Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

امریکی دھونس اور دھمکی کا توڑ کیا ہے ؟

$
0
0

1970ء کے اواخر میں چینی رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ نے کہا تھا کہ ’ترقی واحد سچائی ہے۔ اگر ہم ترقی نہیں کریں گے، تو ہمیں دھمکایا جاتا رہے گا۔‘ آج چین کو کوئی نہیں دھمکا سکتا۔ مگر پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت تمام باتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی قومی عزتِ نفس، کرپشن اور خون نچوڑ دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی خواہش کی ترجمان ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے بلکہ اس کا خزانہ خالی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے نئی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ترقیاتی میدان میں کارکردگی دکھانا ہو گا۔

ترقی کا چیلنج بوسیدہ سیاسی و سماجی نظام کی وجہ سے مشکل ہونے کے علاوہ اس لیے بھی مشکل ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کی آنے والی حکومت کو معاندانہ بیرونی ماحول کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے اتفاقِ رائے بڑھ رہا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کو روکنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کو ایک اور بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ بدقسمتی سے یہ حاصل کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف میں سابق امریکی نمائندے مارک سوبل نے اپنے ایک بلاگ میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے متوقع پروگرام کے لیے کڑی شرائط کی حمایت کی ہے جس میں روپے کی قدر میں گراوٹ، بلند شرحِ سود، زیادہ ٹیکس محصولات اور انتظامی اصلاحات (بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، زراعت پر ٹیکس، ریاستی اداروں کی نجکاری اور دفاعی اخراجات میں کمی) شامل ہیں۔ یاد رکھیں کہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم میں ان میں سے کئی کمر کسنے والے اقدامات پہلے ہی شامل ہیں۔

مگر سوبل نے اضافہ کیا کہ ’آئی ایم ایف کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے وسائل غیر مستحکم چینی قرضوں سے بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ سی پیک کے تمام قرضوں سے متعلق جامع ڈیٹا، بشمول اس کی شرائط، اس کے میچورٹی کے دورانیے اور اس میں شامل فریقین کی تفصیلات، فنڈ کی انگلیوں پر ہونا چاہیے۔‘ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی اس مطالبے کو دہرایا۔ امریکی چینل این بی سی کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئی ایم ایف کے ٹیکس ڈالرز اور امریکی ڈالرز کو چینی بانڈ ہولڈر اور خود چین کو بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔‘ اس بیان میں چھپی ہوئی بدنیتی پر پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ کی وضاحت نے پانی پھیر دیا کہ سی پیک قرضوں پر اوسط شرحِ سود 3 فیصد ہے۔

زیادہ تر قرضوں کا 5 سالہ گریس پیریڈ ہے اور اگلے 5 سالوں میں چین کو قرضوں اور نفعے کی ادائیگی ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہو گی جو کہ مغرب کو کی جانے والی قرض ادائیگیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ مطالبہ کہ پاکستان (صرف) چینی قرضوں کو ری اسٹرکچر کرے یا پھر آئی ایم ایف سی پیک منصوبوں کی شرائط اور پیش رفت کو مانیٹر کرے، واضح طور پر پاکستان اور چین دونوں کے لیے ناقابلِ قبول ہو گا۔ پاکستان ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف پلان کے بغیر ہی ٹھیک ہو گا۔ امریکی 'دھمکیوں'کا مقصد اب افغانستان میں پاکستانی تعاون مزید حاصل کرنا نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بنیادی طور پر پاکستان اور عمران خان کے پیش کردہ مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ افغان تنازع صرف امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مبیّنہ طور پر انہوں نے سہولت کاری کی ہے۔ امریکا نے تو اب تک سرکاری طور پر ان مذاکرات کی بھی تصدیق نہیں کی ہے، پاکستانی حکام کی سہولت کاری تو دور کی بات ہے۔ اس کے بجائے امریکی بیانات طالبان کی بڑھتی ہوئی دراندازی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے رہتے ہیں۔ اگر طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات مشکلات کا شکار ہو جائیں تو امریکا پاکستان کی مدد طلب کرنا جاری رکھ سکتا ہے۔ مگر اب جبکہ اس نے طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کر لیا ہے تو امریکا پاکستان کی مدد کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ امریکی رپورٹس کے مطابق امریکا اور طالبان دونوں ہی شراکتِ اقتدار کے فارمولے پر لچک دار ہیں اور طالبان افغانستان میں کچھ امریکی فوجیوں کے موجود رہنے پر غور کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

خطے میں اب امریکی مفادات یہ ہیں:
چین اور روس کو اسٹریٹجک طور پر محدود کرنا،
ہندوستانی غلبے والے جنوبی ایشیاء کی تیاری اور
ایرانی اثر و رسوخ کو ریورس کرنا۔

آئی ایم ایف پیکج پر پومپیو کا مؤقف پاکستان کی مالی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر سی پیک پر عملدرآمد محدود کرنے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو نقصان پہنچانے کی امریکی خواہش کی علامت ہے۔ پاکستان کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ چینی مالی امداد کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ ہو۔ چین اب تک پاکستان کو ادائیگیوں میں توازن میں مدد دینے میں سخی رہا ہے اور امکان ہے کہ یہ مستقبل میں بھی مددگار رہے گا۔ چین اس کے علاوہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔

ہندوستان اور امریکا کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سی پیک پر عملدرآمد کو تیز تر بنایا جا سکتا ہے اور اس کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے اس میں ملازمتیں پیدا کرنے، سماجی اور انسانی ترقی اور زرعی اور صنعتی ترقی لانے کی پی ٹی آئی کی ترجیحات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ جن خصوصی اکنامک زونز کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان کے حصے کے طور پر نہایت غور و خوض سے منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے تاکہ غیر مسابقتی صنعتوں کو چین سے پاکستان (بجائے دوسرے ایشیائی ممالک کے) لایا جائے۔ گوادر کے اصل وژن، یعنی اسے ایک بڑے پیٹرو کیمیکل پروسیسنگ اور جہاز رانی کے مرکز میں بدلنے کو بھی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کے اسٹریٹجک رخ نے چین کے ساتھ عالمی اور جامع انداز میں مقابلہ کرنے کے امریکی فیصلے کی وجہ سے مزید اہمیت اختیار کر لی ہے۔ امریکا واضح طور پر پاکستان کو چینی شراکت دار تصور کرتا ہے اور اب یہ اسے دشمن تصور کرنے لگا ہے۔ امریکا چین کا سامنا کرنے کے لیے ہندوستان کو مسلح کر رہا ہے جبکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا۔ اس کا مقصد ہے کہ یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو ختم کر دے۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے ظلم و ستم کا بھی حامی ہے۔
پاکستان کے خلاف ہندوستانی دھمکیاں اور دباؤ، بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں 'دہشتگردی'کے الزامات میں اور شدت آئے گی جب مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو قوم پرستی کی بناء پر 2019ء میں دوبارہ منتخب ہونا چاہے گی۔ اگر پاکستان ہندوستانی غلبے کو تسلیم کر لیتا ہے تو ہندوستان کو امریکا سے ملنے والی عسکری صلاحیتیں پاکستان کے بجائے مکمل طور پر چین کے خلاف تعینات ہو جائیں گی۔

چنانچہ اپنے ایک جیسے اسٹریٹجک مقاصد کی بناء پر پاکستان اور چین کے تعلقات میں مزید بڑھاوا آنا چاہیے، بجائے یہ کہ 'مارکیٹ اصولوں'میں الجھ کر رہ جائے۔ یہ یقین دلانے کے علاوہ کہ پاکستان جامع بااعتماد دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے، چین کی پاکستان کے خلاف ہندوستانی دھمکیوں اور امریکی دباؤ کی سخت الفاظ میں مذمت جنوبی ایشیاء میں امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ نئے وزیرِ اعظم کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ دفتر سنبھالنے کے فوراً بعد چین کا دورہ کریں تاکہ ایک نئی اور مضبوط تر اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ظاہر ہے کہ چین کی حمایت کے ساتھ ساتھ 'اسلامی فلاحی ریاست'بنانے کے لیے درکار وسائل اکھٹا کرنے کی ایک قومی مہم بھی ہونی چاہیے۔ پاکستان امریکی دھمکیوں کی مزاحمت اور امریکا کے ساتھ باہمی تکریم و فائدے کا تعلق صرف تب قائم کر پائے گا جب یہ اقتصادی اور عسکری اعتبار سے مضبوط ہو گا۔

