قوموں کی ترقی، خوشحالی، عروج اور باوقار مقام کے حصول کے لیے قیادت کا وژن، تجربہ، اہلیت، کردار، صلاحیتیں اور معاملہ فہمی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جن قوموں کو ایسی قیادت میسر آجاتی ہے اور قومیں ایسی قیادت کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرتی اور اسے منتخب کر کے موقع فراہم کرتی ہیں ایسی قوموں کے دن پھر جاتے ہیں، وہ پستیوں سے بلندی کا سفر تیزی سے طے کرتی ہیں، ان کی قیادت کسی سے مرعوب نہیں ہوتی بلکہ عالمی سامراج کے عزائم کو ہمت، حوصلے اور حکمت عملی سے ناکام بنا کر اپنی قوم کو باوقار مقام دلانے کے لیے مثالی جدوجہد کرتی ہے۔
ترکی ان خوش نصیب ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے جسے طیب اردوان جیسی بالغ نظر، مخلص، قابل اور باصلاحیت قیادت میسر آئی جس نے نہایت کم عرصے میں ترکی کو پستیوں سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا، ترکی کو ایک نئی اور باوقار شناخت دی، جس ترکی کی تاریخ اور ثقافتی رشتے کو اسلام سے توڑنے کے لیے سالہا سال تک محنت کی گئی اسی ترکی کو اب عالم اسلام کی قیادت پر فائز کر دیا۔ دنیا بھر کے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی نظریں ترکی اور اس کی قیادت پر ہیں۔ طیب اردوان نے ترکی کی شکستہ معیشت کو ایک ترقی یافتہ معیشت میں کیسے تبدیل کیا اس پر ہم بعد میں بات کریں گے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دور جدید کی اس معاشی کرامت کا مظاہرہ کرنے والے طیب ردگان کی پرورش کس ماحول میں ہوئی۔
ان کی شخصیت کی تعمیر میں، ان کے افکار کی بنیادوں کی مضبوطی میں کن عناصر اور عوامل نے حصہ لیا۔ طیب اردوان کی والدہ قرآن کی معلمہ اور شیدائی تھیں۔ انہیں قرآن کی تلاوت کا اعلیٰ ذوق حاصل تھا۔ ننھے طیب کے سامنے جب وہ قرآن کی تلاوت کرتیں تو قرآن کا معجزاتی اور انقلابی کلام ان کے دل اور دماغ اور روح کو معطر کر دیتا۔ یہ ایک دینی مدرسہ تھا جہاں ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور محبت کا جذبہ مزید گہرا کیا گیا۔ اس دوران میں انہوں نے اپنی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے گلیوں میں لیمن جوس اور ٹافیاں بھی فروخت کیں۔ کسے معلوم تھا کہ گلیوں میں لیمن جوس فروخت کرنے والا یہ بچہ آگے جا کر ترکی کی تقدیر بدلنے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔
طیب اردوان عالم اسلام کے اس وقت وہ واحد حکمران ہیں جو نہایت خوش الحانی اور درست مخارج سے قرآن کی تلاوت کر سکتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے عصری تعلیم پر توجہ دی اور مارمرا یونیورسٹی سے اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹیو سائنسز میں ماسٹر کیا۔ اس دوران انہوں نے طلبہ سیاست میں بھی حصہ لیا اور اسلام پسند نیشنل سالویشن پارٹی جو نجم الدین اربکان کی سیاسی جماعت کی طلبہ شاخ تھی اس پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس اسلام پسند طلبہ جماعت کی تربیتی نشستوں نے ان کی ذہنی آبیاری کی اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے سے انہیں احساس ہوا کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح محض عبادت گاہ تک محدود نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔
بعد میں نجم الدین اربکان کی سیاسی جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور اس پابندی کے خلاف طیب اردوان نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران انہوں نے ضیا گوکپ کی ایک نظم پڑھی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔ ’’مسجدیں ہماری چھائونیاں ہیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں، مسجدوں کے مینار ہماری سنگینیں ہیں۔ یہ الفاظ لادین اور سیکولر طبقے کے لیے میزائل سے کم نہ تھے چناں چہ طیب اردوان کو گرفتار کر لیا گیا، ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عاید کر دی گئی اور چار ماہ انہیں جیل میں رکھا گیا۔ تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1991ء کے بلدیاتی انتخابات میں وہ کامیاب ہوئے۔ انہیں استنبول شہر کا میئر منتخب کیا گیا۔ اس وقت استنبول شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر تھے، شہر ترکی کا آلودہ ترین شہر تھا، پانی کی شدید قلت تھی، ٹریفک جام شہر کے باسیوں کے لیے درد سر بن چکا تھا۔
