↧
پاکستانی عوام میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم برداشت
↧
امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات پر تیار
امریکا بظاہر افغانستان میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر تیار ہو گیا ہے۔ واشنگٹن حکام کے مطابق وہ افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہيں تاکہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ طالبان ایک عرصے سے کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کو مسترد جبکہ امریکی حکام سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ابھی تک امریکی موقف يہ رہا ہے کہ وہ صرف کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے کی صورت میں ہی افغان طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ تاہم واشنگٹن حکومت کے اس نئے اعلان کو سترہ سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اصل مقصد یہی ہے کہ ’افغان ٹو افغان‘ مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ دریں اثناء طالبان نے کہا ہے کہ ان سے ابھی تک کسی امریکی رہنما نے اس حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔ قطر میں موجود طالبان کے ایک رہنما نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان تک ایسی خبریں میڈیا کے ذریعے ہی پہنچی ہیں۔ سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ واشنگٹن انتظامیہ طالبان سے براہ راست مذاکرات چاہتی ہے۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک رہنما کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ہم انتظار میں ہیں کہ وہ ہمیں باقاعدہ مطلع کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے سب سے پہلے طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم اور انہیں بلیک لسٹ سے نکالنا چاہیے۔ اس رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کو قطر میں طالبان آفس کے باقاعدہ افتتاح کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے۔ طالبان کے اس رہنما نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے۔ دریں اثناء امریکی وزارت خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ قریبی مشاورت سے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ا ا / ع ص ( اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
↧
↧
یاہو میسنجر : ٹیکنالوجی کی دنیا کا ایک اور یادگار عہد اختتام پذیر
معروف انٹرنیٹ کمپنی یاہو کی جانب سے چیٹنگ میسنجر کو شٹ ڈاﺅن کرنے پر ٹیکنالوجی کی دنیا کا ایک یادگار عہد اختتام پذیر ہو گیا۔ یوہو میسنجر کی سپورٹ کمپنی نے ختم کر دی ہے اور اب صارفین اس میں چیٹ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ سروس کام ہی نہیں کرے گی۔ یہ تو واضح نہیں کہ یاہو نے اپنی اس میسنجر سروس کو شٹ ڈاﺅن کن وجوہات کی بناءپر کیا، تاہم کمپنی کے مطابق اس کی توجہ نئے کمیونیکشن ٹولز متعارف کرانے کی جانب رہے گی۔ ’یاہو میسینجر‘ کو ابتدائی طور پر 9 مارچ 1998 کو متعارف کرایا گیا تھا، اس ایپلی کیشن میں گزشتہ 20 سالوں کو دوران صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے متعدد تبدیلیاں بھی کی گئیں۔
یاہو میسینجر چیٹ رومز سمیت دیگر فیچر بھی متعارف کرائے گئے، تاہم گزرتے وقت اور نئی میسیجنگ ایپلی کیشنز اور سوشل ویب سائٹس آنے کے بعد اسے سخت مشکلات درپیش تھیں۔ یاہو کی جانب سے گزشتہ ماہ اس سروس کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر 17 جولائی سے عملدرآمد شروع ہو گیا۔ یاہو نے اپنے صارفین کو ’اسکئرل‘ نامی اپنی نئی میسیجنگ ایپلی کیشن استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جسے 17 جولائی کے بعد آن لائن کیا جائے گا۔ یاہو سے قبل ماضی کی دیگر مقبول میسیجنگ ایپلی کیشنز ’اے او ایل‘ کو 2017 جب کہ ’ایم ایس این‘ کو 2014 میں بند کیا جا چکا ہے۔ تاہم صارفین یاہو میسنجر میں موجود اپنی چیٹ ہسٹری کو نومبر 2018 تک ڈاﺅن لوڈ کر سکتے ہیں۔
↧
عہد ساز شخصیت "نیلسن منڈیلا" : جن کی جد وجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا
آج نیلسن منڈیلا کی 100ویں سالگرہ کے موقع پردنیا بھر میں ان کا دن منایا جارہا ہے، ان کی طویل جد وجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج ساری دنیا جس عظیم انسان کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے، ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے، جب امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی طاقتیں اور سیاستدان اسے ایک خطرناک شخصیت قرار دیتے تھے۔ سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا، صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا، "آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں"۔ وہ کہتے تھے "زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے"۔

↧
پیپلزپارٹی کے کیمپ میں، مجلس عمل کی امامت اور ایم کیو ایم مقتدی
سیاسی عدم برداشت کی پہچان سمجھے جانے والے کراچی میں گزشتہ روز اس وقت حیران کن اور مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملی جب جماعت اسلامی کے سینئر رہنما ڈاکٹر اسامہ رضی کی امامت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما علی رضا عابدی نے نماز مغرب ادا کی۔ گزشتہ روز گلشن اقبال میں واقع حکیم سعید پارک سے متصل ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کی ریکارڈنگ جاری تھی، جس میں حصہ لینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے انتخابی امیدوار، رہنماوں اور کارکنان کی بڑی تعداد جمع تھی۔
وہاں موجود جوشیلے کارکنان جہاں جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سیاسی جماعتوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، وہیں مخالفین کو زیر کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس وقت سماء مکمل طور پر تبدیل ہو گیا، جب مغرب کی آذان شروع ہوئی، کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد وہاں اچانک نماز کی تیاری شروع ہوگئی اور ڈاکٹر اسامہ رضی کی امامت میں تمام جماعتوں کے رہنماوں اور کارکنان نے سارے اختلاف کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ اس عمل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خوب پذیرائی ملی اور لوگوں نے نہ صرف اس عمل کو خوش آئند قرار دیا بلکہ اس امید کا بھی اظہار کیا کہ کراچی میں یہ فضا یونہی قائم و دائم رہے۔
