین کہ عمران خان، اسد عمر اور دوسرے حکومتی ذمہ داروں کو اس بات کا بھی علم ہو گا کہ سود کے لین دین کی اسلام میں اور ریاست مدینہ میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ ایک ایسا کبیرہ گناہ ہے جس سے قرآن وحدیث نے نہ صرف مسلمانوں کو سختی سے روکا ہے بلکہ اس کے متعلق شرعی احکامات کے بعد سود کا لین دین کرنے والے کے لیے آخرت میں دوزخ کی وعید سنائی گئی اور دنیا میں ایسے لین دین کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے جنگ قرار دیا گیا۔
پاکستان کا آئین بھی سود کے فوری خاتمے کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی حکومت نے سود کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر سال کے بجٹ میں کم از کم ایک تہائی بجٹ صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ موجودہ سال 2018-19 کے بجٹ کی کل تخمینہ 5246 ارب روپے میں سے 1620 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں اور اسی کا رونا عمران خان رو رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر چھ ارب روپے سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مدینہ کی ریاست کو اپنے سامنے مثال رکھنے والوں نے نہ تو اپنے سپلیمنٹری بجٹ میں سود کے خاتمے کی کوئی بات کی اور نہ ہی وزیر اعظم نے اپنی معاشی مشیروں کی کونسل (Economic advisory council) میں کسی اسلامی معیشت دان کو شامل کیا تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
گویا عمران خان اور اُن کی حکومت کو اس بات کا تو احساس ہے کہ سود پاکستان کو کھائے جا رہا ہے لیکن اس گناہ کبیرہ سے جان چھڑوانے کےلیے کوئی سنجیدہ سوچ بچار نہیں کی جا رہی۔ میری چند معاشی ماہرین سے بات ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے مختص رقم (1620 ارب روپے) میں سے تقریباً ایک سو ارب روپے کا تعلق بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی سے ہے جبکہ باقی رقم یعنی تقریباً 1500 ارب روپے اندرون ملک قرضوں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بینکوں کو ہی سود کی صورت میں ریاست کو ادا کرنا ہیں۔ چلیں بیرونی قرضوں پر سود کا معاملہ تو مکمل طور پر ہمارے ہاتھ میں نہیں لیکن ریاست پاکستان اور عوام کو سود کی صورت میں جس بدترین استحصال کا سامنا ہے وہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔
یعنی بڑا مسئلہ ہمارا آپس میں سودی لین دین ہے جس سے باہر کی دنیا کا کوئی تعلق نہیں۔ افسوس کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ کر کے بھی اپنے دور حکومت میں سود کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کیا لیکن ریاست مدینہ کے رول ماڈل سے رہنمائی لینے کا دعویٰ کرنے والوں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس لعنت سے پاکستان کی قوم کی جان چھڑائیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا توکچھ بھی کر لیں سود ہمیں لے ڈوبے گا اور اگر آج ہم اربوں ڈالرزکے قرضے سود کی ادائیگی کے لیے لیتے ہیں تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب ہمارا سارے کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی پر خرچ ہو گا۔
میری صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، وزیر خزانہ اسد عمر اور پارلیمنٹ کے تمام ممبران سے گزارش ہے کہ خدارا سود کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تاکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جاری اس جنگ کو روکا جا سکے۔ اسلام کے نام پر ستائس رمضان المبارک کو قائم ہونے والے ملک میں ایسی کسی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں جو اگر جاری رہی تو نہ ہم دنیا کے رہیں گے نہ آخرت کے۔
انصار عباسی
↧
روس ترکی معاہدہ شام کو تباہی سے کب تک بچائے گا ؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ اُس کی فوجیں عراق اور شام میں داعش کو شکست دینے کے قریب پہنچ چکی ہیں اور اُس کا ان دونوں ملکوں سے فوجیں واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ امریکی فوج اُن علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لئے موجود رہے گی جہاں دہشت گردی اور تنازعے نے شدت اختیار کر رکھی ہے۔ اس اعلان سے قبل روس اور ترکی کے درمیان ادلب صوبے میں سرکاری فوجوں اور باغیوں کے درمیان غیر فوجی علاقے کے تعین پر اتفاق ہوا تھا۔ شام میں سات برس سے جاری لڑائی میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی غرض سے روس کی مدد سے سرکاری فوجوں کی بھرپور کارروائی جاری ہے اور اب’ ادلب‘ مخالف فوجوں کے زیر قبضہ آخری علاقہ رہ گیا ہے۔
حلب اور باغیوں کے زیر قبضہ دیگر علاقوں پر حملوں کے باعث وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی ہے اور خدشہ ہے کہ بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹیفن ڈی مسٹورا نے روس اور ترکی کی طرف سے امن کا ضامن بننے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جبکہ سمجھوتہ طے پا گیا ہے، سیاسی عمل کو جلد آگے بڑھانے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ تاہم اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویزیلی نیبین زیا نے سٹیفن ڈی مسٹورا کو باور کرایا ہے کہ امن کے ضامنوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے دباؤ ڈلوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
اُنہوں نے کہا کہ روس سلامتی کونسل کے رکن تمام ممالک کے مقابلے میں شام میں سیاسی عمل کو فروغ دینے کے لئے زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اُنہوں نے شام کے لئے اقوام متحدہ کے نمائندے کو مشورہ دیا کہ وہ اس عمل کی قیادت کرنے کے بجائے صرف مدد دینے پر اکتفا کریں۔ اُدھر امریکہ نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا روس شام میں پر امن حل کے لئے واقعی سنجیدہ ہے۔ شام کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز جیفرے نے کہا ہے کہ اگر روس حقیقی طور پر شام میں قیام امن کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہئیے کہ ایران اور اُس کی ملیشیا شام سے مکمل طور پر نکل جائیں۔ اس تناظر میں تجزیہ کار اور اہل کار سوال کرتے ہیں کہ حالیہ سمجھوتہ کب تک قائم رہ سکے گا۔ انسانی بھلائی کے لئے اقوام متحدہ کے انڈر سیکٹری مارک لو کاک کہتے ہیںِ کہ کیا یہ صرف عارضی سمجھوتہ ہے یا پھر یہ اُمید کی آخری کرن ہے؟‘
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
میں نے اپنے صارفین کی پرائیویسی فیس بک کو فروخت کر دی
واٹس ایپ جیسی دنیا کی مقبول ترین مسیجنگ اپلیکشن تشکیل دینے والے افراد میں سے ایک برائن ایکٹن اس بات پر پچھتاوا ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے صارفین کی پرائیویسی فروخت (فیس بک کو) کر دی۔ امریکی جریدے فوربس کو دیئے گئے انٹرویو میں واٹس ایپ کے شریک بانی نے ایک سال بعد خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ آخر انہوں نے ایک سال پہلے فیس بک چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور آخر کیوں انہوں نے فیس بک پر واجب الادا 85 کروڑ ڈالر (ایک کھرب پاکستانی روپے سے زائد) چھوڑ دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ سے کمانے کے طریقہ کار کے حوالے سے فیس بک کے اندر تنازعات تھے۔ خیال رہے کہ فیس بک نے 2014 میں واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالرز کے عوض خریدا تھا۔
