↧
سو سے زائد ممالک کی جانب سے اسرائیل کی مذمت
↧
امریکہ نے غیر قانونی مہاجرین کے بچوں کو پنجروں میں بند کر دیا
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں امریکی سرحد پر تقریباً 2000 مہاجر بچوں کو ان کے گھر والوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے میکسکو سے امریکہ آنے والے غیر قانونی مہاجرین کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں والدین کو قید کر کے ان کی تحویل سے ان کے بچوں کو لیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر امریکہ میں سخت سیاسی نقطہ چینی جاری ہے۔ انٹرنیٹ پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کے بچوں کو پنجروں میں رکھا جا رہا ہے۔ امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے اس ’زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے انجیل کا حوالہ دیا تھا۔ ٹرمپ انتظانیہ کا یہ کریک ڈاؤن امریکہ کی طویل المدتی پالیسی میں تبدیلی ہے جس کے تحت پہلی مرتبہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے آنے والوں کو مجرمانہ سزاؤں کا سامنا ہے جو پہلے صرف ایک چھوٹا سا جرم تصور کیا جاتا تھا۔
ہمیں بچوں کے بارے میں کیا معلوم ہے؟
امریکی محکمہِ ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق 19 اپریل سے 31 مئی تک 1995 بچوں کو 1940 افراد سے علیحدہ کیا جا چکا ہے۔ ان بچوں کی عمروں کے بارے میں معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ ان بچوں کو امریکی محکمہِ صحت اور ہیومن سروسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ انھیں یا تو حکومتی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا یا پھر انھیں کسی فوسٹر فیملی کے حوالے کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے امریکہ سے فوری طور پر بچوں کو ان کی فیملیوں سے علیحدہ کرنے کے عمل کو روکنے کے لیے کہا ہے۔ اٹارنی جنرل جیف سیشنز کا کہنا ہے کہ بچوں کو ساتھ لانے سے کوئی بھی غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ انھوں نے سینٹ پالز کے رومی قوم کو لکھے ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں حکومت کے قوانین کی اطاعت کی تائید کی گئی ہے۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خط غلامی کے نظام کو بچانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔
ملک میں سیاسی ردِعمل کیا ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ کو کچھ ریپلکنز کی حمایت حاصل ہے تاہم کچھ سیاسی عناصر نے تشویس کا اظہار کیا تھا۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ہاؤس سپیکر پال رائن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے استعمال کیے گئے حربے ان کے خیال میں درست نہیں۔ اسی ہفتے امریکی ایوانِ زیریں میں ریپلکنز نے ایک نیا امیگریشن قانون کا مسودہ پیش کیا ہے جس میں سرحد پر بچوں کو ان کے گھر والوں سے علیحدہ کرنے کا طریقہ کار ختم کر دیا جائے گا۔
اس پلان کے تحت فیملیوں کو اکھٹے حراست میں رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس مسودے میں 18 لاکھ ڈاکہ ڈریمرز کو تحفظ فراہم کرنا، امریگیشن میں لاٹری کے نظام کو ختم کرنا اور سرحدی حفاظت کے لیے 25 ارب ڈالر مختص کرنا بھی شامل ہے۔ یہ بل قدامت پسندوں اور معتدل رہنمائوں کے درمیان سمجھوتا ہے اور آئندہ ہفتے اس پر ووٹنگ ہو گی۔ تاہم صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایک سمجھوتے پر مبنی بل کو منظور نہیں کریں گے چاہے اسے ریپبلکن پارٹی کی حمایت حاصل ہو۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کا آغاز ہو گیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے ہونے والی درآمدات پر 50 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ چین نے اس کا فوری جواب دیتے ہوئے امریکی درآمدات پر بھی 50 ارب ڈالر کے ہی محصولات عائد کر دئے ہیں۔ یوں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان باضابطہ طور پر طبل جنگ بجا دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے چین سے درآمد ہونے والی 800 کے لگ بھگ حصاص نوعیت کی اشیا کی نشاندہی کر دی ہے جن پر 25 فیصد محصولات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ان محصولات کے نفاظ کا آغاز 6 جولائی سے ہو گا۔ ان درآمدات میں گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
چین کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ چین جواب میں برابر کی سطح کے محصولات عائد کرے گا۔ شن ہوا نیوز ایجنسی کے مطابق چین امریکہ سے درآمد ہونے والی 659 اشیا پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرے گا جن میں سویابین سے لیکر گاڑیاں اور سمندری خوراک تک شامل ہے۔ چین کی طرف سے امریکی درآمدات پر لگائی جانے والی ڈیوٹی بھی 50 ارب ڈالر کی سطح کی ہو گی۔ تاہم ڈیوٹی عائد کی جانے والی اشیا کی فہرست سے زیادہ قیمت کی اشیا کو نکال دیا گیا ہے جن میں ہوائی جہاز شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر چین نے جواب میں امریکی درآمدات پر ڈیوٹی عائد کی تو امریکہ محصولات میں مزید اضافہ کر دے گا۔
اس وقت امریکہ چین تجارت میں امریکہ کا تجارتی خسارہ 375 ارب ڈالر کا ہے۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ یہ محصولات چین کو غیر منصفانہ طور پر منتقل ہونے والی ٹکنالوجی کو روکنے اور امریکیوں کی ملازمتوں تحفظ دینے کیلئے ضروری ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی طرف سے عائد ہونے والے محصولات سے چین کی معیشت کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا اور دونوں ملکوں کی تجارتی محاذ آرائی ممکنہ طور پر بڑھتی رہے گی۔ امریکہ کے تجارتی نمائیندے کے دفتر کا کہنا ہے کہ امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن کے حکام چین سے درآمد ہونے والی 818 اشیا پر 6 جولائی سے محصولات وصول کرنا شروع کر دیں گے جن کی مالیت 34 ارب ڈالر ہو گی۔
↧
ٹرمپ کا شمالی کوریا کے جنرل کو انوکھا سلیوٹ
شمالی کوریا کے سرکاری ٹیلی وژن نے دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے ایک جنرل کے درمیان سلام اور مصافحے کے مناظر نشر کیے تھے جس کے بعد امریکا میں "میڈیا"تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ اس مختصر وڈیو کلپ میں ٹرمپ نے پہلے شمالی کوریا کے مسلح افواج کے وزیر نو کوان چول کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تاہم شمالی کوریا کے جنرل نے ہاتھ ملانے کے بجائے انہیں فوجی سلیوٹ کیا۔ اس پر ٹرمپ کے پاس بھی جوابی سلیوٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کے فوری بعد جنرل چول نے مصافحے کے لیے ٹرمپ کی جانب ہاتھ بڑھا دیا جس پر امریکی صدر یک دم بوکھلا گئے اور اس بوکھلاہٹ اور شرمندگی کو کیمروں کی آنکھ نے بھی محفوظ کر لیا۔
