Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

ساٹھ فیصد امریکی شہریوں نے ٹرمپ کی کارکردگی کو مسترد کر دیا

$
0
0

امریکا میں ہونے والے ایک سروے میں 60 فیصد شہریوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کارکردگی کو نامنظور کر دیا ہے جبکہ نصف کے قریب شہریوں نے ان کے مواخذے کی حمایت کی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق امریکا کے 36 فیصد عوام نے ٹرمپ کی صدارتی کارکردگی کو قبول کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال اپریل ہونے والے ایک سروے میں 40 فیصد شہریوں نے ٹرمپ کی کارکردگی پر اطمینان اور 56 فیصد نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ٹرمپ کے حوالے سے حالیہ سروے 26 اگست سے 29 اگست کے دوران ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب ٹرمپ کے صدارتی مہم کے سابق چیئرمین پال مینافورٹ کو ٹیکس اور بینک فراڈ میں مجرم قرار دیا گیا تھا اور سابق اٹارنی مائیکل کوہن نے ٹرمپ پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی خواتین کو خاموش کرنے کے لیے رقم ادا کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

سروے میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ایک ہزار 3 شہریوں سے رائے طلب کی گئی تھی۔ اس سروے میں حصہ لینے والے 49 فیصد عوام کا کہنا تھا کہ کانگریس کو ان کے خلاف مواخذہ کرنا چاہیے جبکہ 46 فیصد نے اس بات سے اختلاف کیا۔
امریکی شہریوں کی 36 فیصد کو یقین ہے کہ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران روس کے ساتھ ساز باز کرنے کے حوالے سے ہونے والی تفتیش میں خصوصی وکیل رابرٹ میولرز کے کام میں مداخلت کی کوشش کر کے انصاف کی راہ میں حائل ہوئے ہیں۔ اسی سروے میں 35 فیصد عوام کا کہنا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ صدر نے اس طرح کی مداخلت کی ہے جبکہ ٹرمپ نے اس تفتیش کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی طورپر نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دی تھی۔

ایک ہزار 3 بالغ شہریوں کے اس سروے رپورٹ کے نتائج کے مطابق 63 فیصد شرکا نے کہا کہ وہ میولر کی تفتیش کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔ واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے سروے میں معاشی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کی ریٹنگ بہتر ہوئی ہے جہاں 45 فیصد عوام نے ان کی معاشی کارکردگی کو قبول اور 45 فیصد نے ہی نامنظور کر دیا ہے۔
ری پبلیکز اور ڈیموکریٹکس کی جانب سے ٹرمپ کی مقبولیت کے حوالے سے سروے کے نتائج میں واضح طور پر اختلاف سامنے آیا ہے۔ ری پبلیکنز کے 73 فیصد نے اپنے صدر کی کارکردگی کو منظور کیا جبکہ 93 فیصد ڈیموکریٹس اور 59 فیصد آزاد شہریوں نے اس کو مسترد کر دیا۔


ٹرمپ کے انکار کے بعد جرمنی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا

$
0
0

امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطینیوں کی مالی امداد کی بندش کے فیصلے کے بعد جرمنی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ماس کے بقول فلسطینیوں کے پاس رقوم ختم ہو گئیں تو قابو میں نہ آنے والی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ وفاقی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق فلسطینیوں کو مالی امداد کی اشد ضرورت ہے اور اگر ان کو دستیاب مالی وسائل ختم ہو گئے، تو ’اسباب و نتائج کا ایک دوسرے سے جڑا ایسا طویل سلسلہ شروع ہو جائے گا، جسے قابو کرنا ممکن نہیں ہو گا‘۔ ہائیکو ماس کے الفاظ میں اسی وجہ سے جرمنی اب فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی پیش رفت کی کوشش کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن حکومت فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی فنڈنگ میں ’واضح‘ اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ عالمی ادارے کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین UNRWA ایسے فلسطینیوں کو مدد فراہم کرتی ہے، جو مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے نتیجے میں اپنے گھر بار سے محروم ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ایجنسی تقریباﹰ پچاس لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور طبی مدد فراہم کرنے کے علاوہ متعدد اسکول بھی چلاتی ہے۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ایجنسی کی وجہ سے فلسطینی مہاجرین کے بحران میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس سال اس ایجنسی کو صرف ساٹھ ملین ڈالر کی رقوم فراہم کیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اس ایجنسی کی فنڈنگ مکمل طور پر روک بھی سکتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ کے دوران واشنگٹن حکومت کی طرف سے UNRWA کے لیے 365 ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے، جو ترقیاتی اور انسانی بنیادوں پر چلائے جانے والے امدادی منصوبوں پر صرف کی گئی تھیں۔ امریکا کی طرف سے اس فنڈنگ کی کمی کے باعث فلسطینی مہاجرین کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ اس صورتحال میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یورپی یونین کے رکن ممالک کے اپنے ہم منصب وزراء کو ارسال کردہ ایک خط میں لکھا ہے کہ برلن حکومت اس ایجنسی کی فنڈنگ میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جرمنی اس حوالے سے کتنی رقوم فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ 

ڈی پی اے نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ رقوم اتنی ہوں گی کہ ان سے امریکی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے ہونے والے 217 ملین یورو کے خسارے کا ازالہ ہو سکے گا۔ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اہم بات یہ کہ یورپی یونین اس ایجنسی کی مدد کے لیے مشترکہ اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے تناظر میں UNRWA انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ ایجنسی غیر فعال ہوئی تو اس کے نتیجے میں ’ناقابل کنٹرول ردعمل‘ پیدا ہو جائے گا۔ رواں برس جرمنی نے اس ایجنسی کو تقریباﹰ 96 ملین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی ہے۔ امریکی صدر کا الزام ہے کہ فلسطینیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی ٹرمپ کو اسرائیل نواز قرار دیتی ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین اس تنازعے کے خاتمے کے لیے ابھی تک دو ریاستی حل کو ناگزیر سمجھتی ہے۔ فلسطینی حکام اور اسرائیل کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

بشکریہ DW اردو
 

قربانیاں‌ فراموش، امریکا نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی

$
0
0

امریکا نے پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کو فراموش کر دیا، دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کرنے کا پرانا راگ الاپتے ہوئے پینٹاگون نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کر دی۔ امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں واجب الادا تھی، امریکا کی جانب سے روکی جانیوالی امداد اب بڑھ کر 800 ملین ڈالر ہو گئی ہے۔ دہشت گردی کے جنگ میں پاکستان کی قربانیاں ایک بار پھر نظرانداز کرتے ہوئے امریکا نے پاکستانی امداد منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ پینٹاگون نے 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کرنے کا حتمی فیصلہ وہی پرانا راگ الاپ کر کیا کہ پاکستان نے شدت پسند وں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں نہیں کیں۔ پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی خواہشات پر پورا نہیں اترا جس پر امریکا نے 30 کروڑ ڈالر کی امداد بند کر دی ہے۔

ترجمان پینٹاگون کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس نے منظوری دے دی تو پینٹاگون اب یہ رقم دیگر ضروری ترجیحات پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ امریکا کی جانب سے مذکورہ امداد کولیشن سپورٹ فنڈ میں دی جانی تھی. لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر کا کہنا تھا کہ کانگریس نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈز کے 50 کروڑ ڈالر رواں سال کے آغاز میں بھی روک لیے تھے، جس سے بعد روکی جانے والی کل رقم 80 کروڑ ڈالر ہو گئی ہے۔ پینٹاگون کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور اعلیٰ امریکی فوجی افسر جنرل جوزف ڈنفورڈ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں۔
 

بیسویں ویں صدی کا فن لینڈ

$
0
0

فن لینڈ جس کا سرکاری نام جمہوریہ فن لینڈ ہے، شمالی یورپ کا ملک ہے۔ اس کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہیلسنکی ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے اور یہ یورپ کا آٹھواں سب سے بڑا ملک ہے۔ فن لینڈ میں انسانی آبادی برفانی دور یا ’’آئس ایج‘‘ میں نو ہزار قبل مسیح میں ہوئی۔ تیرہویں صدی کے اواخر سے یہ سویڈن میں ضم ہو گیا، اسی لیے آج بھی یہاں سویڈش زبان بولی جاتی ہے۔ 1809ء میں اسے روسی سلطنت میں خودمختاری دیتے ہوئے شامل کر لیا گیا۔ فن لینڈ یورپ کا سب سے پہلا ملک ہے جس نے اپنے تمام شہریوں کو ووٹ کا حق دیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد فن لینڈ دنیا کا تیسرا ملک تھا جہاں خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ 1907ء کے انتخابات میں دنیا میں پہلی بار خواتین نے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کر لیں۔ 1917ء میں انقلاب روس کے ساتھ فن لینڈ نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1917 میں فِنّی پارلیمنٹ نے اعلان کیا کہ تمام اختیارات ماسوائے خارجہ پالیسی کے، فن لینڈ کے پاس ہیں۔ 6 دسمبر 1917ء کو پارلیمنٹ نے فن لینڈ کو آزاد مملکت قرار دیا۔ 

اسی دوران اکتوبر 1917 میں کنزرویٹو (قد امت پسند) حکومت چنی گئی۔ 1918ء میں فن لینڈ خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ ایک طرف بالشوویکوں کے حمایت یافتہ ریڈ گارڈز تھے جنہیں سوویت روس کی حمایت حاصل تھی اور دوسری طرف وائٹ گارڈز تھے جنہیں جرمن سلطنت کی حمایت تھی ۔ اس دوران مختصر عرصے کے لیے فن لینڈ میں بادشاہت قائم کی گئی۔ اکتوبر 1918ء میں جرمن شہزادہ فریڈرک چارلس آف ہیسے کو فن لینڈ کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ لیکن اس کا دورِ حکومت بہت مختصر ثابت ہوا۔ جرمنی نے 11 نومبر 1918 کو عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہوئے جنرل مینرہیم کو عارضی طور پر حکومت سونپ دی۔ 1919 میں فن لینڈ نے نیا آئین منظور کیا۔ جولائی 1919 میں فن لینڈ کے پہلے صدر کے جے سٹاہل برگ نے جنرل مینر ہیم کی جگہ سنبھالی۔