↧
↧
گوگل کو چار ارب یورو سے زائد جرمانہ
امریکی انٹرنیٹ کمپنی گوگل کو یورپی یونین کی طرف سے چار اعشاریہ تین ارب یورو کا جرمانہ کر دیا گیا ہے۔ گوگل کو کیے جانے والے اس جرمانے کی وجہ سے امریکا اور یورپی یونین کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے گوگل کو یہ جرمانہ اس کی طرف سے اپنے کاروباری غلبے کو غلط استعمال کرنے اور اینڈروئڈ موبائل فون سسٹم کے حریف اداروں کے خلاف اقدامات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی صحت مند کاروباری مقابلے سے متعلقہ امور کی نگران کمشنر مارگریٹے ویسٹاگر نے امریکا میں گوگل کے سربراہ سندر پچائی سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی تھی، جس دوران پچائی کو یورپی یونین کے اس ممکنہ فیصلے سے تنبیہی طور پر قبل از وقت آگاہ بھی کر دیا گیا۔ ویسٹاگر نے برسلز میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ گوگل کو 4.3 ارب یورو جرمانہ کیا گیا ہے، اور اس جرمانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اس امریکی کمپنی نے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی غالب پوزیشن کو غلط استعمال کرتے ہوئے ان موبائل فون کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کی، جو اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم والے موبائل فون بناتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں سے دو اہم ترین نام جنوبی کوریا کے سام سنگ اور چین کے ہُواوے نامی اداروں کے ہیں۔
یورپی یونین کے ضوابط کے مطابق گوگل کو اس کی مالک کمپنی الفابیٹ کی سالانہ آمدنی کے 10 فیصد کے برابر تک جرمانہ کیا جا سکتا تھا۔ الفابیٹ کو گزشتہ برس 111 ارب امریکی ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ یورپی یونین کی طرف سے اس جرمانے کی بنیاد اس بات کو بنایا گیا کہ یونین کے اینٹی ٹرسٹ شعبے کے مطابق گوگل پر الزام تھا کہ اس نے نہ صرف باقاعدہ نیت کے ساتھ اس مبینہ جرم کا ارتکاب کیا بلکہ اس کے ذریعے صحت مند کاروباری مقابلے کے تقاضوں کے برعکس حریف اداروں کو مقابلے سے باہر رکھنے کی کوشش بھی کی۔
اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کی کمشنر ویسٹاگر کا تعلق ڈنمارک سے ہے، جو یونین کی اینٹی ٹرسٹ چیف کے طور پر اپنے عہدے کی چار سالہ مدت میں اب تک امریکا میں ’سیلیکون ویلی‘ کی کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے خلاف کئی اقدامات کر چکی ہیں۔ ان کے ان فیصلوں کو یورپی یونین تو سراہتی ہے مگر واشنگٹن کی طرف سے ان پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ گوگل کو کیا جانے والا اربوں یورو کا یہ جرمانہ اس لیے بھی ایک بہت بڑی پیش رفت ہے کہ یوں یورپ اور امریکا کے مابین پہلے ہی سے تجارتی جنگ کی وجہ سے پائی جانے والے کشیدگی میں اب اور اضافہ ہو جائے گا۔
گوگل کو اب جس الزام میں جرمانہ سنایا گیا ہے، اس میں اہم ترین شکایت یہ تھی کہ اس امریکی کمپنی نے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم والے موبائل فون بنانے والی جنوبی کوریائی کمپنی سام سنگ اور چینی کمپنی ہُواوے کے ساتھ یہ طے کر لیا تھا کہ ان کمپنیوں کے موبائل فونز میں گوگل کا براؤزر کروم پہلے ہی سے انسٹال کیا گیا ہو اور ساتھ ہی سرچ انجن کے طور پر بھی گوگل ہی ایسے فونز کی کمپنی سیٹنگز کا حصہ ہو۔ اس طرح یورپ میں ان کمپنیوں کے جو موبائل فون بیچے گئے، ان میں سے بھی زیادہ تر میں گوگل کا کروم براؤزر اور گوگل سرچ انجن پہلے ہی سے ترجیحی طور پر دستیاب سافٹ ویئر کا حصہ تھے۔
گوگل کو، جو یورپ میں انٹرنیٹ سرچ انجن کے طور پر 90 فیصد تک مارکیٹ کو کنٹرول کرتا ہے، یورپی یونین کی طرف سے پہلے بھی 2.4 ارب یورو کا ریکارڈ جرمانہ کیا گیا تھا۔ یورپی یونین کی طرف آج تک کسی بھی ادارے کو کیا گیا سب سے زیادہ جرمانہ امریکی موبائل فون کمپنی ایپل کو 2016 میں کیا گیا تھا، جس کی مالیت 13 ارب یورو یا 16 ارب امریکی ڈالر بنتی تھی۔
م م / ا ا / اے ایف پی
↧
غصّے سے بھرے پوتین نے فوکس نیوز کے میزبان کے ساتھ کیا کِیا ؟
فن لینڈ کے دارالحکومت ہلسنکی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سربراہ ملاقات کے بعد مغربی میڈیا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں روسی صدر ولادی میر پوتین کافی ناراض نظر آئے۔ انٹرویو کے وڈیو کلپ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پوتین کو اس بات پر شدید غصّہ ہے کہ امریکی جیوری نے روسی ایجنٹوں کو امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ امریکی چینل "فوکس نیوز"کو انٹرویو دیتے ہوئے پوتین نے باور کرایا کہ روس نے امریکی صدارتی انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔
انٹرویو کے دوران ایک موقع پر میزبان نے اپنے سوال کے بیچ پوتین کو روسی ایجنٹوں پر عائد کیے جانے والے امریکی الزامات کی فہرست پیش کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تاہم پوتین انتہائی ناخوش نظر آئے اور انہوں نے حرکت کیے بغیر میزبان کو سرد مہری کے ساتھ بول دیا کہ وہ ان کاغذات کو ساتھ موجود میز پر رکھ دیں۔ مذکورہ الزامات کی فہرست میں روس کے 12 جاسوسوں کے نام ہیں۔ یہ فہرست ٹرمپ اور پوتین کے درمیان سربراہ ملاقات سے چند گھنٹے پہلے جاری ہوئی۔ تقریبا 35 منٹ جاری رہنے والے انٹرویو میں روسی صدر نے باور کرایا کہ وہ ایسی کوئی معلومات نہیں رکھتے جو ٹرمپ اور ان کے خاندان کے لیے بلیک میلنگ کا ذریعہ ثابت ہو۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے پوتین پر کافی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم روسی صدر نے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ ایک موقع پر پوتین نے کہا کہ "صبر کریں، امریکی امور میں مداخلت کے حوالے سے آپ کو سوال کا مکمل جواب مل جائے گا"۔ پوتین نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ "کیا آپ واقعی ایسا سمجھتے ہیں کہ روس کی سرزمین پر موجود کوئی شخص امریکا پر اور کروڑوں امریکیوں کے انتخاب پر اثرا انداز ہو سکتا ہے ؟ یہ مکمل طور پر ایک مضحکہ خیز بات ہے"۔
