↧
قطب شمالی کے دن اور رات : جہاں چھ مہینے سورج چمکتا رہتا ہے
↧
بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کے تیئس سال
گزشتہ ہفتے بوسنیا ہرزیگوینا کے علاقے سربرنیستا کی نسل کشی کے تیئس سال مکمل ہو گئے- جولائی 1995 ء میں سرب فوج اور سرب وزارت داخلہ کے خصوصی دستوں نے کمانڈر راتکو میلادک کی سربراہی میں آٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں خاص کر مردوں اور نو عمر بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- اس کے ساتھ ہی تیس ہزار سے زیادہ بوسنیائی مسلمان عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں زبردستی علاقہ خالی کرانے پر مجبور کیا گیا اور یوں علاقے سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کرایا گیا جس کو سربوں نے اپنی الگ مملکت ریپبلیکا سربسکا کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے بہت ضروری سمجھا-
قتل و غارتگری کا یہ اندوہناک کھیل یورپی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا- بوسنیا ہرزیگوینا کی پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد قتل کئے گئے جن میں دس ہزارکے قریب خواتین بھی شامل ہیں- ہلاک ہونے والوں میں لگ بھگ ستر فیصد مسلمان تھے- اس کے علاوہ ہزاروں مسلمان خواتین کے ساتھ جسمانی ذیادتی کی گئی اور لاکھوں افراد کو زبردستی نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا- 2005 ءمیں اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے سربرنیستا کے معاملے پر ایسی سنگین غلطیوں کا ارتکاب ہوا جو اقوام متحدہ کے تصورات سے میل نہیں کھاتیں- انہوں نے نسل کشی کے اس واقعہ کو ایسا سانحہ قرار دیا جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے سوہان روح بن گیا ہے-
سربرنیستا کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک ’’محفوظ مقام‘‘ قرار دیا گیا تھا جہاں جنگ سے متاثر مسلمان سربوں کے مظالم اور قتل و غارت سے تنگ آکر پناہ لے رہے تھے- اس کی حفاظت کی ذمہ داری ہالینڈ کی افواج کے پاس تھی جو اقوام متحدہ کی امن فوج کی صورت میں وہاں تعینات تھی- مگر اس فوج نے نہایت ہی افسوسناک رول ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو بچانے کے بجائے ان کو قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا- صرف 11 جولائی 1995ء کو سربوں نے دو ہزار سے زائد مسلمان مردوں اور نو عمر بچوں کو قتل کر دیا- باقی لوگ ہزاروں کی تعداد میں اقوام متحدہ کے اس ’’محفوظ مقام‘‘ سے بھاگ گئے اور نزدیک جنگلوں میں پناہ لی جہاں انہیں سرب فوج نے چن چن کر بڑی بیدردی سے قتل کر دیا- جس آسانی سے ڈچ فوج نے سربوں کو علاقے پر قبضہ اور قتل و غارتگری کی اجازت دی اس سے کئی مشاہدین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نے اس قتل عام میں سربوں کی معاونت کی-
خانہ جنگی کے دوران بوسنیا ہرزیگوینا کے چپے چپے پر قتل و غارتگری کی داستانیں رقم کی گئیں مگر سربرنیستا کا قتل عام وہ واحد مثال ہے جس کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے نسل کشی کا واقعہ تسلیم کیا گیا- دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں یہ سب سے بڑا اور سنگین ترین انسانیت سوز واقعہ ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا گیا- عالمی توثیق کے باوجود سرب سیاستدان اور عوام اور بوسنیائی سرب اور سربوں کا حلیف روس اس واقعہ کو یا تو ماننے سے کلی طور انکاری ہے یا اسے فوج میں بد انتظامی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے جو حقیقت کے عین برعکس ہے- چند سال پہلے بوسنیائی سرب رہنما ملوارڈ ڈیڈوک نے اس واقعہ کو ’’بیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا تھا‘‘۔ ماضی کی طرح اس سال بھی قتل عام کی سالگرہ پر سربوں کی طرف سے کوئی سرکاری وفد نہیں بھیجا گیا جو ان کی ضد اور نفرت کا ثبوت ہے- 2015ء میں روس نے اقوام متحدہ میں اس نسل کشی کے خلاف پیش ہونے والی مذمتی قرارداد کو ویٹو کر دیا.
حالانکہ برطانیہ اور امریکہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح سے روس اور چین کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں حائل نہ ہوں- چین نے اگرچہ قرارداد کو ویٹو نہیں کیا البتہ اس نے انگولا، نائجیریا اور وینزویلا کی طرح ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا- سلامتی کونسل میں پیش کی جانیوالی اس قرارداد میں اس نسل کشی کی مذمت کو بوسنیا ہرزیگووینا میں ہونیوالے جنگی جرائم سے نمٹنے کی جانب ایک اہم پیشرفت تصور کیا گیا تھا مگر روس کے ویٹو کی وجہ سے معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا- سربیا کے اس وقت کے صدر ٹوملاؤ نکولچ نے قرارداد کو روس کی جانب سے ویٹو کرنے کو اپنے ملک کیلئے ایک بڑا اور یادگار دن قرار دیا تھا-
بوسنیا کے پہلے مسلمان صدر اور جنگ کے دوران مسلمانوں کے قائد عالیاہ عزت بیگوویچ کی وفات کی چودہویں برسی کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے تئیں یورپ کی بےحسی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بتایا کہ ’’یورپ بوسنیا میں مر گیا اور شام میں دفن ہو گیا-‘‘ خانہ جنگی ختم ہونے کے بیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ سرب، کرویٹ، یورپ کا امتیازی سلوک بدستور جاری ہے- جہاں ایک طرف ان کے تاریخی اور ثقافتی مقامات، مساجد اور ذاتی پراپرٹی کو واگزار یا اس کی مرمت کیلئے سرکاری سطح پر جان بوجھ کر طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں وہیں انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ سرب اور کرویٹ ایسی قدغنوں سے مبرا ہیں-
میں نے ذاتی طور پر بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو، موستار اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کی ذاتی کیفیت کا مشاہدہ کیا ہے جو واقعی تشویشناک ہے۔ مسلمانوں سے نفرت نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ انہیں آج کل پھر کھلے عام نسل کشی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں- اگرچہ حالات بہت گھمبیر ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے- پچیس سال پہلے خانہ جنگی کے اس تاریک دور میں بھی برسرپیکار قوموں نے ایک دوسرے کے سینکڑوں افراد کو بچایا اور ان کی امداد کی۔ ایک بار بوسنیا میں ایک مسلمان نوجوان نے مجھے بتایا کہ کس طرح اسے سرب پیراملٹری میں شامل ہونے والے ایک سابقہ ہمسایہ نے علاقے پر سربوں کی جانب سے ہونے والے حملے کی پیشگی اطلاع دے کر اسے موت سے بچایا-
اسی طرح موستار سے بلاگئی تک سفر کے دوران میری ڈرائیور نے مجھے اپنی دلچسپ کہانی سنائی کہ اس کے والدین مختلف قومیتوں سے تعلق کے باوجود کس طرح وہ کئی بار موت کے قریب پہنچ گئی تھی مگر لوگوں کی بروقت امداد کی وجہ سے وہ بچ گئی- روسمیر محمد چیہایچ بوسنیا کے ایک مشہور و معروف اور تاریخی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں- آپ کی بیگم کا تعلق بھی ایک تاریخی اور عالم فاضل گھرانے سے ہے جن کے نانا عثمانی دور میں بوسنیا کے مفتی تھے- روسمیر اصل میں فزکس کے پروفیسر تھے مگر جنگ کے دوران آپ ایک با صلاحیت قائد کے طور پر ابھرے- خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد آپ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور آج کل مختلف مذاہب اور قومیتوں کے نوجوانوں کو اکٹھا کرنے اور انہیں مل جل کر رہنے کی ترغیب دینے میں مصروف ہیں- ان کی ان کوششوں میں میں نے بھی کچھ کچھ حصہ لیا ہے اور لیکچرز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا ہے- صلح کی یہ کوششیں واقعی قابل تعریف بھی ہیں اور قابل تقلید بھی- مگر خطے میں دائمی امن کیلئے مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا اعتراف اور ازالہ نہایت ضروری ہے-
