سن 1842ء میں فرانسیسی قبضہ سے پہلے الجزائر کی کوئی مخصوص پہچان نہیں تھی۔ پورا علاقہ قبیلوں میں بٹا ہوا تھا جو آپس میں برسر پیکار رہتے تھے۔ 146 قبل مسیح کے لگ بھگ رومن سلطنت نے یہاں کے بعض پہاڑی علاقوں اور سطح مرتفع پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے گیہوں اور دوسری پیداوار روم منتقل کرنے لگے۔ شہروں میں لاطینی تہذیب بڑی حد تک مسلط کر دی۔ لیکن دیہات اور خاص طور پر دور دراز کے پہاڑی علاقے بربر رہے۔ روم پر جب عیسائی مذہب حاوی ہو گیا تو اس وقت الجزائر کا پورا ساحلی علاقہ رومن سلطنت کا جزو بن چکا تھا۔ بربروں کے مسلسل حملوں اور رومن مقبوضات کے خود اندرونی خلفشار کی وجہ سے یہ سماج آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔
بعدازاں بازنطینی سلطنت نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہ پورا علاقہ عربوں کے قبضہ میں آ گیا اور یہاں کی آبادی نے آہستہ آہستہ اسلام قبول کر لیا۔ انتہائی دور دراز علاقوں کے علاوہ یہاں کی تمام آبادی نے عربی زبان اختیار کر لی اور عرب فاتحین کے ساتھ گھل مل گئی۔ ’’المرود‘‘ اور ’’الموحد‘‘ کے دور حکمرانی میں یہ علاقے سپین اور مراکش کی عظیم سلطنتوں کا جزو بن گئے۔ البتہ مرکزی حکومتیں کمزور ہو جاتیں تو مقامی حکمران پیدا ہو جاتے۔ سولہویں صدی کے اوائل میں عثمانی ترکوں نے حملہ کر کے اس علاقہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، لیکن ترکوں کا اقتدار ساحلی علاقوں تک محدود رہا۔
بحری لٹیروں نے ساحل کے کئی علاقوں میں اپنے اڈے قائم کر لیے اور وہ بحیرۂ روم میں آنے والے جہازوں کو لوٹا کرتے تھے۔ 1800ء تک تقریباً پورے علاقہ نے آزادی حاصل کر لی۔ فرانس نے 1830ء میں الجزائر کا ساحلی علاقہ ہتھیا لیا۔ عبدالقادر کی سرکردگی میں پہاڑی علاقوں میں مزاحمت جاری رہی لیکن دھیرے دھیرے ختم ہو گئی ۔ دوسرے مقبوضات کی طرح الجزائر کے استحصال کا بھی فرانسیسی سامراج نے پورا پورا بندوبست کر لیا۔ تمباکو اور انگور کی کاشت کا علاقہ وسیع کیا، کئی بندرگاہیں قائم کیں، ریلوے لائنیں بچھائیں اور سڑکیں تعمیر کیں۔ 1950ء میں صحارا میں تیل نکل آیا جس سے فرانس کی دولت میں مزید اضافہ ہوا۔ بہت سے فرانسیسی یہاں آ کر بسنے لگے۔
آزادی کے وقت تک کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد فرانسیسی تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانہ میں جب اتحادیوں نے یورپ کو نازیوں سے آزاد کروانے کے لیے حملہ کی تیاری شروع کی تو الجزائر میں اتحادیوں نے اپنی فوجی کمان قائم کی۔ چارلس ڈی گال کی عارضی حکومت کا بھی یہ صدر مقام تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب تمام محکوم ملکوں میں آزادی کی لہر پھوٹ پڑی تو الجزائر اس سے نہ بچ سکتا تھا۔ شروع میں یہاں کے باشندوں نے سفید فاموں کے برابر شہری اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کیا تو انہیں سختی سے کچل دیا گیا۔ چنانچہ نومبر 1954ء میں قومی محاذ آزادی (ایف ایل این) قائم ہوا اور اس نے پورے ملک میں زبردست مسلح جنگ شروع کر دی۔
الجزائر میں سفید فاموں کے ایک فوجی گروہ نے چند برس بعد اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آزادی بلکہ خود مختاری تک کی مخالفت شروع کی۔ یہاں کے انقلابیوں نے عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ سرحد پر تیونس میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کر دیا اور سوویت یونین ، سوشلسٹ ملکوں ، آزاد افریقی اور ایشیائی ملکوں کی مدد سے باقاعدہ فوج تیار کی۔ آزادی کی یہ لڑائی بڑی خونیں تھی اور بڑے پیمانے پر لڑی گئی۔ تقریباً 10 لاکھ الجزائری باشندوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ سفید فام فوجیوں نے ظلم و تشدد کی انتہا کی۔ آخر کار فرانس کو آزادی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