دبئی - حسام عبدربہ
↧
اسرائیل کو صیہونی ریاست قرار دینے کا بل منظور
اسرائیل کی پارلیمان نے اسرائیل کو خصوصی طور پر صیہونی ریاست کا درجہ دینے کا قانون منظور کر لیا۔ منظور کیے گئے صیہونی ریاست کے اس بل میں عربی کو سرکاری زبان مقرر کیا گیا ہے جبکہ یہودی بستیوں کی آبادکاری کو قومی مفاد کا حصہ قرار دیا ۔ برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق منظور کیے گئے قانون میں پورے یروشلم کو متحدہ طور پر اسرائیل کا دارلحکومت گردانا گیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے اس اقدام کی عرب اراکین کی جانب سے مذمت کی گئی تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی حکومت نے یہ بل پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل یہودی قوم کا تاریخی وطن ہے، اور یہاں انہیں قومی خود مختاری کا خصوصی حق حاصل ہے‘۔ بعد ازاں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ میں 8 گھنٹے تک جاری رہنے والی گرما گرم اجلاس کے بعد یہ بل منظور کیا گیا جس کے حق میں 62 اور مخالفت میں 55 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ دیا۔
واضح رہے کہ بل میں موجود کچھ نکات اسرائیلی صدر اور اٹارنی جنرل کے اعتراض پر حذف کر دیے گئے، جس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ اسرائیل کو صرف یہودیوں پر مشتمل کمیونٹی قرار دیا جائے۔
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی آبادی کا 20 فیصد حصہ اسرائیلی عرب پر مشتمل ہے، جنہیں قانون کے تحت برابری کےحقوق حاصل ہیں، لیکن ان کی جانب سے طویل عرصے سے دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت ملنے کی شکایات کی جاتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے عرب رکن پارلیمنٹ احمد طبی نے صیہونی ریاست قرار دینے کے اس بل کی منظوری کو جمہوریت کی موت قرار دیا۔ دوسری جانب ایک عرب غیر سرکاری تنظیم کی رکن ادالہ کے مطابق اس قسم کے نسل پرستانہ قوانین متعارف کروانا نسلی برتری قائم کرنے کی کوشش ہے۔
↧
واٹس ایپ کا پاکستانی صارفین کے لیے اہم پیغام
پاکستان میں عام انتخابات سے قبل پیغام رساں سروس وٹس ایپ نے جعلی خبروں کی نشاندہی کرنے سے متعلق ایک ہفتے دورانیے کی ایک آگہی مہم شروع کر دی ہے۔ وٹس ایپ پاکستانی صارفین میں کافی مقبول ہے۔ اس مہم کے سلسلے میں وٹس ایپ نے پاکستان کے سب سے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے ڈان میں پورے صفحے کا ایک اشتہار شائع کروایا ہے، جس کا عنوان ہے، ’ہم مل کر غلط معلومات کا تدارک کر سکتے ہیں‘۔ اس اشتہار میں میسنجر سروس استعمال کرنے والے صارفین کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ انہیں وٹس ایپ پر موصول ہونے والا پیغام درست ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات پچیس جولائی کے روز ہو رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وٹس ایپ نے اپنی اس تشہیری مہم میں صارفین کو بتایا ہے کہ پاکستانی صارفین کے لیے اس ہفتے سے ایک نیا فیچر متعارف کرایا جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ ’فارورڈڈ میسج‘ کی نشاندہی کر پائیں گے اور صارفین ایسے پیغامات پر، جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ اسے تحریر کس نے کیا تھا، یقین کرنے سے قبل اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں تحقیق کریں۔ دس نکات پر مشتمل اس اشتہار میں لکھا گیا ہے، ’’جعلی اور غلط خبروں پر مبنی پیغامات میں عام طور پر ہجے درست نہیں ہوتے۔ ایسی علامات کو دیکھیں اور پھر ان معلومات کے درست ہونے کی تصدیق کریں۔‘‘
وٹس ایپ پر، جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک کی ملکیت ہے، حالیہ دنوں کے دوران بھارت میں جعلی خبروں کے پھیلائے جانے کا اہم ذریعہ بن جانے کے باعث شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ بھارت میں ایسی ہی غلط خبریں بیس سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بھی بنی تھیں۔ پاکستان میں بھی وٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد کئی ملین ہے اور اس ملک میں بھی سازشی نظریات اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے وٹس ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے پیغامات وائرل ہو جاتے ہیں اور انہیں وصول کرنے والوں کے لیے ان پیغامات کے درست ہونے کی تصدیق کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔
↧
↧
آئی ایس آئی والے اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں : جسٹس شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی'پوری طرح عدالتی معاملات میں جوڑ توڑ کرنے میں ملوث ہے۔ آئی ایس آئی والے اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے چیف جسٹس کو اپروچ کر کے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے دینا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے دعویٰ کیا کہ عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے اور وہ بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے۔ ہفتے کو راولپنڈی میں راول ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ احتساب عدالت کی روز کی پروسیڈنگ کہاں جاتی رہی ہیں۔ معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے۔
جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں نوکری کی پرواہ نہیں۔ ان کے بقول انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ یقین دہانی کرائیں کہ "ان کی"مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے خلاف ریفرنس ختم کرا دیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں نومبر تک چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی تھی۔ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کی اس تقریب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ میرا سب سے بڑا احتساب بار ہی کر سکتی ہے۔ میری بار سے اٹھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شوکت عزیز صدیقی نے کرپشن کی۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی اہم کیس کا فیصلہ آتا ہے، میرے کے خلاف ایک حلقے سے مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ میرا ٹرائل اوپن اور سب کے سامنے ہونا چاہیے جہاں میڈیا بھی موجود ہو۔ میں نے اپنے ضمیر اور پوری ایمان داری کے ساتھ فیصلے کیے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ بڑے عرصے سے خواہش تھی کہ بار کے پاس آکر خود کو احتساب کے لیے پیش کروں۔ سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی تھی کہ میرے خلاف ریفرنس کی کاروائی کھلی عدالت میں ہو۔ اگر میرے خلاف لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت ہو گیا تو آپ مجھ سے استعفے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ ان کی دانست میں پاکستان ایک کشمکش کے دور سے گزر رہا ہے۔ جو لوگ پاکستان کا مقابلہ امریکہ، چین یا یورپی ممالک سے کرتے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ پاکستان کا مقابلہ بھارت کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ بھارت میں بھی کرپشن ہے۔ وہاں بھی مسائل ہیں لیکن ایک فرق ہے کہ بھارت میں ایک بار بھی مارشل نہیں لگا۔ ایک بار بھی سیاسی عمل نہیں رکا۔ بھارت کا وزیرِ اعظم وہ شخص ہے جو چائے کے کھوکھے پر کام کرتا رہا ہے۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ وہ فوج، بیورو کریسی اور سیاست دانوں کے مقابلے میں عدلیہ کو پاکستان کے مسائل کو 50 فی صد سبب سمجھتے ہیں۔ باقی 50 فی صد دیگر مسائل کے فوج، بیورو کریسی اور سیاست دان ذمے دار ہیں۔ بدقسمتی سے ہر کچھ عرصے کے بعد جسٹس منیر کا کردار پاکستان کی عدلیہ میں زندہ ہوتا ہے۔ اس ملک کے 35 سال تو مارشل لا کی نذر ہو گئے۔ اپنے خطاب میں جسٹس صدیقی نے ذرائع ابلاغ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آج یہ میڈیا والے بھی اپنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور سچ نہیں بتا سکتے۔ آج یہ بتا دیں کہ آئی ایس پی آر والے انہیں ڈائریکشن نہیں دیتے۔ میڈیا والے بھی اپنے اشتہار بیچنے کے لیے سچ بولنے سے گریزاں ہیں۔ میڈیا معاشرے کی آواز ہوتی ہے۔ اگر اس ادارے کو پابندِ سلاسل کر دیا جائے گا تو مجھے کہنے دیں کہ یہ ملک آزاد نہیں رہے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی یہ تقریر کسی بھی ٹی وی چینل پر براہِ راست نہیں دکھائی گئی اور نہ ہی ان کی 'آئی ایس آئی'پر تنقید بعد ازاں کسی مقامی چینل نے بطور خبر نشر کی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی گزشتہ سات سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اُنھیں 21 نومبر سنہ 2011ء کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج اور پھر مستقل جج مقرر کیا گیا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت ذرائع ابلاغ میں خبروں کی زینت بننا شروع ہوئے تھے جب اُنھوں نے وفاقی دارالحکومت میں قائم افغان بستیوں کو گرانے میں ناکامی اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے حکام کو جیل بھجوایا تھا۔ حالیہ کچھ عرصے سے جسٹس صدیقی مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران فوج پر تنقید کرتے آ رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے انہوں نے کھلی عدالت میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتے ہوئے تھا کہ وہ اپنے لوگوں کی دیگر اداروں میں مداخلت روکیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کی سپریم کورٹ میں چلے جانے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرِ سماعت ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے 'سی ڈی اے'کے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
چین نے امریکا کے خلاف خاموش سرد جنگ شروع کر رکھی ہے
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک ماہر کے مطابق چین نے امریکا کے خلاف خاموش سرد جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ماہر کے مطابق چین امریکا کی جگہ پر عالمی طاقت بننے کی کوشش میں ہے۔ امریکی ریاست کولوراڈو کے معتبر ایسپن سکیورٹی فورم کے دوسرے دن امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے ایسٹ ایشیا مشن سینٹر کے نائب سربراہ مائیکل کولنز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ واضح ہے کہ بیجنگ حکومت کسی بھی صورت میں امریکا سے جنگ کی متمنی نہیں ہے لیکن موجودہ صدر شی جن پنگ کی حکومت مختلف انداز میں امریکا مخالف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مائیکل کولنز کے مطابق یہ تمام خاموش سرگرمیاں ایک نئے انداز کی سرد جنگ ہیں اور اس کا مقصد چین کو امریکا کی جگہ پر عالمی طاقت تسلیم کروانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سرگرمیاں روس کی کارروائیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کولنز کے مطابق روسی افعال کو امریکی میڈیا پر تشہیر زیادہ دی جاتی ہے اور اس باعث زیادہ آگہی ہے۔ مائیکل کولنز نے واضح کیا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ چین کی امریکا مخالف سرگرمیاں بنیادی طور پر ایک سرد جنگ ہے۔ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ نئی سرد جنگ ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والی امریکا اور سابقہ سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران طے شدہ تعریف سے مختلف ہے۔