مرتضیٰ شبلی
↧
↧
ووٹ آپ کی طاقت ہے
آج ووٹروں کا دن ہے۔ سیاسی جماعتوں نے لوگوں سے ووٹ مانگنے کی مہم چلائی جو پیر کو 12 بجے کو اختتام کو پہنچی۔ ریاست کے اداروں نے قبل از انتخابات کا منظر نامہ مرتب کیا مگر وقت پر انتخابات کرانے کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ جمہوری کے اندر یا باہر موجود جمہوریت مخالف قوتیں انتخابی فیصلے کو مسخ کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں، لیکن پولنگ کے دن صورتحال کو بگاڑنا پہلے کے مقابلے مشکل ہو سکتا ہے۔ ہولناک پرتشدد واقعات نے انتخابی مہم کے مرحلے کو بری طرح متاثر کیا، پولنگ عمل کے گرد جو سیکیورٹی کا بے مثال جال بچھایا گیا ہے اس سے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے۔
پاکستانی ووٹرز چاہے جسے بھی ووٹ دیں، کہیں بھی ووٹ ڈالیں، ان کے پاس آج کے دن یہ ثابت کرنے کا موقع ہو گا کہ منتخب کرنے کی طاقت سے وہ انتخابات کی دوڑ کو بری طرح متاثر کرنے والی سازشوں، الزامات اور ناقابلِ تردید مداخلت کا کسی حد تک تو مقابلہ ضرور کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ آج کے دن کا بڑی حد تک دارومدار الیکشن کمیشن پاکستان، نگران انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے کے طرزِ عمل پر بھی ہو گا۔ رواں دہائی کے دوران ایک مؤثر الیکشن کمیشن اور غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کے کی خاطر کئی ساری آئینی اور قانونی تبدیلیاں کی گئیں۔ افسوس کہ الیکشن کمیشن کو غیر معمولی اختیارات دینے اور بااختیار بنانے کے بعد بھی ریاستی اثر کے سائے سے نکل نہ سکا۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو اب بے مثال انتظامی اور قانونی اختیارات حاصل ہیں۔
تاہم، ابھی تک الیکشن کمیشن بطور ایک ادارہ جمہوری توقعات پر پورا نہیں اترا ہے؛ مگر یہ ادارہ آج کے دن ووٹنگ کے عمل سے لے کر ووٹنگ کی گنتی اور پھر نتائج کے اعلان تک، پولنگ کے عمل کو پرسکون انداز میں انجام دے کر اپنی ساکھ کو کسی حد تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح نگران انتظامیہ بھی اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ ظاہر اور متنازع نہیں رہی ہے مگر آج کے دن کے پس منظر میں الیکشن کمیشن کی ہمواری کے ساتھ مدد کر کے بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مظاہرہ کرنے کی مدد حاصل ہو سکتی ہے اور شاید نگران نظام کی سبکدوشی کی ضرورت نہ پڑے۔
پولنگ کے دن یہ بھی سوچ سوار رہتی ہے کہ شام 6 بجے کے بعد کیا ہو گا، جب ووٹنگ کا عمل ختم اور گنتی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ملک کو لاحق سیاسی، اقتصادی، سیکیورٹی اور ایک مدت سے سماجی چیلینجز کے پیش نظر مرکز میں ایک مضبوط مینڈیٹ کی ضرورت ہے، اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد کی وفاقیت میں صوبوں کا کردار اور ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ ہیں، اور ممکن ہے کہ حکومت کا مینڈیٹ بھی صوبوں سے ہی ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس طرح وفاقیت کے مرکز میں مختلف اقسام کے تناؤ میں کمی تو واقع ہو سکتی ہے مگر قومی سیاسی استحکام کو لاحق رسک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دو عناصر غالب آسکتے ہیں۔
اگر پی ٹی آئی کی فتح ہوتی ہے تو ان کی اعلان کردہ کرپشن کے خلاف جنگ اسے قانونی اصولوں کے مطابق اور غیرجانبدارنہ بنیادوں پر لڑنی ہو گی۔ مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لیے کرپشن کے خلاف جنگ ضروری اور ناگزیر ہے اور اسی لیے یہ بھی ضروری کہ کرپشن کی روک تھام شفافیت اور منصفانہ انداز میں کی جائے۔
اگر مسلم لیگ (ن) فتح حاصل کرتی ہے تو پارٹی کو اپنے سیاسی اور حکومتی ایجنڈے کا مرکز اپنے حقیقی قائد نواز شریف کو نہیں بنانا چاہیے۔ نواز شریف کے مقدمے اور اپیلوں کا عمل ان کی پارٹی کی سیاسی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوری عمل فرد واحد کے قانونی اور سیاسی مستقبل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اسے آگے بھی اہمیت کا حامل رکھنا چاہیے۔ آخر میں، تمام ہی کو یہ سوچنا چاہیے کہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں کیوں پیش آئیں اور کیوں حالیہ برسوں میں جمہوریت نے طاقت اور روح کھوئی۔ اس کے پیچھے جمہوریت مخالف قوتیں ہیں اور ایک سرگرم عدلیہ کو چاہیے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
اگلی پارلیمنٹ کو جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں مسلسل ناکامی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوریت مخالف قوتوں کی مدد سے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کے ارادوں جیسے مسائل کا بلا تاخیر حل تلاش کرنا ہو گا۔ تاہم آج کے لیے صرف اک سادہ سا پیغام کہ براہ کرم ووٹ دیں۔
یہ اداریہ 25 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
↧
عام انتخابات 2018 : فیصلے کی گھڑی
عام انتخابات 2018 کے سلسلے میں بعض عوامل کی وجہ سے قدرے تاخیر سے شروع ہونے والی انتخابی مہم پیر اور منگل کی درمیانی رات ختم ہونے کے بعد بالآخر فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ آج 10 کروڑ 59 لاکھ سے زائد مرد وخواتین رائے دہندگان اگلے پانچ سال کے لئے اپنے نئے حکمرانوں کا انتخاب کریں گے۔ یوں ملک میں جو اپنے قیام کے بعد تقریباً نصف مدت تک آمریتوں کے تسلط میں رہا مسلسل تیسرے جمہوری دور میں داخل ہو جائے گا۔ دنیا جمہوری ملکوں میں ہونے والے انتخابات کے عمل کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے۔ ان کی شفافیت پر کڑی نظر رکھتی ہے اور مستقبل کے حکمرانوں کی متوقع پالیسیوں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے تاکہ ان کے اثرات کا پیشگی ادراک کر سکے۔
آج پاکستان پر بھی ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ہمارے لیڈروں کی انتخابی مہم، ایجنڈے اور عوامی شعور کے حوالے سے اپنے تجزیے پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن قومی اور بین الاقوامی تناظر میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ انتخابی سرگرمیوں کے دوران امن و امان کو لاحق خطرات کی روشنی میں پرامن پولنگ اور شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی بار تقریباً پونے چار لاکھ فوجیوں اور ساڑھے چار لاکھ پولیس اہلکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جنہوں نے 85 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر جن میں سے 17 ہزار سے زائد حساس قرار دیئے جا چکے ہیں اپنی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) کی وارننگ کے پیش نظر دوسرے حفاظتی اقدامات کے علاوہ پاک افغان سرحد 25 جولائی کو ایک روز کے لئے مکمل بند کر دی گئی ہے الیکشن کمیشن نے جہاں مقررہ وقت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے دن رات محنت کی وہاں دھاندلی سے پاک اور صاف و شفاف انتخابات کے لئے ماضی کے مقابلے میں کئی غیر معمولی اقدامات کئے۔ رائے دہندگان کی رہنمائی کے لئے ووٹ ڈالنے کا جامع طریقہ کار اور قواعد و ضوابط مشتہر کئے اور ووٹ کے آزادانہ استعمال کے لئے انہیں ضروری سہولتیں فراہم کیں کاغذات نامزدگی کی سخت اسکروٹنی کی گئی جس کے نتیجے میں دو سو سے زائد امیدوار انتخابی عمل سے باہر ہو گئے ہیں عام انتخابات کے انعقاد پر اس مرتبہ 21 ارب روپے سے زائد رقم صرف ہو گی جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