فن لینڈ اب عوامی جمہوریہ بن گیا۔ آزادی کے بعد فن لینڈ کی زراعت میں اصلاحات کی گئیں۔ 1929-1918ء کے دوران بہت سے مزارعوں کو مالکانہ حقوق دیے گئے۔ 1929 میں کمیونسٹوں نے لاپوا نامی شہر میں مظاہرہ کیا۔ ردعمل کے طور پر دائیں بازو کے کمیونسٹ مخالفوں نے تحریک شروع کی جسے بعد ازاں لاپوا تحریک کا نام ملا۔ 1932 میں لاپوا تحریک نے مینتسالا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ صدر سٹاہل برگ نے اس پر قابو پا لیا لیکن اس نے باغیوں سے نرمی سے سلوک کیا۔ دوسری عالمی جنگ میں فن لینڈ نے حصہ لیا۔ 1939ء میں سوویت حکمران جوزف سٹالن کو اپنے شمالی محاذ پر حملے کا اندیشہ ہوا۔ اسے بچانے کے لیے اس نے فن لینڈ سے علاقے مانگے اور بدلے میں دوسرے علاقے دینے کی پیش کش کی جسے فن لینڈ نے ٹھکرا دیا۔ اس پر سٹالن نے طاقت استعمال کرنے کا سوچا۔ 

جنگ سرما یا ونٹر وار کی ابتدا 30 نومبر 1939ء میں ہوئی۔ اس میں فن لینڈ کا بھاری جانی نقصان ہوا لیکن وہ نہایت بے جگری سے لڑے۔ تاہم روسیوں کا پلہ بھاری رہا اور فن لوگوں کو امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگ کا اختتام ماسکو معاہدے کی صورت میں ہوا۔ بعد ازاں فن لینڈ کو جنوب مشرقی علاقے اور جھیل لاڈوگا کے شمالی علاقے بھی دینے پڑے۔ اس جنگ میں 22 ہزار فن لوگ مارے گئے۔ جون 1941ء میں فن لینڈ نے جرمنی سے معاہدہ کر کے روس پر حملہ کر دیا۔ فن لوگوں نے تیزی سے اپنے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم دسمبر 1941 میں انگلینڈ نے فن لینڈ سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ جرمنوں کو جب سٹالن گراڈ کے مقام پر 1943ء میں شکست کا سامنا ہوا تو فن لینڈ نے محسوس کر لیا کہ اب اسے جنگ سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ شکست نوشتۂ دیوار کی مانند تھی، اس لیے فن لوگوں نے 5 ستمبر 1944 کو روس سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔

معاہدے کے بعد فن لوگوں کو کافی بڑا علاقہ روس کے حوالے کرنا پڑا۔ 1950ء میں 46 فیصد فن لینڈ کے محنت کش زراعت میں کام کرتے تھے لیکن مینو فیکچرنگ، خدمات اور تجارت میں نئی ملازمتوں کے بڑھنے سے لوگوں نے تیزی کے ساتھ دیہی علاقوں سے شہروں کا رخ کیا۔ سوویت یونین سے قریبی تعلق کے باوجود فن لینڈ نے مارکیٹ اکانومی کو جاری رکھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے اس کی صنعت کو بہت فائدہ ہوا۔ عالمی جنگ کے بعد فن لینڈ میں تیزی سے معاشی ترقی ہوئی۔ 1975ء میں فن لینڈ کی کل داخلی پیداوار دنیا میں 15ویں نمبر پر تھی۔ اسی دوران فن لینڈ ایک اعلیٰ فلاحی ریاست بن کر سامنے آیا۔

معروف آزاد


 

کیا روس افغانستان میں امریکی کاروائیوں کو سبوتاژ کر رہا ہے ؟

$
0
0

افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے الزام عائد کیا ہے کہ روس افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور وہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جنرل نکلسن دو سال سے زائد عرصے تک افغانستان میں امریکی فوج اور 'ریزولوٹ سپورٹ مشن'کے سربراہ رہے ہیں اور اپنی ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔  جنرل نکلسن نے پینٹاگون میں صحافیوں کو افغانستان کے معاملات پر بریفنگ دی تھی جس کے بعد وائس آف امریکہ نے ان سے افغانستان کی صورتِ حال سے متعلق بعض سوالات کیے تھے۔

جنرل نکلسن نے ہفتے کو وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کے ذریعے ان سوالات کے جواب بھیجے ہیں جن میں انہوں نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغانستان کے حالات خراب کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔ اپنی ای میل میں جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ امریکہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ روس افغانستان میں امریکی فوج کی کامیابیوں اور کئی سال سے وہاں اس کی موجودگی کے اثرات زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور افغانستان میں امریکہ کے اتحادیوں کے دلوں میں افغانستان کے استحکام سے متعلق شک کے بیج بو رہا ہے۔

امریکی جنرل کے بقول یہ بات کوئی راز نہیں کہ روس امریکہ اور اس کے وسطی ایشیائی اتحادیوں بشمول افغانستان کے درمیان تفریق ڈالنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہا۔ امریکہ اور افغان حکام بارہا روس پر افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت اور افغان طالبان کو اسلحہ اور تربیت دینے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ ماسکو حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ اس کے طالبان کےساتھ صرف سیاسی رابطے ہیں۔ لیکن روس کے ان تردیدی بیانات اور وضاحتوں کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شبہ ہے کہ روس افغانستان اور خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔

حال ہی میں امریکہ اور روس دونوں ہی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور دونوں کی کوشش ہے کہ یہ مذاکرات ان کی ثالثی یا میزبانی میں ہوں۔ گزشتہ ہفتے ہی روس کی حکومت کو امریکہ اور افغانستان کے دباؤ کے نتیجے میں 4 ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے وہ مذاکرات منسوخ کرنا پڑے تھے جن میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے علاوہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک کے وفود کو بھی شریک ہونا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے ان مذاکرات پر تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے ان میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ حالیہ مہینوں کے دوران روسی حکومت بارہا یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ بعض عناصر روس سے نسبتاً نزدیک افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کے جنگجووں کی مدد میں ملوث ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت ایسی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

سِلک روڈ منصوبہ : کیا چین غریب ممالک کیلئے قرض کے پھندے تیار کر رہا ہے؟

$
0
0

چین ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پالیسی کے تحت مختلف ممالک میں تیزی سے تجارتی بنیادی ڈھانچے کھڑے کرنے میں مصروف ہے۔ جن ممالک میں یہ منصوبے جاری ہیں، وہاں اب بیرونی قرضوں کے مسائل نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ چین صدر شی جن پنگ نے بین الاقوامی ’نیو سِلک روڈ‘ منصوبے کا اعلان سن دو ہزار تیرہ میں کیا تھا۔ اس تجارتی منصوبے کے تحت بیجنگ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اربوں ڈالر سے مختلف ممالک میں ریلوے لائنز، سڑکیں اور بندرگاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ اس منصوبے کے پانچ برس بعد چینی صدر دفاعی پوزیشن پر آ گئے ہیں کیوں کہ اس حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ چین غریب ممالک میں قرض کے جال بچھا رہا ہے اور بہت سے ممالک وسائل میں کمی کی وجہ سے ان کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے۔

دوسری جانب اس منصوبے کی سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں چینی صدر شی نے اس کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ کوئی چینی کلب نہیں ہے۔ یہ منصوبہ ایک آزاد، کھلا اور بھرپور منصوبہ ہے۔‘‘
چینی صدر کا کہنا تھا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ ممالک کے ساتھ ان کی تجارت پانچ ٹریلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 60 بلین ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ لیکن بعض ماہرین اس منصوبے کی قدر و قیمت پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ اگست میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ان کا ملک 20 ارب ڈالر کے ریلوے کے ایک پراجیکٹ سمیت تین چینی منصوبوں کو ختم کر رہا ہے۔


پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے مزید شفافیت لانے اور چینی قرضوں کی واپسی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ مالدیپ کے جلاوطن اپوزیشن لیڈر محمد نشید نے بحر ہند میں چینی اقدامات کو ’زمین کی چوری‘ اور ’استعماریت‘ قرار دیا ہے کیوں کہ اس ملک کو ملنے والا اسی فیصد قرض چین نے فراہم کیا ہے۔ سری لنکا چینی قرض کی پہلے ہی بہت بڑی قیمت ادا کر چکا ہے۔ سری لنکا نے چین کے 1.4 ارب ڈالر کے منصوبوں کے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اپنی ایک انتہائی اہم بندرگارہ 99 برسوں کے لیے چین کو لیز پر فراہم کر دی ہے۔

جے کیپیٹل ریسرچ سینٹر کی شریک بانی اور ڈائریکٹر این سٹیونسن یانگ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’غیر ملکی امداد کے معاملے میں چینی بیوروکریسی بہت زیادہ باصلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بہت ذہین نہیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ملائیشیا میں ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا ہے، جو غیر متوقع تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’جس طرح یوآن کمزور ہو رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر بطور پارٹر چینی کردار بھی مبہم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ مستقبل میں مختلف ممالک اس کے منصوبوں پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا شروع کر دیں گے۔‘‘ چین ترقی پذیر ممالک میں ضرورت کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کر رہا ہے اور ان منصوبوں کے لیے خام مال بھی زیادہ تر خود ہی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح ان ممالک میں چین کی اضافی صنعتی صلاحیت اور اسٹاک کی کھپت ہو رہی ہے۔

