Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

دبئی پولیس نے ڈھائی ارب روپے سے زائد قیمت کا مسروقہ ہیرا برآمد کر لیا گیا

$
0
0

دبئی پولیس نے کہا ہے کہ اس نے ایک ایسا چوری شدہ نایاب نیلا ہیرا برآمد کر لیا ہے، جس کی قیمت ڈھائی ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔ یہ ہیرا ایک سکیورٹی گارڈ نے چوری کر کے جوتوں کے ڈبے میں چھپا کر سری لنکا اسمگل کر دیا تھا۔
خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات میں دبئی سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ بین الاقوامی منڈی میں اس انتہائی نایاب اور نیلے رنگ کے ہیرے کی قیمت 20 ملین یا دو کروڑ امریکی ڈالر (ڈھائی ارب پاکستانی روپے سے زائد) بنتی ہے۔

سوشل میڈیا پر دبئی پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں بتایا گیا کہ کروڑوں ڈالر مالیت کا یہ ہیرا نقد رقوم کی قانونی منتقلی کا کاروبار کرنے والی ایک کمپنی کے دفتر میں محفوظ رکھا گیا تھا، جہاں سے اسے ایک سکیورٹی گارڈ نے چرایا تھا۔ دبئی پولیس کے کرنل محمد عقیل نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا کہ اس مبینہ چور نے یہ ہیرا چرانے کے بعد جوتوں کے ایک ڈبے میں چھپا کر اپنے ایک رشتہ دار کے حوالے کر دیا تھا، جو اسے لے کر ایک مال بردار کشتی کے ذریعے سری لنکا کے لیے روانہ بھی ہو گیا تھا۔

جب پولیس کو اس ہیرے کی چوری کا علم ہوا، تو سکیورٹی کیمروں کی بہت طویل فوٹیج کا کئی گھنٹوں تک تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد سینکڑوں ممکنہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔ اس چھان بین کے نتیجے میں پولیس اہلکار مبینہ چور تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جسے گرفتار بھی کر لیا گیا اور جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ کرنل عقیل کے بقول، ’’ملزم سے کی جانے والی تفتیش کے نتیجے میں پولیس نے اس بڑی مال بردار کشتی کا پتہ چلا لیا، جس کے ذریعے یہ ہیرا سری لنکا اسمگل کیا جا رہا تھا۔ دبئی پولیس نے سمندر میں اس کشتی کی تلاشی لے کر یہ مسروقہ ہیرا برآمد کر لیا۔‘‘ یہ نہیں بتایا گیا کہ 20 ملین ڈالر مالیت کا یہ نایاب نیلا ہیرا کس کی ملکیت ہے۔



 


آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آوٹ پیکج دینے سے باز رہے : امریکہ

$
0
0

امریکہ نے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے چینی قرضوں کی ادائیگی کی مخالفت کر دی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پیکج سے چینی قرضوں کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں ہے، آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آوٹ پیکج دینے سے باز رہے. امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کےساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تاہم دوسری جانب امریکہ نے آئی ایم ایف پیکج سے چین کیلئے پاکستانی قرضوں کی ادائیگی کی مخالفت کی ہے اور امریکی وزیرخارجہ کا ہی کہنا ہے کہ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف پیکج سے چینی قرضوں کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں، آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آوٹ پیکج دینے سے باز رہے، اس کے تمام معاملات پر نظر ہے۔ ترجمان آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی جانب سے قرض کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، کسی بھی متوقع پیکج پر پاکستانی حکام سے بات چیت نہیں کر رہے۔ تاہم ایک غیر ملکی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر قرض لینے پرغور کر رہا ہے۔

واٹر گیٹ اسکینڈل کے صحافی نے ٹرمپ کے راز بھی کھول دیئے

$
0
0

امریکی تاریخ کے مشہور واٹر گیٹ اسکینڈل کے صحافی باب ووڈ وارڈ نے اپنی نئی کتاب میں ٹرمپ کے بارے میں اہم انکشافات کئے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 75 سالہ امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ نے اپنی نئی کتاب ’ فیئر، ٹرمپ ان دی وہائٹ ہاؤس‘ میں بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں پر کس طرح فیصلے کرتے ہیں۔ باب ووڈ کی یہ 19 ویں کتاب ہے، انہوں نے 11 ستمبر کو کتاب کی رونمائی کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کو صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے اگرچہ دو سال کا عرصہ بیت گیا ہے، اس عرصے میں ہائی پروفائل لوگوں کی آمد کا تانتا بندھا رہا، بہت سے لوگوں کی چھٹی بھی ہوئی، ٹرمپ کی پالیسیوں سے متعلق کئی اسکینڈلز بنے، ٹرمپ کے روس سے تعلقات وغیرہ کی تفصیلات بھی کتاب میں موجود ہیں۔

واضح رہے واٹر گیٹ اسکینڈل امریکی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کے سبب پہلی بار ایک منتخب امریکی صدر رچرڈ نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اور یہ سب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے دو صحافیوں باب وڈورڈ اور کارل برن اسٹائن کی جانب سے کئے گئے اسٹنگ آپریشن کی وجہ سے ہوا۔ رچرڈ نکسن امریکا کے 37 ویں صدر تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی مخالف ڈیمو کریٹک پارٹی کے واٹر گیٹ کمپلکس میں واقع دفتر میں چوری کروائی۔

صحافیوں نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر اس چوری میں برابر کے مجرم ہیں اور ثبوت کے طور پرانہوں نے صدر نکسن کے ایک ویڈیو پیش کی جس میں وہ اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ اس معاملے پر گفتگو کر رہے ہیں اور چوری کرنے والی ٹیم کو منہ نہ کھولنے کے لئے رقم دے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ جس کے سبب تاریخ میں پہلی بار امریکہ کے منتخب صدر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس اسکینڈل کے بارے میں بعد میں ایک فلم بھی بنی تھی جس کا نام ’آل دی پریزیڈنٹ مین‘ تھا۔ اس فلم میں باب وڈورڈ اور کارل برن اسٹائن کے کردار مشہور امریکی اداکاروں رابرٹ ریڈ فورڈ اور ڈسٹن ہوفمین نے ادا کیے تھے۔
 