اس سے انتخابات کو صاف وشفاف بنانے کے لئے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی گہری دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ خواتین کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے لئے ضابطے نافذ کئے گئے ہیں ووٹر مرد ہوں یا خواتین آج ووٹ ڈالنے کے لئے ضرور باہر نکلیں، انتخابی مہم کے دوران اگرچہ زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں نے مستقبل کا پروگرام پیش کرنے سے زیادہ مخالفین کی کردارکشی پر زور خطابت صرف کیا ہے لیکن ان کے انتخابی منشور بھی موجود ہیں جن سے رائے دہندگان کو بہتر نمائندے چننے میں مدد ملے گی۔ عوام کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ذات برادری اور رنگ و نسل کے امتیاز سمیت ہر طرح کے تعصبات اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور صرف ملک کے مفاد کو ترجیح دیں اور اہل اور دیانتدار نمائندوں کا انتخاب کریں۔
یہ یاد رکھیں کہ ان کا ووٹ قوم کی امانت ہے اور امانت میں خیانت بہت بڑا جرم ہے، اس موقع پر عوام کا درست فیصلہ ہی محفوظ خوشحال اور مستحکم پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ملک کو اس وقت جو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش میں ان سے نمٹنے کے لئے اہل قیادت کا انتخاب از بس ضروری ہے، الیکشن کی ساکھ اگرچہ پہلے ہی تنازعات کی زد میں ہے لیکن جو بھی برسراقتدار آئے اسے چاہئے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے اور قوم کو تقسیم نہ ہونے دے قومی یک جہتی اور اتحاد کے لئے گروہی مفادات کی قربانی ضروری ہے۔ یہ سیاسی رہنمائوں کے تدبر کا بھی امتحان ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر قوم کو انتشار و افتراق سے کس طرح بچاتے ہیں۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
الیکشن 2018ء : پاکستان کو ووٹ دینے کا دن آگیا
قومی اسمبلی کے 270 اور صوبائی اسمبلیوں کے 570 نشستوں پر الیکشن 2018ء میں ووٹ ڈالنے کا دن آن پہنچا ،آج پاکستان میں جمہوریت کو ووٹ دینے کا دن ہے۔ عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر اسے کامیاب بنائیں اور جمہوریت کو ملک میں آگے لے کر جائیں، پانچ سال بعد عوام کا فیصلہ سنانے کا وقت آگیا ۔
کون حکومت بنائے گا ، کون اپوزیشن میں جائے گا ، کون ہاری بازی پلٹے گا ، کون جیتی بازی ہارے گا اس کا فیصلہ آج عوام کا ووٹ کرے گا، پولنگ صبح 8 بجے شروع ہو گی اور شام 6 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔
انتخابی نعروں، وعدوں، دعوؤں، اور یقین دہانیوں کا وقت ختم ہو گیا، فیصلے کا اختیار 5 سال بعد ایک بار پھر عوام کے پاس آ گیا۔عوام طے کریں گے کہ ان 5 برسوں کے عرصے میں کون سا امیدوار ان کی توقعات پر پورا اترا اور کس نے ان کا مان توڑ دیا، امیدوار حکومت میں رہا ہو یا اپوزیشن میں، اب عوام طے کریں گے کہ وہ کس سے کتنے مطمئن رہے۔
الیکشن 2018ء میں 10 کروڑ 59 لاکھ سے زائد ووٹر حق رائے دہی استعمال کریں گے جن کے لئے پیغام ہے کہ وہ صبح جائیں ، دوپہر کو پہنچیں یا شام کو فرض نبھائیں ، ووٹ دینے سے ہرگز نہ کترائیں ، ملک کے لیے باہر نکلیں ، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پاکستان کو ووٹ دیں ۔
پنجاب کے 6 کروڑ 6 لاکھ 72 ہزار 870، سندھ میں 2 کروڑ 23 لاکھ 97 ہزار 244، خیبرپختونخوا میں 1 کروڑ 53 لاکھ 16 ہزار 299، بلوچستان میں 42 لاکھ 99 ہزار 494، فاٹا کے 25 لاکھ 10 ہزار 154، اسلام آباد کے 7 لاکھ 65 ہزار 348 ووٹرز اپنا حق راہے دہی استعمال کریں گے ۔
عام انتخابات کےلئےملک بھر میں 85 ہزار 3 سو 7 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں،17 ہزار 7 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور20 ہزار 789 حساس قرار دئیے گئے ہیں۔
پولنگ کے روز موبائل فون پولنگ اسٹیشن کے اندر لے جانے پر پابندی ہو گی ، صحافی بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر موبائل فون نہیں لے جا سکیں گے ، انہیں ویڈیو کیمرے پولنگ اسٹیشن کے اندر کی ویڈیو بنا سکیں گے۔
ملک بھر میں 16 لاکھ کے قریب انتخابی عملہ خدمات سرانجام دے گا ،ان میں 85 ہزار 307 پریزائیڈنگ افسران ، 5 لاکھ 10 ہزار 356 اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران اور 2 لاکھ 55 ہزار 178 پولنگ افسران بھی شامل ہیں۔
131 ڈی آراوز ،840 آراوز خدمات انجام دیں گے ، 4 لاکھ پولیس اہلکار اور 3لاکھ 70ہزار فوجی جوان تعینات کئے گئے ہیں، فوجی جوانوں کی تعیناتی کا مقصد شفاف انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے ، محفوظ اور پُرامن ماحول کے لیے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی انتظامیہ کے درمیان رابطہ ہے ۔
ملک میں پرامن انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے پاک افغان سرحد پر باب دوستی تک کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ پشاور میں دفعہ 144 کے تحت افغان مہاجرین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔
قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلی کے 6 حلقوں پر الیکشن ملتوی کر دیے گئے ہیں جبکہ پی ایس 6 کشمور سے میر شبیر بجارانی بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔
↧
↧
تھائی لینڈ کی سیر
تھائی لینڈ کا علاقہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں کے لوگوں نے پہلی دفعہ کانسی کے اوزار و ہتھیار استعمال کیے۔ اس سے پہلے انسانوں کے ہاں پتھرکے ہتھیار استعمال ہوتے تھے، پتھر سے کانسی اور پھر کانسی کے بعد ہتھیاروں نے لوہے کا لبادہ اوڑھا۔ تھائی لینڈ کی تہذیب میں بہت پہلے سے پالتو جانوروں کا رواج رہا ہے، یہاں کے لوگوں نے قبل از تاریخ مچھلیاں پکڑنے اور درختوں کی چھال اور ریشہ دار درختوں سے کپڑا بننے اور چاول کی فصل اگانے کا انتظام کیا۔ تھائی لینڈ کے ابتدائی باسیوں نے یہاں ابتدائی طرز کی ریاستیں بھی بنائیں اور دور دور کے فاصلے پر انسانی نفوس کی بستیاں آباد کیں، خاص طور پر چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے دوران یہاں کے تہذیب و تمدن نے بہت ترقی کی۔
تھائی لینڈ ایشیاء کا واحد ملک ہے جس نے غیرملکی غلامی کبھی قبول نہیں کی اور یہاں پر فاتحین تو داخل ہوئے لیکن ’’آقا‘‘ کبھی داخل نہ ہو سکے۔ 1782 سے 1932 تک یہاں طویل ترین بادشاہت کا دور رہا، تب کے بعد سے سول و فوجی حکمران یہاں کی کرسی اقتدار پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک مختصر وقت تک اس ملک کا نام ’’سیام‘‘بھی رہا لیکن اسے قبول عام نہ ہونے باعث پھر سے تھائی لینڈ ہی کہا جانے لگا۔ تھائی لینڈ میں 32 فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے اور ان میں سے بھی دس فیصد صرف بنکاک شہر کی رونق ہے جس کے باعث یہ ملک کا سب سے بڑا شہر گوناں گوں مسائل میں گھرا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بہتر معاشی مواقع کا حصول دیہاتی آبادی کے بہت بڑے حصے کو شہروں کی طرف کھینچ لایا تھا اور بہت سے لوگ تو مستقل طور پر یاعارضی طور ملک چھوڑ کر سمندر پار کی دوسری دنیاؤں میں آباد ہو گئے تھے۔ تھائی لینڈ کی چالیس فیصد آبادی ’’تھائی‘‘زبان بولتی ہے اور یہی یہاں کی سرکاری زبان بھی ہے۔ یہ زبان تھائی حروف ابجد میں لکھی جاتی ہے اور اس زبان کے ادب کا معلوم تاریخ میں تیرہویں صدی مسیحی سے باقائدہ آغاز ہوتا ہے لیکن اس کے ڈانڈے اس سے قدیم تر ہیں۔ تھائی لینڈ میں پڑھے لکھے لوگوں میں انگریزی کا رواج بھی ہے لیکن بہت کم، انگریزی سے زیادہ چینی زبان یہاں پر مروج ہے جبکہ چینی، انگریزی اور جاپانی زبانیں عام طور پر کاروباری طبقوں میں خط و کتابت کے ذریعے کے طور پر بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔
لوگوں کی اکثریت بدھ مذہب کی پیروکارہے ۔ تھائی لینڈ میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ 1980 کے بعد سے صنعتی ترقی نے زراعت کی مدد سے ملکی پیداوار کو چار چاند لگا دیے۔ تاہم زرعی ترقی کی نسبت صنعتی ترقی نے قومی پیداوار کے اضافے میں برتر کردار ادا کیا ہے۔ سب سے اہم اور نقد آور فصل تو چاول ہی ہے لیکن اس کے علاوہ گنا، مکئی، ربر، سویابین، کھوپرا اور دیگر مختلف انواع کے پھل بھی یہاں کی پیداواری فصلیں ہیں۔ صنعتی ترقی سے پہلے چاول کی فصل یہاں سے دوسرے ملکوں کو فروخت کی جاتی تھی اور یہ ملکی زرمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اب بھی اگرچہ چاول بہت بڑی مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے لیکن بہت سی دیگر زرعی مصنوعات بھی بیرونی آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔
تھائی لینڈ کا بادشاہ یہاں کا آئینی حکمران ہے اور افواج کا نگران اعلیٰ بھی۔ اس کے باوجود بادشاہ اپنے اختیارار کم ہی استعمال کرتا ہے اوراسکی حیثیت مشاورتی یا اخلاقی دباؤکی سی ہوتی ہے۔ وزیراعظم یہاں کا جمہوری حکمران ہے، انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت ایوان نمائندگان میں سے اپنے کسی رکن کو اس منصب کے لیے نامزد کرتی ہے اور بادشاہ اس کی تقرری کی دستاویزجاری کر کے اس جمہوری فیصلے کی گویا توثیق کر دیتا ہے۔ وزیراعظم کے اختیارات میں وزراکی کابینہ کی صدارت کرنا شامل ہے جس کی تعداد پینتیس سے زائد نہیں ہوتی۔2007ء کے دستور کے مطابق وزیراعظم چار چار سالوں کی زیادہ سے زیادہ دو مدتوں تک ہی منتخب ہو سکتا ہے۔
قانون سازی کے لیے جمہوری پارلیمانی ملکوں کی طرح دو ایوان ہیں، ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ ایوان بالا کے منتخب ارکان چھ سال کی مدت پوری کرتے ہیں جبکہ نامزد ارکان صرف تین سالوں کے لیے ہی اپنے فرائض سرانجام دے پاتے ہیں۔ ملک کے سب صوبوں کا ایک ایک نمائندہ بھی سینٹ میں بیٹھتا ہے جبکہ کچھ بڑے صوبوں کے دو دو نمائندے بھی سینٹ میں نشست حاصل کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ میں آبادی کا کم و بیش 8% حصہ مسلمان ہے اور دن بدن اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، مسلمانوں کی زیادہ اکثریت جنوبی تین صوبوں میں پائی جاتی ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ’’ملائی ‘‘ نسل سے تعلق رکھتی ہے اور یہی زبان بولتی ہے۔ اس کی وجہ ملائشیا کا پڑوس ہونے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کے حکمران خاندانوں کا اس علاقے پر اقتداربھی ہے۔
تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد چینی مسلمانوں کی بھی اضافت ہے خاص طور پر جو علاقے چین سے قریب ہیں وہاں یہ اثرات بہت زیادہ ہیں۔ تھائی لینڈ میں اس وقت تقریباً ساڑھے تین ہزار مساجد ہیں۔ ’’نیشنل کونسل فار مسلمز‘‘ کے پانچ نامزد ارکان حکومت کی وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کو مسلمانوں کے جملہ معاملات سے آگاہ رکھتے ہیں۔ بادشاہ وقت اس کونسل کے سربراہ کا بذات خود تقرر کرتا ہے۔ اسی طرح اس کونسل کی صوبائی شاخیں صوبائی حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہیں، حکومت وقت مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، بڑی مساجد کی تعمیراور حج پرجانے والوں کے اخراجات میں بھی تعاون کرتی ہے۔ وہاں کی حکومت نے مسلمان بچوں کے لیے سینکڑوں تعلیمی ادارے، دکانیں اورایک بینک بھی بنا رکھا ہے۔
تھائی لینڈ کے مسلمانوں کو اپنی حکومت سے کچھ شکایات بھی رہتی ہیں، مذکورہ تینوں صوبوں کے مسلمانوں میں ایک عرصے سے احساس محرومی پنپ رہا ہے جو اب کسی حد تک علیحدگی پسندی کی صورت میں ایک تحریک کی شکل میں بھی ابھر رہا ہے۔ سرکاری فوج نے کچھ عرصہ پہلے کچھ مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا جس کے نتیجے میں عالمی سامراج اب اس کوشش میں ہے کہ یہاں بھی ابھرنے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا جائے۔ ’’جماع آلالامیہ‘‘ یہاں کے مسلمانوں کا ایک مشترکہ اور اتفاقی پلیٹ فارم ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد
↧
اکسیویں صدی میں بھی 4 کروڑ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور
محنت کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے تعاون سے واک فری فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ہونے والی اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی چار کروڑ سے زیادہ افراد غلامي کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں غلامي کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی 58 فیصد تعداد چین، پاکستان، بنگلہ دیش اور ازبکستان میں آباد ہے۔ پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں میں بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ بھی شامل ہے جس کی جنرل سیکرٹری، غلام فاطمہ جبری مشقت ختم کرنے اور بھٹہ مزدوروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ملکی اداروں کے عدم تعاون کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں دشواری پیش آتی ہے اور ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ادارے ان کے کام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ زیادہ زور دیں تو جواب ملتا ہے کہ آپ جائیے، ان لوگوں کی مدد کیجئیے، ہم کوئی آپ کو روک رہے ہیں۔ اگرچہ ملک میں قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا نہیں جا سکا ہے۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے چیئر مین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیادہ تر سرکاری سطح پر یا پھر اس طبقے کے ہاتھوں ہوتی ہیں جو ہے تو اقلیت میں مگر بے حد اثر ورسوخ کا حامل ہے اور اکثر یہی طبقہ استحصال کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان ان ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہے جہاں اب بھی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے سابق نگران وزیر داخلہ ملک حبیب کہتے ہیں کہ یہاں لوگ غربت کی وجہ سے جبری مشقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے بچوں کو محنت مزدوری کے لیے بھیجتے ہیں۔ اب اگر اس کے بغیر وہ گزارا نہیں کر سکتے تو انہیں روکا تو نہیں جا سکتا۔ ڈبلیو ایف ایف کی رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں غلامي کی جدید شکل یا ماڈرن سلیوری میں اضافہ ہوا ہے ۔
ڈاکٹر خالدہ ذکی مشی گن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ترک وطن کر کے امریکہ آنے والے لوگ اپنی قانونی حیثیت کی کمزوری کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کو ماڈرن سلیوری یا جبری مشقت کی صورت حال کا زیادہ سامنا ہوتا ہے اور وہ زیادہ طویل اور سخت کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معاشی اور سیاسی حالات سے مجبور ہو کر انسان غلامي کا طوق برداشت کر تے رہیں گے کیوں کہ دنیا بھر میں انسان سب سے زیادہ اپنے حالا ت کا غلام ہوتا ہے۔
مدثرہ منظر
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
Pakistan General Elections 2018 In Pictures
Pakistanis vote in a knife-edge general election pitting cricket hero Imran Khan against the party of jailed ex-Prime Minister Nawaz Sharif. General elections were held in Pakistan on 25 July 2018 to elect the members of the 15th National Assembly and to the four Provincial Assemblies of Pakistan. Most of the opinion polls suggested an overall Pakistan Muslim League (N) lead with Pakistan Tehreek-e-Insaf being the close second. There have been allegations of pre-poll rigging being conducted by the judiciary, the military and the intelligence agencies to sway the election results in favour of the PTI and against the PML (N). PTI Party leader Imran Khan leads in early unofficial exit poll results, as his opposition alleges large-scale vote rigging.