منیر اکرم

یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 اگست 2018 کو شائع ہوا۔
 


ازمیر : ترکی کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی کا شہر

$
0
0

ازمیر، استنبول اور انقرہ کے بعد ترکی کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی کا شہر ہے۔ یہ استنبول کے بعد دوسری بڑی بندرگاہ ہے۔ شہر کی آبادی 42 لاکھ سے زائد ہے۔ یہ شہر چار ہزار سال سے آباد ہے۔ یہ بحیرہ ایجیئن میں خلیج ازمیر کے ساحلوں پر واقع ہے۔ یہ صوبہ ازمیر کا دار الحکومت ہے۔ شہر 9 شہری اضلاع میں تقسیم ہے۔ اس شہر کو یونانی سمرنا کہتے تھے جبکہ ترک اسے ازمیر کہتے ہیں۔ یہ شہر طویل عرصے تک رومی سلطنت کا حصہ رہا اور رومی سلطنت کی تقسیم کے بعد یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ عثمانی سلطان بایزید اول نے 1389ء میں اس شہر کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ تاہم بایزید کی تیموری سلطان امیر تیمور کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ہی شہر دوبارہ مقامی ترک قبائل کو مل گیا۔ 1425ء میں سلطان مراد ثانی نے سمرنا کو دوبارہ فتح کیا۔ 

سقوط غرناطہ کے بعد اسپین سے نکالے گئے یہودیوں کی اکثریت بھی اسی شہر میں آئی۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فاتحین نے اناطولیہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ لیا اور معاہدہ سیورے کے تحت ترکی کا مغربی حصہ بشمول ازمیر یونان کے حصے میں آیا۔ 15 مئی 1919ء کو یونانی افواج نے ازمیر پر قبضہ کر لیا لیکن وسط اناطولیہ کی جانب پیش قدمی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی اور 9 ستمبر 1922ء کو ترک افواج نے ازمیر کو دوبارہ حاصل کر لیا۔ جس کے ساتھ ہی یونان، ترک جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور معاہدہ لوزان کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان آبادی کی منتقلی بھی عمل میں آئی۔ ازمیر ’’ایجیئن کا موتی‘‘ کہلاتا ہے۔

محمد شاہد


 

شام کی خانہ جنگی سے ہونے والی تباہی چار سو بلین ڈالر کے قریب

$
0
0

شام کی سات سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباﹰ چار سو بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسانی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں شامی مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے گزشتہ سات برسوں کے دوران قریب چار سو بلین ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وسیع پیمانے پر ہونے والی اس تباہی کے تدارک کے لیے اب کئی سال درکار ہوں گے۔

یہ اعداد و شمار شام کے ہمسایہ ملک لبنان میں ہوئی ایک عالمی کانفرنس کے موقع پر جاری کیے گئے ہیں۔ اس دو روزہ کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا ESCWA نے کیا، جس میں پچاس کے قریب شامی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی۔ اس اجتماع کا مقصد شام میں ہونے والی مادی تباہی کی مالیت کا اندازہ لگانا تھا۔ اس کانفرنس میں شریک ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کے ماہرین نے بتایا کہ خانہ جنگی کی وجہ سے شام کو تین سو اٹھاسی بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر اس تباہی کو روکنے کی خاطر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید نقصان یقینی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تخمینے میں ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق شامی جنگ کی وجہ سے اب تک تقریبا ساڑھے تین لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ شام کی نصف آبادی مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ لوگ ملک میں ہی اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا انہوں نے دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی خاطر ہجرت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے بھی شام میں اقتصادی مشکلات دوچند ہوئی ہیں۔
شام میں مالی اور اقتصادی نقصان کے بارے میں معلومات پر مشتمل اقوام متحدہ کے ادارے ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کی مکمل جامع رپورٹ ستمبر میں جاری کی جائے گی۔ شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور ملیشیا گروپوں نے حالیہ برسوں کے دوران جہادی گروہوں کے خلاف کامیاب پیشقدمی کی ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار پندرہ میں روسی مداخلت کی وجہ سے شامی فورسز کو کافی زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ شامی خانہ جنگی میں روس کو شامی حکومت کا ایک اہم اتحادی قرار دیا جاتا ہے۔

ع ب / ع ا / م م / خبر رساں ادارے

بشکریہ DW اردو
 

امریکا نے پاکستان کے لیے فوجی امداد میں کمی کر دی

$
0
0

امریکی سینیٹ نے 716 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی پالیسی بجٹ کی منظوری دے دی ہے جس میں پاکستان کے لیے امداد میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سینیٹ نے اجلاس میں نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ نامی یہ بِل 10 کے مقابلے میں 87 ووٹوں سے منظور کیا۔ ہر سال منظور کیے جانے والے اس بِل کے ذریعے کانگریس امریکی حکومت کے دفاعی اخراجات کے ساتھ ساتھ دفاع سے متعلق کئی اہم پالیسی امور کی بھی منظوری دیتی ہے۔ ایوانِ نمائندگان نے پہلے ہی یہ بِل گزشتہ ہفتے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا تھا جسے اب وائٹ ہاؤس بھیجا جائے گا جہاں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا۔ بِل میں امریکی فوج کے لیے 77 نئے ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے ساڑھے سات ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ طیارے امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن تیار کرے گی۔

بِل میں پاکستان کے لیے فوجی امداد کی مد میں 15 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو اطلاعات کے مطابق پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کی مد میں دیے جائیں گے۔ یہ رقم ماضی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو سیکیورٹی اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے جو 75 کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ سال امریکا نے اپنے دفاعی بجٹ میں پاکستان کے لیے ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں 70 کروڑ ڈالر مختص کیے تھے لیکن حالیہ بِل میں امریکی امداد کو پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور لشکرِ طیبہ کے خلاف کارروائی سے مشروط کرنے کی شق ختم کر دی گئی ہے جو چند سال قبل متعارف کرائی گئی تھی۔

منظور کیے جانے والے بِل میں کوئی ایسی شق بھی شامل نہیں کہ امریکا پاکستان کو یہ امداد انسدادِ دہشت گردی کے لیے کی جانے والی اس کی کارروائیوں کے معاوضے کے طور پر ادا کرے گا۔ بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ امداد کی فراہمی کے لیے ماضی میں عائد کی جانے والی ان شرائط کے خاتمے سے امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) اپنی اس صلاحیت سے محروم ہو گیا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور اپنی سرزمین میں سرگرم دیگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا۔ واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر افغانستان میں شدت پسندی کے خاتمے میں مدد نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کی تمام دفاعی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد سے پینٹاگون کی جانب سے پاکستان کو ہر سال کولیشن سپورٹ فنڈ کی مدد میں دی جانے والی کروڑوں ڈالرز کی امداد معطل ہے۔

 

کیا غزہ پر ایک نئی جنگ منڈلا رہی ہے؟

$
0
0

اسرائیل اور حماس کے درمیان تازہ جھڑپوں نے ایک مرتبہ پھر ایک نئی جنگ کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ گزشتہ شب کی اسرائیلی بمباری میں ایک حاملہ خاتون، ایک بچہ اور حماس کا ایک جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نے حماس کے تقریبا ایک سو پچاس فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور ایسا حماس کی طرف سے اسرائیل میں ایک سو اسی سے زائد راکٹ فائر کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ان حملوں میں پانچ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے مطابق حماس کے حملوں میں ان کے سات شہری زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوجی ترجمان جوناتھن کونریکوس نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جس میں ایک ماں اور اس کا اٹھارہ ماہ کا بچہ ہلاک ہو گئے ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق حماس اور اسرائیل کے مابین یہ تازہ جھڑپیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں، جب اقوام متحدہ اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے مابین مستقل جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ ایک فلسطینی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ اب بھی حتمی جنگ بندی کے امکانات روشن ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ کے تمام جنگجو گروپوں نے آج دوپہر سے اسرائیل کے خلاف تمام راکٹ حملے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ایک عہدیدار نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کر دی ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ جھڑپیں بالکل ماضی کی طرح ہی ہیں۔ حماس کے جنگجوؤں کا کوئی بھی راکٹ اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکا اور دوسری جانب اسرائیل نے بھی ’صرف حماس کے ٹھکانوں‘ کو ہی نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے انتہائی قریبی ساتھی اور کابینہ کے رکن یوول شٹائنٹز نے اسرائیل ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اسرائیل جنگ نہیں چاہتا لیکن حماس کو رعایت نہیں دی جائے گی۔‘‘ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے مندوب نیکولے میلادینوو کا گزشتہ رات ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں کہنا تھا، ’’غزہ اور اسرائیل کے مابین حالیہ تشدد میرے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا ادراہ مصر کے ساتھ مل کر ’بے مثال کوششیں‘ کر رہا ہے تاکہ کوئی سنجیدہ مسئلہ نہ پیدا ہو۔ لیکن ساتھ ہی ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صورتحال تیزی سے بگڑ بھی سکتی ہے اور اس کے تمام لوگوں کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔

بشکریہ DW اردو
 

برقعے سے متعلق متنازعہ بیان : بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی

$
0
0

برطانوی میڈیا کے مطابق سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا وہ پارٹی ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہیں برقعہ پوش مسلم خواتین سے متعلق ایک متنازعہ بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایوننگ سٹینڈرڈ نیوز پیپر کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانیہ کی حکمران قدامت پسند سیاسی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کرے گی۔ جانسن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں برقعہ پہننے والی مسلم خواتین کے بارے میں متنازعہ الفاظ کہے تھے۔ اس تناظر میں پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا اس بیان سے جانسن نے پارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ تاہم اس مجوزہ تحقیقاتی عمل کے حوالے سے حکمران پارٹی کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

قبل ازیں برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا تھا کہ بورس جانسن کو اپنے اس بیان پر معافی مانگنا چاہیے تاہم جانسن نے اپنے ناقدین کی طرف سے تنقید کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ مے کے مطابق جانسن کے اس بیان نے ’واضح طور پر تکلیف پہنچائی ہے‘ اور وہ پارٹی چیئرمین برینڈن لوئیس سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس پر سابق وزیر خارجہ کو معافی مانگنا چاہیے۔ برطانوی وزیر اعظم مے نے کہا، ’’اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔‘‘ بورس جانسن نے ڈیلی ٹیلیگراف میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ ایسی خواتین جو اپنا پورا چہرہ چھپانے کی خاطر برقعہ پہنتی ہیں، وہ یا تو ’بینک لوٹنے والوں‘ کی طرح نظر آتی ہیں یا پھر کسی ’لیٹر باکس‘ کی طرح۔ ان کے اس بیان کو اسلاموفوبیا سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

تاہم اس سابق برطانوی وزیر نے، جو ماضی میں بھی اپنے بیانات کی وجہ سے کئی تنازعات کا باعث بن چکے ہیں، اپنے اس بیان کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ بریگزٹ پلان کے بارے میں وزیر اعظم ٹریزا مے سے اختلافات کے باعث وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہونے والے جانسن نے کہا ہے کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے کہ ان کے موقف پر حملہ کیا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مناسب نہیں کہ مشکل موضوعات پر بات کرنے سے منع کر دیا جائے‘۔
بورس جانسن نے مزید لکھا، ’’اگر ہم لبرل اقدار کے لیے آواز اٹھانے میں ناکام ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہا پسندوں اور رجعت پسندوں کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔‘‘ اس آرٹیکل میں جانسن نے کہا تھا کہ وہ مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کے خلاف ہیں لیکن ’یہ بھی مضحکہ خیز ہو گا کہ خواتین ایسے لباس میں گھومیں، جس میں وہ لیٹر باکس کی طرح دکھائی دیں‘۔ جانسن کے اس بیان پر انہیں برطانیہ بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

بشکریہ DW اردو


 

سن 2017 میں شام میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے

$
0
0

شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ایک سرکاری جریدے ’الوطن‘ کے مطابق اس جنگ زدہ ملک میں سن 2017ء میں 68 ہزار افراد جب کہ رواں برس سال اب تک 32 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جریدے کے سربراہ احمد رحال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ ہم نے گزشتہ برس 68 ہزار افراد اور اس سال 32 ہزار افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔‘‘ رحال نے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ وہ شام کے کس حصے میں ہلاک ہوئے تھے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا یہ افراد شام میں جاری جنگ کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے؟

شام میں کچھ سماجی کارکنان شامی حکومت پر جیل میں قیدیوں کی ہلاکت کو بھی جنگی حالات میں مر جانے والے افراد کی فہرست میں شامل کر دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ شام کی جیلوں میں ہزاروں شامی شہری قید ہیں۔ ان قیدیوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انہیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اپنے اہل خانہ سے ملنے دیا جاتا ہے۔ رحال کا کہنا ہے، جب بھی کسی سرکاری محکمے سے کوئی دستاویز آتا ہے جو کسی کی ہلاکت کی تصدیق کرتا ہے، اس میں یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ شخص لا پتہ تو نہیں ہے ۔‘‘

شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک نیٹ ورک نے حالیہ مہنیوں میں قریب 400 ایسے کیسز کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں جن کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا قیدی رشتہ دار جیل میں ہلاک ہو گیا ہے۔ ان چار سو افراد میں نو بچے بھی شامل ہیں۔ اس نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسی ہزار افراد کو جبری طور پر اٹھایا جا چکا ہے یعنی انہیں کسی حد تک لاپتہ یا گمشدہ افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں قائم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے شروع ہونے کے بعد سے اب ساتھ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، گزشتہ برس 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس تنظیم کے مطابق ان میں دس ہزار افراد عام شہری جب کہ سات ہزار افراد حکومت کے فوجی تھے۔ اس سال میں اب تک چودہ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں قریب پانچ ہزار عام شہری تھے۔
 

نیلسن منڈیلا جنھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا

$
0
0

نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918 میں پیدا ہوئے تھے، گزشتہ مہینے پوری دنیا میں ان کی صد سالہ جنم تقریبات منائی گئیں۔ استعماریت اور جبر کے خلاف ان تھک مزاحمت کرتے ہوئے منڈیلا نے تپش اور حبس زدہ ’’جزیرہ رابن‘‘ کی جس جیل کوٹھڑی میں اپنی زندگی کے 18 سال گزارے وہ اب کسی زیارت گاہ سے کم نہیں۔ یہاں آنے والوں کو حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر کٹھن حالات میں نیلسن منڈیلا نے اپنے عزم اور حوصلے کے بادبانوں پر جیون کی کشتی رواں دواں رکھی، یہاں تک کہ وہ دن آن پہنچے جب سفید فام اقوام بلکہ سارے عالم نے نسلی اور انسانی مساوات کے عالم گیر اصول کو تسلیم کر لیا۔ منڈیلا کی قید و بند کا دورانیہ کم و بیش 27 سال پر محیط ہے۔ 

انسانی حقوق کے علم بردار اسے ضمیر کا سب سے بڑا قیدی قرار دیتے ہیں۔ 1960 کی دہائی کے اولین برسوں کے سوا، جب سفید فام حکمرانوں کی بربریت نسل کشی کی حد تک بڑھ چکی تھی، نیلسن منڈیلا کی تمام جدوجہد عدم تشدد پر مبنی رہی۔ انہوں نے اپنی جنگ تحمل اور بردباری سے لڑی۔ 1990 میں رہائی کے بعد انہوں نے نسل پرستانہ نظام کے خاتمے کے لئے تین سال مہم چلائی اور یہ ثابت کیا کہ نسل پرستانہ تفریق غیر انسانی رویہ ہے۔ طویل حراست اور مشقت کے بعد بھی انہوں نے نہ صرف سفید فام حکمرانوں کو معاف کر دیا بلکہ اپنے مدِ مخالف سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈیکلارک کو انتخاب لڑنے کی دعوت دی اور اپنے عوام کو، جن کے ذہنوں میں کئی دھائیوں کی ذلت اور رسوائی کی وجہ سے انتقام کا لاوا کھول رہا تھا، مساوات اور معاف کر دینے کا حوصلہ عطا کیا۔