انٹرویو کے دوران برائن ایکٹن نے بتایا کہ مارک زکربرگ اور فیس بک کے دیگر عہدیداران واٹس ایپ کے صارفین کے لیے ٹارگٹڈ اشتہارات چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ بزنس اینالسٹ ٹولز کو فروخت کیا جائے گا اور ان منصوبوں سے انہیں اتفاق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا 'میں نے اپنی کمپنی فروخت کر دی، میں نے اپنے صارفین کی پرائیویسی بڑے منافع کے لیے بیچ دی، میں نے ایک انتخاب کیا اور لوگوں کی پرائیویسی پر سمجھوتہ کیا، اب اس پچھتاوے کے ساتھ میں زندگی گزار رہا ہوں'۔ رواں سال مارچ میں جب فیس بک اینالیٹکا ڈیٹا اسکینڈل کی زد میں تھی تو برائن ایکٹن نے ڈیلیٹ فیس بک مہم کا ٹوئیٹ کیا تھا جبکہ ان کے ساتھی اور واٹس ایپ کے شریک بانی جان کوم نے اپریل میں فیس بک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اسی طرح رواں ہفتے انسٹاگرام کے دونوں بانیوں نے بھی فیس بک سے استعفیٰ دے دیا جس کی کوئی واضح وجہ تو نہیں بتائی گئی مگر مختلف رپورٹس کے مطابق ان دونوں کے بھی فیس بک کی جانب سے انسٹاگرام میں مداخلت پر مارک زکربرگ سے اختلافات تھے۔ برائن ایکٹن کو فیس بک کو الوداع کہنے پر 85 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا، اگر وہ 6 ماہ بعد ایسا کرتے تو انہیں یہ رقم اسٹاک کی شکل میں ملتی۔ انہوں نے اب بتایا کہ فیس بک کی جانب سے واٹس ایپ سے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے پیسے کمانے پر مسلسل زور دیا جارہا تھا جبکہ وہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے فیچر کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی، جس کے بارے میں جان ایکٹن کا ماننا تھا کہ یہ صارفین کی پرائیویسی کے لیے بہت ضروری فیچر ہے۔
انہوں نے پہلی بار تصدیق کی کہ واٹس ایپ کے بانیوں اور فیس بک سی ای او مارک زکربرگ اور سی او او شیرل سینڈبرگ کے درمیان تعلقات میں بہت زیادہ سرد مہری تھی۔ جان ایکٹن کی جانب سے واٹس ایپ میں اشتہارات دکھانے کے فیس بک منصوبے کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور جب یہ فیصلہ کر لیا گیا تو انہوں نے کمپنی کو چھوڑ دیا۔ واٹس ایپ کو خریدنے کے موقع پر جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اگر فیس بک نے بانیوں کی مرضی کے خلاف اشتہارات کو متعارف کرایا تو اپنے اسٹاک لے کر الگ ہو سکیں گے.
فیس بک کے وکلاء کے خیال میں واٹس ایپ سے کمانے سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ برائن ایکٹن نے بتایا 'اس ملاقات میں زکربرگ نے مجھے کہا یہ ممکنہ طور پر آخر بار ہے جب تم مجھ سے بات کر رہے ہو'۔ 3 سال تک فیس بک میں رہنے کے باوجود برائن ایکٹن کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی مارک زکربرگ کے قریب نہیں ہو سکے 'میں آپ کو اس شخص کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں بتا سکتا'۔ گزشتہ سال برائن ایکٹن نے ایک میسجنگ ایپ سگنل میں 5 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو کہ واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے۔
↧
↧
فیس بک صارفین کے پانچ کروڑ اکاؤنٹس پر سائبر حملہ
سماجی رابطے کی سائٹ فیس بک کا کہنا ہے کہ ہیکرز نے اس کے ایک فیس 'وویو ایز'کا استعمال کرتے ہوئے پانچ کروڑ فیس بک اکاؤنٹس پر حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد انہیں ان تمام فیس بک اکاؤنٹس کا کنٹرول حاصل ہو گیا۔ فیس بک کے مطابق اس نے پولیس کو اس بارے میں مطلع کر دیا ہے۔ اس حملے سے متاثر ہونے والے افراد کو دوبارہ لاگ اِن کرنا پڑا۔ فیس بک کے شعبے پراڈکٹ مینجمنٹ کے نائب صدر گائے روزن کا کہنا ہے یہ خامی ٹھیک کر دی گئی ہے۔ اور تمام متاثرہ اکاؤنٹس کو دوبارہ سیٹ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ احتیاطی تدبیر کے طور پر چار کروڑ مزید اکاؤنٹس کو بھی ری سیٹ کیا گیا۔ فیس بک کے دو ارب سے زیادہ ماہانہ فعال صارفین ہیں اور اس کے حصص میں تین فیصد کی کمی ہوئی۔
متاثرین کون ہیں؟
کمپنی یہ نہیں بتائے گی کہ یہ پانچ کروڑ صارفین دنیا کے کس حصے کے ہیں تاہم انھوں نے یورپی صارفین سے متعلق آئرلینڈ میں فیس بک کی یورپیئین ڈیٹا نگرانوں کو اس کی اطلاع کر دی ہے۔ ممکنہ طور پر متاثرین کو فیس بک لاگ ان دوبارہ کرنے کا پیغام ملا۔ تاہم فیس بک کا کہنا ہے کہ صارفین کو اپنا پاس ورڈ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ گائے روزن کا کہنا تھا ’چونکہ ہم نے ابھی اس کی تحقیقات شروع کی ہیں اور ابھی یہ علم نہیں کہ صارفین کے اکاؤنٹس کا غلط استعمال ہوا یا ان کی معلومات تک رسائی حاصل ہوئی۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے اور اس کا تعلق کہاں سے ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’لوگوں کی پرائویسی کا تحفظ بہت اہم ہے اور ہم اس سب کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘
یہ ’ویو ایز‘ کیا ہے؟
فیس بک کا ویو ایز کا فنکشن ایک پرائیویسی فیچر ہے جس میں لوگ یہ دیکھ سکتے ہیں ان کی ان اپنی پروفائل دیگر صارفین کو کیسے نظر آتی ہے۔ اس میں یہ پتا چلتا ہے کہ ان کے دوست اور دوستوں کے دوست یا دیگر عوام ان کی پروفائل میں کیا کیا دیکھ سکتے ہی۔ ’حملہ آوروں نے اس فیچر میں کئی وائرس پائے جن کی مدد سے وہ فیس بک کے ٹوکن چرانے میں کامیاب ہو گئے اور پھر انہیں دوسروں کے فیس بک اکاؤنٹس تک رسائی مل گئی۔‘ روزن کے مطابق ’یہ فیس بک ٹوکن دراصل ڈیجیٹل کیز کے برابر ہوتے ہیں جو انہیں فیس بک پر لاگ ان رکھتے ہیں اور انہیں ایپ میں بار بار پاس ورڈ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔‘
اس حملہ کا فیس بک پر کیا اثر پڑے گا ؟
یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب فیس بک قانون سازوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کے ہاتھ میں موجود صارفین کا ڈیٹا محفوظ ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ کمپنی سکیورٹی کو سنجیدگی سے لیتی ہے تاہم اس پر برے لوگوں کی جانب سے بار بار حملے کیے جاتے ہیں۔‘
ڈیو لی ٹیکنالوجی رپورٹر، شمالی امریکہ
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
ایف-35 فائٹر جیٹ : دنیا کا مہنگا ترین جنگی جہاز گر کر تباہ