↧
Imran Khan, the politician
Imran Ahmad is a Pakistani politician and former cricketer who is the current chairman of the Pakistan Tehreek-e-Insaf, and the candidate for the Prime Minister of Pakistan in the upcoming Pakistani general election, 2018. He was a member of the National Assembly of Pakistan from 2013 to 2018, a seat he won in 2013 general elections. Prior to entering politics, Khan was a cricketer and philanthropist. He played international cricket for two decades and later developed philanthropy projects such as Shaukat Khanum Memorial Cancer Hospital & Research Centre and Namal College.
Khan tearing his nomination paper for National Assembly at a press conference, Khan boycotted his 2008 elections. In 1996, Khan founded a political party, Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI). He ran for the seat of National Assembly of Pakistan in Pakistani general election, 1997 as a candidate of PTI from two constituencies - NA-53, Mianwali and NA-94, Lahore - but was unsuccessful and lost the both seats to candidates of PML (N).
Khan supported General Pervez Musharraf's military coup in 1999, believing Musharraf would "end corruption, clear out the political mafias". According to Khan, he was Musharraf's choice for prime minister in 2002 but turned down the offer. The 2002 Pakistani general election in October across 272 constituencies, Khan participated in the elections and was prepared to form a coalition if his party did not get a majority of the vote. He was elected from Mianwali. He has also served as a part of the Standing Committees on Kashmir and Public Accounts. On 6 May 2005, Khan was mentioned in The New Yorker as being the "most directly responsible" for drawing attention in the Muslim world to the Newsweek story about the alleged desecration of the Qur'an in a US military prison at the Guantánamo Bay Naval Base in Cuba. In June 2007, Khan faced political opponents in and outside the parliament.
On 2 October 2007, as part of the All Parties Democratic Movement, Khan joined 85 other MPs to resign from Parliament in protest of the presidential election scheduled for 6 October, which general Musharraf was contesting without resigning as army chief. On 3 November 2007, Khan was put under house arrest, after president Musharraf declared a state of emergency in Pakistan. Later Khan escaped and went into hiding. He eventually came out of hiding on 14 November to join a student protest at the University of the Punjab. At the rally, Khan was captured by activists from the student wing of Jamaat-e-Islami and roughly treated. He was imprisoned during the protest and was sent to the Dera Ghazi Khan jail in the Punjab province where he spent few days before becoming free.
On 30 October 2011, Khan addressed more than 100,000 supporters in Lahore, challenging the policies of the government, calling that new change a "tsunami" against the ruling parties, Another successful public gathering of hundreds of thousands of supporters was held in Karachi on 25 December 2011. Since then Khan has become a real threat to the ruling parties and a future political prospect in Pakistan. According to the International Republican Institute's (IRI's) survey, Imran Khan's Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) tops the list of popular parties in Pakistan both at the national and provincial level.
On 6 October 2012, Khan joined a vehicle caravan of protesters from Islamabad to the village of Kotai in Pakistan's South Waziristan region against US drone missile strikes. On 23 March 2013, Khan introduced the "Naya Pakistan Resolution" (New Pakistan) at the start of his election campaign. On 29 April The Observer termed Khan and his party Pakistan Tehreek-e-Insaf as the main opposition to the Pakistan Muslim League-Nawaz. On 30 April 2013, Manzoor Wattoo president of Pakistan Peoples Party (Punjab) offered Khan the office of prime minister in the possible coalition government which would include the PPP and Khan's PTI, in a move to prevent Pakistan Muslim League-Nawaz to make the government, but the offer was rejected. In January 2014, YouGov ranked Khan as a famous person in and out of Pakistan. Between 2011 and 2013, Khan and Nawaz Sharif began to engage each other in a bitter feud. The rivalry between the two leaders grew in late 2011 when Khan addressed his largest crowd at Minar-e-Pakistan in Lahore. From 26 April 2013, in the run up to the elections, both the PML-N and the Pakistan Tehreek-e-Insaf started to criticise each other.
↧
↧
Who is Imran Khan ?
Born in 1952 in Lahore, Khan is known to be one of the most popular cricket players of his time. Khan, the “Captain” who led Pakistan to its first World Cup victory in 1992 has always been in the limelight due to his sports career, brazen comments and controversial private life. Post his retirement from cricket, Khan founded his political party Khan Pakistan Tehreek-e-Insaf in 1996. However, his immense popularity on the field did not immediately transfer into his political career. Until 2003, his party had only one seat in the Parliament. In the present elections, Khan is contesting five seats in the provinces of Punjab, Sindh, and Khyber Pakhtunkhwa, and Islamabad Capital Territory.
Imran Khan, the politician
Said to enjoy the support of Pakistani Army, media reports in Pakistan have often suggested that the military is working to put Khan at the helm of power. Khan has often signalled his willingness to work with the army. “It is the Pakistan Army and not an enemy army,” he said in a New York Times interview in May. “I will carry the army with me.” However, while the army might find Khan’s charismatic personality useful, they do not trust him entirely due to his unpredictability. Imran Khan, often accused of lacking a coherent political philosophy, has openly supported the idea of opening channels of dialogue with the Taliban. Khan, who described the Taliban’s fight in Afghanistan as a holy war also earned the name of “Taliban Khan” from his opponents.
Khan has designed his campaign for 2018 elections around the theme of “New Pakistan.” He has promised better schools, better hospitals, better jobs and infrastructure in the country. Terming corruption as the enemy of Pakistan, Khan has also vowed to wipe it off the country. He has also promised wide-ranging reforms in tax collection. Internal peace finds a prominent place in his manifesto and he has proposed to act against the hate speech and violence towards minorities. Khan, who has also proposed to improve Pakistan’s relation with foreign countries, has often expressed his strong desire to resolve the Kashmir issue. His personal views on India have veered from “why should we not want friendly ties with India?” to “cut trade ties with India”.
Imran Khan and controversies
Khan has often come under the scanner for his “colourful private life.” His playboy image of the past was revived days ahead of the elections, by his former wife Reham Khan. The book portrays Khan as a man who led “a bizarre life” of “sex, drugs and rock ‘n’ roll”. Reham Khan, also claims that the 65-year-old cannot read the Quran, believes in black magic, and had confessed that he has “some” illegitimate Indian children. From Imran’s eating habits to his purported sexuality, the self-published book stops at nothing.
Khan was in the news for his marriage to his spiritual guide Bushra Maneka. This was Khan’s third marriage. His previous two marriages ended in divorce. His first marriage was with Jemima Goldsmith, daughter of a British billionaire, in 1995, which lasted nine years. Khan has two sons from her. His second marriage with TV anchor Reham Khan in 2015 ended after a brief 10 months. He also sparked a row recently when he called Nawaz Sharif’s supporters “donkeys.” An animal charity later reported that PTI supporters had beaten one of the animals close to death. The Pakistan EC has warned Khan against using “inappropriate language” for his political rivals.
