↧
یووون رڈلے کون ہیں ؟
↧
ٹرمپ کا نیا عالمی ہتھیار ۔ پابندیاں
امریکی صدر ٹرمپ نے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے کو ترجیح دیتے ہوئے مختلف ممالک پر بھاری ٹیرف (تجارتی ٹیکس) اور پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چین سے امریکہ کو ایکسپورٹ کی جانیوالی متعدد مصنوعات مثلاً اسٹیل وغیرہ پر اربوں ڈالرز کے ٹیرف عائد کر کے ایک کشیدہ صورتحال پیدا کی جا چکی ہے۔ چند سال قبل عالمی سپر پاور امریکہ گلوبلائزیشن اور فری ٹریڈ کا زبردست حامی تھا اب اس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ عالمی فوجی معاہدہ نیٹو کا سب سے بڑا محافظ اور پروموٹر اب اس معاہدہ کے یورپی رکن ممالک سے نیٹو کے اخراجات میں شیئرنگ کا مطالبہ کر کے خاموش مگر ناموافق صورتحال پیدا کر چکا ہے۔
امریکہ، کینیڈا اور میکسکو کے ہمسایہ ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کے علاقائی معاہدہ پر دستخط کرنے اور عمل کرنے والے امریکی پالیسی ساز اس کو نمونہ بنا کر جنوبی ایشیا میں پاکستان کو بھی یہ تلقین کیا کرتے رہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کے درمیان راہداری اور تجارتی سہولتوں کا ایسا ہی معاہدہ کر کے امن کیلئے اپنا رول ادا کرے بلکہ جنوبی ایشیا میں ’’نافٹا‘‘ معاہدہ کی نقل ہوتے دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ بھارت کے ساتھ تنازع کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم سمیت تمام پاک۔بھارت تنازعات کو بھارت کے حق میں فراموش کردینے کا درس بھی دیا جاتا رہا۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ، کینیڈا، میکسکو کے درمیان آزادانہ تجارت کا سہ فریقی معاہدہ ’’نافٹا‘‘ (N.A.F.TA) اب ناموافق قرار دے رکھا ہے بلکہ پڑوسی کینیڈا سے امریکہ کیلئے ایکسپورٹ پر بھاری ٹیکس عائد کر دیئے ہیں اور میکسکو، امریکہ سرحد پر دیوار کی تعمیر بھی شروع کر رکھی ہے۔
دنیا میں مہلک ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں اور کیمیکل ہتھیاروں پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ لہٰذا مہلک ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں سے لیس اکیسویں صدی کی دنیا میں برتر قوتوں نے دوسروں کو تباہ کرنے کے نئے ’’ہتھیار‘‘ ایجاد کر لئے ہیں۔ ٹارگٹ شدہ ملکوں کو ان کے اپنے ہی جغرافیہ، تاریخ، معیشت، سیاست اور معاشرت میں موجود اختلافات اور متضاد عوامل کو متحرک کر کے عدم استحکام اور داخلی تصادم سے تباہی پھیلانا ایٹمی ہتھیار سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ موجودہ دور میں کسی اعلان جنگ کے بغیر ہی دنیا کے کئی ممالک میں ان نئے ہتھیاروں سے ان کی آزادی ختم کرنے اور تاریخی تباہی و تبدیلی کی دھیمی رفتار کی مہلک جنگ بیک وقت جاری ہے۔
طیب اردوان کے ترکی کو بھی صدر ٹرمپ نے نہ صرف اپنی اس ’’ٹریڈ وار‘‘ کا نشانہ بنا لیا ہے بلکہ اس مضبوط نیٹو اتحادی اور مسلم ملک کی معیشت کو اجاڑنے کیلئے جو آپریشن شروع کیا ہے اسے ترکی کے صدر طیب اردوان نے غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ ترک کرنسی کی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں جو تاریخی گراوٹ آئی ہے وہ ترک معیشت کیلئے ایک تاریخی جھٹکا ہے جس کیلئے ترکی نے 12 اگست کو چند اقدامات تو کئے ہیں لیکن ترکی کو طیب اردگان کو پھر سے منتخب کرنے، فوجی بغاوت ناکام بنانے اور روس سے تعلقات میں بہتری کی سزا دینے کا اہتمام ان نئے ’’ہتھیاروں‘‘ کے ذریعے دینے کی کوشش ہے جو عالمی نظام میں برتر قوتوں نے پہلے ہی تیار کر رکھے ہیں۔ ترک وزیر خزانہ نے اپنے بینکنگ کے نظام کو سہارا دینے اور کاروباری اداروں کو اس غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کے نقصانات سے حتی المقدور بچانے کا ایک ہنگامی پلان تیار کیا ہے ہم نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی کرنسی بمقابلہ ڈالر کی شرح تبادلہ کا بحران بھی دیکھا ہے جس کے اثرات جلد ہی حقائق کی شکل میں ہمارے سامنے آنے والے ہیں۔
گو کہ ترک صدر کے بعض ناقدین اور مخالفین ترکی کے اس معاشی بحران کو غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کی بجائے طیب اردگان کی اپنی پالیسیاں قرار دے رہے ہیں لیکن ترکی میں کرنسی کا بحران شدید ہونے کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ کا وہ ٹوئٹ تھا جو انہوں نے 10 اگست کو جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ترکی سے امریکہ ایکسپورٹ کئے جانے والے اسٹیل اور المونیم پر ڈبل ڈیوٹی ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔ ترک صدر اس کو ترکی کے خلاف امریکہ کا نام لئے بغیر ’’گلوبل فنانشل سسٹم کے سب سے بڑے کھلاڑی‘‘ کا ’’اٹیک‘‘ قرار دے کر وارننگ دے رہے ہیں کہ اس کے اثرات دیگر ابھرتی معیشتوں پر بھی ہوں گے۔ ترکی 880 ارب ڈالرز کی معیشت کا حامل ہے جسے بچانے کیلئے ترک صدر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے تکیوں اور گھروں میں رکھے ہوئے ڈالرز اور غیر ملکی کرنسیاں، سونا، زیورات باہر نکال کر ترک کرنسی میں تبدیل کر کے قومی آزادی کی حفاظت کریں۔ترکی کا معاشی بحران حل کریں۔
پاکستان میں انتخابی موسم کے دوران پاکستانی کرنسی کی شرح تبادلہ میں بھی ایک ایسا بحران ڈالر کو بڑھا کر 125 روپے تک کر گیا ہے۔ اس کے اثرات و خطرات سبھی جانتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر ملکی معیشت سے ڈیل کرنے کیلئے آج کل انٹرنیشنل امور اور اکنامی کے بارے خود کو اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا ترکی اور پاکستان کے کرنسی بحرانوں کا تقابلی مطالعہ اور مشترکہ مسائل پر توجہ دینا بھی بہتر رہے گا۔ گلوبل فنانشل سسٹم کے سب سے بڑے کھلاڑی امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنی برتر معاشی قوت کو دنیا میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اور نیشنل سیکورٹی مفادات کیلئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور امریکہ کے تجارتی قانون کا سیکشن 232 صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کانگریس سے کسی منظوری کے بغیر ٹیرف میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ صدر ٹرمپ اقتصادی پابندیوں کو فارن پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا آغاز ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے ہوا۔ ترکی میں ایک امریکی پادری اینڈریو برنسن کو جاسوسی، دہشت گردی اور دیگر الزامات میں گرفتار کر کے دوسال سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ بقول صدر اردوان امریکہ اس پادری کی رہائی چاہتا ہےاور گزشتہ بدھ ڈیڈ لائن مقرر کی تھی کہ ترکی اسے رہا کردے مگر یہ ڈیڈ لائن گزر گئی اور دو روز بعد صدر ٹرمپ نے ترکی پر یہ پابندیاں عائد کر کے کرنسی کا بحران پیدا کر دیا۔
ترکی نے بھی بدلتی ہوئی صورتحال میں روس سے قریبی تعلقات بنائے ہیں بلکہ بعض حلقوں کے مطابق طیب اردوان کو روس نے ہی مطلع کیا تھا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی فوجی سازش ہو رہی ہے۔ صدر اردوان نے اسے ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد روس سے تعلقات مزید بہتر بنا لئے ہیں۔ پاکستان نے بھی امریکہ سے تعلقات ناموافق ہونے کے بعد روس سے تعلقات کو فروغ دیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی تعلقات میں بھی قربت ہوئی ہے جو امریکہ کو یکساں ناپسند ہے۔ ترکی اور پاکستان دونوں کے معاشی بحران کا ایک حل آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول ہے۔ لیکن دونوں سے امریکہ ناراض ہے اوروہ آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا موثر اور طاقتور ممبر ہے جو 17 فیصد شیئر بھی کنٹرول کرتا ہے لہٰذا آئی ایم ایف سے سخت شرائط کے ساتھ اور امریکی منظوری سے ہی پیکیج ملنے کا امکان ہے۔ لہٰذا دونوں کو متبادل ذرائع سے قرضے حاصل کرنا ہیں۔
ترکی میں گرفتار پادری اینڈریو برنسن کی طرح ہمارے ہاں بھی پاکستانی شہری ڈاکٹر شکیل آفریدی کی امریکہ رہائی اور حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کسی مرحلے پر امریکی صدر ٹرمپ اپنے ایسے ہی اختیارات کا استعمال کر کے ہمارے لئے بھی کوئی ناخوشگوار بحرانی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں کیا نئے قائدین ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں؟ امریکہ افغانستان میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھنے کے باوجود پاکستان سے اپنی کشیدگی کو اس لئے بڑھا رہا ہے کہ اب بھارت اور امریکہ کی ترجیحات مشترک ہیں اور امریکہ کو بھارتی سہارا حاصل ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ حال ہی میں اپنا بیان دہرا چکے ہیں کہ پاکستان کو غیر ملکی خطرات لاحق ہیں۔ کچھ دنوں قبل پاکستان، چین، روس اور ایران کے حساس اداروں کے سربراہوں کی خاموش ملاقات کی خبریں بھی عالمی امور کے حلقوں میں زیر تبصرہ ہیں۔