امریکی اہلکار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین محصولات کے نفاذ میں عمل اور ردعمل کی پالیسی کے تناظر میں تجارتی جنگ شروع کر چکے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکا شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے میں چین کی مدد و معاونت کا طلب گار ہے۔ مائیکل کولنز نے بحیرہ مشرقی چین کے تنازعے کو مشرق بعید کا ’کریمیا‘ قرار دیا۔ کولنز کے مطابق بحیرہ جنوبی چین پر چین کا ملکیتی دعویٰ کریمیا کے روس میں ادغام کی طرح ہے۔
اسی فورم میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ نے امریکا کو درپیش خطرات اور چیلنجز پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ ایسپن سکیورٹی فورم میں امریکا کو درپیش سلامتی و اقتصادی مسائل و مشکلات پر فوکس کیا جاتا ہے۔ اس میں امریکی حکومتی اہلکاروں کے علاوہ صحافی، دانشور اور مختلف امور کے ماہرین شریک ہو کر اختلافی و نزاعی امریکی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق ایسپن سکیورٹی فورم میں پیش کی جانے والی تجاویزات امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی سامنے رکھی جاتی ہیں۔
بشکریہ DW اردو
↧
فیس بک، ٹوئٹر، گوگل اور مائیکرو سافٹ ایک پراجیکٹ کیلئے اکھٹے
تاریخ میں پہلی بار فیس بک، گوگل، ٹوئٹر اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیاں اپنی مسابقت کو نظر انداز کر کے ایک منصوبے کے لیے اکھٹی ہو گئی ہیں۔ یہ نیا اوپن سورس پراجیکٹ ڈیٹا ٹرانسفر پراجیکٹ، صارفین کو ان تمام پلیٹ فارمز کے درمیان ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کا آسان اور باسہولت آپشن فراہم کرے گا۔ اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا تو صارفین کا ڈیٹا ایک سے دوسرے سروس میں بغیر ڈاﺅن لوڈ یا اپ لوڈ کیے منتقل ہو سکے گا۔ اسی طرح صارفین کو اپنے ڈیٹا کے حوالے سے کسی ایک سروس کا پابند نہیں ہونا پڑے گا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر اور مائیکرو سافٹ کے اس ڈیٹا ٹرانسفر پراجیکٹ کا اعلان ایک ویب سائٹ کے ساتھ سامنے آیا، جس میں اس حوالے سے تمام تر تفصیلات دی گئی ہیں۔
اسی طرح صارفین اس پراجیکٹ کا اوپن سورس کوڈ GItHub پر تلاش کر سکتے ہیں، تاہم فی الحال یہ منصوبہ ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔
فیس بک کے پرائیویسی اینڈ پبلک پالیسی ڈائریکٹر اسٹیو شیٹرفیلڈ نے اس حوالے سے بتایا کہ کسی ایک سروس کا ڈیٹا دوسری سروس میں سائن اپ ہونے کے دوران استعمال کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا، مگر اب ہم یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ہم ڈیٹا ٹرانسفر پراجیکٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ اس وقت سامنے آیا ہے جب ڈیٹا شیئرنگ کے حوالے سے کافی اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔ فیس بک کو کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ متعدد پلیٹ فارمز میں تھرڈ پارٹی ایپس کا صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کا انکشاف ہوا۔ کمپنیوں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ آپ ایسی ایپ استعمال کر رہے ہوں جو آپ کی تصاویر لوگون میں شیئر کر دے، ایک ایسی سوشل نیٹ ورکنگ ایپ ہو جس میں صارفین کا ڈیٹا محفوظ نہ ہو، یہ پراجیکٹ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے میں مدد دے گا۔
↧
اگر گوگل پکچرز میں ایڈیٹ لکھ کر سرچ کی جائے تو
آج کل کوئی صارف گوگل سرچ انجن پر ’ایڈیٹ‘ (idiot) لکھ کر نتائج گوگل پکچرز میں دیکھے، تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سرچ آپ موبائل فون، ٹیبلٹ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، جہاں سے بھی کریں، نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سی تصاویر ہوں گی۔
جرمنی کے اقتصادی جریدے ’ہانڈلزبلاٹ‘، ہفت روزہ میگزین ’شٹَیرن‘ اور ’سرچ انجن لینڈ‘ نامی بلاگ کے ایک ہی طرح کے آن لائن مندرجات کے مطابق بظاہر دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل اس عمل کا نشانہ بنا ہے، جسے ’گوگل پر بمباری‘ یا Googlebombing کہتے ہیں۔ اس آن لائن ’بمباری‘ سے مراد ہیکرز کا ایک ایسا مقابلتاﹰ بے ضرر حملہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے ہیکرز کسی بھی سرچ انجن اور وہاں تلاش کی جانے والی معلومات کے صارفین کو دکھائے جانے والے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
جرمن اقتصادی روزنامے ’ہانڈلزبلاٹ‘ کے مطابق اس واقعے میں نامعلوم ہیکرز نے گوگل پکچرز میں صارفین کی طرف سے ’ایڈیٹ‘ (idiot) لکھے جانے کے بعد آن لائن سرچ کے نتائج میں ایسا دانستہ رد و بدل کر دیا ہے کہ کسی بھی آن لائن ڈئیوائس کی سکرین پر بہت زیادہ تعداد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں گوگل پکچرز پر یہ سرچ ایسے نتائج دکھاتی ہے کہ جیسے کسی صارف نے ’ایڈیٹ‘ نہیں بلکہ سرچ ونڈو میں ’ٹرمپ‘ یا ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ کے لیے نتائج تلاش کیے ہوں۔ دنیا کے کئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے اپنے اپنے طور پر کی گئی تحقیق کے مطابق یہ کام خود گوگل سرچ انجن کی مالک کمپنی گوگل کا نہیں بلکہ ایسے سرگرم لیکن نامعلوم آن لائن کارکنوں کا ہے، جنہوں نے ایسا کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں دراصل اپنی تنقیدی سوچ کا اظہار کیا ہے۔
جرمن جریدے ’شٹَیرن‘ (Stern) کے آن لائن ایڈیشن کے مطابق گوگل سرچ انجن پر ہیکرز کی یہ ’بمباری‘ اس امر کا ایک واضح ثبوت بھی ہے کہ آن لائن ہیکرز کس طرح بہت بڑے بڑے سرچ انجنوں کی کارکردگی کو نشانہ بناتے ہوئے کسی بھی سرچ کے نتائج پر اثرا نداز ہو سکتے ہیں۔ ’سرچ انجن لینڈ‘ نامی بلاگ کے مطابق ایک بار جب ایسا ہو گیا تو اس بارے میں میڈیا میں کی جانے والی رپورٹنگ کے بعد عام صارفین نے جب خود اس سرچ کا تجربہ کرنے کی کوشش کی، تو اس رجحان کو مزید تقویت ملی، یوں ’ایڈیٹ‘ لکھے جانے پر گوگل پکچرز سرچ نے امریکی صدر ٹرمپ کی بہت سی تصاویر دکھانے کے ساتھ ساتھ انہی تصاویر کو ’سو فیصد درست نتائج‘ کی حیثیت سے اولین نتائج کے طور پر بھی دکھانا شروع کر دیا۔
م م / ا ا / ہانڈلزبلاٹ، شٹَیرن، سرچ انجن لینڈ
↧
↧
زمین کی اتھاہ گہرائی میں ہزاروں کھرب ٹن ہیروں کے ذخائر دریافت