دنیا میں سب سے زیادہ پر امید کس ملک کے شہری ہیں ؟

$
0
0

دنیا بھر میں عوام میں مختلف رجحانات کو جانچنے کیلئے سروے کئے جاتے ہیں۔ عالمی کاروباری ادارے کوئی بھی نئی پراڈکٹ لانچ کرنے سے پہلے مختلف مارکیٹنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور عوام کے مزاج، پسند اور رجحانات کے مطابق پراڈکٹ کو لانچ کرتے ہیں۔ مختلف سماجی مسائل پر شہریوں کا نکتہ نظر جاننے کیلئے بھی سروے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر مختلف ممالک کے شہریوں کی مختلف سماجی حوالوں سے رائے معلوم کی جاتی ہے۔ چین کا ترقی کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے۔

ایک عالمی تحقیقی اور مشاورتی فرم کی جانب سے حال ہی میں "دنیا کے لیے پریشان کن کیا ہے"کے موضوع پر ایک سروے کیا گیا۔ نتائج کے مطابق دنیا بھر میں اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے سب سے زیادہ پرامید چینی شہری ہیں اور یہ شرح ستاسی فیصد ہے۔ سروے میں شریک پینسٹھ برس کی عمر سے کم تمام بالغ چینی شہریوں کی اکثریت نے کہا کہ ان کا ملک صحیح سمت میں گامزن ہے۔ یہ سروے چھبیس ممالک میں کیا گیا ۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، انڈیا، جاپان، روس ، امریکہ اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ چینی شہری اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پرامید ہیں.

جبکہ امریکیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کا ملک زوال کی جانب جا رہا ہے۔ 2010ء سے عالمی سطح پر لوگوں کے لیے بے روزگاری، سیاسی بد عنوانی، اور دولت کی عدم مساوات پریشان کن رہی ہے۔ اور اس کی شرح بالترتیب چھتیس فیصد، چونتیس فیصد اور تینتیس فیصد رہی ہے۔ اس سروے میں شریک چینی شہری اخلاقی قدروں کے زوال، ماحول کے لیے خطرات اور بے روزگاری کے متعلق فکر مند رہے۔ ان تینوں کی شرح بالترتیب سینتالیس فیصد، چالیس فیصد اور اکتیس فیصد ہے۔ جبکہ امریکی شہریوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک معاملات صحت، دہشت گردی، جرائم اور تشدد ہیں۔

عابد حسین


 

پاکستان کیلئے امریکی ڈکٹیشن، چین ناراض

$
0
0

آئی ایم ایف بیل آوٹ سے متعلق پاکستان کیلئے امریکی ڈکٹیشن پر چین ناراض، چین کا کہنا ہے کہ امریکا عالمی مالیاتی فنڈ کو حکم کے بجائے جنوبی ایشیا میں شراکت کرے، ادھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے بیل آوٹ کیلئے کوئی درخواست نہیں دی نہ ہی پاکستانی انتظامیہ کےساتھ کوئی مذاکرات ہوئے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے متعلق معاملات پر پاکستان مناسب طریقے سے نمٹ لے گا، آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اسے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں، تنازعات میں الجھنے کے بجائے ہمیں علاقائی امن، استحکام، ترقی وخوشحالی کو فروغ دینا چاہئے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے معمول کی پریس کانفرنس میں پاکستان سے متعلق آئی ایم ایف معاملے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے پاکستان منا سب طریقے سے آئی ایم ایف کے معاملات طے کر لے گا۔ آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اسے کسی ملک کی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔ مائک پومیو نے چینی سرمایہ کاروں کے قرض کی واپسی پر جو کچھ پاکستان کے لئے کہا اسے پاکستان بہتر سمجھتا ہے اور کنٹرول کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ چین جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کےلئے اوبور منصوبے میں امریکا سمیت تمام ممالک کو شراکت داری کی دعوت دیتا ہے۔

گینگ شوانگ نے امید ظاہر کی کہ تمام ممالک اپنی سرمایہ کاری کے لئے اور خطے کی ترقی کے لئے آ سکتے ہیں۔ ہم سب مل کر علاقے میں عوامی خوشحالی میں حقیقی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ملکر علاقائی امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینا چاہئے نہ کہ تنازعات میں الجھنا چاہئے۔ ادھرآئی ایم کی ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے’’ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی اور اس حوالے سے پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ کوئی مذاکرات بھی نہیں ہوئے۔‘‘

 

سترویں صدی کی یادگار فن تعمیر، تاج محل کی تعمیر کیسے ہوئی ؟

$
0
0

آگرہ میں سفید رنگ کی مشہور عمارت جسے سنگ مرمر سے بنا یا گیا، تاج محل کہلاتی ہے۔ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کرایا جو پانچواں مغل شہنشاہ تھا۔ وہ 1628 سے 1658 تک برصغیر پاک و ہند کا حاکم رہا۔ اس نے اپنی پسندیدہ ترین بیوی ممتاز محل کی یاد میں اسے تعمیر کیا۔ یہ 42 ایکٹر پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک مسجد اور ایک مہمان خانہ بھی ہے۔ اس کی تعمیر 1643 میں مکمل ہوئی تاہم آئندہ 10 برسوں تک اس پر اضافہ کام ہوتا رہا۔ اس وقت اس پر تین کروڑ بیس لاکھ خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے 50 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ اس پر 20 ہزار سے زائد ہنرمندوں نے کام کیا۔ ان کی رہنمائی استاد احمد لاہوری نے کی۔ 1983 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ 

ممتار شہنشاہ کی پسندیدہ ملکہ تھی۔ اپنے دور حیات کے دوران اس نے کئی سفروں کے دوران شہنشاہ کی رفاقت سرانجام دی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی ذمہ داریوں کی سرانجام دہی میں اس کی معاونت سرانجام دی تھی۔ وہ رحم دلی اور پارسائی کے لیے مشہور تھی۔ 1629 میں جب ممتاز وفات پا گئی تو شاہجہاں نے اس کے مقبرے کو ایک شاہکار بنانے کی ٹھانی۔ تاج محل میں باغات ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں۔ پتھروں سے بنائی گئی دیواریں ہیں۔ مینار ہیں اور ایک بڑا دروازہ ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً سو فٹ ہے۔ 