امریکہ نے پاکستان کے فوجی افسروں کی امریکہ میں (I.M.E.T) پروگرام کے تحت ٹریننگ کو روک دیا ہے۔ یہ اقدام بھارتی لابی کی خواہش اور کوشش سے ہوا ہے لیکن یہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کا ایک اقدام بھی ہے۔ ماضی میں بھی جب پاکستان پر ایٹمی حوالے سے امریکی پابندیاں عائد کی گئیں تو اس میں بھی کئی سال تک امریکہ کے (I.M.E.T) پروگرام کے تحت پاکستانی فوجی افسروں کی امریکہ میں ٹریننگ بند رہی لیکن یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اس پابندی سے امریکہ کے مفادات کو بھی نقصان پہنچا تھا اور اس کا اعتراف خود امریکی اداروں کی ماہرانہ رپورٹس میں سرکاری طور پر کیا گیا۔ اب ویسے بھی بدلتے ہوئے حالات میں روس اور چین سے رابطے اور ساز و سامان سے واقفیت کے مواقع زیادہ ہیں۔ ادھر ترکی بھی اسی روش پر چل کر روس سے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بعض غیر ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ 29اکتوبر کو ترکی کے 95 قومی دن کی تقریبات سے قبل ہی طیب اردگان کی تبدیلی آجائیگی۔ ہمارے پاکستان کے 71ویں یوم آزادی سے قبل ہمارے ہاں بھی حکمرانوں کی تبدیلی آ چکی ہے۔ دیکھئے نئے حکمران عالمی تناظر میں پاکستان کی آزادی کو مستحکم کرنے کیلئے اپنے فکر و عمل میں کیا تبدیلی دکھاتے ہیں؟
عظیم ایم میاں
↧
↧
وزیراعظم عمران خان کیلئے چیلنجز
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ ان کے مد مقابل امیدوار مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو مشکل ترین حالات میں حکومت ملی ہے۔ ملکی معیشت زبوں حال ہے تو اندرونی بیرونی خطرات بھی دوچند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خارجہ امور درستی کے متقاضی ہیں تو اندرون ملک عوامی ریلیف بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ انہی عوامل کے باعث بعض تجزیہ کار بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے لئے حکمرانی پھولوں کی سیج ثابت نہ ہو گی تاہم بعض دانشوروں کو قوی امید ہے کہ چیلنجز قبول کرنے والے عمران خان اپنی محنت، لگن اور دیانت داری سے مسائل کا حل نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔
کوئی شک نہیں کہ اگر قیادت واقعی کچھ کرنا چاہے تو کوئی بھی چیلنج اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو سردست جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ معاشی ہے کہ حکومت کو آتے ہی بیرونی قرضے ادا کرنے کیلئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ کرنٹ تجارتی خسارہ جو کبھی دو ارب ڈالر سالانہ تھا پچھلے دو تین ماہ میں دو ارب ڈالر ماہانہ ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت تقریباً 95 ارب ڈالر کے قرضوں تلے دبی سسک رہی ہے، درآمدات و برآمدات میں تفاوت نصف سے بھی زیادہ ہے۔ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد اور بیروزگاری میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ان حالات میں اگرچہ چین اور سعودی عرب پاکستان کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں تاہم یہ ناکافی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو دوست ممالک پر زیادہ توجہ دینا ہو گی، ٹیکس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ آئی ایم ایف پر کم ہی انحصار کرنا پڑے۔ معاشی مسائل کے حل کے بعد ملک کے اندر فکر و عمل کی تقسیم کا خاتمہ ضروری ہے خواہ یہ علاقائی، سیاسی، نظریاتی یا کسی اور بنیادوں پر ہو۔ یہ وقت انتشار کا نہیں متحد ہو کر ایک یادگار قوم ہونے کا ثبوت دینے کا ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن جمہوری نظام کا جزو لانیفک ہے اس کی بات کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے تاکہ اسے بھی یہ احساس ہو کہ وہ ملکی فیصلوں میں برابر کی شریک ہے۔اپوزیشن بھی ملکی اورعالمی حالات کے پیش نظر تعمیر کی راہ پر چلے کہ اس کے برعکس رویہ اپنانے والا وطن دوست قرار نہیں پائے گا۔
عمران خان نے حکومت کے پہلے 100 دن کا جو پروگرام دیا ہے اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ نہ صرف حکومت بلکہ پوری اسمبلی ملک کی ترقی کیلئے یکسو ہو کر تاریخ میں امر ہو جائے۔ عوام کی تمنا ہے کہ قومی اسمبلی ہی نہیں چاروں صوبائی اسمبلیاں ملک کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کیلئے ایک دوسرے کی دست و بازو بنیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی موثر تبدیلیاں ناگزیر ہیں کہ بھارت اور امریکہ نے مل کر ہمیں دنیا میں تنہا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اس محاذ پر عمران خان کو ذہین لوگوں کو تعینات کرنا ہو گا تاکہ بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ ممکن ہو اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں۔ عمران خان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کامیابی ہمیشہ ٹیم ورک کے نتیجے میں ملتی ہے، لہٰذا انہیں انتہائی دانش مندی سے صرف اور صرف میرٹ پر اپنی ٹیم سلیکٹ کرنی ہو گی تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے، کمزور ٹیم کے ساتھ کامیابی کا حصول ممکن نہ ہو گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو نئے وزیراعظم سے بہت سی توقعات ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمران خان جو کہتا ہے کر کے دکھاتا ہے، چنانچہ عمران خان کو وہ سب کچھ کر کے دکھانا پڑے گا جس کا وہ اعلان انہوں نے انتخابی کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں کیا تھا، جس میں صلح کل کی بات بھی تھی اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کا عزم صمیم بھی۔ عمران خان سادگی کو شعار بنائیں، صلح جوئی کی راہ اختیار کریں اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں کہ اسی راہ پرچل کر تمام اندرونی و بیرونی مسائل ہو سکتے ہیں۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
وزیراعظم عمران خان نے منصب سنبھال لیا
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک کے 22 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد منصب سنبھال لیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی، صدر مملکت ممنون حسین نے ان سے حلف لیا۔ بعد ازاں تینوں مسلح افواج کے چاق چوبند دستے نے وزیراعظم عمران خان کو گارڈ آف آنرپیش کیا، انہوں نے گارڈ آف آنرکا معائنہ کیا اور وزیراعظم ہاؤس کے عملے سے تعارف کرایا گیا، انہوں نے عملے سے فرداً فرداً مصافحہ بھی کیا۔ جس کے بعد عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے وزیراعظم آفس پہنچے جہاں انہوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس موقع پروزیراعظم عمران خان کوحکومتی امور پربریفنگ دی گئی۔
↧
کلدیپ نیر : پیسے اور شہرت کے بجائے ضمیر کی آواز سننے والے صحافی
معروف صحافی اور مصنف کلدیپ نیر ممتاز صحافی، ایڈیٹر اور مصنف تو تھے ہی لیکن انھیں پریس کی آزادی، انسانی حقوق کے تحفظ اور ہند پاک دوستی کے لیے ان کی انتھک جدوجہد کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ وہ 95 برس کے تھے۔ کلدیپ نیر کا جنم سیالکوٹ میں ہوا تھا اور انھوں نے لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ لیکن اس کے بعد ملک تقسیم ہو گیا اور وہ انڈیا آ گئے۔ سن 2012 میں انھوں نے اپنی خود نوشت شائع کی تھی جس میں انھوں نے تقسیم کے زخموں کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ یہ زخم بظاہر ان کی شخصیت کا حصہ رہے اور شاید اسی وجہ سے وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن اور دوستی کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ہمیشہ وابستہ رہے۔
وہ ایک مدت کے لیے پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن رہے اور 1990 میں، جب وی پی سنگھ ملک کے وزیر اعظم تھے، انہیں برطانیہ میں انڈیا کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا۔ کلدیپ نیر نے اپنا لمبا صحافتی سفر ایک اردو اخبار ’انجام‘ سے شروع کیا تھا اور اس کے بعد ملک کے کئی سرکردہ اخباروں اور خبررساں ایجنسی یو این آئی سے وابستہ رہے۔ ان کا کالم "بٹوین دی لائنز"بہت مقبول تھا۔
لیکن شاید انھیں سب سے زیادہ پریس کی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب 1975 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور پریس کو سینسرشپ کے انتہائی سخت دور سے گزرنا پڑا تو اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں کلدیپ نیر بھی سب سے آگے تھے جس کی وجہ سے انھیں جیل جانا پڑا۔
