↧
جرمنی روس کا ’’قیدی‘‘ بن چکا ہے : امریکی صدر ٹرمپ
↧
تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے بچے باہر کیسے آئے ؟
تھائی لینڈ میں سیلاب کے باعث ایک غار میں پھنسنے والے تمام 12 بچوں اور ان کے فٹبال کوچ کو تقریباً دو ہفتے بعد نکال لیا گیا۔ غار میں 9 کرب ناک دن گزارنے کے بعد برطانیہ کے دو غوطہ خوروں نے ان کی نشاندہی کی، جنہیں دیکھ کر ان 13 افراد کی ہمت بندھی۔ تاہم نشاندہی کے باوجود انہیں باہر نکالنے کا مرحلہ آسان نہ تھا کیونکہ غیر تربیت یافتہ غوطہ خوروں کے لیے کیچڑ اور گندے پانی میں تیرنا انتہائی خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگر یہ بچے پانی کے کم ہونے تک انتظار کرتے تو اس کے لیے انہیں مہینوں انتظار کرنا پڑتا اور اس دوران انہیں مسلسل خوراک اور دیگر چیزیں فراہم کرنا ہوتیں۔ ریسکیو آپریشن کے ذریعے غار سے نکالے جانے والے تمام افراد کی جسمانی و ذہنی صحت جانچنے کا عمل جاری ہے، جلدی بیماریوں اور انفیکشن کے پیش نظر ان تمام افراد کو کچھ دن تک ان کے اہل خانہ سے دور رکھا جائے گا۔
↧
↧
امریکی رویہ چین ، دنیا اور خود امریکا کے لیے نقصان دہ
امریکی حکام نے ان 200 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات کی فہرست جاری کر دی ہے، جن پر دس فیصد محصولات عائد کی جانے والی ہیں۔ اس نئی پیش رفت سے امریکا اور چین کے درمیان ’اقتصادی جنگ‘ میں مزید شدت کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ امریکی حکام کی جانب سے اس فہرست کے اجراء پر خود امریکی تاجروں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جب کہ چین نے بھی اس نئے امریکی منصوبے کی مذمت کی ہے۔ امریکا نے ایک فہرست جاری کی ہے، جس میں دو سو ارب ڈالر کی چینی مصنوعات کی تفصیلات درج ہیں، جن پر جلد ہی محصولات عائد کر دی جائیں گی۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان اس پیش رفت سے کشیدگی میں مزید اضافے کے خدشات ہیں۔
امریکی محکمہ برائے نمائندگانِ تجارت کے مطابق چین کی چھ ہزار اکتیس مزید ایسی مصنوعات ہیں، جن پر دس فیصد محصولات عائد کی جانا ہیں۔ یہ فہرست کو اگلے دو ماہ میں حتمی شکل دے دی جائے گی، جس کے بعد صدر ٹرمپ اس پر عمل درآمد کے احکامات جاری کریں گے۔ کہا گیا ہے کہ ان چینی مصنوعات پر محصولات ستمبر تک عائد کی جا سکتی ہیں۔ ان مصنوعات میں خوراک، کیمیائی مادے، معدنیات، تمباکو، الیکٹرانک اور دفتری سامان وغیرہ شامل ہے۔ چینی وزارت برائے اقتصادیات نے امریکی محصولات کی اس نئی لہر کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس امریکی اقدام کا جواب دیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے، ’’امریکی رویہ چین کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ دنیا کو نقصان پہنچا رہا ہے اور خود امریکا کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘ امریکی کی تجارتی برادری کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکا میں متعدد اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، جس کا نقصان عام افراد کو اٹھانا پڑے گا۔ امریکی تاجروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکی کاروباری اداروں اور خاندانوں کو کئی ارب ڈالر ٹیکس برداشت کرنا پڑے گا، جب کہ چین کی جانب سے ردعمل سے امریکی برآمدات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ امریکی سینیٹ کی فائنانس کمیٹی نے بھی اس اقدام کو ’سفاک‘ قرار دیا ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا عالمی تجارتی ضوابط اور عالمگیریت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکی انتظامیہ نے 34 ملین ڈالر کی مالیت کی چینی اشیاء پر 25 فیصد محصولات عائد کی تھیں، جس کے بعد چین نے بھی اتنی ہی قدر کی امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ع ت / الف الف (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے۔ اے پی)
بشکریہ DW اردو
↧
ولادیمیر پوٹن نہ تو دوست ہیں ناہی دشمن : ڈونالڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اُن کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن نہ تو دوست ہیں ناہی دشمن۔ چند ہی دِن بعد دونوں کی ہیلسنکی میں ملاقات ہونے والی ہے۔ برسلز میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران ایک اخباری کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ کیا وہ ہمارے دوست ہیں؟ نہیں۔ میں اُنھیں زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن جتنی بار میں اُن سے ملا ہوں، ہماری گفتگو اچھی رہی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے کہا کہ پوٹن ’’حریف‘‘ ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’توقع ہے کہ ایک دِن وہ دوست بن جائیں گے، ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن، میں اُنھیں بہت زیادہ نہیں جانتا‘‘۔ دونوں سربراہان ہیلسنکی میں ملاقات کرنے والے ہیں، جس کے لیے ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ حکمت عملی کے حامل ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والی جوہری فورسز کے معاہدے اور سنہ 2016 میں امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کے معاملے پر آواز اٹھائیں گے۔ ٹرمپ کے بقول، ’’ہم ملاقات کریں گے، باقی باتوں کے علاوہ‘‘۔
↧