یہ مقبرہ تقریباً ایک مربع شکل کا حامل ہے جو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔ جب تاج محل کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچی تب شاہجہان کا یہ ارادہ تھا کہ دریا کے مخالف کنارے پر اپنے لیے بھی سنگ مرمر کا ایک مقبرہ تعمیر کروائے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کے بیٹے اورنگ زیب نے اس کے خلاف بغاوت کی اور اسے آگرہ میں نظر بند کر دیا۔ 1666 میں شاہجہان کی وفات پا گیا اور تاج محل میں اپنی بیوی کے قدموں میں دفن ہوا۔

احمد محمود

 

کمپالا : یوگنڈا کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت

$
0
0

کمپالا یوگنڈا کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ پہاڑیوں میں سطح سمندر سے 3900 فٹ کی بلندی پر ملک کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ اس کے بالکل شمال میں وکٹوریہ جھیل ہے جو دنیا میں تازے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ تاریخ میں کمپالا کا زیادہ ذکر نہیں ملتا۔ لیکن فوک کہانیوں سے پتا چلتا ہے کہ کمپالا سات پہاڑیوں پر بسایا گیا اور یہ ایک خوبصورت شہر ہے جب کہ اب یہ شہر پھیل کر بیس پہاڑیوں کا احاطہ کر چکا ہے۔ Lugard's Fort قدیمی کمپالا میں موجود ہے جو 1905ء سے یوگنڈا کے انتظامی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ 1890ء میں برطانیہ نے کمپالا کو یوگنڈا کا انتظامی مرکز قرار دیا۔ 1962ء میں کمپالا یوگنڈا کا دارالحکومت بنا اور کمپالا اور اس کے قرب و جوار میں کئی ایک عمارتیں، تجارتی مراکز، اور انڈسٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 

ملک میں زیادہ تر حصہ زرعی ہے، کمپالا کافی، چائے، تمباکو، چینی وغیرہ برآمد کرتا ہے، اس کے علاوہ ٹریکٹر اسمبل کرنے کے پلانٹ، فرنیچر اور لوہے کا سامان بھی اس شہر کی آمدن کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یوگنڈا کے بیشتر کاروباری مراکز کے ہیڈآفس بھی کمپالا میں ہیں۔ Makerer یونیورسٹی کمپالا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے جس کا آغاز 1922 میں ہوا اور 1949 میں اسے کالج یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور 1970 میں یہ مکمل یونیورسٹی بن گئی۔ یوگنڈا کا قومی عجائب گھر بھی کمپالا میں ہے۔ 

یہ شہر کئی مساجد کا گھر ہے جن میں White Kibuli مسجد انتہائی خوبصورت اور قابل ذکر ہے، اس کے علاوہ مندر، چرچ، کیتھیڈرل وغیرہ بھی موجود ہیں۔وکٹوریہ جھیل پر ایک بندرگاہ بھی قائم ہے، Kasese سے ممباسہ تک ریلوے لائن اس شہر کی آمدورفت کا ذریعہ ہے۔ بہرحال یہ شہر ہر طرح سے دلچسپ ہے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک حصہ قدیمی اور دوسرا جدید۔ اس شہر کا موسم ہمیشہ خوشگوار رہتا ہے۔  

محمد دانیال


 

اسرائیلی مظالم پر جیرمی کوربن کی مزمت، نئی بحث شروع

$
0
0

برطانوی قائد حزب اختلاف جیرمی کوربن کی جانب سے حماس کے رہا کیے جانے والے قیدیوں کو بھائی کہنے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو نازیوں سے تشبیہ دینے پر برطانیہ میں نئی بحث چھڑ گئی۔ برطانوی اخبار کے مطابق گزشتہ روز جیرمی کوربن کی دو متنازعہ وڈیوز سامنے آئیں جن میں سے ایک، 2012 میں ایرانی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو کی ہے۔ ویڈیو میں جیرمی کوربن نے اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہا کیے جانے والے 1000 قیدیوں کو بھائی کہہ کر مخاطب کیا تھا ، جبکہ 2010 میں ریکارڈ کی گئی ایک اور وڈیو میں وہ لندن میں اسرائیلی ایمبیسی کے باہر مظاہرے کے دوران فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو نازیوں سے تشبیہ دیتے نظر آرہے ہیں۔ لیبر پارٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ جیرمی کوربن نے قیدیوں کے جرائم کا دفاع نہیں کیا بلکہ ان کے انسانی حقوق پر بات کی ہے۔
 


ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بلند ترین سطح پر جا پہنچا

$
0
0

موقر امریکی اداروں کی رپورٹ کے مطابق کرہ ارض میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین ہاؤس گیسس کا اخراج بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جس سے پوری دنیا کے درجہ حرارت میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا، جس سے آرکٹک میں برف پگھلنے کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر یہ جائزاتی رپورٹ دنیا کے 60 ممالک کے 450 سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر مرتب کی، جس میں گزشتہ سال دنیا بھر میں ماحول کی بگڑتی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا ہے، جبکہ گزشتہ برس ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس کلائمیٹ ڈیل سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کے بعد امریکا دنیا بھر میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلاتا ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد تحفظ ماحولیات کے معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا. امریکی صدر نے ماحولیاتی تبدیلی کو چینی پروپیگنڈا کہتے ہوئے، پیرس معاہدہ سے علیحدگی اختیار کی تھی، جس پر 190 ممالک نے دستخط کر کے فضا میں نقصان دہ اخراج کم کرنے پر زور دیا تھا۔ واضح رہے کہ دنیا میں تک ریکارڈ کردہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت پورٹو مدرائین ارجنٹینا میں ریکارڈ کیا گیا جو تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے 110.1 ڈگری فارن ہائیٹ 43.3 ڈگری سیلسئس تک جا پہنچا تھا۔