اگر آپ کو ہیروں سے دلچسپی ہے اور اصلی ہیروں کی پہچان رکھتے ہیں تو آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ حال ہی میں سائنس دانوں نے ہیروں کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا کھوج لگایا ہے جن کے وزن کا اندازہ ایک ہزار ٹریلین ٹن سے زیادہ ہے۔ آسان گنتی میں اگر آپ ایک کے آگے 15 صفر لگا دیں، تو یہ نئے دریافت ہونے والے ہیروں کے ذخیرے کا وزن بن جائے گا۔ ماضی میں ہیروں کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا تھا۔ کچھ جنگیں تو ایسی بھی ہیں جو صرف ہیروں کے لیے لڑی گئیں۔ دنیا کے سب سے نایاب ہیروں میں کوہ نور بھی شامل ہے جو کئی راجوں مہاراجوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا مغل بادشاہوں تک پہنچا اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد ملکہ برطانیہ کے تاج کی زینت بن گیا۔
قدرتی اور اصلی ہیروں کی بہت بڑے ذخیرے کی دریافت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے چند ہی برسوں میں جواہرات کی منڈیوں میں ہیروں کی ریل پیل ہو جائے گی اور وہ عام آدمی کی قوت خرید میں آ جائیں گے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہیروں کا بڑا ذخیرہ تو دریافت ہو گیا ہے لیکن فی الحال ان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ہیرے عموماً کانوں سے بڑی تلاش بسیار کے بعد نکالے جاتے ہیں۔ ہیروں کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوئلے سے بنتے ہیں۔ کوئلے کو جب بہت زیادہ درجہ حرارت پر شدید دباؤ میں رکھا جاتا ہے تو وہ ہیرے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مصنوعی ہیرے اسی طریقے سے بنائے جاتے ہیں، لیکن چونکہ ان کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی اس لیے ان کا زیادہ تر استعمال صنعتی شعبے میں کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہیروں کے سب سے بڑے ذخیرے کی دریافت کا سہرا امریکہ کے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں کے سر ہے۔
یہ دریافت اس وقت ہوئی جب ایم آئی ٹی کے سائنس دان مصنوعی زلزلے کی لہروں سے زیر زمین چٹانوں کا تجزیہ کر رہے تھے۔ زلزلے کی لہروں کی رفتار سے چٹانوں کی ساخت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ زمین کے نیچے چٹانوں کی تہہ در تہہ پرتیں ہیں۔ بہت گہرائی میں بعض چٹانی پرتوں کی ساخت تو ایسی ہے جیسے پہاڑ الٹ دیے گئے ہوں۔ زمین کی گہرائی کے ساتھ ساتھ چٹانوں پر دباؤ اور درجہ حرارت بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ شديد دباؤ اور درجہ حرارت کے مقامات پر اگر کوئلہ موجود ہو تو زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ وہ ہیروں میں تبدیل ہو جائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیرے میں سے آواز کی لہریں گذرنے کی رفتار، زمین میں پائی جانے والی خام دھاتوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس تجزیے کے دوران سائنس دانوں کو زمین کی گہرائیوں میں ہیروں کی موجودگی کا پتا چلا۔ الرچ فال کا کہنا ہے کہ لہروں کی رفتار کی پیمائش کے بعد ہمارا اندازہ ہے کہ زیر زمین چٹانوں میں ایک سے دو فی صد تک ہیرے موجود ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہیرے زمین کی گہرائیوں میں ہی بنتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جن کانوں سے ہیرے اور دیگر قیمتی پتھر نکالے جا رہے ہیں وہ لاکھوں سال پہلے آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے وجود میں آئیں تھیں۔
زمین، کرہ ہوائی اور فلکیات کے شعبے کے سائنس دان الرچ فال نے کہا ہے کہ ہم ہیروں کو نکال نہیں سکتے، لیکن ان کی مقدار اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ اس سے پہلے ہم نے سوچا تھا۔ اب آپ کا سوال ہو گا کہ جب ہیرے دریافت ہو چکے ہیں تو پھر وہ حاصل کیوں نہیں کیے جا سکتے تو اس کا سادہ سا جواب ہے ٹیکنالوجی، آج کے ماڈرن انسان کے پاس فی الحال وہ ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے جو زمین کی چٹانی پرتوں میں چھپے ہوئے ہیروں کو باہر لا سکے۔
میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہیروں کا یہ ذخیرہ زمین کے نیچے تقریباً 90 سے 150 میل کی گہرائی میں ہے۔ ہم نے ابھی تک کوئی ایسی رگ مشین نہیں بنائی جو اتنی گہرائی تک کھدائی کر سکے۔ ایسی کوئی مشین کب تک تیار کی جا سکے گی، کوئی نہیں جانتا۔ اس نئی دریافت کے بعد اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہیرے بہت کم ملتے ہیں اور نایاب ہوتے ہیں، البتہ نیا ذخیرہ زمین کی سطح پر لانے تک وہ بدستور وہ مہنگے داموں بکتے رہیں گے۔
جمیل اختر - واشنگٹن
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧
Justice Shaukat Aziz Siddiqui
Shaukat Aziz Siddiqui was born in July 1959, in Rawalpindi, Punjab. His father, Aziz-ur-Rehman Siddiqui, was a social and political worker, who was the Chairman of Local Bodies and also served as a Qazi (Qazi is the Urdu for for "Judge"). Mr. Siddiqui went to CB Technical High School, Tariqabad Rawalpindi and then graduated from Gordon College, Rawalpindi. He then enrolled in the University of Punjab and graduated with his LLB degree. He then enrolled as an advocate in the district courts in August 1988. He became an advocate in the Pakistan high court on October 1990 and then, an advocate in the Pakistan Supreme court in April 2001.
He was nominated to the post of the Chairman of the anti-corruption committee of the Punjab Bar Council for Rawalpindi district in 2007-2008. He was also a lecturer in Rawalpindi Law College for about three years. In his spare time, he has contributed articles to Pakistani English papers such as Dawn, the News, Jang etc. In November 2011, Mr. Siddiqui was appointed as an Additional Judge of the Islamabad High Court, to represent the province of Punjab.