ٹرمپ کی معاشی سیاست، امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری ایک تہائی کم ہو گئی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے اولین واضح نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن میں وزارت تجارت کے مطابق ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے اب تک امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری قریب ایک تہائی کم ہو چکی ہے۔ امریکی وزارت تجارت کے تحت کام کرنے والے اقتصادی تجزیوں کے دفتر یا بی ای اے (BEA) کے مطابق 2017ء میں امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 32 فیصد کم ہو کر تقریباﹰ 260 ارب ڈالر رہ گیا، جو 221 ارب یورو کے قریب بنتا ہے۔ اس سے ایک سال قبل 2016ء میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہی مجموعی حجم 380 ارب ڈالر کے قریب رہا تھا۔
اس طرح ٹرمپ کے دور صدارت میں ایک سال کے دوران امریکی معیشت میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری میں تقریباﹰ 120 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اس کے برعکس 2015ء میں امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہ سالانہ حجم 440 ارب ڈالر کے قریب تک پہنچ گیا تھا، جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں بیرونی سرمایہ کاری اگرچہ ایک ایسے بین الاقوامی رجحان کی وجہ سے بھی ہوئی ہے، جس نے ماضی کے مقابلے میں دنیا کی اس سب سے بڑی معیشت کو اب زیادہ متاثر کیا ہے۔ یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ای سی ڈی کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں قریب 18 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
لیکن جہاں تک امریکا کا سوال ہے تو وہاں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بڑی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں بھی بنی ہیں۔ دنیا کے کئی بڑے بڑے سرمایہ کار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کی محصولات سے متعلق متنازعہ سیاست اور اقتصادی حفاظت پسندی کی سوچ کی وجہ سے فی الحال انتظار اور امریکا میں نئی غیر ملکی سرمایہ کاری سے اجتناب کریں گے۔ ان بیرونی سرمایہ کاروں اور کئی اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ مہینوں میں واشنگٹن کے قریبی اور روایتی طور پر بڑے تجارتی ساتھیوں کے ساتھ جو تنازعات شروع کیے ہیں، فی الحال امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر ان کے اثرات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لیے امریکا میں سرمایہ کاری سے متعلق فیصلوں میں اعتماد اور پیش رفت کے بجائے خدشات اور احتیاط پسندی زیادہ نمایاں ہیں۔
امریکا کو اس وقت جن ممالک یا خطوں کے ساتھ تجارتی جنگوں کا سامنا ہے، ان میں امریکا کا ہمسایہ ملک کینیڈا، دنیا کے دوسری سب سے بڑی معیشت چین اور 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین نمایاں ترین ہیں۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد سے مسلسل یہ کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی سرمایہ کار شخصیات اور اداروں کو امریکا میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانا چاہیے۔ عملی طور پر ان کوششوں کے نتائج مثبت کے بجائے منفی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں نے امریکا میں بیرونی سرمایہ کاری کو کس حد تک متاثر کیا ہے، اس کی ایک مثال جرمنی کی بھی ہے۔ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں قائم ایک بہت بڑا ادارہ ’ویُورتھ‘ (Wuerth) بھی ہے، جو دنیا بھر میں تعمیراتی شعبے کی مشینری اور ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔
اس ادارے کے سربراہ رائن ہولڈ ویُورتھ کہتے ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا میں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ارادوں کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے ادارے کی سالانہ آمدنی میں سے 1.8 ارب یورو یا 14 فیصد حصہ امریکا سے آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں چاہتا ہوں کہ ہم امریکا میں اپنی موجودہ کاروباری سرگرمیوں میں کوئی اضافہ نہ کریں۔‘‘ رائن ہولڈ ویُورتھ کے مطابق ان کا ادارہ امریکا میں اس وقت دوبارہ سرمایہ کاری کرے گا، جب ڈونلڈ ٹرمپ چلے جائیں گے۔
م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے
بشکریہ DW اردو
↧
↧
کيا آپ مہاجر کيمپوں ميں بے مقصد زندگی گزارنے يورپ آئے تھے
ڈھائی برس يورپ ميں گزارنے اور تين مختلف ملکوں ميں پناہ کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ڈسکہ، سيالکوٹ سے تعلق رکھنے والا تارک وطن شاہد علی اس نتيجے پر پہنچا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جا کر اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرے گا۔ تيئیس سلہ شاہد علی نے حال ہی ميں يہ فيصلہ کيا کہ وہ اپنے آبائی علاقے جا کر اپنی ’بيچلر آف سائنس‘ کی تعليم مکمل کرے گا اور وہيں کوئی نوکری تلاش کر کے ايک روشن مستقبل تعمير کرنے کی کوشش کرے گا۔ شاہد نے فرانسيسی دارالحکومت پيرس سے پچھلے ہفتے لاہور کی ٹکٹ کرائی اور اب وہ پاکستان ميں ہے۔ پاکستان روانگی سے قبل ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے اس نے بتايا کہ بہتر مستقبل کی تلاش ميں اس نے يورپ ميں در بدر کی ٹھوکريں کھائيں اور بالآخر اس نتيجے پر پہنچا کہ کسی مہاجر کيمپ ميں بے مقصد، بے معنی اور بے عزتی والی زندگی گزارنے سے اپنے ديس ميں رہنا اور وہيں آگے بڑھنے کی جستجو کرنا بہتر ہے۔
