Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

آن لائن چینی کمپنی علی بابا کے چیئرمین جیک ما نے عہدہ چھوڑ دیا

$
0
0

دنیا کی معروف ترین آن لائن ای کامرس کمپنیوں میں سے ایک چینی کمپنی ‘علی بابا’ کے شریک بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین جیک ما نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔
جیک ما کی جانب سے اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے اعلان نے پوری دنیا کے کاروباری اداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، تاہم معروف کاروباری نشریاتی اداروں نے لکھا ہے کہ ان کی جانب سے عہدے کو چھوڑنا ایک دور کا اختتام نہیں بلکہ نئے دور کا آغاز ہو گا۔ خیال رہے کہ 53 سالہ جیک ما نے دیگر 18 افراد کے ساتھ مل کر 1999 میں معروف آن لائن کامرس ویب سائیٹ ’علی بابا’ کو بنایا تھا۔ اس ویب سائیٹ کو بنانے کا مقصد چین کی مصنوعات کو عالمی منڈیوں اور دیگر ممالک تک آسانی سے پہنچانا تھا۔

ابتدائی چند سالوں میں اس کمپنی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس وقت علی بابا کا شمار دنیا کی بڑی آن لائن ای کامرس کمپنیوں اور ویب سائیٹس میں ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت علی بابا کے کل وقتی ملازمین کی تعداد 66 ہزار ہے اور اس کے اثاثوں کی ویلیو 4 سو 20 ارب ڈالر (پاکستانی 420 کھرب روپے سے زائد) ہے۔ جیک ما جہاں اس کمپنی کے شریک بانی تھے، وہیں انہوں نے گزشتہ کئی سال سے اس کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدے یعنی ایگزیکٹو چیئرمین پر کام کرتے ہوئے کمپنی کو مزید تقویت بخشی۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جیک ما نے علی بابا کے ایگزیکٹو چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق جیک ما اب علی بابا کے لیے خدمات دینے کے بجائے تعلیم اور انسانی فلاح و بہبود کے دیگر منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو چیئرمین کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لیے جانے کے باوجود جیک ما علی بابا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہوں گے اور وہ اس کمپنی کے شریک بانی بھی رہیں گے۔ جیک ما کے بعد اس عہدے پر کس کو تعینات کیا جائے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم امکان ہے کہ جلد ہی دوسرے چیئرمین کی تقرری کا اعلان کر دیا جائے گا۔

 


شمالی کوریا : یومِ آزادی پر میزائلوں کے بغیر فوجی پریڈ

$
0
0

شمالی کوریا کے قیام کی 70 ویں سال گرہ کے موقع پر پیانگ یانگ میں ایک بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوئی لیکن ماضی کی طرح اس بار اس پریڈ میں بین البراعظمی میزائلوں کی نمائش نہیں کی گئی۔ ملٹری پریڈ کا اہتمام پیانگ یانگ کے کم اِل سنگ اسکوائر میں کیا گیا تھا جس میں جدید اسلحہ بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ پریڈ کے دوران ہزاروں فوجی اہلکاروں نے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے ملک کے سربراہ کم جونگ ان کو سلامی دی جو سلامی کے چبوترے پر چین کے خصوصی ایلچی لی ژان شو کے ہمراہ موجود تھے۔ لی ژان شو چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین سات رکنی ادارے 'پولٹ بیورو'کے رکن ہیں جو شمالی کوریا کے قیام کی تقریبات میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر پیانگ یانگ پہنچے ہیں۔

کم جونگ ان نے اس بار پریڈ کے شرکا سے خطاب نہیں کیا۔ البتہ پریڈ کے اختتام پر شمالی کوریا کے سربراہ اور مہمان چینی رہنما نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اظہارِ یکجہتی کے لیے فضا میں بلند کیا۔ شمالی کوریا نے 9 ستمبر 1948ء کو اپنے قیام کا اعلان کیا تھا۔ آزادی کے اس اعلان سے تین سال قبل جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر امریکہ اور روس نے جزیرہ نما کوریا آپس میں تقسیم کر لیا تھا جس کا نصف شمالی حصہ سوویت یونین جب کہ جنوبی حصہ امریکہ کے زیرِ انتظام تھا جو بعد میں جنوبی کوریا بن گیا تھا۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق پریڈ کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے ہوا جس کے بعد انفنٹری یونٹ کے درجنوں دستے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرے۔

پریڈ میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، راکٹ لانچرز اور دیگر ہتھیار بھی پیش کیے گئے جب کہ شمالی کوریا کی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پریڈ گراؤنڈ پر پروازیں کی اور فضا میں کرتب دکھائے۔ پریڈ کے اختتام پر میزائلوں کی نمائش کی گئی لیکن ماضی کے برعکس اس بار صرف چھوٹے میزائل ہی نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔ پریڈ میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ 'ہواسونگ – 14'اور 'ہوا سونگ – 15'نامی بین البراعظمی میزائل بھی شامل نہیں تھے جو شمالی کوریا کے دعووں کے مطابق امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔
ان میزائلوں کی سالانہ پریڈ میں عدم موجودگی کو تجزیہ کار شمالی کوریا کی حکومت کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا ایک اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

امریکی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ میزائلوں کی نمائش نہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اس وعدے کے متعلق سنجیدہ ہیں جو انہوں نے رواں سال جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےساتھ ملاقات میں کیا تھا۔ شمالی کوریا کی حکومت نے ملک کے قیام کی سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے کئی سربراہانِ مملکت اور مختلف شعبوں کی نمایاں غیر ملکی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی تھی۔ لیکن مدعو سربراہانِ مملکت میں سے صرف ایک – موریطانیہ کے صدر محمد اولد عبدالعزیز – ہی پریڈ میں شریک ہوئے۔ البتہ چین کے پولٹ بیورو کے رکن کی پریڈ میں شرکت اور سلامی کے چبوترے پر کم جونگ ان کے ساتھ موجودگی پر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ شمالی کوریا چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ اہمیت اور وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔
 

شام ادلیب پر فضائی حملے، تیس ہزار افراد کا انخلا

$
0
0

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں باغیوں کے آخری مضبوط ٹھکانے ادلیب پر سرکاری فورسز اور ان کے اتحادیوں کے حملے کے بعد تقریباً 30 ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا چکے ہیں۔ شام اور روس کی مشترکہ فورسز نے صوبہ ادلیب اور قریبی علاقے حمص کے کچھ علاقوں میں گزشتہ چند روز سے بم برسانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس علاقے میں وہ حکومت مخالف گروپ موجود ہیں جو القاعدہ اور مخالف گروہوں سے منسلک ہیں۔ شام حکومت کے فوجی دستے پچھلے چند ہفتوں سے علاقے میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی فلاح و بہبود سے متعلق انڈر سیکرٹری جنرل مارک لوکاک نے خبردار کیا ہے کہ زمینی حملے نتیجہ اس ملک کے لیے اب تک کے سب سے زیادہ جانی نقصان کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ لوکاک کا کہنا ہے کہ جنگ سے بچنے کے لیے لگ بھگ 8 لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں جو ادلیب کی 30 لاکھ آبادی کی اس نصف تعداد سے زیادہ ہے جو پہلے ہی شام کے مختلف حصوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے جبر کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ادلیب کے مستقل کے بارے میں پچھلے ہفتے ترکی، ایران اور روس کے راہنماؤں کے درمیان تہران میں ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ بات چیت علاقے میں جنگ کو ٹالنے کی کوششوں پر تعطل پیدا ہونے سے بے نتیجہ رہی تھی۔
 

امریکا کا واشنگٹن میں پی ایل او کا دفتر بند کرنے کا فیصلہ

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے دفتر کو بند کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے جس سے فلسطینی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے امریکی سربراہی میں اسرائیل سے مذاکراتی عمل میں حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔ فلسطینی حکومت کے اسی فیصلے سے نالاں ہو کر امریکی صدر نے واشنگٹن میں قائم پی ایل او کے دفتر کو بند کرنے کا حکم دیا۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل صائب اریکات نے میڈیا کو بتایا کہ امریکی حکام نے واشنگٹن میں پی ایل اوکے دفتر کو بند کرنے سے متعلق اپنے فیصلے سے ہمیں تحریری طور پر آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفتر کی بندش امریکا کی انتقامی کارروائی ہے ۔