↧
افریقہ میں چین اب امریکا سے کہیں بڑی طاقت
افریقہ کے ساتھ تجارت کے حوالے سے چین دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ بڑی طاقت بن چکا ہے۔ اس براعظم کے ساتھ تجارت اور وہاں اثر و رسوخ میں امریکا چین سے پیچھے ہے اور صدر ٹرمپ کی افریقہ میں دلچسپی بھی کم ہے۔ خبر ایجنسی روئٹرز کی ملنے والی رپورٹوں کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے دو روزہ دورہ سینیگال کے آغاز پر یہ کوشش کی کہ افریقہ اور چین کے اقتصادی روابط مزید گہرے ہونا چاہییں۔ روئٹرز کے مطابق اس سوچ کی عملی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سینیگال میں ایک بڑی ہائی وے پر سفر کرنے والے گاڑیوں کے ڈرائیور تو ابھی سے اپنے ملک میں چین کی دلچسپی کے نتائج سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔
چینی صدر کا پرجوش عوامی استقبال
چینی صدر شی جب اپنے اس دورے پر جب سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار پہنچے، تو ان کا استقبال کرنے کے لیے سینکڑوں پرجوش شہری وہاں موجود تھے۔ یہ دورہ کسی چینی رہنما کا گزشتہ ایک عشرے کے دوران سینیگال کا پہلا دورہ ہے۔ ڈاکار پہنچنے پر سینیگال کے صدر میکی سال نے ہوائی اڈے پر مشرق بعید سے آنے والے اس مہمان کا پورے فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا جبکہ سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں ایسے مقامی شہری موجود تھے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں دونوں ممالک کے پرچموں والی جھنڈیاں پکڑی ہوئی تھیں اور ایسی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں، جن پر صدر شی اور صدر میکی سال کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں۔
سینگال میں صدر میکی سال کے ساتھ اپنے مذاکرات کے بعد چینی صدر نے کہا کہ وہ اب تک تین مرتبہ افریقہ کا دورہ کر چکے ہیں لیکن چینی صدر کے طور پر مغربی افریقہ کا یہ ان کا اولین دورہ ہے۔ ساتھ ہی شی جن پنگ نے چینی افریقی اقتصادی روابط کے بارے میں بہت پرامید سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اپنے ہر دورہ افریقہ کے دوران میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس براعظم میں کتنی توانائی اور تحریک پائی جاتی ہے اور اس کے باشندوں کو بہتری اور ترقی کی کتنی امیدیں ہیں۔‘‘
امریکا کی افریقہ میں کم دلچسپی
روئٹرز نے لکھا ہے کہ چین اس وقت دنیا کا وہ ملک ہے جس کے براعظم افریقہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ جامع اور گہرے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چین کی افریقہ سے متعلق پالیسی امریکی حکمت عملی کے بالکل برعکس ہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اب تک اپنی طرف سے افریقہ میں بہت ہی کم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سینیگال میں چینی سفیر کے مطابق چین نے گزشتہ برس اس افریقی ملک میں 100 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔ ان رقوم سے ملکی دارالحکومت ڈاکار اور سینیگال کے دوسرے سب سے بڑے شہر طوبہ کے مابین آمد و رفت کو تیز رفتار بنانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی اور ساتھ ہی ڈاکار کے نواح میں ایک صنعتی پارک بھی قائم کیا گیا۔
بیسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری
افریقہ میں اس وقت کئی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی کے ایسے بہت سے منصوبے زیر تکمیل ہیں، جن کے لیے سستی شرائط پر مالی وسائل چین نے مہیا کیے ہیں۔ افریقہ میں چین کے اس اثر و رسوخ پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح چین افریقہ میں بیسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کی وجہ سے کئی افریقی ممالک بہت زیادہ مقروض ہوتے جا رہے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق مستقبل میں اگر یہ ممالک قرضوں کے طور پر مہیا کردہ یہ رقوم چین کو واپس کرنے کے قابل نہ ہوئے، تو وہ مجبور ہو جائیں گے کہ اپنے ہاں بہت سے اہم سٹریٹیجک منصوبوں کے اکثریتی ملکیتی حقوق بیجنگ کے حوالے کر دیں۔ چینی صدر شی اپنے موجودہ دورہ افریقہ کے دوران سینیگال کے بعد روانڈا جائیں گے، اور وہ اس ملک کی تاریخ میں وہاں کا دورہ کرنے والے پہلے چینی صدر ہوں گے۔
چینی افریقی تعاون فورم
روانڈا کے دورے کے بعد چینی سربراہ مملکت کی اگلی منزل اقتصادی طور پر مشکلات کا شکار ملک جنوبی افریقہ ہو گا، جہاں شی جن پنگ برکس ریاستوں کی ایک کانگریس میں شرکت کریں گے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس (BRICS) گروپ میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بھی ہے، افریقہ سے متعلق کس طرح کے سٹریٹیجک ارادوں کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال ستمبر میں بیجنگ چینی افریقی تعاون فورم کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بھی قائم کر دے گا، جس کے اجلاس میں درجنوں افریقی ریاستوں کے سربراہان مملکت و حکومت حصہ لیں گے۔
م م / ع ب / روئٹرز
بشکریہ DW اردو
↧
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیریئر پر ایک نظر
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں روس میں صدارتی الیکشن کے ذریعے اقتدار پر مکمل قابض ہونے والے ولادیمیر پوٹن نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم: ولادیمیر پوٹن 7 اکتوبر 1952 کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں: گریجویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’’کمیٹی فار سٹیٹ سکیورٹی‘‘ KGB میں ملازمت اختیار کی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
سیاست میں عملی قدم: جون 1991 میں پوٹن نے’’کے جی بی‘‘ سے مستعفی ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
کریملن میں داخلہ: 1997 میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ 1999 میں انہیں ’’رشین سکیورٹی کونسل‘‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
بطور وزیر اعظم: 9 اگست 1999 میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ سکینڈ لز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
صدارت کے عہدے پر براجمان: 26 مارچ 2000 ء کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
دوسری مدت صدارت: 15 مارچ 2004 ء کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ 7 مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
اسرائیل کا دورہ: 27اپریل 2007 ء میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہو۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن نے لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
صدر سے وزیر اعظم : 2 مارچ 2008ء کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور صدارتی امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ: 24 ستمبر 2011ء کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائیٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے: 4 مارچ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ 7 مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔
وقاص چودھری
↧
↧
برازیل کے جنگلوں میں آباد ’دنیا کا تنہا ترین انسان‘
برازیل کے جنگلوں میں بسنے والے قدیم قبیلے کے آخری بچنے والے فرد کی ویڈیو منظر عام پر آگئی جو 22 سال سے تنہا زندگی گزار رہا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق 1992ء میں کسانوں کے حملے میں قدیم قبیلے کے 6 افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ قبیلہ مکمل طور پر جنگلی زندگی بسر کر رہا تھا اور جدید انسان سے مکمل طور پر غیر مانوس اور علیحدہ تھا۔ کسانوں کے حملے میں قبیلے کا ایک ہی فرد زندہ بچا تھا لیکن اس کا سراغ نہیں مل پا رہا تھا تاہم اب 22 سال بعد اس جنگل میں مکمل طور پر تنہا زندگی بسر کرنے والے شخص کی ویڈیو منظر عام پر آگئی ہے۔
جنگل میں زندگی بسر کرنے والے قدیم قبیلے کے آخری فرد کی ویڈیو برازیل کے سرکاری ادارے فونائی نے بنائی ہے جس میں قدیم جنگلی باشندے کو کلہاڑی کے ذریعے ایک درخت کو کاٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ویڈیو سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کی صحت 22 سال بعد بھی قابل رشک ہے جب کہ ماضی میں اس شخص کی بنائی ہوئی کچھ جھونپڑیاں اور تیر وغیرہ بھی اس جنگل سے برآمد ہوئے تھے۔ برازیل کے جنگلوں میں آباد قدیم روایتوں کے امین ان قبیلوں کی دیکھ بحال کے لیے قائم سرکاری ادارے فونائی کا کہنا ہے کہ برازیلی قانون کے تحت مقامی قبائلیوں کو اپنےعلاقے پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں.