اس حوالے سے ٹرمپ کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ عام سی بات تھی اور اس میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں۔ دوسرے جانب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ "بوکھلاہٹ"پر مبنی عجیب سا منظر تھا۔ علاوہ ازیں اس بات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ امریکی صدر نے ایک ایسی حکومت کے جنرل کو سلیوٹ کیا جو "کریک ڈاؤن"کی پالیسی کے سبب معروف ہے۔ دوسری جانب وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے تبصرہ کرتے ہوئے باور کرایا کہ امریکی صدر کا تصرّف طبعی اور مماثل تھا۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے 12 جون کو سنگاپور کے جزیرے سینتوزا میں شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن سے تاریخی ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم دستاویز پر دستخط بھی کیے گئے۔ شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تلفی کا عزم بھی سامنے آیا۔
دبئی – العربیہ ڈاٹ نیٹ
↧
عید پر طالبان اور افغان فوجی بغل گیر ہو گئے
افغانستان میں عید کے دن کئی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور طالبان نے مل کر نماز عید ادا کی۔ غیر مسلح طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے اور انہوں نے عید کے علاوہ ’غیرمعمولی جنگ بندی‘ کی خوشیاں بھی منائیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں عید کے دن خوشی کی ایک غیرمعمولی کیفیت دیکھی گئی۔ عید کی تین دن کی چھٹیوں کے دوران طالبان جنگجوؤں نے بھی جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے، جو افغان حکومت کی طرف سے محدود فائر بندی کے اعلان کے بعد کیا گیا تھا۔ طالبان نے کہا تھا کہ اس جنگ بندی کے باوجود غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں روکے جائیں گے۔
افغانستان کے نائب وزیر داخلہ مسعود عزیزی نے بتایا کہ اس جنگ بندی کو مانیٹر کیا جا رہا ہے اور ’خوش قسمتی سے کوئی نیا حملہ نہیں ہوا‘۔ کابل حکومت کی طرف سے اعلان کردہ فائر بندی آئندہ بدھ کے روز تک مؤثر رہی گی، جس میں صرف طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی جبکہ داعش سمیت دیگر مسلم انتہا پسند گروپوں کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رہیں گی۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عید کے دن طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور عید کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ لوگر صوبے، کابل کے جنوب، زابل اور وردک میں طالبان اور سکیورٹی فورسز نے مل کر عید کی نماز ادا کی اور خوشیاں منائیں۔ ہلمند، قندھار اور زابل نامی صوبوں میں حکام نے بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کوئی پرتشدد واقعہ رونما نہیں ہوا۔
گزشتہ سولہ برسوں سے جنگ کے شکار ہندوکش کے اس ملک میں طالبان کی طرف سے پہلی مرتبہ لچک دکھائی گئی ہے، جسے افغانستان میں قیام امن کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ زابل کے رہائشی قیس لیوال نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ سب سے زیادہ پرامن عید ہے۔ میں خود کو محفوظ تصور کر رہا ہوں۔ اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ جلال آباد میں درجن بھر طالبان نے بچوں کے ساتھ عید منائی اور کھانا کھایا۔ افغان شہری محمد عامر کا کہنا تھا اس کے چھوٹے بھائی نے اسے بتایا کہ طالبان بغیر کسی خوف و خطرے کے شہر میں داخل ہوئے، ’’میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکتا کہ طالبان اور سکیورٹی فورسز آپس میں پیار سے ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سلفیاں بھی بنائیں۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی کے مطابق حکومت اور طالبان کی طرف سے الگ الگ کیے جانے والے فائر بندی کے اعلانات ملک میں پائیدار قیام امن کی کوششوں کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔ انہوں نے طالبان کو ایک مرتبہ پھر یہ دعوت دی کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بن جائیں۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک غیر ملکی فورسز افغان سرزمین سے نکل نہیں جاتیں، تب تک کابل حکومت کے ساتھ کوئی امن مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
بشکریہ DW اردو
↧
↧
امریکی سرحد پر جدا ہونے والی معصوم بچی کی کہانی
امریکی بارڈر پٹرول کے لیے یہ ایک نیا کیس تھا۔ ایک اور پناہ گزین خاندان، جس کے پاس کسی قسم کے کوئی دستاویزات نہیں تھے، ٹیکسس کے میک ایلن علاقے میں پھنس گیا تھا۔ لیکن گیٹی امیجز کے ایک فوٹو جرنسلسٹ جان مور وہاں موجود تھے۔ ان کے کیمرے کے لینز نے ایک ایسی بچی پر فوکس کیا جو بارڈر پٹرول کی جانب سے اپنی ماں سے علیحدہ کیے جانے پر زارو قطار رو رہی تھی۔ جو تصویر بنی وہ پناہ گزین بچوں اور ان کے والدین کی درد ناک جدو جہد کی ایک علامت بن چکی ہے جو ہر بار بچھڑے جانے پر ایسی ہی تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔ اس تصویر کو وائرل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور یہ ایسے وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی پناہ گزین خاندانوں کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر الگ کرنے کی پالیسی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ مور نے بی بی سی کو بتایا 'میرا دل چاہتا تھا کہ میں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ اس بچی کی ماں نے بتایا کہ وہ ہنڈورس سے آئے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی دو سالہ بچی کے ساتھ ایک ماہ سے سفر کر رہی ہے۔'
مور کے مطابق 'اس خاتوں کی عمر 30 سال تھی اور اس نے بچی کو اپنی بانہوں میں تھام رکھا تھا۔‘ فوٹو جرنلسٹ نے بتایا 'بارڈر پٹرول نے اس خاتون سے کہا کہ وہ بچی کو فرش پر چھوڑ دے تاکہ وہ اس خاتون کی شناخت کر سکیں اور اس کی تلاشی لے سکیں‘ لیکن جوں ہی ماں نے بچی کو اپنی گود سے اتارا اس نے رونا شروع کر دیا۔ مور کے مطابق وہ اس منظر سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے متصل علاقے میں دس سال کام کیا ہے۔ 'مجھے رک کر خود کو سنبھالنا پڑا۔ میں ایک صحافی ہوں لیکن ایک والد بھی ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ اس عمر کے بچے ماں باپ سے الگ ہونے پر کس اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘
مور کو یہ سب دیکھنا مشکل محسوس ہوا کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق نئی پالیسی کے تحت اس بچی کو اس کی والدہ سے الگ کر دیا جائے گا۔ مور کا کہنا ہے ’یہ کچھ ایسا ہے جو میں بہت بار دیکھ چکا ہوں لیکن اس بار یہ بدتر محسوس ہوا۔‘ یہ تصاویر امریکی بارڈر پیٹرول کے ساتھ منسلک ایک طویل شفٹ ختم ہونے کے بعد آئی ہیں۔ مور نے بتایا ’میں نے یہ تصاویر آدھی رات کے قریب کھینچیں لیکن اس سے قبل میں نے دن میں کتوں اور ہیلی کاپٹروں کو پناہ گزینوں کا پیچھا کرتے دیکھا۔ میں نے ایسی بہت سی چیزیں دیکھی ہیں۔‘
مور نے میکسیکو اور امریکہ کی سرحد کے درمیان واقع ریو براوو نامی دریا کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک گروہ کو بھی دیکھا تھا۔ مور کے مطابق اس گروہ نے میکسیکو کے قصبے رینوسا سے چلنا شروع کیا اور دریا عبور کرنے کے بعد انھوں نے پھر چلنا شروع کر دیا۔
مور کا خیال ہے کہ یہ لوگ میک ایلن کے قریبی علاقے جسے ایل رینک بھی کہا جاتا ہے اکھٹے آئے تھے۔ ’یہ جگہ پناہ گزین خاندانوں کے لیے میٹنگ پوائنٹ بن گیا ہے جو امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خوفزدہ تھے، ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے جن کا تعلق سینٹرل امریکہ سے تھا۔ ان میں سے متعدد افراد بہت زیادہ تھکے ہوئے، نیند میں اور فکر مند تھے۔ انھوں نے الگ الگ سفر کیا تھا لیکن امریکہ میں داخل ہونے کے بعد ان کا سفر اکھٹے جاری رہا۔ مور نے اس چھوٹی بچی کی تصویر لینے کے بعد سے اسے نہیں دیکھا۔
گلریرمو ڈی اولمو
بی بی سی نیوز منڈو
↧
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خاندان اکٹھے کر کے ہیرو نہیں بن گئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید تنقید کے بعد غیر قانونی تارکین وطن خاندانوں کے بچوں کو والدین سے علیحدہ کرنے کی پالیسی واپس لیتے ہوئے صدارتی حکم نامے پر دستخط تو کر دیے ہیں لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکم نامے میں ان 2300 بچوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا گیا جنھیں پہلے ہی انتظامیہ نے والدین سے جدا کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان میں چند بچوں کو سرحد پر تعینات امریکی اہلکاروں نے ریاست ٹیکسس کے ایک ویئر ہاؤس میں بند کر رکھا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے کیمپوں میں بچے قید ہیں۔
خاندان سے پہلے ہی جدا ہوئے بچوں کا کیا ہو گا ؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں مقیم ایک وکیل اور مصنف قاسم راشد نے کہا ’اس ایگزیکٹیو آرڈر میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر ان بچوں کو کب والدین سے ملایا جائے گا جو پہلے سے تنہائی میں قید کاٹ رہے ہیں۔ یہ بچے جانی اور ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں مگر ان کے تخفظ کو یقینی بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘ امریکی میڈیا میں خبریں ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی بیوی اور بیٹی کے کہنے پر خاندانوں کو جدا کرنے کی اپنی پالیسی تبدیلی کی ہے تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا روتے بچوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد کیا ہے۔ واشنگٹن کے رہائشی اور سماجی کارکن وجاہت علی نے بی بی سی کو بتایا ’ٹرمپ انتظامیہ قید میں ان بچوں کو بارگینیگ چپ کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ سیاستدانوں کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے مجبور کر سکے۔ وہ غیر قانونی طور پر آئے ان بچوں کو سیڑھی بنا رہی ہے۔ انھیں یرغمال بنایا جا رہا ہے۔ خاندانوں کو اکٹھا کر کے صدر کوئی ہیرو نہیں بن گئے بلکہ وہ مجبور ہوئے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی واپس لیں۔‘
کیا غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی قانونی ہے؟
صدارتی آرڈر میں امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے افراد کو گرفتار کرنے کا عمل جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جس پر بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے صدر ٹرمپ نے انتظامیہ کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ پناہ کے لیے سرحد پر آنے والے مہاجروں کو غیر معینہ مدت کے لیےحراست میں لے لیا جائے جو کہ 1997 کی فلورز سیٹلمنٹ کی خلاف ورزی ہے۔ فلورز سیٹلمنٹ ایک عدالتی فیصلہ تھا جس کے تحت امریکی انتظامیہ پناہ چاہنے والے کم عمر بچوں کو 20 دن سے زیادہ عرصے کے لیے تحویل میں نہیں رکھ سکتی۔
اس سلسلے میں قاسم راشد نے کہا ’یہ بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پناہ مانگنا کوئی جرم نہیں۔ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا غیر قانونی ہے۔ بچوں کو الگ قید میں رکھنا یا ان کے لیے کیمپ یا سینٹرز بنانے کے بجائے حکومت ان خاندانوں کو وکیل مہیا کرے تاکہ وہ عدالتی پیشی میں حاضر ہو سکیں۔ اس سے حکومت کا پیسہ بھی بچے گا اور یہ قومی سلامتی کے لیے بھی بہتر ہے۔‘ ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کے خلاف چند میئرز احتجاج بھی کر رہے ہیں جبکہ اسی حوالے سے کانگریس میں دو بلوں پر بھی ووٹنگ متوقع ہے۔
ارم عباسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، واشنگٹن
↧
Turkish general election, 2018
General elections are scheduled to occur throughout Turkey on 24 June 2018. Originally due on 3 November 2019, President Recep Tayyip Erdoğan announced on 18 April 2018 that the vote was being brought forward. Presidential elections will be held to elect the President of Turkey using a two-round system, with the first round taking place on 24 June and a second round (if necessary) due to occur two weeks after on 8 July. Parliamentary elections will take place to elect 600 Members of Parliament to the Grand National Assembly of Turkey. The ruling Justice and Development Party (AKP) and Erdoğan had long supported a policy of turning Turkey into an executive presidency, replacing the existing parliamentary system of government. With the support of the Nationalist Movement Party (MHP), the government was able to enact a referendum in Parliament, with the vote being set for 16 April 2017.