شاہد ترکی کے راستے يونان جنوری سن 2016 ميں پہنچا تھا۔ اس وقت چونکہ مہاجرين کا ترکی سے يورپی يونين کی جانب بہاؤ روکنے کے ليے ترکی اور يورپی يونين کے مابين کسی معاہدے پر بات چيت جاری تھی، نئے پہنچنے والے مہاجرين کو يونانی جزائر پر ہی رکھا جا رہا تھا۔ ليسبوس آمد پر شاہد کو حراست ميں لے ليا گيا۔ اس نے بتايا کہ اس وقت تک وہ اس قدر بے خبر تھا کہ حراست کے دوران اسے يہ پتہ چلا کہ ترکی ملک بدری سے بچنے کے ليے وہ يونان ميں پناہ کی درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ گو کہ شاہد کی منزل معاشی طور پر زيادہ مستحکم مغربی يورپی ممالک ہی تھے تاہم اس نے اپنے سفر کے جلد خاتمے سے بچنے کے ليے يونان ميں درخواست دے دی۔ وہ بتاتا ہے، ’’ماہ اگست ميں رمضان تھا اور اس وقت مجھے ايک دن اچانک انٹرويو کے ليے بلا ليا گيا۔ ميری تياری ٹھيک نہ تھی اور جيسے تيسے ميں نے جوابات دے ديے۔ پھر ايک ماہ بعد مجھے مطلع کيا گيا کہ ميری درخواست مسترد ہو چکی ہے۔‘‘
شاہد علی کے پاس رہائش کی اجازت اس سال اکتوبر ميں ختم ہو رہی تھی، اب اسے کوئی اميد نہ تھی۔ يورپ ميں ايک بہتر زندگی کا اس کا خواب بہت جلد اپنے ناکام اختتام کو پہنچنے کو تھا۔ شاہد کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح يونانی دارالحکومت ايتھنز پہنچ سکے کيونکہ ان دنوں وہاں مواقع مقابلتاً زيادہ ہوا کرتے تھے۔ پھر ايک دن مدد آن پہنچی۔ موريا نامی ديہات کی دو لڑکيوں نے شاہد کو اپنی گاڑی کی ڈکی ميں بٹھا کر ايتھنز پہنچا ديا۔ اس نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’ميں سولہ گھنٹوں تک گاڑی کی ڈکی ميں ہی چھپا رہا اور جب ايتھنز پہنچ کر ميں اس سے باہر نکلا، تو ميری ٹانگيں اکڑ چکی تھيں اور گھنٹوں تک مجھ ميں کھڑے ہونے تک کی سکت نہ تھی۔‘‘
وہاں سے شاہد کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ انسانوں کے ايک اسمگلر نے نو سو يورو کے عوض شاہد کو فرانس کا جعلی شاختی کارڈ فراہم کيا۔ افريقہ سے تعلق رکھنے والے اس اسمگلر نے شاہد کو اپنے ايک دوست کی ايجنسی سے ٹکٹ دلوايا اور پھر ہوائی اڈے تک چھوڑ کر آيا۔ ايتھنز ايئر پورٹ پر معمولی پوچھ گچھ کے بعد حيران کن طور پر شاہد کو پيرس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اسے ايسا لگا کہ شايد اس کی دال گل گئی ہے ليکن اميگريشن حکام نے دراصل چالاکی سے کام ليا تھا۔ پيرس آمد پر فوری طور پر اسے حراست ميں لے ليا گيا کيونکہ ايتھنز ميں حکام نے پيرس ايئر پورٹ کو اطلاع دے دی تھی کہ اس پرواز پر ايک مشکوک فرد سوار ہے۔
پاکستانی تارک وطن شاہد علی نے اگلا ايک ہفتہ پيرس کے اورلی ہوائی اڈے پر گزارا، جس دوران يونان سے اس کی ايک خير خواہ وکيل پيرس آئی اور اس نے شاہد کی قانونی کارروائی سنبھالی۔ بعد ازاں اسے پيرس ميں پناہ کی درخواست دينے کی اجازت دے دی گئی۔ شاہد اکتوبر سن 2017 تک پيرس ميں ہی رہا مگر وہاں بھی اس کی دال نہ گلی۔ پچھلے سال کے اواخر ميں شاہد علی اٹلی کے وسطی حصے فيرمو پہنچا۔ وہاں وہ جس مہاجر کيمپ ميں تھا، اس ميں تقريباً ايک سو ديگر پاکستانی بھی موجود تھے۔ وہيں شاہد کی آنکھيں کھليں، ’’ميں نے ديکھا کہ درجنوں پاکستانی بے مقصد زندگياں گزار رہے ہيں۔ وہ تين تين سال سے اسی مہاجر کيمپ ميں تھے اور بس کاغذی کارروائی ميں ان کا وقت گزر رہا تھا۔ ميں نے خود سے يہ سوال کيا کہ کيا يہی زندگی گزارنے ميں يورپ آيا تھا؟‘‘
سال رواں مارچ ميں شاہد علی واپس پيرس پہنچا۔ وہ يہ فيصلہ کر چکا تھا کہ اب اسے اپنے ملک جانا ہے اور وہيں کچھ کرنا ہے۔ شاہد نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’ميں پاکستان چھوڑنے سے پہلے گوجرانوالہ کی ايک يونيورسٹی سے چار سمسٹر مکمل کر چکا تھا۔ اب ميں وہاں جا کر اپنی تعليم مکمل کروں گا۔‘‘ شاہد کے بقول يورپ کے مختلف حصوں ميں بے مقصد زندگی گزارنے والے ہزارہا پاکستانيوں کو خود سے يہ سوال پوچھنا چاہيے کہ کيا وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ايسی زندگی گزارنے يورپ آئے تھے؟
بشکریہ DW اردو
↧
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو برطانیہ کے دورے میں شدید احتجاج کا سامنا
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وزیراعظم تھریسامے سے ہونے والی تلخی کے بعد پہلی مرتبہ برطانیہ کے دورے پر لندن پہنچے جہاں انھوں نے وزیراعظم اور ملکہ ایلزبتھ سے ملاقات کی۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے برطانیہ کی جانب سے یورپین یونین سے الگ ہونے کے فیصلے پر وزیراعظم تھریسامے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا تاہم اس دورے میں انھوں نے ملاقات تفصیلی گفتگو کی۔ دوسری جانب برطانوی عوام نے ٹرمپ کے دورے پر شدید احتجاج کیا اور ٹرمپ سے مشابہہ تصاویر دیگر اشیا اٹھا کر احتجاج ریکارڈ کروایا۔
↧
نواز شریف، مریم نواز کی وطن واپسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی سربراہی میں قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد وطن واپسی پر استقبال کے لیے ریلی نکالی گئی جو رکاوٹوں کے باعث لاہور ائرپورٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ پنجاب کی نگراں حکومت نے لاہور میں ائرپورٹ کی جانب جانے والے تمام راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔
مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا گیا اور شیلنگ بھی کی گئی جبکہ فیصل آباد، گجرانوالا، سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں سے لاہور آنے والی ریلیوں کو بھی شہر میں داخلے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