نیوز ویب سائٹ ’دی کوئنٹ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’اندرا گاندھی اور میں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک دن انھوں نے اپنے بال بہت چھوٹے کرا دیے اور مجھ سے پوچھا کہ وہ کیسی لگ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ پہلے ہی بہت خوبصورت تھیں، اب اور زیادہ خوبصورت لگ رہی ہیں۔‘ مشہور مورخ رام چندر گوہا نے ایک تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ ’کلدیپ نیر اس نسل کے صحافی تھے جو پیسے اور شہرت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز سننے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کے لیے ان کی کوششوں، ان کی ایمانداری اور ایمرجنسی کے دوران ان کی جرات کو یاد رکھا جائے گا۔‘
کلدیپ نیر نے اپنےایک کالم میں ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اندرا گاندھی نے جمہوریت کی روشنی بجھا کر ہمیں پولیس راج کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔۔۔` لیکن ساتھ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ’سافٹ ہندوتوا‘ کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اب پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کوئی غیر آئینی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ میڈیا خود اتنا حکومت نواز ہو گیا ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ وہ ہر سال انڈیا اور پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر شہری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ واہگہ اٹاری بارڈر جاتے جہاں امن کے پیغام کے طور پر موم بتیاں روشن کی جاتیں اور ایک ’کینڈل لائٹ‘ ریلی نکالی جاتی۔ اب اس ریلی میں شامل شمعوں میں سے ایک کی لو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے۔
سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
↧
↧
کیا امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے ؟
ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں کی کرنسیاں لڑکھڑا رہی ہیں۔ ان میں روس کی کرنسی روبل بھی شامل ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کی حیثیت ’ختم‘ ہونے والی ہے۔ کرنسی کی قدر میں استحکام سے بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے نوٹ جاری کرنے والے مجاز ادارے کو اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت امریکی ڈالر کے لیے حالات اِس لیے ساز گار نہیں ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ کچھ عرصے میں متعدد ممالک کے حوالے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ٹرمپ دور میں امریکا اور دوسری بڑی اقتصادیات کے ملک چین سے لے کر کئی دوسری چھوٹی معیشتوں کے ممالک کے ساتھ بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت چین کے ساتھ ایک طرح کی اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ کئی دوسرے اتحادی ممالک کی درآمدات پر بھی انہوں نے اضافی محصولات کا نفاذ کر دیا ہے۔ امریکی صدر روس پر بھی پابندیوں کا نفاذ کر چکے ہیں اور اب انہوں نے ترکی کو اپنے پابندیوں میں جکڑ لیا ہے۔ انہی جھگڑوں کے تناظر میں ترکی اور روس نے امریکی ڈالر کی حیثیت پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دی ہیں۔ عالمی اقتصادیات میں امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کے طور پر حیثیت چودہ فروری سن 1945 سے شروع ہوتی ہے۔ ایک بحری جہاز پر منعقدہ خصوصی تقریب میں اُس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ اور سعودی عرب کے شاہ خالد ابنِ سعود موجود تھے۔ اسی تقریب میں تیل کی فروخت امریکی ڈالر میں کرنے کی بات طے ہوئی تھی اور صدر روزویلٹ نے سعودی عرب کے عسکری تحفظ کا یقین بھی دلایا تھا۔
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان بعض سفارتی تنازعات کے باوجود یہ ڈیل برقرار رکھی گئی۔ عالمی سطح پر تیل کی ضروریات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اسی طرح امریکی ڈالر کی حیثیت بھی مستحکم ہوتی چلی گئی۔ روزویلٹ اور سعودی بادشاہ کے درمیان سن 1945 کی ڈیل نے امریکی ڈالر کو سیاہ سونے (خام تیل) کے ساتھ ایسا نتھی کیا اب امریکی ڈالر ہی اقوام کے درمیان تجارت کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ دنیا کے پچاسی فیصد بین الاقوامی کاروباری سودوں کا لین دین امریکی ڈالر ہی میں ہوتا ہے اور یہ بھی دنیا میں امریکی غلبے کا ایک نشان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکی ڈالر کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کئی ملکوں اور خاص طور پر چین پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دانستہ طور پر کم رکھ رہا ہے تا کہ اقوام عالم میں یہ احساس پیدا ہو کہ چینی کرنسی بھی مضبوط ہے۔ بعض اوقات ٹرمپ بڑے دعوے کرتے ہیں اور بعد میں وہ ان سے پیچھے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی اقتصادی پالیسی اُن کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ترکی اور روس نے اپنی دو طرفہ تجارت میں اپنی اپنی کرنسیوں کے استعمال کا اعلان کیا ہے اور وہ یقینی طور پر ڈالر کے استعمال سے گریز چاہتے ہیں۔ ایسے اقتصادی ماہرین موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ ترکی اور روس جیسا رویہ اگر بقیہ ممالک بھی اپناتے چلے گئے تو امریکی ڈالر کی انٹرنیشنل تجارت میں حیثیت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب ایسے ماہرینِ اقتصادیات بھی ہیں جن کے مطابق امریکی ڈالر انفرادی سطح پر بہت مستحکم ہے اور سرمایہ کار اس کرنسی کے استعمال پر اعتماد رکھتے ہیں۔
بشکریہ DW اردو
↧
Kerala witnesses worst floods in century
In late July 2018, severe flooding affected the Indian state of Kerala due to unusually high rainfall during the monsoon season. It was the worst flooding in Kerala in nearly a century. Over 445 people died, 15 are missing within a fortnight, while at least 280,679 people were evacuated, mainly from Chengannur, Pandanad, Aranmula, Aluva, Chalakudy, Kuttanad and Pandalam. All 14 districts of the state were placed on high alert. According to the Kerala government, one-sixth of the total population of Kerala had been directly affected by the floods and related incidents. The Union government had declared it a Level 3 Calamity or 'Calamity of a severe nature'.
Thirty-five out of the forty-two dams within the state were opened for the first time in history. All five overflow gates of the Idukki Dam were opened at the same time, for the first time in 26 years. Heavy rains in Wayanad and Idukki have caused severe landslides and have left the hilly districts isolated. The situation was regularly monitored by the Prime Minister and the National Crisis Management Committee coordinated the rescue and relief operations.
Kerala received heavy monsoon rainfall on the mid evening of August 8 resulting in dams filling to capacity; in the first 24 hours of rainfall the state received 310 mm (12 in) of rain.[16] Almost all dams have been opened since the water level has risen close to overflow level due to heavy rainfall, flooding local low-lying areas. For the first time in the state's history, 35 of its 42 dams have been opened. Most of the regions affected by this monsoon were classified as ecologically-sensitive zones (ESZs) by the Western Ghats Ecology Expert Panel, the Gadgil Committee. Most of the recommendations and directions by the committee was either neglected or rejected. Chairman of the committee Madhav Gadgil accused the state government and its irresponsible environmental policy for the recent landslides and floods. He called it a "man-made calamity".
The Government of Kerala argued in the Supreme Court that the sudden release of water from the Mullaperiyar Dam by the Tamil Nadu government was one of the reasons for the devastating flood in Kerala. The Tamil Nadu government rejected the argument saying that Kerala suffered the deluge due to the discharge of excess water from 80 reservoirs across Kerala, spurred by heavy rains from within the state; It also argued that the flood surplus from the Idukki dam is mainly due to the flows generated from its own independent catchment due to unprecedented heavy rainfall while the discharge from Mullaperiyar dam was significantly less.