↧
نئی حکومت کے لیے منتظر کانٹوں کا تاج
انتخابات سے قبل تک کا مرحلہ جن بھی تنازعات میں گھرا رہا، اس کے باوجود ہمارا ملک مسلسل دوسری جمہوری حکومت کی منتقلی حاصل کرنے جا رہا ہے۔
مسائل موجود ہوں گے مگر پھر بھی ووٹ معنی رکھتے ہیں۔ لوگ ان انتخابات میں اپنا فیصلہ دیں گے جنہیں ملکی سیاست کی راہ متعین کرنے کے حوالے سے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ نتائج ابھی بھی ناقابلِ پیشگوئی ہیں۔ اگر رائے شماری کے سرویز پر یقین کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مقابلے میں آگے نظر آتی ہے مگر یہ آخری وقت میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے قریب بھی آسکتی ہے۔ نتیجہ چاہے جو بھی ہو، ایک بات تو تقریباً یقینی ہے، کوئی بھی جماعت اگلی حکومت بنانے کے لیے یقینی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
اسلام آباد کی جنگ کا فیصلہ صرف انتخابات میں نہیں ہو گا، چنانچہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کی بھی سنی جائے گی۔ چنانچہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ اچھے یا برے کے لیے ایک بار پھر اتحادی حکومت کا دور ہو گا۔ مگر ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ انتخابات وہ سیاسی استحکام لائیں گے جو کہ وقت کی ضرورت ہے؟ ملک میں شدید سیاسی قطبیت اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کو دیکھتے ہوئے نئی منتخب حکومت کے لیے چیلنجز نہایت شدید ہوں گے۔ گرتی ہوئی معیشت اور کئی بیرونی مسائل نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
'وزیرِ اعظم'عمران خان کے لیے کون سے چیلنجز منتظر ہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کو قابلِ اعتبار نظر آنا چاہیے اور نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انتخابات سے قبل سیاسی انجینیئرنگ کے بے تحاشہ الزامات نے پہلے ہی بد دلی پیدا کر دی ہے۔ مگر نتائج سے کھیلنے کی کوئی بھی کوشش پورے جمہوری سیاسی نظام پر سوالات کھڑے کر کے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ جس حکومت کا جواز ہی مشتبہ ہو، اس کے لیے داخلی و خارجہ چیلنجز سے نمٹنا نہایت مشکل ہو گا۔ جمہوری نظام کی ساکھ بحال کرنے اور منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہو گی۔ اقتدار کی ایک قابلِ اعتبار جمہوری منتقلی قومی مفاہمت کے ایک نئے موقع کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اب ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یعنی ریاستی اداروں کے درمیان تنازعات ختم کرنے کے لیے یقینی طور پر ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ جمہوری نظام طاقت کے موجودہ عدم توازن کے ہوتے ہوئے باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر منتخب اداروں کی بالادستی کا تعلق قانون کی حکمرانی سے بھی ہے۔ امید ہے کہ نو منتخب قانون ساز اور حکومتیں ماضی کی ان غلطیوں سے سیکھیں گے جن کی وجہ سے غیر منتخب اداروں کو مزید جگہ ملی ہے۔ انتقامی سیاست کو انتخابات کے بعد ختم ہونا چاہیے اور اہم قومی معاملات پر وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا ہونا چاہیے۔ یہ یقینی ہے کہ سول ملٹری تنازعہ حل کرنے کی ضرورت ہے مگر تمام مسائل کو اسی دوئی کی عینک سے دیکھنا بھی غلط ہے۔
اب یہ بات واضح ہے کہ معیشت نئی حکومت کے لیے سب سے پریشان کن مسئلہ ہو گا۔ بدقسمتی سے انتخابی مہم کے دوران اس سب سے اہم مسئلے پر بیان بازی کے علاوہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ یہ تشویش ناک ہے کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے جا رہے ہیں اور رواں کھاتوں کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ لگتا ہے کہ نئی انتظامیہ کے پاس آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
اس کا مطلب اپنی کمر کسنا ہے۔ سابقہ حکومت ان اہم اصلاحات کے نفاذ میں ناکام رہی جن کی پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضرورت تھی۔ یہ سچ ہے کہ معاشی شرح نمو نسبتاً بلند رہی، مگر داخلی اور خارجی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے معاشی مسائل کو دوہرا کر دیا ہے۔ گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے توانائی کے بحران میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ نئی انتظامیہ کو اس سنگین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے چند سخت اصلاحات بھی نافذ کرنی ہوں گی۔ مگر اس کے لیے اسے اپوزیشن جماعتوں اور دیگر ریاستی اداروں کی مدد بھی درکار ہو گی۔ ایک نئے قومی معاشی چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ بدتر ہوتے ہوئے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔
دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی ایک اور سنگین مسئلہ ہے جس پر پارلیمانی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ سچ ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوج کے کامیاب آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسند تشدد کی سطح میں کمی آئی ہے مگر حالیہ حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ ابھی بھی ختم ہونے سے کوسوں دور ہے۔ عسکریت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمی سنگین تشویش کا سبب ہونی چاہیئں۔ سیاسی موقع پرستی نے بھی بنیاد پرست عناصر کو مزید مضبوط کیا ہے اور یہ ہم نئے اور زیادہ انتہا پسند گروہوں کے ابھرنے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح کالعدم تنظیمیں بھی نئے بینروں کے تحت کام کر رہی ہیں جنہیں بظاہر قانون اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔
چند عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ ایک کالعدم گروہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم امیدوار اقوامِ متحدہ کی ٹیرر لسٹ پر ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آنے سے مزید سنگین ہو چکا ہے۔ تشویش یہ ہے کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس طرح کی صورتحال پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی بڑھا سکتی ہے جس سے ہمارے معاشی مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں میں ان انتہاپسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور وہ ہمارے کچھ قریب ترین اتحادی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری کے خدشات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے قانون ساز معاملے کی گہرائی کو پہچانیں۔
خارجی چیلنجز بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طے پانے والی ایک واضح پالیسی کے طلبگار ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی خطے کی سیاست نے پاکستان کے خارجہ پالیسی مسائل میں جہاں اضافہ کیا ہے، تو وہیں نئے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں، افغانستان میں جاری جنگ، ہندوستان کے ساتھ تناؤ، اور چین کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کے سامنے موجود بڑے خارجہ پالیسی مسائل ہوں گے۔ 11 ستمبر کے بعد ہمارا جو اتحاد قائم ہوا تھا اب وہ اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ ہمیں اپنے مفادات پر واضح مؤقف رکھنا ہو گا مگر امریکا کے ساتھ مکمل قطع تعلق بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔ شاید نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا خارجہ پالیسی کا چیلنج نئی دہلی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور بیجنگ کے ساتھ کاروبار کا انتظام و انصرام ہو گا۔ پاکستان اس وقت خارجہ پالیسی کے پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ایک بار جب نئی حکومت آئے گی، تو خارجہ تعلقات کو سنبھالنا اس کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ہو گا۔ اس لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہو گی۔
زاہد حسین
یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
↧
سی این این کی نامہ نگار پر وائٹ ہاؤس کی پابندی کیوں؟
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک نامہ نگار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ’غیر مناسب‘ سوالات پوچھنے پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کیٹلِن کولنز کا کہنا ہے کہ صدر پوتن اور صدر ٹرمپ کے سابق وکیل کے بارے میں ایک سوال پوچھنے کے بعد انھیں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اگلی تقریب میں نہیں بلایا گیا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سارا سینڈرز نے کہا کہ نامہ نگار نے چِلا کر اپنے سوالے پوچھے تھے اور کہنے پر وہاں سے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کئی بار سی این این کو ’فیک‘ یا نقلی نیوز کہہ کر نشانہ بنا چکے ہیں، اور اس کے نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ کیٹلِن کولنز صدر ٹرمپ اور یورپی کمیشن کے صدر جاں کلاڈ ینکر کی ملاقات کے موقع پر موجود تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے روسی صدر پوتن کے ملتوی ہونے والے دورے اور صدر ٹرمپ اور ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو کے ٹیپ کے بارے میں سوال پوچھنے کی کوشش کی تھی۔ صدر نے مبینہ طور پر بار بار ان کے سوالات کو نظر انداز کیا۔ اور اس کے بعد ہی انھیں روز گارڈن میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔ کولنز نے سی این این کو بتایا کہ ’انھوں نے کہا کہ میرے سوال اس جگہ کے لیے غیر مناسب تھے۔‘ اس کے بعد سینڈرز نے کہا کہ ایک نامہ نگار نے، جن کا نام انہوں نے ظاہر نہیں کیا، چِلا چِلا کر سوال پوچھنے کے بعد جانے سے انکار کر دیا، اور ’اگلی تقریب کے لیے انھیں دعوت نہیں دی گئی‘ حالانکہ ان کے ادارے سے ان کے دیگر ساتھی تقریب میں موجود تھے۔