دوسری جانب سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کی ایک تحقیق میں آٹھ ممالک میں ایسے چینی قرضوں اور ان کے استحکام کے حوالے سے ’’سنگین خدشات‘‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان آٹھ ممالک میں پاکستان، جبوتی، مالدیب، منگولیا، لاؤس، مونٹی نیگرو، تاجکستان اور کرغیزستان شامل ہیں۔ چین اور لاؤس ریلوے منصوبے کی لاگت 6.7 ارب ڈالر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ رقم اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے سالانہ جی ڈی پی کے نصف کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ملک کیسے یہ قرض واپس کر پائے گا ؟ آئی ایم ایف کے مطابق افریقی ملک جبوتی کو ’’ادائیگی قرض کے لیے ضبطی جائیداد کے انتہائی خطرے‘‘ کا سامنا ہے۔ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں اس ملک کا حکومتی قرض 50 فیصد سے بڑھ کر سن دو ہزار سولہ میں 85 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔

چین کی طرف سے تنقید مسترد
دوسری جانب چین ایسے تمام تر الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چونائنگ نے ایسے الزامات کو رد کیا کہ چین اپنے تجارتی پارٹنرز پر سخت شرائط والے قرض کا بوجھ ڈال رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا اور پاکستان پہلے ہی بیرونی قرض کے بوجھ میں ڈوبے ہوئے تھے اور بیجنگ حکومت نے تو انہیں بہت ہی کم قرض فراہم کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ یہ غیر معقول بات ہے کہ اگر پیسہ مغرب دے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے کہ یہ اچھا اور میٹھا ہے اور اگر ایسا چین کرے تو وہ گنہگار ہے اور جال بچھا رہا ہے۔‘‘

یانگ کہتی ہیں کہ چین کی طرف سے فراہم کردہ قرضہ جات کے لیے ڈالر کرنسی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے لیکن ’’حقیقت میں یہ قرض ٹریکٹروں، کوئلے کی شپمنٹس، انجنئرنگ سروسز اور دیگر اشیا کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن چین ان قرضوں کی واپس ادائیگی کرنسی میں طلب کرتا ہے۔‘‘ حال ہی میں آئی ایم ایف نے بھی اس حوالے سے چین سے مزید شفافیت قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ا ا / ع ب ( اے ایف پی )

بشکریہ DW اردو
 

ناؤرو : وہ جزیرہ جہاں بچے ناامیدی میں خود کشی کی کوششیں کر رہے ہیں

$
0
0

خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے ہولناک واقعات میں اضافے کے بعد ناؤرو میں پناہ گزین بچے عالمی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں ان پناہ گزین بچوں کے حوالے سے ان مسائل کو ذہنی امراض کا بحران قرار دیا جا چکا ہے۔ ناؤرو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں آسٹریلوی حکومت نے اپنا ایک متنازع پروسسنگ سنٹر قائم کر رکھا ہے، جس پر کئی مرتبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ تاہم حال ہی میں میڈیا کی کچھ رپورٹس میں نوجوانوں کی بگڑتی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف میلبورن میں شعبےِ نفسیات کی پروفیسر لوئیس نیومن کا کہنا ہے کہ ’ہم آٹھ یا دس سال عمر کے بچوں میں بھی خودکشی جیسے رجحانات دیکھ رہے ہیں۔‘

آسٹریلیا ان تمام پناہ گزینوں کا راستہ روکتا ہے جو کشتیوں کے ذریعے اس کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ یہ لوگ آسٹریلیا میں قیام پزیر نہیں ہو سکیں گے اور اسی لیے گذشتہ چند سالوں میں ان میں سے کئی کو نجی طور پر چلائے جانے والے پروسسنگ سنٹرز کی جانب روانہ کیا گیا ہے جو کہ پاپانیوگنی اور ناؤرو پر واقعہ ہیں۔ ان خاندانوں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان جزائر پر بچوں کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ جو شدید برے حالات انھوں نے سہے ہیں اور جن خطرناک حالات میں وہ رہتے ہیں، ان سب کی وجہ سے ان کے ذہن میں ناامیدی بیٹھ جاتی ہے۔

اسائلم سیکر ریسورس سنٹر (اے ایس آر سی) پر ڈیٹنشن ایڈوکیسی مینیجر ناتاشہ بلوچر کا کہنا ہے کہ وہ پرائیویسی کی وجہ سے لوگوں کی نجی صورتحال پر بات نہیں کر سکتیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کم از کم 15 ایسے بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جنھوں نے متعدد بار خودکشی کی کوشش کی ہے یا خود کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ معاملہ اب انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ وکلا اور طبی عملے کی طرح اے ایس آر سی ان خاندانوں کی مدد کے لیے کام کرتی ہے اور ان جزائر تک رسائی انتہائی محدود ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کم از کم 30 بچے ٹرومیٹک وڈرائل سنڈروم کے مریض ہیں۔ یہ ایک نایاب نفسیاتی بیماری ہے جس میں متاثرین زندگی کے عام کام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ سنگین کیسز میں تو مریض کھا پی بھی نہیں سکتے اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ ناتاشہ بلوچر کا کہنا ہے کہ تقریباً تین ماہ قبل ہمیں یہ کہیں کہیں نظر آتا تھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت پھیل گیا ہے۔‘ پناہ گزینوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے آسٹریلوی حکومت کی سابق مشیر پروفیسر نیومن کا کہنا ہے کہ یہ پھیلاؤ انتہائی پریشان کن ہے۔

وہ کہتی ہیں ’کئی طرح سے تو یہ غیر حیران کن ہے۔ یہ بچے انتہائی شدید برے حالات سے گزرتے ہیں اور ناامیدی اور دنیا کی جانب سے عدم ہمدردی کا احساس بیٹھ جاتا ہے۔ وہ انتہائی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘ ان بچوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک اور ڈاکٹر ہیں بری فٹارفوڈ۔ ان کی تنظیم ڈاکٹرز فور ریفیوجیز کو ناؤرو جزیرے تک رسائی نہیں دی گئی ہے تاہم ان سے مشورے کے لیے لوگ رابطہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں بھیجے گئے 60 کیسز میں تمام بچوں کو کسی نہ قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بچے ایسے حالات سے گزرتے ہیں کہ جہاں ذہنی طور پر بیمار نہ ہونا ناممکن ہے۔ ’وہ روز خودکشی کی کوششیں، جنسی ہراساں کے واقعات اور دیگر مسائل سے گزرتے ہیں، اور ان کے سامنے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔‘
اب تک سامنے آنے والے کیسز میں سے زیادہ تر میں بچوں کا تعلق عراق، لبنان، یا روہنگیا سے ہے۔ ڈاکٹر فٹارفوڈ کہتی ہیں کہ ’تین سال تک کی عمر کے بچے غیر مناسب جنسی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو کہ تب دیکھا جاتا ہے جب بچوں پر ایسے کام کیے جا چکے ہوتے ہیں۔‘

ایک متنازع پالیسی
پناہ گزینوں کو آسٹریلیا سے باہر رکھنے کی اس پالیسی کے ایک اہم حامی ملک کے نئے وزیراعظم سکاٹ مورسن تھے جن کی ماضی میں وجہِ شہرت میں سے ایک بطور سخت گیر امیگریشن وزیر ہونا بھی ہے۔ وہ اپنی امیگریشن وزارت کے دوران کشتیوں کو روکنے کی پالیسی کے ایک انتہائی سخت حامی تھے اور اب کئی برسوں بعد وہ ملک کے سربراہ بن گئے ہیں کیونکہ پناہ گزینوں کا خوف ملک میں کم نہیں ہوا۔ اس پالیسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی انتہائی کامیاب ہے اور اس کی وجہ سے غیر قانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کی تعداد میں بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس ہفتے آسٹریلوی ساحل تک پہنچنے والی ایک کشتی 2014 کے بعد وہ پہلی کشتی ہے جو کہ پناہ گزین لے کر آسٹریلیا آئی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے لوگوں پر شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ سال 2015 میں ناؤرو کو 'اوپن سینٹر'قرار دے دیا گیا جس کے مطلب تھا کہ شہری وہاں جب دل چاہے آ جا سکتے تھے۔ لیکن ایسا کرنے سے جزیرے پر موجود بچوں کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئی۔ بحرالکاہل میں واقع اس جزیرے کا حجم صرف آٹھ مربع میل ہے اور معدنی پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں مسلسل کان کنی ہوتی ہے اور بہت کم درخت اور جانور پائے جاتے ہیں۔

جیسے جیسے بچوں کی صحت کے حوالے سے بحران بڑھتا جا رہا ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ناؤرو میں موجود 119 پناہ گزین بچوں کو وہاں سے نکال کر کہیں اور بھیج دیں۔ آسٹریلیا کی حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ 'وہ ناؤرو کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے کردار کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تاکہ وہاں موجود بچوں کو تشدد اور استحصال اور نظر انداز کیے جانے سے بچایا جا سکے۔' بیان میں کہا گیا کہ 'بچوں کی بہتری اور ان کی سہولت اور مدد کے لیے وہاں پر کئی انتظامات کیے گئے ہیں۔'

ناؤرو پر ہسپتال تو موجود ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروریات کے مقابلے میں وہ ناکافی ہیں اور اگر کسی شخص کو مخصوص نوعیت کی مدد چاہیے ہو تو اس کے لیے ناؤرو کی حکومت سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ انھیں علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ آسٹریلوی حکومت کے بیان میں مزید کہا گیا: 'اگر کسی شخص کو ضروری طبی امداد نہیں ملتی تو انھیں تائیوان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا میں علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔' تاہم اب بھی بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ رفرل کا سسٹم بچوں کے مسائل حل نہیں کر رہا۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ عمل انتہائی سست ہے اور وہ ذہنی امراض میں ملوث بچوں کی تعداد سنبھال نہیں سکتے۔