Though it is difficult to attribute a single event to climate change, its possible role in causing the heavy rainfall event over Kerala cannot be discarded . Recent research indicates that rising temperatures have led to huge fluctuations in the monsoon winds carrying the moisture from the Arabian Sea, resulting in heavy-to-extreme rains over the Western Ghats and central India, lasting for two to three days.
A state official told AFP that 370 people have died, while The Economic Times has reported that 33,000 people have been rescued. The Kerala State Disaster Management Authority has placed the state in a red alert as a result of the intense flooding. A number of water treatment plants were forced to cease pumping water, resulting in poor access to clean water, especially in northern districts of the state. Over 5,645 relief camps have been opened at various locations to accommodate the flood victims. It is estimated that 1,247,496 people have found shelter in such camps. The flooding has affected hundreds of villages, destroyed an estimated 10,000 km (6,200 mi) of roads and thousands of homes have been damaged or destroyed. The Government has cancelled Onam celebrations, whose allocated funds have been reallocated to relief efforts.
Being instructed by the Cabinet Secretary, Senior officers of Defence Services, NDRF, NDMA and Secretaries of Civilian Ministries conducted meetings with Kerala Chief Secretary. Following the decisions taken during these meetings, the Centre launched massive rescue and relief operations. In one of the largest rescue operations, 40 helicopters, 31 aircraft, 182 teams for rescue, 18 medical teams of defense forces, 58 teams of NDRF and 7 companies of Central Armed Police Forces were pressed into service along with over 500 boats and necessary rescue equipments. Totally, 60,000 people are rescued from marooned areas and was shifted to relief camps.
Additionally, 52 rescue teams of central forces including units of the Indian Army and the Indian Navy and state governed forces like Kerala Police and Kerala Fire and Rescue Services assisted the civilian administration in rescue work and restoration.[8] In addition to the 10 teams of the National Disaster Response Force, four additional teams were airlifted from Guntur and Arakkonam to assist the Ernakulam district administration. Union Minister for Home Affairs Rajnath Singh conducted an aerial survey of Idukki and Ernakulam districts along with Chief Minister Pinarayi Vijayan.
Fisherman from Thiruvananthapuram and Kollam districts took part in the rescue operations with their boats and rescued several who were trapped in their homes by rising waters. The Kerala Government announced financial aid in return for their support and effort in the rescue mission. Mananthavady and Vythiri in the hilly Wayanad district have been totally cut-off, with roads washed away. According to the latest official figures, more than 800,000 people have been lodged in over 4,000 relief camps across 14 districts. On August 19, the state's Chief Minister Pinarayi Vijayan vowed "to save even the last person stranded."
At a press conference on 11 August, Chief Secretary Tom Jose said, "Things are well under control. The government is on top of the situation." Prime Minister Narendra Modi conducted an aerial survey and offered federal support to Kerala. Chief Minister Pinarayi Vijayan described the floods as "something that has never happened before in the history of Kerala" and placed some of the blame on neighbouring Tamil Nadu for not releasing excess water from the State-operated Mullaperiyar dam, which worsened the situation.
↧
غزہ میں امریکی امداد کی بندش
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقدامات سے اپنے ملک کو دنیا میں جس طرح تنہا کرتے چلے جا رہے ہیں اسکا تازہ ترین مظاہرہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو دی جانے والی بیس کروڑ ڈالر کی امداد معطل کیے جانے کی شکل میں ہوا ہے۔ ان کی جانب سے گزشتہ روز جاری کئے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ غزہ کیلئے مختص یہ امدادی رقم کہیں اور منتقل کر دی جائے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک عہدے دار کے بقول اس فیصلے کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ یہ رقم امریکی مفادات کے مطابق استعمال کی جائے لہٰذا اسے اب دوسرے ترجیحی منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ تاہم امریکی ترجمان نے اس بارے میں کوئی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ واضح رہے کہ اس تازہ اقدام سے پہلے امریکہ اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو دی جانے والی ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کی امداد بھی روک چکا ہے۔
امریکہ کی موجودہ انتظامیہ کا یہ طرز عمل فلسطین اور اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیوں کے اس انتباہ کے باوجود جاری ہے کہ امداد روک دینے سے عام شہریوں کی زندگی مزید دوبھر ہو جائے گی۔ امریکی حکام غزہ کو امداد کی بندش کا یہ ناقابل فہم جواز پیش کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو غزہ کو امداد فراہم کرنے میں چیلنجوں کا سامنا ہے جہاں حماس کا غلبہ غزہ کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور پہلے ہی سے خراب انسانی اور معاشی صورتِ حال کو بدتر بنا رہا ہے۔ جبکہ حماس کی عوامی مقبولیت شکوک و شبہات سے بالاتر ہے ۔ حماس نے انتخابات میں بارہا بھاری عوامی حمایت حاصل کی ہے اور فلسطین کی ایک بڑی اور مسلمہ جمہوری طاقت ہے۔ غزہ کی امداد کی بندش کو تنظیم آزادی فلسطین کی ایک ممتاز رہنما اور رکن پارلیمنٹ حنان اشراوی نے بجا طور پر صدر ٹرمپ کی جانب سے’’ گھٹیا بلیک میلنگ قرار دیا ہے جسے وہ غیر قانونی قبضے میں اسرائیل کی مدد کے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی حمایت کو اگرچہ بیشتر ادوار میں بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ نے تل ابیب کی جیسی اندھی حمایت کی روش اختیار کی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ تنازع فلسطین کے حل میں کسی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کردار کی ادائیگی کے بجائے فلسطینیوں کے مقابلے میں یکطرفہ طور پر اسرائیل کی مکمل حمایت کی حکمت عملی اپنائیں گے چنانچہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی سے امریکہ فلسطین تعلقات کی کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہو گیا اور دونوں ممالک کے درمیان دراڑ اس وقت انتہائی وسیع ہو گئیں جب امریکہ نے دسمبر 2017ء میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا.
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے عالمی برادری کا بھرپور اختلاف اسی سال 18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس فیصلے کیخلاف مصرکی قرارداد کی کونسل کے 14 ارکان کی حمایت کی شکل میں ہوا تھا اور امریکہ نے ویٹو کا اختیار استعمال کر کے اس قرارداد کے نفاذ کو روکا تھا۔ صدر ٹرمپ اپنی جن دوسری پالیسیوں سے امریکہ کو دنیا میں تنہا کر رہے ہیں ان میں سے ایک ایران سے جوہری معاہدے کی منسوخی بھی ہے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اس طرح انہوں نے اپنے یورپی اتحادیوں سے بھی اختلاف مول لے لیا ہے۔
چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ کر، شمالی کوریا سے اختلافات بڑھا کر اور روس کے خلاف اقدامات کر کے بھی ٹرمپ امریکہ کی تنہائی میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی بے جا حمایت اور افغانستان میں ناکام امریکی پالیسیوں کے نتائج کو واشنگٹن کے حق میں بدلنے کیلئے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز طرزعمل اختیار کر کے وہ جنوبی ایشیا میں اپنے ایک ایسے اتحادی کو کھو رہے ہیں جو اپنی پوری تاریخ میں امریکہ کا قابل اعتماد حلیف رہا ہے۔ حالات کے اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں نہ کیں تو ان کا دور انکے ملک کیلئے بڑے خسارے کا سودا ثابت ہو گا۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امکانی مواخذے کے خطرات
