فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی چند دن قبل پریس کانفرنس کے دوران جب سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار پر بات ہوئی تو وہاں موجود صحافیوں کو باقاعدہ ایک چارٹ کے ذریعے دکھایا گیا کہ کیسے ایک نیٹ ورک کے ذریعے ریاست مخالف اور دفاعی افواج کے خلاف باتوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسی ریاست مخالف اور افواج مخالف باتیں کرنے والوں کو شاباشی بھی دی جاتی ہے۔ جہاں تک جنرل آصف غفور نے زبانی کلامی بات کی اُس پر تو اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش میں شامل ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کو ذمہ دار بنانےکی بہت ضرورت ہے۔ لیکن مجھے اعتراض اُس چارٹ پر ہے جو پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو دیکھایا گیا اور الزام لگایا گیا کہ چارٹ کے ذریعے دکھائے جانے والے افراد اپنے ٹیوٹر اکاونٹ کے ذریعے ریاست مخالف اور افواج مخالف مواد پھیلاتے ہیں۔ اعتراض کی بات یہ ہے کہ اس چارٹ کے ذریعے پاکستان کے کئی صحافیوں کی تصویریں دکھائی گئیں اور جیو ٹی وی چینلز کا بھی ٹیوٹرہینڈل دکھایا گیا۔ جن صحافیوں کو اس چارٹ کے ذریعے ایک ریاست مخالف نیٹ ورک کا حصہ بنا کر دکھایا گیا اُن میں چند ایک صحافی میرے ساتھ نیوز کے انویسٹیگیشن سیل میں کام کرتے ہیں جن میں عمر چیمہ، وسیم عباسی اور فخر درانی شامل ہیں۔
سوچ اورنظریہ کا اختلاف اپنی جگہ لیکن میرے لیے یہ بات کسی طور بھی قابل قبول نہیں کہ اس طرح کسی بھی صحافی کو منفی انداز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فوجی ترجمان کی طرف سے پیش کیا جائے۔ مجھے ان سمیت کئی صحافیوں کے بہت سے ٹیوٹس (یعنی سوشل میڈیا کے پیغامات) یا ری ٹیوٹس سے اختلاف رہتا ہے لیکن اُن میں سے کسی کی بھی حب الوطنی پر مجھے شک نہیں۔ بلکہ یہ سب پاکستان کے لیے درد دل رکھتے ہیں اور اپنے ارد گرد حالات دیکھ کر بعض اوقات سخت لہجہ بھی اختیار کر لیتے ہیں یا کبھی کبھار متنازع بات بھی کر دیتے ہیں لیکن انہیں ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ بنا کر پیش کرنا جو ریاست مخالف یا افواج مخالف ہو قابل مذمت بھی ہے اور قابل افسوس بھی۔
اگر ان میں سے کوئی واقعی کسی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہا ہے یا کسی غیر ملکی طاقت کا آلہ کار بنا ہوا ہے اور اس کے ترجمان فوج کے پاس ثبوت ہیں تو پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ میں حکومت اور ریاست کا یہ اختیار بھی مانتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی اپنے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے پاکستان کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور آزادی رائے کو غلط استعمال کیا تو پھر بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کچھ لوگوں کی تصویریں چارٹ پر لگا کر اُنہیں دنیا کے سامنے ایسے رنگ میں پیش کیا جائے جیسے خدانخواستہ وہ غدار ہوں یا ملک دشمن۔
میری جنرل غفور سے درخواست ہو گی کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں کیوں کہ یہ نہ صرف ایک صحافتی ادارہ اور کئی صحافیوں اور کچھ دوسروں کی repute کا معاملہ ہے بلکہ منفی انداز میں پیش کیے جانے پر متعلقہ افراد اور اُن کے خاندانوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ہاں اگر واقعی کوئی ثبوت ہے تو پھر میں کہوں گا کہ متعلقہ افراد کے خلاف باقاعدہ ایکشن لیا جائے۔ غداری غداری کا کھیل یہاں پہلے ہی بہت کھیلا گیا۔ محض الزامات کی بنیاد، اختلاف رائے حتی کہ کسی غلط بیان یا پیغام کی وجہ سے دوسرے کی حب وطنی کو ہی مشکوک بنا دینے کے رویےّ کو ہمیں بدلنا ہو گا۔ جو غدار ہے یا ریاست مخالف اُسے پکڑا جانا چاہیے، ثبوت کے ساتھ اُس کو عدالت کے ذریعے سخت سے سخت سزا بھی دلوانی چاہیے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو غداری کا الزام لگانے والوں سے جواب طلب کیا جانا چاہیے۔ ہمارا ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے کہ کبھی کسی ایک سیاسی پارٹی تو کبھی کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہمنا کو غدار کہا گیا، وہی ’’غدار‘‘ پھر اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی فائز رہے۔ عمومی طورپر غداری کے ان الزامات کا نشانہ سول حکمراں، سیاستدان اور صحافی رہے۔ اس کھیل کو اب بند ہونا چاہیے کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ حب وطنی کے ہم اپنے اپنے دائرہ کھینچ لیں اور اپنے علاوہ ہر ایک کو اس دائرہ سے باہر نکالنے کی ریس میں پڑ جائیں۔