امریکی فوج کو اپنے انتہائی مہنگے ایف-35 فائٹر جیٹ پروگرام میں پہلا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک ایف - 35 بی جیٹ جنوبی کیرولینا میں گر کی تباہ ہو گیا ۔ امریکی میرن کور نے کہا کہ پائلٹ بحفاظت طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلنے میں کامیاب رہا اور یہ کہ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ میرن کور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طیارے کے حادثے کے معاملے میں جانچ جاری ہے۔ ایف - 35 دنیا میں اپنی قسم کا سب سے وسیع اور مہنگا اسلحہ جاتی پروگرام ہے۔ عالمی سطح پر اس کے تین ہزار طیارے فروخت کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ پروگرام 30 سے 40 سال تک جاری رہے گا۔ لیکن اس پروگرام کو اس کی قیمت اور جنگی صلاحیت کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
جو جیٹ طیارہ حادثے کا شکار ہوا ہے اس کی قیمت دس کروڑ ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ حالانکہ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پینٹاگون کے ایک نئے معاہدے میں بتایا گیا ہے کہ 141 ایف - 35 جیٹ طیاروں کی قمیت تقریباً نو کروڑ ڈالر فی طیارہ ہے۔ یہ ماڈل ایف - 35 طیاروں کی تین اقسام میں سے ایک قسم ہے جو کہ اپنے کام پر معمور ہے۔ امریکہ نے ایف - 35 بی کا افغانستان میں طالبان کے خلاف پہلی بار استعمال کیا۔ اس سے چار ماہ قبل اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے ایف - 35 اے کا دو مختلف حملوں میں استعمال کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار ایف - 35 جیٹ طیاروں کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی ہے کہ دشمن اسے 'دیکھ نہیں سکتا۔'جبکہ یہ جیٹ ایسا نہیں ہے کہ نہ نظر آئے۔ اس کے بنیادی کنریکٹر لوکہیڈ مارٹن کا کہنا ہے کہ 'چھپنے کی اس کی جدید صلاحیت'کی وجہ سے یہ راڈار کی گرفت سے باہر رہتا ہے۔
↧
انڈونیشیا میں ہولناک زلزلے کے بعد سونامی سے تباہی
انڈونیشیا میں شدید زلزلے کے بعد آںے ولے بدترین سونامی سے تقریباً 400 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہو گئے۔ زلزلہ وسطی انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی میں آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5 ریکارڈ کی گئی، زلزلہ اتنا شدید تھا کہ کئی کلومیڑ دور علاقوں میں موجود افراد نے بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے۔ سونامی کے نتیجے میں 20 فٹ اونچی لہریں بلند ہوئیں جبکہ زلزلے کے سبب کئی مقامات پر سڑک میں دراڑیں پڑ گئیں۔ زلزلے سے سب سے زیادہ شہر پالو متاثر ہوا جس کی آبادی ساڑھے 3 لاکھ کے لگ بھگ تھی، بلند عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں جبکہ کئی گھر مکمل طور پر زمین بوس ہوگئے۔


↧
کیا شام میں واقعی روس کے ارادے خطرناک ہیں ؟
روس زمین سے فضا میں مار کرنے والے اپنے جدید ترین ایس 300 میزائلوں کو شام کو فروخت کرنے کی بات گزشتہ ایک دہائی سے کر رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس میں ایک عنصر تو اسرائیل کی سفارتی کوششوں کا ہے اور دوسرا شام میں اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی فضائی کارروائیوں سے روس کی لاتعلقی۔ لیکن روس اب ایسے اشارے دے رہا ہے کہ شام پر اسرائیل کے فضائی حملے اس کی حکمت عملی کے خلاف ہیں اور اس کی اسرائیل اور شام کے معاملات میں غیر جانبداری کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ سنہ 2011 میں پہلی مرتبہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ روس اپنے جدید ترین میزائلوں ایس 300 کی چار بیٹریاں شام کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
ہر بیٹری چھ لانچ وہیکل یا میزائل داغنے والے ٹرک پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ نگرانی اور نشاندہی کرنے والے راڈار اور ایک کمانڈر پوسٹ بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ دفاعی نظام انتہائی جدید اور متحرک سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے شام کی دفاعی صلاحیتوں میں کوئی انقلابی اضافہ نہیں ہو گا۔ شام کے پاس پہلے ہی ایسے میزائل موجود ہیں جو وہی کام کرتے ہیں جو روسی میزائل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب یہ روسی میزائل شام کی دیگر میزائل بیٹریوں اور راڈاروں سے منسلک ہو جائیں گے تو اِس کا فضائی دفاعی نظام اور زیادہ موثر ہو جائے گا۔
ایس 300 میزائلیوں کے علاوہ روس کا ارادہ ہے کہ وہ شام کے فضائی دفاعی کمانڈ پوسٹ کو خود کار نظام مہیا کرے جو روس کے وزیر دفاع سرگئی شاواگو کے الفاظ میں اس بات کو یقنی بنائے گا کہ شام کی تمام ایئر ڈیفنس تنصیبات اور فضائی نگرانی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کا نظام ایک مرکز سے کنٹرول ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ روس کی فضائیہ کے فضا میں موجود تمام جہازوں کی نشاندھی بھی یقینی ہو جائے گی۔ یہ بات شام کے موجودہ فضائی نظام میں پائی جانے والی خامی کا ایک طرح سے اعتراف بھی جس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کی طرف سے ایک فضائی حملے کے دوران روس کے نگرانی کرنے والے جہاز الیوشن 20 کو حادثاتی طور پر نشانہ بنا کر تباہ کر دیا تھا۔ روس واضح طور پر شام کے ایئر ڈیفنس پر اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا وہ واقعی اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی فضائی کارروائیوں کا سدِباب کرنا چاہتا ہے۔
سرگئی شاواگو نے مزید کہا ہے کہ بحیرہ احمر کے شام سے متصل کچھ حصوں پر سٹلائٹ سے نگرانی، راڈاروں اور شام پر حملہ آور ہونے والے لڑاکا طیاروں کے مواصلاتی نظام کی ریڈیو الیکٹرانک جامنگ بھی کی جائے گی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شام روس میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن ماسکو سے اس ضمن میں متضاد بیانات اور اشارے مل رہے ہیں۔
روس کی وزارت دفاع نے اپنے فضائی نگرانی کرنے والے جہاز کو نشانہ بنائے جانے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اور اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کے طیاروں نے شامی فوج کے ایک اڈے کو نشانہ بنایا تھا جہاں لبنان کے شیعہ مسلح گروہ حزب اللہ کو ایران کی طرف سے اسلحہ بنانے والی مشینین پہنچائی جا رہی تھیں۔ اسرائیل نے مزید کہا تھا کہ جس وقت روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا اس کے طیارے اپنی کارروائی مکمل کر کے واپس پہنچ چکے تھے اور اس واقعہ کا ذمہ دار اس نے شامی فوج ، ایران اور حزب اللہ کو قرار دیا۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے ایک دفاعی وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تاکہ وہاں اپنی وضاحت پیش کی جا سکے۔