↧
سنہ 2014 کے بعد غزہ کے خلاف اسرائیل کی سب سے بڑی فضائی کارروائی
اسرائیل نے سنہ 2014 کے بعد غزہ کے خلاف سب سے بڑی فضائی کارروائی کی ہے، جب کہ حماس کے شدت پسند جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیلی علاقے پر راکیٹ حملے کر رہے ہیں۔ یہ فضائی حملہ ہفتے کی علی الصبح کیا گیا، جس کا جواب فلسطین کی طرف سے بکتربند گولوں اور راکیٹ حملوں سے دیا گیا۔ اسرائیل نے بتایا ہے کہ اُس کی جانب سے حماس کے 40 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حماس کی اسلامی تنظیم غزہ پر حکومت کرتی ہے۔ اسرائیلی فوج نے بتایا ہے کہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس نے50 سے زائد راکیٹ داغے ہیں۔
ایک فلسطینی اہلکار نے 'رائٹرز'خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ امن کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے مصر اور دیگر بین الاقوامی فریق اسرائیل اور حماس سے رابطے میں ہیں۔ ہفتے کے روز کے پُرتشدد واقعات سے پہلے جمعے کو ایک فلسطینی نوجوان کی شہادت کا واقعہ سامنے آیا، جو اُس وقت ہوا جب غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر ہفتہ وار احتجاج جاری تھا۔ غزہ کی وزارتِ صحت نے جمعے کے روز بتایا کہ 15 برس کا نوجوان جھڑپوں کے دوران شہید ہوا، جن میں 25 افراد زخمی ہوئے۔ بعدازاں، ایک 20 سالہ فلسطینی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے، اسپتال میں دم توڑ گیا۔ 30 مارچ سے اب تک ہفتہ وار احتجاج کے دوران اب تک کم از کم 137 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
↧
↧
ٹرمپ دورہ برطانیہ میں اپنے الفاظ سے پھر گئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر اپنے الفاظ سے پھر گئے، پہلے بریگزٹ منصوبے کو برا کہا لیکن ٹریزا مے کی بریفنگ کے بعد بریگزٹ اُن کی نظر میں اچھا ہو گیا۔ مظاہرے صدر ٹرمپ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، دورہ برطانیہ کے دوران صرف لندن میں ہی ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد نے ٹرمپ کے خلاف شدید مظاہرہ کیا۔ لندن اور گلاسگو سمیت کئی شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور خوب نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی نفرت، خوف اور تشدد کی مبینہ اقدار کی برطانیہ میں کوئی جگہ نہیں۔ ساتھ ہی امریکی صدر کی شکل والا نارنجی رنگ کا غبارہ برطانوی پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے فضا میں بلند کیا گیا۔
گلاسگو روانگی سے پہلے ٹرمپ نے ٹریزا مے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی پھر اُن کی ملکہ برطانیہ سے چائے پر ملاقات ہوئی، تاہم صدر ٹرمپ نے اس عرصے میں اپنے متنازع بیانات اور طرز عمل سے حکومتی اور اپوزیشن دونوں اطراف کے برطانوی سیاستدانوں کو خوب ناراض کیا۔ صدر ٹرمپ اور لندن میئر صادق خان کے درمیان لفظوں کی جنگ بھی جاری رہی۔ ٹرمپ نے تارکین وطن کو لندن جرائم میں اضافے کی وجہ قرار دیا تو جواب میں صادق خان نے اس بیان کو احمقانہ قرار دے دیا۔ برطانیہ کے 4 روزہ غیر رسمی دورے پر امریکی صدر اپنے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا وفد لے کر آئے ہیں، ان کے ہمراہ لاتعداد سیکرٹ سروس اہلکار، فوجی کمیونیکشن اسٹاف، میڈیا اراکین، ڈاکٹر، ذاتی باورچی اور ذاتی لیموزین بھی ہے۔ تمام وفد کو 2 طیاروں اور 6 ہیلی کاپٹرز میں برطانیہ پہنچایا گیا ہے۔ وفد میں شامل افراد کیلئے ہوٹل کے 750 کمرے بک کرائے گئے ہیں۔
↧
ڈینیوب : یورپ کا دوسرا بڑا دریا
ڈینیوب یورپ کا دوسرا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس کی لمبائی 1780 میل ہے اور اس کا مبدا جنوب مغربی جرمنی میں دو پہاڑی نالے، یعنی بری گاچ اور بریگ، ہیں۔ یہ دونوں ڈوناس ایس جن گن پر ملتے ہیں۔ یہاں سے ڈینیوب شمال مشرق کی سمت بہتا ہے۔ آگے جانے کے بعد اس دریا کو دریائے مین اور رائن سے نہر کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے۔ ڈینیوب آسٹریا میں سے گزر کر چیکو سلواکیہ کے کچھ حصے میں سے ہو کر ہنگری میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اس میں ڈراوا اور ٹسزا شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سے تقریباً تین سو چھوٹے بڑے دریا اور نالے آ کر ملتے ہیں۔ آگے جا کر یہ یوگوسلاویہ اور رومانیہ کی سرحد بناتا ہے۔
مزید آگے چل کر یہ رومانیہ اور بلغاریہ کی سرحد بناتا ہے۔ اس کے پورے آب گزر کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے زائد ہے۔ اس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ مغرب سے مشرق کو بہتا ہے اور بحیرۂ اسود میں جا گرتا ہے۔ اس کے کچھ حصے میں جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ اس پر یورپ کے خوبصورت ترین شہر مثلاً ویانا، بوڈاپسٹ وغیرہ واقع ہیں۔ یہ وسطی اور مشرقی یورپ کا دریا ہے۔ کسی زمانے میں یہ طویل عرصے تک رومی سلطنت کی سرحد کا کام دیتا رہا۔ یہ آسٹریا، سلواکیہ، ہنگری، کروشیا، سربیا، رومانیہ، بلغاریہ، مالدوا اور یوکرائن میں سے یا ان کی سرحدوں کو چھو کر گزرتا ہے۔ یہ مچھلیوں کی ہزاروں اقسام کی آماجگاہ ہے۔
↧
امریکی انتخابات کی ہیکنگ، روسی جاسوسوں پر فرد جرم عائد
