امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نےاپنے اداریے میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنا عین ممکن ہے۔ امریکا کے مقبول ترین اخباروں میں سے ایک نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ سرحدوں پر دونوں ملکوں کی فوج تیار ہے اور حکومتوں کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے، خوف ناک صورت حال کا سامنا رہے گا ۔ اپنے اداریہ میں اخبار کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑجانے کا امکان ہے، دونوں ملک خطرناک صورتحال میں داخل ہو چکے ہیں۔
اخبار کے مطابق دونوں ملکوں کے ایٹمی ہتھیاروں کے سبب اگلی محاذ آرائی اس سے کہیں زیادہ بعید ازقیاس ہوگی، اور ممکن ہے اتنی آسانی سے ختم نہ ہو۔ اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت کا پاکستان پر حملے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد مارنے کا دعویٰ مشکوک ہے۔ اخبار نے واضح کیا ہے کہ 70 برس میں 3 جنگیں لڑنے والے دونوں ممالک کے درمیان صورتحال خراب تر ہو سکتی تھی۔ سرحدوں پر دونوں ملکوں کی فوج تیار ہے، مگر حکومتوں کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ سونے پہ سہاگہ نریندر مودی پاکستان کے خلاف بات کر کے ہندو قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گرفتار بھارتی پائلٹ واپس کیا جو خیر سگالی کے طور پر دیکھا گیا، اس سے نریندر مودی کو بھی موقع ملا کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہ کریں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد سے اب تک پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئی ہے، مگر یہ نسبتا ًکمی مسئلہ کا حل نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان اور بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر کا بنیادی تنازعہ حل نہیں کرتے صورتحال غیر متوقع رہے گی۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونے تک دونوں ملکوں کو خوفناک صورتحال کا سامنا رہے گا۔ نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے کے لیے عالمی کردار کی بھی وکالت کی اور واضح کیا کہ عالمی دباؤ کے بغیر دیرپا حل ناممکن ہے، ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار رہے گا۔
اخبار نے یاد دلایا کہ انیس سو نناوے، سن دوہزار دو اور سن دو ہزار آٹھ میں پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی صدور بل کلنٹن، جارج بش اور براک اوباما نے اہم کردار ادا کیا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے کشیدگی میں کمی سے متعلق اس وقت بیان دینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے کے لیے ٹرمپ کا بطور ثالث کردار نظر نہیں آتا، کیونکہ تجارتی مفادات سامنے رکھ کر ٹرمپ نے امریکا کا جھکاؤ پاکستان کے خلاف اور بھارت کی جانب کر دیا ہے۔ اداریہ کے مطابق اقوام متحدہ کے نزدیک بھی بھارتی پالیسی سے عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے، مسئلہ کا حل پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان بات سے نکلنا چاہیے۔