Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

اور کتنے غدار باقی ہیں دوست ؟

$
0
0

پولیو کیسز دو ہزار سترہ میں دو اور دو ہزار اٹھارہ میں آٹھ تھے۔ دو ہزار انیس میں سو سے تجاوز کر چکے ہیں اور ابھی سال ختم ہونے میں پانچ ہفتے باقی ہیں۔ مگر پولیو سے اگلی نسل کو بھلے خطرہ ہو لیکن قومی سلامتی کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ اب تو ٹائیفائڈ کی سرکاری ویکسینیشن بھی محال ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس مہم کو موثر بنانے کے لیے سرکردہ ڈاکٹروں کو وڈیوز میں اپنے بچوں اور پوتے نواسیوں کو ساتھ بٹھا کے اپیلیں کرنا پڑ رہی ہیں کہ پندرہ برس تک کے بچوں کی ویکسینیشن کروائیے یہ محفوظ ہے۔ پر وہ جو پشتو میں کہتے ہیں کہ جب تک سچ پہنچتا ہے تب تک جھوٹ گاؤں اجاڑ چکا ہوتا ہے۔ بھلے کوئی ایک افواہ ہزاروں بچوں کی صحت کے لیے کیسی ہی خطرناک ہو مگر یہ معاملہ قومی سلامتی یا قومی مسقبل سے غداری کے دائرے میں ہرگز ہرگز نہیں آتا۔

وبائی انداز میں پھیلتی بے روزگاری، روپے کی قدر میں کمی، نظامِ انصاف کا مسلسل زوال، عدم کارکردگی کو چھپانے کے لیے مسلسل اڑنے والی سرکاری الزامیہ دھول، اوپر سے نیچے تک منہ کے ہیضے کے بے تحاشا پھیلاؤ اور خارجہ پالیسی کے میدان میں بلا مقصد خوخیاتی ٹپوسیوں سے ملکی مفاد یا قومی سلامتی کو ہرگز خطرہ نہیں۔ قومی سلامتی کو اگر خطرہ ہے تو ہر اس حرف سے جو بلا اجازت لکھا، بولا یا پڑھا جاوے۔ اس دائرے میں سندھ یونیورسٹی کے طلبا کی صاف پانی کی غدارانہ مانگ سے لے کر فیض میلے میں ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ گنگنانے تک ہر وہ مصرعہ و نثر پارہ و خبر و تبصرہ شامل ہے جس کا این او سی نہ لیا گیا ہو۔ ہزاروں برس پہلے جب اس خطے میں حرف پر برہمن کی اجارہ داری تھی۔ کوئی غیر برہمن مقدس اشلوک سنتا، پڑھتا یا لکھتا پایا جاتا تو اس کے کانوں میں پگھلا سیسہ ڈال دیا جاتا۔

اب بس اتنا فرق آیا ہے کہ سوالات و جوابات کی منظور شدہ فہرست سے باہر کا کوئی بھی سوال کلاس روم سے لے کر نیوز روم تک پوچھنا یا جواب کھوجنا حرف کے مالک برہمنوں کی سیادت کو چیلنج کرنا ہے۔ اور چیلنج کا مطلب غداری ہے۔
بات اب ہما شما سے اٹھ کر ایم ضیا الدین جیسے جئید صحافیوں کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے۔ محبِ وطن ایوب خان سے لے کر محبِ وطن عمران خان تک ایم ضیا الدین نے سوائے پروفیشنل انداز میں صحافت کے کچھ نہ کیا۔ سینکڑوں صحافیوں نے ان کے تجربے اور نصیحت کو زادِ سفر بنایا۔ مگر آج وہ بھی مشکوک ہیں۔ گذشتہ روز جب ضیا صاحب نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں اپنے تھنکنگ فورم کا اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے کلب کو گھیر لیا۔ عہدیداروں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یہ اجلاس نہ ہونے دیں۔

عہدیداروں نے کلب کو ہی تالا لگا دیا کیونکہ ایم ضیا الدین نے بطور مہمان منظور پشتین کو مدعو کیا تھا۔ چنانچہ اس فورم کا اجلاس پریس کلب کے سامنے کے میدان میں گھاس پر ہوا۔ واضح رہے کہ منظور پشتین فی الحال زبانی غدار ہے اور اس پر غداری کی فردِ جرم باقاعدہ لگنا اور مقدمہ چلنا اور سزا پانا باقی ہے۔ مگر کل کے بعد ایم ضیا الدین بھی سوشل میڈیا کے ٹرول بریگیڈ کی مرتب کردہ غداروں کی نامکمل فہرست میں شامل ہو گئے۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے تین دن پہلے نیویارک میں موقر عالمی صحافتی تنظیم سی پی جے کا آزادیِ صحافت ایوارڈ وصول کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ریاستی ادارے آزادیِ اظہار کو دبانے کے لیے قومی مفاد اور حب الوطنی کو بطور عذر استعمال کر رہے ہیں۔ جو بھی سوال اٹھاتا ہے اس پر ملک دشمنی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔

بقول ظفر عباس زیادہ تر میڈیائی ادارے کہتے ہیں کہ ہم معاشی طور پر زندہ رہنے کے لیے ریاستی احکامات کی بجا آوری پر مجبور ہیں۔ وہ مجھے بھی مشورہ دیتے ہیں کہ کل لڑنے کے لیے آج زندہ رہنا ضروری ہے۔ مگر بات بہت سادہ ہے۔ ہتھیار ڈالنا صحافت نہیں سچائی بیان کرنا صحافت ہے۔ خوش قسمتی سے ظفر عباس اور ان کا ادارہ پچھلے تین برس سے منظور شدہ ریاستی نظریے سے انحراف کے سبب پہلے ہی غیر محبِ وطن ہے (یہ الگ بات ہے کہ ڈان کی پیشانی پر آج بھی بانیِ اخبار کا نام قائدِ اعظم محمد علی جناح لکھا جاتا ہے۔ مگر قائد کا نام تو فاطمہ جناح کو بھی غداری کے ٹھپے سے نہ بچا سکا)۔ مگر زمین جس تیزی سے تنگ ہو رہی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جس جس پر قومی مفاد سے غداری کا ٹھپہ نہیں لگے گا عوام کی نظر میں شاید اسی کی حب الوطنی مشکوک ٹھہرے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>