The proposed constitutional changes would see parliamentary and presidential elections taking place on the same day every five years, with the initial vote being set for 3 November 2019. The number of seats in the Grand National Assembly was to be increased from 550 to 600, although the legislative powers of Parliament would be greatly reduced. Crucially, the office of the President of Turkey would be given powers to rule by decree, becoming both the country's head of state and head of government. Supporters of the changes claimed that the new system would make the system of government more efficient, while critics claimed that it would place too much power in the hands of the president and effectively render parliament powerless.
The constitutional changes were approved by a 51-49% margin, according to official results. However, a last-minute change in the election rules by the Supreme Electoral Council (YSK) during the vote allowed unverified ballots to be accommodated into the count, which the opposition alleges added 1.5 million extra ballot papers.[6] The political opposition decried the move to be illegal and were backed by several overseas observer organisations, which claimed that the vote did not meet international standards. However, subsequent legal challenges were all unsuccessful. Thus, the government began enacting 'compliance laws' to prepare for the new executive presidential system of government, which would be fully implemented following the general election scheduled for 3 November 2019.
Early election
Despite over two years to go before the next presidential and parliamentary elections, many observers alleged that the government was preparing for an early vote soon after the 2017 referendum. This was, observers claimed, to speed up the implementation of the executive presidential system and also to prevent the popularity of new opposition movements from reducing support for the government. In October 2017, opposition leader Kemal Kılıçdaroğlu called for early elections, although there was no official response to this. Meral Akşener, the leader of the newly formed İYİ Party, alleged that the government were planning an early vote for Sunday 15 July 2018, the second anniversary of the failed 2016 coup d'état attempt. The party held its first ordinary congress on 10 December 2017 and first extraordinary congress on 1 April 2018 in order to be eligible to contest a possible snap election. Despite months of speculation, the government repeatedly claimed that it was in favour of holding elections when they were due, denying that an early vote would take place.
On 17 April 2018, Devlet Bahçeli, the leader of the Nationalist Movement Party, called for early elections for the 26th of August. Bahçeli had previously announced that they would support a re-election bid of the incumbent president, Recep Tayyip Erdoğan. The Justice and Development Party (AKP), led by Erdoğan, had recently announced an electoral alliance with the MHP called the People's Alliance. Following his call for early elections, Bahçeli met Erdoğan a day later on 18 April. Erdoğan subsequently announced that his party agreed with Bahçeli that an early election was needed to solve the ongoing 'political and economic uncertainty'. He therefore announced that early elections would take place on 24 June 2018.
Source : Wikipedia
↧
Erdogan addresses hundreds of thousands of supporters in Turkey
↧
↧
Turkey prepares for presidential vote
Voters are flocking to polling centres today to cast ballots in an election that will complete Turkey's transition to a new executive presidential system, a move approved in a controversial referendum last year. Erdogan, 64, is seeking re-election for a new five-year term, and his ruling Justice and Development Party, or AKP, is hoping to retain its majority in parliament. Erdogan has overseen historic change in Turkey since his Islamic-rooted ruling party first came to power in 2002 after years of secular domination. But critics accuse the Turkish strongman of trampling on civil liberties and displaying autocratic behaviour. The president is facing a more robust and united opposition this time, one that has vowed to return Turkey to a parliamentary democracy with strong checks and balances and decried what it calls Erdogan's "one-man rule". Today's polls could either consolidate Erdogan's hold on power or curtail his vast political ambitions.
↧
Turkey celebrates Erdogan, AK Party election success
↧
ترکی میں اسلام پسند پھر فاتح : اردوان ترکی کے صدارتی انتخابات جیت گئے
ترکی کے الیکشن کمیشن نے صدر رجب طیب اردوان کی کامیابی کا سرکاری طور پراعلان کر دیا۔ رجب طیب اردگان نے پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب واضح اکثریت سے جیت لیا، سپریم الیکشن کمیٹی چیف نے اعلان کر دیا ۔ سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطا بق رجب طیب اردوان نے 52.5 فیصد ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا۔ حزب اختلاف کے محرم انسے 31.7 فیصد ووٹ حاصل کر سکے ۔ ترک میڈیا کے مطا بق صدر اردوان کے مدِ مقابل محرم انسے نے اپنی شکست قبول کر لی ہے۔
↧
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان سارہ سینڈر کو ریسٹورنٹ سے نکال دیا گیا
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان سارہ سینڈر کو ریسٹورنٹ کی مالک نے اپنے ہوٹل سے باہر نکال دیا، ریسٹورنٹ کی مالک کا کہنا ہے کہ سارہ انسانیت کی لئے نہیں ٹرمپ جیسے ظالم شخص کے لئے کام کرتی ہے۔ امریکی خاتون ترجمان کے ساتھ یہ واقع گزشتہ رات پیش آیا جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کیلئے ورجینیا میں واقع ایک ریسٹورنٹ پہنچیں۔ ریسٹورینٹ میں بکنگ ان کے شوہر کے نام سے ہوئی تھی، ترجمان خاتون جب اپنی فیملی کے ساتھ ریسٹورنٹ کی ٹیبل پر جا کر بیٹھیں تو ریسٹورنٹ کی خاتون مالک اسٹیفنی ولکنسن نے سارہ سینڈر سے کہا آپ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے کام کرتی ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ ریسٹورنٹ سے فوری طور پر چلی جائیں۔