پاکستان میں امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے وزیراعظم عمران خان کو کیے گئے ٹیلی فون کی گفتگو کے بعض مندرجات پر بحث جاری ہے بلکہ اخبارات نے اسے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ معاملہ تو ایک دو روز میں طے پا جائے گا لیکن ادھر امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امکانی مواخذے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور امریکی میڈیا میں اس حوالے سے خاصا چرچا ہے، اس بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی وارننگ دی ہے کہ اگر ان کا مواخذہ ہوا تو ملکی معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن بھی وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نومبر میں کانگریس کے الیکشن میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کر لی تو ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ عالمی میڈیا میں ٹرمپ کے امکانی مواخذے پر تبصرے بھی شروع ہو گئے، دی انڈی پینڈنٹ نے لکھا کہ مائیکل کوہن کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ صدر کے مواخذے کے لیے ایوان نمائندگان میں سادہ اکثریت اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوکس نیوز کو انٹرویو کے دوران امریکی صدر نے اپنے مواخذے کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مواخذہ ہوا تو ہر امریکی غریب ہو جائے گا اور اقتصادی مارکیٹ کریش کر جائے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایک ایسے شخص کا مواخذہ کیسے ہو سکتا ہے جس نے ملک کے لیے بہت اچھا کام کیا ہو۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ معاف گواہ بننے پر اپنے وکیل کوہن پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ اپنی سزا کم کرانے کے لیے کہانیاں بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر کی انتخابی مہم کے انچارج پال مینافورٹ پر بھی 5 مقدمات میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے، ان پر ٹیکس فراڈ، بینک فراڈ اور غیر ملکی اکاؤنٹ کی تفصیلات نہ بتانے پر فرد جرم عائد کی گئی۔
امریکی صدر نے مینافورٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہادر آدمی ہیں جنھوں نے کوہن کی طرح ڈیل کے لیے کہانیاں گھڑنے سے انکار کر دیا۔
امریکی آئین کے مطابق صدر کو مواخذے کے ذریعے عہدے سے اس صورت میں ہٹایا جا سکتا ہے جب انھیں بغاوت، رشوت ستانی، کسی بڑے جرم یا بد عملی کی وجہ سے سزا دینا درکار ہو۔ ماضی قریب میں صدر بل کلنٹن کا مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں جھوٹ بولنے کے الزام میں مواخذہ ہوا لیکن وہ صدارت بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ مواخذے کا سامنا کرنے والے دوسرے صدر اینڈریو جانسن تھے۔ امریکی صدر نکسن کو واٹر گیٹ اسکینڈل کے نتیجے میں عہدہ صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی بحث ہو رہی ہے ، اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔
اداریہ روزنامہ ایکسپریس
↧
↧
بیکال : تازہ پانی کی سب بڑی جھیل
دنیا میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل بیکال ہے۔ دنیا میں زمین کی سطح پر پائے جانے والے تازہ پانی کا 22 سے 23 فیصد اسی جھیل میں ہے۔ یہ جھیل جنوبی سائبیریا میں واقع ہے۔ یہ دنیا کی سب سے گہری جھیل بھی ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 5387 فٹ ہے۔ اسے دنیا کی صاف شفاف اور قدیم ترین جھیل بھی مانا جاتا ہے۔ یہ اڑھائی سے تین کروڑ سال قدیم ہے۔ سطح کے رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا کی ساتویں بڑی جھیل ہے۔ اس جھیل میں پودوں اور جانوروں کی ہزاروں انواع رہتی ہیں، جن میں سے بہت سی دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ 1996ء میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔
جھیل کی مشرقی جانب سائبیریا کے مقامی بوریات قبائل رہتے ہیں جن کا رہن سہن زیادہ تر روایتی ہے۔ یہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں اور گھوڑے رکھتے ہیں۔ انہیں یہاں بہت سرد موسم بھی سہنا پڑتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 19 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 14 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ یہ جھیل چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھری ہے۔ اس جھیل میں 27 جزیرے ہیں جن میں سب سے بڑا اولخون ہے جو 72 کلومیٹر طویل ہے اور دنیا کی جھیلوں میں تیسرا بڑا جزیرہ ہے۔ اس جھیل میں تین سو سے زائد چھوٹے بڑے دریاؤں کا پانی آتا ہے۔
بیکال جھیل کے پانی میں آکسیجن کی مقدار خاصی زیادہ ہے۔ اس کا پانی انتہائی شفاف ہے۔ اس جھیل کے پانی کا درجہ حرارت مقام، گہرائی اور وقت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ سردیوں اور بہار میں چار سے پانچ ماہ تک اس کی سطح جم جاتی ہے۔ اوسطاً جمی ہوئی سطح کی چوڑائی 1.6 تا 4.6 فٹ ہوتی ہے لیکن بعض مقامات پر یہ چوڑائی 6.6 فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس عرصے میں گہرائی کے ساتھ ساتھ پانی کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔ اس جھیل پر طوفانی موسم اکثر رہتا ہے۔ گرمیوں اور خزاں میں یہ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس میں 15 فٹ تک اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
یہاں پودوں کی ایک ہزار اور جانوروں کی اڑھائی ہزار انواع کا پتا لگایا جا چکا ہے۔ یہاں پرندوں کی 236 انواع رہتی ہیں۔ یہاں مچھلیوں کی 65 مقامی اقسام رہتی ہیں۔ بیکال کا علاقہ جسے بعض اوقات بیکالیہ بھی کہا جاتا ہے، میں انسانی آبادی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں ’’ہن، سیونگنو جنگ‘‘ ہوئی تھی۔ یہ قبائلی کنفیڈریشن سیونگنو کی سرحد ہوا کرتی تھی۔ ہن (Han) سلطنت سے اس کی اس مقام پر 133 ق م سے 89 ق م تک مسلسل جنگیں ہوئیں۔ اس جنگ میں فتح یاب ہونے والے ہنوں نے لکھا کہ یہاں ایک ’’بہت بڑا سمندر‘‘ ہے۔ سائبیریا کا ایک قبیلہ، جو چھٹی صدی میں یہاں آباد ہوا، اس نے اس جھیل کو ’’بہت پانی‘‘ کا نام دیا۔ اس کے بعد اسے بوریات کی جانب سے ’’قدرتی جھیل‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
سترہویں صدی میں روس کے اس علاقے تک رسائی حاصل کرنے سے قبل یورپی اس جھیل کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ پہلا روسی مہم جو 1643ء میں یہاں پہنچا۔ اس کا نام کربات ایوانوو تھا۔ 1966ء میں جھیل کے کنارے ’’بیکالسک پَلپ اینڈ پیپر مِل‘‘ تعمیر کی گئی جس سے نکلنے والی کلورین جھیل میں جاتی تھی۔ اس پلانٹ کے قیام پر اس وقت سوویت سائنس دانوں نے شدید احتجاج کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے جھیل کا شفاف پانی آلودہ ہو جائے گا۔ تاہم اس احتجاج کا خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ اسے 2008ء میں غیر منافع بخش ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔
روس کی آئل پائپ لائن کمپنی ’’ٹرانزنیفٹ‘‘ نے جھیل کے کنارے پر تقریباً 800 میٹر پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ حادثے کی صورت میں پائپ لائن سے تیل کے جھیل میں جانے کا خدشہ موجود تھا اس لیے اس کی مخالفت میں ماحول دوست تنظیمیں اور افراد سرگرم ہو گئے۔ بالآخر ولادی میر پوٹن نے پائپ لائن کا راستہ تبدیل کرنے کا مطالبہ مان گئے۔ اس جھیل پر بہت سے تحقیقاتی منصوبے جاری ہیں۔ یہاں دنیا بھر سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
ترجمہ: رضوان عطا
↧
قدیم مصر...قدیم تہذیب کا گہوارہ
مصر کو قدیم تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ مصر میں موجود تاریخی آثار پوری دنیا سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ مصری حنوط شدہ لاشیں یعنی ’’ممیاں‘‘ پوری دنیا میں مصر کی پہچان ہیں۔ اس ملک کو فرعون اور حضرت موسیٰؑ کے حوالے سے انسانی تاریخ میں بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ قدیم مصر کے رہنے والے لوگ اپنے زمانے کے مانے ہوئے نامور اور شہرت یافتہ تہذیب کے مالک تھے۔ ان کی تہذیب سے بہت بڑا علاقہ متاثر ہوا۔ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے مصری لوگ کسان تھے۔ پھر چند صدیوں ہی میں مصر دنیا کی طاقتور قوموں میں شمار ہونے لگا۔ مصر میں بادشاہوں (فرعونوں) کے لیے مقبرے تعمیر کیے جاتے تھے جو دریائے نیل کے مغربی کنارے پر ہوتے جہاں سورج غروب ہوتا ہے۔ وہ اس عقیدے کے قائل تھے کہ ان کا بادشاہ مرا نہیں، بلکہ سورج دیوتا سے ملنے گیا ہے۔
قدیم مصری لوگ دریائے نیل کے کنارے آباد تھے، جہاں پانی کی بہتات کی وجہ سے وہ کھیتی باڑی کر سکتے تھے۔ یہ لوگ دور دراز کی دنیا کے بارے میں نہیں جانتے تھے البتہ ایشیا اور افریقہ کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے تھے۔ ان کے سوداگر نزدیکی ممالک سے لکڑی، سونا، ہاتھی دانت، گرم مسالے حتیٰ کہ بندر وغیرہ بھی لا کر تجارت کرتے تھے۔ مصری لوگ عمدہ طرز پر کھیتی باڑی کرتے تھے اور اس وجہ سے جلد دولت مند ہو گئے تھے۔ یہ اپنے دیوتاؤں کے لیے اعلیٰ درجے کی خوبصورت عبادت گاہیں تعمیر کرتے تھے۔ ان کے پاس فوج، بحری جہاز اور اعلیٰ نظام موجود تھا۔ ان کے ماہر فلکیات ستاروں کا علم جانتے تھے۔ ماہر کاریگر سونے چاندی سے بہترین زیورات تیار کرتے تھے۔