تاہم ارد گرد آباد کسان ان علاقوں پر قابض ہونا چاہتے ہیں جب کہ فونائی خود بھی ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیوں کہ ان میں جدید انسان کے جراثیم کے خلاف مدافعت نہیں ہوتی اور یہ بڑی آسانی سے زکام جیسے معمولی مرض کا شکار ہو کر مر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اب تک اس 50 سالہ شخص سے کسی جدید انسان کا رابطہ نہیں ہوا۔ نہ اس کے قبیلے کے نام کا کسی کو پتا ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ وہ لوگ کون سی زبان بولتے تھے۔ اسے میڈیا میں ’دنیا کا تنہا ترین انسان‘ کہا جاتا ہے، خود بھی جدید انسانوں سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا اور اگر کوئی اس کے علاقے میں جائے تو اس پر تیر برساتا ہے۔
↧
مصر میں دو ہزار سال پرانے تابوت سے کیا نکلا ؟
مصر میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اسکندریہ سے سنگِ سیاہ سے تراشا گیا ایک بہت بڑا تابوت کھود نکالا تھا جس کی عمر کا تخمینہ دو ہزار سال لگایا گیا تھا۔
اس تابوت سے تین ڈھانچے برآمد ہوئے اور ساتھ ہی ایک ناقابلِ برداشت بدبو۔
کیا اس تابوت کے اندر کوئی خوفناک بلا چھپی ہے جو نکل کر سارے ملک یا پھر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی؟
محکمۂ آثارِ قدیمہ کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے کہا: 'تابوت کے اندر سے تین لوگوں کی ہڈیاں نکلیں، یہ بظاہر ایک خاندان کی مشترکہ تدفین لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ممیاں اچھی حالت میں نہیں ہیں اور صرف ان کی ہڈیاں بچی ہیں۔'
مصری اخبار الوطن کے مطابق انھوں نے تابوت کا ڈھکن دو انچ بھی نہیں اٹھایا تھا کہ تیز بدبو نے انھیں وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
بعد میں تابوت کھولنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی گئیں اور فوجی انجینیئروں نے تابوت کا بھاری ڈھکن اٹھایا۔
تابوت کھولتے وقت علاقے کو لوگوں سے خالی کروا لیا گیا تھا۔ کسی آفت کے ڈر سے نہیں، بلکہ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ تابوت میں کوئی خطرناک گیس نہ ہو۔
↧
وکٹوریا جھیل : بلحاظ رقبہ یہ دوسری بڑی جھیل ہے
جھیل وکٹوریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل اور دریائے نیل کا سب سے اہم ذخیرۂ آب ہے۔ دنیا کی تازہ پانی کی جھیلوں میں بلحاظ رقبہ یہ دوسری بڑی جھیل ہے۔ اس سے بڑی جھیل شمالی امریکا میں واقع سپیرئیر جھیل ہے۔ رقبہ کا پھیلاؤ 26 ہزارچھ سو مربع میل ہے جو تقریباً سکاٹ لینڈ کے رقبے کے برابر ہے۔ پانی کے حجم کے لحاظ سے اس کا دنیا میں نمبر نواں ہے اور اس میں دو ہزار سات سو 50 مکعب کلومیٹر پانی ہے۔ جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 276 فٹ اور اوسط گہرائی 130 فٹ ہے۔ اس جھیل کے ساحل کا مجموعی طول دو ہزار میل کے قریب ہے۔ وکٹوریا جھیل اپنے اچانک طوفانوں کے لیے بہت بدنام ہے جس کی وجہ سے اس میں چلنے والے جہاز ہمیشہ بڑے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔
کاگیرا اس کا سب سے بڑا معاون دریا ہے۔ چند چھوٹے دریا اور بہت سی چھوٹی بڑی ندیاں ہیں جو اس میں اپنا پانی لا کر شامل کرتی ہیں۔ ان دریاؤں کے ذریعہ کافی پانی اس جھیل میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے نیل اس میں سے گزرتا ہے اور اسی کے ذریعہ وکٹوریا جھیل کے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ جھیل تین ملکوں کینیا، یوگینڈا اور تنزانیہ میں تقسیم ہے۔ کینیا میں اس کا چھ فیصد، یوگینڈا کا 45 فیصد اور تنزانیہ میں 49 فیصد حصہ ہے۔ اس جھیل کی عمر چار لاکھ سال ہے۔ یہ جھیل اپنا 80 فیصد پانی براہ راست بارشوں سے حاصل کرتی ہے۔ جانداروں کی بہت سی انواع اس جھیل میں یا اس کے اردگرد رہتی ہیں۔ تاہم گزشتہ 50 برسوں میں بعض انواع ناپید ہو گئی ہیں۔ جھیل کو ماحولیاتی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ سیوریج اور صنعتی فضلے کا اس میں شامل ہونا ہے۔ نیز کسانوں کی استعمال کردہ کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار زہروں کے اثرات بھی اس کے پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔
وردہ بلوچ
↧