سی این این نے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پیچھے بدلے کا جذبہ ہے اور یہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ صحافت آزاد نہیں۔ وائٹ ہاؤس کی نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن نے اسے ’غلط اور کمزور‘ قرار دیا۔ سی این این کے روایتی حریف فوکس نیوز نے بھی اس پابندی پر تنقید کی ہے۔ فوکس نیوز کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم پوری طرح سی این این کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ واضح طور پر فوکس نیوز کو فوقیت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ کئی انٹرویوز کر چکے ہیں۔ صدر نے کئی دفعہ کئی بڑے نشریاتی اداروں پر کھلے عام تنقید کی ہے، جن میں سی این این اور نیو یارک ٹائمز شامل ہیں۔
↧
مارک زکر برگ کا ستارہ گردش میں، چند منٹوں میں 16 ارب ڈالرز نقصان کا سامنا
فیس بک کی سہ ماہی رپورٹ میں صارفین کی تعداد میں کمی اور آمدنی تخمینے سے کم رہنا اس کمپنی کے لیے 148 ارب ڈالرز کے نقصان کا باعث بنا۔ تاہم اس کا سب سے زیادہ نقصان فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے اثاثوں کو اٹھانا پڑا جو رپورٹ سامنے آنے کے چند منٹ بعد ہی 16.8 ارب ڈالرز (21 کھرب پاکستانی روپے سے زائد) سے محروم ہو گئے۔ فیس بک کے حصص میں بدھ سے جمعرات تک 24 فیصد کے قریب کمی دیکھنے میں آئی اور اس کی وجہ سے مارک زکربرگ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں 3 درجے نیچے جا گرے۔
بلومبرگ کی ارب پتی افراد کی فہرست میں چند دن پہلے تک مارک زکربرگ 86.5 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے مالک تھے مگر 2 دن کے اندر یہ اثاثے 70 ارب ڈالرز سے بھی نیچے جا گرے اور دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص کا اعزاز ان سے چھن گیا اور وہ چھٹے نمبر پر چلے گئے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی کمپنی کو صرف ایک دن میں 100 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم کمپنی کے لیے مالی نقصان اتنا اہمیت نہیں رکھتا جتنا صارفین کی کمی اسے متاثر کر سکتی ہے۔ رواں سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران فیس بک کو یورپ میں 10 لاکھ ماہانہ جبکہ 30 لاکھ روزانہ صارفین سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ فیس بک کے حوالے سے تنازعات کی بڑھتی فہرست نے دنیا بھر میں صارفین کو اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے حوالے سے سوچ پر نظرثانی پر مجبور کیا ہے۔
↧
↧
امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں براہِ راست مذاکرات
طالبان نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے أفغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے اس ہفتے قطر میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاكرات کیے ہیں۔ طالبان کے ایک سینیر عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز نے دوہا کے اجلاس میں امریکی وفد کی قیادت کی۔ باغی عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابتدائی مذاكرات میں توجہ صرف مستقبل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں اور ملاقاتوں کے لیے زمین ہموار کرنے پر مرکوز رہی۔ طالبان عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاكرات کا ماحول بہت اچھا اور مثبت تھا ۔ تاہم اس نے مزید کوئی تفصيل نہیں دی۔
قطر کے صدر مقام دوحا میں ہونے والی اس ملاقات کی خبریں اس ہفتے امریکی اخباروں میں شائع ہوئی تھیں لیکن امریکہ عہدے داروں اور نہ ہی طالبان نے اب تک اس پر براہ راست کوئی تبصرہ کیا تھا۔ امریکی وزارت خارجہ نے افغان باغیوں کے ساتھ ملاقات سے متعلق رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جب امریکی محکمہ خارجہ سے طالبان کے ساتھ مذاكرات کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو محکمہ خارجہ کے عہدے دار نے کہ تھا کہ امریکہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے افغان حکومت سے قریبی مشاورت کے ساتھ تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہا ہے۔ عہدے دار نے یہ واضح کیا کہ افغان حکومت امن مذاكرات کے جمپ سٹارٹ کی کوششوں میں پوری طرح شامل ہے۔ اور افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق کوئی بھی گفت و شنید طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہو گی۔
افغان طالبان کئی برسوں سے دوحا میں اپنا ایک غیر سرکاری سیاسی دفتر چلا رہے ہیں۔ اسلام پسند افغان باغی گروپ طویل عرصے سے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاكرات کے لیے کہہ رہا ہے۔ طالبان کا إصرار ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلا کا اختیار امریکہ کے پاس ہے نہ کہ افغان حکومت کے پاس۔ اس ہفتے قطر مذاكرات، سن 2015 میں پاکستان میں طالبان اور افغان عہدے داروں کے ساتھ اجلاس کے بعد افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل شروع کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان میں ہونے والے مذاكرات میں امریکہ اور چین نے مبصر کے طور پر شرکت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق امریکی عہدے داروں کا طالبان کے ساتھ رابطے کے متعلق کہنا ہے کہ پچھلے مہینے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عید کے تہوار کے موقع پر تین روز کی بے مثال عارضی فائر بندی سے جو پیش رفت ہوئی ہے اسے ایک قدم آگے بڑھانا ہے۔ دوحا میں یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب افغان حکومت طالبان کے ساتھ اگست میں عید الاضحی کے دوران ایک اور یک طرفہ فائر بندی پر غور کر رہی ہے تاکہ مذاكرات کی میز پر لانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
ایاز گل
↧
اکیسویں صدی کا طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن
جمعے کی رات اس صدی کا طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن ہوا جبکہ گزشتہ رات پندرہ برسوں میں مریخ بھی زمین کے قریب ترین تھا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ان دونوں قدرتی مظاہرہ کا شاندار نظارہ کیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اکیسویں صدی کے طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن کا دورانیہ ایک گھنٹے اور 43 منٹ تھا۔ یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا اور جنوبی امریکا کے زیادہ تر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس چاند گرہن کا نظارہ کیا۔ اس چاند گرہن کا مجموعی وقت تقریبا چار گھنٹے طویل تھا تاہم مکمل چاند گرہن عالمی وقت کے مطابق ساڑھے سات تک سوا نو بجے تک رہا۔ سورج گرہن کے برعکس چاند گرہن کو دیکھنے کی خاطر کسی خصوصی چشمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چاند گرہن کے وقت زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے کیونکہ زمین سورج اور چاند کے عین درمیان آ کر چاند تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں حائل ہو جاتی ہے، اس لیے چاند کی بیرونی دائروی سطح اس موقع پر نارنجی یا سرخ رنگ کا دکھائی دیتے لگتی ہے۔ جب یہ چاند گرہن ہوا تو سیارہ مریخ بھی انتہائی روشن تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فاصلے کے اعتبار سے مریخ زمین کے انتہائی قریب آ چکا تھا اور لوگوں نے اس سرخ سیارے کو بغیر دوربین کے بھی دیکھا۔
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آئندہ چند روز تک مریخ زمین کے انتہائی قریب رہے گا، جس کا زمین سے فاصلہ 57.7 ملین کلو میٹر ہو گا۔ مطلع ابر آلود نہ ہونے کے نتیجے میں اس کا مشاہدہ ننگی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اس چاند گرہن سے قبل سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ جب زمین سورج اور چاند کے بالکل درمیان میں ہو گی تو مریخ چاند جتنا بڑا دیکھائی دے گا۔ تاہم اس قدرتی مظہر کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا تھا۔
↧
Lunar eclipse of the century
Star gazers seek a glimpse of a 'blood moon' as the earth's natural satellite moves into the shadow of our planet for the longest lunar eclipse of the 21st century. Skywatchers are in for a rare treat Friday: the longest lunar eclipse of the century. A total lunar eclipse occurs when the moon and the sun are on exact opposite sides of Earth, so that our planet blocks the sunlight that normally reaches the moon. During the eclipse, the moon will appear red, giving it the nickname "blood moon." The eclipse will be visible in Australia, Africa, Asia, Europe and South America. It won't be visible in the skies over North America, but you can watch worldwide coverage live right here in the player above starting at 2:30 p.m. ET. Additionally, Mars will look unusually large and bright this weekend, as the red planet makes its closest approach to Earth in 15 years.