ریسٹورنٹ کی مالک نے انتہائی تلخ لہجے میں پھر کہا کہ یہاں سے فوراً نکلو، اس واقعے کو سارہ سینڈر نے خود بھی اپنے ٹوئٹرپیغام میں بتایا ہے کہ مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کام کرنے پر ہوٹل سے نکلنے کا کہا گیا تو میں خاموشی سے باہر نکل آئی۔ ریڈ ہین نامی ریسٹورنٹ کی مالک ولکنسن نے کہا ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سارہ سینڈر انسانیت کے لئے کام نہیں کرتیں بلکہ ٹرمپ جیسے ظالم شخص کےلئے کام کرتی ہیں۔
↧
↧
حضرت امام شافعیؒ کے اقوال
۱۔ جب صحیح حدیث مل جائے تو میرے اقوال کو بھول جاؤ۔ ۲۔ اگر نااہل کو علم سکھاؤ گے تو علم ضائع ہو گا اور اگر اہل کو نہ سکھاؤ گے تو یہ ظلم ہو گا۔ ۳۔ گناہ کا پتا ہونے پر بھی گناہ کرنے والا سب سے بڑا جاہل ہے۔ ۴۔ دل زبان کی کھیتی ہے، اس میں اچھی بوائی کرو۔ سارے نہیں تو ایک دو دانے ضرور اگ آئیں گے۔ ۵۔ بڑی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنے والا دوست مجھے محبوب ہے۔ ۶۔ اہلِ مروت کے لیے دنیا طلب کرنا یا دنیا میں آرام طلب کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ اہلِ مروت تو مصائب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ۷۔ تنہائی میں نصیحت کرنا شرافت ہے اور باعث اصلاح ہے جبکہ سب کے سامنے نصیحت رسوائی ہے۔ ۸۔ اس میں کوئی بھلائی نہیں جو علم کی محبت نہیں رکھتا۔
(انتخاب: قاسم محمود)
↧
وکی پیڈیا معلومات کا خزانہ
انٹرنیٹ کے آغاز سے معلومات کا خزانہ عام لوگوں کی دسترس میں آ گیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے لگتا ہے جیسے آپ کسی لائبریری میں چلے گئے ہوں اور ہر طرف تحریریں اور کتابیں بکھری پڑی ہوں۔ پھر سمجھ نہیں آتا کیا اٹھا کر پڑھا جائے اور کیا نہیں۔ یہ ایک ایسی لائبریری ہے جس میں ترتیب بہت کم نظر آتی ہے۔ کچھ سرچ انجن، جیسا کہ گوگل آپ کو متعلقہ لفظ یا الفاظ کی ویب سائٹس پر موجودگی کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آپ فوراً اپنے مطلب کی تحریر یا تصویر تک پہنچ جائیں۔ پھر بہت سی معلومات ناقابل اعتبار بھی ہوتی ہیں۔ کچھ مہم جو افراد نے ان معلومات کو جمہوری انداز میں ترتیب دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
انہوں نے ایک انٹرنیٹ انسائیکلوپیڈیا بنایا۔ اسے عوامی انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو مفت معلومات فراہم کرنا ہے اور یہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو مفت معلومات فراہم کر رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کا اختیار بھی صارفین کے پاس ہے۔ یعنی وہ اس میں مواد شامل یا ختم کر سکتے ہیں، نیز ترمیم بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عوامی انسائیکلوپیڈیا انٹرنیٹ پر ایک مفت ویب سائٹ وکی پیڈیا کی صورت میں موجود ہے۔ اس عوامی انسائیکلوپیڈیا نے ایک منفرد حل تلاش کیا ہے جس کے ذریعے لوگوں کو ویب پر موجود مواد میں ترمیم یا اضافہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کے روح رواں ’وکیز‘ ہیں جو ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں استعمال کرنے والے خود ہی ویب پیج میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
مختصر عرصے میں یہ لوگوں میں انتہائی مقبول ہو گیا ہے۔ وکی پیڈیا پر موجود ہر مضمون میں کوئی بھی اضافہ یا ترمیم کر سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ صارفین کے ہاتھوں میں اختیار دینے سے بڑی خرابی پیدا ہو جائے گی اور لوگ اوٹ پٹانگ چیزیں ڈال دیں گے۔ لیکن اس انسائیکلوپیڈیا میں مجموعی طور پر ایسا نہیں ہوا اور اس کے بڑے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسا قابل اعتبار مواد سامنے آیا ہے جو دنیا بھر کے لاکھوں افراد تجزیوں کا نتیجہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ورلڈ ویب سائٹ کے خالق ٹم برنرز لی کے اس تصور کی تکمیل معلوم ہوتی ہے جس کے مطابق لوگ نہ صرف انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کر سکیں بلکہ وہ ان معلومات کا آپس میں آزادانہ تبادلہ بھی کر سکیں گے۔ وکی پیڈیا پراجیکٹ جمی ویلز نے لیری سینگر کی مدد سے شروع کیا تھا۔
اس سے پہلے جمی ویلز نے اس سے ملتا جلتا منصوبہ رضاکارانہ بنیادوں پر شروع کیا تھا لیکن وہ منصوبہ دو سال چلنے کے بعد فنڈز اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں جمی ویلز نے جنوری2000ء میں وکی ویب سائٹ پر کچھ صفحات اپ لوڈ کیے اور لوگوں کو ان میں ترمیم یا اضافہ کی دعوت دی۔ اپنے قائم ہونے کے پہلے ہی سال یہ سائٹ انتہائی مقبول ہو گئی۔ اب اس میں مضامین کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ نیز یہ مختلف زبانوں میں بھی موجود ہے۔ اس میں غیرجانبدارانہ نقطہ نظر کو اپنانے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ جس کے مطابق خیالات اور حقائق کو اس طریقے سے پیش کیا جائے کہ ان کے حامی اور مخالفین آپس میں متفق ہو سکیں۔
اس پالیسی کی بنیاد پر اس منصوبے میں تحریروں کے کچھ اصول مرتب کیے گئے۔ یہ اصول حقائق کا اظہار، مضمون کی بنیاد بتانا اور توازن برقرار رکھنا ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اب وکی پیڈیا کی موزونیت کی معترف ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم وکی پیڈیا سے کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہاں کی معلومات، جو لوگوں نے اپ لوڈ کی ہوتی ہیں، درست نہیں ہوتیں۔ جب تک کوئی ان کی درستی نہیں کرتا لوگ اسے درست سمجھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات ایک ہی طرح کے خیالات کے لوگ مل کر کسی صفحہ یا موضوع پر اپنے نقطہ نظر کو ترویج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض افراد، بالخصوص طلبا، تحقیق کی بجائے یہاں سے نقالی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہر حال مجموعی طور پر وکی پیڈیا معلومات کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔
حریہ خان
↧
اردوان کی کامیابی