اس دور میں مصر پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کو فرعون کہا جاتا تھا۔ وہ انہیں دیوتا جیسا مقام دیتے تھے۔ دنیا کی پہلی خاتون حکمران کا تعلق بھی غالباً مصر سے تھا۔ انسانی تاریخ کی اولین خاتون حکمرانوں میں ہٹشپ سوٹ شامل تھی۔ جب اس کا کم سن بھتیجا تخت نشین ہوا تو اس خاتون کو مصر پر اس کمسن بادشاہ کے قائم مقام کے طور پر حکومت کرنے کی دعوت دی گئی، تاوقتیکہ وہ بڑا ہو جائے، مگر ملکہ کو حکومت اور اقتدار کا ایسا چسکا لگا کہ اس نے اپنے بھتیجے کو پھر حکومت نہ کرنے دی۔ اس نے 1458 ق م سے 1478 ق م تک قدیم مصر پر حکومت کی۔
فرعون عام طور پر تاج پہنتے تھے، بعض اوقات فرعون دو تاج بیک وقت پہنتے تھے۔ یہ تاج مصر کے دو مختلف علاقوں کی نشاندہی کرتا تھا۔ لکسر شہر میں مصر کے کئی آثار قدیمہ موجود ہیں۔ اسے ’’بادشاہوں کی وادی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے نیل کے عین کنارے پر واقع ہے۔ اسی لیے یہ فرعونوں کا منظور نظر اور دارالحکومت رہا۔ انہوں نے اس شہر میں بے شمار عمارتیں تعمیر کرائیں۔یہاں فرعونوں کے بہت سے مقبرے ملے ہیں۔ ان میں توتن خامن اور اس کی بیوی سیتی کے مقابر بہت شاندار ہیں۔ قدیم مصر کے آثار دیکھنے کے لیے سیاح بڑی تعداد میں مصر کا رخ کرتے ہیں۔
عبدالوحید
↧
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث میانمار آرمی چیف کا ٹرائل ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار فوج کے کمانڈر انچیف سمیت 5 اعلیٰ عہدیداروں کا روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم پر عالمی ٹرائل ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے تفتیشی کمیشن نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی 20 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی اور سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے جو عالمی قوانین کے تحت قابل تفتیش ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے سلامتی کونسل سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے میانمار فوج کی کمانڈر انچیف سمیت پانچ جنرلوں پر عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی سول حکومت بھی ان مظالم کو روکنے میں مکمل طور ناکام رہی ہے اور آنگ سان سوچی نے فوج کو مظالم سے روکنے کے لیے اپنا کردار نہیں نبھایا بلکہ مشتعل بدھ مت پیروکاروں کو نفرت آمیز رویے اور اشتعال انگیز تقاریر کے مواقع فراہم کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی تفتیشی کمیشن نے دورہ میانمار کے دوران سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں کے انٹرویوز کیے جس سے ہوشربا داستانیں سامنے آئی ہیں۔ سیکڑوں خواتین کی عصمت دری کی گئی اور 1 ہزار سے زائد مردوں کو قتل کیا گیا، درجنوں کو زندہ جلایا گیا اور کئی افراد کے سر تن سے جدا کر دیے گئے جس کے باعث 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں پناہ لینی پڑی ہے۔
↧
سرد جنگ کے بعد روس کی سب سے بڑی فوجی مشقیں
روس آئندہ ماہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی اور وسیع پیمانے پر ہونے والی فوجی مشقیں کرے گا جس میں تین لاکھ فوجی اہلکار حصہ لیں گے۔ کریملن کے ترجمان نے جنگی مشقیں ’ووستک 2018‘ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ملک کے خلاف ’جارحانہ اور غیر دوستانہ‘ رویوں کو دیکھتے ان کا جواز ہے۔ روس کے وزیر دفاع سرگئی شوگو کا کہنا ہے کہ سینٹرل اور مشرقی روس میں منعقد کی جانے والی ان فوجی مشقوں میں چین اور منگولیا کے دستے بھی شامل ہوں گے۔
انھوں نے ان مشقوں کا جنھیں ’ووستک 2018‘ کا نام دیا گیا، موازنہ سنہ 1981 میں اس وقت کے سویت یونین کی مشقوں سے کیا جس میں نیٹو پر فرضی حملے کرنے کی تیاری کی گئی تھی۔ روس کی جانب سے ان فوجی مشقوں کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب نیٹو اور روس کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ 2014 میں کرائمیا کے خطے پر قبضے اور مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں کی حمایت کے روسی اقدامات پر نیٹو نے رد عمل کے طور پر مشرقی یورپ میں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا تھا۔ روس کا موقف تھا کہ وہاں مشرقی یورپ میں نیٹو فوجیوں کی موجودگی بلا جواز اور اشتعال انگیز ہے۔
ان فوجی مشقوں میں کیا ہو گا ؟
روس کے وزیر دفاع سرگئی شوگو کا کہنا ہے کہ 11 سے 15 ستمبر تک جاری رہنے والی ان مشقوں میں 36,000 ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور 1,000 جنگی جہاز حصہ لیں گے۔ سرگئی شوگو نے سنہ 1981 میں اس وقت کے سویت یونین کی مشقوں کا حوالے دیتے ہوئے کہا ’ کچھ معاملات میں زیپڈ 81 کے حلیے کو دہرایا جائے گا تاہم دیگر معاملات میں یہ مشقیں بڑی سطح پر کی جائیں گی۔ دوسری جانب کریملین کے ترجمان دیمتری پیسکو نے ان مشقوں کو ’موجودہ بین الاقوامی حالات‘ میں حق بجانب قرار دیا ہے جو اکثر ہمارے ملک کی جانب جارحانہ اور غیر دوستانہ ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان فوجی مشقوں میں چینی دستوں کی شمولیت ظاہر کرتی ہے کہ روس اور بیجنگ تمام شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ دیمتری پیسکو کے مطابق ان مشقوں میں چھاتہ بردار اور شمالی بحریہ فورسز بھی حصہ لیں گی۔
کریملین کے ترجمان نے کہا کہ ’ووستک 2018‘ میں اتنی تعداد میں فوج تعینات کی گئی ہے جتنی تعداد میں دوسری جنگ عظیم کی دو بڑی لڑائیوں میں کی گئی تھی۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن اپنے فوج کے لیے جدید اسلحہ خرید رہے ہیں جن میں میزائل بھی شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ روس کی فوج کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔
نیٹو نے کیا کہا؟
نیٹو کے ترجمان ڈیلان وائٹ کا کہنا ہے کہ نیٹو کو ’ووستک 2018‘ نامی جنگی مشقوں کے بارے میں مئی میں بریف کیا گیا تھا اور وہ ان مشقوں کو مانیٹر کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کی تنظیم روس کی اس پیشکش پر غور کر رہی ہے جس میں ماسکو میں موجود نیٹو کے فوجی اٹیچیز کو یہ مشقیں دیکھنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ’تمام ممالک کو اپنی افواج کو مسلح کرنے کا حق حاصل ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ شفاف اور متوازن انداز میں کیا جائے‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
پاک، ترک اور ایرانی خطے میں امریکی کھیل
امریکہ جو پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک کی سیاست اور اندرونی معاملات میں گہری دلچسپی لیتا رہا ہے اب ان ممالک سے دوری اختیار کرنے کیلئے مختلف طریقہ کار استعمال کر رہا ہے۔ ایران کے ساتھ تو امریکہ کے تعلقات 1989ء کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئے تھے جو آج تک بحال نہ ہو سکے۔ اگرچہ اوباما دور میں فائیو پلس ون اور ایران کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے سے ایران نے کچھ حد تک سکھ کا سانس لیا تھا صدر ٹرمپ نے سمجھوتے کو ردی کی ٹوکری کی زینت بناتے ہوئے ایران پر ایک بار پھر نہ صرف خود پابندیاں عائد کر دیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ان پابندیوں پر عمل درآمد کروانے کیلئے دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی استوار ہو گئے تھے اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان جنہیں سویت یونین کے دورے کی دعوت دی گئی تھی، نے امریکہ کے دورے کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بنانے کی راہ ہموار کر دی اور اس کے بعد پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے اور انیس سو چون میں پاکستان نے امریکہ کے ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر انیس سو پچپن میں بغداد پیکٹ میں شرکت اختیار کر لی جس میں عراق، ایران، ترکی جیسے اسلامی ممالک بھی شامل تھے۔
اس معاہدے کا اصل محرک امریکہ تھا جو بعد میں 1959ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔ 1958ء میں جنرل کریم قاسم نے عراق میں قائم بادشاہت کا تختہ الُٹ دیا اور 1959ء میں حکومتِ عراق نے بغداد پیکٹ سے دست برداری کا اعلان کر دیا جس پر اسے ’’سینٹرل ٹریٹی اورگنائزیشن (سینٹو)‘‘ کا نام دے دیا گیا اور اس ادارے کو ترکی منتقل کر دیا گیا۔ یہ ادارہ جو ابتدا میں اراکین کے اجتماعی دفاع کیلئے قائم کیا گیا تھا، فوجی اتحاد سے بڑھ کر رفتہ رفتہ معاشی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا ذریعہ بنتا گیا۔ سینٹو کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ جبکہ بھارت نے سوویت یونین کے پُرجوش اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے غیروابستہ تحریک (NAM) کے پلیٹ فارم سے سینٹو (اور سیٹو) کی کھل کر مخالفت کی۔