اسی دوران روس کے صدر ولادمیر پوین نے غالباً اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اس ساری صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ یہ تنازع اس وقت بحرانی کیفیت اختیار کرتا نظر آ رہا تھا جب روس کی وزارتِ دفاع نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اسرائیلی ہوا بازوں کو غیر پیشہ وارانہ رویے اور مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس کے دو دن بعد ہی روس نے شام کو ایس 300 میزائیل فروخت کرنے کا اعلان کر دیا۔ لہٰذا اب روس کی کیا پوزیشن ہے اور اس نظام کی فراہمی سے کیا فرق پڑے گا اورشام کا ایئر ڈیفنس کس حد تک مضبوط ہو سکے گا۔ روس کے موقف میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شام کے شہر لتاکیہ میں روس کے فضائی اڈے پر جدید ترین روسی میزائل اور راڈار موجود تھے ۔ یہ بڑی آسانی سے اسرائیل کو کہہ سکتا تھا کہ شامی فضائی حدود کا دفاع کرنے کے لیے وہ ان کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن بظاہر اس نے ایسا نہیں کیا۔
روسی فوج میں بجا طور پر اپنے ایک انتہائی جدید جہاز کی تباہی اور پندرہ فوجیوں کی ہلاکت پر غم اور غصہ پایا جاتا ہے اور ماسکو کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن کیا اس غصے کا رخ اسرائیل کے بجائے اپنے اتحادی شام کی طرف ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہ روس کے فضائی اڈے سے انتہائی قریب اسرائیل نے حملہ کر کے سرخ لائن عبور کر لی ہے۔ اسرائیل کھلے بندھوں کہہ چکا ہے کہ حزب اللہ کو ایران کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی اور شام میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کو روکنا اس کے دفاعی ترجیحات میں شامل ہیں۔ مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روس یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ شام پر اسرائیل حملوں کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتا جو اس کے خیال میں شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر واقعی روس کا یہ ارادہ ہے تو اسرائیل کو اب احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں شام میں اس حوالے سے کئی کشیدہ لمحات اور غیرمتوقع دھچکے لگ سکتے ہیں۔
جوناتھن مارکس
تـجزیہ نگار، دفاعی و سفارتی امور
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
جمہوریہ چیک کا دارالحکومت پراگ : ایک تاریخی شہر
پراگ (Prague) یورپ میں واقع جمہوریہ چیک کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ ملک کا سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور تعلیمی مرکز ہے۔ وسطی بوہیمیا میں دریائے ولتواوا کے کنارے واقع یہ شہر تقریباً 13 لاکھ آبادی کا حامل ہے۔ یہ یورپی یونین کا 14 واں سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر تقریباً ایک ہزار سال قدیم ہے۔ یہاں پر بہت سے تاریخی اہمیت کے مقامات واقع ہیں۔ ان میں پراگ کیسل، چارلز برج اور اولڈ ٹاؤن سکوائر شامل ہیں۔ تاریخی اہمیت کے سبب پراگ کے مرکزی علاقے کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ شہر میں دس سے زائد بڑے عجائب گھر ہیں۔ یہاں تھیٹروں، گیلریوں اور سینماؤں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ یہاں سب سے پہلے پراگ کیسل بنا تھا۔ پھر اس کے اردگرد آبادی بڑھتے بڑھتے شہر کی شکل اختیار کر گئی۔
پہلی عالمی جنگ میں آسٹرو ہنگری سلطنت کی شکست کے بعد چیکوسلواکیہ وجود میں آیا۔ پراگ کو اس کا دارالحکومت بنایا گیا۔ اس وقت پراگ صنعتی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ شہر تھا۔ 1930ء میں اس کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ تھی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران ایڈولف ہٹلر نے 15 مارچ 1939ء کواپنی فوجوں کو پراگ میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ تاریخ کے زیادہ تر ادوار میں پراگ میں متعدد قومیں بیک وقت آباد رہیں جن میں جرمن اور چیک اہم ہیں۔ ایک بڑی تعداد یہودیوں پر مشتمل تھی۔ نازیوں کے قبضے کے دوران ان کی زیادہ تر آبادی کو بے دخل کر دیا گیا یا مار دیا گیا۔ 1942ء میں پراگ میں نازی جرمنی کے انتہائی طاقت ور رہنما ریہارڈ ہائیڈرخ کو قتل کیا گیا جس کے بعد ہٹلر نے خونیں ردعمل کا حکم دیا۔
فروری 1945ء میں امریکی ایئر فورس نے متعدد بار بمباری کی۔ اس کے نتیجے میں 701 افراد ہلاک اور ایک ہزار زخمی ہوئے۔ تاہم بیشتر تاریخی عمارات محفوظ رہیں۔ دوسرے شہروں کی نسبت پراگ کو اس جنگ کے دوران کم نقصان پہنچا۔ جرمنوں کے قبضے کے خاتمے سے قبل ان کے خلاف بغاوت نے جنم لیا۔ اس دوران سڑکوں اور گلیوں میں خونیں لڑائیاں ہوئیں۔ چند دن بعد سوویت یونین کی سرخ فوج یہاں داخل ہو گئی جس کی قابل ذکر مزاحمت نہ ہوئی۔ سرد جنگ کے دوران اس پر سوویت یونین کا سیاسی اور عسکری کنٹرول رہا۔ یہاں سوویت حاکم جوزف سٹالن کے سب سے بڑے مجسمے کا افتتاح 1955ء میں ہوا اور اسے 1962ء میں تباہ کر دیا گیا۔
چیکوسلواکیہ کے مصنفین کی چوتھی کانگریس نے حکومت وقت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔ 31 اکتوبر 1967ء کو طلبہ نے شہر کے ایک مقام پر احتجاج کیا۔ اس کے بعد ’’بہارِ پراگ‘‘ کا آغاز ہوا جس میں ملک میں اداروں کی جمہوری تشکیل نو کا ارادہ کیا گیا جس کا ساتھ اس وقت کے مقامی کمیونسٹ رہنماؤں نے بھی دیا۔ لیکن وارسا پیکٹ کے ممالک، سوائے رومانیہ اور البانیہ کے، 21 اگست 1968ء کو ٹینکوں کے ساتھ ملک میں داخل ہو گئے اور اصلاحات کے عمل کو روک دیا۔ چیکو سلواکیہ کے چیک اور سلواکیہ کی صورت میں الگ الگ ملک بن جانے کے بعد پراگ جمہوریہ چیک کا دارالحکومت قرار پایا۔
ترجمہ: ر۔ع
↧
فنوم پنہ...ایک تاریخی شہر
فنوم پنہ کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے اور ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔ یہ شہر 1970ء کی دہائی میں جنگ و جدل کے دوران بْری طرح تباہ و برباد ہو گیا تھا اور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہو گئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی اور اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چین کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔
اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔ فنوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کر دئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے فنوم پنہ کی یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔ 1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔
یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کے لیے گوتم بدھ کے مندر اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Thom Angkor کو اپنا گڑھ بنا لیا۔ فنوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہی کے زیرتسلط رہا۔ 1970 کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کے لیے کام کیا۔ لہٰذا 1980 میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔
محمد دانیال
↧
کوئی مسلم ملک اویغور مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں بولتا ؟
چین ایک ایسا ملک بنتا جا رہا جہاں ہمہ وقت آپ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جہاں آپ ذرا سی غلطی پر سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ جہاں سوچ پر بھی پہرہ ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں غیر ملکی صحافیوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔' یہ چین کے بارے میں بی بی سی کے ایک صحافی کا تجزیہ ہے جس کا احساس انھیں رواں سال چین کے بڑے علاقے سنکیانگ کے دورے کے دوران ہوا۔