فلسطین کو ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکی تاریخ کے تلخ ترین فیصلوں کا سامنا ہے۔ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کر کے تل ابیب سے سفارت خانے کی منتقلی اور فلسطین کے لیے تمام قسم کی امداد بند کرنے کے بعد اب واشنگٹن میں پی ایل او کے دفتر کو تالا لگانا تیسرا بڑا تاریک فیصلہ ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے سلسلے میں تیزی اُس وقت دیکھنے میں آئی جب رواں برس مئی میں فلسطین نے اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت برائے انصاف سے رجوع کیا اور عالمی عدالت نے اسرائیلی مظالم کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
 

امریکا کا مجسمۂ آزادی

$
0
0

جب اسے بنایا گیا، امریکا کا مجسمہ آزادی دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ تھا۔ امریکا نے فرانسیسیوں کی مدد سے برطانیہ کے چنگل سے چار جولائی 1776ء کو آزادی حاصل کی تھی۔ فرانس نے نہ صرف امریکن کالونیوں کو جنگ آزادی کے لیے اسلحہ، جہاز اور رقم فراہم کی بلکہ خود فرانسیسی باشندوں اور فوجیوں نے اس جنگ میں عملاً حصہ لیا۔ کچھ فرانسیسی جن میں سب سے قابل ذکر جارج واشنگٹن کے قریبی دوست مارکوس ڈی لافیٹی شامل ہیں، امریکی فوج میں اعلیٰ عہدے پر پہنچے۔ ایسی ہی دوستی کے پیش نظر فرانسیسیوں نے امریکیوں کو مجسمہ آزادی تحفے کے طور پر پیش کیا۔ 1776ء میں امریکا کی آزادی کے بہت عرصے بعد ایک فرانسیسی دانشور، سکالر اور ماہر قانون ایڈورڈ ڈی لیبولائی نے امریکا اور فرانس کی دوستی کے لیے فرانس کی طرف سے امریکا کو ایک ایسا یادگار تحفہ دینے کا خیال پیش کیا جو دونوں ملکوں کی دوستی اور آزادی کی علامت کے طور پر ہمیشہ قائم رہے۔ 

یہی مجسمہ آزادی اس دانشور کے خواب کی عملی تعبیر ہے۔ مجسمہ آزادی کی تعمیر اور تخلیق کے لیے فرانسیسی عوام نے چندہ جمع کیا۔ اسے فرانس کے مشہور مجسمہ ساز اور ایفل ٹاور کے خالق گستاف ایفل نے بنایا۔ فرانسیسی عوام نے امریکی عوام کو آرٹ اور فن تعمیر کا یہ نادر نمونہ اپنے دوستی کی یاد اور ان کی آزادی کے احترام میں پیش کیا۔ مجسمہ آزادی ایک دیوہیکل مجسمہ ہے۔ کانسی کی پلیٹوں سے بنا ہوا یہ مجسمہ 151 فٹ ایک انچ بلند ہے، جو نیویارک میں لبرٹی آئی لینڈ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے نئی دنیا یعنی امریکا میں داخلے کے لیے گیٹ وے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ مجسمہ چار جولائی 1884ء کو امریکی یوم آزادی کے موقع پر فرانسیسی عوام کی طرف سے امریکی عوام کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔

شہر کی بندرگاہ کے رخ پر ایستادہ لکڑی کے ڈھانچے کے اوپر تانبے سے بنا یہ مجسمہ ایک ایسی عورت کی شکل ہے جس نے روایتی لباس زیب تن کر رکھا ہے، جس کے سر پر سات پروں والا ایک تاج ہے۔ غلامی کی ٹوٹی زنجیریں اس کے قدموں میں پڑی ہیں۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک شمع ہے جسے اس نے بلند کر رکھا ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس پر اعلان آزادی کی تاریخ چار جولائی 1776ء درج ہے۔ اس کی بنیاد یا پلیٹ فارم کو شامل کر لیں تو اس کی اونچائی 305 فٹ ایک انچ بنتی ہے۔ یہ مجسمہ جسے دنیا کو روشن کرنے والی آزادی قرار دیا جاتا ہے، فرانسیسی مجسمہ ساز فریڈرک آگسٹ برتھولڈی کے فن کا نمونہ ہے۔ اس نے 1875ء میں اپنے سٹوڈیو میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ پہلے اس نے مٹی سے ایک چھوٹے سائز کا ماڈل بنایا اور پھر نہایت باریک بینی سے پیمائش کرتے ہوئے اس کے تین بڑے نمونے کامیابی سے بنائے۔

آخرکار اس نے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ کے ماڈل پورے اور بڑے سائز میں لکڑی سے تیار کیے اور ان پر پلاسٹر چڑھایا۔ پھر کار پینٹروں نے پلاسٹر سے بنی شکل کے مطابق لکڑی کی شکلیں بنائی۔ تانبے کی چادروں کو ان لکڑی کی شکلوں پر ہتھوڑے کے ذریعے مطلوبہ شکل و صورت میں لایا گیا۔ پھر اسے سٹوڈیو کے نزدیک ایک بڑے صحن میں جوڑا گیا۔ جب دارالحکومت پیرس میں اس مجسمے کو مکمل طور پر جوڑ لیا گیا تو پھر ا سکے تمام حصوں کو دوبارہ علیحدہ کر کے 214 لکڑی کے بڑے بڑے بکسوں میں پیک کیا گیا اور بحری جہاز کے ذریعے امریکا روانہ کر دیا گیا۔ 

مختلف حصوں میں بٹا یہ مجسمہ 17 جون 1885ء کو نیویارک پہنچا۔ اس دیوہیکل مجسمہ کی تعمیر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے برتھولڈی نے ایفل ٹاور کے معمار انجینئر گستاف ایفل کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ اس کا اندرونی سپورٹنگ سسٹم ڈیزائن کرے۔ ایفل نے مجسمہ کے داخلی فریم میں چار افقی کالموں پر مشتمل ایک مرکزی ٹاور تیار کیا جسے عمودی بیم کے ذریعے آپس میں جوڑا گیا تھا۔ اسے زمین پر کنکریٹ اور گرینائٹ کے پیڈسٹل پر کھڑا کیا گیا۔ پیڈسٹل کی یہ فاؤنڈیشن اس وقت دنیا میں سب سے بڑی اور واحد کنکریٹ سٹرکچر تصور کی جاتی تھی جسے امریکی ماہر تعمیرات رچرڈ مورس ہنٹ نے تقریباً 80 سال پہلے نیویارک شہر کو بحری حملوں سے بچانے کے لیے ایک ستارہ کی شکل کے قلعے کی دیواروں کے درمیان تعمیر کیا تھا۔ وسائل کی فراہمی میں تاخیر کے سبب بالآخر 1886ء میں آٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت سے اپنی بنیاد اور پلیٹ فارم سمیت مجسمہ آزادی مکمل ہو گیا۔ اس پر خرچ ہونے والی رقم میں سے آدھی فرانسیسیوں نے اور آدھی امریکیوں نے جمع کی تھی۔ اسے امریکی حکومت نے 112 ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جزیرہ بڈلوئی میں نصب کیا، جسے اب جزیرہ لبرٹی کہتے ہیں۔

عبدالوحید


 

میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو گرتے ہوئے دیکھا

$
0
0

نائن الیون کا حملہ امریکہ کی تاریخ میں 1944 میں پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کے بعد سب سے بڑا حملہ تھا جس نے امریکہ میں سلامتی کے احساس کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔ گیارہ ستمبر 2011 کے دہشت گرد حملوں کے وقت نیویارک میں مقیم پاکستانیوں کا رد عمل کیا تھا اور17 سال کے بعد وہ پاکستانی امریکیوں اور امریکی مسلمانوں اور دنیا بھر کے نقشے اور حالات پر اس کے اثرات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ایسے کچھ پاکستانی امریکیوں نے وائس آف امریکہ واشنگٹن سے گفتگو کی جن میں ایک ڈیمو کریٹ ملک ندیم عابد شامل تھے۔

ندیم عابد نے نائن الیون کے المناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ گیارہ ستمبر کو جب دوسرا جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے ٹکرایا تو وہ اس وقت بروک لین برج پر تھے اور مین ہیٹن جا رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوسرے جہاز کو عمارت سے ٹکراتے اور پہلی بلڈنگ اور دوسری بلڈنگ کو گرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو عمارت کی بلڈنگ سے کودتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا بدترین خواب تھا جسے وہ بھولنا بھی چاہیں تو بھول نہیں سکتے اور یہ امریکہ کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی کا بھی بدترین لمحہ تھا جو انہیں ساری زندگی تکلیف میں مبتلا رکھے گا ۔

