Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ۔ شرائط و مطالبات کا نیا سلسلہ

$
0
0

آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد حکومت کو 9 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حکومت نے جو شرائط آئی ایم ایف کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے یا جو مطالبات اس معاہدے کے مذاکرات کے دوران حکومت نے تسلیم کیے ہیں ان کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات دو ہیں جن میں سے ایک ہے تجارتی خسارہ یعنی امپورٹس زیادہ ایکسپورٹس کم یعنی زر مبادلہ کی طلب اس کی رسد سے بڑھ جاتی ہے اس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ دوسری وجہ مالیاتی خسارہ Fiscal Deficit ہے یعنی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ تو آئی ایم ایف کی تمام شرائط و مطالبات کا تعلق ان دونوں خرابیوں کو کم کرنے سے ہے۔

لیکن جس طرح مریض کو دوا دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کو دوا کی اتنی ہی خوراک دی جائے کہ اس کا جسم اس دوا کو برداشت کر سکے۔ کیوں کہ اسی صورت میں دوا اپنا اثر دکھا سکے گی اور مریض صحت یاب ہو جائے گا جب کہ آئی ایم ایف کی دوا پاکستان کے معاشی جسم کے لحاظ سے زیادہ مقدار (Over Dose) کی ہے اور اس کا اثر اتنا طاقتور اور تخریبی ہے جس کی وجہ سے مثبت کے مقابلے میں منفی اثرات کا قوی امکان ہے۔ مالی خسارہ کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھایا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع ہو سکے اس کے لیے رواں مالی سال کا ٹارگٹ 5550 ارب روپے، اگلے سال یعنی 2020-21 کے لیے 7000 ارب روپے، 2021-22 کے لیے 8311 ارب روپے اور سال 2022-23 کے لیے 9486 ارب رکھا گیا ہے۔ 

لیکن ٹیکس تو اسی وقت جمع ہو سکتا ہے جب معاشی سرگرمیاں حرکت میں ہوں اور کاروبار چل رہا ہو۔ گیس اور بجلی کے نرخ میں بے انتہا اضافہ اور مختلف اشیا کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں شامل کرنے کے بعد پیداواری لاگت میں اضافہ اور نرخوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس وجہ سے پورے ملک میں کاروبار، چاہے وہ صنعتیں ہوں، تعمیراتی سرگرمیاں ہوں، زرعی پیداوار ہو، سب بحران کا شکار ہیں، اس صورت میں کس طرح ٹیکس جمع ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں عمران خان کی تاجروں سے بات چیت ناکام رہی اور وہ ملک بھر میں ہڑتال کی گئی ۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہر سہ ماہی پر بجلی، گیس اور تیل کے نرخوں میں نظرثانی کی جائے۔ 

اس وقت جو پیداواری لاگت وہ پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہے اس میں مزید اضافہ تین ماہ بعد ہو گا۔ ملکی پیداوار کم ہو جائے گی، ٹیکس کی وصولی بھی کم ہو گی۔ جب کہ ٹیکس کا صرف ہر سال 20 سے 25 فی صد بڑھ رہا ہے۔ کرنسی کی شرح مبادلہ کے بارے میں حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اس معاملے میں اسٹیٹ بینک کی مداخلت بالکل نہیں ہو گی اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کی بنیاد پر شرح مبادلہ ہو گی۔ اس سے غیر یقینی برقرار رہے گی۔ ایکسپورٹ آرڈر میں قیمت کا تعین مشکل ہو گا اس سے برآمدات مزید متاثر ہوں گی اور اس طرح تجارتی خسارہ کم نہیں ہو سکے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا تو ڈالر پر دبائو میں اضافہ ہو گا اور روپے کی قدر میں کمی ہو گی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ملکی اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ 

ان میں وہ ادارے شامل ہیں جو سالہا سال سے خسارہ میں چل رہے ہیں یا بند پڑے ہیں اور ان کے ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جارہی ہیں یہ تقریباً 1400 ارب روپے کا بوجھ ہے جو ٹیکس کی رقم میں سے ان اداروں میں جارہا ہے۔ ان تمام اداروں کو اگلے سال ستمبر تک نجکاری کر دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ اس سے ان اداروں کا بوجھ کم ہو جائے گا لیکن ان اداروں کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گی۔ اس طرح مہنگائی اور بے روزگاری میں ہمارا گراف جو پہلے ہی اوپر جارہا ہے وہ اور تیزی سے اوپر جائے گا۔ جب کہ شبر زیدی صاحب ٹیکسوں کے بارے میں روز ایک نئی بات کر رہے ہیں۔ پہلے کہا کہ موجودہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، بعد میں یہ بیان آیا کہ صرف چینی پر ٹیکس لگایا گیا ہے، اب کہتے ہیں آٹے اور میدے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جب آپ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے تو خود بخود چیزیں مہنگی ہو جائیں گی، ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب تک آئی ایم ایف ہی کی شرائط و مطالبات سامنے آئے ہیں، آئندہ دیکھتے ہیں عوام پر قیامت ڈھانے والی کیا شرائط سامنے آتی ہیں۔

ڈاکٹررضوان الحسن انصاری  

بشکریہ روزنامہ جسارت


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>