'زندہ لوگ مردہ بن کر نکلے'
’مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گيا ہے۔ لاکھوں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ افراد کیمپ سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں۔‘
بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں انسانی حقوق کے اویغور پروجیکٹ کے نوری تاکیل نے یہ باتیں کہی ہیں۔
'اس سے بہتر گولی مارو'
'میری ماں اور بیوی کو کیمپ میں لے جایا گیا۔ انھیں لکڑی کی سخت کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ میری بدنصیب ماں کو روزانہ اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری بیوی کا گناہ بس اتنا ہے کہ وہ اویغور مسلمان ہے۔ اس کی وجہ سے، انھیں ایک علیحدہ کیمپ میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں زمین پر سونا پڑتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میری ماں اور بیوی کو چینی حکومت تڑپا تڑپا کر مارے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انھیں گولی مار دو۔ گولی کے لیے پیسے میں دوں گا۔' یہ ان ہزاروں اویغور مسلمانوں میں سے ایک مسلمان عبدالرحمن کی آپ بیتی ہے جو کسی طرح سے جان بچا کر ترکی جانے میں کامیاب ہوئے۔
'میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے'
بی بی بی کے ساتھ بات چیت میں برطانیہ میں مقیم ایک اویغور انور توہتی نے چین کے حالات کے بارے میں کہا: 'یہ سنہ 1995 کی بات ہے۔ مجھے بلا کر ایک ٹیم بنانے کے لیے کہا گيا۔ پھر وہ ہمیں وہاں لے گئے جہاں لوگوں کو سزا کے طور پر گولی ماری گئی تھی۔ وہاں میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے۔ لیکن اس قیدی کی ابھی موت واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ قیدی کے دانستہ طور پر سینے کے اس حصے پر گولی ماری گئی تھی کہ اس کی جان فوری طور پر نہ نکلے۔' انھوں نے مزید کہا: 'اس وقت اس کام میں مجھے کچھ غلط کرنے کا احساس نہیں ہوا کیونکہ میں اس معاشرے میں پیدا ہوا تھا جہاں لوگوں کے ذہن میں بہت سی چیزیں ڈال دی گئی تھیں اور میرا بھی یہ خیال تھا کہ ملک کے دشمن کو ختم کرنا ہمارا فرض ہے۔'
مذکورہ بالا واقعات و تجربات چین کے سنکیانگ صوبے کے متعلق ہیں، جہاں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ چین پر یہ الزام ہے کہ اس نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قید اور حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ رواں سال اگست میں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے بتایا کہ وہاں تقریباً دس لاکھ لوگ حراست میں ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے جبکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
'علیحدگی پسند اسلامی گروہوں سے خطرہ'
برطانیہ، امریکہ اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی اویغور مسلمانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کی ہے، لیکن چین نے علیحدگی پسند اسلامی گروہوں کا خطرہ کہہ کر انھیں مسترد کر دیا ہے۔ دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چین کے ماہر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: 'گذشتہ ایک دہائی میں بین الاقوامی ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک خاص کمیونٹی کو انتہا پسندی کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور یہ اپنے آپ میں غلط رویہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ باقی دنیا کی طرح چین میں بھی یہ رجحان ہے۔' وہ کہتے ہیں: 'اویغور مسلمانوں کے متعلق چینی حکومت کی پالیسی میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ خبریں تو یہی کہتی ہیں کہ تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے جسے چين سرکاری 'ری ایجوکیشن کیمپ'کہتی ہے۔ سنکیانگ کے اویغور مسلمان ثقافتی طور پر خود کو وسطی ایشیا کے ممالک کے قریب بتاتے ہیں۔ ان کی زبان ترکی کی زبان سے مماثل ہے۔
شناخت کا بحران
پروفیسر سوورن سنگھ کا خیال ہے کہ اویغور مسلمانوں کے سامنے اپنی شناخت کا بحران ہے۔ 'وہ سوچتے ہیں کہ ان کی زبان اور ثقافت کو فروغ نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان کے طور طریقوں کو دبایا جا رہا ہے۔ مشرقی ترکمانستان کی آزادی تحریک ایک علیحدہ مسئلہ ہے جو چین کو ناگوار ہے۔ چین کی حکومت انھیں اقلیت کے طور پر دیکھتی ہے۔ سنکیانگ سرحدی ریاست ہے جو وسطی ایشیائی ممالک سے ملتی ہے۔‘ برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتیں چين کے سامنے اویغور مسلمانوں کے مسائل محتاط انداز میں رکھتی ہیں۔ اور اکثر یہ تنقید کے زمرے میں آتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مغرب کی یہ قوتیں چین کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی ہیں؟ پروفیسر سوورن سنگھ چینی حکومت کے ڈھانچے اور اس کی سرمایہ کاری کی طاقت کو اس کی اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'چین جس طرح گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے اس کی وجہ سے اس کے متعلق پوری دنیا کے رویے تبدیلی آئی ہے۔ ایک پارٹی کی حکمرانی چین کو مختلف انداز سے طاقت فراہم کرتی ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کی صلاحیت بہت مضبوط ہے۔ ان تمام وجوہات کے سبب کوئی بھی چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا ہے۔‘
کشمیر میں بھی اویغور
بیسویں صدی کے آغاز میں اویغور مسلمان کشمیر اور لداخ کے علاقوں میں آباد تھے، لیکن بعد میں وہ وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ کشمیر میں آج بھی چند ایسی گلیاں موجود ہیں جن کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں اویغور مسلمان رہا کرتے تھے۔ آج دنیا میں تقریباً 24 ممالک ہیں جہاں اویغور مسلمان رہتے ہیں، جو چین سے باہر ہونے کے باعث نسبتاً زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہندوستان اور دیگر مسلم ممالک کے لوگ کبھی اویغور مسلمانوں کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں؟
اس سوال پر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: 'انڈیا کو اس کے متعلق بات ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ انڈونیشیا کے بعد انڈیا دوسرا ملک ہے جہاں مسلم آبادی سب سے زیادہ ہے۔' وہ کہتے ہیں: 'لیکن دوسرے ممالک، جو ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟'
سندیپ سونی
بی بی سی ہندی، دہلی
↧
ٹرمپ کے ایک جملے سے دنیا نے اربوں ڈالر کھو دیے