نہ صرف یہی بلکہ ڈیکلارک کے ساتھ مل کر نئے جنوبی افریقہ کا لائحہ عمل بھی تیار کیا اور وہاں رہنے والے سفید فام شہریوں کو مساوی شہریت کا حق دیا۔ ان کے جذبے اور جدوجہد کو سراہتے ہوئے نوبل امن کمیٹی نے 1993 میں منڈیلا اور ڈیکلارک کو مشترکہ نوبیل امن انعام سے نوازا۔ اگر چاہتے تو وہ ڈیکلارک کے ساتھ پرائز لینے سے انکار بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مشترکہ انعام وصول کیا کہ ’’انسان اختلافات کے با وجود بھی ساتھ چل سکتا ہے‘‘۔ مفاہمت کی پالیسی پر شکوہ یا اعتراض کرنے والوں کو وہ جواب دیتے کہ ’’اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ ملک آگ اور خون سے بھڑک اٹھتا۔‘‘ منڈیلا کا ساتھ دیتے ہوئے معروف پادری ڈیسمنڈ تُوتُو نے ’’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘‘ کے ذریعے رنجیدہ لوگوں کی ڈھارس بندھائی اور انہیں مختلف لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے اور کام کرنے کا درس دیا۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ 1994 میں لینڈ سلائیڈ فتح کے بعد منڈیلا نے صرف پانچ سال حکو مت کی اور اپنی مقبولیت کے باوجود دوسری بار انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا۔ تاکہ عوام پر یہ واضح ہو سکے کی ان کی جدوجہد اقتدار کیلئے نہیں بلکہ اصولوں کے لیے تھی۔ منڈیلا نے اپنی باقی زندگی انسانی فلاح اور جمہوریت کے فروغ کے لئے وقف کر دی۔ آج کل سیاح جب ’’رابن جزیرے‘‘ کی جیل، جہاں نیلسن منڈیلا قید رہے، دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ دنیا کا یہ عظیم رہنما صرف ایک مَیٹ، ایک کپ، ایک پیالے اور ایک چمچ سے اٹھارہ سال تک گزر بسر کرتا رہا مگر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

امجد نذیر


 


امریکا کا 2020 تک خلائی فورس قائم کرنے کا منصوبہ

$
0
0

امریکی حکومت 2020 تک خلائی فورس قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، خلائی فورس کے قیام کیلئے کانگریس کی منظوری درکار ہے ، متعدد اراکین کانگریس نے اس منصوبے پر آنے والے تخمینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امر یکی نائب صدر مائیک پینس کا پنٹاگون میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خلائی فورس اس لیے ضروری ہے تاکہ نئے میدانِ جنگ کے ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹا جا سک، مائیک پینس نے کہا کہ اب خلائی فورس کے قیام کا وقت آ گیا ہے، پینٹاگان بہت جلد کانگریس کو خلائی فورس کی تشکیل کا منصوبہ پیش کرنے والا ہے ۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اسپیس فورس کے قیام کا حکم جون میں دیا تھا۔
 

چین میں ایغوروں کا وطن ایک ’کیمپ‘ میں تبدیل

$
0
0

اقوام متحدہ کے مطابق چین میں دس لاکھ سے زائد ایغور باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ ایک بہت بڑے’ کیمپ‘ میں بدل چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ان دعوؤں کو بیجنگ حکومت تاہم مسترد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی نسل پرستی کے خاتمے کی کمیٹی کا ایک دو روزہ اجلاس شروع ہوا ہے، جس میں چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس کے پہلے روز خاص طور پر ایغور نسل کو درپیش حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جنیوا میں اس کمیٹی کی خاتون نائب چیئرمین گے میکڈوگل نے بتایا کہ مستند رپورٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چینی حکومت کے مذہبی شدت پسندی ختم کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے ایغوروں کے نیم خود مختار خطے میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔

ان کے بقول یہ اب ایک بہت بڑے کیمپ میں بدل چکا ہے اور اسے ایک ایسا علاقہ کہا جا سکتا ہے، جہاں کسی کو کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا،’’تقریباً دو ملین ایغوروں کو سنکیانگ میں زبردستی سیاسی اور مذہبی کیمپوں میں بند کر دیا گیا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ برس چین میں ہونے والی کل گرفتاریوں میں سے ستائیس فیصد اسی خطے سے کی گئی تھیں۔ چین میں ایغوروں اور دیگر مسلم برادریوں سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔ جنیوا میں موجود پچاس رکنی چینی وفد کی جانب سے میکڈوگل کے ان الزامات پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اس اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں آباد مختلف نسلی گروہوں کے مابین مساوات اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

چین میں بیس ملین سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سب سے بڑی تعداد ہُوئی اور ایغوروں کی ہے۔ ایغوروں نے مغربی چین کے سنکیانگ کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس خطے میں بد امنی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 2009ء کی خونریزی نمایاں ہے۔ جولائی 2009ء میں ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے چینی باشندوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اسے خطے میں نسلی بنیادوں پر ہونے والی تاریخی ہنگامہ آرائی قرار دیا گیا اور اس دوران تقریبا 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بشکریہ DW اردو
 

دو سال میں فیس بک کا ٹریفک 50 فیصد کم ہو گیا

$
0
0

دنیا بھر میں مقبول سوشل میڈیا ویب سائٹ ’’فیس بک‘‘ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ اب ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ دو برس میں اس پر آنے والے وزیٹرز کی تعداد یعنی ’’ٹریفک‘‘ میں 50 فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ دو سال پہلے تک فیس بک پر وزٹس کی ماہانہ تعداد 8.5 ارب (آٹھ ارب پچاس کروڑ) تھی جو اس سال یعنی 2018 کے وسط تک کم ہو کر 4.7 ارب (چارارب ستر کروڑ) ماہانہ رہ گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف ویب سائٹ ٹریفک پر نظر رکھنے اور تجزیہ کرنے والے آزاد پلیٹ فارم سمیلر ویب کی ذیلی ویب سائٹ ’’مارکیٹ انٹیلی جنس ڈاٹ آئی او‘‘ پر ایک تجزیہ نگار نے اپنے تازہ جائزے ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ میں کیا ہے۔ جائزے کے مطابق ایک طرف فیس بُک پر آنے والے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب یوٹیوب پر آنے والے افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

سمیلر ویب کے مطابق گزشتہ ماہ جولائی میں یوٹیوب پر ساڑھے چار ارب افراد آئے تھے اور اگر اسی رفتار سے یہ گراف بڑھتا رہا تو بہت جلد فیس بک دوسری اور یوٹیوب پہلی مقبول ترین ویب سائٹ بن جائے گی، جبکہ دنیا کے سب سے بڑے ویب سرچ انجن (گوگل) پر گزشتہ ماہ وزیٹرز کی تعداد 15 ارب 20 کروڑ نوٹ کی گئی۔ اگرچہ یہ فیس بک کے لیے ایک بری خبر تو ہے جو پرائیویسی کے معاملات، امریکی انتخابات میں جعلی خبروں اور اسٹاک مارکیٹ میں گرتے حصص کی وجہ سے پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکا ہے تاہم سمیلر ویب نے فیس بک کو موبائل ایپس میں بہترین قرار دیا ہے۔

فیس بک صارفین براؤزر کے بجائے بہت تیزی سے ایپس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح فیس بک ایپ کے صارفین بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ اضافہ براؤزر چھوڑنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ فیس بک ٹریفک میں مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح فیس بک کے دیگر پلیٹ فارمز مثلاً انسٹاگرام اور میسنجر پر بھی صارفین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ البتہ فیس بک تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ادارہ فیس بک اپنے مرکزی پلیٹ فارم کے بجائے اپنی دیگر اور مختلف اقسام کی سروسز پر توجہ دے رہا ہے۔
 

جب امریکہ میں مکینک جہاز چوری کر کے لے اڑا

$
0
0

امریکہ میں ہوائی اڈے کے ایک ملازم کی جانب سے چرایا جانے والا خالی مسافر طیارہ ایک جزیرے پر گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق طیارہ چرانے والا ملازم یا تو اناڑی تھا یا ہوا میں کرتب دکھانے کے دوران وہ طیارے کا کنٹرول کھو بیٹھا جس کے باعث طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ حکام نے تاحال طیارہ چرانے والے 29 سالہ ملازم کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے اور قوی امکان ہے کہ وہ حادثے میں زندہ نہیں بچا ہے۔ ابتداً یہ بتایا گیا تھا کہ طیارہ چرانے والا شخص ایک مکینک تھا لیکن بعد ازاں حکام نے وضاحت کی کہ ملازم گراؤنڈ سروس کا اہلکار تھا جس کا کام ہوائی اڈے پر طیاروں کو گیٹس تک رہنمائی فراہم کرنا اور ان پر جم جانے والی برف ہٹانا ہوتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ چرایا گیا طیارہ 'الاسکا ایئرلائنز'کی نجی کمپنی 'ہورائزن ایئر'کا تھا جو امریکہ کی مغربی ریاستوں میں چھوٹے روٹس پر پروازیں چلاتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 76 نشستوں والا طیارہ ریاست واشنگٹن کے مصروف تین 'سی ٹیک انٹرنیشنل ایئرپورٹ'پر کھڑا تھا جب 29 سالہ ملازم کنٹرول ٹاور کے روکنے کے باوجود اسے اڑا لے گیا۔ واقعے کے وقت طیارے میں کوئی مسافر سوار نہیں تھا۔ واقعے کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈھلتی شام کے اوقات میں طیارہ فضا میں لمبے چکر کاٹ رہا ہے اور دیگر کرتب دکھا رہا ہے۔ علاقہ پولیس کے ترجمان ایڈ ٹرایر نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ ملزم خود کشی کرنا چاہتا تھا اوراس کی یہ کارروائی دہشت گردی نہیں تھی۔