صورت حال میں بہتری کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ ایسے میں طیب اردوان اُمید کی ایک کرن بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے پانی کی قلت دور کرنے کے لیے جامع منصوبہ بنایا اور ہزاروں کلو میٹر پانی کی پائپ لائن بچھا دی۔ ٹریفک جام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے درجنوں پل بنائے گئے، شاہراہوں کی حالت بہتر بنائی گئی، ٹریفک قوانین پر سختی سے پابندی کروائی گئی، کچرے کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ جدید ری سائیکلنگ پلانٹ لگائے گئے، آلودگی کم کرنے کے لیے ماحول دوست بسیں چلائی گئیں اور رفتہ رفتہ پرانی اور دھواں چھوڑنے والی بسیں شاہراہوں سے غائب ہو گئیں۔ طیب اردوان کے میئر بننے سے قبل استنبول بلدیہ رشوت، بدعنوانی، نااہلی اور اقربا پروری کے لیے مشہور تھی۔
طیب اردوان نے نہایت ذمے داری اور حکمت عملی سے کام کرتے ہوئے بلدیاتی نظام کو شفاف بنایا اور فنڈز کے اجرا کو میرٹ سے مشروط کیا اور بدعنوانی کا خاتمہ کیا۔ جب فنڈز کا درست استعمال ہوا تو شہر میں ہر طرف ترقیاتی کام ہوئے، وہی استنبول جو کچرے کا ڈھیر تھا اب نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک مثال بن گیا۔ ملک کے دوسرے شہروں سے لوگ جب استنبول آتے تو یہاں کی بدلی ہوئی حال دیکھ کر حیران ہو جاتے۔ استنبول بلدیہ جو 2 ارب ڈالر کی مقروض تھی طیب اردوان کی بہترین حکمت عملی، دیانت داری، فرض شناسی اور جوابدہی کے احساس کی بدولت نہ صرف سارا قرض چکایا گیا بلکہ 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی۔
طیب اردوان نے استنبول کانفرنس کے دوران دیگر شہروں کے میئرز کو مدعو کیا اور ایک عالمی میئرز تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی بحیثیت میئر شاندار کرکردگی پر انہیں اقوام متحدہ کی جانب سے یو این ہیبیٹاٹ ایورڈ سے نوازا گیا۔ استنبول شہر کی قسمت بدلنے کے بعد طیب اردوان کا سفر یہیں تک رکا نہیں بلکہ انہوں نے پختہ عزم کر لیا کہ وہ پورے ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ چناں چہ 2003ء کے انتخابات کی مہم انہوں نے اپنے استنبول کی کارکردگی کی بنیاد پر چلائی اور قوم سے وعدہ کیا کہ وہ پوری ترکی کو استنبول کی طرح بنا دیں گے۔ عوام نے طیب اردوان کی بہترین صلاحیتوں کی بدولت انہیں ترکی کا قائد تسلیم کر لیا اور انہیں 2003ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد انقلابی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے باصلاحیت، ایماندار اور مشنری جذبہ رکھنے والے ساتھیوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دی۔ چناں چہ 2003ء سے 2012ء تک صرف 9 سال کے عرصے میں قومی آمدنی دگنی ہو گئی۔ فی کس آمدنی میں 43 فی صد اضافہ ہوا۔ طیب اردوان نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت ترکی کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا اور ملک پر 23 ارب 50 کروڑ ڈالر کے قرضے تھے جن کی بمعہ سود آئی ایم ایف کو ادائیگی کرنی تھی۔ طیب اردوان نے قرض کی زنجیریں جنہیں وہ غلامی کی زنجیریں کہتے تھے سے نجات دلانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی اور 2012ء تک قرضے ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے۔
انہوں نے آئی ایم ایف سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ چناں چہ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’الحمدللہ ترکی اب آئی ایم ایف کے قرضوں سے آزاد ہو گیا ہے اور الحمدللہ ہم نے خود کفالت کی وہ منزل حاصل کر لی ہے کہ اب آئی ایم ایف ترکی سے قرضے حاصل کر سکتا ہے۔ اب ترکی یورپ کے کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل گیا تھا جو قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