لا فرم موریس بلیک برن کی سماجی انصاف پریکٹس کی سربراہ جینیفر کینس ان میں سے بہت سے کیسز کی سربراہی کر رہی ہیں جس کا مقصد ان جزائر پر بچوں تک فوری طبی امداد پہنچانا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ ان بچوں نے کبھی بھی آسٹریلوی سرزمین پر قدم نہیں رکھا، آسٹریلوی حکومت کی پھر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا خیال کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بچوں تک صحت کی سہولیات پہنچانے کے لیے ہمیں قانونی کارروائی کرنا پڑ رہی ہے۔‘ ’حکومت کو ان کی صحت کا نہیں بلکہ اس بات کا زیادہ خیال ہے کہ یہ پناہ گزین کہیں آسٹریلیا میں داخل نہ ہو جائیں۔‘

ورجینیا ہریسن
بی بی سی نیوز
 

روہنگیا مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافیوں کو سات سال قید کی سزا

$
0
0

میانمار کی ایک عدالت نے خبررساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو ملکی رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے روہنگیا کے خلاف تشدد کی جانچ کے دوران ملکی راز کی خلاف ورزی کی ہے۔ صحافی وا لون اور کیاو او کو سرکاری دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو انھیں کچھ دیر قبل پولیس افسروں نے دی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور یہ کہ پولیس نے انھیں جال میں پھنسایا ہے۔ اس معاملے کو ملک میں وسیع پیمانے پر میڈیا کی آزادی کے لیے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

سزا سنائے جانے کے بعد ان میں سے ایک صحافی وا لون نے کہا: 'مجھے کوئي خوف نہیں ہے، میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ میں انصاف، جمہوریت اور آزادی میں یقین رکھتا ہوں۔' یہ دونوں صحافی گذشتہ سال دسمبر میں گرفتاری کے بعد سے قید میں ہیں۔ یہ دونوں شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ روئٹرز کے مدیر اعلی سٹیفن ایڈلر نے کہا: 'آج کا دن میانمار، روئٹرز کے صحافیوں وا لون اور کیاو سیو او اور دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے لیے غمناک دن ہے۔ دارالحکومت یانگون میں جج یی لوئن نے عدالت کو کو بتایا کہ ان دونوں کے خلاف ایسے شواہد ملے ہیں کہ 'وہ ملک کے مفاد کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔  'اور اس لیے یہ ملک کے رازداری کے قانون کے تحت مجرم پائے گئے ہیں۔' 32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاو سیو او شمالی رخائن کے گاؤں اندن میں فوج کے ہاتھوں دس افراد کے قتل کے متعلق شواہد اکٹھا کر رہے تھے۔

جانچ کے دوران انھیں دو پولیس افسروں نے دستاویزات پیش کیں لیکن پھر ان دستاویزات کے ان کی تحویل میں ہونے کے جرم میں انھیں فورا گرفتار کر لیا گيا۔
اس کے بعد حکام نے اس گاؤں میں ہونے والے قتل کے معاملے میں اپنی جانچ کرائی اور تسلیم کیا کہ وہاں قتل عام ہوا تھا اور پھر یہ وعدہ کیا کہ اس کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کی جائے گي۔ روئٹرز کے مطابق میانمار میں برطانیہ کے سفیر ڈین چگ نے کہا: 'ہم اس فیصلے سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔' امریکی سفیر سکوٹ میرسیل نے بھی یہی تنقید کی اور کہا کہ عدالت کا فیصلہ ان سبھی کے لیے 'بہت زیادہ پریشان کن ہے جنھوں نے میڈیا کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔'

میانمار میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ اور انسانی اقدار کے کوارڈینیٹر نٹ اوسٹبی نے کہا کہ 'صحافیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس واپس آنے دینا چاہیے اور انھیں اپنا کام جاری رکھنے دیا جانا چاہیے تھا۔ 'ہم ان کی رہائي کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔' اس سے قبل فیصلے میں جج کی علالت کے سبب تاخیر ہوئی تھی۔ یہ فیصلہ رخائن صوبے میں پیدا ہونے والے بحران کے ایک سال بعد آيا ہے جو کہ ایک روہنگیا جنگجو گروپ کی جانب سے کئی پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانےکے بعد شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد فوج نے روہنگیا اقلیت کے خلاف بہیمانہ کارروائی کی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں میانمار کے اعلی فوجی افسروں کی جانچ ہونی چاہیے اور ان پر نسل کشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ رخائن میں میڈیا پر حکومت کا شدید کنٹرول ہے اس لیے وہاں سے قابل اعتماد خبر کا حاصل کرنا انتہائي مشکل ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 


کیا پاکستان کو امریکی امداد کی معطلی کام کریگی ؟

$
0
0

کیا امریکا کی جانب سے معطل کی گئی پاکستان کی 36 ارب 90 کروڑ روپے کی امداد کام کریگی؟ غیرملکی خبررساں ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ واشنگٹن الزام عائد کرتا آیا ہے کہ پاکستان دہشتگرد گروپوں بشمول افغان طالبان کو سپورٹ کر رہا ہے، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں جنگجوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، پاکستان کی جانب سے ان گروپوں کی حمایت کو ختم کرنا ہو گا۔ دوسری جانب پاکستان کا امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس نے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کر دی ہیں جبکہ امریکا اس حقیقت کو نظر انداز کر رہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہزاروں جانیں گئیں اور اربوں روپے خرچ ہوئے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنٹاگان نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کی 300 ملین ڈالرز کی امداد معطل کر رہا ہے جس کا سبب یہ الزام لگاتے ہوئے دیا گیا کہ پاکستان کی جانب سے امریکا کی جنوبی ایشیائی حکمت عملی کی حمایت میں ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، امداد کی معطلی کے پنٹاگان کے فیصلے کی کانگریس سے توثیق درکار ہے اور اس فیصلے کا مقصد پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے۔ واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کی تجزیہ کار ہما یوسف کا کہنا ہے کہ یہ امداد کی کوئی نئی معطلی نہیں بلکہ یہ ماضی کے فیصلوں کا نفاذ ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2002 سے پاکستان کو براہ راست امداد کے طور پر 33 ارب ڈالرز فراہم کیے جا چکے ہیں۔ ایک پاکستانی پالیٹکل سائنٹسٹ ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی معطلی یقینی طور پر ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے پاکستان کی توجہ حاصل کی لیکن یہ اقدام نئی پاکستانی حکومت کو پریشان کرنے کیلئے ناکافی ہے۔

 

وسطی بحیرہ روم، ہر اٹھارہ میں سے ایک مہاجر کی زندگی داؤ پر

$
0
0

عالمی ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ وسطی بحیرہ روم میں ہر اٹھارہ میں سے ایک تارک وطن ڈوب کر ہلاک ہونے کے خطرے سے دو چار ہے۔ امدادی تنظیموں کے بحری جہازوں کو اس اہم روٹ پر امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق گزشتہ برس جنوری اور جولائی کے درمیان وسطی بحیرہ روم کے اس روٹ پر اٹلی کے ساحلوں پر اترنے کے خواہش مند تارکین وطن میں یہ تناسب ہر بیالیس میں سے ایک مہاجر کا تھا۔ جینوا میں قائم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو ایچ سی آر کے مطابق رواں برس اس شرح میں اضافے کی وجہ سرچ اور امدادی کارروائیوں میں کمی آنا ہے۔

یو این ایچ سی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب لیبیا کی کوسٹ گارڈ کے دو بحری جہاز امدادی کارروائیاں سر انجام دے رہے ہیں جبکہ سن 2017 میں اس کام میں آٹھ غیر سرکاری این جی اوز کے جہاز بھی شامل تھے۔ نجی امدادی گروپوں کو رپورٹوں کے مطابق لیبیا کی کوسٹ گارڈ کی جانب سے ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تنظیموں کے ریسکیو جہازوں کو لنگر انداز ہونے اور اٹلی میں قانونی سزاؤں کا بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ عالمی ادارہ مہاجرت نے بتایا ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن اب پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ کشتیوں پر طویل مسافتیں طے کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ 

جنوری سے لے کر اب تک جہاں بحیرہ روم کے مختلف راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کی تعداد سولہ سو کے قریب رہی وہیں صرف وسطی بحیرہ روم کے اس خطرناک راستے میں ڈوب کر ایک ہزار پچانوے مہاجرین ہلاک ہوئے۔ ہلاکتوں میں اس تناسب میں اضافے کے سبب رواں برس کے پہلے سات ماہ میں اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی کمی دیکھی گئی اور بالعموم یورپ پہنچنے میں بھی کم ہی مہاجرین کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس یونان اور اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان کے نو منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کون ہیں ؟

$
0
0

ڈاکٹر عارف علوی 29 جولائی 1949 کو پیدا ہوئے اور پیشے سے ایک ڈینٹسٹ ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی کا سیاسی کیریئر 5 دہائیوں پر مشتمل ہے اور انہوں نے اس سفر کا آغاز زمانہ طالبِ علمی میں ڈی مونٹمورینسی کالج آف ڈینسٹری لاہور سے کیا جہاں وہ طلبہ یونین کے صدر بنے۔ 1969 میں سابق صدرِ مملکت جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں وہ طلبہ تحریک کا حصہ رہے جبکہ ان کی جماعت کے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کی۔ وہ 1979 میں ہونے والے الیکشن میں کراچی سے جماعت اسلامی کے امیدوار تھے لیکن الیکشن نہ ہو سکے۔