حصص کی عالمی منڈیوں میں اربوں ڈالر کے فائدے یا نقصان کی وجہ بالعموم لمحوں میں آنے والی تبدیلیاں بنتی ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ بنے اور ان کے صرف ایک جملے سے عالمی معیشت اربوں ڈالر سے محروم ہو گئی۔ امریکا میں نیو یارک سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے کی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بنے، جب انہوں نے اپنے قطعی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے بارے میں یہ کہہ دیا، ’’یہ بینک پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ناراضی کی وجہ فیڈرل ریزرو یا مختصراﹰ ’فَیڈ‘ کی طرف سے کیا جانے والا مرکزی شرح سود میں اضافے کا فیصلہ تھا۔
مغربی دنیا کے تقریباﹰ سبھی ممالک کے مرکزی مالیاتی اداروں کی طرح امریکا میں Fed بھی ایک خود مختار اور غیر جانبدار ادارہ ہے، جس کے فیصلوں میں واشنگٹن حکومت یا وائٹ ہاؤس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ فیڈرل ریزرو کے مرکزی شرح سود میں اضافے کے فیصلے پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت والے ملک امریکا کے صدر نے جس عدم اطمینان کا اظہار کیا، اس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کرسٹین لاگارڈ نے یہ کہنے سے تو گریز کیا کہ صدر ٹرمپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لیکن ساتھ ہی لاگارڈ نے یہ بہرحال کہہ دیا کہ فیڈرل ریزرو کے مالیاتی ماہرین نے اپنی معمول کی ہفتہ وار مشاورت کے بعد شرح سود بڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ قابل فہم اور زمینی اقتصادی اور مالیاتی حقائق کے عین مطابق ہے۔
روایت کے منافی تبصرہ
تاہم اقتصادی گرم بازاری کی خاطر مرکزی شرح سود کم رکھنے کے حامی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ فیڈرل ریزرو پاگل ہو گیا ہے، ایسا سخت جملہ تھا جو شاید ان سے پہلے اور وہ بھی اتنے کھردرے لہجے میں پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے نہیں کہا تھا۔ اس جملے کا نقصان دوہرا تھا۔ ایک طرف تو یہ امریکی مرکزی بینک کے مالیاتی فیصلوں میں حکومت کی عدم مداخلت یا عدم تنقید کی واضح روایت کے منافی تھا اور دوسرے اس سے بین الاقوامی سٹاک مارکیٹوں میں جیسے ’پہاڑیوں سے بڑے بڑے پتھر لڑھکنا‘ شروع ہو گئے۔
صدر ٹرمپ کے اس جملے کے بعد، جسے فیڈرل ریزرو کی طاقت کی تصدیق بھی سمجھا گیا، بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اپنے شیئرز بیچتے ہوئے سٹاک مارکیٹوں سے اپنی رقوم اس لیے نکلوانا شروع کر دیں کہ بظاہر شرح سود میں اضافے کے بعد شیئرز کے بجائے نقد رقوم کی سرمایہ کاری کافی عرصے بعد پھر کچھ پرکشش دکھائی دینے لگی تھی۔ اس دوران نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں، جو دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی منڈی ہے، ڈاؤ جونز انڈکس میں 830 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ہوئی، جو 3.5 فیصد سے زائد کے مالیاتی نقصان کے برابر تھی۔ یہ نیو یارک سٹاک مارکیٹ کو اس سال فروری کے مہینے کے بعد سے اب تک ہونے والے سب سے بڑا یومیہ نقصان تھا۔
مالیاتی زلزلے کے ضمنی جھٹکے
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی۔ امریکا میں سٹاک مارکیٹوں کو خسارہ ہونے لگا تو ایشیا اور یورپ کی تجارتی منڈیاں بند ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرق بعید میں جاپان سے لے کر چین تک اور یورپ میں ترکی سے لے کر لندن تک کے بازار ہائے حصص کھلے تو وہ دن کا زیادہ تر حصہ ’امریکا میں ایک روز قبل آنے والے مالیاتی زلزلے کے ضمنی جھٹکوں کا سامنا‘ ہی کرتے رہے۔ اس وجہ سے نیو یارک کے علاوہ ٹوکیو، ہانگ کانگ، سنگاپور، سیول، شنگھائی، ممبئی، کراچی، استنبول، قاہرہ، لندن پیرس، ماسکو، میڈرڈ اور فرینکفرٹ سمیت تقریباﹰ ہر منڈی کو مندی کے رجحان کے باعث نقصان ہی برداشت کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر عالمی معیشت کو یکدم جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے : ٹرمپ کا ایک جملہ، ’فیڈرل ریزرو پاگل ہو گیا ہے‘ اور عالمی معیشت یکدم بے یقنی اور بے چینی کی فضا میں اپنے اربوں ڈالر سے محروم ہو گئی۔
م م / ش ح / اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز
بشکریہ DW اردو
↧
↧
سعودی عرب کے پاس تیل کا کتنا ذخیرہ موجود ہے ؟
سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی صورت میں وہ تیل کی عالمی مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔ امریکہ مختلف ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدیں مگر ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کتنا تیل موجود ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے اس سوال کا جواب تیل کے ذخائر کے ماہرین کے لیے ایک راز ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے 2015 کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے پاس 266 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو سعودی عرب کا تیل آئندہ 70 سالوں میں ختم ہو گا۔
اس حساب کے لیے اوسطً روزانہ 12 لاکھ بیرل کے استعمال کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1987 میں سعودی عرب نے اپنے ذخائر کی تعداد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ 170 ارب بیرل ہیں تاہم 1989 میں اس نے اس تخمینے کی تعداد بڑھا کر 260 ارب بیرل کر دی تھی۔ 2016 کے ریویو آف ورلڈ انرجی کے مطابق سعودی عرب اب تک 94 ارب بیرل تیل فروخت کر چکا ہے۔ تاہم اس کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس کے پاس اب بھی 260 سے 265 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ اگر حکومتی اطلاعات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو سعودی عرب نے تیل کے نئے ذخائر دریافت کئے ہیں یا پھر موجودہ ذخائر کا دوبارہ جائزہ لے کر انہیں تبدیل کر دیا ہے۔ ذخائر میں اضافے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جن ٹھکانوں سے تیل برآمد ہو رہا ہے ، وہیں اور تیل نکل آیا ہے یا وہ کنویں پھر سے بھر گئے ہیں۔
سعودی عرب میں 1936 سے 1970 کے درمیان تیل کے بے شمار ذخائر دریافت ہوئے۔ اس کے بعد قدرے نئی دریافتیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں جہاں تیل کی پیداوار ہو رہی ہے اس کی تفصیلات یا ذخائر کے بارے میں حکومت ہر بات خفیہ رکھتی ہے اور اس کی تفصیل کچھ ہی لوگوں کو معلوم ہوتی ہے ایسے میں کسی بھی بات کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ ماہرین بھی یہ بات یقین سے نہیں بتا سکتے کہ سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کب کم ہونی شروع ہو گی۔ تیل کے ذخائر کا تخمینہ لگانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ پیداوار شروع ہونے سے پہلے کتنے ذخائر موجود تھے۔ اس اندازے کو او او آئی پی کہا جاتا ہے۔