اس کے ساتھ صرف مئی کے مہینے میں پوری دنیا کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت پاکستان کے علاقے تربت میں ریکارڈ کیا گیا جو 128.3 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ 3 سو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ امریکی میٹرولوجیکل سوسائٹی اور نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کی جانب سے جاری کی گئی، جس میں ’غیر معمولی ‘ کا لفظ درجن سے زائد مرتبہ استعمال کیا گیا جبکہ اس کے ساتھ طوفانوں، خشک سالی، انتہائی شدید درجہ حرات اور برف باری میں کمی کا ذکر بھی کیا گیا۔ رپورٹ میں جن باتوں کا ذکرکیا گیا ان میں کہا گیا کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں 3 خطرناک گیسوں کے اخراج کے خطرناک حد تک کا اضافہ ہوا، ان خطرناک گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرو آکسائیڈ شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرہ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی عالمی سالانہ شرح 4 سو 5 پارٹ فی ملین کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی، جو نہ صرف موجودہ دور میں ریکارڈ کردہ بلند ترین سطح ہے بلکہ 8 لاکھ سال قبل کے آئس کور ریکارڈ کے مطابق بھی سب سے زیادہ ہے۔ خیال رہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائید کی عالمی شرح 1960 کے مقابلے میں اب تک 400 گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے گرم ترین سال 2016 قرار دیا گیا ، لیکن 2017 بھی کچھ بہتر نہیں رہا اور اس میں بھی دنیا کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت معمول کی صورتحال سے زائد ریکارڈ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق عالمی طور پر سالانہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ارجنٹینا، بلغاریہ، اسپین، اور یوراگئے میں رہا اور میکسکو میں مسلسل چوتھی مرتبہ سالانہ درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹا۔
 

سیکیورٹی کونسل کا کردار مسئلہ فلسطین حل کرنے میں ناکافی قرار

$
0
0

اقوامِ متحدہ میں سوئیڈن کے مندوب اولوف اسکوب نے غزہ میں جنگ کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مقبوضہ بیت المقدس کا مسئلہ حل کرنے میں سیکیورٹی کونسل ناکافی کردار ادا کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں سوئیڈن کے مندوب اور 15 رکنی سیکیورٹی کونسل کے سبکدوش ہونے والے صدر اولوف اسکوب کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین سیکیورٹی کونسل کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اپنے عہدے کی اختتام پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا یہ مسئلہ کبھی سیکیورٹی کونسل کی ترجیح رہا ہے؟ نہیں یہ کبھی ترجیحات میں شامل نہیں رہا‘۔


سوئیڈن کے مندوب نے امریکا کی جانب سے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ واقعات نے ہمیں امن کی جانب بڑھنے سے دور کر دیا ہے‘۔ حالیہ دنوں میں فسطینی عوام کی جانب سے مظاہروں اور اسرائیلی فوج کی بمباری کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ایک اور غزہ کی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں‘۔ اولوف اسکوب نے کہا کہ تقریباً روز مرہ کی بنیاد پر دونوں اقوام کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے، جو ایک بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔

انہوں نے سیکیورٹی کونسل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ سیکیورٹی کونسل نے اس حوالے سے موزوں اقدامات اٹھائے ہیں‘۔ سوئیڈش مندوب کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کونسل غزہ میں انسانی حقوق کی بنیادوں پر رسائی میں ناکام رہا ہے، جبکہ اس تنازع کے حل میں بہتری کی جانب بڑھنے کے امکانات بھی موجود نہیں ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ سوئیڈن نے واشنگٹن کے اس فیصلے کی تائید نہیں کی تھی جس میں عالمی برادری میں بھی اختلاف پایا گیا تھا۔

 

ایپل ایک ٹریلین ڈالر کے ساتھ امریکہ کی سب سے بڑی پبلک کمپنی بن گئی

$
0
0

ڈیجیٹل الیکٹرانک کمپنی ایپل نے ایک ٹریلین ڈالر کے سرمائے کے ساتھ امریکہ کی سب سے بڑی پبلک کمپنی ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ایپل کو یہ مقام حاصل کرنے میں لگ بھگ 40 سال کا عرصہ لگا اور اس کامیابی کا سہرا کمپنی کی ایک منفرد پراڈکٹ آئی فون کو جاتا ہے، جس کی دنیا بھر میں مانگ ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع نے ایپل کو امریکہ کی سب سے زیادہ سرمائے کی حامل کمپنی کا درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی کمپنی کے سٹاک میں 2.8 فی صد کا اضافہ ہوا جس سے منگل سے شروع ہونے والے تسلسل میں یہ اضافہ 9 فی صد تک پہنچ گیا۔ ایپل کے شیئرز میں حالیہ اضافہ اس وقت شروع ہوا جب کمپنی کی جون کی سہ ماہی میں توقع سے زیادہ منافع ظاہر ہوا اور اس نے اپنے 20 ارب ڈالر کے شیئرز خود خرید لیے۔

ایپل کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ اس کا آغاز 1976 میں کمپنی کے شریک بانی سٹیو جوبز نے اپنے گیراج میں کیا اور ایپل کمپیوٹرز بنانے شروع کیے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کمپیوٹر کی مارکیٹ میں شديد مسابقت کی وجہ سے ایپل کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو گیا اور کمپنی کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب کمپنی نے ایک اور پہلو پر سوچنا شروع کیا کہ عام لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے اور ان کے رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ سوچ پہلے آئی فون کی ایجاد کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

اگرچہ اس وقت مارکیٹ میں بہت سے موبائل فونز موجود تھے اور چھوٹے سے چھوٹا موبائل فون بنانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی، لیکن ایپل ان سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس کی سکرین دوسرے موبائل فونز سے بڑی تھی۔ یہ صرف فون ہی نہیں تھا بلکہ اس کی سکرین صارف کو کئی اور ڈیجیٹل سہولتیں بھی مہیا کرتی ہے۔ آئی فون کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اور ایپل کے منافع میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔
آئی فون کی ایجاد نے موبائل فون انڈسٹری کو سوچ اور انداز کو ایک نئی جہت دی اور آج ایسا موبائل فون ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا جس میں سمارٹ فون کی سہولتیں موجود نہ ہوں۔