نیو یارک کی ایک کاروباری شخصیت اور ایک ری پبلکن حنیف اختر نے جو ان دنوں بش حکومت کی ایک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن تھے اس حملے پر اپنے پہلے رد عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت ایئرپورٹ پر تھے جہاں انہوں نے اس دہشت گرد حملے کو وہاں نصب ٹی وی پر دیکھا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منظر کو دیکھ کر ان کا دل ایک دم دھڑکنے لگا ، اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا اور میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ خدا کرے اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو۔

نیو یارک کے ایک اٹارنی سلیم رضوی کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں سول رائٹس اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں اور اسی دوران صرف پاکستانی امریکی اور امریکی مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ کچھ ایسے براؤن لوگوں کے خلاف بھی سول لبرٹی اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں جنہیں کسی انداز میں مسلمانوں سے کوئی نسبت دی جا سکتی تھی ۔ اور ان سب کے ذہنوں میں ایک خوف تھا ، ایک غیر یقینی کیفیت تھی اور اپنے مستقبل کے بار ے میں تشویش اور فکر مندی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعے نے دنیا کو تو تبدیل کیا ہی لیکن اس کے ری ایکشن نے امریکہ کو بھی تبدیل کیا اور اس کے اثرات اب تک امریکہ میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ نیو یارک کے اٹارنی سلیم رضوی نے کہا کہ آج کے دور میں جب ہم امیگریشن قوانین کی بات کرتے ہیں۔ سول لبرٹی یا ہیومن رائٹس کی بات کرتے ہیں توہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک نائن الیون سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے اور یہ واقعہ نہ صرف ہماری سائیکی کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے عملی اثرات ابھی بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔ 

مثال کے طور پر جیف سیشن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حوالے سے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی تک نائن الیون کے اثرات امریکہ پر طاری ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستانی امریکیوں اور امریکی مسلمانوں پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے حملے کے جواب میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ ان حملوں کے 17 برس بعد بھی یہ واقعہ ہلاک ہونے والوں کی تکلیف دہ کیفیت کو یاد دلاتا ہے۔ اور اس واقعے کے اثرات نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دینا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

یاسمین جمیل
 

روسی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں شروع، چین بھی شریک

$
0
0

روس نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے جس میں ہزاروں روسی اور چینی فوجی اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں بتایا کہ روس نے شمالی حصے میں بحرالکاہل پر جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا، ووسٹوک 2018 نامی یہ جنگی مشقیں ایک ہفتے تک جاری رہیں گی۔ روس کی جانب سے فوجی گاڑیوں، جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور بحری جہازوں کی مشقوں کے لیے پوزیشن سنبھالنے کی ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی گئیں۔ دوسری جانب نیٹو نے ان مشقوں میں چین اور منگولیا کی افواج کی شمولیت کو ’بڑے پیمانے پر کشیدگی‘ قرار دیا اور اس کی مذمت بھی کی۔

ووسٹوک 2018 میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی آمد متوقع ہے جو روس کے مشرقی شہر والڈیوسٹک میں اقتصادی فورم میں شرکت کریں گے، اس فورم میں چینی صدر ژی جن پنگ بھی مہمانِ خصوصی ہیں۔ اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر روس نے آخری مرتبہ سرد جنگ کے دور میں 1981 میں زی پاڈ 81 (ویسٹ 81 ) کے نام سے جنگی مشقوں کا انعقاد کیا تھا جو سوویت دور کی سب سے بڑی جنگی مشق تھی۔ روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو کا کہنا تھا کہ ان مشقوں میں 3 لاکھ سپاہی، 36 ہزار فوجی گاڑیاں، ایک ہزار جہاز اور 80 جنگی بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ سرگئی شوگو نے بتایا کہ ’ایک ہی وقت میں 36 ہزار فوجی گاڑیوں کو حرکت کرتے ہوئے تصور کریں، جس میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور دیگر فوج شامل ہوں، ممکنہ طور پر یہ ایک جنگی صورتحال نظر آئے گی۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی ان مشقوں کا انعقاد ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب روس اور نیٹو اتحاد کے ملکوں میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔

جدید ترین سازوسامان
حال ہی میں روس کے دفاعی سازو سامان میں شامل ہونے والے نئے ہتھیار جن میں اسکندر میزائل، ٹی 80 اور ٹی-90 ٹینک اور اس کے نئے جنگی طیارے ایس یو 34 اور ایس یو 35 ہیں، جنگی مشقوں میں نظر آئیں گے۔ روس کا بحری بیڑہ کلبر میزائلوں سے لیس ہے جو شام میں کیے جانے والے حملوں میں استعمال ہوئے تھے۔ سائبیریا کے مشرقی علاقے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بدھ کو اینٹی ایئر کرافٹ ٹیکنالوجی کی خصوصیات کی مشق کی جائے گی اور جمعرات سے باقاعدہ مشق کا آغاز ہو گا۔

دوسری جانب نیٹو کا کہنا ہے کہ ووسٹوک 2018 سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ روس بڑے پیمانے پر کشیدگی کی تیاری کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کریملن ترجمان کا دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ ’روس کی طرف سے جارحانہ اور غیر دوستانہ بین الاقوامی رویوں کے باعث روس کی جنگی مشقیں منصفانہ اور ضروری ہیں۔‘
روس اور 29 یورپی ملکوں کے درمیان دفاعی اتحاد نیٹو کے درمیان اس وقت سے تعلقات کشیدہ ہیں جب روس نے 2014 میں یوکرائن کے علاقے کرائیمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ حالیہ چند سالوں میں روس نے کاکیشیائی، بالٹک اور آرکٹک علاقو ں میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ سال ذی پاڈ 2017 میں 12 ہزار 700 فوجیوں نے حصہ لیا جبکہ یوکرائن اور بالٹک کا کہنا ہے کہ اصل اعداد وشمار اس سے کئی زیادہ تھے۔ اس سے قبل روس کی جنگی مشق ووسٹوک 2014 صرف ایک لاکھ 55 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔
 

ترکی کا روس سے جدید ایئر ڈیفنس خریدنے پر نیٹو ممالک پریشان

$
0
0

ترکی کے صدر طیب اردوان کی جانب سے ’ہنگامی بنیادیوں پر‘ روس سے انتہائی حساس نوعیت کا ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا عندیہ دینے پر نیٹو ممالک کے مابین تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق طیب اردوان نے کہا کہ ’ترکی کو فضائی حدود کے تحفظ کے لیے روسی ساختہ ایس 400 ایس کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں معاہدہ طے پا چکا ہے، ہم بہت جلد خرید لیں گے‘۔ واضح رہے کہ رواں اپریل میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے آمادگی کا اظہار کیا تھا کہ ایس 400 ایس ڈیفنس سسٹم 2019 کے اختتام یا 2020 کے اوائل میں فراہم کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا جائے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس کا تیار کردہ ایس 400 ایس ڈیفنس سسٹم زمین سے فضا میں تحفظ فراہم کرتا ہے اور نیٹو ممالک ایسے اپنے جنگی جہازوں کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ماسکو سے ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے پر خطے میں انقرہ کی فضائی نگرانی کی صلاحیت خطے میں بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب واشنگٹن نے انقرہ کو روس سے ایس 400 ایس لینے پر خبردار کیا کہ ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں امریکا اور ترکی کے مابین عسکری صنعت کے تعاون پر برے اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترکی کو بھی یورپ اور امریکا کی طرح دیگر ممالک سے تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ماسکو کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ روسی صدر اپنے ترکش ہم منصب سے سہ فریقی مذاکرات میں ملاقات کریں گے۔ ترک میڈیا کے مطابق ایرانی، روسی اور ترکی کے صدر شام سے متعلق تنازع پر ملاقات کریں گے۔ ایران کے نجی چینل این ٹی وی کے مطابق سہ فریقی اجلاس ایران کے شہر تبرز میں ہوں گے۔ دوسری جانب روس کے ترجمام ڈیمرٹی پیسکو کا کہنا تھا کہ ’سہ فریقی اجلاس تہران میں ہوں گے اس لیے یقینی طور پر روس اور ترکی کے صدر اجلاس کے دوران ہی اپنے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر غور کریں گے‘۔