1970 کی دہائی میں اس بات پر اتفاق رائے موجود تھا کہ سعودی عرب میں 530 ارب بیرل او او آئی پی موجود تھے۔ سعودی او او آئی پی کے بارے میں معلومات سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ آئل کمپنی آرمکو کے لیے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے عالمی معاشی پالیسی نے دی تھیں۔ اس وقت آرمکو چار امریکی کمپنیوں ایگزون، ٹیکسیکو، شیل اور موبل کی شراکت دار تھی۔ 1979 میں پیش کی جانے والی معلومات وہ آخری موقع تھا جب عوامی پس منظر پر یہ معلومات جاری کی گئیں تھیں تاہم مکمل او او آئی پی ذخائر کو پیداوار میں لانا ممکن نہیں ہوتا اس کی وجہ تکنیکی ہے۔ تیل کے او او آئی پی ذخائر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔
پہلی تو واضح ذخائر ہوتے ہیں جن کے بارے میں تخمینے سب سے زیادہ درست ہوتے ہیں۔ اس میں سے آپ تقریباً 90 فیصد حاصل کر لیتے ہیں۔ دوسری قسم ممکنہ ذخائر کی ہوتی ہے ان کے حوالے سے امید اور اندازے ہوتے ہیں اور ان میں اندازوں کا 10 فیصد ہی نکالا جاتا ہے۔ امریکہ کی کمپنی آرمکو نے 1970 کی دہائی کے آخری سالوں میں سعودی عرب کے تیل کے مستند ذخائر 110 ارب بیرل بتائے تھے اس کے ساتھ ہی مستقبل اور ممکنہ ذخائر بلترتیب 178 ارب بیرل اور 248 ارب بیرل بتائے تھے۔ ایسے میں سوال اٹھنے لگا کہ کیا سعودی عرب نے تیل کے ذخائر کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے ممکنہ ذخائر کو حقیقی ذخائر بتا دیا ؟ سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کتنے ہیں اور کب تک چلیں گے، یہ اب بھی ایک راز ہے۔
↧
بولیویا : جنوبی امریکا کا ایک اہم ملک
بولیویا ہر طرف سے خشکی میں گھرا جنوبی امریکا کا ایک ملک ہے۔ اس کے شمالی اور مشرقی جانب برازیل، جنوب میں ارجنٹائن، جنوب مغرب میں چلی اور جنوب مشرق میں پیراگوئے ہے۔ تقریباً ایک کروڑ 22 لاکھ آبادی کا یہ ملک کثیر نسلی ہے اور یہاں مقامی ریڈ انڈین، یورپی، ایشیائی، افریقی اور ’’مستیزو‘‘ آباد ہیں تاہم آبادی کا 75 فیصد قدیم مقامی باشندوں پر مشتمل ہے۔ یہ جنوبی امریکا کا پانچواں اور دنیا کا 27 واں سب سے بڑا ملک ہے۔ ہسپانوی کے علاوہ 36 مقامی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ دارالحکومت سُکری ہے تاہم حکومت لاپاز میں براجمان ہوتی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے بولیویا بہت متنوع ہے۔ ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں اور دوسری جانب وسیع میدان۔ ایک جانب بارشوں سے سیراب ہونے والی زمینیں ہیں تو دوسری جانب خشک وادیاں۔ اس کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جانداروں کی سب سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ بولیویا میں بیجوں سے پیدا ہونے والے پودوں کی 17 ہزار اقسام موجود ہیں۔ یہاں جانوروں کی دو ہزار نو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے پرندوں کی کل اقسام کا 14 فیصد بولیویا میں رہتا ہے۔ مرچوں کی بعض اقسام اور مونگ پھلی سب سے پہلے یہاں وجود میں آئیں ۔ بولیویا کے پاس جنوبی امریکا میں دوسرے سب سے بڑے گیس کے ذخائر ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بولیویا کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں سب سے پہلے آئمارا قبائل کا کنٹرول 2500 قبل مسیح میں قائم ہوا۔ 600 سے 800 قبل مسیح تک یہاں کی آبادی خاصی بڑھ چکی تھی اور شہر آباد ہو چکے تھے۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب ہسپانوی اس علاقے میں داخل ہوئے اور اسے فتح کیا تو اس وقت بولیویا مقامی سلطنت ’’اِنکا‘‘ کا حصہ تھا۔ ہسپانوی کے قبضہ کے بعد یہاں سے بڑی مقدار میں چاندی نکالی گئی۔ اس وقت چاندی کی کانوں کی وجہ سے اس علاقے نے بڑی اہمیت حاصل کر لی تھی اور کہاں جاتا ہے کہ ہسپانوی سلطنت کے عروج میں اس چاندی کا اہم کردار رہا۔
یہاں آزادی کی آواز سب سے پہلے انیسویں صدی کے اوائل میں بلند ہوئی اور یہ 16 سال کی جنگ کے بعد نصیب ہوئی۔ سپین کی شاہی فوجوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ لیکن وہ حصول آزادی کو نہ روک سکیں۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں اس کے کچھ علاقے ہمسایہ ممالک ہتھیاتے رہے تاہم مجموعی طور پر یہ ملک 1971ء تک مستحکم رہا، اور پھر ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں یہاں بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 1978ء اس آمریت کا خاتمہ ہوا۔
یسرا خان
↧
ٹرانس سائبیرین ریلوے : روس کی فولادی سٹرک
جس طرح دریائے وولگا کو روس کے دست و بازو کا درجہ حاصل ہے۔ اِسی طرح ٹرانس سائبیرین ریلوے کو روس کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی ریلوے کو روس کی فولادی سٹرک کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ٹرانس سائبیرین ریلوے دُنیا کے تقریباً ایک تہائی گلوب کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب میں آخری سٹیشن تک اس میں دس ٹائم زون آتے ہیں۔ ریلوے کا طویل نظام روس کے انتہائی مشرقی شہر ولاڈی واسٹک سے شروع ہو کر چین اور منگولیا کی سرحدوں کو چھوتا ہوا صحرائے گوبی سے گزرتا، دُنیا کی سب سے بڑی اور گہری جھیل بیکال کے پاس سے سائبیریا کی سفید برفانی زمین سے گزر کر اور کئی بڑے دریائوں کو عبور کرتے ہوئے یورپی شہر ماسکو کے بعد سینٹ پیٹرز برگ کے مقام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
چھ دن کے تھکا دینے والے سفر کے دوران آپ کو دُنیا کے کئی طرح کے باسیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جن کا کلچر، خورد نوش، لباس اور رنگ و نسل ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مختلف قد کاٹھ اور مختلف قسم کی زبانیں بولنے والے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ٹرانس سائبیرین ٹرین کے سفر میں مشرقی یورپ کو خیر باد کہتے کوہ یورال سے بھی گزرنا پڑتا ہے جو کہ براعظم یورپ اور براعظم ایشیا کی حدّ فاصل ہے۔ یہ ریلوے ٹریک دُنیا کا طویل ترین ٹریک ہے جس کی لمبائی 5600 میل یعنی 9288 کلو میٹر ہے۔ اس ریلوے ٹریک کا 19% حصہ یورپ اور 81% حصہ ایشیا سے گزرتا ہے۔
روس کے زار الیگز نڈر دوم نے روس کے دفاعی نقطہ نظر سے اور دُور افتادہ بحرالکاہل تک کے علاقے کو صحیح کنٹرول کرنے کے لیے اس عظیم اور تاریخی منصوبے کی منظوری دی۔ پھر زار الیگزنڈر دوم کے بیٹے زار الیگزنڈر سوم نکولس نے اس عظیم منصوبے کی تعمیر کی خصوصی نگرانی کی۔ ٹرانس سائبیرین ریلوے کے منصوبے کا آغاز 19 مئی 1891 ء کو ہوا اور 15 اکتوبر 1916 ء کو یہ عظیم منصوبہ پایہء تکمیل کو پہنچا۔ اس منصوبے پر 1.455 بلین روبل لاگت آئی۔ اس ریلوے ٹریک کے اوپر بجلی کا سسٹم لگانے کا کام 1929 ء میں شروع ہو کر مختلف مراحل میں 2002 ء میں مکمل ہوا۔ اس ٹرین میں دوران سفر مقامی اخباروں کے علاوہ ٹرین کے اندر بھی اخبار چھاپنے کا نظام موجود ہے۔
ٹرانس سائبیرین ریلوے کے متعلق چند دلچسپ حقائق
ریل کی پٹڑی کی کل لمبائی… 9288.2 کلو میٹر
سب سے بڑا دریائی پل……2612 میٹر لمبا جو دریائے آمور پر 1999 ء میں مکمل ہوا۔
سب سے لمبی سرنگ……دو کلو میٹر
ٹائم زون……10 (ولاڈی واسٹک سے سینٹ پیٹرز برگ تک)
راستے میں آنے والے شہروں کی تعداد…87
راستے میں آنے والے دریا، تعداد…16 مشہور دریا…… اوبی نیسے، اوکا، آمور، شہروں کا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 28 - تا+34 سنٹی گریڈ.