اس وقت مارکیٹ میں آئی فون کی آٹھویں نسل موجود ہے اور اس کے آئی فون ایکس کی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر پذیرائی کی جا رہی ہے جس کا نتیجہ جون کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں اندازوں سے زیادہ منافع کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ ایپل، ڈسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، آئی پیڈ اور آئی فونز کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک کی کئی دوسری چیزیں بھی بنا رہا ہے لیکن اس کی جس پراڈکٹ کی مانگ سب سے زیادہ ہے، وہ آئی فون ہی ہے۔ پچھلے سال ایپل کا منافع 229 ارب ڈالر تھا جس نے اسے سب سے زیادہ منافع بخش پبلک کمپنی بنا دیا تھا۔
اسٹاک مارکیٹ میں دوسرے نمبر پر جو کمپنی ایپل کا پیچھا کر رہی ہے وہ نہ تو ٹیکنالوجی کی کمپنی ہے اور نہ ہی کوئی مالیاتی ادارہ اور نہ ہی اس کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہے۔ بلکہ یہ کمپنی بنیادی طور پر فروخت کار اور خریدار کو رابطے کا ایک جدید پلیٹ فارم فراہم کرنے والی کمپنی ہے۔ اس کمپنی کا نام ہے ایمزان۔ سٹاک مارکیٹ میں ایمزان کا سرمایہ 880 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اس کے بعد مائیکرو سافٹ کا نمبر آتا ہے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس رفتار سے ایمزان کا دائرہ اور منافع بڑھ رہا ہے، وہ آنے والے برسوں میں ایپل کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔

جمیل اختر
بشکریہ وائس آف امریکہ   

برمودا ٹرائی اینگل کا 'راز'ایک مرتبہ پھر دریافت کرنے کا دعویٰ

$
0
0

سائنسدانوں نے دنیا کے پراسرار ترین خطے سمجھے جانے والے برمودا ٹرائی اینگل کا راز ایک بار پھر 'دریافت'کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ خیال رہے کہ فلوریڈا، برمودا اور پیورٹو ریکو کے سمندری خطے کی تکون کو برمودا ٹرائی اینگل کا نام دیا گیا ہے جہاں دہائیوں سے بحری جہاز اور طیارے پراسرار طور پر غائب ہونے کی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں اور ان کا ملبہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ برسوں سے سائنسدان اور دیگر حلقے ہر طرح کے نظریات پیش کرتے رہے ہیں تاکہ وہاں 'پراسرار گمشدگیوں'کی وضاحت کی جا سکے۔ درحقیقت سائنسدانوں نے کہا ہے کہ پیورٹو ریکو، فلوریڈا اور برمودا کے درمیان واقع اس سمندری تکون کا اسرار وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔

برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔ محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔ اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا، یہ وہ جہاز تھا جو 1918 میں برمودا ٹرائی اینگل میں 300 افراد کے ساتھ گم ہو گیا تھا۔ 542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہو سکا۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔ اس سے قبل امریکی سائنسدانوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔ کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم'کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔ مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہو جاتے ہیں۔
 

شمالی کوریا نے اپنا جوہری، میزائل پروگرام نہیں روکا

$
0
0

اقوامِ متحدہ کی ایک خفیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے عالمی ادارے کی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا جوہری اور میزائل پروگرام بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز'کے مطابق مذکورہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر عائد پابندیوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے غیر جانب دار ماہرین نے مرتب کی ہے۔ ماہرین کا یہ پینل ہر چھ ماہ بعد اپنی یہ رپورٹ سلامتی کونسل کو پیش کرتا ہے اور تازہ رپورٹ  سلامتی کونسل کی شمالی کوریا پر پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کو پیش کی گئی ہے۔ 'رائٹرز'کے مطابق اسے رپورٹ کی ایک نقل ملی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا عالمی ادارے کی جانب سے عائد پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس نے اپنا جوہری اور میزائل پروگرام نہیں روکا ہے۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ 2018ء کے دوران شمالی کوریا کی جانب سے بحری جہازوں کے ذریعے خفیہ طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلے کی منتقلی میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا جو عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کسی بھی عالمی پابندی کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا اور شام کے درمیان فوجی تعاون بدستور جاری ہے جب کہ پیانگ یانگ حکومت یمن کے وسیع علاقے پر قابض حوثی باغیوں کو ہتھیار فروخت کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شمالی کوریا پر ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی ہے لیکن اس نے اکتوبر 2017ء سے مارچ 2018ء کے دوران 10 کروڑ ڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کیں۔ شمالی کوریا سے یہ مصنوعات خریدنے والوں میں چین، گھانا، بھارت، میکسیکو، سری لنکا، تھائی لینڈ، ترکی اور یورا گوئے شامل تھے۔ اقوامِ متحدہ کے لیے شمالی کوریا کے مشن نے ماہرین کی اس رپورٹ پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت منظرِ عام پر آئی ہے جب چین اور روس نے سلامتی کونسل کو تجویز دی ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان ملاقات اور اس میں ہونے والے اتفاقِ رائے کے بعد پیانگ یانگ پر پابندیاں نرم کرنے پر غور کرے۔

جون میں سنگاپور میں ہونے والی اس تاریخی ملاقات میں کم جونگ ان نے خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن چین اور روس کے مؤقف کے برعکس امریکہ اور کونسل کے دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد تک اس پر پابندیوں کا سختی سے نفاذ جاری رہنا چاہیے۔ سلامتی کونسل نے 2006ء میں متفقہ طور پر شمالی کوریا پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں جن کا مقصد اس کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے وسائل کی فراہمی روکنا تھا۔ ان پابندیوں کے تحت شمالی کوریا پر کوئلہ، لوہا، سیسہ، ٹیکسٹائل مصنوعات اور سمندری خوراک برآمد کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی جب کہ خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کو بھی محدود کر دیا گیا تھا۔
 

بیس ہزار فٹ کی بلندی پر تین دن سے پھنسے روسی کوہ پیما کو بچا لیا گیا

$
0
0

چھ دن تک 20 ہزار فٹ کی بلندی پر بے یارو مددگار پھنسے رہنے والے روسی کوہ پیما الیگزینڈر گوکوف نے بتایا کہ وہ اس اکیلے پن کی حالات میں ہذیانی کیفیت سے گزر رہے تھے اور ان کو ایسا لگا کہ وہ بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے ہیں حالانکہ ان کے ارد گرد شدید برفانی طوفان جاری تھا۔ الیگزینڈر گوکوف پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی 7145 میٹر بلند چوٹی لاٹوک ون سر کرنے نکلے تھے لیکن مہم کے دوران برفانی طوفان کی وجہ سے وہ پھنس گئے۔ اُن کے پاس خوراک ختم ہو گئی اور ان کا ساتھی بھی نیچے آتے ہوئے گر کر ہلاک ہو گیا۔