ترجمان کے مطابق جہاز چرائے جانے کی اطلاع پر فوج سے مدد طلب کی گئی تھی جس کے بعد پڑوسی ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں واقع فوجی اڈے سے ایک 'ایف 15'جنگی طیارہ چند منٹوں میں ہی روانہ کر دیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے مسافر طیارے کے گرنے سے قبل ایک جنگی طیارے کو اس کا پیچھا کرتے دیکھا تھا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ مسافر طیارہ پائلٹ کی اپنی غلطی سے گرا اور اسے گرانے کے لیے جنگی طیارے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکام کے مطابق طیارہ ریاست واشنگٹن کے علاقے ٹیکوما کے جنوب مغرب میں واقع کیٹرون نامی جزیرے پر گر کر تباہ ہوا جہاں واقعے کے بعد فیریز اور کشتیوں کے ذریعے امدادی اور سکیورٹی اہلکار پہنچے۔ علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ طیارہ چرانے والے شخص کے ماضی کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

اگر ان کے پاس ڈالر ہیں تو ہمارے پاس اللہ ہے

$
0
0

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سٹیل اور ایلومینیم پر محصول دگنا کرنے پر امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے اپنے رجحانات کو تبدیل نہ کیا تو ان کا ملک نئے اتحادی اور دوست تلاش کر سکتا ہے۔ صدر اردوغان کے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ جب تک اپنے یک طرفہ اور غیر مہذب رجحانات کو ترک نہیں کرتا تو ترکی اپنے لیے نئے دوستوں اور اتحادیوں کو دیکھے گا۔ صدر اردوغان نے امریکہ سے اپنی رنجش کے بارے میں مزید کہا کہ ’وہ (امریکہ) شام میں کرد فورسز کو مسلح کر رہا ہے اور مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کو حوالے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ‘ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے امریکی پادری اینڈریو برنسن کے معاملے پر کشیدگی کو ہوا دی جا رہی ہے۔

امریکی پادری پر ترکی میں دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا ہے جبکہ ترک حکام امریکہ میں جلا وطن ترک رہنما فتح اللہ گولن کو سنہ 2016 کی بغاوت کو منظم کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی سٹیل اور ایلومینیم پر محصول دگنا کر دیا جس کے باعث ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک ٹویٹ میں امریکی صدر نے کہا ’لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کمزور تھا‘ اور یہ کہ اس وقت امریکہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں‘۔ لیرا کی قدر میں کمی پر ترکی کے صدر اردوغان نے کہا کہ یہ کمی اس مہم کا حصہ ہے جس کی قیادت غیر ملکی طاقتیں کر رہی ہیں۔ ترکی نے متنبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے خلاف قدم اٹھائے گا۔

ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے ’امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قسم کی پابندیاں اور دباؤ کے نتیجے میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان ہو گا‘۔ امریکہ اور ترکی نیٹو کے ممبران ہیں اور دونوں میں کئی ایشوز پر اختلافات ہیں۔ مثلاً نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ، انقرہ روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنا چاہتا ہے اور سنہ 2016 میں ناکام بغاوت میں ملوث افراد کو کیسے سزائیں دی جائیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے ترکی کے دو اعلیٰ حکام پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ پابندیاں دونوں ممالک کے درمیان امریکی پادری کی ترکی میں گرفتاری ہے جس پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ گذشتہ ایک سال میں اس کی قدر میں 40 فیصد کمی ہو چکی ہے۔

صدر رجب طیب اردوغان نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ وہ غیر ملکی کرنسی اور سونے کو لیرا میں تبدیل کرائیں کیونکہ ترکی اس وقت ’معاشی جنگ‘ سے دو چار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ اندرونی اور قومی جدوجہد ہے۔‘ اردوغان نے اپنے خطاب میں امریکہ کا نام لیے بغیر کہا ’کچھ ممالک کا رویہ ایسا ہے جو بغاوت کرنے والوں کی حفاظت کرتا ہے اور وہ قانون اور انصاف کو نہیں جانتے۔ جن ممالک کا رویہ ایسا ہے جس کے باعث ان کے ساتھ تعلقات کو بچانا مشکل ہو گیا ہے۔‘ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’میں نے ابھی اجازت دی ہے کہ ترکی کی سٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف کو دگنا کر دیا جائے کیونکہ ان کی کرنسی، ٹرکش لیرا، ہمارے مضبوط ڈالر کے خلاف تیزی سے گرا! ایلومینیم پر اب 20 فیصد اور سٹیل پر 50 فیصد ٹیرف ہو گا۔ اس وقت ہمارے تعلقات ترکی کے ساتھ اچھے نہیں ہیں‘۔

اس اعلان کے بعد عالمی کرنسی مارکیٹ میں یورو 13 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ ترکی کی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بڑھائے جانے والا ٹیرف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے خلاف ہے۔ ’ترکی توقع کرتا ہے کہ دیگر ممبر ممالک بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں گے۔‘
استنبول سے نامہ نگار سیلن جیرت نے کہا ہے کہ دن بھر کی ڈرامائی صورتِ حال کے باوجود ترکی نے بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر اردوغان نے کہا 'اگر ان کے پاس ڈالرز ہیں تو ہمارے پاس ہمارے عوام ہیں۔ ہمارے پاس اپنا حق ہے اور ہمارے پاس اللہ ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کے تھوڑی دیر بعد صدر اردوغان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے فون پر بات کی ہے۔ کریملن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اقتصادی اور تجارتی تعلقات پر بات کی۔ صدر اردوغان کے دفتر نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ دفاعی اور توانائی کے منصوبوں کے درمیان ترکی اور روس کے رشتے میں 'مثبت ترقی پر خوشی کا اظہار کیا ہے‘۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

امریکا نے ترکی کو پادری کی رہائی کے لیے ڈیڈ لائن دی تھی، ایردوآن

$
0
0

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ امریکا نے ترکی میں قید امریکی پادری کی رہائی کے لیے انقرہ حکومت کو گزشتہ بدھ تک کی ڈیڈلائن دی تھی۔
ترک صدر ایردوآن نے کہا کہ ترک عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے والے امریکی پادری اینڈریو برونسن کی رہائی کے لیے واشنگٹن انتظامیہ نے ترکی کو ڈیڈلائن دی تھی، تاہم ترکی نے اس پادری کو رہا نہیں کیا۔ امریکی پادری کی رہائی کا معاملہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ان دونوں رکن ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں نمایاں اضافے کا باعث بنا ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے آباد ساحلی شہر طرابزون میں اپنے حامیوں سے خطاب میں ایردوآن نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات ظاہر کیں۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے دھمکی دی تھی کہ ترکی اس پادری کی رہائی کا مطالبہ مسترد کرنے سے باز رہے، دوسری صورت میں اس پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

ایردوآن نے اپنے اس خطاب میں ترک کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی کو بھی ترکی کے خلاف ’سیاسی سازش‘ قرار دیا۔ ایردوآن نے کہا کہ اس امریکی رویے کی وجہ سے اب ترکی نئی منڈیاں اور نئے اتحادی تلاش کرے گا۔ اپنی پارٹی کے ارکان سے اس خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا، ’’اس پوری کارروائی کا مقصد یہ ہے کہ ترکی سیاست اور مالیات کے معاملے میں ہتھیار ڈال دے۔ مگر خدا نے چاہا تو ہم اس سے باہر آ جائیں گے۔‘‘ یہ بات اہم ہے کہ رواں برس ترک کرنسی لیرا کی قدر میں قریب 40 فیصد کمی آ چکی ہے، جب کہ فقط شمالی شامی علاقے میں امریکی حمایت یافتہ کرد جنگجو گروپ کے خلاف عسکری آپریشن اور امریکی پادری برونسن معاملے کے دوران لیرا کی قدر 16 فیصد کم ہوئی ہے۔