 


امریکہ میں طوفان ’فلورنس‘ کے پیشِ نظر 10 لاکھ لوگوں کا انخلا

$
0
0

امریکہ کی ریاست جنوبی کیرولائنا کے گورنر ہنری میک ماسٹر نے جنوبی کیرولائنا کے تمام تر ساحلی علاقوں سے رہائشیوں کے جبری انخلا کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ امریکہ کی دو ریاستوں شمالی اور جنوبی کیرولائنا میں حکام نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سمندری طوفان فلورنس کے ساتھ تباہ کن ہواؤں اور شدید بارشوں کیلئے تیار رہیں۔ طوفان کی خبر دینے والے ادارے نیشنل ہری کین سینٹر (این ایچ سی) کا کہنا ہے کہ طوفان فلورنس انتہائی تباہ کن اور خطرناک طوفان ہے اور یہ شمالی اور جنوبی کیرولائنا کے ساحلوں سے ٹکرا سکتا ہے۔ کیٹگری چار کے اس سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کے بعد مختلف علاقوں میں 15 سے 30 انچ بارش کی توقع ہے جس سے بڑے علاقے میں سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔

این ایچ سی کے مطابق یہ طوفان کئی روز تک جاری رہ سکتا ہے اور اس سے شمالی اور جنوبی کیرولائنا کے علاوہ ریاست ورجینیا کے جنوبی علاقے بھی شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس دوران 220 کلومیٹر فی گھنٹے سے تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے اور توقع ہے کہ اس میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹگری چار کے طوفان سے گھروں کی چھتیں اُڑ سکتی ہیں، درخت اکھڑ سکتے ہیں اور کئی روز تک بجلی منقطع ہو سکتی ہے جس کے باعث متاثرہ علاقے کئی ہفتے یا ماہ تک رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ جنوبی کیرولائنا کے گورنر میک ماسٹر نے ریاست کے تمام تر ساحلی علاقوں سے لوگوں کے جبری انخلا کے احکامات جاری کئے ہیں اور توقع ہے کہ ان علاقوں سے کم سے کم دس لاکھ افراد کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑے گا۔ 

شمالی کیرولائنا کے گورنر رے کوپر نے بھی ریاست کے ساحل کے قریب واقع جزیروں سے لوگوں کے انخلا کے احکام جاری کئے ہیں۔ اُنہوں نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وفاقی سطح پر شدید خطرے کا اعلان کریں تاکہ ریاست میں ہونے والے متوقع نقصان سے نمٹنے کیلئے بھرپور کارروائی کی جا سکے۔ ورجینیا کے گورنر ریلف نارتھم نے سیلاب کے خطرے سے دوچار اُن علاقوں سے لوگوں کے انخلاء کا حکم دیا ہے جہاں امریکہ کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے اور دنیا کا سب سے بڑا بحری اڈا موجود ہے۔ سمندری طوفان فلورنس کے انتباہ کے پیش نظر، واشنگٹن ڈی سی کی میئر موریل باؤزر نے فوری طور پر اگلے 15 روز کے لیے ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے۔

 

کیا تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں ؟

$
0
0

ایسے وقت میں جب ایران نے خطے میں فوجی سر گرمیاں بڑھا دی ہیں، کئی عالمی تنازعات کے باعث تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، ایسے میں امریکہ نے اپنی ہوابازی کمپنیوں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ ایران کے اوپر سے پرواز نہ کریں۔ ڈیلی ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی فہرست میں خطرناک ترین واقعات میں سے ایک وہ تھا جب گزشتہ سال دسمبر میں امریکی سول طیارے کو فائٹر جیٹ طیاروں نے ایران کی فضائی حدود میں روکا تھا۔ اس مشاورتی ادارے نے شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے بھی ایرانی فضائی حدود سے متعلق انتباہ جاری کیا تھا۔

صدرٹرمپ کے نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے اور ایران پر گزشتہ ماہ دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے متنازعہ فیصلے کی وجہ سے واشنگٹن اور تہران کے مابین کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایئرلائنز کمپنیوں کو پروازوں سے متعلق حفاظتی معلومات فراہم کرنیوالے ادارے فلائٹ سروس بیورو نے بغیر خبردار کئے مطلع کیا کہ ایرانی فضائی حدود سے پروازیں گزارنے کی منصوبہ بندی کرتے وقت واشنگٹن اور تہران کے بگڑے تعلقات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اپنے کلائنٹس کو ای میل میں ایک امریکی گروپ نے کہا اگرچہ عراق کی فضائی حدود نومبر میں دوبارہ کھلنے سے روٹ کا اضافی آپشن مل گیا ہے، مگر خطے میں کوئی روٹ مکمل نہیں، آپریٹرز عراق یا ایران میں سے کسی ایک کو ترجیح بنانے سے پہلے غور ضرور کیا کریں۔ امریکی دفتر خارجہ اپنے شہریوں کو پہلے ہی ہدایت کر چکا ہے کہ حراست کے خدشے کے پیش نظر ایران کا سفر کرنے سے گریز کریں۔

فلائٹ سروس بیورو کے مطابق میڈیکل یا تکنیکی وجوہات پر ایران میں غیر متوقع لینڈنگ مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ عراق میں دہشت گردی کے خطرے اور مسلح کشمکش کے باعث اسی قسم کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ اسی خطرے کے پیش نظر فیڈرل ایوی ایشن نے دسمبر 2017 کے ہدایت نامے میں امریکی فضائی کمپنیوں کو 26 ہزار فٹ سے کم اونچائی کی اڑان سے روک دیا گیا تھا۔ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالح کو امید ہے کہ تہران اور مغربی طاقتوں کے مابین نیوکلیئر ڈیل واشنگٹن کے نکلنے کے باوجود قائم رہ سکتی ہے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہو اتو ایران کا نیوکلیئر پروگرام پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ 

علی اکبر صالح جو صدر حسن روحانی کے نائب بھی ہیں، ان کے ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب ایران نیوکلیئر ڈیل کو بچانے کی کوشش میں ہے۔ ٹرمپ کے نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے ایران کی پہلے سے کمزور معیشت مزید مشکلات کا شکار ہے جبکہ اس کی کرنسی ریال کریش ہو چکی ہے، نومبر میں ایران کی پٹرولیم انڈسٹری پر مزید پابندیاں لگیں گی جوحکومت کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہے اس سے اعتدال پسند صدر روحانی پر دباؤ مزید بڑھ جائیگا۔ علی اکبر صالح کے مطابق صدر ٹرمپ طاقت کی منطق پر عمل پیرا ہیں وہ نقصان اٹھائیں گے ۔

 

روس اور چین کی جانب سے ڈالر کی اجارہ داری چیلنج

$
0
0

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی تجویز، کہ روس اور چین تجارتی معاملات میں اپنی کرنسی کا استعمال بڑھائیں، موجودہ عالمی معاشی منظرنامے میں کئی مشکلات کی شدت کم کرنے اور کئی بحرانوں کو ٹالنے کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روس کے شہر ولادی ووسٹوک میں چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ تجارتی مقاصد کیلئے امریکی ڈالر کا استعمال کم کرنا اور اپنی اپنی قومی کرنسی کا استعمال بڑھانا ہو گا۔ چین اور روس کے صدور نے اقتصادی کانفرنس کے موقع پر جو ملاقات کی اس کے نتائج موجودہ عالمی معاشی کیفیت میں دوررس اثرات کے حامل محسوس ہوتے ہیں۔

روسی صدر کے بقول دو طرفہ تجارت میں روس اور چین کی جانب سے اپنی اپنی کرنسی میں لین دین ان بینکوں کو زیادہ مستحکم بنائے گا جو درآمدات و برآمدات کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس کو 2014ء سے یوکرائن کے علاقے کریمیا کے تنازعے اور چند ماہ قبل سے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت اور کئی دوسرے الزامات کے تحت واشنگٹن کی سنگین پابندیوں کا سامنا ہے جن کی بناء پر روسی کرنسی روبل کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کمی آئی جبکہ کئی ماہ سے امریکی اقدامات کے باعث چینی کرنسی یوآن کی قدر بھی تیزی سے گھٹی ہے۔