انھیں پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بچایا گیا اور واپسی پر انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان مشکل حالات میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی 18 سال سے ساتھ دینے والی پارٹنر سے شادی کرنے کا سوال کریں گے۔ الیگزینڈر گوکوف نے بتایا کہ وہ اور ان کے 26 سالہ ساتھی سرگئی گلیزونو چوٹی کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن خراب موسم آڑے آگیا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے نیچے اترنے کا فیصلہ کیا جب ان کا ساتھی پھسل کر گر گیا۔ روسی کوہ پیما کے پاس سوائے دو رسیوں کے اور کوئی ساز و سامان نہیں بچا تھا اور ان کی ٹریکنگ ڈیوائس کی بیٹری بھی صرف دو فیصد رہ گئی تھی۔ لیکن وہ مدد کے لیے پیغام بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔

'میں نے مدد کے لیے پیغام بھیجا کہ مجھے یہاں سے بچایا جائے اور انھوں نے وعدہ کیا کہ اوکے۔ لیکن موسم ۔۔۔ میں نے آج تک ایسا موسم نہیں دیکھا۔ سات دن لگاتار وہاں پر برفانی طوفان پر برفانی طوفان آ رہا تھا۔' روسی کوہ پیما نے وہاں پر برف میں اپنے لیے کیا خول بنا لیا اور اپنے سیٹلائٹ فون کی مدد سے رابطے میں رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کو وہاں پر کچھ نظر نہیں آرہا تھا لیکن بچاؤ کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹروں کی آواز آ رہی تھی۔ الیگزینڈر گوکوف کو بچانے کے لیے متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن خراب موسم کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن جب مطلع صاف ہوا تو کہیں جا کر آرمی ہیلی کاپٹر ان تک پہنچ سکے۔

ان کی حالات کافی لاغر تھی اور انھوں نے تین دن بغیر کچھ کھائے پیے گزارا تھا اور پیروں مں فروسٹ بائٹ ہو گیا تھا۔ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج گوکوف کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا کوہ پیما کے پاؤں کو بچایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ الیگزینڈر گوکوف نے کہا کہ ان کو دوست کی موت کا بہت پچھتاوا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کسے قصور وار ٹھہرائیں ۔  'میں کیا کہہ سکتا ہوں، میں کیا بتا سکتا ہوں۔ میرے خیال میں غلطی کی وجہ سے موت ہوئی لیکن میں نہیں جانتا کہ کس کی غلطی تھی۔ شاید اس کی، یا خدا کی۔'

بشکریہ بی بی سی اردو
 

وینزویلا کے صدر پر خطاب کے دوران ڈرون سے حملہ

$
0
0

وینزویلا کے صدر نکولس مدورو بارود سے بھرے ڈرون کے ذریعے کیے جانے والے ایک مبینہ قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے ہیں البتہ حملے میں کئی فوجی اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ وینزویلا کے حکام کے مطابق حملہ اس وقت کیا گیا جب صدر مدورو ایک فوجی تقریب سے خطاب کر رہے تھے جو ٹی وی پر براہِ راست دکھائی جارہی تھی۔ واقعے کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدر مدورو اور ان کےساتھ موجود ان کی اہلیہ سیلیا فلوریس تقریر کے دوران اچانک آسمان کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور اسی دوران پسِ منظر میں دھماکہ سنائی دیتا ہے۔ وینزویلا کے وزیرِ اطلاعات جارج روڈریگز نے کہا ہے کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب صدر مدورو ملکی افواج کی 81 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ 

وزیرِ اطلاعات کے مطابق حملے میں صدر مدورو اور ان کے ساتھ موجود ملک کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی ہے لیکن فوج کے سات اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ وینزویلا کے فوجی اہلکاروں نے اس مقام کو گھیر رکھا ہے جہاں مبینہ طور پر ڈرون حملہ کیا گیا۔ واقعے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مدورو نے دعویٰ کیا کہ حملے کا مقصد انہیں قتل کرنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے کہ اچانک ایک اڑنے والی چیز ان کی آنکھوں کے سامنے دھماکے سے پھٹ گئی۔ صدر مدورو کے بقول پہلے وہ یہ سمجھے کہ شاید یہ تقریب کے سلسلے میں کیا جانے والا کوئی مظاہرہ ہے لیکن اسی دوران دوسرا دھماکہ ہوا اور تقریب میں بھگدڑ مچ گئی۔ واقعے کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکوں کے بعد قطاروں میں ترتیب سے کھڑے فوجی اہلکار تتر بتر ہو گئے جب کہ محافظ صدر مدورو کو اپنے حصار میں تقریب سے لے گئے۔

صدر مدورو نے الزام عائد کیا ہے کہ حملے میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر ملوث ہیں جنہیں ان کے بقول کولمبیا کے صدر جوان مینوئل سانتوس اور بگوٹا اور میامی میں موجود وینزویلن باغیوں کی مدد حاصل ہے۔ وینزویلا کی حکومت ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کارروائیوں اور حکومت مخالف مظاہروں کا الزام اندرون و بیرونِ ملک موجود حزبِ مخالف کے کارکنوں پر عائد کرتی ہے جو اس کے بقول صدر مدورو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک غیر معروف باغی گروپ 'سولجرز ان ٹی شرٹس'نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بارود سے لدے دو ڈرون صدر کو نشانہ بنانے کے لیے روانہ کیے تھے لیکن انہیں فوجی اہلکاروں نے ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی مار گرایا۔

وینزویلا کے اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ قاتلانہ حملے کا ہدف صرف صدر مدورو نہیں بلکہ پوری فوجی قیادت تھی جو حملے کے وقت صدر کے ہمراہ اسٹیج پر موجود تھی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں کئی افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات کے حامل صدر مدورو نے 2013ء میں صدر ہیوگو شاویز کے انتقال کے بعد وینزویلا کا اقتدار سنبھالا تھا۔ ان کی حکومت کے آغاز سے ہی وینزویلا شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور گزشتہ پانچ سال سے جاری اس بحران کے باعث قوم کو خوراک اور بنیادی اشیائے ضرورت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔  