پی ٹی آئی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ لاہور کے مال روڈ پر احتجاج کے دوران وہ گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے، تاہم ابھی بھی ان کے دائیں بازو میں یہ گولی موجود ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے لیے ان کی یاد گار ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی 1996 میں وجود میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف کے بانیان میں سے ہیں اور یہ ابتدا میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کا حصہ رہے، تاہم 1997 میں انہیں سندھ میں پارٹی کا صدر مقرر کر دیا گیا تھا۔ 1997 میں ہونے والے عام انتخابات میں عارف علوی سندھ اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار بن کر سامنے آئے تاہم انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2001 میں عارف علوی پی ٹی آئی کے نائب صدر مقرر ہوئے جبکہ 2006 میں انہیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے 2008 میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا اسی وجہ سے عارف علوی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جبکہ 2013 میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے کراچی کے حلقہ این اے 250 سے کامیابی حاصل کی اور ایم کیو ایم پاکستان کی خوش بخت شجاعت کو شکست دی۔ رواں برس جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 247 کراچی سے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار کو واضح اکثریت سے ہرا دیا تھا۔ 18 اگست کو پی ٹی آئی کی جانب سے ڈاکٹر عارف علوی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔
 

جلال الدین حقانی کون تھے ؟

$
0
0

افغان طالبان نے سابق سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ اور بعد میں طالبان تحریک کے قیام اور مسلح کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرنے والے مولوی جلال الدین حقانی کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے۔ مولوی حقانی کا تعلق افغانستان کے سرحدی صوبے خوست اور پختونوں کے قبیلے زدران سے تھا اور وہ افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔
افغانستان میں جب سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف جولائی 1973ء میں سردار داؤد خان نے بغاوت کی تھی تو ملک میں مذہبی حلقے متحرک ہوئے تھے اور سوویت یونین کی حمایتی اور وفادار ترقی پسند قوتوں کے خلاف منظم ہونا شروع ہوئے تھے۔

ترقی پسندوں کے خلاف سرگرم ہونے والوں میں نوشہرہ کے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل مولوی جلال الدین حقانی بھی شامل تھے۔ حقانی ان سرِ فہرست جہادی اور مذہبی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے 1970ء کی دہائی کے اواخر اور افغانستان پر سابق سوویت یونین کی افواج کی چڑھائی سے قبل ہجرت کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ مولوی جلال الدین اپنے خاندان اور رشتہ داروں سمیت خوست سے ملحق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تھے اور انہوں نے میران شاہ کے ایک نواحی گاؤں ڈانڈے درپہ خیل میں نہ صرف اپنا ایک مرکز بلکہ ایک مدرسہ بھی 'دارلعلوم منبع العلوم'کے نام سے قائم کیا تھا۔

اسی مرکز سے مولوی جلال الدین حقانی نے سابق سوویت یونین اور اس کے حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف نہ صرف خود مسلح مزاحمت کا آغاز کیا تھا بلکہ اس میں افغانستان اور پاکستان کے مذہبی حلقوں کو شامل ہونے پر آمادہ بھی کیا تھا۔ مولوی جلال الدین حقانی بعد میں حزبِ اسلامی افغانستان کے اس دھڑے کے اہم رہنما بن گئے تھے جس کے سربراہ مولوی یونس خالص تھے۔ افغانستان میں 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت مستعفی ہونے کے بعد جب افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو مولوی جلال الدین حقانی نے افغان صدور پروفیسر صبعت االلہ مجددی اور بعد ازاں پروفیسر برہان الدین ربانی کی کابینہ میں وزیر برائے سرحدی امور کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔

البتہ چند سال بعد جب افغانستان میں طالبان تحریک کے نام سے قیامِ امن کو اپنا مقصد قرار دینے والی ایک اور تحریک نمودار ہوئی تو مولوی جلال الدین حقانی بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ وہ نہ صرف طالبان کے کوئٹہ شوریٰ میں شامل رہے بلکہ 1996ء سے 2001ء تک طالبان حکومت میں وزیر بھی رہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد جب افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو مولوی جلال الدین حقانی نے کوئٹہ شوریٰ کے فیصلے کے تحت امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ بعد میں ان کے وفادار کمانڈروں اور جنگجوؤں نے حقانی نیٹ ورک کے نام سے ایک مسلح تنظیم قائم کی جو طالبان کی اتحادی ہے۔

چند سال قبل امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ ایک جھڑپ میں مولوی جلال الدین حقانی شدید زخمی ہوئے تھے جس کے بعد اُنہوں نے حقانی نیٹ ورک کی تمام تر انتظامی اور آپریشنل نگرانی اپنے بڑے بیٹے سراج الدین حقانی کے سپرد کر دی تھی۔ پہلی بار 2014ء میں مولوی جلال الدین حقانی کے طبعی موت مرنے کے اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد سے کئی بار ان کی موت کی خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے تاہم آج سے قبل طالبان نے کبھی ان خبروں کی تصدیق نہیں کی تھی۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ آخری وقت تک اپنے بیٹے خلیل حقانی کے گھر میں مقیم رہے جو راولپنڈی کے ایک نواحی علاقے میں واقع ہے۔

مولوی جلال الدین حقانی کے چار بیٹے سراج الدین حقانی، خلیل حقانی، ابراہیم حقانی اور انس حقانی زندہ ہیں۔ انس حقانی لگ بھگ پانچ سال قبل گرفتار ہوئے تھے اور اطلاعات کے مطابق ابھی تک کابل کی کسی جیل میں قید ہیں۔ جلال الدین حقانی کے چار بیٹے عمر حقانی، محمد حقانی، بدرالدین اور نصیر الدین حقانی اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ مولوی جلال الدین حقانی کو افغانستان کی قومی زبانوں یعنی پشتو اور دری کے علاوہ اردو، پنجابی، عربی اور انگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے دیگر افغان رہنماؤں کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر بھی گئے تھے جہاں ان کی سابق صدر رونالڈ ریگن سمیت کئی یگر رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
  

آئی ایم ایف، غریب ممالک کیلئے استحکام کی شاہراہ یا ’تباہی کی ترکیب‘

$
0
0

عالمی مالیاتی ادارے کی تخلیق کا مقصد عالمی اقتصادی ترقی اور غربت کا خاتمہ تھا۔ لیکن اب یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ آیا یہ ادارہ ریاستوں کو استحکام کی طرف گامزن کر رہا ہے یا ان کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی خاطر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) وجود میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد اقتصادی طور پر تباہ ہونے والے ممالک کو عارضی قرضے فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنی اپنی معیشتوں کو بہتر بنا سکیں۔ ساتھ ہی یہ لازمی تھا کہ وہ ان قرضوں کو ایک نظام الاوقات کے تحت واپس بھی کریں۔ امید تھی کہ عالمی مالیاتی ادارہ عالمی سطح پر اقتصادی خوشحالی کا باعث بنے گا اور تجارتی امور میں بہتری پیدا ہو گی۔ اس حکمت عملی کے تحت یہ جزو بھی اہم تھا کہ یوں عالمی سطح پر غربت میں کمی ممکن ہو سکے گی۔

اس مالیاتی ادارے کو معرض وجود میں آئے چوہتر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس ادارے کی حامیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرامز کے تحت سرمائے کی فراہمی اور ان مراعات کو حاصل کرنے والے ممالک سے اصلاحات کے مطالبات کے باعث زیادہ سخت اقتصادی مشکلات سے بچنے میں مدد مل رہی ہے۔ تاہم ناقدین کے مطابق آئی ایم ایف کے پروگرامز مالی مشکلات کے شکار ممالک کو اس ادارے پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کے عوام میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرامز قدرے کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اس ادارے کے مشرق سطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر محسن ایس خان کے مطابق 1973ء تا سن 1988 مجموعی طور پر 69 ممالک کو قلیل المدتی یا طویل المدتی مالیاتی پیکجز دیے گئے، جن میں زیادہ تر پروگرامز کامیاب ہوئے۔ ان میں اسّی کی دہائی میں بالخصوص میکسیکو، بھارت اور کینیا کی مثال دی جاتی ہے۔

نوّے کی دہائی کے اواخر میں ایشیا کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے اقتصادی حالات میں مندی بنی۔ اس کی وجہ ان ممالک کا عالمی مالیاتی ادارے پر ضرورت سے زیادہ انحصار بنا تھا۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف نے ان ممالک کو صرف اس صورت میں ہنگامی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی اپنی پالیسیوں میں اسٹریکچرل (ساختیاتی) تبدیلیاں لائیں۔ ان ممالک کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کر لیں۔ ان ممالک نے آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط منظور کرتے ہوئے امدادی رقوم تو حاصل کر لیں لیکن اس کے نتیجے میں ان ممالک کی اقتصادی نمو کی رفتار میں کمی ہوئی اور لوگ غربت کا شکار ہوئے۔

پاکستان کا اقتصادی مسئلہ اور ممکنہ حل
پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ اقتصادیات کی زبوں حالی کا بھی ہے۔ پاکستان ریاست مالی ادائیگیوں کے توازن کے ایک بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر نو بلین ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ فوری بحرانی صورتحال سے بچا جا سکے۔

وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت اس مالی بحران کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر عائد کرتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے آئی ایم ایف پر اپنا انحصار کم کر دے گی۔ کئی ناقدین کے مطابق اسلام آباد میں بننے والی حکومت کو ایسا کرنے کے لیے ’انقلابی اقدامات‘ کرنا ہوں گے، جو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ممکن نظر نہیں آتے۔ پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے اپنے لیے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے 2013ء میں لیے گئے تھے۔ تب اسلام آباد نے اسی طرح کے ایک بحران کو روکنے کے لیے، جس طرح کے بحران کا اب پھر خطرہ ہے، آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔

بشکریہ DW اردو
 

افغانستان میں رواں برس دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، اقوام متحدہ

$
0
0

افغانستان میں مسلح تنازعات کے سبب رواں برس دو لاکھ سے زائد افغان شہری بے گھر ہوئے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے کوارڈینیشن دفتر برائے انسانی معاملات (UNOCHA) نے کہی ہے۔ اقوام متحدہ کے کوارڈینیشن دفتر برائے انسانی معاملات UNOCHA کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق رواں برس یکم جنوری سے دو ستمبر تک کُل دو لاکھ چھ ہزار افغان شہری اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ تعداد ایک ماہ قبل سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مقابلے میں چوالیس ہزار زائد ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جاری کردہ رپورٹ میں بتائی گئی تعداد میں وہ تیس ہزار افغان شہری بھی شامل ہیں جو صوبہ غزنی میں اگست کے وسط میں ہونے والی لڑائی کی وجہ سے عارضی طور پر بے گھر ہوئے تھے۔ 