ایردوآن نے اپنے خطاب میں کہا، ’’ہم ایسے میں اپنے ایسے اسٹریٹیجک پارٹنر کو خدا حافظ ہی کہہ سکتے ہیں، جو 81 ملین آبادی کے حامل ملک کے ساتھ دوستی اور نصف صدی سے زائد عرصے کو اتحاد کو دہشت گرد گروہوں سے تعلقات پر قربان کر سکتا ہے۔‘‘ ایردوآن نے کہا، ’’تم نے 81 ملین آبادی والے ملک ترک کو دہشت گرد گروپوں سے تعلق رکھنے والے ایک پادری پر قربان کرنے کی جرأت کی ہے۔‘‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک کے فولاد اور ایلومینیم کے شعبے پر نئی محصولات کا نفاذ کیا تھا، جس کے بعد ترک کرنسی کی قدر میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ترکی پر عائد کی جانے والی محصولات کا نفاذ 13 اگست سے ہو جائے گا۔

(روئٹرز، اے ایف پی)
 

اقتصادی جنگ میں ترکی فتح مند ہو گا، ایردوآن

$
0
0

ترک کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی سے کاروباری حلقوں میں بےچینی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی ڈیوٹی دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ شروع ہونے والی اقتصادی جنگ میں انجام کار اُن کے ملک کو فتح اور امریکا کو شکست ہو گی۔ ایردوآن کا یہ بیان ملکی کرنسی’ لیرا‘ کی قدر میں شدید کمی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترک صدر نے اقتصادی جنگ کے نتائج سے بھی خبردار کیا ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ وہ امریکی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔

اونیے شہر میں ایک عوامی خطاب سے انہوں نے کہا کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یوں ترکی نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کر سکتا ہے۔ ترکی میں قید امریکی پادری اور دیگر سفارتی معاملات پر ان دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ امریکا کو شرم آنا چاہیے کہ وہ ایک پادری کی خاطر نیٹو اتحادی ملک سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے ترکی کے خلاف اقدامات کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی ہے۔

لیرا کی قدر میں سولہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ذرائع بلاغ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں یہ کمی ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کمی سے ترک معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُس کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی سے کاروباری حضرات کو شدید نقصان کا قوی امکان ہے۔ ایسے امکانات بھی ہیں کہ اگلے ہفتے کے دوران لیرا کی قدر اور گِر سکتی ہے۔ جس طرح لیرا کی قدر میں گراوٹ کا سلسلسہ شروع ہوا ہے، اُس سے لگنے والے معاشی جھٹکے ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے دوران محسوس کیے جا سکیں گے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بے چینی دیر تک رہنے کا امکان موجود ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر کو بھی یہ خطرات لاحق ہیں کہ ترک امریکی تنازعے کے منفی اثرات اُس تک پہنچ سکتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ رواں برس سے اب تک ترک کرنسی کی قدر میں چالیس فیصد کی کمی واقع ہو چکی ہے اور یہ مجموعی طور پر ترک اقتصایات کی داخلی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ کسی حد تک لڑکھڑائی ہوئی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ صدر ایردوآن ملکی کرنسی کو سنبھالنے کے حوالے سے کون کون سے اقدامات کرنے کی کوشش میں ہیں۔ لیرا میں کمی کی وجہ ترک اور امریکی حکومتوں میں پیدا شدہ سفارتی تنازعہ ہے۔ واشنگٹن اور انقرہ کی حکومتوں کے درمیان ترکی میں ایک امریکی پادری کی گرفتاری کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

پادری کی رہائی کے معاملے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایسا امکان تھا کہ ترک نائب وزیر خارجہ کے دورہٴ امریکا کے موقع پر ہی کوئی بات آگے بڑھے لیکن بظاہر ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے درآمد کیے جانے والے فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی ڈیوٹی دوگنا کر دی ہے۔ اس اضافے کے بعد ترک کرنسی پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ نے ترک کرنسی کی قدر کم ہونے کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ترکی کی کرنسی اُن کے مضبوط ڈالر کے سامنے گرنا شروع ہو گئی ہے اور ویسے بھی ان دنوں ترکی کے ساتھ تعلقاتٰ بھی بہتر نہیں ہیں۔

ع ح ⁄ ع الف ⁄ نیوز رپورٹس
 


معاشی بحران، ترکی کا ہنگامی منصوبہ

$
0
0

ترک کرنسی لیرا کی قدر میں نمایاں کمی سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں اضافے کا خیال ایردوآن نے مسترد کر دیا ہے، تاہم اس بحران کے سدباب کے لیے ایک معاشی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ایشیائی منڈیوں میں لیرا کی قدر میں ابتدا میں کمی دیکھی گئی، تاہم ترک وزیر خزانہ برات البیراک کی جانب سے ایک اقتصادی منصوبے پر عمل درآمد کے اعلان کے بعد لیرا کسی حد تک سنبھلا۔ البیراک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ ہمارے ادارے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے اور اس سلسلے میں اقدامات کی تفصیلات مارکیٹ سے بانٹی جائیں گی۔‘‘

وزیر خزانہ البیراک، جو ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے داماد بھی ہیں، نے ایردوآن ہی کے ایک بیان کے تناظر میں کہا کہ لیرا کی کم زوری اصل میں ترکی پر حملہ ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لے کر کہا کہ لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ ٹرمپ ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی کا منصوبہ کیا ہے، اس بابت تفصیلات مبہم ہیں۔ البیراک نے اپنے انٹرویو میں کہا، ’’بجٹ تنظیم ہماری نئی حکمت عملی میں کلیدی نوعیت کی ہے۔ ہم بینکوں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بینکوں اور مالیاتی نگران اداروں کے ساتھ مل کر نہایت تیزی سے اقدامات کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو نئے ٹیکس ضوابط بھی متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ترک حکومت کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں کہ وہ غیر ملکی کرنسی کو منجمد کرنے کی کوشش کرے، تاکہ لیرا کو سہارا دیا جا سکے۔ ایشیائی منڈیوں میں ترک لیرا نئی ریکارڈ گراوٹ کا شکار دیکھا گیا اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر سات اعشاریہ دو چار فیصد کم ہوئی، تاہم بعد میں لیرا دوبارہ قدرے سنبھل گیا۔ ایک امریکی ڈالر قریب سات لیرا کے برابر تھا۔ جنوری کے آغاز سے اب تک ترک کرنسی کی قدر میں قریب 45 فیصد کمی آئی ہے، جب کہ گزشتہ جمعے کو اس کی قدر میں صرف ایک روز میں اچانک پندرہ فیصد کمی آئی تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی میں قید ایک امریکی پادری اینڈریو برونسن کی رہائی کے امریکی مطالبے کو ترکی نے مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد امریکا نے ترکی کے خلاف پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ ترکی کی فولاد اور ایلومینیم کی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس امریکی اعلان کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کو دھچکا پہنچا تھا۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

بشکریہ DW اردو
 

نئے پاکستان کا پرانا یوم آزادی

$
0
0

سب سے پہلے والے چودہ اگست سے ہر نئی امید باندھی گئی تھی۔ مثلاً یہ ملک چونکہ ایک ستائی ہوئی اقلیت نے بنایا ہے اس لیے اس ملک میں کسی کو کسی کے ہاتھوں ستایا جانا برداشت نہیں ہو گا۔ یہ ملک ایک وکیل نے قانونی لڑائی جیت کر حاصل کیا لہذا یہاں قانون شکنی یا قانون کو باندی کی طرح استعمال کرنے کی ریت کی پرورش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ملک برِصغیر کے کسی ایک خطے کی کسی مخصوص آبادی یا گروہ یا ادارے نے نہیں بلکہ ہر خطے کے لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آیا ہے۔ پہلے چودہ اگست پر نئے ملک کے نت نئے شہریوں کو یقین تھا کہ یہ مملکت کسی سیٹھ کی ذاتی لمیٹڈ کمپنی نہیں بلکہ اس ملک کی اجتماعی روح پاکستان ٹرسٹ کے طوطے میں بند ہے۔ اس ٹرسٹ میں ہر ایک کے شیئرز ہیں۔ ان شیئرز کا بھاؤ گرا تو نقصان برابر کا اور بھاؤ چڑھا تو منافع برابر کا۔ کسی ایک گروہ یا ادارے یا شخص کو اجازت نہ ہو گی کہ وہ پاکستان ٹرسٹ کے اکیاون فیصد حصص خرید لے اور پھر من مانی سے مرضی کا بورڈ آف ٹرسٹیز مسلط کر دے یا کسی غیر ملکی کو دیگر ٹرسٹیوں کی مرضی پوچھے بنا شیئرز فروخت کرے یا علاقائی و بین الاقوامی بازار میں منافع کے سبز باغ میں آ کر یا دکھا کر پورا ٹرسٹ سٹے پر لگا دے۔