 


This is the Bridge "Held" by a Pair of Giant Hands in Vietnam

$
0
0

In the mountains of central Vietnam, a colossal pair of hands lifts a golden thread of walkway high above the clifftops, as if the mountain itself has sprouted limbs. The Golden Bridge is a 500-foot (150 m) long pedestrian bridge in the Bà Nà Hills resort, near Da Nang, Vietnam. It is designed purely as a scenic overlook and tourist attraction. The bridge loops nearly back around to itself, and has two giant stone hands designed to appear to support the structure. The client for the project was the Sun Group. The bridge was designed by TA Landscape Architecture based in Ho Chi Minh City. The company's founder, Vu Viet Anh, was the principal designer. The bridge opened in June 2018.







دنیا کا ”طاقتور ترین سُپر کمپیوٹر “ امریکہ کی جگہ چین بازی لے گیا

$
0
0

چین زندگی کے ہر شعبے میں آگے نکلنے کی دوڑ میں امریکا کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے اور جہاں اس نے گاڑی سازی کے میدان میں امریکہ پر سبقت حاصل کر لی وہیں اب دنیا کے سب سے تیز ترین سپر کمپیوٹر کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ جرمنی میں منعقدہ SC16 کانفرنس میں ٹاپ 500 کمپیوٹرز کی فہرست کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ایک بار پھر چین نے Taihu Light نامی سپر کمپیوٹر نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے ۔ دنیا کا یہ تیز ترین کمپیوٹر 93 کواڈریئلن فی سیکنڈ کی رفتار سے اعداد و شمار میں جمع تفریق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور100 پیٹا فلوپس کا حامل ہے۔

سینکڑوں ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اس سپر کمپیوٹر کو ڈیزائن کرنے والے سینکڑوں انجینئرز کوطویل عرصہ لگا اور پھر ہی یہ سپر کمپیوٹر سینکڑوں ریفریجریٹرز جتنے بڑے کیبنٹس میں سمایا ہے۔  جس میں تمام سسٹم کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے بھی جدید نظام نصب کیا گیا ہے اور پاور سپلائی سسٹم بھی نصب ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے طاقتور ترین سپر کمپیوٹرز کی لسٹ مرتب کرنے والے ادارے کی جانب سے جاری کی گئی 48 ویں سالانہ فہرست میں Taihu Light پہلی پوزیشن پر موجود ہیں۔
 

ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ.

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی ہیں۔ ان
پابندیوں کا اطلاق ہو گیا ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایران کی حکومت کو ایسی ’’قاتلانہ آمریت‘‘ قرار دیا جو مسلسل ’’خونریزی، تشدد اور ہنگامہ آرائی‘‘ کرتی رہی ہے۔ ایران پر یہ پابندیاں 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے صدر ٹرمپ کے باہر نکل جانے کے اعلان کے تین ماہ بعد عائد کی گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ نئی پابندیاں ایران کی کارسازی کی صنعت، سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت کے علاوہ ایران کی کرنسی ’ریال ‘ اور اُس کے دیگر مالیاتی سودوں پر اثر انداز ہوں گی۔

اُنہوں نے کہا کہ پانچ نومبر سے امریکہ ایران کی ایندھن سے متعلقہ تجارت پر بھی پابندیاں عائد کر دے گا۔ اس سے غیر ملکی مالیاتی اداروں کے ایران کے مرکزی بینک سے لین دین پر شدید منفی اثر پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے ان پابندیوں کا اعلان نیو جرسی میں اپنے گولف کورس میں ورکنگ تعطیلات کے دوران کیا۔ اُنہوں نے 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ایک بار پھر ’’انتہائی خراب یک طرفہ معاہدہ‘‘ قرار دیا جو بقول اُن کے ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے طے ہونے کے بعد ایران کی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے اور تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے مالی سرمائے کو ایران نے جوہری ہتھیاروں کے حامل میزائلوں کی تیاری، دہشت گردی اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ہوا دینے پر خرچ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایران اب بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو دھمکیاں دیتا ہے، بین الاقوامی مالیاتی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دیتے ہوئے پراکسی جنگ کی حمایت کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ 100 کے لگ بھگ بین الاقوامی کمپنیوں نے ایرانی مارکیٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے جن میں زیادہ تر کمپنیاں توانائی اور مالیاتی شعبوں میں کام کر رہی تھیں۔

Earthquake rocks Indonesia resort island

$
0
0

Rescue workers face scenes of destruction across Indonesia's resort island of Lombok after an earthquake of magnitude 6.9 killed dozens in the second powerful quake in a week.









ایردوان کا ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب

$
0
0

ترکی اور پاکستان امریکہ کے دو ایسے اتحادی ممالک ہیں جن کی امریکہ کے ساتھ دوستی اونچ نیچ کا شکار رہتی ہے۔ دونوں ممالک (ترکی اور پاکستان) کی آپس کی دوستی تو دنیا بھر میں مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے لیکن دونوں ہمیشہ ہی سے امریکہ کے دبائو میں رہے ہیں اور امریکہ نے بھی ان ممالک کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے اور بعد حالات رحم و کرم پر چھوڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے ان دونوں ممالک کے دفاع کو مضبوط بنانے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے امریکہ نے ان دونوں ممالک کی افواج پر طویل عرصے اپنی گرفت بھی قائم کئے رکھی اور ان دونوں ممالک میں مارشل لا لگنے کی صورت میں فوجی انتظامیہ کا کھل کر ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ان ممالک پر امریکہ کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی کیونکہ امریکہ کے لئے ان دونوں ممالک میں سویلین حکومت کی بجائے فوجی حکومت کے ذریعے گرفت قائم رکھنا زیادہ آسان تھا۔