ترکی اور پاکستان یوں تو ہر دور میں ایک دوسرے کے قابل اعتماد دوست رہے ہیں تاہم رجب طیب اردوان کے دور حکومت میں پاک ترک تعلقات نئی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں۔ طیب اردوان عالم اسلام کے مسائل کے حوالے سے بھی ایک دردمند اور صاحب بصیرت رہنما کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز ہونے والے ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا خصوصاً مسلمان عوام کی خصوصی دلچسپی کا محور رہے۔ سپریم الیکشن کمیٹی کے سربراہ کی جانب سے غیر حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ رجب طیب اردوان نے تقریباً 53 فی صد ووٹ لے کر پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب واضح اکثریت سے جیت لیا ہے۔
ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب تقریبا 90 فی صد رہا۔ صدر اردوان کی عوامی مقبولیت کا تاریخ ساز مظاہرہ دو سال پہلے ان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی کوشش کی ناکامی کی شکل میں ہو چکا ہے جب ان کی اپیل پر ملک بھر میں لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ یہ مقبولیت کسی لیڈر کو اسی وقت ملتی ہے جب وہ مسائل کے حل کے لیے فی الواقع اپنا خون پسینہ ایک کر دے۔ صدر اردوان نے اپنے ملک کو نہ صرف بدترین معاشی بدحالی سے نجات دلائی بلکہ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے دوسرے اہم شعبوں میں ترقی پر بھی بھرپور توجہ دی جس کے باعث آج جی 20 ملکوں میں اس کی شرح ترقی دوسرے اور او ای سی ڈی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
اردوان نے اقتدار سنبھالا تو ترکی اپنی دفاعی صنعت کی ضروریات کا محض بیس فی صد خود پیدا کرتا تھا لیکن اب یہ شرح 65 فی صد تک جا پہنچی ہے۔ تاہم آزادی اظہار کے حوالے سے بعض حلقے صدر ان سے سخت شکایات رکھتے ہیں لیکن امید کی جانی چاہیے کہ جمہوری عمل کے ذریعے حکومت پر مزید مضبوط گرفت کے بعد وہ اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے عمل کو زیادہ سرگرمی سے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کے حوالے سے شکایات دور کرنے پر بھی توجہ دیں گے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
↧
چینی رہنما چواین لائی کی جدوجہد
چو این لائی چین کے اہم رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق چین کی بانی کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔ وہ ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے عام لوگوں، محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے اپنی زندگی صرف کی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹین سین کے ایک مشنری سکول میں پائی۔ 1917ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے جاپان گئے۔ یہیں ایک پروفیسر سے ان کی ملاقات ہوئی جس کی وجہ سے ان میں مارکسزم میں دلچسپی بڑھی۔ وہ اس نظریے سے متاثر ہو کر 1919ء میں چین واپس آئے۔ لیکن اس وقت چین کے حالات ٹھیک نہیں تھے۔
یہ وہ دور تھا جب آج کے برخلاف چین سیاسی و سماجی بے چینی اور افراتفری میں مبتلا تھا۔ چو این لائی اس صورت حال کو بدلنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے دوستوں کی مدد سے ایک سٹڈی گروپ قائم کیا اور انقلابی تحریکوں میں سرگرم حصہ لینے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب ایسی سرگرمیوں کی اجازت سرکار نہیں دیتی تھی اس لیے انہیں چند ماہ قید و بند میں رہنا پڑا۔ جب آپ رہا ہوئے تو ایک بار پھر بیرون ملک چلے گئے۔ 1920 سے 1924 تک پیرس میں رہے اور تعلیم جاری رکھی۔ تعلیم کے ساتھ وہ کام بھی کرتے تھے۔ اس دوران ان کی ملاقات ویت نام کے آزادی پسند انقلابی ہو چی منھ اور دوسرے ایشیائی انقلابی رہنماؤں سے ہوئی۔ بعد ازاں کچھ دن جرمنی میں گزارے۔ 1924ء کے اواخر میں چین، واپس آ گئے۔
اس دوران میں روس کی کوششوں سے سین یات سن کی کومن تانگ پارٹی اور کیمونسٹوں کے درمیان میں اتحاد ہو گیا۔ آپ ایک ملٹری اکیڈیمی میں پولیٹیکل ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔ جس کا سربراہ چیانگ کائی شیک تھا۔ یہیں سے انھیں سیاسی عروج حاصل ہوا۔ اور 1927ء میں وہ کیمونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کے رکن منتخب ہوئے۔ جب ان کی جماعت اور چیانگ کائی شیک کے مابین کشیدگی دوبارہ ہوئی اور چیانگ نے ان کی جماعت کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر مارنا شروع کیا تو وہ فرار ہو کر پہلے ہانگ کانگ اور پھر روس پہنچے۔ کچھ عرصے بعد شنگھائی واپس آئے اور یہاں دو سال رہنے کے بعد جنوبی صوبہ کیانگسی چلے گئے، جو ان دونوں ان کی جماعت کا دیہی مرکز تھا اور اس کے سربراہ ماؤزے تنگ تھے۔
یہیں ان دونوں کی لازوال رفاقت کی داغ بیل پڑی۔ جب ماؤزے تنگ نے سرخ فوج کے ساتھ لانگ مارچ کیا تو چو این لائی نے باوجود علالت کے اس میں شرکت کی۔1936ء کے اواخر میں جاپان نے چین پر حملہ کیا تو مجبوراً چیانگ کائی شیک نے ان کی جماعت سے صلح کر لی۔ اس دوران میں چو این لائی نے چینی حکومت کے افسر رابطہ کی حیثیت سے کام کیا اور اپنی ذہانت اور تدبر سے غیر ملکی سفارت کاروں کو گرویدہ بنا لیا۔ 1949ء میں ماؤزے تنگ کی زیر قیادت کمیونسٹوں نے چیانگ کائی شیک کی امریکا نواز حکومت کو شکست فاش دی۔ چو این لائی نئی انقلابی حکومت میں وزیر اعظم اور وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کوریا میں جنگ بندی کے مذاکرات میں حصہ لیا اور 1954ء میں فرانس ہند چینی جنگ کے خاتمے پر جینوا میں مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی کی مساعی سے 1955ء میں بنڈونگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ ان کا انتقال 1964ء میں ہوا۔
معروف آزاد
↧
↧
Turkey's Erdogan wins sweeping new powers
Turkish President Tayyip Erdogan won sweeping new executive powers after his victory in landmark elections. The Turkish presidential election of 2018 took place on 24 June 2018 as part of the 2018 general election, alongside parliamentary elections on the same day. Following the approval of constitutional changes in a referendum held in 2017, the elected President will be both the head of state and head of government of Turkey, taking over the latter role from the to-be-abolished office of the Prime Minister. The election was originally scheduled for November 2019. Despite insistence from the government that they would not be brought forward, speculation over an early vote continued since the 2017 referendum. After calls from Nationalist Movement Party leader Devlet Bahçeli for a snap election, President Recep Tayyip Erdoğan announced on 18 April 2018 that it would take place on 24 June.