سن 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کو ہیک کرنے کے الزام میں روس کے 12 جاسوسوں پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ روس کے 12 جاسوسوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے کمپیوٹر اور اُن میں موجود بڑے ڈیٹا کو ٹارگٹ کیا تھا۔ اس ڈیٹا کا تعلق سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں اسی پارٹی کی خاتون امیدوار ہیلری کلنٹن سے بھی تھا۔ روسی جاسوسوں پر فرد جرم خصوصی تفتیش کار رابرٹ میُولر کی تفتیش کے دوران حاصل شدہ معلوکات کی روشنی میں عائد کی گئی ہے۔ میولر سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات کی چھان بین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان ایک درجن روسی جاسوسوں پر گرینڈ جیوری نے بھی فرد جرم عائد کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ ان پر خصوصی تفتیش کار کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ وہ پانچ لاکھ ووٹرز کا خفیہ ڈیٹا چوری کرنے کے بھی مرتکب ہوئے تھے۔ امریکی وزارت انصاف نے بھی الزامات عائد کیے جانے کا بیان جاری کیا ہے۔ واشنگٹن حکومت کے نائب ڈپٹی اٹارنی جنرل راڈ روزنسٹین نے الزامات عائد کیے جانے کی تفصیلات کا اعلان کیا۔ نائب ڈپٹی جنرل کے مطابق الزامات کی حتمی تفصیلات خصوصی تفتیش کار رابرٹ میولر نے مرتب کی تھیں۔
فرد جرم کے مطابق روسی جاسوسوں نے ریاستی الیکشن بورڈ کے کمپیوٹر ڈیٹا کی تفصیلات کو چوری کیا۔ انہوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے بظاہر محفوظ خیال کیے جانے والے ڈیٹا میں سے مختلف ای میلز کو بھی چرایا۔ ایسی ڈیوائسز کی تفصیلات حاصل کی گئیں، جن کا تعلق ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کی ٹیم سے تھا۔ ان ای میلز کو صدارتی الیکشن سے قبل عام کر دیا گیا تھا۔ امریکا کے نائب ڈپٹی اٹارنی جنرل راڈ روزن اسٹین کا کہنا ہے کہ ان غیر ملکی جاسوسوں نے ایک نئے انداز میں انتخابی عمل کے ووٹرز کو اپنا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل کا مقصد ووٹرز کو پریشان اور کنفیوز کرنا تھا تا کہ وہ ذہنی طور اور اجتماعی انداز میں بھی منقسم ہو کر مناسب فیصلے سے محروم رہیں۔ ایسے امکانات بھی ہیں کہ خصوصی تفتیش کار کا صدر ٹرمپ کی مہم کے اہلکاروں کے ساتھ ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ میولر کی تفتیش پر تنقید کر چکے ہیں۔
↧
ترکی ميں ناکام فوجی بغاوت کے دو برس مکمل
ترکی ميں دو برس قبل ناکام فوجی بغاوت کی کوشش ميں درجنوں افراد ہلاک اور ہزارہا زخمی ہو گئے تھے۔ ترکی ميں صدر رجب طيب ايردوآن کا تختہ پلٹنے کے ليے ناکام فوجی بغاوت کو آج دو برس ہو گئے ہيں۔ اس موقع پر ايردوآن نے دارالحکومت انقرہ ميں ايک قرآن خوانی کی تقریب ميں شرکت کی، جس کے بعد ملک بھر ميں مختلف تقاريب منعقد ہوئيں۔ ترکی ميں مذہبی امور کے نگران علی ارباس نے ايک خصوصی دعائيہ تقريب ميں ناکام فوجی بغاوت کی کوششوں کے دوران ہلاک ہونے والے ڈھائی سو اور زخمی ہونے والے دو ہزار سے زائد افراد کے ليے دعا کی۔ انہوں نے کہا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کيا، وہ بيرونی قوتوں کے ہاتھوں ميں کھيلنے والے غداروں کے سامنے کھڑے ہوئے۔
ترک ميں پندرہ جولائی سن 2016 کے روز ملکی فوج کے چند دھڑوں نے ايردوآن کا تختہ الٹنے کے ليے ٹينکوں، جنگی طياروں اور ہيلی کاپٹروں کی مدد سے چڑھائی کر دی۔ نتيجتاً استنبول، انقرہ اور مرماريس ميں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ صدر ايردوآن اس وقت مرماريس ميں چھٹيوں پر تھے اور وہ حملوں ميں بس بال بال بچ نکلے۔ جنگی طياروں نے ملکی پارليمان کی عمارت سميت ديگر مقامات پر بمباری بھی کی۔ صدر رجب طيب ايردوآن نے اس ناکام بغاوت کا الزام امريکا ميں مقيم ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کيا، جسے وہ مسترد کرتے آئے ہيں۔
اس ناکام بغاوت کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھنے والوں کے لواحقين کے ساتھ ايک عشائيے ميں شرکت کے دوران ايردوآن نے کہا کہ متاثرين کی قربانيوں کو کبھی بھلايا نہيں جائے گا۔ صدر نے کہا کہ مستقبل ميں ايسے واقعات سے بچنے کے ليے يہ لازمی ہے کہ بچوں کو اسکولوں ميں اس اہم تاريخ اور اس روز پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں پڑھايا جائے۔ ترکی ميں اس ناکام فوجی بغاوت ميں ملوث ہونے کے شبے پر اب تک تقريباً پچھتر ہزار افراد کو گرفتار اور ايک لاکھ تيس ہزار سے زائد سرکاری ملازمين کو برطرف کيا جا چکا ہے۔ ان ميں عدليہ، پوليس، استغاثہ، فوج اور شعبہ تعليم سے منسلک افراد بھی شامل ہيں۔
ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں
بشکریہ DW اردو
↧
↧
مصر میں لاشوں کے تحنط کی ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ دریافت
عجائبات عالم میں شمار ہونے والے اہرام مصر کے قریب سے زمانہ قدیم کے فرعونوں اور امراء کی لاشوں کے تحنط کی ایک ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ دریافت ہوئی ہے، جو ماہرین آثار قدیمہ کے بقول نئی معلومات کے لیے ’سونے کی کان‘ ہے۔ قدیم مصر میں انسانی لاشوں کو ایک مخصوص کیمیائی عمل کے ذریعے حنوط کر کے ہزاروں سال کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اس عمل کو تحنط یا mummification کہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ورکشاپ ایک ایسی زیر زمین جگہ پر تھی، جہاں لاشوں کو حنوط کر کے کئی چھوٹے چھوٹے کمروں کی طرح کی قبروں میں دفنا دیا جاتا تھا۔