افغانستان میں جاری تنازعات کے سبب گزشتہ برس 445,000 سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔ افغان سکیورٹی فورسز ملک بھر میں افغان طالبان کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں جبکہ ملک کے مشرقی حصے میں انہیں دہشت گرد گروپ داعش کی کارروائیوں کا بھی سامنا ہے۔ افغان فوج کی طرف سے رواں برس جولائی میں بتایا گیا تھا کہ ملک کا کم از کم 13.8 فیصد یا قریب 400 اضلاع پر مشتمل علاقہ مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے۔ جبکہ افغانستان کا 30 فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں طالبان اور ملکی سکیورٹی فورسز کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ دیگر ذرائع کے مطابق طالبان کے زیر کنٹرول علاقہ ان اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔

ا ب ا / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)

بشکریہ DW اردو

 

زخمی، مگر پورے قد سے کھڑی غزہ کی باھمت خواتین

$
0
0

’’حماس کارکن‘‘ کی اصطلاح کی کوئی کیسے تعریف کر سکتا ہے؟ حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت ، جس نے یہ اصطلاح وضع کی تھی،وہ بھی اس کی واضح تعریف پیش کرنے سے قاصر ہے۔ غزہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فلسطینیوں بالخصوص خواتین کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں زندگی بچانے کے لیے علاج کی غرض سے جانے سے روک دیا گیا ہے۔ کیوں؟ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مبینہ طور پر ’’حماس کے کسی کارکن‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسرائیل سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک گروپ جیشا کا کہنا ہے کہ تل ابیب اس اصطلاح کی تعریف نہ کرنے پر مُصر ہے۔ چناں چہ غزہ میں بسنے والی بہت سے خواتین کے مصائب طویل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی مختصر مگر جامع تعریف بیان نہ کرنے کی توضیح یہ کی جاتی ہے کہ اس طرح اسرائیلی فوج کو غزہ کے لاکھوں مکینوں کا ناطقہ بند کرنے کا قانونی جواز مل جاتا ہے اور وہ عدالتوں کے روبرو یہ کہتے ہوئے کامیابی سے اپنا دفاع کرتی ہے کہ وہ تو قانون کی پاسداری کر رہی ہے۔

غزہ سے تعلق رکھنے والی سات خواتین نے حال ہی میں ایک اسرائیلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے اور اس میں انھوں نے یہ استدعا کی ہے کہ انھیں اسرائیل کے مقبوضہ مشرقی القدس اور غربِ اردن میں واقع طبی مراکز میں علاج کے لیے جانے کی اجازت دی جائے۔ ایڈووکیسی گروپ بھی ان خواتین کی اسرائیلی فوج کی مبہم قانونی زبان کو چیلنج کرنے میں معاونت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج اہلِ غزہ کو اجتماعی سزا دینے کے لیے اصطلاحوں کے اس گورکھ دھندے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اس طرح کی اصطلاحوں کی زیادہ جامع وضاحت کر دی جاتی ہے تو شدید علیل فلسطینیوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے علاج سے انکار کا اقدام غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار پاتا ہے۔ جیشا کی ایک وکیل مونا حداد کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیلی ریاست ( ان سات خواتین) درخواست گزاروں کو موت یا پھر تاحیات مصائب کی سزا دے رہی ہے‘‘۔ غزہ کی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی یہ صرف خواتین ہی نہیں ہیں جو اسرائیل کی گذشتہ گیارہ سال سے جاری کڑی ناکا بندی کے نتیجے میں مسائل و مصائب جھیل رہی ہیں اور انھیں بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے بلکہ غزہ کی تمام آبادی ہی اسرائیل اور امریکا کی اس اسکیم کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور اس کا مقصد محض یہ ہے کہ فلسطینی قیادت سے زیادہ سے زیادہ سیاسی رعایتیں حاصل کی جائیں۔

سخت مہینہ
اگست اہلِ غزہ کے لیے خاص طور پر ایک سخت مہینہ رہا ہے۔ 31 اگست کو فارن پالیسی میگزین نے یہ اطلاع دی تھی کہ امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی فلسطینی مہاجرین کی ایجنسی اُنروا کو کوئی فنڈ نہیں دے گی۔ امریکا نے پہلے ہی جنوری سے اس ایجنسی کو مہیا کی جانے والی مالی امداد روکنا شروع کر دی تھی۔ اب اس تنظیم کا مستقبل خطرے سے دوچار نظر آرہا ہے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل امریکا نے فلسطینیوں کو اس سال مہیا کی جانے والی تمام امدادی رقم روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکا کوئی بیس کروڑ ڈالرز سالانہ امداد کی شکل میں فلسطینیوں کو دیتا تھا اور یہ رقم غرب ِاردن میں ترقیاتی منصوبوں اور غزہ میں انسانی امداد مہیا کرنے پر خرچ کی جاتی تھی۔

اس فیصلے سے قبل اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل برائے سیاسی امور روز میری ڈائی کارلو نے 23 اگست کو یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ یو این کا ایمرجنسی ایندھن اب ختم ہوا چاہتا ہے۔ اس سے غزہ میں قریباً ڈھائی سو اہم اداروں کو چلایا جا رہا تھا‘‘۔ ان کے اس بیان سے قبل سب سے افسوس ناک خبر سنے کو ملی تھی ۔ 12 اگست کو فلسطین کی وزارت صحت نے یہ ا علان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے محاصرے کا شکار غزہ میں اب کینسر کے مریضوں کا علاج نہیں کر سکتی ۔
اس وقت تمام فلسطینی اور بالخصوص اہلِ غزہ گوناگوں مصائب سے دوچار ہیں لیکن خواتین کی حالت زار مغربی میڈیا کے عمومی بیانیے سے کوئی لگا نہیں کھاتی۔ وہ غزہ کی ناکا بندی کو ایک جانب فلسطینی جنگجوؤں اور کارکنوں اور دوسری جانب اسرائیلی فوج کے درمیان تنازع کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے۔ جب فلسطینی خواتین مغربی میڈیا کی کوریج میں نظر نہیں آتی ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے کنٹرول سے باہر حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہیں۔ پھر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلسطینی خواتین ایک ایسے تنازع میں پھنس کر رہ گئی ہیں جس میں ان کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔

اس طرح کی غلط رپورٹنگ اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے سے مصائب سے دوچار فلسطینی خواتین کے لیے بالخصوص اور فلسطینی عوام کے لیے بالعموم ہنگامی سیاسی اور انسانی امداد مہیا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسرائیلی عدالت میں درخواست دائر کرنے والی سات خواتین تو ان ہزاروں خواتین کی بہت ہی حقیر نمایندہ ہیں جن کا کوئی قانونی وکیل ہے اور نہ ان کی میڈیا میں کوئی کوریج کی جاتی ہے۔ مجھے ایسی بہت سے خواتین سے گفتگو کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کے مصائب کا ان ایسے ناقابل یقین عزم سے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان کا یہ حق ہے کہ ان کو درپیش مصائب کو تسلیم کیا جائے اور ان کا فوری ازالہ کیا جائے۔

شیما کی کینسر کے خلاف جنگ
انیس سالہ شیما تیّسیر ابراہیم غزہ کے جنوب میں واقع قصبے رفح سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ بہ مشکل بول سکتی ہیں۔ ان کے دماغ کی رسولی ( برین ٹیومر) نے ان کے چلنے پھرنے اور بولنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے باوجود وہ رفح کی القدس اوپن یونیورسٹی سے بنیادی تعلیم میں اپنی ڈگری مکمل کرنا چاہتی ہیں۔ شیما کو غیر معمولی دکھ اور درد کا سامنا ہے۔ اگر دنیا سے الگ تھلگ غربت زدہ غزہ کے معیار سے دیکھا جائے تو بھی ان کی تکلیف غیر معمولی ہے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں ان کے خاندان کو غربت کا سامنا ہے۔ ان کے والد ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ کوئی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خاندان کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

شیما کی منگنی ہو چکی تھی اور جامعہ سے گریجوایشن کے بعد ان کی شادی ہونے والی تھی۔ لاکھوں اہلِ غزہ کی طرح شیما کے دل میں بھی امید زندہ تھی ۔انھیں یہ توقع تھی کہ ان کا اور ان کے خاندان کا مستقبل تابناک ہو گا لیکن 12 مارچ کو ان کا سب کچھ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا اور یہ پتا چلا کہ شیما تو دماغی سرطان ( برین کینسر) کی مریضہ بن چکی ہیں۔ پھر 4 /اپریل کو مقبوضہ بیت المقدس ( یروشلیم ) کے المقصد اسپتال میں ان کی پہلی سرجری سے قبل ان کے منگیتر نے منگنی ہی توڑ دی۔ اس سرجری کے بعد شیما جزوی طور پر اپاہج ہو چکی ہیں۔ اب وہ بہ مشکل بول سکتی ہیں اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی شدید دشواری کا سامنا ہے۔ ان کے ٹیسٹوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اگر رسولی کو سرجری کے ذریعے فوری طور پر نہیں نکالا جاتا تو وہ مزید بھی پھیل سکتی ہے۔

اب شیما اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ بیت حانون چیک پوائنٹ ( اسرائیل اس کو ایریز کراسنگ کا نام دیتا ہے) سے گذر کر غربِ اردن جانے کے لیے اسرائیلی اجازت نامے کی منتظر ہیں تا کہ وہ وہاں جا کر دوبارہ سرجری کرا سکیں۔ غزہ کے بہت سے مکین اسرائیل سے کاغذ کے ٹکڑوں اور اجازت ناموں کے انتظار میں جان کی بازی ہار چکے ہیں مگر یہ اجازت نامے انھیں ملنے تھے اور نہ ملے۔ تاہم ان نامساعد حالا ت کے باوجود شیما نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کا خاندان ان کی صحت یابی کے لیے مسلسل دعاگو ہے اور اس کو امید ہے کہ وہ تن درست ہو کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی۔