Incumbent president Recep Tayyip Erdoğan declared his candidacy for the People's Alliance (Turkish: Cumhur İttifakı) on 27 April 2018. Turkey's main opposition, the Republican People's Party, nominated Muharrem İnce, a member of the parliament known for his combative opposition and spirited speeches against Erdoğan. The Peoples' Democratic Party nominated the imprisoned ex-chairman Selahattin Demirtaş. Besides these candidates, Meral Akşener, the founder and leader of İyi Party, Temel Karamollaoğlu, the leader of the Felicity Party and Doğu Perinçek, the leader of the Patriotic Party, have announced their candidacies and collected the 100,000 signatures required for nomination. Campaigning for the election centred mainly on the faltering Turkish economy and the currency and debt crisis, with both government and opposition commentators warning of a more serious economic crisis following the election. The 2018 Gaza border protests, following the United States recognition of Jerusalem as capital of Israel, along with the Turkish military operation in Afrin, were also featured in the campaign.
↧
بوڈا پسٹ : یورپ کا ایک خوبصورت شہر
بوڈاپسٹ جمہوریہ ہنگری کا سب سے بڑا شہر اور صدر مقام ہے۔ یورپ کے سب سے خوبصورت شہروں میں اس شمار ہوتا ہے۔ بوڈاپسٹ ہنگری کے شمال وسطی حصے میں دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ یہ صنعتی، ثقافتی اور ذرائع حمل و نقل کا مرکز ہے۔ یہ مشینری، لوہے ، فولاد، کیمیائی اشیا اور کپڑے کی تیاری میں شہرت رکھتا ہے۔ یہ مالیات، آرٹ اور فیشن کا بھی مرکز ہے۔ ہنگری کی اکیڈمی آف سائنس سمیت کئی تعلیمی اور سائنسی ادارے یہاں واقع ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً پونے اٹھارہ لاکھ ہے ۔ یہ یورپ کے گنجان آباد ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہنگری کی کل داخلی پیداوار کا نصف اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔ بوڈاپسٹ ایک قدیم شہر ہے۔ یہاں پہلے کلٹ قوم آباد ہوئی۔
ہنگری قوم یہاں نویں صدی میں آباد ہوئی۔ رومن سلطنت کے عہد میں موجود بوڈا پسٹ دو علاقوں میں الگ الگ شہر تھے۔ 1241ء میں دونوں کو منگول حملہ آوروں نے تباہ کر دیا۔ 1361ء میں یہ سلطنت ہنگری کا صدر مقام بنا اور تہذیبی طور پر زبردست ترقی کی۔ ترکوں نے 1526ء میں پسٹ پر اور 1541ء میں بوڈا پر قبضہ کر لیا۔ 1686ء میں ہیپس برگ خاندان نے اسے آزاد کروا لیا اور پھر یہ مختلف حکمران خاندانوں کے تحت رہا۔ پہلی عالم گیر جنگ میں آسٹریا کو شکست ہو گئی اور دونوں حصوں کو ملا کر بوڈاپسٹ مملکت ہنگری کا صدر مقام بن گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہنگری میں کمیونسٹ حاکم بن گئے اور بوڈاپسٹ پھر صدر مقام بن گیا۔
یسرا خان
↧
کئی صدیوں میں بننے والی نہر انسانی عظمت کی عکاس
نہر سویز اور پانامہ کینال انسانی عظمت کی عکاس ہیں۔ یہ دونو ں عظیم ترین نہریں دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہیں لیکن ان دو بڑی نہروں کے علاوں متعدد چھوٹی چھوٹی نہریں محنت اور ہمت کی داستان ہیں۔ پہاڑ کاٹ کر بنائی جانے والی کورنتھ نہر انسان کی بنائی ہوئی سب سے چھوٹی نہر ہے مگر اسے مکمل کرنے میں کئی صدیاں بیت گئیں، دو سمندروں خلیج کورنتھ (Gulf of Corinth) اور خلیج سارونک (Saronic Gulf) کو ملانے والی چار کلو میٹر لمبی ،3 سو فٹ گہری اور 70 فٹ چوڑی اس نہر نے دونوں خلیجوں کا فاصلہ 400 کلومیٹر کم کر دیا ہے۔ ذرا یونان کے نقشہ پر نظر ڈالئے، یہ آپ کو سینکڑوں نہیں، ہزاروں چھوٹے بڑے جزائر میں منقسم نظر آئے گا۔
آبنائے پیلو پونیز (Peloponnese) یونان کی ایک تنگ سی گزرگا ہ ہے۔ دوسرے حصوں سے کٹی ہوئی الگ تھلگ۔ یہ استھمس کا قریب ترین جزیرہ ہے۔ جغرافیہ دان پیلوپانیز کوجزیرہ نہیں سمجھتے، وہ اس باریک سے راستے کو’’ آبنا‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں آبنا کہلانے کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہے۔ کورنتھ (Corinth) یونان کا خوبصورت اور چھوٹا سا جزیرہ ہے، جزیرے کو ملانے کی وجہ سے نہر کا نام نہر کورنتھ پڑ گیا۔ نہر کے دونوں طرف لائن سٹون کے افقی پہاڑ ہیں۔ البتہ سمندر کے کنارے پر اس کی چوڑائی ذرا معلوم سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے اس نہر سے گزرنے والے سمندری جہازوں کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 58 فیٹ سے کم ہی ہونا چاہیے۔ دیو ہیکل جہازوں اور مسافر طیاروں کے لیے یہ بہت تنگ پڑ گیا ہے،19 ویں صدی میں سینکڑوں چھوٹے جہاز یہیں سے گزرا کرتے تھے۔