مگر اگلے چھبیس برس وہ سب ہوا جو ہرگز ہرگز برداشت نہیں ہونا تھا۔ چودہ اگست انیس سو تہتر کو پھر ایک نیا پاکستان ٹرسٹ نئے ضوابط مرتب کر کے باقی ماندہ حصص یافتگان کو اعتماد میں لے کر تشکیل دیا گیا۔ کم و بیش وہی امیدیں ، ویسی ہی قسمیں جیسی سب سے پہلے والے چودہ اگست کو کھائی گئی تھیں۔ نئے ٹرسٹ کے شیئرز کی من مانی تجارت روکنے کے لیے چارٹر میں کچھ نئی پابندیوں کا اضافہ کیا گیا۔ پھر بھی وہی سب ہوا جو ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آج پھر ویسا ہی چودہ اگست بتایا جا رہا ہے جیسا بہتر یا پینتالیس برس پہلے کے چودہ اگست کو بتایا جا رہا تھا۔ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، ہم یہ ضررو کریں گے مگر وہ ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ اس بار بھی بورڈ آف ٹرسٹیز کے نئے چیئرمین کے بارے میں ویسا ہی کچھ کہا جا رہا ہے جو پچھلوں کے بارے میں ان کے منہ پر کہا جاتا رہا۔

یعنی مخلص ہے، جواں حوصلہ ہے، نئے آئیڈیاز اور منطقی خوابوں سے مالامال ہے، قوم پرست ہے، ایمانداری کوٹ کوٹ کے بھری ہے، کسی کی ناجائز نہیں سنتا، فیصلے ذات کے لیے نہیں اجتماعی فائدے کے لیے کرے گا، خوشامد و نا اہلی کا دشمن اور میرٹ نواز ہے، اوپر سے نیچے تک اپنے پرائے کے بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتا ہے، مالی اعتبار سے بے داغ ہے، وعدے کا پکا، ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو پھر اپنی بھی نہیں سنتا، انسان کا درد کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے، جب ٹرسٹ کا چیئرمین نہیں تھا تب بھی فلاحی منصوبوں کی تکمیل سے منہ نہیں موڑا۔ بس اب تک جو ہوا سو ہوا۔ ماضی کو پیٹنے سے کیا فائدہ، اب سے رونا گانا بند، ٹرسٹ کے چیئرمین اور نئے بورڈ آف ٹرسٹیز کا بھرپور ساتھ دیجیے۔آپ چند ماہ میں دیکھئے گا کہ آپ کے شیئرز کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچتی ہیں۔ جب یہ منزل آئے تو بہتر برس پہلے والے چودہ اگست کو ضرور یاد کیجیے گا جہاں سے آپ نے اوپر کی جانب سفر شروع کرنے کا ارادہ باندھا تھا۔

آج اس قدر شورِِ خوش امیدی برپا ہے کہ سوچتا ہوں خوش امیدی کے ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا دوں، بازو پر امام ضامن باندھ دوں اور لال مرچیں جلا کر اس کے کاندھوں پر سے وار دوں۔ ویسے بھی ہمارے پاس اب خوش امیدی کے سوا بچا کیا ہے؟ آج سوائے اس کے کون سی دعا یاد رکھی جائے کہ اے پروردگار جنہوں نے آج تک اس ٹرسٹ کے کسی منتخب چیئر پرسن کو مدت پوری نہیں کرنے دی اور اسے مسلسل کمپنیز ایکٹ کے پیچیدہ شق وار جنگل اور اسمال پرنٹ میں الجھائے رکھا۔ اس بار انھیں باز رہنے اور اپنے اصل کام سے کام رکھنے کی توفیق عطا فرما۔ وہ ہر قدم پر بورڈ آف ٹرسٹیز کو یہ نہ کہتے پھریں کہ بچ کے، سنبھل کے، یہاں قدم مت رکھو، دائیں مت مڑو، اس بل میں ہاتھ نہ ڈالو کہیں سانپ نہ نکل آئے، ارے رکو بنا بتائے کدھر کو چل پڑے، ذرا ہم سے مشورہ تو کر لو، اتنے تیز کیوں چل رہے ہو، بارش ہونے والی ہے، یہ لو چھتری،ارے دھیان سے آگے کیچڑ ہے، ہاتھ پاؤں گندے ہو جائیں گے، یہ لو صابن اور فوراً نہا لو، اچھا صابن ہے ننائوے فیصد جراثیم مار دیتا ہے تم نے اشتہار تو دیکھا ہو گا، تھک گئے ہو تو ذرا دم لے لو، یہ مشروب پی لو، تھوڑی نیند آجائے گی اور تھکاوٹ بھی اتر جائے گی، بن داس سو جاؤ، میں ہوں نا نگرانی کے لیے۔ خدا کے لیے اب ٹرسٹیوں کو بچہ سمجھنا بند کرو،کھلی فضا میں سانس لینے دو، ہٹا لو اپنی چھتری، بارش میں نہانے دو، بخار ہونے دو، خود ٹھیک ہو جائیں گے جب جسم کا مدافعتی نظام ڈویلپ ہونے کی اجازت دو گے اور ہر چھینک پر اینٹی بائیوٹک نہیں ٹھنسواؤ گے۔ کیچڑ میں نہانے دو، تم نے مڈ باتھ سنا تو ہو گا، مٹی میں نہانے سے چہرہ تازہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں کھل کے قہقہہ لگائے مدتیں بیت گئیں، تم آگے پیچھے منڈلاتے رہو گے، ہماری آیا، انا، اتالیق بنے رہو گے تو ہم کیسے کھل کے ہنسیں گے۔

بہت تمیز سکھا لی اتنے برس۔ اب ہمیں کچھ بدتمیزی کرنے دو، ہم روبوٹ کی طرح دکھائی ضرور دے رہے ہیں پر ہیں نہیں۔ یار تمہیں بھی تو ڈیوٹی دیتے دیتے بہت برس بیت گئے۔ اب کچھ وقت اپنے ساتھ بھی تو گذارو، کب تک ہماری اتالیقی جاری رکھو گے، اس چکر میں تم اپنا وجود، اپنا کار اور اپنا مقام بھی بھول جاؤ گے۔ تم ہم پر یقین رکھو گے تو یقین جانو ہم تمہاری دل سے عزت کریں گے بالکل ویسے جیسے بہت پہلے کرتے تھے۔ یہ تب کا قصہ ہے جب کسی نے عزت کرنے کا فرمان جاری نہیں کیا تھا، تب کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ احترام کس چڑیا کا نام ہے۔ بس خود سے ہی دل چاہتا تھا اور تمہارے لیے عزت و احترام امڈ آتا تھا۔ پر اگر تم یہی چاہتے ہو کہ عزت و احترام کرانے کے لیے بے ساختگی اور فطری ماحول کے بجائے آرڈر، نوٹیفکیشن، چہرے کی سختی اور لہجے کی کرختگی ہی ضروری ہے تو یونہی سہی۔ ہم بھی ماہر ہو گئے ہیں عزت و احترام دینے کی اداکاری کے۔ مگر یہ کوئی زندگی تو نہیں۔ نہ تمہاری نہ ہماری۔

پھر بھی تم چاہتے ہو کہ اس چودہ اگست سے وہی جذبہ پھوٹے جیسا پہلے چودہ اگست سے پھوٹا تھا تو پلیز ایک طرف ہو جاؤ۔ ہمیں مٹی کے گھروندے بنانے دو، توڑنے دو، دوڑنے دو، بازو کھول کے اڑنے دو، خود بخود ہنسنے اور مرضی سے رونے دو، جھگڑنے دو، پیار کرنے دو۔ ورنہ منالو اپنا چودہ اگست اسی طرح جیسے پچھلے سال، اس سے پچھلے سال، اس سے پچھلے سال مناتے اور منواتے آئے ہو۔ بس ہمیں مسلسل بتاتے رہنا کب خوش ہونا ہے کب نہیں ہونا، کب رکنا ہے کب چلنا ہے، کب بیٹھنا ہے،کب لیٹنا ہے،کب کب کب…

اب میں رکا رہوں یا پھر جاؤں…

وسعت اللہ خان
 

امریکی ڈالر کی حاکمیت کے دن گنے جا چکے ہیں، روسی وزیرخارجہ

$
0
0

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ امریکی ڈالر تنزلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی اجارہ داری اب ختم ہونے والی ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے ترک ہم منصب سے انقرہ میں ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے امریکا کی متعصبانہ پالیسیوں اور ترکی پر اقتصادی پابندیوں سے پیدا ہونے والی صوررت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کے غلط فیصلوں کے باعث ڈالر تنزلی کی جانب گامزن ہے اور یہی صورت حال برقرار رہی تو بہت جلد ڈالر کا عالمی مارکیٹ سے خاتمہ ہو جائے گا۔ روس اب ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے قومی کرنسی میں لین دین کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ اس موقع پر ترک وزیر خارجہ نے روسی ہم مننصب کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب ترکی نے بھی امریکی ڈالر کو ترک کر کے مقامی کرنسی میں تجارت کا آغاز کر دیا ہے۔
 