آرکیالوجی کے ماہرین اس دریافت پر اس لیے بہت خوش اور پرجوش ہیں کہ اب ہزارہا برس پہلے کے حالات سے متعلق زیادہ بہتر اور مفصل معلومات حاصل ہو سکیں گی کہ قدیم مصر میں لاشوں کا تحنط کیسے کیا جاتا تھا۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے جرمن اور مصری ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ ’دارالتحنط‘ اہرام مصر کے ایک قریبی علاقے میں سقارہ نامی قدیمی قبرستان کے نواح میں دریافت ہوا ہے۔ ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق، جس میں جرمنی کی ٹیُوبِنگن یونیورسٹی کے محققین بھی شامل ہیں، اس زیر زمین ورکشاپ میں قریب 2500 سال پہلے انسانی لاشوں کا تحنط بھی ہوتا تھا اور تدفین بھی۔ اسی لیے اس ورکشاپ‘ سے کئی حنوط شدہ لاشیں، لکڑی کے تابوت اور پتھر پر کھدائی کر کے بنائے گئے وہ بڑے بڑے چوکور چیمبر بھی ملے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں کوئی حنوط شدہ لاش یا ’ممی‘ رکھی جاتی تھی۔
محققین کو امید ہے کہ اس جگہ سے ملنے والی معلومات کے انتہائی مفصل اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جانے والے تجزیوں کے نتیجے میں شاید یہ پتہ بھی چلایا جا سکے کہ ازمنہ قدیم کے مصری باشندے لاشوں کو ہزاروں سال تک محفوط رکھنے کے لیے ان پر کس کس طرح کے تیل یا دیگر مادوں کی مالش کرتے تھے۔ ماہرین کی اس ٹیم کے ایک مصری رکن رمضان حسین نے بتایا، ’’نئی حیران کن معلومات کے حوالے سے ہم سونے کی ایک بڑی کان کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہم شاید اس حد تک بھی حقائق کا تعین کر سکیں کہ تحنط کے لیے استعمال کیے جانے والے تیل اپنی کیمیائی ہیئت اور خواص میں کیسے ہوتے تھے۔‘‘
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس ’دارالتحنط‘ سے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے چھوٹے چھوٹے مجمسے، مرتبان اور دیگر برتن بھی ملے ہیں، جو سب کے سب ان زیر زمین چیمبرز میں کسی نہ کسی لاش کو حنوط کرنے کے عمل میں استعمال ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم دریافت اسی روکشاپ سے ملنے والا چاندی کا بنا ہوا ایک ایسا ماسک بھی ہے، جو انسانی تاریخ میں آج تک اپنی نوعیت کی صرف دوسری دریافت ہے۔ قدیم باقیات اور تاریخی نوادرات کے محکمے کے مصری وزیر خالد العنانی نے اس بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’یہ تو صرف ابتدا ہے۔‘‘
تحنط کے لیے استعمال ہونے والی یہ ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ سقارہ کے جس قدیمی قبرستان کے قریب دریافت ہوئی ہے، وہ منف ہی کا حصہ تھی۔ منف یا Memphis قدیم مصر کا اولین دارالحکومت تھا۔ سقارہ اور منف اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تسلیم کردہ ان تاریخی مقامات میں شامل ہیں، جنہیں عالمی ثقافتی میراث کا نام دیا جاتا ہے۔ جدید مصر کے اسی علاقے میں آج تک ہزاروں سال پرانے بہت سے معبد اور مقبرے دریافت ہو چکے ہیں اور الجیزا کے تین بہت مشہور اہرام بھی اسے علاقے میں ہیں۔ اس ورکشاپ سے دریافت ہونے والے نوادرات کو ممکنہ طور پر مصر کے ’گرینڈ ایجپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا، جو ابھی زیر تعمیر ہے۔
م م / ع ا / روئٹرز، اے پی
بشکریہ DW اردو
↧
شہزادہ چارلس اور ولیم نے ٹرمپ سے ملنے سے انکار کر دیا
برطانیہ کے شاہی خاندان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس بات کا عملی مظاہرہ امریکی صدر کے حالیہ دورہ ء برطانیہ کے دوران دیکھنے میں آیا جب شہزادہ چارلس اور ان کے صاحبزادے شہزادہ ولیم نے ٹرمپ سے ملنے سے انکار کر دیا۔ برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کے مطابق شہزادہ چارلس اور شہزادہ ولیم کے انکار کے بعد ملکہ برطانیہ کو امریکی صدر سے اکیلے ہی ملاقات کرنا پڑی ۔اخبارکے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب ملکہ کے ساتھ شاہی خاندان کا کوئی اور فرد موجود نہیں تھا۔
امریکی صدر کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے روایات کے مطابق ملکہ کی تعظیم میں جھک کر آداب نہیں کیا۔ اس کے علاوہ گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے ایک وڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں ٹرمپ نے ملکہ کو کنفیوژ کر دیا تھا۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گارڈ آف آنر کی تقریب میں شرکت کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ خود تو اپنی ہی دھن میں آگے بڑھ گئے، لیکن ان کے پیچھے آنے والی ملکہ برطانیہ کچھ کشمکش کا شکار ہو گئیں۔
↧
یو ایس بی : جدید دور کا ایک خطرناک ہتھیار
کمپیوٹر اور سافٹ ویئر شاید ہی کسی ادارے یا تنظیم میں استعمال نہ ہوتے ہوں۔ جہاں یہ کام کے معیار اور رفتار کو بہتر بناتے ہیں وہیں کچھ خطرات بھی پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے آئی ٹی سکیورٹی کے بارے میں فکرمندی بڑھ چکی ہے۔ خطرے کے پیش نظر ہو سکتا ہے آپ نے اینٹی وائرس سافٹ ویئر انسٹال کر رکھے ہوں، آپ کے سسٹم میں فائر وال ہو اور آپ اسے باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرتے ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ اقدامات آپ کے سسٹم کو وائرس یا نقصان پہنچانے والے سافٹ ویئرز سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رکھ سکتے کیونکہ گاہے بگاہے استعمال میں آنے والی ڈیوائسز سے یہ سسٹم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2008ء میں امریکی فوجی کمپیوٹرز میں سب سے بڑا رخنہ ڈالا گیا۔