فقیراللہ خاں
↧
چین کو ہانگ کانگ اور مکاؤ کے ساتھ ملانے والا دنیا کا طویل ترین سمندری پل
چین نے مرکزی چین کو ہانگ کانگ اور مکاؤ کے ساتھ سمندری ذریعے سے ملانے والے دنیا کے طویل ترین پل کا راستہ کھول دیا ہے، جو بیجنگ کی جانب سے اپنے نیم خود اختیار علاقوں پر گرفت سخت کرنے کی ایک تازہ ترین علامت ہے۔ چین کے صدر زی جن پنگ اور پل کے ذریعے رابطے میں آنے والے تینوں شہروں کے راہنما، جنوبی چین کے شہر ژوہائی میں ہونے والی افتتاحی قریب میں موجود تھے۔ اس پراجیکٹ پر 20 ارب ڈالر لاگت آئی ہے اور 54 کلومیٹر طویل راستے میں ایک زیر زمین سرنگ بھی شامل ہے۔
یہ پل ژوہائی کو ہانگ کانگ کے مالیاتی مرکز اور دریائے پرل ڈیلٹا کی دوسری جانب مکاؤ میں گیمبلنگ کے ایک مرکز سے ملاتا ہے۔ شہری لی چنگ کن کا کہنا تھا کہ میں تو ابھی تک اس پل پر نہیں گیا اس لیے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس پل کا تعمیر ہونا ایک اچھی شروعات ہے۔ اس سے تین شہروں کے درمیان آنے جانے میں آسانی پیدا ہو گی۔
↧
↧
فرینکفرٹ : جرمنی کا پانچواں بڑا شہر
فرینکفرٹ میٹروپولیٹن شہر ہے اور جرمن ریاست ہیسے کا دارالحکومت ہے۔ آبادی کے لحاظ سے برلن، ہیمبرگ، میونخ اور کولون کے بعد یہ جرمنی کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ فرینکفرٹ تقریباً پانچ صدیوں تک شہری ریاست رہا اور اس کی آزاد حیثیت کا خاتمہ 1866ء میں ہوا۔ ثقافتی اور نسلی اعتبار سے یہ ایک متنوع شہر ہے اور کم و بیش آدھی آبادی ہجرت کر کے آنے والوں کی ہے۔ فرینکفرٹ کامرس، ثقافت، تعلیم اور سیاحت کا عالمی مرکز ہے۔ یہاں بہت سے عالمی اور یورپی کارپوریٹ ہیڈکوارٹرز ہیں۔ یہاں کا ائیرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔
وردہ بلوچ
↧
استنبول : سالانہ 20 کروڑ مسافروں کی گنجائش والے نئے ایئرپورٹ کا افتتاح
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کے تیسرے ایئرپورٹ کا افتتاح کر دیا ہے جو منصوبے کے تحت 2028 تک دنیا کا سب سے بڑا اور مصروف ترین ایئرپورٹ بن جائے گا۔ اس ایئرپورٹ کے ابتدائی مراحل میں 2021 تک سالانہ نو کروڑ مسافروں کی آمدورفت کی گنجائش ہو گی جو کہ بتدریج اگلے چند برسوں میں بڑھ کر 20 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ دنیا کا اس وقت مصروف ترین ایئرپورٹ امریکہ میں اٹلانٹا کا ہے جہاں سالانہ دس کروڑ چالیس لاکھ مسافروں کو سنھبالنے کی گنجائش ہے۔
صدر اردوغان نے جدید ترکی کے قیام کی 95ویں سالگرہ کے موقع پر ایئرپورٹ کا افتتاح کیا. 12 ارب ڈالر کی لاگت سے بنا یہ ایئرپورٹ صدر اردوغان کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ انھیں توقع ہے کہ اس منصوبے کی مدد سے استنبول بین الاقوامی آمدو رفت کا مرکز بن جائے گا جہاں سے ایشیا، یورپ اور افریقی ممالک کو ملایا جا سکے گا۔ استنبول کا موجودہ اتاترک ایئرپورٹ اس سال کے آخر تک معمول کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا رہے گے لیکن اگلے سال سے شہر کے مرکزی ایئرپورٹ کی حیثیت نئے ہوائی اڈے کو مل جائے گی اور اتاترک ایئرپورٹ نجی طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔
نئے ایئرپورٹ کے منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 2021 تک اس میں سالانہ نو کروڑ مسافروں کی گنجائش ہو گی، جس کے بعد 2023 تک اسے بڑھا کر 15 کروڑ اور پھر 2028 تک 20 کروڑ تک پہنچانے کا ارادہ ہے۔ استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع شہر کے تیسرے ایئرپورٹ صبیحا گورکن پر ان تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہو گا اور وہاں پروازیں معمول کے مطابق اڑیں گی۔
↧
مونٹریال اولمپکس کا بائیکاٹ
بیشتر افریقی ممالک نے 1976ء میں ہونے والے مونٹریال اولمپکس کا بائیکاٹ
کیا۔ اس کی وجہ اولمپکس کی عالمی کمیٹی کی جانب سے نیوزی لینڈ کے کھیلنے پر پابندی نہ لگانا تھا۔ نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا۔ نسلی امتیاز کی پالیسیوں کی وجہ سے 1964ء سے جنوبی افریقہ پر اولمپکس میں پابندی عائد تھی۔ اگرچہ یہ بائیکاٹ کامیاب نہ ہو سکا لیکن اس کا قابل ذکر مالی اثر پڑا اور کم اتھلیٹس شریک ہوئے۔
زیادہ اہم یہ ہے کہ اس سے جنوبی افریقہ میں نسل پرستانہ پالیسیاں دنیا بھر کی نظروں میں آ گئیں۔ طویل جدوجہد کے بعد بالآخر جنوبی افریقہ میں نسل پرستانہ پالیسیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اس جدوجہد میں سب سے نمایاں رہنما نیلسن منڈیلا ابھر کر سامنے آئے۔
محمد ریاض
↧