امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال میں گذشتہ سال نوبل امن انعام کے لیے ان کا نام نظر انداز کیا گیا لیکن انھوں نے ایسا کیوں کہا ؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے ’میں آپ کو نوبل انعام کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں، میں آپ کو اس بارے میں بتاؤں گا۔ میں نے ایک ڈیل کے ذریعے ایک ملک کو جنگ کے خطرے سے بچایا اور میں نے ابھی سنا ہے کہ اس ملک کے سربراہ مملکت اب وہ انعام لے رہے ہیں۔‘ میں نے کہا: کیا، میرا اس سے کوئی تعلق ہے؟ جی ہاں لیکن آپ جانتے ہیں ایسے ہی ہوتا ہے۔ جتنا ہم جانتے ہیں، اتنا ہی اہم ہے۔ میں نے ایک بڑی جنگ ٹالی اور میں نے چند جنگوں سے بچایا۔‘ صدر ٹرمپ کا ایک ویڈیو کلپ ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا جس میں وہ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ٹولیڈو میں ایک مہم کے دوران اپنے حامیوں سے یہ سب بات کر رہے ہیں۔
وہ کس کے بارے میں بات کر رہے تھے؟ اگرچہ صدر ٹرمپ نے نوبل امن انعام جیتنے والے ملک یا حکمران کا نام نہیں لیا تاہم یہ بات واضح ہے کہ وہ ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ 43 سالہ ابی، افریقہ کے سب سے کم عمر حکمران ہیں۔ انھیں 2018 میں اس وقت اقتدار ملا جب ان کے پیش رو کو حکومت مخالف عوامی احتجاج کے نتیجے میں اقتدار سے مستعفی ہونا پڑا۔ ابی نے ایتھوپیا میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کرائیں اور سخت پابندیوں میں جکڑی ایک قوم کو جگایا۔ انھوں نے حزب مخالف کے ہزاروں رہنماؤں کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا اور جو حکومت مخالف رہنما ملک بدر تھے انھیں واپس آنے کی اجازت دی۔ ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم نے میڈیا کو بھی آزادی دی اور خواتین کو اہم عہدوں پر تعینات کیا۔ انھی خدمات کے پیش نظر انھیں گذشتہ برس اکتوبر میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ایتھوپیا کے وزیر اعظم وہ واحد حکمران ہیں جنھیں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
نوبل امن انعام ایتھوپیا کے وزیر اعظم کے نام کیوں رہا؟ نارویجین نوبل کمیٹی کا مؤقف ہے کہ ایتھوپین وزیراعظم نے ’ہمسایہ ملک اریٹیریا کے ساتھ سرحدی تنازع حل کر کے فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے‘ جس کے لیے انھیں اس اعزازسے نوازا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک نے سنہ 1998 سے 2000 کے عرصے کے دوران ایک تلخ سرحدی جنگ لڑی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اگرچہ سنہ 2000 میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا لیکن دونوں پڑوسی ممالک تکنیکی طور پر جولائی 2018 تک برسر جنگ رہے اور پھر ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی اور اریٹیریا کے صدر اسیاس ایفویرکی کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ دو دہائیوں تک یہ طویل سرحد بند رہی جس کی وجہ سے دونوں اطراف خاندان تقسیم ہو گئے اور تجارت ناممکن ہو گئی۔ نوبل کمیٹی نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس امن معاہدے سے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اریٹیریا کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے ایتھوپین وزیراعظم ابی احمد دوسرے افریقی ممالک کے ساتھ بھی امن کے عمل کے لیے کوشاں رہے۔
کیا ٹرمپ نے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے درمیان امن معاہدہ کرایا؟ ایسا نہیں ہے۔ اس امن معاہدے میں امریکی اثر و رسوخ محدود حد تک ہی رہا۔ بی بی سی کی ایتھوپیا میں سابق نمائندہ ایمانوئیل اگونزا کا کہنا ہے کہ دونوں افریقی ممالک کو قریب لانے میں متحدہ عرب امارات کا بنیادی کردار رہا جس کا افریقی خطے پر ایک خاص اثرورسوخ ہے۔ سعودی عرب نے بھی اس تنازع کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ امن معاہدے سے اریٹیریا پر 2009 سے عائد پابندیاں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل نے اس امن معاہدے کے چار ماہ بعد ہی اریٹیریا پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا۔
ٹرمپ نے اب اس پر تبصرہ کیوں کیا؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ نوبل امن انعام گذشتہ برس 11 اکتوبر کو دیا گیا اور ایتھوپین وزیراعظم ابی احمد نے 10 دسمبر کو ناروے کے شہر اوسلو میں اسے قبول کرنے کی تقریر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ابھی تک باقاعدہ طور پر ایتھوپین وزیراعظم ابی احمد کو مبارکباد بھی نہیں دی تاہم ان کی بیٹی ایوانکا جو ان کی سینیئر مشیر بھی ہیں اور امریکی سکیرٹری خارجہ مائیک پومپیو، انھیں مبارکباد پیش کر چکے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے کھلے عام کہا کہ نوبل امن انعام کے وہ مستحق تھے کیونکہ دیگر کئی امور کے علاوہ انھوں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو جوہری پروگرام ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کوششیں کیں۔