اس سائبر حملے کے بعد سائبر حملوں سے نپٹنے کے لیے امریکی سائبر کمانڈ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ حملہ امریکی سنٹرل کمانڈ سے منسلک ایک کمپیوٹر میں ایک یوایس بی ڈال کر کیا گیا۔ یہ غیر محسوس طریقے سے پھیلتا گیا اور خفیہ رکھے گئے سسٹمز میں بھی سرایت کر گیا۔ اسے صاف کرنے میں پنٹاگان کو 14 ماہ لگے۔ یہ حملہ غیر متوقع تھا کیونکہ عسکری نظام کو بیرونی نیٹ ورک سے منسلک نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد پنٹاگان نے یوایس بی ڈرائیوز اور ونڈوز کے آٹو رَن فیچر پر پابندی لگا دی۔ ان حملوں میں ایک طریقہ ’’سپلائی چین‘‘ کو مصرف میں لانے کا ہے۔ نقصان دہ سافٹ ویئر والی یوایس بیز کو اردگرد کی مارکیٹ میں پھیلا دیا جاتا ہے، تاکہ مقامی مارکیٹ سے کوئی اسے خریدے اور کمپیوٹر سے منسلک کر دے۔
چند برس بعد امریکا نے مبینہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر اسی طریقہ کار کو استعمال کر تے ہوئے حملہ کیا اور اس میں رخنہ ڈالا۔ یہ دو بڑی مثالیں ہیں،ایسی چھوٹی بڑی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سبق بالکل واضح ہے کہ اپنے سسٹم میں یو ایس بی لگانے سے پہلے آپ کو علم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور اس میں کیا ہے۔ اگر سپلائیر کی طرف سے اس یو ایس بی سٹک میں خفیہ طور پر کوئی سافٹ وئیر ڈال دیا گیا ہے تو وہ آپ کے ڈیٹا کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اسے چوری کر سکتا ہے یا کمپیوٹر کی کارکردگی متاثر کر سکتا ہے ۔ بالعموم دفاتر میں کمپیوٹر استعمال کرنے والے اپنی معلومات کو کسی نیٹ ورک میں رکھتے ہیں ۔ دوم، وہ تمام انڈے ایک ہی مقام پر رکھتے ہیں یعنی ان کا ڈیٹا ایک ہی جگہ پڑا ہوتا ہے۔ یہ ’’اثاثے‘‘ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔
اس صورت حال میں اگر حملہ کرنے والے ایک کمپیوٹر تک رسائی حاصل کر لیں تو وہ پورے نیٹ ورک پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ فون کالز بھی ہیک ہو سکتی ہیں۔ہیکرز فون میں خامیاں تلاش کر لیں تو وہ ان کا فائدہ اٹھا کر کالز سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ فون سیٹ کسی اعلیٰ سطحی کانفرنس کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو عین ممکن ہیں کہ باہر کچھ لوگوں تک باتیں پہنچ رہی ہوں۔ ایسا چند برس قبل ہو چکا ہے۔ سیسکو کمپنی کے آئی پی فون سیٹوں کی متعدد اقسام میں ایسی خامیاں تھیں جن کی مدد سے ان کی کالز کو دور سے سنا جا سکتا تھا۔ کمپنی نے بعد ازاں اپنے فون سیٹوں کی اس خامی کو دور کرنے کے لیے خصوصی کوششیں کیں اور ’’پیوند‘‘ (patch) لگائے۔ انہیں تحفظ کے لیے آئی ٹی کا شعبہ نصب کر سکتا تھا۔ حال ہی میں شمالی کوریا کے میزائیل پروگرام میں ہونے والی ناکامیوں کے پیچھے بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ’’سپلائی چین‘‘ حملوں کا ہاتھ ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے ایک سابق ماہر ہیکر ڈیوڈ کینیڈی کی جاری ہونے والی وڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں امریکا نے کس طرح سائبر حملوں کی مدد سے مخالفین کے نیوکلیئر پروگراموں میں مداخلت کی۔ اگر یہ صلاحیت اب بھی موجود ہے، جس کا قوی امکان ہے، تو کہا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کے تجربات مبینہ کی پے در پے ناکامیوں کے پیچھے سائبر حملے کار فرما ہیں۔ افراد، کمپنیاں یا ادارے مختلف طریقوں سے سائبر حملوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جس طرح صاف جسم پر انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے اسی طرح صاف ستھرے سسٹم پر وائرس کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے معیاری اینٹی وائرس انسٹال کریں اور اس طرح چلائیں کہ مشین کے اندر ہر شے سکین کر سکے۔
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ لینکس اور ’’میک‘‘ میں وائرس نہیں آتے، لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اس بات کی نگرانی کریں کہ آپ کے نیٹ ورک پر کون ہے۔ ناقابل اعتبار ڈیوائسز کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کو پورے سسٹم پر آٹو رن کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وہ نیٹ ورک جو عام استعمال میں ہے اسے دوسرے نیٹ ورک سے علیحدہ رکھنا چاہیے اور اپ ڈیٹس باقاعدگی سے کرنی چاہئیں۔ تنظیم یا ادارے میں ہر ایک کو سائبر حملوں کے بارے بنیادی تربیت اور معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔
رضوان عطا
↧
'Trump baby' blimp flies in London
↧
↧
جرمن شہری پوٹن سے زیادہ ٹرمپ سے خوفزدہ
امریکا جرمنی کا اہم ترین اتحادی ہے لیکن دو تہائی جرمن شہریوں کی نظر میں امریکی صدر ٹرمپ عالمی سکیورٹی کے لیے اپنے روسی ہم منصب سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کے مابین ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات سے قبل ’یو گوو‘ سروے میں جرمن عوام سے پوچھا گیا کہ ان کے نزدیک دنیا کی سکیورٹی کے لیے کون زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اس سوال کے جواب میں سروے میں شریک چونسٹھ فیصد جرمنوں نے صدر پوٹن کی بجائے اتحادی ملک امریکا کے صدر کو بڑا خطرہ قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کے خلاف جرمن عوام کے جذبات صرف اسی بات پر ختم نہیں ہوتے۔