دولت: زخمی ،مگر پورے قد سے کھڑی
غزہ کے دوسری جانب بیت حانون میں تینتیس سالہ دولت فوزی یونس بھی اسی قسم کے تجربے سے گزر رہی ہیں۔ دولت نے گیارہ افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت اور دیکھ بھال کی ذمے داری سنبھال رکھی ہے۔ ان میں ان کے بھتیجے اور شدید علیل باپ بھی شامل ہیں۔ ان کے پچپن سالہ والد کے گردوں نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ کسی کام کاج کے قابل نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد دولت پورے خاندان کا سہارا اور کفیل بن گئیں۔ وہ ایک ہئیر ڈریسر کے طور پر کام کرتی ہیں مگر ان کے بہن بھائی بے روز گار ہیں اور ان کا روٹی کپڑا بھی ان کے ذمے ہے۔ دولت کی طاقت اور مضبوطی شاید ان کے اپنے ایک ذاتی تجربے کا نتیجہ ہے۔ یہ 3 نومبر 2006ء کا واقعہ ہے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے ان کی ٹانگ پر گولی مار دی تھی۔ وہ اس وقت فلسطینی خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر بیت حانون میں واقع تاریخی اُم النصر مسجد پر اسرائیلی فوج کے حملے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ 

اس روز اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے دو فلسطینی خواتین شہید ہو گئی تھیں۔ دولت کو کولھے میں گولی لگی تھی مگر ان کی جان بچ گئی تھی۔ کئی ماہ کے علاج کے بعد ان کا زخم ٹھیک ہو گیا اور انھوں نے تندرست ہونے کے بعد پھر سے اپنی روزمرہ کی مصروفیات اور جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اب وہ اپنے لوگوں کے ساتھ اسرائیلی چیرہ دستیوں کے خلاف ہر احتجاج میں پیش پیش ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ 14 مئی 2018ء کو جب اسرائیل نے سرکاری طور پر اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلیم منتقل کیا تھا تو اسرائیل اور غزہ کے درمیان باڑ کے نزدیک احتجاج کرنے والے ساٹھ فلسطینی مظاہرین شہید اور قریباً تین ہزاراسرائیلی فوجیوں کی گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ ان زخمیوں میں دولت بھی شامل تھیں۔ اس مرتبہ گولی ان کی دائیں ران پر لگی تھی اور وہ ان کی خون کی شریان کو چیرتی ہوئی ہڈی میں پیوست ہو گئی تھی۔

اس کے بعد سے ان کی صحت مسلسل گر رہی ہے اور وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہی ہیں مگر اسرائیل نے ابھی تک انھیں علاج کی غرض سے یروشلیم کے المقصد اسپتال میں منتقل کرنے کے لیے درخواست کی منظوری نہیں دی ہے۔ اس کے باوجود دولت بلند حوصلہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی کمیونٹی کی ایک فعال اور با اختیار رکن کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ اگر انھیں غزہ کی باڑ کے ساتھ بیساکھیوں کے سہارے احتجاج کے لیے جانا پڑا تو وہ ضرور ایسا کریں گی۔
یہ تو صرف دو بلند ہمت عورتوں کی کہانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ غربِ اردن اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے اور محاصرے میں رہنے والی ہر با حوصلہ اور بلند عزم فلسطینی خاتون کی کہانی ہے۔ وہ ہر جبر کا عزم واستقامت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں ، خواہ انھیں اس کے لیے بھاری قیمت ہی چکانا پڑ رہی ہے۔ انھوں نے خود سے پہلے گزرنے والی دلیر اور بہادر فلسطینی خواتین کی نسلوں کی غیر متزلزل جدوجہد کو ہمت واستقامت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔

ڈاکٹر رَمزی بارود
 


باب وڈورڈ : حکومتوں کا تختہ الٹنے والا صحافی

$
0
0

ٹرمپ ان دا وائٹ ہاؤس'نامی کتاب کی اشاعت کے بعد امریکی صدر اور سرکردہ امریکی صحافی ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ گئے ہیں۔ اس جنگ میں اصل ہتھیار دونوں اطراف کی ساکھ ہے۔ واشنگٹن پہنچنے والے اکثر صحافیوں کا ارمان ہوتا ہے کہ واٹر گیٹ سکینڈل فاش کرنے والے اور سابق امریکی صدرنکسن کا تختہ الٹنے والے باب وڈورڈ یا کارل برنسٹین بن جائیں۔ وہ خواب دیکھتے ہیں کہ انھیں 'ڈیپ تھروٹ'جیسے کوئی خفیہ ذرائع مل جائیں جو انھیں اندر کی بات بتا دیں، اور بعد میں ان کے کارناموں پر فلمیں بنیں۔ واٹر گیٹ کے بعد سے وڈورڈ سپر سٹار بن گئے لیکن اس تمام عرصے میں وہ بنیادی صحافت سے جڑے رہے اور انھوں نے ایک کے بعد ایک کتاب لکھی۔ وہ محنتی، ان تھک، جزئیات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ہیں۔ 

وہ جان بوجھ کر سننسی نہیں پھیلاتے۔ الٹا ان کی کتابوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی زبان اور انداز خشک اور بےجان ہوتے ہیں۔ ان کے موضوعات بھی کچھ زیادہ سنسنی خیز نہیں ہوتے۔ انھوں نے بل کلنٹن پر جو کتاب لکھی، اس کا موضوع مونیکا لونسکی سکینڈل نہیں، بلکہ بجٹ کا خسارہ، عوام کی بہبود کے منصوبے اور نظامِ صحت تھا۔ اوباما پر کتاب میں افغانستان اور عراق کی جنگوں پر بحث کی گئی۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ صرف صدور پر قلم اٹھاتے ہوں۔ وہ سپریم کورٹ، سی آئی اے، پینٹاگون اور ایلن گرین سپین کے بارے میں بھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ روزمرہ کی خبریں پر نہیں، بلکہ طویل مدت رجحات کی نبض پر انگلی رکھتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 میں اپنا اکاؤنٹ کھولنے کے بعد سے انھوں نے اب تک صرف 93 ٹویٹس کی ہیں۔

ان کی کتابوں کے سب سے جاندار حصے وہ ہیں جو ان کے ذرائع کے بیانات پر مبنی ہوتے ہیں۔ حالیہ کتاب 'فیئر' (جو 11 ستمبر کو شائع ہو گی) میں ٹرمپ کے چیف آف سٹاف جان کیلی وائٹ ہاؤس کو 'پاگل خانہ'اور خود ٹرمپ کو 'احمق'کہتے ہیں، جب کہ جیمز میٹس صدر کو پانچویں چھٹی جماعت کا طالب علم قرار دیتے ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی ساکھ کا ہے اور اس میدان میں وڈورڈ کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ امریکہ کے سب سے معتبر صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی کتابیں تفصیلات سے اس قدر مالامال ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔ خاص طور صدر بش پر لکھی گئی ان کی تین کتابوں کا جواب ابھی تک نہیں آ سکا۔
وڈورڈ کی سب سے بڑی خوبی ان کی رسائی ہے اور اہم جگہوں پر بیٹھے لوگ ان کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کی اشاعت بذاتِ خود ایک اہم خبر بن جاتی ہے۔

واشنگٹن کے اخباری ادارے ایک اور باب وڈورڈ بننے کے متمنی صحافیوں سے اٹے پڑے ہیں۔ لیکن یہی چیز بعض اوقات منفی رخ اختیار کر جاتی ہے۔ حکومتوں کا بوریا بستر گول کرنے کے خواہش مند صحافی بعض اوقات حد سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہر طرح کے سکینڈل اچھال کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بڑا تیر مار لیا۔ واٹر گیٹ کے طرز پر اب اتنے گیٹ سامنے آ گئے ہیں کہ لفظ 'گیٹ'ہی گھس پٹ بن گیا ہے۔ لیکن خود وڈورڈ اس راہ پر نہیں چلے۔ وہ پہلے ہی ایک صدر کو گرا چکے ہیں اور ان کا کردار فلمایا جا چکا ہے۔ یہ تاریخ ساز صحافی اب امریکہ کا سرکاری تاریخ دان بن چکا ہے۔ باب وڈورڈ اب ایک شخص نہیں، ایک ادارے کا نام ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

آسٹریلیا کے بارے میں : یہ ملک دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے

$
0
0

آسٹریلیا کو زیادہ تر پاکستانی اس کی کرکٹ ٹیم کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اس کا سرکاری نام دولت مشترکہ آسٹریلیا ہے۔ یہ ملک دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے۔ اس میں تسمانیہ کا بڑا جزیرہ اور بحر جنوبی، بحر ہند اور بحر الکاہل کے کئی چھوٹے بڑے جزائر شامل ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپوا نیو گنی شمال کی طرف، سولومن جزائر اور وانواتو شمال مشرق کی طرف اور نیوزی لینڈ جنوب مشرق کی طرف موجود ہے۔لاطینی میں آسٹریلیس کا مطلب ’’جو جنوب میں ہو‘‘ ہے۔ جنوب کی نامعلوم زمین کے بارے کہانیاں قدیم رومن دور میں ملتی ہیں۔ لیکن ان میں اصل براعظم کے بارے کوئی حقیقی معلومات نہیں تھیں۔ 

