بحیرۂ روم افریقہ، یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک سمندر ہے۔ اردو میں اسے بحیرۂ متوسط یا بحیرۂ ابیض بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کم و بیش سارا خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ شمال میں اس کی سرحد یورپ، مشرق میں ایشیا اور جنوب میں افریقہ سے ملتی ہے۔ اس بحیرہ کی تاریخی، ثقافتی اورتجارتی اہمیت مسلّم ہے۔ مغرب میں یہ آبنائے جبل الطارق کے ذریعے بحرِ اوقیانوس سے ملا ہوا ہے۔ جنوب مشرق میں نہر سویز کے ذریعے یہ بحیرۂ قلزم سے مل جاتا ہے۔ یہ بحیرہ درہ دانیال اور آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرۂ مرمرہ اور بحیرۂ اسود سے منسلک ہے۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ 59 لاکھ برس قبل یہ بحرِ اوقیانوس سے علیحدہ ہوا۔
یہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جو پوری دنیا کے سمندری رقبے کا 0.7 فیصد بنتا ہے۔ بحیرۂ روم کی اوسط گہرائی 49 سو فٹ ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 17,280 فٹ ہے۔ یہ بحیرہ زمانہ قدیم سے تجارت اور سیاحت کے لیے بہت اہم رہا ہے ۔ اسی کے سبب مختلف ثقافتوں اور علاقوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو جانا اور اشیائے ضروریہ کا تبادلہ کیا۔ وسائل اور بحری راستوں پر قبضے کے لیے یہاں بہت سی جنگیں ہوئیں۔ نسبتاً معتدل موسم، زرعی پیداوار اور تجارت کے سبب یہاں انسانی آبادی زمانہ قبل از تاریخ سے موجود ہے۔ دنیا کی بہت سی قدیم تہذیبوں نے اس کے ساحلوں پر جنم لیا۔
اس کے ساحلوں پر موجود ثقافتوں میں بہت سی مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں. کیونکہ یہاں کا موسم اور جغرافیہ ملتا جلتا ہے۔ اس کے ساحلوں پر جنم لینے والی دو مشہور تہذیبوں میں یونانی اور فونیشیائی شامل ہیں۔ ان دونوں تہذیبوں نے بحیرہ ٔروم کے وسیع ساحلی علاقوں کو اپنی نو آبادی بنائے رکھا۔ پھر ایک زمانہ آیا جب یہ بحیرہ رومیوں کے کنٹرول میں آ گیا۔ رومی سلطنت تقریباً چار سو سال تک یہاں سیاہ و سفید کی مالک رہی اور بحری راستوں پر اس کا کنٹرول رہا۔ ساتویں صدی میں ایک اور طاقت نمودار ہوئی۔ یہ عرب مسلمان تھے جنہوں نے بحیرۂ روم کے بیشتر علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور بحری راستوں پر اپنے وجود کو ثابت کر دیا۔
اس کے نتیجے میں مغربی اور مشرقی یورپ کی باہمی تجارت متاثرہوئی۔ تاہم یورپ کی باہمی تجارت اور مشرق و مغرب کی تجارت کے لیے دوسرے راستوں کو کامیابی سے آزمایا جانے لگا۔ یہاں تجارت کو وائیکنگ کے حملوں سے بھی نقصان پہنچا۔ یہ حملہ آور شمالی یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔ آٹھویں صدی کے وسط میں یہاں بازنطینیوں کا اثرورسوخ بالخصوص شمال مشرقی علاقوں میں بڑھا۔ لیکن پھر ایک نئی طاقت نے ان کے اثر کو کم کرنا شروع کر دیا۔ عثمانیوں کی طاقت کے بڑھنے اور بازنطینیوں کے زوال کے بعد سولہویں صدی میں یہ بحیرہ سلطنتِ عثمانیہ کے کنٹرول میں چلا گیا۔
عثمانیوں نے اس کے ساحلوں پر متعدد بحری اڈے قائم کیے۔ پھر یورپ کی بحری قوت بڑھنے لگی اور انہوں نے عثمانیوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر عثمانی سلطنت زوال پذیر ہوئی اور یورپی ممالک آگے نکل گئے۔ بحیرۂ روم کے ساحلوں پر آباد بڑے شہر وں میں الجیریا، سکندریہ، مارسیلز، ایتھنز، وینس، بیروت، غزہ، خان یونس، بارسلونا، تونس، استنبول اور ازمیر شامل ہیں۔ اس میں واقع دس بڑے جزیرے اٹلی، قبرص، فرانس ، یونان اور سپین کے پاس ہیں۔