↧
’مزاحمت کی علامت‘ فلسطینی لڑکی ’عہد تمیمی‘ اسرائیلی زندان سے رہا
فلسطین کے علاقے غرب اردن سے تعلق رکھنے والی ایک کم عمر فلسطینی لڑکیعہد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان کو آٹھ ماہ قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کے مطابق غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ کے نواحی علاقے النبی الصالح کی رہائشی سولہ سالہ عہد تمیمی کو گذشتہ برس کے آخر میں اس وقت اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لیا تھا جب اس نے اپنے گھر پر دھاوا بولنے والے غاصب صہیونی فوجیوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا۔ اس واقعے کی ایک فوٹیج سامنے آنے کے بعد عہد تمیمی اور اس کی والدہ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں آٹھ ماہ قید کی سزا دی گئی تھی۔ 19 دسمبر 2017ء کو جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں عہد تمیمی اور اس کی کزن نور التمیمی کو اسرائیلی فوجیوں کو اپنے گھرسے باہر نکلنے کے لیے ان سے تکرار کرتے دیکھا گیا۔
گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے والے صہیونی فوجیوں نے جب نکلنے سے انکار کیا توعہد تمیمی نے دو فوجیوں کو تھپڑ مارے تھے۔ اکیس مارچ کو اسرائیل کی’عوفر‘ فوجی عدالت نے عہد تمیمی کو فوج کے کام میں مداخلت اور ان کے لیے خطرہ بننے کے الزام میں آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔ سترہ سالہ عہد تمیمی کی گرفتاری اور اس کے ٹرائل پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے صہیونی ریاست پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور صدر محمود عباس نے بھی عہد تمیمی کی جرات کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
↧
↧
امریکی پابندیاں ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکیں گی : ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے پابندیوں کا عائد کیا جانا انقرہ کو امریکی پادری کے حوالے سے فیصلہ واپس لینے پر مجبور نہیں کر سکے گا۔ اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکی پادری کو رہا نہ کیا گیا تو ترکی کی سرزنش کی جائے گی۔ ترک اخبار " Hurriyet Daily News"نے ایردوآن کا یہ بیان شائع کیا کہ "امریکا پر لازم ہے کہ وہ یہ ہر گز نہ بُھولے کہ اُس نے اپنا موقف تبدیل نہ کیا تو وہ ترکی جیسے طاقت ور اور مخلص شراکت دار سے ہاتھ دھو سکتا ہے"۔ شمالی اوقیانوس کے اتحاد نیٹو کے دونوں رکن ممالک کے درمیان تعلقات اُس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے جب ترکی کے شہر اِزمیر میں پرٹیسٹنٹ چرچ کے نگراں امریکی پادری اینڈرو برینسن کو دہشت گردی کے الزام میں دو سال کی جیل کی سزا سنائی گئی۔ تاہم برینسن کو نظربند کر دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کے فیصلے پر جواب دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی پادری کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اپنی ٹوئیٹ میں امریکی صدر نے دھمکی دی تھی کہ امریکا پادری اینڈرو برینسن کی طویل گرفتاری پر ترکی پر سخت پابندیاں عائد کرے گا۔
اس سے قبل متعدد معاملات کے پس منظر میں امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آ چکی ہے۔ ان میں واشنگٹن کی جانب سے اُس کُرد گروپ کی سپورٹ شامل ہے جس کو ترکی ایک دہشت گرد گروپ شمار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا نے پینسلوینیا میں مقیم ترک نژاد مبلّغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے بھی نہیں کیا۔ انقرہ گولن پر الزام عائد کرتا ہے کہ ایردوآن کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ترک مبلّغ کا ہاتھ ہے جب کہ گولن اس کی شدت سے تردید کرتے رہے ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان ایک ڈیل ہو گئی ہے جس کے تحت اسرائیل میں قید ترک خاتون کی رہائی کے مقابل اینڈرو برینسن کو آزاد کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اگر برینسن کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے کہ انہوں نے انقرہ کے نزدیک دہشت گرد شمار کی جانے والی دو تنظیموں (گولن نیٹ ورک اور کردستان ورکرز پارٹی) کے مفاد میں سرگرمیاں انجام دیں ہیں تو امریکی پادری کو 35 برس تک کی جیل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایردوآن نے ستمبر 2017ء میں کہا تھا کہ اگر امریکا فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کر دے تو اینڈرو برینسن کی رہائی عمل میں آ سکتی ہے۔ تاہم واشنگٹن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
دبئی ـ العربیہ ڈاٹ نیٹ
↧
امریکا اور طالبان کے مابین خفیہ ملاقات ’مثبت‘ رہی
امریکا آج کل افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ واشنگٹن حکومت طالبان سے براہ راست بات چیت کے امکانات کی تلاش میں تھی اور اس سلسلے میں اوّلین پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی حکومت کے نمائندوں اور افغان طالبان کے مابین ہونے والی خفیہ ملاقات سے ’مثبت‘ اشارے ملے ہیں۔ اس سے قبل وال اسٹریٹ جنرل اور نیو یارک ٹائمز نے طالبان ذرائع کے توسط سے رپورٹ کی تھی کہ ایک ہفتہ قبل طالبان کے متعدد نمائندے جنوبی ایشیا کے لیے خصوصی امریکی مندوب ایلس ویلس اور دیگر امریکی سفارت کاروں سے خلیجی ریاست قطر میں ملے تھے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید نہیں کی ہے۔ اس خفیہ ملاقات میں شریک افغان طالبان کے ایک نمائندے نے روئٹرز کو بتایا کہ دوحہ کے ایک ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران بات چیت انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی، ’’اسے امن مذاکرات قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم اسے بامقصد بات چیت کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ افغان تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خاطر فریقین نے جلد ہی دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے۔ قطر کے دارالحکومت میں طالبان کا نیم سرکاری دفتر بھی قائم ہے۔
طالبان کا اصرار تھا کہ کابل حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہو گا۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرنے کے راستے تلاش کرنے کا کہا تھا۔
اس سے قبل واشنگٹن حکومت ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہے کہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اور امن عمل کا آغاز لازماً افغان سربراہی میں ہی ہونا چاہیے۔
بشکریہ DW اردو
↧
عھد تمیمی : فلسطینی مزاحمت کی علامت
ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے والی 17 سالہ فلسطینی لڑکی عھد تمیمی کو آٹھ ماہ قید کی سزا پوری ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
نبی صالع نامی علاقے میں عھد تمیمی نے ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔ عھد تمیمی پر 12 الزامات لگے تھے جن میں سے چار میں وہ قصور وار قرار پائی گئیں۔ ان میں اشتعال انگیزی کا الزام بھی شامل تھا۔
خیال رہے کہ یہ واقعہ 15 دسمبر سنہ 2017 کو پیش آیا تھا اور اس وقت عھد تمیمی کی عمر 16 برس تھی اور اس واقعے کی ویڈیو ان کی والدہ نے بنائی تھی۔ انھیں اپنے گھر کے باہر ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارتے دیکھا جا سکتا ہے، اس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
فلسطینیوں کے لیے عھد تمیمی اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کی ایک علامت بن گئیں.
عھد تمیمی نے رہائی کے بعد سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی قبر پر حاضری دی۔ اس مقدمے کی سماعت کا آغاز بند کمرے میں 13 فروری کو مقبوضہ غرب اردن میں اوفر فوجی عدالت میں ہوا تھا۔ ان کی وکیل نے اس مقدمے کے لیے اوپن ٹرائل کی درخواست کی تھی تاہم جج کی جانب سے ’کم سن کے مفاد میں‘ سماعت ’ان کیمرہ‘ کرنے کا حکم دیا تھا۔
فلسھینی صدر محمود عباس رہائی پانے والی17 سالہ فلسطینی عھد تمیمی کا استقبال کر رہے ہیں۔ عھد تمیمی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ان کے رویے کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن انھوں نے ان فوجیوں کی جانب سے اپنی کزن کو ربڑ کی ایک گولی مارے جانے کی ویڈیو دیکھی تھی۔
↧