ٹرمپ کا ڈالر اور ایردوان کا اللہ

$
0
0

گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ میں ترکی پر فولاد اور ایلومینیم پر ٹیرف کو دگنا کر نے کا ا علان کیا جس کے فوراً بعد ہی ترک لیرے کی قدر میں بیس فیصد کمی دیکھی گئی۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ میں ترکی کو خبردار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ترک لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہے اور امریکہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔‘‘ امریکہ نے کئی ایک وجوہات کی بنا پر ترکی کے ساتھ خراب ہونے والے تعلقات کی آڑ میں اور ترکی کو سبق سکھانے کی غرض سے فولاد اور المو نیم پر ٹیرف کو دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے فوراً بعد ترک صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ’’ان کے پاس ڈالرز ہیں تو ہمارے پاس اللہ اور ہمارے عوام ہیں۔‘‘ 

ایردوان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والی اقتصادی جنگ کے نتیجے میں فتح مبین ان کے ملک کو جبکہ امریکہ کو شکست ہو گی۔ وہ کسی بھی صورت امریکی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔ 15 جولائی 2016ء میں ترکی کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی منصوبہ بندی کرنے والے اب ترک معیشت کو ہدف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں صدر ٹرمپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے یک طرفہ اور غیرمہذب رجحانات کو ترک نہیں کیا تو ترکی اپنے لیے نئے دوستوں اور اتحادیوں کی جانب راغب ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ 

انہوں نے لکھا کہ امریکہ کو شرم آنا چاہیے کہ وہ ایک پادری کی خاطر نیٹو اتحادی ملک سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ امریکہ اور ترکی میں پادری انڈریو برنسن کے علاوہ بھی کئی ایک موضوعات پر اختلافات ہیں جن میں شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کےکۓ‘‘ کی ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی/ وائی پی جی‘‘ کی امریکہ کی جانب سے پشت پناہی، داعش، ترکی کے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری، 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے ماسٹر مائنڈ فتح گولن کی امریکہ میں پناہ اور ترکی کے حوالے نہ کیے جانے جیسے موضوعات سر فہرست ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے ترک لیرا کی قدر میں اس سال کے آغاز سے اب تک قریب 40 فیصد کمی ہو چکی ہے اور گزشتہ جمعے کے روز ٹرمپ کے ترکی مخالف اعلان کے بعد ترک کرنسی کی قدر و قیمت میں صرف ایک دن میں 20 فیصد کے لگ بھگ کمی دیکھی گئی ہے ۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کمی سے ترک معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُس کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی سے کاروباری حضرات کو شدید نقصان کا قوی امکان ہے جبکہ امریکہ کے ان اقدامات کی وجہ سے ترکی کی معیشت کو آئندہ چند ہفتوں تک مزید جھٹکے لگنے اور ترک لیرا کی قدر و قیمت میں مزید کمی ہونے کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں، ترک کرنسی کی قدر میں کمی سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بے چینی دیر تک رہنے کا امکان موجود ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر پر بھی ترک امریکی تنازعے کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔

امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود پادری انڈریو برنسن کو رہا نہ کئے جانے پر صدر ٹرمپ نے ترکی پر کئی ایک پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترک نائب وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے دور ہونے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن پادری کے مسئلے نے نیٹو کے ان دونوں اتحادیوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ ترک کرنسی کو پہنچنے والے اس نقصان پر صدر ایردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکی ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا۔ 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت میں منہ کی کھانے والوں کو ترکی کے تمام شعبوں میں ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی وہ اب ڈالر کے ذریعے ترکی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔‘‘ 

انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کا براہ راست نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ ’’ترکی کے اقتصادی دشمنوں نے انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بد نیت حلقے ڈالر کی قیمت چڑھا کر ترکی کے خلاف آپریشن کرنا اور ملک کے دفاعی میکانزم کو کمزور کر کے ملت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ترکی کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ترکی کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں دیں گے بلکہ ملکی پیداوار اور خاص طور پر جدید دفاعی ہتھیاروں کی مقامی سطح پر پیداوار میں اضافے، برآمدات میں اضافے، روزگار کو فروغ دینے اور ریکارڈ سطح پر ترقی کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اگر آپ ڈالر کو ترک کرنسی کی قدر و قیمت کو کم کرنے کے مقصد کے لیے استعمال کریں گے تو ہم کئی ایک ممالک کے ساتھ ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دیتے ہوئے دنیا کے لیے تجارت کے نئے راستے بھی کھول سکتے ہیں۔‘‘

صدر ایردوان نے بحیرہ اسود کے ساحلی شہر ترابزون میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی پادری کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکہ کے حوالے کرنے بصورتِ دیگر ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کی جو ڈیڈ لائن دی تھی انہوں نے اس کی پروا کیے بغیر امریکی صدر پر واضح کر دیا تھا کہ ترکی قانون کی پیروی کرنے والا ملک ہے اور وہ قانون سے بالا ہو کر کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں اٹھائینگے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے ایسے اسٹرٹیجک پارٹنر کو خدا حافظ ہی کہہ سکتے ہیں، جو 81 ملین آبادی کے حامل ملک کے ساتھ دوستی اور نصف صدی سے زائد عرصے کے اتحاد کو دہشت گرد گروہوں سے تعلقات پر قربان کر سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے امریکی صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ ہمیں اپنے احکامات سے سر جھکانے پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں، ترکی ’’بنانا ریپبلک‘‘ نہیں ہے بلکہ دنیا کا سولہواں بڑا اقتصادی ملک ہے جو آئندہ چند سالوں میں دنیا کے پہلے دس طاقتور ممالک کی صف میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے اپنے عوام سے بھی اس صورتِ حال جسے انہوں نے اسے ’’معاشی جنگ‘‘ کا نام دیا ہے کے موقع پر غیر ملکی کرنسی اور سونے کو ترک لیرا میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ترکی میں ڈالر کی قدرو قیمت میں ہونے والے اضافے کے بعد مختلف افواہوں نے بھی گردش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں ترکی میں مختلف بینکوں میں موجود غیر ملکی کرنسی کو ترک لیرا میں کنورٹ کرنے کی افواہ سر فہرست ہے جس پر ترکی کے وزیر خزانہ برات البائراک نے عوام سے ان افواہوں پر کان نہ دھرنے اور بینکوں میں موجود غیر ملکی کرنسی کے کسی بھی حالت کنورٹ نہ کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اسٹاک مارکیٹ میں قومی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لئے ہرممکن اقدام اٹھائے جانے سے آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے بنکوں اور معاشی شعبے کے لئے ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے، چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کوبھی اس منصوبے کا پابند بنایا جائے گا تاکہ کرنسی کے لین دین میں ہونے والے نقصان سے بچا جا سکے۔

ڈاکٹر فر قان حمید
 

ترکی کا امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ

$
0
0

صدر طیب اردگان نے ترکی پر عائد اقتصادی پابندیوں کے جواب میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق ترکی نے امریکا کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کے خلاف کمر کس لی ہے۔ اس حوالے سے ترکی کے صدر طیب اردگان نے امریکا کے تیار کردہ برقی مصنوعات سمیت ان تمام چیزوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جس پر ’ میڈ ان امریکا‘ تحریر ہو۔ 

ترک صد ر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہو گا کیوں کہ دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے اگر امریکی موبائل آئی فون ہے تو مارکیٹ میں سام سنگ بھی موجود ہے اس لیے امریکی پروڈکٹ کو چھوڑ کر ہمیں دوسرے ممالک کی تیار کردہ متبادل مصنوعات کو اپنانا ہو گا۔ طیب اردگان کا مزید کہنا تھا کہ ملکی کرنسی کی قدر کی بحالی اور معیشت کے فروغ کے لیے 4 ممالک سے مقامی کرنسیوں میں تجارت کے ساتھ دیگر انقلابی اقدامات کر رہے ہیں۔ مغرور امریکا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اب عوام کو بھی آگے آکر امریکی مصنوعات کو خیر باد کہنا ہو گا۔
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>