چین اور امریکا کے مابین تجارتی تنازع شدت اختیار کر گیا۔ امریکا کی جانب سے 200 ارب ڈالر کے ٹیکسز عائد کیے جانے کے بعد چین نے جوابی وار کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 60 ارب ڈالر کے ٹیکس لگا دیے۔ چین نے امریکا کی 5 ہزار سے زائد مصنوعات پر 5 سے 25 فیصد تک ٹیکس عائد کیے ہیں۔ امریکی مصنوعات پر نئے ٹیکسز یکم جون سے لاگو ہو جائیں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ دوسری جانب چینی نائب وزیراعظم لیو ہی نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں بڑے اصولی معاملات پر کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
ان مذاکرات میں چین کی جانب سے اعلیٰ مذاکرات کار لیو نے چینی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان تین معاملات کو ضرور نمٹایا جانا چاہیے، جنہیں وہ بنیادی خدشات کہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ چین کی خواہش ہے کہ دو طرفہ سمجھوتا طے ہوتے ہی امریکا چینی مصنوعات پر عائد تمام تر اضافی محصولات ہٹا دے۔ بیجنگ کی دوسری خواہش ہے کہ چین کی جانب سے درآمدات کو توسیع دینے کے طریقوں پر دونوں ممالک کا وہ اتفاق رائے برقرار رہے، جو گزشتہ سال دسمبر میں چین اور امریکا کے سربراہان کی ارجنٹائن میں ہونے والی ملاقات میں ہوا تھا۔ تیسرا اور آخری نکتہ چین کی یہ خواہش ہے کہ سمجھوتے کے الفاظ متوازن ہوں، تاکہ چینی وقار متاثر نہ ہو۔
بیجنگ کو بظاہر خدشہ ہے کہ دستاویز میں ایسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، جو چین کی خودمختار حیثیت کے خلاف ہوں گے۔ چین کا کہنا تھا کہ 2 کھرب ڈالر مالیت کی چینی مصنوعات پر امریکا کی جانب سے محصولات بڑھائے جانے کے بعد چین کے پاس جوابی اقدامات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ ادھر چین کی جانب سے نئے ٹیکسوں کا اعلان کرنے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین نے کئی سال تک امریکا کی نرمیوں کا فائدہ اٹھایا ہے، کیوں کہ ہمارے گزشتہ صدور نے اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا۔ چین کو امریکا کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ٹیکسوں کے جواب میں ٹیکس عائد نہیں کرنے چاہیں، ورنہ چین کو بہت بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