Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

امریکہ طالبان معاہدہ اور مشکلات

$
0
0

امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے افغان امن معاہدے کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دو بڑے دھچکوں کی وجہ سے اس کے مستقبل پر بےیقینی کے بادل منڈلاتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلا دھچکا اس وقت لگا جب افغان صدر اشرف غنی نے معاہدے کی رو سے طے پانے والے اس وعدے کی پاسداری سے انکار کر دیا جس کے تحت کابل انتظامیہ کو 10 مارچ تک 5 ہزار طالبان قیدیوں اور ان کے بدلے میں طالبان نے ایک ہزار افغان فوجیوں کو رہا کرنا تھا۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کابل انتظامیہ کی صوابدید ہے۔ امریکہ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے نہ اس نے ہمیں اعتماد میں لیا ہے البتہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں جو آئندہ ہفتے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان متوقع ہیں اس معاملے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ 

اس کے جواب میں طالبان نے اعلان کیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی امن معاہدے کا حصہ ہے۔ اس پر عملدرآمد کے بغیر وہ کابل حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ ا س کے ساتھ ہی معاہدے سے قبل کی گئی 7 روزہ عاضی جنگ بندی کا دورانیہ ختم ہوتے ہی طالبان ملٹری کمیشن نے اپنے جنگجوئوں کو حکومتی فورسز اور پولیس پر حملوں کا حکم دے دیا ہے جو معاہدے کو پہنچنے والا دوسرا بڑا دھچکا ہے۔ طالبان نے خوست اور باد غیس میں بم حملے کئے ہیں جن کے نتیجے میں ایک افغان فوجی سمیت چار افراد ہلاک اور درجن بھر زخمی ہو گئے ہیں۔ طالبان نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کے جنگجو امریکی اور دوسرے غیرملکی فوجیوں پر حملے نہیں کریں گے۔ صرف حکومتی فورسز کو نشانہ بنائیں گے لیکن ایک امریکی جنرل نے دھمکی دی ہے کہ افغان شراکت داروں پر حملے ہوئے تو امریکہ ان کا دفاع کرے گا۔ 

امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے بھی یوٹرن لیتے ہوئے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کوئی پیشگی شرط نہیں امن معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا روک دیا جائے گا اور صدر ٹرمپ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ایسی صورت میں امریکہ اپنی اتنی بڑی فوج افغانستان بھیجے گا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ معاہدے کی کامیابی کے لئے ان عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہو گی جو اسے سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کا خدشہ بلا وجہ نہیں تھا یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امن معاہدے سے قبل بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کابل کا دورہ کیا تھا اور افغان صدر کو وزیراعظم مودی کا خصوصی پیغام پہنچایا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ سے بھارت خوش نہیں کیونکہ اس میں اسے کوئی کردار نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے برخلاف پاکستان کواس معاہدے کا حقیقی معمار سمجھا جاتا ہے۔ 

معاہدے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جو پاکستان مخالف بیان بازی کی، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مودی نے اشرف غنی کو کیا پیغام بھیجا ہو گا اور شاہ محمود نے جن عناصر سے خبردار رہنے کا مشورہ دیا تھا وہ کون تھے۔ نیز اب بےیقینی کی جو کیفیت سامنے آرہی ہے اس کے پیچھے کس کے کون سے مقاصد کارفرما ہو سکتے ہیں؟ ایسی صورتحال میں افغانستان اور اس خطے میں امن کو راستہ دینے کیلئے ضروری ہے کہ تمام فریق تحمل اور بردباری سے کام لیں۔ امریکہ 19 سال سے ا فغانسان میں جنگ لڑ رہا ہے اور 2 کھرب ڈالر سے زیادہ ضائع کرنے کے علاوہ کثیر تعداد میں اپنے فوجی بھی مروا چکا ہے۔ اس سے افغانستان میں تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ اس لئے یہ عالمی امن کے عین مفاد میں ہو گا کہ وہ دوحہ معاہدے کی کامیابی کیلئے تمام تر اثرو رسوخ بروئے کار لائے اور کابل حکومت کو بھی اس کی پاسداری کیلئے کہے۔ توقع ہے کہ اس طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے تمام فریق اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>