ترکی اور ایران سمیت کئی دیگر ملکوں کی کرنسیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، بین الاقوامی اقتصادی فورموں پر یہ موقف خاصے عرصے سے سامنے آتا رہا ہے کہ باہمی تجارتی لین دین میں ڈالر کی بجائے قومی کرنسی کو استعمال کیا جائے۔ اب صدر پیوٹن نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد جو بات زور دے کر کہی، وہ بہت سے ممالک خاصی مدت سے محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی تنازعات کے حوالے سے امریکی رویہ ڈالر کے بطور ’’گلوبل ریزرو کرنسی‘‘ استعمال کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس ضمن میں بعض حلقوں کا یہ تاثر بے وزن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے مختلف ملکوں پر سیاسی مقاصد کیلئے معاشی دبائو بڑھانے کی پالیسی کا بے محابا استعمال کیا جارہا ہے۔ 

چین کو ایسی تجارتی جنگ میں الجھایا جارہا ہے جس کے عالمی معیشت پر پڑنے والے مضر اثرات کی بیجنگ کی طرف سے بار بار نشان دہی کی جاتی رہی ہے۔ بیجنگ نے عالمی تجارت میں امریکہ کو کئی رعایتیں دینے کا اعلان بھی کیا مگر اس کا تاحال کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ 8 ستمبر کو امریکہ کی طرف سے چینی مصنوعات پر 200 ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس عائد ہونے کے بعد ایشیائی حصص بری طرح متاثر ہوئے۔ چین کی جوابی کارروائی اور وسیع ہوتی تجارتی جنگ کے منفی اثرات سے بڑے ممالک کو نکلنے میں شاید اتنی مشکلات پیش نہ آئیں جتنی ترقی پذیر ملکوں کو درپیش ہیں۔ بھارت بھی، جسے امریکہ ان دنوں اپنا فطری حلیف کہہ رہا ہے، ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی زد میں آتا نظر آرہا ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی لڑکھڑاتی صورتحال بھارت کی ایوی ایشن مارکیٹ سمیت کئی شعبوں پر اثرانداز ہو چکی ہے۔ 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو سہولتیں فراہم کرنے پر جو اخراجات کرنا پڑتے ہیں وہ ایک طرح سے امریکہ پر واجب الادا قرض ہے جس کی قسط کی ادائیگی میں پہلے امریکہ کی جانب سے کٹوتی کی اطلاع دی گئی اور اب باقی ماندہ رقوم کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا آئی ایم ایف ’’بیل آئوٹ‘‘ کو مشروط کرنے کا اعلان اس پر مستزاد ہے جبکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو تاحال ایسی کوئی درخواست نہیں دی۔ اس منظرنامے میں روس اور چین کا ڈالر کے بغیر تجارتی لین دین کا عزم واضح کرتا ہے کہ عالمی تجارت میں مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی میں لین دین کا پچھلی صدی کا رجحان لوٹ رہا ہے۔ ہماری نئی حکومت کو اپنی معاشی حکمت عملیوں میں اس پہلو کا بھی بطور خاص خیال رکھنا چاہئے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

ادلب پر حملہ مؤخر کر دیا گیا

$
0
0

شامی تنازعے میں روس اور ترکی بظاہر اختلاف رکھتے ہیں حالانکہ عالمی سطح پر وہ کئی امور میں متفق ہیں۔ ترک حکومت روس کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتی ہے۔ شامی صوبہ ادلب میں جمع باغیوں کے خلاف فیصلہ کُن عسکری کارروائی سے قبل روس اور ترکی کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں اور اسی باعث شامی فوج کے عسکری آپریشن کو بظاہر مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ایک ترک سفارتکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ یقینی ہو گا لیکن سردست کسی فوری حملے کا امکان موجود نہیں ہے۔


یہ امر اہم ہے کہ ادلب کے علاوہ بقیہ شام پر صدر بشار الاسد کی فوج نے اپنی حکومت کا اختیار قائم کر دیا ہے۔ سارے شام سے پسپا ہونے والے مختلف گروپوں کے باغی اس وقت ادلب میں جمع ہیں۔ ادلب پر شامی فوج کے ممکنہ حملے کو روس کی عملی حمایت و تائید حاصل ہے۔ ترک حکومت ادلب پر حملے کی صورت میں پیدا ہونے والے انسانی المیے پر تشویش رکھتی ہے اور وہ خونریزی کو روکنے کی کوشش میں ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو ترک حکومت کی حمایت بھی حاصل رہی ہے اور اب وہ باغیوں کے حوالے سے کسی کمپرومائز کی تلاش میں ہے۔ تہران سمٹ کی ناکامی کے بعد روسی و ترک حکومتی اہلکاروں کے درمیان ادلب کے معاملے پر مشاورتی عمل مسلسل جاری رہا ہے۔

اسی صورت حال پر مزید بات چیت کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوآن اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ روسی شہر سوچی میں ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کی تصدیق ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے کی ہے۔ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی اس میٹنگ میں شام کے علاقے اِدلب میں ملکی فوج کے باغیوں کے خلاف ممکنہ عسکری آپریشن اور حملے کے بعد کی صورت حال پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس سے قبل تہران میں یہ دونوں صدور ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ اسی معاملے پر میٹنگ کر چکے ہیں۔ سات ستمبر کو تہران میں منعقد ہونے والا یہ سہ فریقی اجلاس بےنتیجہ رہا تھا۔ 

سوچی میں ایردوآن اور پوٹن میٹنگ میں ادلب میں حیات تحریر الشام کے ہزاروں باغیوں کا معاملہ اہم ہے۔ اسی گروپ کی انقرہ حکومت حامی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ ادلب میں حملے سے پیدا ہونے والی ہولناکی سے اجتناب ضروری ہے اور معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ادلب پر حملے کی صورت میں ممکنہ طورپر ہزاروں ہلاکتوں کے علاوہ لاکھوں افراد مہاجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی ادلب کے عام شہری ترکی اور شامی صوبے حما میں منتقل ہونے کی کوشش میں ہیں۔

بشکریہ DW اردو

 

پاکستان کا سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کیوں ؟

$
0
0

پاکستانی وزیراعظم عمران خان رواں ماہ سعودی عرب کے مجوزہ دورے پر ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر 4 ارب ڈالر کے آسان قرضے پر مذاکرات کریں گے۔ پاکستان نرم شرائط پر قرض کے لیے چین اور دیگر ذرائع سے بھی رابطے میں ہے۔ اسلام آباد کی حتیٰ الوسع کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مزید قرض نہ لے۔ تاحال پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کا 6 ارب ڈالر کا مقروض ہے جس کے باعث مزید ادھار لینے کے لیے سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی بد حال معیشت کی بنیاد پر پاکستان IMF سے صرف 2.85 ارب ڈالر قرض قدرے کم سخت شرائط پر حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام کے لیے 2018ء اور 2019ء کے لیے 12.5 ارب ڈالرکا سرمایہ درکار ہو گا جب کہ پہلے ہی اسلام آباد متعدد غیر ملکی قرائض میں دھنسا ہوا ہے۔

صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکا کی عدم مخالفت کی صورت میں بھی پاکستان کو IMF سے مالی معاونت کے لیے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہوں گی۔ IMF میں نئی قانونی اصلاحات کے باعث پہلے سے مقروض ممالک کے لیے مزید مالی قرائض کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان کڑی ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کے لیے تیار بھی ہو جائیں تو مزید 6.5 ارب ڈالر کے لیے پاکستان کو دیگر ذرائع سے رجوع کرنا ہی ہو گا۔ اکتوبر میں قرائض کی فراہمی کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکا جا سکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 123 روپے تک جا پہنچی ہے۔ موجودہ تشویشناک اقتصادی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات اور دیگر درآمدات میں 15 فیصد تک کمی کرے اور فوری طور پر برآمدات میں اضافہ کے لیے اصلاحات اور اقدامات بھی کیے جائیں۔

آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں بجلی کی پیداوار میں کمی برآمدات کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئی۔ نتیجتاً درآمدات اور برآمدات کا توازن یکسر بگڑ گیا۔ مزید برآں غیر ملکی پاکستانیوں کی ترسیل زر میں بھی تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں نئی حکومت کے لیے نہ صرف مزید قرائض کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات ملک کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں چاہے عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہ بھی فراہم کرے!
پاکستان گزشتہ دہائیوں میں پرانے قرضے چکانے کے لیے مزید ادھار حاصل کرتا رہا ہے جس کا نتیجہ قرضوں کا موجودہ حالیہ بوجھ ہے جو نیم ساکن معیشت کا سبب بنا ہے۔ عمران خان حکومت کو نہ صرف زر کا حصول سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہے بلکہ ملک کی معیشت کو رواں کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔

بیرونی قرضوں کی بروقت عدم ادائیگی عالمی مالیاتی نظام سے پاکستان کو خارج کر سکتی ہے۔ یوں بین الاقوامی اقتصادی نظام میں فعال رہنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک دونوں کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے ، ورنہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہ ہو گی کیونکہ سرمایہ کار متزلزل معیشت میں زر لگانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ چین سے دو ارب ڈالر اور سعودی عرب سے چار ارب ڈالر قرض لینے سے پاکستان فوری طور پر نادہندہ ہونے سے محفوظ ہو جائے گا جبکہ ایک ارب ڈالر کا نرم شرائط پر اسلامی ترقیاتی بینک سے قرض دشواریوں میں کمی کا باعث ہو گا۔ نواز حکومت میں بھی چین سے آسان شرائط پر قرض حاصل کیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی گرانٹ بھی دی تھی۔ ان دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک سے قرض بنا طویل اور تفصیلی مذاکرات کے حاصل کرنا حالات کی سنگینی کا تقاضہ ہے ۔ ہمسایہ ملک ایران نہ صرف امریکا کی پابندیوں کا شکار ہے بلکہ FATF کی بلیک لسٹ میں بھی موجود ہے۔ ایران خود گوناگوں مسائل اور قدغنوں کا شکار ہے ایسے میں تہران حکومت کی طرف سے ایسی مالی امداد کی پیشکش نہ آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔

ترکی اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل خصوصاً شامی مہاجرین کی موجودگی کے باعث قرض کی فراہمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یوں سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانی وفد جہاں طویل المدتی قلیل سودی قرض پر مذاکرات کرے گا وہاں دنیا کے امیر اسلامی ملک سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ پر بھی بھرپور بحث ہونی چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو برآمدات کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ مزید برآں سعودی عرب میں تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جو تقریباً 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے لیے سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے کوٹے میں اضافے کی کامیاب کوشش غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کو مزید تقویت دینے کا باعث ہو گی۔ حالیہ دوروں کے دوران اعلیٰ سطحی سعودی وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بیشتر منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا ہے۔ پس سعودی عرب، چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کا حصول پاکستان کی معاشی اور اقتصادی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

سری لنکا کا خوبصورت شہر کینڈی

$
0
0

کینڈی سری لنکا کے صوبہ وسطی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ وسطی سری لنکا میں سطح مرتفع کینڈی کی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ سری لنکا کی آخری بادشاہت کا دارالحکومت رہا۔ کینڈی میں بدھ مت کی انتہائی اہم عبادت گاہ واقع ہے جسے یونیسکو نے 1988ء میں عالمی ورثہ قرار دیا۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر وکراماباہو سوم نے 1357–1374 ء میں تعمیر کیا جو سلطنت گیمپولا کا بادشاہ تھا۔ 1592 میں کینڈی ملک میں آخری آزاد بادشاہت کا دارالحکومت بنا۔ اس وقت بہت سے ساحلی علاقے پرتگالیوں کے قبضے میں آ چکے تھے۔ یہاں پرتگالیوں کے کئی حملوں کو ناکام بنایا گیا۔ اس دور کے حاکموں کو ولندیزیوں کے حملوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ 

کینڈی میں موجود شاہی محل سری لنکا میں تعمیر ہونے والا آخری شاہی محل ہے۔ کینڈی سری لنکا کے نسبتاً اونچے مقام پر ہے۔ اس لیے یہاں بارش زیادہ ہوتی ہے اور موسم بیشتر علاقوں کی نسبت زیادہ سرد ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1526 فٹ بلند ہے۔ جنوری سے اپریل تک موسم خشک رہتا ہے۔ مئی سے جولائی اور اکتوبر سے دسمبر تک یہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ جنوری سرد ترین اور جولائی گرم ترین ماہ ہیں۔ نمی عموماً 70 سے 79 فیصد رہتی ہے۔ شہر میں سنہالی اکثریت میں ہیں تاہم ’’مورز‘‘ اور تاملوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ مورز زیادہ تر مسلمان ہیں اور ان عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو آٹھویں صدی کے بعد یہاں آ کر آباد ہوتے رہے۔ تاہم بعض مفکرین کا خیال ہے کہ یہ جنوبی بھارت کے ماپیلا، میمن اور پٹھانوں کی اولاد ہیں۔ یہ تامل زبان بولتے ہیں لیکن اس میں سنہالی اور عربی کے الفاظ کی خاصی ملاوٹ ہوتی ہے۔ شہر میں کرکٹ، رگبی، فٹ بال، سوئمنگ، ہاکی، اتھلیٹکس، ٹیبل ٹینس، باکسنگ، تیراکی وغیرہ مقبول ہیں۔

ترجمہ: رضوان عطا


 

امریکی انتظامیہ قائدانہ وصف کھو چکی ، اقوام متحدہ

$
0
0

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوٹیرس نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ قائدانہ وصف کھو چکی ہے، ماضی میں امریکا کا عالمی سیاست میں اہم کردارتھا مگر آج تجارت اور دیگر معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ امریکی جریدے سے گفتگو کرتے ہو ئے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ دنیا اس وقت انتشارکا شکار ہے جبکہ امریکی انتظامیہ اس وقت اپنا دبدبہ اور قائدانہ وصف کھو چکی ہے اور اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں وہ سرد جنگ کے خاتمے کے وقت تھی ۔ ماضی میں امریکا عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا تھا مگر آج تجارت اور دیگر موضوعات میں الجھ کر رہ گیا ہے جس سے اس کا دبدبہ کم ہو چکا ہے۔
 


فیس بک نے روسی مداخلت کو جاننے کیلئے سستی کو اعتراف کر لیا

$
0
0

فیس بک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیرل سینڈ برگ نے امریکی سینیٹرز کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ امریکا کی صدارتی انتخابی مہم میں اس پلیٹ فارم کے استعمال کی روسی کوشش کو پہچاننے میں ان کی کمپنی بہت زیادہ سست رہی تھی۔ آنے والے امریکی وسط مدتی انتخابات کیلئے رائے دہندگان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنے والے بیرونی عناصر کے سامنے آنے کے بعد اپنی پہلی کانگریس کی سماعت میں سینڈ برگ نے کہا کہ یہ بات جاننے اور اس پر کارروائی کرنے کیلئے کمپنی نے بہت زیادہ سست روی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ہم پر منحصر تھا۔ یہ مداخلت مکمل طور پر ناقابل قبول تھی۔ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے شیرل سینڈ برگ اور ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو جیک ڈور سے سے سوالات کئے، جیسا کہ وہ غلط معلومات اور سیاسی تقسیم پیدا کرنے کی غیر ملکی کوششوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے طریقوں کی تلاش کر رہے تھے۔

گوگل کی آبائی کمپنی الفا بیٹ کے چیف ایگزیکٹو لیری پیج کی جانب سے دعوت قبول کرنے سے انکار کے بعد کمیٹی نے گوگل پر تنقید کی۔ کمیٹی نے ان کی بجائے گوگل کے سینیئر نائب صدر کینٹ سے گواہی لینے سے انکار کر دیا۔ اس موضوع پر سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی جانب سے آخری بار منصوبہ بندی کے تحت اس سماعت میں سینیٹر ممکنہ ضابطوں سمیت مسئلے کے حل کیلئے ایگزیکٹوز کو زور دینے کی کوشش کریں گے۔ کمیٹی کے ریپبلکن سربراہ سینیٹر رچرڈ بر نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم مخالفین پر گولی چلائے بغیر جنگ جیتنے کی پوزشین میں لے آتا ہے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ہم نے مسئلے کی شناخت کر لی ہے، اب ان کا حل تلاش کرنا ہے۔

کمیٹی کے نائب ڈیمو کریٹک سربراہ سینیٹر مارک وارنر نے ٹیک کمپنیوں کیلئے مزید ضابطوں کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ بالآخر آپ ازخود اس چیلنج کو پورا کرنے کے قابل ہوں گے۔ میرے خیال میں کانگریس کو کارروائی کرنا ہو گی۔ حصص بازار میں ابتدائی تجارت میں ٹوئٹر کے حصص کی قیمت 5 فیصد سے زائد گر کر 6.33 ڈالر ہو گئی، جبکہ فیس بک کے حصص کی قیمت ایک فیصد گر کر 15.169 ڈالر ہو گئی۔ الفا بیٹ 1.9 فیصد نیچے جانے سے 1,188 ڈالر کا ہو گیا۔ فیس بک نے رئیل لائف پروٹیسٹ کی تنظیم سمیت مشترکہ غیر حقیقی رویے کو تلاش کیا، جس کا مقصد امریکا کے نومبر کے انتخابات پر اثرانداز ہونا ہے۔