جولائی 1964ء میں امریکہ ہی کے اصرار پرایران، پاکستان اور ترکی جو دنیا سے متعلق ایک جیسا موقف رکھتے تھے پر مشتمل علاقائی تعاون و ترقی تنظیم (RCD) کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد خطے میں سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کا فروغ تھا۔ اقتصادی، سیاسی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ابتداً تجارتی سرگرمیوں کی رفتار سست رہی۔ تجارت کا مجموعی حجم ارکان کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فی صد تک پہنچ سکا۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے آر سی ڈی سے علیحدگی اختیار کر لی اور یہ فورم تحلیل ہو گیا جو بعد میں جنوری 1985ء میں پاکستان، ایران اور ترکی ہی کی کوششوں کے نتیجے میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے نام سے ابھر کر سامنے آیا اور 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تاہم ابھی تک یہ ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتا ہے تاہم اقتصادی تعاون تنظیم میں ایک مضبوط سیاسی اتحاد بننے کی بھرپور صلاحیت ہے اور شاید موجودہ حالات میں جب امریکہ ترکی اور پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے اس تنظیم کے ذریعے مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو امریکہ ہمیشہ ہی مشکل حالات میں پاکستان کی جانب دیکھتا رہا ہے اگر چین سے تعلقات قائم کرنے تھے تو پاکستان ہی نے امریکہ اور چین کے درمیان حالات بہتر بنانے اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا بندو بست کیا۔ صدر نکسن اور انکے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے زمانہ میں امریکی انتظامیہ کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات تھے ستر کی دہائی کے دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن امریکہ نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور سوویت یونین کے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے بعد امریکہ نے فوری طور پر پاکستان کی امداد بحال کی۔ انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے ترکی کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات بڑے قریبی رہے ہیں اور امریکہ نے ترک فوج کی تنظیم اور اسے مضبوط بنانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر 1974 کی قبرص جنگ میں پابندیاں عائد کی تھیں حالانکہ ترکی اس وقت سینٹو اور نیٹو کا رکن تھا۔ ترکی کے ساتھ صدر اوباما کے آخری دور ہی میں تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے اور خاص طور پر 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور پھر صدر ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب صدر ٹرمپ نے صدر ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکی پادری انڈریو برنسن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی دھمکی دی اور ترکی کے انکار پر امریکہ نے ترکی پر فولاد اور ایلومینیم پر لگا ئے جانے والے ٹیکس پر پچاس فیصد اضافہ کر کے ترک اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
دیکھا جائے تو یہ ترکی پاکستان اور ایران کیلئے بہترین موقع ہے کہ یہ تینوں ممالک ایک بار پھر آر سی ڈی جو کہ ایکو کا روپ اختیار کر چکی ہے کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں روس اور چین کیساتھ مل کر اپنے مستقبل کی راہ متعین کریں تاکہ امریکہ ترکی اور پاکستان کو انکی ضرورت کے وقت بلیک میل نہ کر سکے۔ ترکی کے روس کیساتھ بڑے گہرے تعلقات قائم ہو چکے ہیں جبکہ چین پاکستان کا سب سے قابلِ بھروسہ ملک ہے اور یہی وقت ہے کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنی من مانی کارروائیوں سے روکا جائے تاکہ خطے میں امریکہ نے اسلامی ممالک کیساتھ طویل عرصے سے کھیل کھیلنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کو لگام دی جا سکے اور خطے کے ممالک کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار حاصل ہو۔
ترکی اسوقت دفاعی پروڈکٹس میں دنیا کے گنے چنے ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے اور وہ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کیساتھ مل کر ایف 35 طیاروں کی تیاری کے منصوبوں میں شریک ہے لیکن امریکہ کو ترکی کے روس سے ایس 400 میزائلوں کی خریداری پر سخت اعتراض ہے اور اس نے ترکی سے روس کیساتھ اس ڈیل کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان چین کیساتھ مل کر ایف 17 تھنڈر طیارے تیار کر رہا ہے جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ یہ تمام علاقائی ممالک دفاعی سازو سامان خود تیار کرتے ہوئے امریکہ کے کھیل کو ختم کریں اور ساتھ مل کر خطے کو ایک نیا رنگ و روپ عطا کریں۔
ڈاکٹر فر قان حمید
↧
پاکستان میں نیا ڈیم ۔ اہم پیش رفت
پانی خدا کا انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ جبکہ وطن عزیز پانی کے ایسے شدید بحران کا شکار ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہ کیا اور نہ ہی اس بحران پر قابو پانے کے لئے کوئی مؤثر منصوبہ بندی کی، جبکہ عالمی آبادی میں بے تحاشا اضافےکی وجہ سے قدرتی وسائل دبائو کا شکار ہیں اور پانی کی ضروریات پوری کرنا بنی نوع انسان کے لئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے مختلف ممالک کوشاں ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر بھی ان میں سے ایک ہے۔
ڈیمز بارش کے موسم میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ سیلاب سے بچائو کے لئے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ڈیموں میں ذخیرہ کیا گیا پانی خشک سالی کے دوران زراعت اور پینے کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ یہ ڈیم صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان سے سستی اور ماحول دوست بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو پانی کی شدید قلت اور توانائی کے بحران کا شکار ہیں اس لئے پاکستان میں ڈیمز کی اہمیت دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لیکن سیاسی، صوبائی اختلافات، بعض تکنیکی مسائل اور مسئلے کی سنگینی کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر ایک خواب بن گئی ہے۔
ایسے عالم میں، پاکستان کو بڑی تعداد میں چھوٹے اور بڑے آبی ذخائر کی ضرورت ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے جس کام کی طرف قوم کی رہنمائی کی اس میں پاکستانی عوام کی بھرپور دلچسپی اس بات کی علامت ہے کہ قوم اس ڈیم کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتی ہے۔ اس باب میں یہ اطلاعات حوصلہ افزا ہیں کہ مختصر مدت میں عوام کی طرف سے خاصی بڑی رقم جمع کی جا چکی ہے۔ تاہم منصوبے کی نوعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ قوم کے تمام طبقے اس باب میں مزید متحرک ہوں تاکہ نئے ڈیم کی تعمیر کی صورت میں ایک بڑا آبی ذخیرہ میسر آجائے۔ مقامی سطح پر چھوٹے کم خرچ ڈیموں کی افادیت بھی بہرطور نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
بھارت میں 1 ارب سے زائد لوگ غربت کا شکار ہیں
بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں زیادہ لوگ غربت کا شکار ہیں، عالمی بینک نے رپورٹ جاری کر دی۔ سال 2017 میں دنیا کی آبادی پر عالمی بینک کی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے 1 ارب 14 کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325 روپے سے بھی کم ہے۔
غربت کی اس فہرست میں نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے جہاں 92 فیصد لوگوں کی یومیہ آمدنی ساڑھے پانچ ڈالر سے کم ہے۔ دوسرے نمبر پر بھارت تیسرے پر ایتھوپیا، چوتھے پر بنگلہ دیش اور پانچویں پر پاکستان ہے جہاں 79 فیصد عوام کی یومیہ آمدنی ساڑھے پانچ ڈالر سے بھی کم ہے۔
↧
فیس بک نے مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث میانمار آرمی چیف کا اکاؤنٹ بند کر دیا
فیس بک انتظامیہ نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر میانمار کے آرمی چیف سمیت دیگر اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے فیس بک اکاؤنٹس کو بند کر دیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے تفتیشی کمیشن کی جانب سے میانمار کے آرمی چیف اور 5 جنرلوں کے سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر ٹرائل کے مطالبے کے بعد فیس بک نے میانمار فوج کے آرمی چیف سمیت اعلیٰ فوجی افسران اور سیاسی رہنماؤں کے 18 فیس بک اکاؤنٹس اور 52 فیس بک پیجز کو ختم کر دیا ہے جب کہ ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بھی ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔
فیس بک انتظامیہ کی جانب سے پہلی مرتبہ کسی ملک کے اعلیٰ فوجی افسران اور سیاسی رہنماؤں کے اکاؤنٹس کو بند کیا گیا ہے، ان افراد پر نئے اکاؤنٹس بنانے پر بھی پابندی عائد ہو گی، فیس بک نے یہ اقدام جنگی جرائم سے ناپسندیدگی اور نفرت آمیز مواد کے فروغ کو روکنے کی اپنی پالیسی کے تحت اُٹھایا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز اقوامتحدہ کے تفتیشی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں میانمار کے آرمی چیف سمیت اعلیٰ فوجی افسران کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ان اہلکاروں کے عالمی ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔
↧
↧
امریکی امداد نہ ملنے کے باوجود فلسطینی اسکول کھل گئے
امریکا کی جانب سے امداد میں کٹوتی کے باوجود فلسطین میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چلنے والے اسکول موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد کھول دیئے گئے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیکڑوں بچے یونیفارم پہنے اسکول پہنچ گئے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی فار فلسطین پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے میں 711 اسکول قائم ہیں جن میں مجموعی طور پر 5 لاکھ 26 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ علاوہ ازیں لبنان، اردن اور شام میں موجود اسکول اگلے چند دنوں میں تدریسی کے لیے کھل جائیں گے۔ واضح رہے کہ امریکا نے فلسطین کے لیے امدادی رقم میں 30 کروڑ ڈالر کی تخفیف کر دی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے چیف اینٹونیو گوٹریس نے خدشہ ظاہر کیا کہ امریکی امداد میں کمی کے باعث اسکولوں میں تدریسی عمل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امداد کی فراہمی میں مزید تاخیر ہوئی تو اگلے ماہ تک تمام اسکولوں کو بند کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارے پاس اتنی رقم موجود نہیں کہ ستمبر تک اسکولوں میں تدریسی عمل جاری رکھ سکیں‘۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’نئی فنڈنگ نہ ملنے پر انہیں اپنی تمام طبی اور تدریسی خدمات معطل کرنا پڑے گی‘۔ خیال رہے کہ امریکا 2017 میں یو این آر ڈبلیو اے کا سب سے بڑا ڈونر تھا جس کی رقم 36 کروڑ ڈالر تھی۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد فلسطین کے لیے فنڈنگ صرف 6 کروڑ ڈالر تک محدود ہو گئی۔ خیال رہے کہ 15 مئی 1948 کو اسرائیل کے وجود میں آنے پر جنگ کے نتیجے میں اس دن 7 لاکھ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا۔ امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے پر فلسطینیوں نے امریکی انتظامیہ کا بائیکاٹ کر دیا. ساتھ ہی امریکا نے امداد کے ذریعے فلسطینی حکومت پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
↧
چین: اوغروں کو کیمپوں میں رکھنے پر اقوام متحدہ کی تشویش
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انھیں چین میں اوغر برادری کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر تشویش ہے اور انھوں نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کا کہہ کر جنھیں گرفتار کیا گیا ہے انھیں رہا کیا جائے۔ یہ بیان اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اس وقت جاری کیا ہے جب انھیں ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ سنکیانگ صوبے میں مسلمان اوغروں کو ’ری ایجوکیشن کیمپوں‘ میں رکھا گیا ہے۔ چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ مذہبی انتہا پسندوں کو ’ری ایجوکیشن‘ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ چین اپنے صوبے سنکیانگ میں امن میں خلل کے لیے علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا کہنا تھا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بیجنگ نے ’اوغر خطے کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کر دیا ہے جو کہ ایک انٹرنمنٹ کیمپ معلوم ہوتا ہے۔‘
چین نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ اوغر برادری کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ تاہم چین نے ایک نایاب اعترافی بیان میں کہا کہ ’جو لوگ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے گمراہ ہیں ان کی ری ایجوکیشن میں مدد کی جائے گی۔‘ سنکیانگ صوبے میں کئی سالوں نے وقتاً فوقتاً سورش جاری رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اپنا مشاہدہ ظاہر کرتے ہوئے چینی قوانین میں ’دہشتگردی کی بہت وسیع تعریف، انتہا پسندی کے مبہم حوالے، اور علیحدگی کی غیر واضح تعریف‘ پر تنقید کی۔
چین پر الزام کیا ہے؟
ہیومن رائٹس تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اقوام متحدہ کو دستاویزات جمع کروائے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لیا گیا ہے اور قیدیوں کو چینی صدر شی جن پنگ کے نام پر بیعت لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ادھر ورلڈ اوغر کانگریس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قیدیوں کو فردِ جرم کے بغیر رکھا گیا ہے اور انھیں کمیونسٹ پارٹی کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ رپورٹس میں کھانے کی کمی اور تشدد کی اطلاعات بھی دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزامات لگایا جا رہا ہے کہ قیدیوں کو اپنے وکیل رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کا بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب چین میں مختلف علاقوں میں مذہبی تناؤ بڑھ رہا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
روہنگیا بحران : ’میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا‘
اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے سبکدوش ہونے والے سربراہ نے کہا ہے کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف پرتشدد مہم چلانے پر مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ زید رعد الحسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے نوبیل انعام حاصل کرنے والی سوچی نے وہاں بہانے بنائے جہاں مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج پر قتلِ عام کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ میانمار نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جاتی۔
بودھ اکثریتی ملک کی فوج پر منظم نسل کشی کا الزام ہے۔ میانمار کی فوج کہہ چکی ہے کہ اس نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک طویل عرصے سے جمہوریت کے لیے مہم چلانے والی آنگ سان سوچی اس تشدد کو روکنے میں ناکام رہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زید رعد الحسین کا کہنا تھا کہ ’وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔ وہ خاموش رہ سکتی تھیں یا اس سے بھی بہتر کہ وہ مستفی ہو جاتیں۔‘ ’انہیں برما کی فوج کے ترجمان کے طور پر بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب درحقیقت جو ہو رہا ہے اس کی محض معمولی غلط معلومات ہیں۔ اور یہ کہ یہ سب من گھڑت ہے۔‘ ’وہ یہ کہہ سکتی تھی کہ میں ایک نارمل رہنما بننے کے لیے تیار ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں۔‘ نوبیل انعام کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی کو سنہ 1991 میں دیا کے امن کا نوبل انعام واپس نہیں لیا جا سکتا۔
سوچی نے کہا کیا تھا؟
ایسے میں جب یہ واضح تھا کہ 73 سالہ رہنما فوج کو کنٹرول نہیں کر سکتی ان پر فوج کے مبینہ مظالم کی مذمت کے لیے دباؤ تھا۔ ایک دہائی تک انسانی حقوق کے برادری میں ان کی بطور ہیروئین پذیرائی ہوتی رہی بطور خاص جب وہ 16 سال تک فوجی آمریت کے دنوں میں گھر پر نظر بند رہیں۔ سنہ 2012 میں نسلی فسادات شروع ہوئے تو اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آنگ سان سوچی نے کہا ’مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تو بودھوں کو بھی تشدد کا شکار کیا گیا۔ یہ خوف ہی ہے جس نے مشکلات پیدا کی ہیں۔‘ ’یہ سب حکومت کا کام ہے کہ وہ تشدد ختم کرے۔ اور یہ سب ہماری مشکلات اور آمر حکومت کی وجہ سے ہے۔‘ سنہ 2015 میں ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کی انتخابات میں بڑی جیت کے بعد وہ ملک کی رہنما بنیں لیکن اس کے باوجود روہنگیا بحران جاری رہا۔
اس وقت سوچی کے اس پر بیان نے یہ تاثر دیا کہ علاقے میں تشدد کی شدت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے۔ آخری بار اپریل سنہ 2017 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میرا نہیں خیال کہ وہاں نسلی کشی ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے نسل کشی سخت لفظ ہے۔‘ اگست سنہ 2017 میں تشدد شروع ہونے کے بعد آنگ سان سوچی نے عوامی سطح پر اس حوالے سے بات کرنے کے کئی مواقع ضائع کیے جن میں گذشتہ برس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی تھا۔ جس کے بعد انھوں نے کہا کہ اس بحران کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور یہ ’اصل صورتحال سے متعلق بہت کم اور غلط معلومات ہیں۔‘ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تنازع کے باعث لوگوں کی مشکلات کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میانمار ریاست میں موجود تمام برادیوں کے لیے مستقل حل کے لیے پر عزم ہے۔‘ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے باعث اگست 2017 سے اب تک سات لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش جا چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد مارے گئے۔
↧