سروے کے نتائج کے مطابق چھپن فیصد افراد کی یہ رائے بھی تھی کہ روسی صدر پوٹن ٹرمپ سے زیادہ قابل ہیں جب صرف پانچ فیصد کی رائے تھی کہ صدر ٹرمپ پوٹن سے زیادہ قابل ہیں۔ پسندیدگی کے اعتبار سے بھی روسی صدر چھتیس فیصد جب کہ امریکی صدر کو محض چھ فیصد جرمنوں نے پسند کیا، تاہم اکثریت نے پسندیدگی کے اعتبار سے دونوں میں کسی ایک کو چننے سے گریز کیا۔ کچھ حد تک حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ چوالیس فیصد جرمنوں کی رائے میں صدر پوٹن اپنے امریکی ہم منصب کی نسبت زیادہ طاقتور ہیں جب کہ اس کے برعکس سوچنے والے جرمن عوام کی شرح انتالیس فیصد رہی۔
ش ح / ا ا (جیفرسن چیز)
↧
دنیا کی اولین میسیجنگ سروس یاہو میسنجر کی موت واقع ہو گئی
دنیا کی اولین میسیجنگ سروسز میں سے ایک ’یاہو میسینجر‘کا آج خاتمہ ہو گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آن لائن ٹیکنالوجی کمپنی ’یاہو ‘نے اپنی 20 سال پرانی میسجنگ سروس اپلیکیشن ’ یاہو میسنجر‘ کو بند کر دیا ہے۔ یاہو میسینجر پہلی بار 1998 میں متعارف کرایا گیا تھا اور فوراً ہی مقبول بھی ہو گیا تھا مگر فیس بک، واٹس ایپ، میسینجر، اسنیپ چیٹ، وی چیٹ جیسی دیگر میسجنگ اپلیکیشن اور سوشل ویب سائٹس نے اسے بلکل پیچھے چھوڑ دیا۔
صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس اپلیکیشن میں متعدد بار تبدیلیاں بھی لائی گئیں مگر نتیجہ نہ ملنے پر اسے مستقل طور پر 17 جولائی 2018 کو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ کمپنی کے مطابق یاہو میسینجر کے وہ تمام پیغامات جو یاہو کےصارفین کے میل باکس میں محفوظ تھے، انہیں بھی جلد ہی ختم کر دیا جائے گا لہذا صارفین سے درخواست کی گئی ہے ان پیغامات کو اپنے پاس ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ واضح رہے کہ یاہو کمپنی اپنی نئی میسجنگ اپلیکیشن اسکئرل کے نام سے متعارف کرا رہی ہے جسے 17 جولائی کے بعد آن لائن کیا جائے گا۔
↧
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین کو امریکہ کا دشمن قرار دے دیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی یورپی یونین کو اپنے ملک کا دشمن قرار دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بیان روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ اپنی پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات سے عین قبل دیا ہے جس کی امریکہ اور یورپ بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ امریکی ٹی وی 'سی بی ایس نیوز'کے ساتھ گفتگو میں اس سوال پر کہ ان کے خیال میں امریکہ کا سب سے بڑا دشمن کون ہے، صدر ٹرمپ نے کہا، "میں یورپی یونین کو ایک دشمن سمجھتا ہوں۔ آپ کو شاید وہ دشمن نہ لگیں، لیکن وہ دشمن ہی ہیں۔ اپنی گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس بھی بعض معاملات میں امریکہ کا دشمن ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے سے قبل اور اس کے بعد بھی یورپی یونین اور مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو'کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے برسلز میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران بھی انہوں نے امریکہ کے روایتی اور دیرینہ اتحادی یورپی ملکوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ یورپی یونین کو دشمن قرار دینے کے بیان کی خبریں عام ہوتے ہی یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس پر فوری ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں ڈونلڈ ٹسک نے لکھا، "امریکہ اور یورپی یونین بہترین دوست ہیں۔ جو بھی یہ کہتا ہے کہ ہم دشمن ہے وہ جھوٹی خبریں (فیک نیوز) پھیلا رہا ہے۔ " صدر ٹرمپ کا یورپی یونی سے متعلق بیان ایسے وقت نشر ہوا جب وہ برطانیہ کا دورہ مکمل کر کے فن لینڈ کے لیے روانہ ہو چکے تھے جہاں دارالحکومت ہیلسنکی میں وہ روس کے صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ خیال رہے کہ صدر پوٹن بھی یورپی یونین اور 'نیٹو'کے سخت مخالف ہیں اور ان دونوں تنظیموں کو خطے میں روس کے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔ 'سی بی ایس'کے ساتھ اپنی گفتگو میں صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ روسی ہم منصب کے ساتھ ان کی ملاقات کا کوئی برا نتیجہ نہیں نکلے گا البتہ اس سے کچھ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس ملاقات سے انہیں بہت زیادہ امیدیں نہیں اور وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس ملاقات کا نتیجہ کیا ہو گا۔
برطانیہ سے ہیلسنکی روانہ ہوتے وقت صدر ٹرمپ نے کئی ٹوئٹس بھی کیے جن میں ان کا کہنا تھا کہ سربراہی ملاقات میں ان کی کارکردگی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، آخرِ کار انہیں تنقید کا نشانہ ہی بننا پڑے گا۔ اپنے ٹوئٹس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر اس سربراہی ملاقات کے نتیجے میں روس انہیں ماسکو کا شہر بھی دے دے تو ان پر یہ تنقید ہو گی کہ وہ سینٹ پیٹرز برگ بھی ساتھ کیوں نہیں لائے۔
ٹرمپ اور پوٹن اس سے قبل بھی مل چکے ہیں لیکن یہ دونوں صدور کے درمیان پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات ہے جس کے باعث اسے خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔
تاہم اس ملاقات کے ایجنڈے سے متعلق تاحال دونوں حکومتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ صدر نے اپنے ٹوئٹس میں مزید کہا کہ بیشتر امریکی ذرائع ابلاغ قوم کے دشمن ہیں اور ڈیموکریٹس کو صرف رکاوٹیں ڈالنا اور کام بگاڑنا آتا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
↧