گوگل اور ٹوئٹر کے ساتھ اس نے حال ہی میں امریکا، برطانیہ اور2013ء سے پہلے دیگر جگہوں میں سیاست پر اثرانداز ہونے کیلئے ایریانی مہم کا انکشاف کیا۔
تاہم شیرل سینڈ برگ نے کہا کہ اس طرح کی مداخلت سے لڑنے کے لئے فیس بک کی کوششوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ سماعت سے پہلے جاری ہونے والے تحریری بیان میں انہوں نے کہا کہ مالی حوصلہ افزائی اور ٹرول فارموں سے جدید انٹیلیجنس آپریشنز تک ہم اپنے مخالفین کو تلاش کرنے اور مقابلہ کرنے کی کوشش میں بہتر ہو رہے ہیں۔ کیمبرج اینا لائیٹکا کی جانب سے فیس بک ڈیٹا کے استعمال پر تنازع کے حوالے سے منعقد کئے گئے نئے سروے کے طور پر یہ گواہی سامنے آئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی شاید ان سائٹس پر نمایاں طور کم وقت صرف کر رہے ہیں اور کئی کئی ہفتوں کا وقفہ لیتے ہیں۔

پیو ریسرچ سیٹر کی جانب سے کئے گئے سروے میں کہا گیا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے 42 فیصد بالغ امریکی شہریوں نے گزشتہ سال سائٹ سے وقفہ لیا اور54 فیصد نے اپنی پرائیویسی سیٹنگ کو دوبارہ سے ایڈجسٹ کیا۔ گزشتہ سہہ ماہی میں فیس بک کے امریکا کے فعال صارفین کی تعداد برقرار رہی، لیکن کمپنی نے حالیہ اعداد و شمار جاری نہیں کئے کہ سائٹ پر صارف کتنا وقت گزارتا ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی اشتہاری مارکیٹ امریکا میں وقت گزارنے کے دورانیہ میں کمی آئی ہے تو یہ مستقبل کی آمدنی کو متاثر کرے گی۔ سینیٹر مارک وارنر نے سماعت کے لئے نمائندہ نہ بھیجنے پر گوگل کی سرزنش کی، گوگل کو جی میل سے یوٹیوب سرچ تک ڈھانچے کے غیر محفُوظ حملے کا سامنا ہے۔ سینیٹر نے کہا کہ مجھے شدید مایوسی ہوئی کہ سب سے زیادہ سیاسی طور پر اثرانداز ہونے والے دنیا کے پلیٹ فارمز میں سے ایک، گوگل نے کسی کو نہ بھیجنے کا انتخاب کیا۔

گوگل کے والکر نے کہا کہ وہ نجی طور پر کانگریس اور کمیٹی کے اراکین کو معلومات فراہم کریں گے۔ باگ پوسٹ میں انہوں کہا کہ گوگل 2016ء کے انتخابات سے کافی پہلے سے ہی اپنے پلیٹ فارم کو غلط استعمال سے بچانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ مسٹر ڈورسے نے بدھ کو کانگریس کی دو سماعتوں کا سامنا کیا۔ سینیٹ کمیٹی کی سماعت کے بعد ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو سے ہاؤس انرجی اور کامرس کمیٹی کی جانب سے سوالات کئے جائیں گے۔ ہاؤس کمیٹی مواد کےمعتدل ہونے اور سینسر شپ کے ساتھ مسائل پر توجہ مرکوز کرے گی، کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت چند ریپبلکنز نے ٹیک پلیٹ فارم پر ایک کنزرویٹو مخالف تعصب رکھنے کا الزام لگایا ہے۔

مسٹر ڈورسے نے رواں ہفتے پولیٹیکو کوبتایا کہ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ منصفانہ ہے کہ ٹوئٹر دیگر پلیٹ فارمز کے بغیر پیش ہوا، جس پر اسی طرح کے تعصب کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہاؤس کی سماعت سے پہلے جاری ہونے والے اپنے بیان میں مسٹر ڈورسے نے کہا کہ مواد کو زیادہ سے زیادہ شفاف طریقے سے ہٹانے کے اپنے فیصلے کے ذریعے وہ پیغامات کے پلیٹ فارم سے صارفین کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر فیصلہ کرنے کیلئے کسی سیاسی نظریات کا استعمال نہیں کرتا، چاہے ہماری خدمات درجہ بندی کے مواد سے متعلق ہو یا ہم اپنے قوانین کا نفاذ کریں۔ ہم سختی سے غیر جانبدار رہنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہم غیر معمولی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

کيا پاکستان امریکی حلقہء اثر سے نکل رہا ہے؟

$
0
0

امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان، امریکی حلقہء اثر سے نکلتا جا رہا ہے۔ عين ممکن ہے کہ اس تاثر نے امریکا کے کچھ حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہو تاہم پاکستان میں ماہرین اسے مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ سياسی تجزيہ کاروں کے مطابق پاکستان کے ليے یہی بہتر ہے کہ وہ امريکی حلقہء اثر سے نکلے۔ گزشتہ ہفتے جاری کردہ امریکی بجٹ تجاویز میں روس اور چین کو ایک بڑا خطر ہ قرار دیا گیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ چین پاکستان جيسے اپنے قريبی اتحادی ممالک میں فوجی اڈے بنا سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں و سیاست دانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکا کی دوستی سے کچھ زیادہ نہیں ملا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور معروف دانشور تاج حیدر کی رائے میں اسلام آباد حکومت کو خطے کے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہیے کیونکہ اس خطے کو امن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سرد جنگ کے دوران ہم امریکی کیمپ میں چلے گئے حالاں کہ پاکستان تصور مساوات و برابری کے تحت معرض وجود میں آیا تھا۔ اس لحاظ سے ہمیں سوشلسٹ ممالک کے قریب ہونا چاہیے تھا لیکن کیونکہ ہمارے حاکم طبقات کی غلامانہ سوچ تھی، اس ليے ہم مغربی کیمپ میں چلے گئے، جس کی وجہ سے ہمارا ان پر انحصار بڑھ گیا۔ میرے خیال میں اب ہمیں کسی بھی ملک کے حلقہء اثر میں نہیں رہنا چاہیے۔ تاہم ہمیں روس، چین اور خطے کے دوسرے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

پاکستان میں کچھ حلقے امریکا سے صرف اس ليے خائف ہیں کہ وہ اسلام آباد کے اسٹریجک مفادات کو اہمیت نہیں دیتا اور پاکستان کو اتحادی ہونے کے باوجود دھوکہ دیتا ہے۔ ایسے حلقے پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار کرنل انعام الرحیم کے خیال میں افغانستان تو صرف بہانہ ہے۔ امریکا کو در اصل پریشانی سی پیک اور روس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں روس اور چین کے ساتھ مل کر سی پیک کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جس لمحے ہم نے سی پیک پر کام شروع کیا، امریکا سمجھ گیا تھا کہ ہم اس کے حلقہ اثر سے نکل رہے ہیں۔ نواز حکومت کو بھی اس کی سزا دی گئی۔ موجودہ حکومت نے اس کو رول بیک کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی ردِ عمل کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے ترک کرنے پڑے۔‘‘

کرنل انعام الرحیم کے خیال میں اسلام آباد کے ليے یہ اچھا ہے کہ وہ امریکی حلقہء اثر سے نکل رہا ہے اور چین کے قريب جا رہا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’پاکستان اور چین کو مل کر ایران، ترکی اور روس کو سی پیک کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس کے بعد افغانستان بھی ہمارے ساتھ آ جائے گا۔ جب اتنے اہم ممالک سی پیک کا حصہ بنيں گے، تو کئی ديگر ممالک بھی سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کریں گے۔ اس سے امریکا تنہا ہو جائے گا۔ تو پاکستان اگر امریکی حلقہء اثر سے مکمل طور پر نکلتا ہے، تو اس سے نہ صرف خطے کے معاملات تبدیل ہوں گے بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘

دوسری جانب کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو چین پر بھی حد سے زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو سری لنکا اور ديگر ممالک کے مثالیں اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکی حلقہء اثر سے نکل رہا ہے لیکن اسے چینی حلقے اثر میں جانے سے پہلے بھی دس بار سوچنا چاہیے۔ ’’چین ہماری دوستی کا بھرم بھرتا ہے لیکن جب اس کے قومی مفادات کی بات ہو گی، تو وہ بہت چالاکی سے اپنے پتے کھیلے گا، جیسا کہ اس نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران کچھ مہینوں پہلے کھیلا۔ لہذا ہمیں احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

تجارتی جنگ میں شدت : امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 200 ارب ڈالر کے نئے ٹیکس

$
0
0

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے تجارتی نمائندے کو چین کی 200 ارب ڈالر کی درآمدات پر محصولات لگانے کی ہدایت دی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے دنیا کی ان دو عظیم معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ امریکہ کی جانب سے نئے ٹیکس لگائے جانے کی صورت میں وہ بھی اتنی ہی مالیت کی امریکی اشیا پر اسی تناسب سے ٹیکس عائد کر دے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئے محصولات کا اطلاق 24 ستمبر سے ہو گا اور اس سال کے آخر تک ٹیکس کی شرح 10 فی صد ہو گی جب کہ اس کے بعد اسے بڑھا کر 25 فی صد کر دیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کو تجارت میں غیر منصفانہ رویہ ترک کرنا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر چین نے جوابی اقدام کیا تو وہ امریکہ میں چین کی مزید 267 ارب ڈالر کی درآمدات پر بھی ٹیکس لگا دیں گے۔
 

کابل : افغانستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر

$
0
0

کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر ساڑھے تین ہزار سال سے بھی قدیم ہے، تاہم یہ معلوم نہیں کہ اس کی بنیاد کس نے رکھی۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید جو 1700-1100 قبل مسیح میں لکھی گئی، اور زرتشتوں کی مقدس کتاب اوستا میں دریائے کابل اور ایک کوبھا نامی آبادی کا ذکر ملتا ہے۔ وادیٔ کابل ماد سلطنت کا 678-549 قبل مسیح کے قریب حصہ رہی۔ اس سلطنت پر کوروش اعظم کے قبضے کے بعد کابل زرتشتوں کا علمی مرکز بن گیا۔ اس کے بعد یہاں بدھ مت اور ہندو مت نے فروغ پایا۔ دارا کے مقبرے پر موجود ایک کتبے کے مطابق کابل اولین ایرانی سلطنت کی 29 ریاستوں میں سے تھا۔ اس سلطنت پر سکندراعظم نے قبضہ کر لیا۔ 

سکندراعظم کی وفات کے بعد یہ اس کے ایک جرنیل کے ہاتھ آیا جس نے اپنی سرحدوں کو دریائے سندھ تک پھیلا دیا۔ پہلی صدی قبل مسیح میں شہر موریائوں کے قبضے میں آیا۔ پہلی صدی عیسوی میں کوشان اور بعدازاں ہندو اس کے حکمران بنے۔ اسلامی فتوحات کا سلسلہ 662ء تک افغانستان پہنچا۔ شروع میں یہاں لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں۔ ساتویں صدی کے اواخر میں زرنج سے ایک مبلغ عبدالرحمان یہاں پہنچے۔ جن کے زیراثر 12 ہزار کے قریب مقامی افراد نے اسلام قبول کیا۔ یعقوب لیث صفاری نے 870ء میں کابل فتح کیا اور خطے میں پہلی اسلامی سلطنت قائم کی۔ اس وقت تک مسلمان کابل میں اقلیت میں تھے۔ 

اگلے عرصے میں شہر سامانی، ہندو شاہی، غزنوی، غوری اور تیموری حکمرانوں کے تحت رہا۔ 13ویں صدی میں وحشی منگول یہیں سے گزرے۔ 14 ویں میں امیر تیمور لنگ کی سلطنت کے شہر کی حیثیت سے کابل ایک مرتبہ پھر تجارتی مرکز بن گیا لیکن تیموری طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد ظہیر الدین بابر نے سولہویں صدی کے اوائل میں کابل پرقبضہ کرتے ہوئے اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا اوربعد ازاں یہ مغل حکمرانوں کے زیر نگیں رہا۔ اس کے بعد فارس کے حکمران نادر شاہ نے کابل پر قبضہ کر لیا لیکن اس کی وفات کے بعد احمد شاہ درانی تخت پر بیٹھا اور پشتون حکومت کا اعلان کرتے ہوئے افغان سلطنت کو مزید وسیع کیا۔ 1772ء میں اس کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے کابل کو اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس کے انتقال کے بعد زمان شاہ درانی تخت پر بیٹھا۔

انیسویں صدی میں دوست محمد حکمرانی کا دعویدار بنا لیکن 1839ء میں برطانوی افواج نے کابل پر قبضہ کر لیا اور شاہ شجاع کی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی۔1841ء میں مقامی ’’بغاوت‘‘ کے نتیجے میں برطانوی افواج کو بڑے جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور جلال آباد میں ہزاروں برطانوی فوجیوں کو تہ تیغ کیا۔ برطانیہ نے اس قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے جوابی حملہ کیا لیکن بالاحصار کو نقصان پہنچا کر بھاگ کھڑا ہوا۔

محمد شاہد


 

امریکا چین تجارتی کشیدگی، تاریخ کی سب بڑی 'ٹریڈ وار'قرار

$
0
0

دنیا کے ساٹھ فیصد حصے میں چین کا سرمایہ اور صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ اور وہ مزید سرمایہ کاری کرتا جا رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین نے چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ کو تاریخ کی سب سے بڑی ٹریڈ وار قرار دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کی بڑھتی ہوئی تجارت، سرمایہ کاری اور سیاسی اثرورسوخ میں اضافے سے شدید بوکھلاہٹ کا شکا ر نظر آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری بار چینی اشیاء پر 200 بلین ڈالر کا ٹیرف نافز کیا ہے جبکہ جنوری2018 میں واشنگ مشین اور سولر سیل پر سیف گارڈ ٹیرف نافذ کیا تھا۔

فروری میں چین نے امریکا سے درآمد sorghum میں ایک سالہ سبسڈی کی تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا جبکہ مارچ میں امریکا نے چین سے درآمد ہونے والی اسٹیل اور ایلومینیم کی اشیاء پر ٹیرف نافذ کیا۔ مارچ میں ہی چین نے جوابا امریکا سے درآمد ہونے والی اشیاء پر 3 بلین ڈالر کا ٹیرف لگا دیا۔ اپریل میں امریکا نے پچاس بلین ڈالر کی اشیاء پر ٹیرف نافذ کیا جبکہ جواب میں چین نے بیان دیا کہ وہ امریکا کی 106 اشیاء پر 25 فیصد ٹیرف نافذ کریگا۔ چین نے سیکشن 301 کے تحت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں امریکا کی شکایت کی۔ اپریل میں ہی چین نےاعلان کیا کہ وہ امریکا سے درآمد کی گئی ایک بلین ڈالر کی sorghum پر اینٹی ڈمپنگ ٹیرف جمع کرے گا۔ مئی میں واشنگٹن میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد چین نے sorghum پر تحقیقات ختم کر دیں۔

جون میں بیجنگ، امریکا اور چینی حکام کےدرمیان ملاقات ہوئی جس میں 2018 میں امریکا سے 25 بلین ڈالر کی اشیاء خریدنے کی پیشکش کی۔ جون میں امریکا نے چین سے دوبارہ 50 ارب ڈالر کی درآمد پر ٹیرف کا اعلان کیا، امریکا نے چینی اشیاء پر 200 بلین ٹیرف پر غور کرنا شروع کیا تو جواب میں چین نے ایک فہرست بنائی جس میں امریکا سے درآمد اشیاء پر 60 بلین ڈالر تک ٹیرف کا اعلان کیا۔ جولائی میں وائٹ ہاؤس نے 34 ارب امریکی ڈالر کی چینی اشیا کے چارجز میں اضافہ کیا تھا۔ اگست کے دوران امریکا نے دوسرے مرحلے میں 16 ارب کی اشیا پر 25 فیصد ٹیکس نافذ کیا تھا اور اب امریکا نے 5 ہزار سے زائد چینی اشیاء پر 200 ارب ڈالر مالیت کے نئے ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کی یہ تجارتی جنگ عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>