دوہزار برس قبل 1893ء میں مکمل ہونے والی یہ نہر بنانے کا خیال سب سے پہلے پہلی صدی عیسوی میں اپولو نیئس آف تائنا (Apollonius of Tyana) نامی حکمران کے ذہن میں آیا۔ کام جان جوکھوں کا تھا، استمھس نہر مکمل کروانے سے پہلے بیمار پڑ گیا، اسی حالت میں چل بسا۔ جولیس سیزر نے یہ نہر بنانا چاہی، مگر تعمیر شروع کرنے سے پہلے ہی موت نے گھیر لیا۔ بادشاہ کیلی جولا (Calijola) نے نہر سازی کے لیے مصری ماہرین طلب کئے ۔ مصری نہر سویز بنانے کے زبردست تجربے سے مالا مال تھے، مگر وہ نہر کی اونچائی کا تخمینہ غلط لگانے کے باعث نقشے میں غلطیاں کر بیٹھے۔ ان کے نزدیک خلیج کورنتھ کی سطح خلیج سارونک سے بلند ہونے کے باعث زیریں علاقہ ، جزیرہ ایجیان (Aegean) ہمیشہ پانی میں ڈوبا رہے گا۔
ابھی مذکورہ رپورٹ بادشاہ کیلی جولا کے زیر غور تھی کہ اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان دونوں بادشاہوں کی ہلاکت کے پیچھے نہر کی تعمیر تھی یا نہیں، وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بعد ازاں نیرو کی باری آئی۔ جی ہاں، یہ وہی نیرو ہے جس کی بانسری مشہور ہے۔ اس نے زرعی آلے کی مدد سے مٹی کاٹ کر منصوبے کی نہر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ 6 ہزار جنگی قیدیوں نے نہر بنانا شروع کی، ابھی 10 فیصد ہی مکمل ہوئی ہو گی کہ وہ بھی موت کی آغوش میں چلا گیا ۔پھر آیا جولیس سیزر۔ سیزر نے نہر میں دل چسپی لی۔ اس نے استھمس کے قریب سے نہر کے لئے کھدائی شروع ہی کی تھی کہ اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ چنانچہ منصوبہ کاغذوں میں دب گیا۔ بعدازاں ہر کولیس (Hercules) کو نہرمکمل کرنے کی سوجھی مگر ناکام رہا۔
دوسری صدی عیسوی میں سینٹر ہیروڈس ایٹی کس (senator Herodes Atticus) نے ادھورے پڑے کام مکمل کرنا چاہے، مگر ناکام رہا۔ کئی سو برس اسی طرح گزر گئے۔ 1687ء میں venetians نے پیلوپانیز پر قبضے کے بعد کھدائی کا آغاز کرنا چاہا مگر قسمت نے ساتھ بھی نہ دیا، یہ بھاری پتھر چوم کے رکھ دیا گیا۔ 7 ویں صدی قبل از مسیح میں پیریان دیر Periander نامی حکمران کے ذہن میں آیا۔ کام مشکل تھا اور مہنگا بھی۔ بادشاہ نے مشکل کام میں ہاتھ ڈالا مگر پھرنکال لیا!۔ وہ دونوں خلیجوں کو ملانے والا آسان راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کے حکم سے دونوں خلیجوں کے پتھر کاٹ کر Diolkos نامی راستہ بنایا گیا تھا۔
استھمس کے دونوں کناروں پر ریمپ بنائے گئے ، جہازوں کو کھینچ کر ان ریپمس پر لایا جاتا ، وہاں سے براستہ سٹرک دوسرے حصے میں پہنچائے جاتے تھے۔ اس راستے کی باقیات آج بھی سیاحوں کی دل چسپی کا باعث ہیں۔ 1830 ء میں یونان نے خلافت عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد استمھس میں نہر نکالنے پر از سر نو کام شروع کیا۔ یونانی رہنما Ioannas Aapdistrias نے نہر کی فزیبلٹی رپورٹ بنانے کا کام فرانسیسی انجینئرکو سونپ دیا۔ جس نے 4 کروڑ گولڈ فرانک لاگت بنائی۔ اخراجا ت سنتے ہی بادشاہ کا رنگ فق ہو گیا، اور کام شروع نہ ہو سکا۔ 1869ء میں نہر سویز کے افتتاح نے سوئی ہوئی یونانی حکومت کو جگا دیا۔ (سابق) وزیراعظم تھراس وولوس زائمس (Thrasyvoulos Zaimis) نے 1870ء میں تعمیر کا ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی کو دے دیا۔ کسے معلوم تھا کہ پانامہ کینال بنانے والی کمپنی کی مانند یہ کمپنی بھی دیوالیہ ہو جائے گی۔
ایسا ہی ہوا، نہر کورنتھ بنانے والی کمپنی اور اس کا باس پائی پائی کو ترس گیا۔ایک اور دہائی گزر گئی۔ 1881ء میں وزیر اعظم اور شاہ جارج اول نے ایک گروپ کو نہر کی 99 سالہ لیز دے کر اپریل 1882ء میں تین کروڑ فرانک مختص کر دیئے جو 8 برس میں ختم ہو گئے، نہر پھر بھی نامکمل تھی۔ پانچ پانچ سو فرانک کے 60 ہزار بانڈز بیچنے کی تجویز پیش کی گئی جس میں سے صرف 30 ہزار بانڈز فروخت ہو سکے۔ یہ ادارے بھی ڈوب گئے ۔ ہنگری سے تعلق رکھے والا استوان تور (István Türr) اور اضافی وسائل کی حامی بھرنے والے ایک فنڈز کے کرتا دھرتا بھی دیوالیہ ہو گئے۔ 1890ء میں یہ کام یونانی کمپنی کو سونپ دیا گیا۔ جس نے 11 سال میں، 1893ء میں، نہر کو ملک کی سب سے بڑی حقیقت بنا دیا ۔
دوران عالمی جنگ کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ چونے کے پتھر (لائم سٹون) سے دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ یہ علاقہ زیر زمین خوفناک سرگرمیوں کی لپیٹ میں تھا، کسی وقت بھی زلزلہ آسکتا تھا۔ چنانچہ 57 برس استعمال کے بعد نہر کو بند کر دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حملوں سے نہر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ برطانوی قبضے کے بعد جرمنوں نے اسے بم سے اڑا دیا ۔ 1944ء میں قیام امن کے بعد نہرکی تعمیر و مرمت کا آغازہوا۔ 1948ء میں امریکی فوج کی انجینئرنگ کور نے نہر کی صفائی کے بعد اسے مکمل کیا۔
رحمیٰ فیصل
↧