آسٹریلیا کا لفظ انگریزی میں پہلی بار 1625ء میں استعمال کیا گیا۔ 1793ء میں جارج شا اور سر جیمز سمتھ نے زوالوجی اور باٹنی برائے نیو ہالینڈ کے نام سے تحریر شائع کی جس میں انہوں نے وسیع و عریض جزیرے کا ذکر کیا تھا نہ کہ براعظم کا۔ 1814ء میں آسٹریلیا کا نام مشہور ہوا جو ایک برطانوی نیویگیٹر نے اپنے سفر کے بعد کتاب کی شکل میں لکھا۔ اس کا نام میتھیو فلنڈرز تھا اور اس نے پہلی بار آسٹریلیا کے گرد چکر لگایا۔ اس کتاب کی نوعیت اگرچہ فوجی تھی، لیکن لفظ ’’آسٹریلیا‘‘ کو عام مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی گئی۔ بعد ازاں نیو ساوتھ ویلز کے گورنر نے اپنے سرکاری مراسلات میں لفظ ’’آسٹریلیا‘‘ کو استعمال کیا اور 1817ء میں اس نام کو سرکاری درجہ دینے کی سفارش کی گئی جو منظور ہوئی۔

یہ سوال دلچسپی سے خالی نہیں کہ آسٹریلیا میں انسانی آبادی کب ہوئی۔ عام رائے یہی ہے کہ یہاں مقامی آسٹریلوی 60 ہزار سال قبل آئے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ اس سے بھی قبل یہاں موجود تھے۔ انہیں ’’ابارجینیز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یہ برطانوی نوآبادی بن گیا۔ مقامی آسٹریلوی جو زبانیں بولتے تھے انہیں 250 گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس براعظم پر سب سے پہلے ولندیزی مہم جو 1606ء میں پہنچے اور انہوں نے اسے ’’نیو ہالینڈ‘‘ کا نام دیا۔ آسٹریلیا کے جنوبی نصف پر برطانیہ نے 1770ء میں ملکیت کا دعویٰ کیا اور سزاؤں کے طور پر یہاں لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئے علاقے دریافت ہوتے گئے، 19ویں صدی تک ادھر مزید پانچ نو آبادیاں بنا دی گئیں۔ یکم جنوری1901ء کو ان چھ نوآبادیوں نے مل کر ایک فیڈریشن بنائی اور اس طرح دولت مشترکہ آسٹریلیا وجود میں آیا۔ اس کے بعد سے آسٹریلیا میں معتدل جمہوری سیاسی نظام رائج ہے۔ اس کا دارالحکومت کینبرا ہے۔ آسٹریلیا کا رقبہ 76 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے۔ تاہم رقبے کے تناسب سے آبادی کم ہے۔ اس کی آبادی اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

محمد ریاض


 

افغان جنگ میں امریکی عوام کی حمایت کیلئے مسلسل جھوٹ بولا گیا

$
0
0

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان میں اپنی 17 برس جنگ کے حق میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلسل ناقص اعداد وشمار پیش کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز کی اپنی تحقیق اور امریکی حکومت کو عالمی ایڈ ایجنسیوں سے ملنے والے اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن اپنی عوام کو افغانستان کے حالات سے متعلق سچ بتانا نہیں چاہتا۔ امریکی حکومت کہتی ہے کہ طالبان کو افغانستان کے 44 فیصد اضلاع میں کنٹرول حاصل ہے جبکہ نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ جنگجوؤں کو دراصل 61 فیصد علاقے میں مکمل اثر ورسوخ حاصل ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2001 میں امریکی آمد کے بعد سے 2017 کے بعد طالبان کو افغان علاقوں میں سب سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوا۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 2 ہزار 200 امریکی افغان جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں اور واشنگٹن 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم لگا چکا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’افغان جنگ مہنگی ترین جنگ ثابت ہو رہی ہے، موجودہ لگنے والی رقم مارشل پلان سے زیادہ جس کے تحت جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے درکار تھی۔ نیویار ٹائمز کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے افغان جنگ میں اتنی بڑی رقم لگانے کے بعد امریکی عوام کا دباؤ کم کرنےکے لیے ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں طالبان کا زور ٹوٹ رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی فوج کا دعویٰ ہے کہ افغان حکومت ملک کے 56 فیصد حصے پر ’اثر ورسوخ یا کنٹرول‘ رکھتی ہے۔ دوسری جانب نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ متعدد اضلاع میں افغان حکومت صرف ضلعی ہیڈ کواٹر اور ملٹری بیس پر کنٹرول رکھتی ہے جبکہ طالبان دیگر انصرام سنبھالتے ہیں۔ اسی طرح کاغذات میں طالبان کے مقابلے میں افغان سیکیورٹی فورسز کی تعداد 10 بتائی گئی لیکن ایک تھائی سے زیادہ فوجی اور پولیس افسران ’گھوسٹ‘ ہیں، وہ چھوڑ چکے ہیں یا بھی انہیں پے رول سے نکال دیا گیا۔ علاوہ ازیں دیگر کی ٹریننگ اہلیت اور قابلیت ناقص ہے۔

انور اقبال 

بشکریہ روزنامہ ڈآن اردو

 

عراق میں عوامی بے چینی میں مزید شدت پیدا ہو گئی

$
0
0

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔ جنوبی عراق میں شروع ہونے والے مظاہروں میں ایک درجن افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ بغداد حکومت پر عدم اعتماد اور ناکافی شہری سہولتوں کے تناظر میں شروع ہونے والے مظاہروں میں اب ہر دن گزرنے کے بعد زیادہ شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ عراق کے بندرگاہی شہر بصرہ میں ایرانی قونصل خانے اور ایک تیل نکالنے والے مقام پر بھی مظاہرین نے دھاوا بولا۔ آئل فیلڈ پر مظاہرین نے چند ورکرز کو کچھ دیر کے لیے یرغمال بھی بنا کر رکھا۔ ایرانی قونصل خانے کی عمارت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایران مخالف نعرہ بازی بھی کی گئی۔ 

عراقی سکیورٹی حکام کے مطابق مظاہرین کے حملے کے وقت ایرانی قونصل خانہ خالی تھا۔ عراقی وزارت خارجہ نے اس حملے کی شدید مذمت اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ قونصل خانے پر حملہ مظاہرین کے مطالبات کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا۔ انہوں نے ایسے اقدامات کو ناقابلِ قبول بھی قرار دیا۔ دوسری جانب ایرانی حکومت نے قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری عراقی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سفارتی عمارت کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ ایران کی جانب سے بغداد حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حملہ کرنے والوں کو شناخت کر کے جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ تہران میں عراقی سفیر کو بھی طلب کر کے شکایتی مراسلہ تھمایا گیا۔

عراقی شہر بصرہ میں کئی غیر ملکی قونصل خانے موجود ہیں۔ ان میں امریکا اور روس بھی شامل ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے سفارتی عملے کے خلاف عراقی مظاہرین کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ واشنگٹن نے حکومت اور مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافی معاملات کو مذاکراتی میز پر بیٹھ کر حل کر یں۔ آیت اللہ علی السیستانی نے بھی ان مظاہروں کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد کرتے ہوئے نئی پارلیمنٹ کے اراکین کو تلقین کی ہے کہ وہ جلد از جلد حکومت سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی عملی کوششیں کرے۔ جنوبی عراق میں مظاہروں کو شروع ہوئے پانچ دن گزر گئے ہیں۔ اس دوران بصرہ میں کئی حکومتی عمارتوں پر حملوں کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ ان مظاہرین کی حکومتی سکیورٹی کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتیں ایک درجن ہو گئی ہیں۔ بصرہ میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دور رس اثرات مجموعی عراقی معاشرت اور معیشت پر مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔

ع ح ⁄ الف الف ⁄ روئٹرز

بشکریہ DW اردو
 

ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں بغاوت کا سامنا ہے

$
0
0

سابق وائٹ ہاؤس چیف اسٹریٹجک اسٹیوبنن نے نیویارک ٹائمز میں شائع کالم کے تناظر میں خبردار کیا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’بغاوت‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسٹیو بنن نے امریکی جریدے نیویارک ٹائمز میں نامعلوم شخص کی جانب سے تحریر کردہ کالم کا حوالہ دیا جس میں ٹرمپ انتظامیہ کو مزاحمت کا سامنا ہے۔
اسٹیو بنن نے واضح کیا کہ ’صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے، یہ ادارے پر براہ راست حملہ ہے، خالصتاً بغاوت ہے‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق کالم 5 ستمبر کو شائع ہوا جسے ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے تحریر کیا‘۔ کالم نگار نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ’غیر اخلاقیت‘ پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ’ان کی انتظامیہ کے بیشتر اعلیٰ افسران بڑی جانفشانی سے ٹرمپ کے فرسودہ ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں‘۔

اسٹیو بنن نے کہا کہ کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکی خانہ جنگی کے وقت سامنے آئی جب جنرل جارج بی میکلین کی اس کے وقت صدر ابراہم لنکن کے ساتھ نظریاتی جھگڑا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں انتظامیہ بحران کی تاریخی مثال 1862 میں ملتی ہے جب جنرل میکلین اور دیگر سینئر جنرلوں نے ابراہم لنکن کو کمانڈر ان چیف کے لیے ناموزوں اور نااہل شخص قرار دیا تھا۔ دوسری جانب ڈونلڈٹرمپ نے حکم دیا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف کھوج لگائے کہ مذکورہ کالم کس نے تحریر کیا جس کے باعث قومی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 

واضح رہے کہ اسٹیوبنن کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2017 میں بے دخل کر دیا تھا۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ری پبلک انتظامیہ میں بعض ایسے افراد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے، یہ بحران ہے‘۔ انہوں نے وضاحت پیش کی کہ ’میں کوئی سازشی شخص نہیں، میں کہہ چکا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ میں کوئی سازشی گروپ نہیں، یہ سب کچھ واضح ہے‘۔ اس حوالے سے انہوں نے خبردار کیا کہ وائٹ ہاؤس میں جاری کشدیدگی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل پروگریسو خصوصاً برنی سینڈرز زیادہ خوش نہ ہوں‘۔
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>