ترکی میں ایردوان دور سے قبل تک سویلین حکومت ہونے کے باوجود فوج کی تقریباً تمام ہی شعبوں میں مکمل گرفت تھی اور امریکہ بھی ترکی کی فوج کے اس رول سے بہت خوش تھا البتہ 1974 میں قبرص جنگ کے دوران جس میں ترکی نے قبرصی ترکوں کو قبرصی یونانیوں کے ظلم و ستم سے بچا کر آزاد کروایا تھا، اس دور میں تھوڑے عرصے کے دوران پہلی بار امریکہ کی جانب سے ترکی پر پابندیاں عائد کی گئیں اور ترکی کو اسلحے کی ترسیل روک دی گئی لیکن اس کے بعد امریکہ اور ترکی کے تعلقات پرانی ڈگر پر واپس آگئے اور ترک فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں امریکہ نے کھل کر مدد کی اور نیٹو میں اسے امریکہ کے بعد ایک اہم ملک کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔

ایک جدید اور منظم ترک فوج نے کنعان ایورن کے مارشل لا کے بعد پردے کے پیچھے رہتے ہوئے سویلین حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے اور حکومتیں گرانے کا سلسلہ جاری رکھا جو ایردوان دور تک جاری رہا اور 15 جولائی 2016 کی ناکام منظم بغاوت سے قبل بھی دوبار فوج کی جانب سے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی۔ امریکہ نےسی آئی اے اور فتح اللہ گولن کے ذریعے 15 جولائی 2016 کو ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی جو آخری کوشش کی تھی اسے ایردوان حکومت اور عوام نے مل کر ناکام بنا دیا تھا اور اس کے بعد ہی سے ترکی میں فوج کی سویلین حکومت پر گرفت ختم ہو کر رہ گئی اور صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد سے ترک فوج وزیر دفاع کی نگرانی میں اپنے فرائض بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔

ترکی میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد صدر ایردوان کی عوام کی تائید اور حمایت سے پوزیشن بڑی مضبوط ہو چکی ہے اور وہ ترکی کے تمام اداروں پر مکمل طور پر دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے اس کے ذمہ دار فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے اور اس میں ملوث تمام افراد کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ایردوان کے اسی مطالبے اور کریک ڈائون کی وجہ سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی، جس میں اس وقت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب ترکی نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور ترکی نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی میں قراداد منظور کروا کر امریکہ کو دنیا میں تنہا کر دیا۔ صدر ایردوان امریکہ کی شام سے متعلق دوغلی پالیسی اور خاص طور پر ترکی کی دہشت گرد تنظیموں ’’پی کے کے‘‘ ، ’’پی وائی ڈی‘‘ اور ’’وائی پی جی‘‘ کی پشت پناہی کرنے پر بھی شدید برہم ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر کو متنبہ کرتے ہوئے اس دوغلی پالیسی سے باز آنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں سلگتی ہوئی آگ نے اب شدت اختیار کر لی ہے اور اس آگ کو ہوا دینے میں امریکہ کے صدر سمیت اعلیٰ حکام کا بڑا ہاتھ ہے۔ ترکی میں دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ اور ’’پی کے کے‘‘ کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی پادری انڈریو برنسن جن پر ازمیر کی ایک عدالت میں دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے اور ریاست کے رازوں کی جاسوسی کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ انڈریو کی رہائی کیلئے امریکی دبائو سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہایت خراب سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ چند روز قبل تک امریکہ نے ترکی کو دھمکیاں دیتے ہوئے واضح پیغام دے دیا کہ اگر اس نے پادری کو رہا نہ کیا تو ترکی پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ کے نائب صدر مائک پینس نے ترک حکام کو خبردار کیا اور بعد میں رہی سہی کسر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ امریکہ ایک بہت ہی اہم عیسائی خاندان سے تعلق رکھنے والے اور بہت ہی اچھے انسان انڈریو برنسن کو طویل عرصے قید کی سزا کی صورت میں ترکی پر فوری طور پر پابندیوں عائد کرے گا اور صدر ٹرمپ نے ایسا ہی کیا۔

اپنے بیان کے فوراً بعد ہی ترکی کے وزیر انصاف عبدالحمید گل اور وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو پر امریکہ میں موجود اثاثوں (دونوں وزرا کا کوئی اثاثہ یا لین دین امریکہ میں نہیں ہے) اور لین دین پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا جس پر ترکی نے بھی امریکہ کے ایک سپر پاور ملک ہونے کی پروا کئے بغیر امریکہ کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ پر ترکی میں موجود اثاثوں پر پابندی لگاتے ہوئے اسی ٹون میں جواب دیا۔ ترک صدر ایردوان نے ان پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی قانون کی پاسداری کرنے والا ملک ہے اور قانون کے مطابق ہی ترک عدلیہ امریکی پادری انڈریو برنسن کا فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ترکی کا اتحادی ہونے کے باوجود ازمیر میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے جانے والے پادری انڈریو کی رہائی کے لیے دبائو ڈالنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ کسی بھی صورت اسے زیب نہیں دیتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ترکی کے دو وزرا کے اثاثوں پر پابندی لگاتے ہوئے ہمیں بھی جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ اسی لئے ہم نے بھی امریکہ کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ کے ترکی میں موجود اثاثوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ دراصل صدر ٹرمپ سے کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ہمیں اس کے بارے میں بھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کو امریکی مفادات کی خاطر اس کھیل کا پتہ چلانے اور اسے فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ امریکہ ہی کو اس کا نا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ امریکہ پہلے بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ترکی کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کی کوشش کر چکا ہے اور اب امریکی پادری برنسن کی رہائی کی خاطر اٹھائے جانے والے اقدامات دونوں ممالک کی مشترکہ اسٹرٹیجی کے منافی ہیں۔ 

امریکہ نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی پروا کئے بغیر جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ترکی کو نیچا دکھانے کے مترادف ہیں لیکن ترکی کو ان حربوں اور ہتھکنڈوں سے زیر نہیں کیا جا سکتا، یہ ’’ایوانجلزم‘‘ اور ’’سیونزم‘‘ نظریے کا مظہر ہے، اور ٹرمپ اس طرح ایک بہت بڑی چال میں پھنس چکے ہیں۔ صدر ایردوان نے صدر ٹرمپ کو اس قسم کے اقدامات سے باز آنے اور مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امریکہ اپنے اتحادیوں سے دور ہو کر تنہائی کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live