ترکی اور پاکستان یوں تو ہر دور میں ایک دوسرے کے قابل اعتماد دوست رہے ہیں تاہم رجب طیب اردوان کے دور حکومت میں پاک ترک تعلقات نئی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں۔ طیب اردوان عالم اسلام کے مسائل کے حوالے سے بھی ایک دردمند اور صاحب بصیرت رہنما کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز ہونے والے ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا خصوصاً مسلمان عوام کی خصوصی دلچسپی کا محور رہے۔ سپریم الیکشن کمیٹی کے سربراہ کی جانب سے غیر حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ رجب طیب اردوان نے تقریباً 53 فی صد ووٹ لے کر پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب واضح اکثریت سے جیت لیا ہے۔
ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب تقریبا 90 فی صد رہا۔ صدر اردوان کی عوامی مقبولیت کا تاریخ ساز مظاہرہ دو سال پہلے ان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی کوشش کی ناکامی کی شکل میں ہو چکا ہے جب ان کی اپیل پر ملک بھر میں لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ یہ مقبولیت کسی لیڈر کو اسی وقت ملتی ہے جب وہ مسائل کے حل کے لیے فی الواقع اپنا خون پسینہ ایک کر دے۔ صدر اردوان نے اپنے ملک کو نہ صرف بدترین معاشی بدحالی سے نجات دلائی بلکہ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے دوسرے اہم شعبوں میں ترقی پر بھی بھرپور توجہ دی جس کے باعث آج جی 20 ملکوں میں اس کی شرح ترقی دوسرے اور او ای سی ڈی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
اردوان نے اقتدار سنبھالا تو ترکی اپنی دفاعی صنعت کی ضروریات کا محض بیس فی صد خود پیدا کرتا تھا لیکن اب یہ شرح 65 فی صد تک جا پہنچی ہے۔ تاہم آزادی اظہار کے حوالے سے بعض حلقے صدر ان سے سخت شکایات رکھتے ہیں لیکن امید کی جانی چاہیے کہ جمہوری عمل کے ذریعے حکومت پر مزید مضبوط گرفت کے بعد وہ اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے عمل کو زیادہ سرگرمی سے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کے حوالے سے شکایات دور کرنے پر بھی توجہ دیں گے۔