Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

مالدیپ : قدرتی حسن اور خوبصورتی سے مالا مال

$
0
0

مالدیپ کے باشندے نسلاً آریائی ہیں۔ سنہائی (شنگھالی) نسل اور مالا بار کے لوگوں سے مشابہ ہیں۔ ان کے نقش تیکھے ہیں اور بدن کی رنگت عام طور پر زیتونی ہے، مگرعورتوں کا رنگ قدرے صاف اور نکھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر شاہی خاندان کی خواتین کا۔ عرب تاجروں اور آبادکاروں کے توسط سے یہاں کے باشندوں کی رگوں میں سامی خون موجود ہے۔ مالے میں لوگ مختلف النسل ہیں۔ یہاں افریقہ، عرب، ایران اور مشرق بعید سے تاجر اور جہاز ران آتے جاتے رہے اور یہاں ماندو بود اختیار کر کے یہیں کے ہو رہے۔ مالدیپ کے قدیم باشندے بالعموم پانچ سوا پانچ فٹ قد کے نحیف الجثہ، منکسرالمزاج، مہمان نواز، امن پسند اور دوست دار ہیں۔ یہ لوگ پُرامن، ذہین اور محنتی ہیں۔ سادہ مگر منظم زندگی بسر کرتے ہیں اور قانون کے احترام کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 

عادات و اخلاق کے اعتبار سے مالدیپ کے باشندے بہت مہذب اور شائستہ ہیں۔ البتہ جنوبی علاقے کے لوگ مقابلتاً کرخت اور الہڑ ہیں۔ ان کے نقش بھی موٹے اور رنگ بھی سانولا ہے۔ یہاں کی دیویہی زبان میں ایک کثیر تعداد ایسے الفاظ کی ہے جو سنہالی اور پرانی ایلو سے مشتق ہیں۔ ہنری یول (Henry Yule) نے 1885ء کے لگ بھگ اس دور کی دیویہی زبان کے الفاظ کا تجزیہ کیا اور مندرجہ ذیل گوشوارہ مرتب کیا: ۱۔ ایسے الفاظ جو بدیہی طور پر شنگھالی سے مشتق ہیں، 57 فیصد۔ ۲۔ ایسے الفاظ جو کسی حد تک شنگھالی سے مماثل ہیں، 2.2 فیصد۔ ۳۔ عربی اور فارسی کے الفاظ، 10.6 فیصد، ۴۔ ملائی زبان کے الفاظ، 1.9 فیصد۔ ۵۔ تامل کے الفاظ، 1.1 فیصد۔ ۶۔ پرتگالی الفاظ 1.1 فیصد۔ ۷۔ سنسکرت اور پالی کے الفاظ (جو شنگھالی نہیں) 0.8 فیصد۔ ۸۔ غیر معین الفاظ، 24.3 فیصد۔ بیل (H.C.P. Bell) نے سلطانِ وقت کے ان مراسلات کے الفاظ کی تحلیل پیش کی جو لنکا کی حکومت کو روانہ کیے گئے۔ بیل کے اندازے کے مطابق 65 فیصد الفاظ شنگھالی اور سنسکرت ہیں۔

یہاں یہ بات بیان کر دینے میں ہمیں کئی باک نہیں کہ مالدیپ پر عربوں کی تہذیب و تمدن اور اسلام کی گہری چھاپ ہے۔ مالدیپ کے باشندوں نے عربوں اور مسلمانوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ البتہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عربی زبان کے اثرات قبول کرنے میں مالدیپ کا علاقہ ایران، عراق، ترکیہ، پاکستان اور ہندوستان کی نسبت خاصا سست رفتار رہا۔ سیاحوں اور جہاز رانوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ مالدیپ کے لوگ آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے پڑھ لکھ سکتے تھے۔ آج بھی مالدیپ میں شرح خواندگی 98 فیصد ہے۔ مالدیپ میں بارہویں صدی عیسوی کے کتبے ملے ہیں جو عربی میں ہیں۔ یہ کتبے یہاں کے مقامی درخت کی لکڑی پر کندہ کیے گئے ہیں۔ ان کا رسم الخط اور کندہ کرنے کا انداز شاہ رکن عالمؒ (ملتان) کے مزار کے کتبوں سے مماثل ہے۔ 

چونکہ یہ کتبے مالدیپ کے مقامی درخت پر کندہ کیے گئے ہیں اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ لکڑی پر کندہ کرنے والے کاتب اور کاریگر ملتان اور دیگر مقامات سے یہیں آئے۔ آب و ہوا کی مناسبت سے مالدیپ کے لوگ سادہ اور ہلکا لباس پہنتے ہیں اور اپنے عام پیشہ کے لحاظ سے ان کا عام لباس مختصر ہوتا ہے۔ مثلاً عامۃ الناس جو مچھیرے، ماہی گیر اور مزدور ہوتے ہیں، لنگوٹی پہنتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ گھٹنوں تک چوڑی دھوتی باندھتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ پاجامہ پہنتے ہیں۔ کمر بند لپیٹنا فیشن میں شمار ہوتا ہے اور سر پر رومال جسے وہ اپنی زبان میں ’’رُما‘‘ کہتے ہیں۔ کمر بند میں نقدی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں مرد لمبے بال رکھتے تھے۔ سلطان کے پیش کار اور سپاہی خاص طور پر لمبے بال رکھتے تھے، جنہیں وہ ایک طرف جوڑا باندھ کر سجا لیتے تھے۔

مالدیپ میں عورتوں کا لباس خوشنما مگر سادہ ہوتا ہے۔ لباس اور پوشاک کی طرح یہاں کے لوگوں کا خورو نوش بھی سادہ ہے۔ چاول اور مچھلی ان کی مرغوب غذا ہے۔ کھانے سے پہلے نیم پختہ ناریل استعمال کرتے یا اس کا پانی پیتے ہیں۔ صدیوں سے یہاں چمچہ کا استعمال نہ تھا۔ اب چمچہ، چھری کانٹے سبھی کچھ آ گئے۔ روایتی طور پر یہ لوگ زمین پر چٹائی بچھا کر اور اطمینان سے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ کھانا کھاتے وقت نہ پانی پیتے ہیں نہ بات کرتے ہیں اور کھانا جلدی جلدی کھاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ انہیں کوئی کھانا کھاتے دیکھے۔ 

کھانے میں اگر چیونٹی، مکھی یا گرد گر پڑے تو وہ کھانا پرندوں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ عام طور پر میٹھا پانی مل جاتا ہے۔ ریت کے نیچے چند فٹ پر میٹھے پانی کی بالائی سطح ہوتی ہے۔ مالدیپ کے لوگ روایتی طور پر ناریل کے تنوں اور پتوں سے بنے ہوئے مضبوط جھونپڑوں میں رہتے آئے ہیں۔ یہ جھونپڑے 12 فٹ چوڑے ہوتے ہیں اوردرمیان میں ان کی اوسط اونچائی 15 فٹ ہوتی ہے۔ مکان میں کوئی کھڑکی نہ ہوتی۔ اس لیے وہ تاریک اور گھٹے گھٹے معلوم ہوتے ہیں، لیکن عورتیں ان مکانوں کو نہایت صاف ستھرا اور مختلف النوع اشیا سے آراستہ کر کے رکھتی ہیں۔

محمد یونس

بشکریہ دنیا نیوز


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>